featured

ملاکی اذاں اورہے


دوٹوک.......................................................قاسم سید

اترپردیش انتخابات کے نتائج نے بہت کچھ بدل کررکھ دیا ۔ ہمارا یقین یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑی افتاد آتی ہے،قدرتی آفت کاشکار ہوتے ہیں تودراصل یہ ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے جب مرکز میں مودی سرکار نےاقتدار سنبھالا تو بھی اسے بداعمالیوں کانتیجہ سمجھا گیا ۔اس کے ڈھائی سال بعد یوپی کے الیکشن ہوئے اور بی جے پی غیرمتوقع طورپرفاتح بن کر ابھری اس پر مستزادیوگی آدتیہ ناتھ کو باگ ڈور سونپی گئی تو اس کو بداعمالیوں کا ثمر بتایاگیا۔ اس کا دوسرامطلب یہ نکلتا ہے کہ ڈھائی سال کے وقفہ میں بداعمالیوں کا سنگین سلسلہ جاری رہا اور ان سے دور رہنے اور توبہ واستغفار کی توفیق نہیں ملی اور آئندہ جو بھی بھیانک افتاد آئے گی وہ بھی سوفیصد بداعمالیوں کاہی نتیجہ ہوگا یعنی ہمیں اپنی بداعمالیوں پر اصرار ہے اور رہے گا۔ اپنا عمل بدلنے کی کوشش نہیں کریں گےاور تقدیر کابہانہ بناکر عمل کی زحمت سے فارغ کرتے رہیں گے۔ رویوں میں موجود ضد ،ہٹ دھرمی ،جارحیت ،سفاکیت اور کٹرپن ہرموقع پراپنی بے رحمانہ جبلت کااظہارکرتا رہتا ہے ، حالات کی سنگینی کو سمجھنے اور اس کے مطابق حکمت عملی اختیار کرنے کی تکلیف گواراکرنے کا وقت شاید ابھی نہیں آیا ہے۔ گرمی گفتار کے ساتھ سردی کردار نے کسی لائق نہیں چھوڑا کروٹ بدل کر پھرخراٹے لینے کی عادت چھوڑنے کے لئے قطعی تیارنہیں ۔ صرف قنوت نازلہ پڑھنے اور دافع شردعائوں کاورد کرنے سے مصائب وآلام کے کارواںگزر جاتے تو اس کی سب سے زیادہ مستحق ذات گرامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی ( ہمارا سب کچھ آپؐ پر قربان ہو)۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ شعب ابی طالب سے لے کر فتح مکہ تک آپ ؐ کی زندگی کا ہر پہلو عمل سے عبارت ہے اور اصولی موقف پر جمے رہنے کا اظہار ہے ۔ پائے مقدس کے جوتے شہدوں کی سنگ باری سے خون سے بھرگئے مگر آپؐکی زبان مبارک سے کلمہ اُف تک نہیں نکلا اورناہی ناپاک کام کرنے والوں کے لئے بددعاکی  دین کاپیغا م پہنچانے میں بے پناہ صعوبتیں برداشت کیں حتیٰ کہ وطن سے نکال دیاگیا۔پہلی لڑائی ہوئی تو تمام وسائل جمع کرکے میدان جنگ میں لے آئے پھر دست دعا درازکئے اور سب کچھ خدا کے حوالے کردیا ہے ۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جو ہمارے بے حسی پرمبنی رویہ کو شرمسار کرسکتی ہیں لیکن سبق لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ہمارا رویہ خود اپنوں کے ساتھ کیسا شفقت بھرا اور مواخاۃ کا ہے،اس پر روشنی ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اپنی ہر غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا اور ہرمعاملہ میں سازش کے پہلوتلاش کرناغلامانہ زندگی کے بنیادی او صاف ہیں۔ اللہ کے درکے علاوہ ہر چوکھٹ پر حاضری اورسجدہ ریزی کا جنون بھرا شوق کہاں لے کر جائےگا کہنامشکل ہے۔
قوموں کی زندگی دھوپ چھائوں کی طرح ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے اور زوال کو عروج یہ قانون قدرت ہے مگر اس کی کچھ شرائط ہیں سربلندی غیر مشروط نہیں۔ اس کے لیے زبردست محنت اور قربانی دینی پڑتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے مخصوص معاہدہ نہیں کیاہے ،وہ اسی کو اقتدار و طاقت کی کرسی سونپے گاجو ملت اس کے تقاضوں کو پورا کرے گی، اس کی شرائط کو مانے گی ۔جب بغداد میں بداعمالیوں کا گھڑا بھر گیا علما کی خانہ جنگی اور فروعی فقہی مسائل پرایک دوسرے کا سرتوڑنے اور مناظرہ بازی حد سے آگے بڑھ گئی ، عام آبادی ہر طرح کے فسق وفجور میں مبتلا ہوگئی تو اللہ نے بغداد کا دھاراموڑدیا۔ چنگیز خاں کی اولادکے ہاتھوں جو مارے گئے وہ سب کلمہ گو تھے ۔ جن کے سرکاٹ کر میناربنائے گئے فرزندان توحید کے ہی سرتھے جس خلیفہ کو نمدےمیں لپیٹ کر ہاتھی کے پائوں تلے کچلاگیاوہ خلیفہ المسلمین کالقب اختیار کئے ہوئے تھا ۔پھر خداوند قدوس نے چنگیز خان کی اولاد سے ہی اپنے دین کا کام لے لیا جس کو اقبال نے کہاتھا :’’ پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے‘‘۔سرکاٹنے والے سروں کا تحفظ کرنے والے بن گئے۔ جو اللہ کی طے کردہ شرائط اورضوابط کو مانتاہے صدق دلی سے عہد کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ پکڑتا ہے سماج کے کمزور ترین طبقہ کو دنیاچلانے کے لیے منتخب کرلیتا ہے اور کریمی لیئر کے لوگ ان کے ماتحت بنادیا جاتے ہیں صرف انتم الاعلون یاد رکھنے سے کام نہیں چلتابلکہ ان کنتم مومنین کے تقاضوں اور مطالبوں پرعہد وپیما کرنےکے ساتھ عملی طورپر ثبوت دیناہوتاہے ۔ یہ معاہدہ نہ پہلے غیر مشروط تھا نہ آج ہے۔ جب ہزار سجدوں سے نجات پانے کے لیے گراں سمجھنے جانے والے ایک سجدہ کی عظمت کو نہیں سمجھاجائے گاوہ مدد جس کا وعدہ قرآن میں جگہ جگہ کیاگیا ہےآنے والی نہیں ہے۔ قدرت کا عذاب تو نوح کے بیٹے کوبھی نہیں بخشتا ۔ خدا کے ڈرکودل سے نکال کر مودی اور یوگی جیسےناموںکاڈراورخوف ان کو لرزا تارہے گا۔ نام بدلتے رہیں گے مگر خوف ودہشت کی نفسیات سے نجات نہیں ملنے والی۔
دراصل سیاسی طورپربے شعور بھیڑ کو مہذب بنانے اور اونچ نیچ بتانے والے ہی راستہ کھوبیٹھے ہیں ۔ ہم اپنے امراض کی تشخیص سے ڈرتے ہیں اس لیے کہ جب بھی ایماندارانہ تشخیص وذاتی  احتساب کریںگےتوورغلانے اور غلط کاموںپر اکسانے کاقصوروار صرف شیطان رجیم ہی نہیں ہوگا۔ ہماری خود غرضیاں، وقتی مفاد کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے کی ہوس اورخدائی احکامات سے دوری وبیزاری کابھی اعتراف کرنے پرمجبور ہوں گے ۔ وہیں اسے المیہ ہی کہاجائے گاکہ بھیڑوں کے چرواہوں نے شیر سے خفیہ مفاہمت کرلی۔ وہ ریوڑ کو ادھر سے ادھر ہانکتے رہے اور ہمارے اعتماد کا خون کرتے رہے جب چرواہے کی نیت میں فتورآجائے اور اپنی ذمہ داری میں کوتاہی برتنے لگے تو پھر بھیڑوں کی خیرنہیں رہتی ۔ یہ چرواہے قصائی کے ہاتھوں فروخت کرتے رہے اور بھیڑے احتجاج کی ہلکی سی منحنی آواز نکال کر خاموش ہوگئیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی رونے ،ٹسوئے بہانے ،ایک دوسرے کی غلطیاں بتانے ،ہر معاملہ میں سازش کاپہلو تلاشنے اور مشیت الٰہی کہہ کر پرانے ڈھرے پر چلتے رہیں گے یا اسی ملبہ میں سے تعمیر کا عزم لے کراٹھیں گے ۔ایسا پہلی بارنہیں ہواہے کہ اہل اسلام پرفکری ونظریاتی یلغار کے ساتھ ذاتی تشخص اور وجود کو بنانے کی کثیر پہلو حکمت عملی کے حصار میں خود کو گھراہوا محسوس کررہے ہوں۔بغداد سے لے کر اسپین تک اور خود ہندوستان میں انگریزوں کے عہدمیںکیاکچھ نہیں ہوا مگربفضل تعالیٰ ایسی نابغۂ روزگار شخصیات درمیان تھیں جن پراعتماد وبھروسہ تھا وہ جو کہتے تھے اس پر لبیک کہاجاتا ۔
 اس وقت بھی میر جعفر اور میر صادق کی طویل فہرست تھی معاشرہ کبھی یک رنگی نہیں رہااگر کلمہ حق کہنے والے ہیں تو اس کا رد کرنے والے بھی موجود رہے ہیںاگر ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ ہیں تو میر صادق اور میر جعفر کے کردار بھی ہیں۔ گاندھی ہیں تو گوڈسے بھی ہیں خیر وشر کا معرکہ ہر دور میں رہا ہے۔ آدم کی تخلیق ہوئی تو شیطان بھی سامنے آگیا۔ کوئی بھی فوج صرف وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہارتی ،بارہاایسے مراحل نکلے ہیں جب چھوٹے گروہوںنے بڑے گروہوں پر غلبہ حاصل کیا ہے جس کی طرف قرآن نے بھی اشارہ کیا جنگ حوصلہ ہارنے سے خوف دہشت کے دلوں میں گھونسلا بنانے سے بازی جاتی ہے ۔ واویلا اور ہائے توبہ مچانے والے پہلے تو میدان میں جانے سے گریز کرتے ہیں اورپھر دبائو میں چلے بھی گئے تو عبداللہ ابن ابی کی طرح درمیان میں ہی اپنے حامیوں کے ساتھ واپس آجاتے ہیں۔ یہ عناصر مختلف ناموں سے ہرزمانہ میں موجود رہےہیں اور اس وقت تک چوہے کی طرح سماجی ڈھانچہ کو کترتے ہیں جب تک ان کی شناخت نہیںہوجاتی۔ ہمیںایسے عناصر سے ہمہ وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
اب تک ہم غلامان سیکولرزم کے طورپر اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں نہ جانے کیوں سیکولرزم اپنی جاہ وحشمت اور بلاشرکت غیر نے اقتدار کے باوجود لگاتار کمزور ہوتا گیا اور ہندتو نظریہ پھلتا پھولتا رہا حتی کہ اب صدارتی کرسی کے لیے بھی نام سوچاجانے لگا۔ کیاایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے رویہ پرنظر ثانی کریں اور خدا کی غلامی کی طرف لوٹیں ہمیں تو نیکی پھیلانے اور برائیاں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانی آبادی سے منتخب کیاتھا تو کیااس فریضہ سے غفلت اور خداسے نافرمانی اس کے رسول ؐکے احکامات کو اپنی زندگی سے بے دخل کرنے کی سزاتو نہیں مل رہی ہے اور اگربداعمالیوں کا یہی مفہوم ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف مراجعت کیوں نہیں ہوتی۔ دین کے نام پردنیابنانے اور اپنی سلطنت کو وسیع تر کرنے میں دن ورات مصروف یہ قبیلہ تک ادھر ادھر گلیوں میں گھومتا رہے گا نامرادیوں اور بدبختیوں کا سفرختم نہیں ہوگا ۔


0 comments:

featured

ڈرناتوضروری ہے



 ممتاز میر 



یو پی کا دنگل ختم ہو گیا اور غیر متوقع طور پر بی جے پی تین چوتھائی اکثریت کے ساتھ اتر پردیش کی حکمراں قرار پائی ہے ۔دانشوروں کے تمام ہی اندازے زبردست فلاپ ثابت ہوئے ہیں ۔ہم خود بھی ان میں سے ایک ہیں مگر ہم دانشور نہیں ہمارے نزدیک تین چوتھائی اکثریت حاصل کرنا اتنا اہم نہیں جتنااہم یوگی آدیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے یہ بڑی معنی خیز تقرری ہے۔اب اردو اخبارات میں جو تجزیے تبصرے شائع ہو رہے ہیں وہ قومی دانشوروں کی کھسیاہٹ کے شاہکار ہیں ۔ہر تبصرے تجزیے کا جو مرکزی خیال ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو خوف کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔اس قسم کے حالات امت مسلمہ پر اس سے پہلے بھی آتے رہے ہیں اور وہ ہر بار اس سے بخوبی نبرد آزما ہوئی ہے اور ابھری ہے ۔مگر کتنے عرصے میں ابھری ہے کیسے ابھری اور کہاں ابھری ہے یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں؟تقریباً ہر دانشور صحافی مضمون نگار یہی راگ الاپ رہا ہے کہ قوم کو مایوس ہراساں یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب کوئی بڑا خوفزدہ ہوتا ہے تو وہ یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ خوفزدہ ہو گیا ہے کیونکہ اس کا بڑا پن اس امر میں مانع ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوف کا اظہار کرے مگر catharisis کے لئے خوف کا اظہار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اسلئے اپنے خوف کا اظہار چھوٹوں کا کمزوروں کا نام لے کر کیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ کمزوریہ غریب اس قسم کی باتوں کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ کانگریس ہو یا بی جے پی یا بھارت کی اور کوئی سیاسی پارٹی ،ہر ایک کے ظلم کا نشانہ یہ عام لوگ ہی بنتے ہیں۔ابھی چند دنوں پہلے ایک اخبار میں ایک محترمہ کا مضمون پڑھا ان کی ابتدا ہی اس قسم کے اعلان پر مبنی تھی کہ میں تو بالکل نہیں ڈری۔پھر جو طویل مضمون تھا اس کے بین السطور میں ان کے لاشعور یا تحت الشعور میں بیٹھا خوف جھلک رہا تھا ۔ دوسرے صاحب ایک دوسرے اخبار میں اپنے مضمون میںیو پی کے انتخابی نتائج کا یوں مرثیہ پڑھتے ہیں۔جذباتی تقریریں،سوشل میڈیا پوسٹ ،قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں اور اردو میڈیا کے شور شرابے نے تقطیب معکوسcounter polarisation کا کام کیا اور درمیانی ووٹر بھی پلٹ کر بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے۔ایک تیسرے صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود شمسان و قبرستان اور عید دیوالی کی بات کرکے ترقی کے ایجنڈے کو فرقہ پرستی کا تڑکا لگا دیا۔یہ بڑی سادہ لوحی ہے ۔اب تک وزیر اعظم نے اپنے آفس میں بیٹھ کر فسادی دستوں کی رہنمائی کی تھی ۔کسی نے ان کا کیا بگاڑ لیا ۔ہمیں لگتا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب وہ سنگھ کے فسادی دستوں کی میدان میں نکل کر قیادت کریں گے۔
ایسے ہی اور بھی مضامین مختلف اخبارات میں نظر سے گزرے۔ان مضامین میں مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود بہت سارے مفروضے دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً یہ مفروضہ کہ ۷۰سال پہلے ہمارے آئین کے معماروں نے جس سیکولرزم کی بات کی تھی وہ آج ۷۰ سال بعد بھی ہمارے ملک کی فضا میں کہیں موجود ہے ۔جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں ہمارے ملک کے آئین میں موجود سیکولرز م کو عملاً پوری سنجیدگی کے ساتھ ایک دن بھی برتا نہ جا سکا ۔خود ملک کے پہلے وزیر اعظم بھارتی سیکولرزم کے چمپیئن پنڈت جواہر لال نہرو نے پہلی آزمائش آتے ہی سیکولرزم کو طاق پر رکھ دیا تھا ورنہ بابری مسجد کا مسئلہ کھڑا نہ ہوتا ۔پھر یہ ایک مفروضہ ہے کہ کانگریس پارٹی سیکولر پارٹی ہے ۔اور ہمارے بھولے بھالے اسلاف کانگریس کو سیکولرزم کاٹھیکہ دے کراپنے فرائض سے آنکھیں موند لی تھیں۔ہمیں نہیں معلوم کانگریس نے اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت کب دیا تھا ۔اگر ہٹلر انتخابات جیت کر جرمنی کا چانسلر بننے کے باوجود ڈکٹیٹر ہو سکتا ہے تو پھر کانگریس میں چند مفاد پرست مسلمانوں کے وجود کے باوجود اسے فرقہ پرست کیوں نہیں سمجھا جا سکتا جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ۹۰ فی صدی مسائل کانگریس ہی کی دین ہیں۔
ایک اور مفروضہ ہے اور یہ مفروضہ بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے یہ ہے کہ وطن عزیز میں امت مسلمہ نامی کوئی شئے پائی جاتی ہے۔جو کچھ بھی ہے وہ ایک منتشر بھیڑ ہے بلکہ مختلف گروہ کی بھیڑ ہے ۔کوئی اپنے آپ کو سنی کہتا ہے کوئی شیعہ۔ کوئی حنفی کہتا ہے کوئی شافعی۔کوئی اپنے آپ کومقلد کہتا ہے اور کوئی غیر مقلد ۔اس طرح ان کے سینکڑوں گروہ اور اور ہر ایک کے اپنے گروہی مفادات ہیں ۔ہمارے نزدیک اس بھیڑ کو سو سال پہلے امت مسلمہ کے منصب سے معزول کیا جا چکا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اب اللہ نے ان کی طرف سے نظریں پھیر لی ہیں۔اب نئی امت مسلمہ کہیں اور تیار ہو رہی ہے ۔جب معتدبہ تعداد ہو جائے گی اور وہ غزوہء بدر سے پہلے کے صحابہ کرام کی تمام آزمائشوں میں پورے اتر جائیں گے تو اللہ ان کی مدد کے لئے ’’گردوں سے فرشتے ‘‘اتارے گا اور وہ اسلام کی نشاۃالثانیہ کا کام کریں گے ۔اب ہم سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ہم اپنی ضلالت میں جتنا آگے بڑھ چکے ہیں اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آزادی سے کچھ پہلے مولانا مودودیؒ نے غالباًاپریل ۱۹۴۷میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں ان لوگوں کو جوتقسیم وطن میں ہندوستان میں رہ جانے کے خواہشمند تھے ،کچھ ہدایات دی تھیں۔ان میں سے ایک ہدایت جو ارکان جماعت کے توسط سے تمام مسلمانوں کے لئے تھی وہ یہ کہ اب ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے آپ کو سیاسی کشمکش سے الگ کرلینا چاہئے اور من حیث القوم دعوت کا کام انجام دینا چاہئے ۔مگر مولانا کی اس بات پر عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے علماو رہنماؤں نے توجہ نہ دی ۔اسلئے کبھی کبھی ہمارے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ علم دین کا ہونا ایک الگ بات ہے اور بصیرت کا ہونا دوسری بات ۔جو بصیرت مولانا مودودیؒ یا علامہ اقبالؒ کو حاصل تھی وہ ہمارے بڑے بڑے علماکرام کے یہاں مفقود تھی۔مولانا مودودیؒ کی مذکورہ بات پر غور و فکر تو کجاالٹا یہ کہہ کر ان کی کھلی اڑا ئی گئی کہ ’’بھارت ‘‘ میں ہمیں دستوری ضمانتیں اور آئینی تحفظات میسر ہونگے ۔اس لالی پاپ پر مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہااگر آپ کی قوم طاقتور ہے تو اسے آئینی تحفظات اور دستوری ضمانتوں کی ضرورت نہیں اور اگر آپ کی قوم کمزور ہے تو اس سے اس کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں۔یہ قدرت کی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج بھی ان علماء کے بے بصیرت چمچے مولانامودودیؒ کو مطعون کرنے سے نہیں چوکتے۔مگر خود ان علماء کرام کی اولاد کبھی کبھی اپنے مضامین میں خطبات میں مولانا مودودی ؒ کی باتوں کی توثیق کرتی ہیں کہ کرنے کا کام یہی تھا۔
ہم نے ۷۰ سال سیاسی کشمکش میں گزار دیئے اور ہر نیا دن ہمیں زوال کی ایک نئی صبح دکھاتا رہا ۔ہمارے دشمنوں نے ہمیں اپنے زوال کی گہرائی دکھانے کے مختلف مواقع پر مختلف کمیشن بٹھائے ،مگر ہمیں نہیں جاگنا تھا نہیں جاگے ۔پھر آخر میں سچر کمیشن بنا کر اس کی رپورٹ کو خوب خوب شہرت دی گئی اسلئے نہیں کہ ہم جاگ جائیں بلکہ اسلئے کہ ماضی کے حکمرانوں کو ذلیل کرنا تھا اور ہم نے ذلالت کی حد کردی۔ بجائے اس کے کہ ہم خود کوئی حکمت عملی بناتے ۔ہمارا خون گرم ہوتا اپنی بے عملی کی بنا پر جھنجلاتے،کڑھتے ۔ہم نے اپنی تمام امیدیں انھیں سے وابستہ رکھیں جنھوں نے ہمیں اس حال کو پہونچایا تھا ۔
دوسری طرف آر ایس ایس کو دیکھئے۔علامہ اقبال نے کہا تھا ۔مسلم آئین ہوا کافر تو ملے حور و قصور۔خود اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم جس چیز کے لئے جد وجہد کروگے وہ تم کو ملے گی۔تم حلال چاہو گے حلال ملے گا حرام چاہوگے حرام ملے گا ۔آر ایس ایس ۱۹۲۵ سے اس بات کے لئے ’’جہاد ‘‘ کر رہی ہے کہ وہ اس ملک پر بلا شرکت غیرے حکمراں ہو جائے ۔نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے تمام غیر ہندوؤں کو غلام بنا کر رکھ دیا جائے اور اس جہاد میں انھوں نے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا اور آج وہ اپنی جدو جہد میں کامیاب ہیں ۔یہ اللہ کی سنت کے مطابق ہے۔اللہ صرف مسلمانوں کا تھوڑی ہے۔وہ تو سب کا خدا ہے ۔ہر شخص کو اس کی جد وجہد کے مطابق پھل عطا کرتا ہے۔مسلمان آیت کریمہ کا ورد کرتے رہتے ہیں ۔ویسا ان کو پھل ملتا ہے ۔آر ایس ایس نے جیسی اور جتنی جدو جہد کی ہے اس کے مطابق پھل مل رہا ہے ۔مسلمان اپنے حالات کے صد فی صد مستحق ہیں ۔اپنی خامیوں کا ،کوتاہیوں کا بدعملیوں کا یہ انجام انھیں ڈرائے گا ہی۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بڑا ڈر بڑے لوگوں کو لگے گا۔وہ لاکھ انکار کریں حقیقت یہی ہے۔
ہمارے نزدیک کرنے کا کام آج بھی وہی ہے جو ۷۰؍۷۲ سال پہلے مولانا مودودی بتا گئے ہیں اس طرح کبھی نہ کبھی ملت منزل مقصود تک پہونچ ہی جائے گی ورنہ بصورت دیگر ممکن ہے کہ اسپین کی طرح یہاں سے بھی ہمارانام و نشان مٹ جائے۔وہ لوگ جنھیں مولانا مودودیؒ کے نام سے چڑ ہے ان کے لئے عرض ہے کہ یہ مولانا مودودیؒ کا خانہ ساز نظریہ نہیں ہے ۔حضور ﷺ نے فرمایا تھا ۔میری امت کی دوبارہ اصلاح میرے طریقے پر چل کر ہی ہو سکے گی ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ فکر خود اس جماعت کے ذہن سے نکل چکی ہے جسے خود مولانا نے قائم فرمایاتھا۔دوسری طرف ہمارے تمام علما کرام یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ ہم مکی زندگی میں جی رہے ہیں۔
آخری بات۔قہر درویش بر جان درویش ۔یہ بات ماننا پڑے گی کہ وطن عزیز میں ۳۰؍۴۰ فی صد ایسے لوگ بھی رہتے ہیں(چاہے ہندو کہہ لیں یا غیر مسلم )جنھیں ترقی کے ایجنڈے سے کوئی سروکار نہیں ۔اچھے دنوں کے جھوٹے وعدوں سے انھیں کچھ لینادینا نہیں۔سب کا ساتھ سب کا وکاس اگر ہوائی باتیں ہیں توان کی بلا سے ۔نوٹ بندی کے ڈرامے میں سو سوا سو لوگ مرگئے تو ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔مالیہ پیسے لے کر بھاگ گیا یا مدھیہ پردیش بی جے پی کی صفوں میں آئی ایس آئی ایجنٹ گھسے ہوئے تھے ،تو یہ سب دیش بھکتی کے کام تھے۔یہ سوچنا بہرحال انڈین تھنک ٹیکس کا کام ہیکہ ایسے لوگ ملک کے لئے اثاثہ یا بوجھ ہیں جو ملک کے حقیقی مسائل سے آنکھیں موند کر فرقہ پرستی جیسی باتوں کی بنیاد پر اپنے حکمراں منتخب کرتے ہیں ۔
07697376137 


1 comments:

featured

جمہوری تہذیب سے نا آشنا مسلمان !‎

عمر فراہی  ای میل : umarfarrahi@gmail.com

کل رات اچانک خواب میں یوگی آدیتیہ ناتھ سے ملاقات ہوگئی - وہ ایسے خندہ پیشانی سے ملا کہ جیسےلگتا ہی نہیں تھا کہ یوپی کا وزیر اعلیٰ ہے - پہلے تو ہم نے مبارکباد دی اور پھر گفتگو شروع ہوئی - کہہ رہا تھا کہ بھائی مسلمانوں کو میرے وزیر اعلیٰ بننے پر اعتراض کیوں ہے ؟ جب مختار انصاری جیل سے الیکشن لڑ سکتا ہے تو میں کیوں نہیں ! جب میں الیکشن لڑ سکتا ہوں تو وزیر اعلیٰ کیوں نہی بن سکتا ؟ کمال کی بات تو یہ بھی ہے کہ میں نے یوپی اسمبلی  کے الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیا پھر بھی آج اس ریاست کا وزیر اعلیٰ ہوں - شاید یہ بھی تہذیب جمہوریت کا خوشنما پہلو ہے جہاں جنگ کے بغیر بھی اقتدار حاصل کرنے کی تمیز آنی چاہئے - آخر مسلمان کب جمہوری تہذیب سے آشنا ہونگے ...؟ آخر وہ کب تک محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کو ڈھوتے رہیں گے ؟ آخر وہ مولانا آزاد کےقومی یکجہتی کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے قومی دھارے میں کیوں نہیں شامل ہوتے - کیا مولانا نے آپ لوگوں کو لوک تنتر کے اصول نہیں سمجھائے....؟ میں نے کہا تمہارا مطلب کیا ہے - اس نے کہا تم مسلمان کانگریس کو ووٹ دے سکتے ہو تو بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے - میں نے کہا تم لوگ فرقہ پرست ہو - اس نے کہا فرقہ پرستی کا مطلب کیا ہے ؟ کیا تم فرقہ پرستی کا مطلب سمجھتے ہو...؟ فرقہ پرستی کا مطلب ہوتا ہے اپنے مذہب اور عقیدے سے محبت اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا - کیا تم مسلمان ایسا نہیں کرتے - کیا تم ہمیں کافر نہیں کہتے - کیا ذاکر نائیک نے بہت سارے ہندوؤں کو اپنے مذہب میں داخل ہونے کی ترغیب نہیں دی - میں نے کہا لیکن جب تم لوگ مسلمانوں کو بندے ماترم اور سوریہ نمسکار کیلئے اصرار کرتے ہو تو ہمارے عقیدے کو ٹھیس پہنچتی ہے - اس نے کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کون تھے - میں نے کہا مولانا ابوالکلام آزاد - اس نے کہا کہ کیا بچوں کےاسکولی نصاب میں یہ تعلیم ان کے دور سے ہی نہیں دی جارہی ہے کہ انسان کی پیدائش آدم و حوا سے نہیں  بندر کی نسل سے ہے - کیا یہ نظریہ اسلام کے نظریہ توحید سے متصادم نہی ہے - کیا انہوں نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ ہمارے اس لوک تنتر میں شراب بنانے بیچنے اور پینے کی آزادی ہوگی - کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ زناکاری ، شراب نوشی اور سودخوری جسے اسلام میں گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے لوک تنتر میں تجارت کا حصہ قرار دی جاچکی ہیں - میں نے کہا کہ بات تو سچ ہے لیکن لوک تنتر میں یہ آزادی تو ہے کہ ہم چاہیں تو سود نہ کھائیں ہم چاہیں تو شراب نہ پیئیں اور بہت ساری برائیاں اختیاری ہیں - ہنسنے لگا بولا جو حکومت کے اختیار میں ہے اس کا فائدہ تم کیسے حاصل کرسکتے ہو - کیاتم ہماری پولس کو اپنے اوپر ظلم کرنے سے روک سکتے ہو - کیا تم مجھے یوپی کے مذبح خانے کو بند کرنےسے روک سکتے ہو - تمہارے اختیار میں تو وہ لوگ بھی نہیں ہیں جنھیں ساٹھ سالوں تک تم نے اقتدار سونپا - تم ہمیں فرقہ پرست کہتے ہو جبکہ میرٹھ ملیانہ بھیونڈی مالیگاؤں ممبئی اور بھاگل پور کے فساد کس کے دور میں ہوئے ...؟ بابری مسجد کا تالا کھلنے سے لیکر شیلانیاس اور عارضی مندر بننے تک مرکز میں کس کی حکومت تھی ....؟ 2004 سے 2014 تک کس کی حکومت تھی - اس دوران سیکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کس نے کروائی - کرکرے کو کس کی حکومت میں قتل کیا گیا - سچ تو یہ ہے کہ تم جنھیں سیکولر سمجھتے تھے وہ لوگ ہم سے زیادہ فرقہ پرست اور بدعنوان تھے - ان کا سیکولرزم تو ایک مکھوٹا تھا تاکہ وہ تمہیں ہم سے ڈرا کر اقتدار کا مزہ لیتے رہیں - میں نے کہا لیکن مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونس فریڈم میں کانگریس کے اس مکھوٹے کا ذکرکیوں نہیں کیا - ہنسنے لگا اور بولا یار تم مسلمان بھی کتنے بھولے اور بیوقوف ہو ساری باتیں لکھنے اور کہنے کی نہیں ہوتیں کچھ سمجھنے اور غور کرنے کیلئے بھی ہوتی ہیں - کیا آپ کو نہیں پتہ کہ جو کچھ انکشاف انہوں نے اپنی کتاب میں کیا بھی تو اس میں سے بھی تیس اہم صفحات کو شائع کرنے کیلئے یہ وصیت کردی کہ اسے تیس سال بعد شائع کیا جائے-مولانا ابوالکلام آزاد بہت ہی ذہین ، باشعور اور دور اندیش تھے وہ جانتے تھے کہ کچھ سوالوں اور ایک ایسی جدوجہد جس میں کہ وہ خود ناکام ہوچکے تھے اب اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے  مسلمان خود وقت کے ساتھ تلاش کر لیں گے - میں تھوڑی دیر کیلئے سوچ میں پڑ گیا کہ ایک فرقہ پرست لیڈر وزیر اعلیٰ بنتے ہی فلاسفی کی بات کرنے لگا ہے - شاید مولانا بھی غلط نہیں تھے -چونکہ ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی سیکولر قسم کے افراد کا ہی غلبہ تھا اس لیئے انہوں نے اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے بغیر کسی شرائط کے مسلمانوں کو سیکولر آئین کے حوالے کردیالیکن اقتدار اعلیٰ کی کرسی پر مودی اور آدیتیہ ناتھ جیسے کٹر ہندتو ذہنیت کےلوگوں کی تاج پوشی نے ان کی اس فکر کو بھی رد کردیا ہے کہ ہندوستان کبھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا - اچانک یوگی نے آواز دی کہ عمر میاں کس گہری سوچ میں گم  ہو - میں نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ بس یوں ہی ماضی کی یاد میں کھو گیا تھا اور مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ حقیقت میں وہ کیا تھے..؟ اس نے خود ہی جواب دیا کہ آپ لوگوں سے زیادہ ہم آپ کے قائدین کو جانتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں کہ انہوں نےکس طرح سیکولر آئین کے ذریعے ہی مودی جی اور میرے اس مقام تک پہنچنے کی راہ ہموار کی - مولانا بیک وقت بہت کچھ تھے - وہ سیاسیات کے ماہر مدبر عالم فلاسفر اور صوفی بھی تھے - شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جناح کی طرح جہاد کی بات نہیں کی - یہ ان کا صوفیانہ مزاج ہی تھا جو انہوں نے مسلمانوں کو عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے  سیکولر پارٹیوں سے وابستہ رہنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ ہندو مسلمانوں کو اپنے خلاف چیلنج نہ سمجھیں - انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان اگر ملک میں مساجد اور مدارس کے فروغ میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو یہی ان کیلئے  بہت بڑی جیت ہوگی - آپ لوگ فکر نہ کریں مودی جی یا میں خود بھی مولانا کی عزت کرتے ہیں ہم لوگ کبھی بھی اسپین اور برما کی طرح  آپ کی مساجد اور مدارس پر پابندی لگانے کی بات نہی کریں گے - ہم صرف یہ چاہیں گے کہ آپ کے مدارس اور مساجد سے مودودی ، اقبال اور جناح کی ذہنیت کے لوگ نہ پیدا ہوکر سرسید اور ابوالکلام جیسے ہی نیشنلسٹ لیڈر پیدا ہوں آور آپ لوگ ہر سال دھوم دھام سے ان کی سالگرہ وغیرہ مناکر خوش رہیں - یہی حقیقتا جمہوری تہذیب کی خوبصورت روایت ہے - یوگی کی باتیں سن کر میں پھر اس خیال میں گم ہوگیا کہ ایک مندر کا پجاری اور سادھو کا بھیس اختیار کرنے والا فرقہ پرست لیڈر اتنی عقلمندی کی باتیں کیسے  کر رہا ہے - اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کا امام آج بھی تقدیر کو روتا ہے اور برہمن مندر کے دروازے پر نہ سو کر ایوان سیاست میں داخل ہوچکا ہے اور پھر اچانک میری نیند کھل گئی - میں پھر یہ سوچنے لگا کہ ہم مسلمان کب تک یوں ہی خواب دیکھتے رہیں گے - مجھے تو اب اپنے اس خواب کی تعبیر سے بھی ڈر لگنے لگا ہے! اللہ رحم کرے -

0 comments:

featured

دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک


پروفیسرمحسن عثمانی ندوی



جب کوئی عدالت کسی شخص کو یا چند اشخاص کو پھانسی کی سزا سنادیتی ہے تو اس سزا پر عمل در آمد میں ایک طویل مدت کا وقفہ ہوتا ہے ، اس وقفہ میں ملزم ڈرا سہما رہتا ہے لیکن کھانا بھی کھاتا ہے آرام بھی کرتا ہے رات کو بستر پر سوتا بھی ہے ، کچھ یہی وقفہ ایک پوری قوم کوملا ہوا ہے۔ جسے پھانسی کی سزااکثریت کی پارٹی کی طرف سے ملی ہے جو اقتدار کی دہلیزپر قدم رکھ چکی ہے۔ الیکشن مینو فیسٹو اور مختلف بیانات کے ذریعہ سزا ببانگ دہل مل چکی ہے اور اس قوم کو مل چکی ہے جس نے سیکڑوں سال رواداری انصاف اور شرافت کے ساتھ اس ملک پر حکومت کی ہے ۔یہ سزامسلمانوں کے جسمانی وجود کو نہیں دی جائے گی بلکہ مذہبی اور تہذیبی وجود کو دی جائے گی۔ جوجسمانی وجود کی سزا سے زیادہ سخت سزا ہے ۔ اس سزا پر عمل اس وقت ہوگا جب اکثریت قانون اور دستور بدلنے کی پوزیشن میں ہوجائے گی۔ مسلمانوں میں بہت سے ایسے بے حس افراد بھی مل جائیں گے جن کے لئے یہ سب کچھ زیادہ پریشان کن نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ پھانسی جسمانی وجود کو نہیں دی جائے گی !ہماری قوم میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کے لئے مذہب اور تہذیبی وجود کی زیادہ اہمیت نہیں ہے ۔لیکن انہیں شاید علم نہیں کہ ان سے نفرت کی وجہ سے ان کے جسموں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا ،ان کے آشیانوں کو بھی آگ لگائی جائے گی ۔مخالفت اور دشمنی کا ایک طوفان ہے اورپوری مسلم قوم کوجس کا اب سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پوری قوم کا مستقبل اس شعر کے مصداق ہے
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ 
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
سوال یہ ہے کہ اس طوفان کوکیسے روکا جاسکتا ہے ؟ یوں تو اس منافرت کے طوفان کو روکنے کی ذمہ داری ہر شریف ہندوستانی کی ہے لیکن چونکہ اس کی زد سب سے زیادہ اقلیت پر پڑتی ہے اس لئے اس طوفان کو روکنے کی اورمذہبی اور تہذیبی پھانسی کے فیصلے کو بدلنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری اقلیت کے باشعور اشخاص پر عائد ہوتی ہے ۔ان علماء پرعائد ہوتی ہے، جنہیں اللہ نے کتاب کا علم دیا ہے ۔ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہم صحیح لائحہ عمل مرتب کریں اور اس کو عملی جامہ پہنائیں ، ہم روڈ میپ بنائیں اور اس پر سفر شروع کریں ،ہم کام کا خاکہ بنائیں اور اس میں رنگ بھریں،ہم نے ہندوستان میں وہی غلطی کی ہے جو اسپین میں کی تھی، اسپین میں بڑے بڑے مسلمان علماء اور فضلاء اور ادبا پیدا ہوئے تھے لیکن اسپین میں مسلمانوں نے اکثریت کی آبادی کو اسلام سے قریب کرنے کی کی کوشش نہیں کی تھی،ہم نے بھی اس ملک میں لسان قوم اور دین قوم سے واقف ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ اور ہم نے لسان قوم کے ذریعہ اسلام کا تعارف نہیں کرایا ۔ قرآن میں ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ یعنی ہم نے جب بھی رسول بھیجے تو وہ اپنی قوم کی زبان میں بات کرتے تھے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء کے لئے جو اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے نائبین رسول ہیں لسان قوم سے واقف ہونا ضروری ہے، اب اس وسیع و عریض ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء درکار ہیں جو برادران وطن سے ڈائیلاگ کرنے اور ان سے ہم کلام ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور برادران وطن کے مذہب سے اور ان کی تہذیب سے ان کی تاریخ سے ان کی نفسیات سے اس طرح سے واقف ہوں جس طرح سے ابو ریحان البیرونی واقف تھا ۔ دینی مدارس کا ایک جال ہے جو پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ۔ ان دینی مدارس کے فارغیں بلا شبہ مساجد میں اور ہم قوم لوگوں کی محفلوں میں اردوئے معلی میں خطابت کے جو ہر دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن اگر برادران وطن کے مجمع میں ان کوکھڑا کردیا جائے تو ان کی زبان میں لکنت آجاتی ہے ان کی طاقت لسانی ختم ہو جاتی ہے ، کیونکہ وہ انگریزی میں بات نہیں کرسکتے ،ہندی میں بات نہیں کرسکتے، علاقائی زبانوں میں بات نہیں کرسکتے ،وہ لسان قوم سے محروم ہیں، اور ہندو مذہب کا اور ہندوستانی مذاہب کا مطالعہ ان کا محدود نہیں بلکہ صفر ہے ۔ حالانکہ ایک عالم دین نائب رسول اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ لسان قوم سے واقف ہو ۔ہماری غلطیوں کی وجہ سے اس وقت اب صورت حال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ یہ مسئلہ اب فکری مسئلہ نہیں رہا بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر مذہبی اور تہذیبی وجود کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو لسان قوم سے واقف ہونا اور دین قوم سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی جائے ۔جب ندوۃ العلماء اور دار العلوم دیوبند اور دوسرے مدارس سے ایک طالب علم عالم کی سند لے کر نکلے تو وہ ہندو مذہب سے پوری طور واقف ہو اور ہندی اور انگریزی میں اپنا مافی الضمیرادا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہو ۔اور ہندو مذہبی قائدین کو پورے اعتماد کے ساتھ مکالمات کرنے کی دعوت دے سکتاہو ۔مجھے اندیشہ ہے کہ اس تجویز کے جواب میں بعض مدارس کے ذمہ دار یہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے یہاں دعوت کا اور مطالعہ مذاہب کا شعبہ قائم کر رکھا ہے ۔اس طرح کا جواب صرف وہ حضرات دے سکتے ہیں جنہیں صورت حال کی سنگینی کا پوار اندازہ نہیں ہے اور انہوں نے شتر مرع کی طرح اپنا منہ ریت میں چھپا رکھا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم محفوظ ہیں اورہماری گردن کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ہمیں علم ہے کہ دینی مدارس میں ۹۹ فی صد طلبہ عالم اور فاضل کا کورس مکمل کرنے کے بعد شعبہ دعوت کے ایک سالہ کورس میں داخلہ نہیں لیتے ہیں اور جو ایک فی صد سے کم داخلہ لیتے ہیں وہ کسی کام کے لائق نہیں ہوتے ہیں اور وہ ’’نے محقق بود نہ دانشمند ‘‘ کے مصداق ہوتے ہیں اس وقت رجوع الی اللہ کے بعد کرنے کا کام یہ ہے کہ(۱) درجہ اول عربی سے ہندی زبان انگریزی زبان اور ہندوستانی مذ۱ہب کو نصاب میں داخل ہونا چاہئے تاکہ ہر عالم دین برادران وطن کو خطاب کرنے کا اہل ہو سکے۔اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں کیا ہے اس کا اسے علم ہو ۔افسوس ہے کہ اب بھی اور ان سنگین حالات میں بھی علماء دین اس تجویز پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ صاف کہتے ہیں باہر کی دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے ہم نہ بدلے ہیں اور نہ کبھی بدلیں گے اور یکسوئی کے ساتھ اپنا مشغلہ جاری رکھیں گے ۔
(۲)دوسرا کام مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ اپنی نافعیت اور افادیت ثابت کرنی ہے حدیث میں ہے خیر الناس من ینفع الناس یعنی لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جوزیادہ نفع بخش ہو اس دنیا میں بقائے انفع اور بقائے اصلح کا قانون نافذ ہے۔ اس لئے اپنی نفع بخشی اور اپنی افادیت کا سکہ برادران وطن کے دلوں پر جما نا ہے ۔اور لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرنا ہے ۔ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ۔
(۳)تیسرا کام مسلمانوں کی نئی نسل کو تعلیم وہنر سے آراستہ کرنا ہے۔ علم وہنر مسلمانوں کی شناخت ہونی چاہئے جو قوم تاریخ میں تمام علوم وفنون میں ہراول دستہ کی حیثیت رکھتی تھی وہ سب سے پسماندہ بن گئی ہے ۔ ہمیں پسماندگی دور کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے ہمیں ان تینوں میدان میں پیش رفت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ اب تینوں کاموں کو ’’ وار فوٹنگ ‘‘ پر ہونا چاہئے اور ہر شخص کو اپنے حصہ کا کام فوراً شروع کردینا چاہئے ۔
ہمیں خود احتسابی سے بھی کام لینا چاہئے بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشان بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانہ پر ہیں ، اس سلسلہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم صاحب سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے۔ مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھا ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا ویے پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈیننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیش کے گورنر کرشن کانت اور جینی مذہب کے سوشیل منی اور ہندوؤں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی ، مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد، کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے ۔ لیکن مسلمانوں نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ مجبوراً مولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ بھی تھے جن کا تعلق بابری مسجد ایکشن کمیٹی سے تھا اور وہ جامد الفکر اور بے شعور علماء بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں ۔آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟

0 comments:

featured

بہت باریک ہیں واعظ کی چالیں

قاسم سید 
بابری مسجد - رام جنم بھومی تنازع کے معاملہ کو حل کرنے کے لئے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ اراضی کی ملکیت پر عدالت عظمیٰ نے فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت سے باہر باہمی مشاورت سے مسئلہ کو حل کرلیں۔ اس نے خود کو ثالثی کے لئے بھی پیش کردیا ہے۔ اس طرح مذاکرات کے تعلق سے نوعیت مختلف ہے۔ پہلی مرتبہ یہ مشورہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے آیا ہے، دوسرے خواہش کرنے پر اس نے ثالثی کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس کا یہ ماننا ہے کہ آستھا اور دھرم سے تعلق ہونے کی وجہ سے بہت حساس معاملہ ہے۔ یہ عجیب و غریب اتفاق ہے کہ اترپردیش میں نئے وزیر اعلیٰ کے ’گرہ پردیش‘ کے بعد یہ پیش کش سامنے آئی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا فرماتے ہیں کہ معاملہ عدالتوں سے باہر حل کیا جائے۔ ایسے تنازع مل کر سلجھانے والے ہیں، یہ جذبات اور مذہب کے مسئلے ہیں، عدالت کو تبھی درمیان میں داخل دینا پڑتا ہے جب آپ اس کو حل نہ کرسکیں۔
ظاہر ہے یہ بہت نیک مشورہ ہے، شاید ہی ہندوستان کی سرزمین پر کوئی ذی روح ہو جس کو چیف جسٹس آف انڈیا کی نیت اور اخلاص پر کوئی شبہ ہو۔ اس پر انگلی اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انھوں نے شاید اس لئے مذاکرات کی تجویز پیش کی ہوگی، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے اس تنازع میں ہزاروں جانیں جاتے دیکھ چکے ہیں۔ کتنوں کی زندگی برباد ہوگئی اور نہ جانے کتنے صاحب اختیار اور لیڈر بن گئے۔ بابری مسجد - رام جنم بھومی تنازع نے دونوں طرف ایسے لیڈروں کی ایک کھیپ تیار کردی جو اس کے توسط سے سرکاری مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہوگئے۔ خود وزیربن گئے، بیٹوں کو بھی اسمبلیوں میں پہنچادیا تاکہ ان کا مستقبل ان کی نظروں کے سامنے ہی محفوظ ہوجائے۔ گلیوں میں گھومنے والے محلوں میں رہنے لگے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے یہ عہد کرتے تھے کہ وہ بابری مسجد کے تحفظ کے لئے سر کی بازی لگادیں گے اور اپنی اولاد کو آگے علم اٹھانے کی وصیت کرجائیں گے۔ بفضلہ تعالیٰ ان کے سر گردنوں پر محفوظ ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بابری مسجد ملبہ میں بدل گئی اور ان کی غیرت سنگین آزمائش سے گزرنے کے باوجود سلامت ہے اور وہ اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود مسجد کے گنہ گاروں کو سزا نہ دلاپائے بلکہ ان کو جب یہ موقع ملا تو انھیں بری ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ یہ خطہ بہرحال اندیشوں کی بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے۔ 10 مرتبہ بات چیت ہوچکی ہے، مگر ناکامی رہی۔ 80 اور 90 کی دہائی میں قضیہ حل کرنے کی سمت میں کئی بار قدم بڑھائے گئے۔ میراتھن میٹنگوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وی پی سنگھ سے لے کر نرسمہا رائو اور چندر شیکھر تک کوئی فریقین میں سمجھوتہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ 30 ستمبر 2010 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا اس میں نئی پیچیدگی پیدا کردی اور اراضی کا بٹوارہ کرکے وہ کام کردکھایا جو اس کے دائرئہ اختیار میں ہی نہیں تھا، اس لئے گیند سپریم کورٹ کے پالے میں آگئی جہاں اراضی ملکیت تنازع کے علاوہ بابری مسجد انہدام کیس بھی زیرسماعت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب جلد ہی دونوں معاملات پر بڑا فیصلہ آسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا مشورہ اور پیش کش کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں مسترد کردیا جائے یا اس میں کوئی گنجائش نکالنے کی آخری کوشش کی جائے۔ دوسرے کیا مذاکرات مشروط ہوں گے یا غیر مشروط، کیا مذاکرات بندوق کی نال کنپٹی پر رکھ کر کئے جائیں گے اور کیا کسی خاص فیصلہ کو ماننے کے لئے مجبور کیا جائے گا اور یہ بھی کہ مذاکرات کون کرے گا اور اسے کیا اختیار ہوگا۔ وہ حتمی فیصلہ کو قبول کرے، مسلمانوں کی طرف سے اتھارٹی باڈی کون سی ہوگی اور ہندوئوں کی طرف سے نمائندگی کون کرے گا۔ کیا تنازع کے فریقین جو عدالت میں فریق ہیں ان کے درمیان گفتگو ہوگی؟ یا دائرہ وسیع کیا جائے گا؟ دونوں میں سے کون سا فریق قدم پیچھے ہٹانے کی جرأت کا مظاہرہ کرے گا یا اسے قدم پیچھے ہٹانے کی تاکید ہوگی؟ دراصل یہ سوالات اس لئے پیدا ہورہے ہیں کہ جو لوگ مذاکرات کا پرجوش خیرمقدم کررہے ہیں ان کا لب و لہجہ بڑی حد تک جارحانہ اور تحکمانہ ہے۔ بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں اور یوپی کے وزیراعلیٰ نے اس کی پرزور تائید کی ہے۔ حکومت کے وزیروں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مشورہ کے پردے میں جس طرح کے مشورے اور ہدایات سامنے آرہی ہیں، مسلمان کہیں اور مسجد بنالیں، اس جگہ پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں، جہاں مسجد تھی جسے 1992 میں کارسیوکوں نے شہید کردیا تھا، مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ ضد نہ کریں، آن کو قربان کرکے ملک کو بڑے نقصان سے بچالیں۔ نئی صبح کا آغاز کیا جائے۔ سمجھوتہ کی راہ چھوڑکر ضد پر اڑے رہیں گے تو حل ناممکن ہے۔ اس تجویز کو مسترد نہ کریں، فراخ دلی کا مظاہرہ کریں، انھیں سرجو پار مسجد بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے، یعنی اوّلین شرط یہ ہے کہ مسجد کی جگہ پر دعویداری پر کوئی بات نہیں ہوگی تو پھر کس معاملہ پر گفتگو ہوگی۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا لب و لہجہ دیکھ کر لگتا ہے کہ مذاکرات کا روڈمیپ کیا ہوگا، ان کا ارشاد ہے کہ مسلمان ان کی بات مان کر سرجو کے اس پار مسجد بنانے کی تجویز قبول کرلیں، ورنہ 2019 میں ان کی حکومت مندر تعمیر کے لئے قانون بنالے گی۔ انھوں نے یہ بھی چیلنج کیا کہ کسی میں ہمت ہے تو رام جنم بھومی میں بنے عارضی رام للا مندر گراکر دکھائے۔ سپریم کورٹ کی اجازت سے ہی 1994 سے وہیں عارضی مند قائم ہے اور پوجا بھی ہورہی ہے، جبکہ وی ایچ پی نے سرجو کے پار مسجد بنانے کی تجویز کو مسترد کرکے کہا ہے کہ اجودھیا کی حد میں کسی بھی مسجد کو ہندو سماج برداشت نہیں کرے گا۔ مرکزی وزیر اوما بھارتی کے نزدیک رام مندر تو اسی جگہ بنے گا، دوسرے وزیر گری راج کشور ہاتھ جوڑکر مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہندوئوں کے جذبات کا احترام کریں، ہم مندر کہاں بنائیں گے۔ مسلمان تو عبادت کے لئے مکہ و مدینہ اور کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان کا صاف لفظوں میں کہنا تھا کہ آپ کے اور ہمارے پوروج ایک ہیں، اس لئے رام مندر کے لئے جگہ چھوڑنا عظیم مثال ہوگی۔ وہ یہیں نہیں رکے، انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر کاشی اور متھرا کا بھی تذکرہ چھیڑدیا کہ مغلوں نے جو کچھ لوٹا اسے واپس تو ملنا چاہئے۔
شاید یہی وجوہات ہیں جو مسلم رہنمائوں نے مذاکرات کی پیشکش کا احترام کرنے کے ساتھ اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی بات کہی ہے۔ اب یہ ہوسکتا ہے کہ اس نیک مشورے کو قبول نہ کرنے والے کو جھگڑالو اور ضدی کہہ کر بدنام کیا جائے اور مذاکرات کے حق میں ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ مسلمان دبائو میں آجائے۔ مذاکرات اس صورت میں کامیاب تصور کئے جاتے ہیں کہ دونوں فریق میں سے کوئی ایک اپنے موقف سے دستبردار ہو یا نرم پڑے، فریقوں کے اپنے موقف پر اٹل رہنے سے سمجھوتہ کا راستہ نہیں نکل سکتا۔ یہ معاملہ یقیناً حساس اور آستھا سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن عدالتیں آستھا سے نہیں آئین اور قانون سے چلتی ہیں۔ بابری مسجد قضیہ سے ملک کی بنیادی اقدار، جمہوریت کا تحفظ اور آئین کی پاسداری کے سنگین سوالات منسلک ہیں۔ مرکز اور اترپردیش میں ایک پارٹی کی سرکار برسراقتدار آنے کے پس منظر میں یہ پیش کش اپنے اندر بہت سے مضمرات رکھتی ہے۔ مصالحت کا راستہ کھولا جانا غلط نہیں ہے، لیکن انصاف کے دروازے بند ہونے کی صورت میں نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے اور وہ چاہتا کیا ہے؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان نرم روی اپنائیں، عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کریں تو مثبت راستے کھلیں گے۔ تنگ نظری چھوڑیں اور عدالت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے نئی صبح کا آغاز کریں اور بات چیت وہاں سے شروع کریں جہاں سے ٹوٹی تھی۔ اور اگر عدالت سے ماورا کسی مفاہمت پر پہنچنے کی صورت نہیں نکل سکی تو سپریم کورٹ نے ازخود کہا ہے کہ وہ فیصلہ کرنے کے لئے موجود ہے۔ اس طرح مسلمانوں کی شبیہ بہتر ہوسکے گی۔ دیکھنا ہوگا کہ آگے اور کون سی قربانیوں اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ کو بخوبی احساس ہوگا کہ یہ معاملہ اگر آستھا اور دھرم سے جڑا ہے تو کسی ایک کے مذہبی مقام سے اسے بے دخل کرکے اس پر جبری قبضہ کا پہلو بھی اس کا نمایاں حصہ ہے۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی جابرانہ پالیسی اور حکومت کے ایک مخصوص فرقہ کے خلاف جارحانہ رویہ کی وہاں کی عدلیہ نے جس طرح مزاحمت کی ہے، اس نے عدل و انصاف کا سر اونچا کردیا ہے کہ اکثریتی آمریت انصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتی اور ہر قیمت پر آئینی اقدار برقرار رکھتی ہے۔ ہمیں ہندوستان کے نظام انصاف پر پورا یقین ہے۔ رہا مذاکرات کا معاملہ تو کم از کم اس پر تو یک رائے ہوکر سامنے آیا جائے۔ جس طرح بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں وہ ہمارے انتشار اور جگ ہنسائی کا سامان فراہم کررہی ہیں۔ شاید یہی وہ وقت ہے جب ایک چھت کے تلے بیٹھ کر مشترکہ موقف اختیار کیا جائے، ورنہ حالات اپنے اندر بہت سے طوفان رکھتے ہیں اور ایسی بجلیاں آستینوں میں پوشیدہ ہیں جو ایک ایک گھر کو ترتیب سے جلاکر راکھ کردینا چاہتی ہیں۔ کیا ہم وقت کی آواز سنیں گے اور واعظ کی باریک چالوں کو سمجھیں گے۔


qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

Muslim Issues,

وقف کے ہزاروں کروڑ کی زمین کے سوداگروں کی الٹی گنتی شروع


ایک حمام میں سب ننگے، وقف کے ہزاروں کروڑ کی زمین کے سوداگروں کی الٹی گنتی شروع ، نسیم بانو پٹیل کے بعد اب نسیم خان کا نمبر


حال ہی میں وقف بورڈ کی سی ای او نسیم بانو کو ریاستی حکومت نے 5000 کروڑ
 کی بدعنوانی معاملہ میں شامل ہونے کی وجہ سے معطل کرديا شاہجہاں بادشاہ کی وقف کی گئی 55 ایکڑ زمین کو نسیم بانو پٹیل سمیت وقف وزیر اور وقف بورڈ میں شامل ادنیٰ سے اعلی نے سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو ليا ۔ معاملہ چوںکہ یہیں نہیں تھما کیونکہ اس دوران ای ڈی نے اس جگہ سے جڑے کئی معاملات کو لے کر وقف کے پراپرٹی فروخت کے گورکھ دھندے میں کئی لوگوں کے نام ظاہر کئے جن میں نسیم خان اور مہاراشٹر پولیس کے سینئر افسر همانشو رائے کا بھی نام سامنے آياجس كو لے کر ریاستی حکومت نے اس پورے معاملے کو لے کر تحقیقات کے احکمات جاری کئے
نسیم بانو کے بعد اب عارف نسیم خان کا بھی نمبر ہے کیونکہ ای ڈی کے ذریعہ وقف کی زمین کے سودے بازی کو لے کر جو بات چیت کی گئی اس میں نسیم خان کا بھی نام سامنے آیا ہے ۔ لہذا اب وہ چھٹپٹا رہے ہیں اور خود کو پاک صاف ہونے کا اعلان کر انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ نسیم خان کی یہ مانگ ایسے ہی لگتی ہے جیسے کہ بلی سے دودھ کی حفاظت کروائی جائےكيونکہ نسیم خان کو پتہ چل چکا ہے کہ ان کے سیاسی گرووں کی اب اوقات نہیں کہ انكے سیاہ کارناموں کو لے کر حکمراں جماعت جب گھیرے گی تو وہ نہیں بچا پائیں گے کیونکہ جب چھگن بھجبل کو نہیں بچا پائے تو بھلا بابا بنگالی یا نسيم خان کس کھیت کی مولی ہیں ۔ لہذا وقت کے پردے چیر کر نسیم خان نے یہ بات بھانپ لی ہے کہ اب اگلا نمبر انكا ہے اس لئے پہلے سے ہی چللانا شروع کر دو۔ لیكن چللانے سے یا آواز اٹھانے سے حق نہیں دب سکتا اور نہ ہی نسیم خان کے سیاہ کارنامے چھپنے والے ہیں

نسیم بانو پٹیل کی جانب سے وقف میں چل رہے بدعنوانی کو لے کر سینٹرل آبزرور نے کافی پہلے لکھا تھا خاص طور پر انجمن اسلام کی جگہ جس پر نام نہاد خود ساختہ مذہبی رہنما مسٹر معین اشرف عرف بنگالی بابا نے جب غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا اس وقت بنگالی بابا نے جن فرضی دستاویزوں کا استعمال کر چھوٹا سونا پور قبرستان کی جگہ پر موجود میدان پر قبضہ کر لیا اس جگہ پر کمیٹی کو لے کر دستخط کر کے اس کی اجازت دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ سید اعجاز حسین ہی تھے جنہوں نے 100 سال سے بھی زیادہ عرصے سے انجمن کی موجودہ كلیكٹریٹ لینڈ پر وقف کے قبضہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت نسیم بانو پٹیل نے اس پر روک لگا دی تھی لیكن روک لگانے کے بعد جب اس معاملے کی تحقیقات شروع ہوئی تو نسیم بانو نے آج تک وہ تفتیش مکمل ہی نہیں ہونے دی تھی کیونکہ یہ صحیح وقت تھا نسیم بانو کے لئے جب اس معاملے میں وہ جم کر ملائی كھائیں اور بنگالی بابا کی بنائی گئی کمیٹی پر روک لگی رہے
معاملے میں جب سینٹرل آبزرور نے کچا چٹھا کھولا تو بنگالی بابا اور ممبئی کے مرکزی ريجن کے ایڈیشنل کمشنر آرڈی شندے نے مل کر آبزرور کے  صحافی شاہد انصاری کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کر معاملے سے عوام کی توجہ بھٹکانے کی کوشش کی لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے اس معاملے میں درج کی گئی ایف آئی آر کو غلط قرار دیا
 ناسک کی ہی وقف بورڈ کی جگہ کو لے کر وقف مافیا اور انڈر ورلڈ كنیكش بےنقاب نہیں ہوا بلکہ وقف مافیا نے ہر جگہ اسی طرح انڈرورلڈ کے ذریعہ ملی بھگت کر وقف اور كلیكٹریٹ کی جگہوں کو ہتھیا ليا ۔ كچھ ایسا ہی ہوا تھا جب چھوٹا سوناپور میدان کے معاملے کو لے کر بنگالی بابا کو بےنقاب کیا گیا تھا ۔ آبزرور کے صحافی پر مقدمہ درج کرانے کے بعد ایک بابا بنگالی اور ان پھنٹروں نے ایک میٹنگ رکھی ۔ اس میٹنگ میں 20 لوگ شامل تھے جس میں سیاستدان ، وکیل اور انڈرورلڈ ، بلڈر تمام لوگ موجود تھے ۔ اس میٹنگ میں جو لوگ شامل تھے ان میں رفیق لكڑاوالا، بلڈر صابر نرمان اور كانگریس ایم ایل اے امین پٹیل بھی شامل تھے
اس میٹنگ کا مقصد تھا کہ سنی مسلم چھوٹا قبرستان ٹرسٹ میں موجود ٹرسٹيوں کو ہٹا کر مسٹر معین اشرف عرف بنگالی بابا اپنا اور اپنے لوگوں کا نام شامل کر لیں جبکہ پہلے ہی اس پر وقف بورڈ سے روک لگا دی گئی تھی حالانکہ میٹنگ میں سروائونگ ٹرسٹی کے ذریعہ عبد القادر چوروڈوالا کے ذریعہ دستخط کئے گئے تھے لیکن کمال کی بات تو یہ ہے کہ چوروڈوالا کے ذریعہ پہلے جو شکایت کی گئی تھی اس میں انہوں نے انہی لوگو کے خلاف شکایت کی تھی جس کی کاپی آبزرور کے پاس موجود ہے ۔ تاہم ہم نے چوروڈوالا سے اس میٹنگ کے بارے میں پوچھا جس میں بنگالی بابا ان کی موجودگی کی بات کرتے ہیں لیکن چوروڈوالا نے کسی طرح کا کوئی تبصرہ نہیں کیا اور یہ کہ کر فون رکھ دیا کہ یہ معاملہ عدلیہ کے زیر غور ہے لہذا اس پر ابھی کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہے ۔ تاہم چینج رپورٹ فائل کرنے کا معاملہ ہی نہیں لاگو ہوتا کیونکہ اس سے پہلے وقف بورڈ میں بنگالی بابا کی طرف سے جو کمیٹی کے لئے جھوٹے دستاویز جمع کئے گئے تھے اس پر ہی روک لگ گئی ہے تو اس کے بعد اس معاملے میں چینج رپورٹ فائل ہی نہیں کی جا سکتی
چونکہ بنگالی بابا کے حامیوں کے ذریعے مقدمہ درج کرائے جانے کے بعد بابا بنگالی کی اصلیت جگ ظاہر ہوگئی تھی اس لئے انہوں نے سمجھ لیا کہ معاملہ اب سنگین ہے اس لئے چینج رپورٹ فائل کرنے کی پلاننگ بنائی گئی اور 14 ستمبر 2016 کو وقف بورڈ میں جمع کی گئی ہے ۔ چونكہ نسیم بانو نے پہلے تو روک لگائی تھی لیکن جس طرح معاملے پر فیصلہ دینے میں تاخیر لگائی اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس معاملے کو لے کر پہلے تو سخت تھیں لیکن بعد میں وہ خود اس معاملے کو کھیںچتی رہیں ۔ عالم یہ رہا کہ طویل وقت گزر جانے کے بعد بھی وقف بورڈ نے اپنا فیصلہ نہیں سناياجبكہ وقف بورڈ میں ایسے کئی کیس ہیں جہاں خود نسیم بانو نے ملائی کھانے کے چکر میں راتوں رات بہت سے معاملات كی فائلوں کو غائب کروا دیا اور بہت سے معاملات کے فیصلے بھی سنا کر ان کا نپٹارا بھی کر دياجبكہ ایسے ہزاروں مقدمات کی فائلیں وقف بورڈ کی میزوں اور الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں اور لوگ ان پر فیصلے کا انتظار کررہے ہیں ۔ 
سینٹرل آبزرور کیلئے شاہد انصاری کی خصوصی رپورٹ : سینٹرل آبزرور اور شاہد انصاری سمیت ہفتہ روزہ سیرت ممبئی کے شکریہ کے ساتھ 

0 comments:

featured

چائے سے زیادہ کیتلی گرم



صادق رضامصباحی

رابطہ نمبر:09619034199



نریندر مودی جوماضی میں کبھی چائے بیچتے تھے ،اب ان کی ’’ چائے‘‘ ٹھنڈی ہوگئی ہے مگران کے بھکتوں کی ’’کیتلی ‘‘پوری طرح گرم ہوچکی ہے،حیرت اس پرنہیں کہ یہ سب کیوں ہورہاہے بلکہ حیرت اس پرہے کہ ان پرمسلمان کیوںحیرت زدہ ہیں

’’چائے سے زیادہ کیتلی گرم ‘‘۔یہ کہنے کوتوصرف ایک کہاوت ہے مگراٹل حقیقت ہے ۔اترپردیش میں بی جے پی کی فتح کے ساتھ ہی ایسے ہنگاموں کاآغازکردیاگیاہے جواس کہاوت پرپوری طرح صادق آتے ہیں۔پارٹی کے نچلے درجے کے اراکین فتح کے جوش میں ایسی ایسی حرکتیں کررہے ہیں جس کااندازہ اہل نظرنے پہلے سے ہی کرلیاتھا۔ہمارے ملک کے باوقاروزارت عظمی کے منصب پر فائز نریندر مودی جوماضی میں کبھی چائے بیچتے تھے ،اب ان کی ’’ چائے‘‘ ٹھنڈی ہوگئی ہے مگران کے بھکتوں کی ’’کیتلی ‘‘پوری طرح گرم ہوچکی ہے ۔مودی بھکت اوربی جےپی کے نچلے درجے کے اراکین کے لیے تخریبی واقعات پارٹی کی شان وشوکت کااظہارہیں مگروہ دراصل بی جےپی کےزوال کااعلامیہ ہیں ۔خبرآئی ہے کہ مغربی یوپی کے مردم خیزاورتاریخی شہربریلی کے ایک گائوں میں ہندئوں کی جانب سے ایک پوسٹرچسپاں کیاگیاجس میں لکھاہے:’’سبھی مسلمانو ں کو مطلع کیاجاتاہے کہ ۳۱دسمبر۲۰۱۷تک گائوں چھوڑکرچلیں جائیں،اگرآپ نے گائوں نہیں چھوڑاتوتم اس کے خودذمے دار ہو گے ۔ اگر آپ نے ایسانہیں کیاتوجیسے امریکہ میں ٹرمپ کررہاہے اس گائوں میں ویساہی ہوگاکیوںکہ اترپردیش میں بی جےپی کی حکومت آنے والی ہے ،جلدہی فیصلہ کرلو۔کیوں کہ تم اب گائوں میں رہنے کے لائق نہیں رہے۔‘‘ اس متن کےنیچے گھورکھپورکے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کانام لکھاہواہے۔پوسٹرکامتن بتارہاہے کہ اس کالکھنے والاکوئی پڑھالکھانہیں بلکہ عام آدمی ہے ۔

بہت سارے کم ہمت مسلمانوں پراس خبرسے خوف طاری ہوگیاہوگامگرجوباشعورہیں ،خوب جانتےہیں کہ ایساتوہوناہی تھا ۔ ابھی توصرف شروعات ہے ، پانچ سال تک بہت کچھ ہوناہے ۔خاص طور پر جن دیہاتوں میں ہندوزیادہ ہیں اورمسلمان کم ،وہاں مسلمانوں کوہراساں کیے جانے کاسلسلہ شروع ہوگا۔ایسانہیں کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت تخریبی کارروائی کرنے پرمجبورکرے گی بلکہ علاقے کے انا پرست ،نکمے ،ضدی اورجرائم پیشہ فرقہ پرست ایساماحول پیداکریں گے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب حکومت ان کی ہے ،ان کاکچھ بھی نہیں ہوگا،اوراس میں کچھ جزوی سچائی بھی ہےکیوںکہ حکومتوں کا رویہ جب نرم پڑجاتاہے توتخریب کاروں کوسراٹھانے کاموقع مل جاتاہے ۔بی جے پی الیکشن سے قبل فرقہ وارانہ ماحول پیداکرتی رہی اوراس کے بل پریوپی پرقابض بھی ہوگئی ۔عام ہندئوںکوکیامعلوم کہ سیاسی لیڈروں کا یہ محض سیاسی حربہ تھا،وہ تویہی سمجھتے رہےہیں کہ بی جے پی واقعی مسلمانوں کی دشمن ہے اورالیکشن جیتنے کے بعدمسلمانو ںکوتہ تیغ کردے گی اسی لیےبی جے پی ،وشوہندوپریشداورآرایس ایس کے ارکان آپے سے باہرہوگئے ہیں ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب انہیں کھل کرکھیلنے کاموقع مل گیاہے ۔
بریلی کے مذکورہ گائوں کے واقعے کے دوہی دن کے بعدبریلی سے دوسوکلومیٹردومشرق میں لکھیم پورضلع کے پلیاںکلاں قصبے میں ۱۱جانورمرے ہوئے پائے جانے کی وجہ سے کشیدگی ہوگئی اور آناً فاناً بازار بندکردیے گئے ۔اترپردیش کےبلندشہرکی مسجد پر بی جے پی والے پارٹی کا پرچم لہرانے کے لیے مسجدکے اندرگھس گئے ۔یہ صرف تین مثالیں ہیں ،اِکادُکااوربھی واقعات ہوئے ہو ں گے جورپورٹ نہیں کیے گئے ۔حیرت اس پرنہیں کہ یہ سب کیوں ہورہاہے بلکہ حیرت اس پرہے کہ ان پرمسلمان کیوںحیرت زدہ ہیں۔جس قوم کے پاس آخرت کاکوئی تصورہی نہ ہو،جس کے پاس کسی کے سامنے جواب دہی کا کوئی خیال ہی نہ ہووہ کیوں کرتخریبی کاموں سے بازآئے گی ؟ مسلمانوں کے یہا ںچوں کہ تصورآخرت ہے، مسلمانوں کومعلوم ہے کہ ان کے ایک ایک عمل کی ریکارڈنگ ہورہی ہے اور قیامت کے دن وہ ساری ریکارڈنگس سنائیں اوردکھائیں جائیں گی اس لیے آپ نے کبھی نہیں سناہوگاکہ مسلمانوںنے کبھی بھی اجتماعی طورپرکسی پرظلم وتشددکیاہو،اورکبھی اجتماعی طورپرکوئی ایساکام کیاہوجواسلام کے نزدیک سخت ترین ناپسندیدہ ہو،ممکن ہے کہ تاریخ میں ایک آدھ مثال تلاش کرنے سے مل جائے مگرعمومی طورپرمسلمانوںنے ایساکبھی نہیں کیا ،ہاں انفرادی طورپرمسلمان ضرورکچھ غلط کام کرتے رہے ہیں مگربرادران وطن سمیت دیگراقوام کامعاملہ ہی الگ ہے ،یہ انفرادی توکیااجتماعی طورپربھی ایسے ہولناک اقدام کرتے رہے ہیں جن کے تصورسے ہی انسان کانپ جاتاہے ۔اس سلسلے میں ہزاروں  مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
برادرانِ وطن کی ان حرکات کے پیچھے ایک محرک اوربھی ہے اوراس کاتعلق نفسیات سے ہے ۔انسانوں کی نفسیات کامطالعہ بتاتاہے کہ ہرقوم میں ایسے افرادضرورہوتے ہیں جواپنی اکثریت ،اپنے زعم اوراپنی قوم کے اقتداراوربرتری کےنشے میں چوررہتے ہیں اوراس نشے کی مخموری ان سے غلط اقدام کرواتی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے جرائم کوسرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوتی اوربعض اوقات جرم ثابت ہونے کے بعدانہیں معتوب بھی کیاجاتاہے مگراقتدارکانشہ ایسے لوگوں کویہ سب سوچنے ہی نہیں دیتا۔ان کے دماغ پربس ایک ہی بات سوارہوتی ہے کہ حکومت ہماری قوم کی ہے اس لیےہماراکچھ نہیں بگڑے گا۔ یہ دراصل احساس برتری ہے ۔اگرآج کے مسلمانوںکے لیے ایسے حالات پیداہوجاتے توشایدان کے اندربھی احساس برتری پیداہوجاتااگرچہ اس کی نوعیت مختلف ہوتی ۔یہ احساس برتری ہی تو تھا کہ سیکڑوں سال حکومت کرنے بعدوہ زوال پذیرہوگئے ۔یہاںایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ بردران وطن میں ’’وطن پرستی‘‘کے جراثیم کچھ زیادہ ہی ہیں اوراس کی بنیادی وجہ آرایس ایس کے نظریات ہیں جس نے برسوں سے ہمارے وطن کی فضاکومسموم کررکھاہے ۔عوام چوں کہ کالانعام ہیں،انہیں جدھرہنکایاجاتاہے ،یہ ادھرہی دوڑپڑتےہیں۔
 اب حکومتوںکی ذمے داری ہے کہ وہ اس پرروک لگائیں اوراپنے ممبران اسمبلی کو حدودمیں رہنے کاپابندبنائیںکیوں کہ بہت سارے مقامات پرایسابھی ہوتاہے کہ مقامی لیڈران اپنےکارکنو ں کو خوش کرنے کے لیے ان کی تخریبی کاررائیوں پرچپی سادھ لیتے ہیںیاخاموش تائیدکردیتے ہیںجس کی وجہ سے فضازہرآلودہوجاتی ہے ۔بی جےپی کے پالیسی سازوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ ظلم و تشدد اور نفرت کی ٹہنی کبھی برگ وبارنہیں لاتی ۔بی جےپی کواگرلمباسفرطے کرناہے تواسے اپنے اراکین کی جانب سے کی جارہی تخریب کاریوں پرلگام کسنی ہوگی ،اوراگراس کی خواہش بس اتنی سی ہے کہ کچھ دن اقتدار کا رس چوس کراپنی کمین گاہ میں سمٹ جائے توپھرشوق سے ایسا کرے اورکرائے ،اب کون اس سے پوچھنے والاہے مگربی جےپی قیادت کویادرکھناچاہیے کہ وہ فرقہ پرستوں اورتخریب کاروں کے برے ارادوں کی خاموش تائید کرکے صرف مسلمانوں کاہی نقصان نہیں کررہی بلکہ ملک کابھی نقصان کررہی ہے ۔اس طرح کے واقعات سے مسلمان توپریشان ہوں گے ہی ،تشدد،نفرت اورزہریلی فضاسے برادران وطن بھی متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکیں گے ۔مسلمانوں کانقصان ہوگاتوان شاء اللہ جلدہی حالات سے ابھرآئیں گے کیوں کہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم پرنہ جانے کیا کیاظلم وستم روارکھے گئے، اس وقت ہم وقتی طور پر پسپا ضرورہوئے مگرجلدہی ہم اپنے معمولات کی طرف واپس آگئے مگرجولوگ ہم پرظلم وتشدکے درپے تھے ،آج انہیں کوئی پوچھنے والابھی نہیں ،وہ تاریخ کے قبرستان میں ایسے دفن ہوئے کہ ہڈیاں گل ،سڑگئیں ، نسلیں مٹ گئیں ،نام ونشان حرف غلط کی طرح مٹادیاگیامگرمسلمان نسلاًبعدنسلِِ ابھی تک باقی ہیں اوررہیں گے ۔
جن لوگوں کی طرف سے انتشارپھیلایاجارہاہے ،ایسے لوگ صرف بی جے پی کامقسوم نہیں ہیں ،ہرپارٹی ،ہربڑے شخص ،ہرادارے اورہرشخصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کاہجوم اکٹھاہوجاتاہے اور چائے سے زیادہ کیتلی گرم والے مقولے کی صداقت پیش کرتاہے ۔یہ کہاوت بی جے پی کیا،ہرجگہ صادق آتی ہےاورہرشعبے میں اسی کاسکہ چلتاہے ۔ مجھے توبارہااس کاتجربہ ہے اورآپ کوبھی یقیناًہوگاکہ کسی بھی بڑے آدمی کے چیلے ،حاشیہ نشین ،مفت خورے ،اورمحبت کادم بھرنے والے بات ایسی کرتے ہیں جیسےکہ بڑے صاحب ان سے مشورہ لیے بغیرکوئی کام کرتے ہی نہ ہوں حالاں کہ ان مفت خوروں کی بڑے صاحب تک رسائی ہوتی ہی نہیں لیکن آپ اگربڑے صاحب سے ملاقات کے لیے جائیںگے توپہلے آپ کومفت خوروں سے سابقہ پڑے گا۔ ایسے ایک نہیں ہزاروں واقعات ہیں کہ بڑے صاحب کے چاہنے والے محبت کرنے والے ان ہی مفت خوروں کی وجہ سے ان سے بدظن ہوگئے اورمعاملات بہت حدتک بگڑگئے ۔بڑے مشائخ ہوں ، بڑے علماہوں،سیاسی لیڈران ہوں،بڑے تاجرہوں ،ہرجگہ یہی ہوتا ہے مگرجب قائددوراندیش ہو،اچھے برے کی سمجھ رکھتاہو،خوشامدپسندنہ ہوتوایسے مفت خوروں پرکڑی نظررکھتاہے مگرمعاف کیجیے کہ آج زیادہ ترقائدینِ سیاست یاملت خوشامدپسندواقع ہوئے ہیں اسی لیے مفت خورے اورمحبت کے علم برداردندناتے پھررہے ہیں ۔
بریلی،پلیااوربلندشہروغیرہ کے واقعات کوبھی اسی پس منظرمیں سمجھناچاہیے اوریہ بھی یادرکھناچاہیے کہ اس طرح کے حالات ہمیشہ رہےہیں اورہمیشہ رہیں گے ۔باشعورلوگ ان سے کبھی نہیںگھبراتے کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ ا س طرح کے لوگ اس کے سواکچھ اورکربھی تونہیں سکتے۔مسلمانوں کوان حالات سے گھبرانے کی ضرورت بالکل بھی نہیں۔’’ چائے سے زیادہ کیتلی گرم‘‘والامحاورہ اپنے ذہن میں رکھیں اور،جہاں بھی ایسے حالات پیش آجائیں وہاں مشتعل ہونے کے بجائےبردباری سے کام لیں اوریقین رکھیں کہ ایساکرنے والے آپ کی نہیں اپنی ہی مٹی پلیدکررہے ہیںاورآپ کی نہیں حکومت کی ہی چولہیں ہلارہے ہیں۔ہم امیدکرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم نریندرمودی صاحب اس طرح کے معاملات پرسنجیدگی سے توجہ دیں گے اورنفرت کی فضاکوتحلیل کرنے میں کامیاب ہوں گے

0 comments:

featured

کیا واقعی داعش سے تاج محل کو خطرہ ہے؟


نہال صغیر
داعش جس کے بارے میں ہمیں میڈیا نے بتایا ہے کہ اس کا وجود عراق سے ختم ہو چکا ہے اب اس نے ہندوستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کردی ہیں ۔اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر کئی مسلم نوجوانوں کو اس سلسلے میں گرفتار کی اجاچکا ہے کہ وہ داعش سے رابطے میں تھے یا اس سے متاثر تھے اور ایک نوجوان کو بٹلہ ہاؤس کی طرز پر قتل بھی کیاجاچکا ہے ۔عین یوپی الیکشن کے آخری مرحلے میں لکھنو میں ایک نوجوان کے انکاؤنٹر کی کہانی گھڑی گئی ۔اب دوسری کڑی کے طور پر ہندوستان کے سر کا تاج ’تاج محل ‘کو داعش کے نشانے پر بتاکر ملک میں داعش کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔داعش کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شدت پسند مسلم نوجوانوں کی ایک ایسی تنظیم ہے جو کسی کی کچھ نہیں سنتے اور جو ان کے من میں آتا ہے وہ کرتے ہیں ۔ان کے بارے میں یہ بھی میڈیا اور کچھ اسی میڈیا کی خبروں سے متاثر مولویوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا ۔لیکن کوئی یہ بتانے کی حالت میں نہیں ہے کہ یہ قتل عام کہاں اور کن لوگوں کا قتل عام کیا گیا ؟ابھی کل ہی یہ خبر بھی آئی ہے کہ دہلی کے نظام الدین اولیا کے خانوادے کے دو صوفی مولانا پاکستان کے سفر پر گئے تھے لیکن وہ غائب ہیں ۔یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایک دو روز میں جب ان صوفی مولانا کا پتہ نہ لگ پائے تو انہیں بھی داعش کے ذریعہ اغوا کرکے کسی نامعلوم مقام پر لے جانے کی بات میڈیا میں آجائے کیوں کہ ان کی خبروں میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ انہیں بھی داعش نے نشانہ بنایا ہے ۔اس سے قبل پاکستان میں بعض درگاہوں کو نشانہ بنائے جانے کے فوراً بعد کسی ای میل یا ویڈیو کے ذریعہ یہ خبر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ کام تحریک طالبان پاکستان یا اب داعش نے کیا ہے ۔امریکہ کے ذریعہ چند موہوم بہانوں کے ذریعہ جب افغانستان پر یلغار کیا گیا تو ہمیں ایک ویڈیو وجود میں آجاتا تھا جس میں بتایا جاتا تھا اسامہ بن لادن نے اس میں یہ دھمکی دی ہے یا یہ کہا ہے ۔ویڈیو کو غور سے دیکھنے سے پتہ لگتا تھا کہ اس ویڈیوں میں ہیر پھیر کرکے اپنی پسند کے الفاظ داخل کئے گئے ہیں ۔جیسا کہ دہلی کے جے ایم یو میں ایک ایسے ہی ویڈیو میں جعل سازی کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کنہیا ،عمر خالد اور انربان مکھرجی نے ہندوستان مخالف نعرے لگائے ۔بعد میں یہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئے لیکن اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے اسے ٹی وی چینلوں پر نشر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ہندوستان میں تقریباً ایک دہائی تک انڈین مجاہدین نام کی ایک تنظیم سے جوڑ کر کئی بم دھماکوں کو حل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ۔لیکن اس میں سے کوئی بھی معاملہ عدالت میں ٹک نہیں پایا اور ہماری خفیہ ایجنسی اور سلامتی دستوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ویسے ہماری خفیہ تنظیمیں اور سلامتی دستوں کی چمڑی اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ اس پر عدلیہ کی پھٹکار کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔انڈین مجاہدین کے بارے میں تو ایک عام رائے تھی کہ اسے خود آئی بھی نے ہی تخلیق کیا ہے ۔آئی بی کے بارے میں مہاراشٹر کے پولس آئی جی ایس ایم مشرف بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایک شاطر تنظیم ہے جس سے ہندوستان کے وجود کو خطرہ ہے کیوں کہ آئی بی ایک برہمنوادی تنظیم ہے ۔اب داعش کا وجود تو ایک تیار میٹریل ہے جس کے بارے میں آئی بی کو کوئی کام کرنے کی ہی ضرورت نہیں ہے ۔کسی کو بھی پکڑا اور آئی بی سے جوڑ دیا اور جب کسی کی گرفتاری سے ملک میں دہشت پھیلانا مشکل ہو جائے تو کسی تاریخی عمارت کے بارے میں مشہور کردیا جائے کہ اس کو داعش سے خطرہ ہے ۔
میڈیا کے مطابق داعش کا وجود عراق سے مٹ چکا ہے ۔بلکہ ایک خبر تو یہ آئی تھی کہ داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے اپنے جنگجوؤں سے کہا ہے کہ وہ جنگلوں کا رخ کرلیں یا خود کو دھماکوں سے اڑا لیں ۔ایسی صورتحال میں جبکہ عراق سے ان کا وجود ہی ختم ہو چکا ہو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ لوگ ہندوستان جیسے دور دراز علاقوں میں اپنی کارروائی کریں ۔ان کے سامنے پورا عرب پڑا ہے جہاں امریکیوں اور اب روسیوں کے لئے میدان خالی ہے وہ کم از کم ایک صدی سے پورے عالم عرب پر اپنی مکاری سے نشانہی بنائے ہوئے ہیں ۔عالم عرب میں جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں اٹھیں ہیں وہ اسی استحصالی اور کالونی نظام کے خلاف ہی اٹھی ہیں ۔خواہ وہ شدت پسند القاعدہ ہو یا اب داعش ہو ۔یا امن پسند اخوان اوردیگر فلسطینی تحریکیں ہوں ۔عرب میں سب سے پرانی تنظیم اخوان المسلمون ہے جو اسی مغربی استعمار کے خلاف اور مسلمانوں کی اصلاح کیلئے وجود میں آئی تھی ۔اس تنظیم نے حتی الامکان کوش کی کہ تحریک میں کبھی شدت پسندوں کا داخلہ نہ ہو اور نا ہی تنظیم اس جانب جانے پائے ۔لیکن انہیں بری طرح کچلنے کی بار بارکوشش کی گئی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں سے ایک گروہ نکل کر پہلے القاعدہ اور اب داعش کا وجود دنیا کے لئے دہشت کا سبب بنا ہوا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی یہ راستہ اختیار کیا ہے ۔لیکن جب کسی ایسے سمجھوتہ کی مدد سے انہیں کسی آزاد ملک میں رہنے میں مشکلات درپیش ہوں ۔بار بار ان پر دہشت گردی کا مجرم قرار دے کر بھیڑ بکریوں کی طرح کہیں بھی قتل کردیا جائے تو پھر وہ دن تو آنا ہی ہے جب انمیں سے کچھ لوگ قتل و غارتگری کیلئے نکل کھڑے ہوں ۔اس کے باوجود مسلمان چونکہ ہر وقت اللہ کے ڈر اور آخرت کی جوابدہی کے سائے میں زندگی گزارتا ہے اس لئے وہ کسی ناحق قتل کے جرم کی سنگینی سمجھتا ہے ۔وہ بدلہ اور انتقام کی راہوں پر بھی حد سے تجاوز نہیں کرتا ۔اس کے بعد سازشی ذہنوں کی کرم فرمائی سے اس کی ہم نام تنظیم کھڑی کی جاتی ہے جو اس کے نام سے قتل کیا کریں اور الزام ان کے سر ڈال دیا جائے ۔یہ سب کچھ دنیا کے کونے میں وہاں کی حکومتیں کرتی ہیں ۔اس میں نام نہاد قومی سلامتی کا بہانہ انکے چھپنے کی بہترین جگہ ہوا کرتی ہے ۔ایسے ہی بہانوں سے بے گناہوں کو بھی ہلاک کیا جاتا ہے اور کچھ نہیں ہوا تو اسے حق بجانب ٹھہرانے کیلئے اپنے لوگوں کو بھی قتل کردیا جاتا ہے ۔ایسا مصر ایران اور ہندوستان سب جگہ ہوتا ہے ۔کچھ دن قبل ہی مالیگاؤں دھماکوں کے دو مفرور ملزم کے بارے میں سابق اے ٹی ایس افسر نے بتایا تھا کہ انہیں قتل کردیا گیا ہے ۔بہار میں چارہ گھوٹالے کے کئی گواہ اسی طرح مادیئے گئے ۔ایک یا دو سال قبل مدھیہ پردیش سے آنے والی تعلیمی بدعنوانی کی سب سے بڑی خبر تھی جس تقریبا پچاس سے زائد گواہان یا اس سے منسلک افراد مختلف جگہوں پر چوہوں کی طرح مرے پڑے ملے ۔آشا رام کے جرموں کے بھی کئی گواہ قتل کردیئے گئے۔یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ جو لوگ بڑی قوتوں کے آلہ کار ہیں خواہ ان کی شناخت مذہبی ہو یا سیاسی ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دی جائے ۔اسی طرح جب کسی تحریک سے دنیا کی استعماری قوتوں کو چیلنج دینے کی تحریک کے پنپنے کا خدشہ ہوتا ہے تو اسے اسی طرح بدنام کرکے ہلاک کیا جاتا ہے یا پھر ان کی عوامی ہمدردی ختم کی جاتی ہے ۔وطن عزیز میں چونکہ ایک گروہ جو مسلمانون اور پسماندہ طبقات پر اپنی برتری برقرار رکھنا چاہتا ہے جس کی آبادی ساڑھے تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے اس لئے وہ فرضی خطرات سے لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنی برتری کیلئے راہیں ہموار کررہا ہے ۔ان ہموار راہوں کا نام ہے ملک کی سلامتی اوردہشت گردی ہے اور اس کیلئے ان کے سامنے داعش سے بہتر کیا نام ہو سکتا ہے ۔اب داعش کا خطرہ تاج محل پر منڈلانے کا خوف اور پاکستان میں غائب ہندوستانی شہریوں کے تار داعش سے جوڑنے کا کارنامہ اسی کڑی کا حصہ ہے ۔بھلا جنہوں نے تاج محل کو غلامی کی نشانی اور جن کے ایک مصنف نے تاج محل کو تیجو مہالیہ مندر قرار دیا ہو سمجھا جاسکتا ہے کہ تاج محل کو حقیقی خطرہ کس سے ہے ؟

0 comments:

featured

سپنوں کے سوداگر کی جیت سے مسلمان کیوں ہراساں ہیں؟

نہال صغیر
جمہوریت میں عوا م کی اکثریت جس جانب جھک جائے حکومت اسی کی بنتی ہے ۔اتر پردیش میں بھی بی جے پی کے شہنشاہ سپنوں کے سوداگر نے عوام کو اپنے وعدوں اور کرنسی منسوخی کے احمقانہ فیصلوں کو اپنی منظوری دیدی ۔جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ ملک میں نوے فیصد لوگ مورکھ(احمق ) ہیں ۔حالیہ اتر پردیش میں بی جے پی کی جیت نے یہ ثابت کردیا ہے ۔ بہر حال یوپی میں انتخابی نتائج نے بی جے پی کو شاندار جیت دلادی ہے ۔اس جیت سے بی جے پی بہت زیادہ خوش ہے کیوں کہ یہ ایک تاریخی جیت ہے ۔ممکن ہے اس جیت سے ان کے بد زبان لیڈران جوش میں مزید بیہودہ گفتگو کا سلسلہ دراز کردیں ۔ ان باتوں سے ملک کا ماحول خراب ہوتا ہے فضا میں سر اسیمگی پھیلتی ہے لیکن کیا مسلمانوں کو بھی کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرنا چاہئے جس سے یہ پیغام جائے کہ بی جے پی کی اس جیت سے اور سماج وادی ،کانگریس اور بہوجن سماج کی ہارسے مسلمان بہت اداس ہیں ۔یہ پیغام ہر گز نہیں جانا چاہئے ۔انتخابی نتائج پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ہم مسلم ووٹوں کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی مسلم ووٹ تقسیم ہوا ہے ۔یہ بات سیکولر پارٹیوں کے لئے قابل غور ہے کہ ان کا ووٹ کہاں گیا ؟اکھلیش یادو بھی اچنبہ میں ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ۔انہوں نے کہا کہ شاید عوام کو بلیٹ ٹرین چاہئے ۔لیکن ہمارے لئے بحیثیت مسلمان اس پر ہائے توبہ کرنے یا واویلا مچانے کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ہم تو آزادی کے بعد سے ہی ہندوراشٹر میں جی رہے ہیں ۔بس فرق اتنا ہے کہ آج سے قبل تک جو لوگ ہندوراشٹر کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں مصروف تھے وہ بڑے گھاگ اور مشاق افراد کا گروہ تھا اور اب جن لوگوں کے ہاتھوں اقتدار آیا ہے وہ ذرا غیر مہذب اور جلد باز ہیں بس اس سے زیادہ فرق نہیں ہے ۔لیکن ہمارا موضوع فی الحال ہندو راشٹر یا اس کے نمائندے کی حکومت نہیں ہے ۔جتنی منھ اتنی باتیں ۔کوئی کہتا ہے کہ یوپی کے سارے لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندو ہو گئے اور انہیں ہندو اسد الدین اویسی کی تقریروں نے بنایا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اب ذات پات کی سیاست ختم ہو گئی ہے ۔
موجودہ سیاسی حالات جیسے بھی ہوں اس میں مسلمانوں کو ماتم کرنے اور واویلا مچانے جیسی کوئی بات نہیں ہے ۔ان حالات میں پورے ملک کے وجود کا ہے ۔یہ تنہا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ سب سے زیادہ دیش بھکت بن کر دکھانے کی کوشش میں خود کو اس دلدل میں پھنسا لیں جس میں نام نہاد سیکولر اور جمہوریت کی ڈفلی بجانے والے انہیں پھنسانا چاہتے ہیں ۔یہ ان کے سیاسی وجود کا مسئلہ ہے مسلمانوں کا نہیں۔وہ اپنی لڑائی مسلمانوں سے لڑوانا چاہتے ہیں ۔ مسلمان اس سے زیادہ برے حالات میں جیا ہے اور انشاء اللہ جئے گا ۔مسلمانوں کا ایمان اللہ پر ہے ان کا ایمان اللہ پر ہی رہنے دیں ۔جن کا ایمان سیکولرزم اور جمہوریت پر ہے وہ اپنی خیر منائیں ۔اسلام اور اس کے ماننے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو کسی جمہوریت اور سیکولرزم کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔یوپی اور آئندہ شاید پورے ملک میں جب بی جے پی کی حکومت ہو جائے گی تو یہ سماج واد کا نعرہ لگانے والے اور مسلمانوں کو فسادیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا!وہ خیال کریں کہ ان کاوجود کیسے برقرار رہے گا ؟ستر برسوں تک مسلمانوں نے ان کا بوجھ اٹھایا اب وہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے ۔ان کی فکر میں مسلمان اپنی دینی ذمہ داری اور اپنے داعی امت ہونے کے فرائض کو بھلا بیٹھے ۔اگر وہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو ادا کررہے ہوتے تو آج ان کے لئے جو لوگ پریشانی کی بات کرتے ہیں کہ ایسا اور ویسا ہو جائے گا یہ بات ہی نہیں ہوتی ۔اب بھی مسلمانوں کیلئے کرنے کے وہی کام ہیں جو انہیں چودہ سو سال قبل سونپا گیا تھا ۔اس لئے جتنی جلدی ہو سکے وہ اپنی صفوں میں ابتری کی صورتحال پر قابو پائیں ۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور دیکھیں کہ انہوں نے جن ذمہ داریوں کی اندیکھی کی تھی اس کو پورا کرنے میں تن من دھن سے لگ جائیں ۔ان کے لئے مسائل کھڑے کرنے والے خود ان کے دوست اور غمخوار بنتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ہم نہیں کہتے کہ آپ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں لیکن ہم آپ کو اس طرح ماتم کرتے اور واویلا مچاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ یہ وہی امت ہے جس میں چودہ سو سال پہلے جب یہاں کے سواحل پر قدم رکھا تھا تو یہاں ان کا کوئی استقبال کرنے والا نہیں تھا ۔ہر طرف بت پرستی اور عدم مساوات پر مبنی نظام کا بول بالا تھا ۔لیکن ان کے قد کیا پڑے یہاں کی سماجی ہیت ہی بدل گئی ۔لیکن افسوس اس کے بعد ان کے وارثین نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کی اور انہوں نے اسی برہمنی نظام پر چلنے ہوئے عدم مساوات کو اپنا کر اللہ کے قانون اور پسندیدہ دین سے رو گردانی کی اسی کی سزا آج ہم کو ملنا شروع ہو گئی ہے ۔

0 comments:

featured

ابھی مہلت عمل ہے

قاسم سید 
گہری نیند کے خواب حقیقتوں اور تعبیروں سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں، لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب محرومیوں اور نامرادیوں کے ایسے زخم دے جاتے ہیں جو برسوں میں نہیں بھرتے، انسان آنکھیں بند کئے تخیلاتی جنت کی طلسماتی وادیوں میں محو سفر ہوتا ہے۔ یکایک سر کسی زمینی حقیقت سے ٹکراتا ہے تو چیخیں نکل جاتی ہیں اور خواب کا سحر پرواز کرچکا ہوتا ہے، مگر طلسماتی دنیا میں رہنے کے شوقین ٹیس کم ہوتے ہی پھر تخیلات کے گھوڑے پر سوار ہوکر مطلوبہ جنت کے حصول میں آسمانوں کی سیر پر نکل جاتے ہیں، پھر کوئی ہوائوں کی سنامی زمین پر لاٹپکتی ہے۔ کامیابیوں کی ساری کہانیاں تخیلاتی سفر سے نہیں ارادے کی پختگی اور جہد مسلسل سے عبارت ہیں۔ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دینے، برا بھلا کہنے، کوسنے اور گالیاں دینے، چیخ و پکار کرنے، ہائے واویلا مچانے، گریبان پھاڑنے، سروں پر خاک ڈالنے، سینہ پیٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ رویوں کی منافقت، محنت سے جی چرانے کے ساتھ حقائق سے راہ فرار اس بات کی علامت ہے کہ خوداحتسابی کے تمام دروازے بند کرلئے ہیں۔
2014 میں جن چیلنجوں سے ہوکر گزرے بہار کے نتائج نے تھپک کر سلادیا، دہلی نے ان زخموں پر پہلے ہی مرہم رکھ دیا تھا، مگر ان دو ریاستوں میں ملی شکست کو ہر وقت تازہ دم رہنے والی فوج نے سنجیدگی سے لیا، ہمت نہیں ہاری، حکمت عملی پر نظرثانی کی اور اترپردیش میں ان دونوں مقامات کی شکست کا انتقام لیا اور حریفوں کو اس لائق بھی نہیں چھوڑا کہ وہ کسی دوسرے مورچہ پر مقابلہ کے لئے اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کرسکیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں وہ سپہ سالار ملا ہے جو ہمہ وقت ہر محاذ پر سرگرم رہنے پر یقین رکھتا ہے، دشمنوں کی یلغار سے نہیں گھبراتا، ان کے کمزور پہلوئوں پر گہری نظر ہے، وقت کے لحاظ سے چالیں بدلتا رہتا ہے، اس کے ترکش میں ہر سائز کے تیر ہیں، وہ یلغار سے لطف اندوز ہوتا ہے، اس کا ساتھ دینے کے لئے سوشل میڈیا سے لے کر زمینی کارکنوں کی فوج ہے، وہ منظم انداز میں کام کرتا ہے، جو ہندو مذہب کے روشن ستارے کے طور پر ابھرا اور سورج بن کر چمکنے لگا۔ اس کے پاس ٹھوس سیاسی نظریہ کے ساتھ سیاسی طاقت بھی ہے اور اس کو نافذ کرنے اور کرانے کے لئے ہر سطح کے رضاکار ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کو دیوار سے لگانے، کانگریس مکت بھارت بنانے کی مہم کو لگاتار کامیابی ملتی جارہی ہے، اس کا نصف سے زائد ہندوستان پر قبضہ ہوگیا ہے۔ پیش قدمی کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دور نہیں جب سیکولرازم اور جمہوریت تاریخ کی کتابوں میں پڑھانے کے لائق رہ جائیں، کیونکہ مخالف یا حریف کے پاس منفی نعروں، منفی سیاست، کھوکھلے وعدوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نظریہ کا مقابلہ نظریہ سے کیا جاسکتا ہے۔ مکوں کو فضا میں لہراکر نہیں ایک رخی سیاست ملک کو کدھر لے جائے گی، فی الحال کہنا بہت مشکل ہے، مگر 1925 میں آر ایس ایس کو جن مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا 2025 تک وہ زمین پر اترتا نظر آرہا ہے، اِلا یہ کہ سیکولرازم اور جمہوریت کا نام لینے والی سیاسی پارٹیاں خودغرضی کے خول سے باہر نکلیں، اَنا کی قربانی دیں اور ملک کو زعفرانی رنگ سے بچانے کے لئے حقیقی و عملی جدوجہد کریں، کسی کی قیادت پر متفق ہوں ورنہ ان کی چھوٹے تالابوں کی حیثیت بھی باقی نہیں رہے گی۔ لالو اور نتیش نے دشمنی کی حد تک اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنے وجود کی بقا کے لئے ہی سہی ہاتھ ملایا اور اس طوفان کو اپنی ریاست میں داخل ہونے نہیں دیا۔ اکھلیش اور مایاوتی اس فراست کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہیلی کاپٹروں میں گھوم کر عوام سے دور رہ کر بادشاہوں کی طرح ہاتھ ہلاکر ان کی دعائیں دامن میں سمیٹنے کی خواہش پالنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ عوام کو بہت دنوں تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ میچ وہ ٹیم جیتتی ہے جو اس دن مقابل سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہے۔ کسی ٹیم کا ورلڈ چمپئن ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر میچ جیتے گی، اگر سامنے والا کپتانی کے فیصلے اچھے کرتا ہے تو ورلڈ چمپئن کو بھی ہراسکتا ہے۔ جیسا نتیش کمار، لالو اور اروند کیجریوال نے کیا۔ خراب شاٹ لگائیں گے، ہر گیند پر چھکا لگانے کی کوشش کریں یا وکٹ پر کھڑے ہوکر صرف ٹک ٹک کریں تو ہار یقینی ہے۔ بہترین کپتان وہ ہے جو ہر میچ کے لئے وکٹ کے حساب سے حکمت عملی ترتیب دے۔ اب سنجیدگی سے غور کریں تو سامنے والے کے پاس ہر الیکشن میں صرف ایک ہی نعرہ فرقہ پرستی بنام سیکولرازم، بی جے پی کو ہرائو، مودی کا مذاق، ان کے طرز عمل کا استہزاء، ان کے جملوں پر سیاست ظاہر ہے یہ حربے ہر جگہ کام نہیں کرسکتے، خاص طور سے فرقہ پرستی بنام سیکولرازم کی لڑائی کے نعرے پر عام آدمی جن میں مسلمان بھی شامل ہے، یہ سوال کرتا نظر آیا کہ جب ہم پانچ سال فرقہ پرستی سے لڑنے کے لئے دیتے ہیں تو آپ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اس عرصہ میں فرقہ پرستی ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے اور ان کے نتائج کیا رہے۔ اگر ہر پانچ سال بعد یہی ایجنڈہ لے کر آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا یہ نعرہ محض ڈھکوسلہ ہے، ووٹ لینے کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں اور ان سے ملے ہوئے ہیں۔ جس مودی کو اٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتے ہیں، اپنی شادی تقریب میں ملائم سنگھ بلاتے ہیں اور دگوجے سنگھ بھی اسے سماجی اخلاقیات کا نام دیتے ہیں۔ رام گوپال خفیہ طور پر امت شاہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس کا انکشاف خود ملائم سنگھ کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے ملا ہوا ہے، پارٹی برباد کرنا چاہتا ہے۔ ملائم سنگھ گاہے بگاہے بی جے پی لیڈروں کی تعریف کرتے ہیں۔ بیٹے کو مضبوط کرنے کے لئے فیملی ڈرامہ رچتے ہیں اور پوری پارٹی اس جال میں پھنس جاتی ہے۔ راہل گاندھی مہینوں 27 سال بے حال کا نعرہ لگاتے لگاتے یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے کا راگ بھیروی الاپنے لگتے ہیں۔ مصنوعی اتحاد قائم کیا جاتا ہے، جو زمین پر نہیں اترتا، اس لئے کہ جہاں منافقت، ریاکاری ہو، اصول اور موقف کو پل بھر میں بدل دینے میں شرم و حیا محسوس نہ ہو۔ وہ عوام کا اعتماد کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف زعفرانی طاقتیں 2014 کے بعد سے ہی اترپردیش میں سرگرم ہوگئیں۔ 265+ کا ہدف طے کیا۔ آر ایس ایس کے رضاکار اور اس کی ذیلی تنظیمیں لگاتار شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم رہیں۔ ایک ایک گھر پر دستک دی، ہندوتو کی اہمیت کو سمجھایا۔ مسلم ووٹ بینک کے مفروضہ کو خوفناک حقیقت بناکر پیش کیا اور اس کے مقابلہ ہندو ووٹ بینک بنانے پر زور دیا۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں، ملک کو نیا بھارت بنانے کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دن رات ایک کردیا۔ ضرورت ہوئی تو اپنے وزیراعظم کو ایک شہر میں تین دن قیام کرایا، روڈشو ہوئے، وہ گلیوں میں گیا اور پورے علاقہ کو کیسریائی رنگ میں بدل دیا۔ تجزیہ کار کہتے رہے کہ حالت پتلی ہے، اس لئے کیمپ کرنے پر مجبور ہیں، اپوزیشن نے بھی مذاق اڑایا مگر جب نتیجہ آیا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مسلم ووٹ بینک نہ پہلے کبھی تھا نہ ہے، یہ مفروضہ پیدا کیا گیا۔ انتخابی سیاست کے حربے اور تماشے ہی الگ ہوتے ہیں۔ ہم صرف سمندر میں تیرنے والے خس و خاشاک کو دیکھ کر تجزیہ طے کرتے ہیں، اس کی گہرائی میں اترنے کی زحمت نہیں کرتے۔ سمندر کے اندر موجود لہروں کا اندازہ نہیں کرتے۔ جذباتیت، سطحی سوچ اور خوابوں کے برخلاف تعبیر پر اظہار برہمی صرف کھسیانیت، جہالت اور تکبر کا پتہ دیتا ہے کہ ہم اپنی روش اور چال بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ہم نے جو توہمات، تصورات اور خیالات ذہن کے ابابیلی گھونسلوں میں پال رکھے ہیں، مرغی کے انڈے سے ہاتھی کا بچہ پانے کی خواہش رکھتے ہیں اور برعکس نتائج آتے ہیں تو مورد الزام انڈے کو قرار دیتے ہیں۔ جب مرض کی تشخیص نہیں ہوگی، علاج بھی صحیح نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے پاس حکماء و اطباء کی وافر تعداد ہے اور بفضل تعالیٰ ہر شخص حکیم و طبیب ہے اور نادر نسخہ تجویز کرتا رہتا ہے اور بضد ہے کہ یہی نسخہ شافی و کافی ہے۔
لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اور مسلمان اترپردیش کے نتائج کو کھلے دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہ ذہنی طور پر مفلوج ہیں، ای وی ایم میں گڑبڑی سے متعلق نت نئے انکشافات اس کا ایک مظہر ہے۔ یہ کہنا کہ بی جے پی کو ووٹ کم ملا ہے، اترپردیش کے ساٹھ فیصد عوام ہندوتو کی آئیڈیالوجی کے خلاف ہیں، صرف خودفریبی اور حقائق سے آنکھیں چرانا ہے۔ منظم فوج کروڑوں کی تعداد میں نہیں ہوتی، مگر وہ ملک پر قابض ہوجاتی ہے، جس کی آبادی فوج سے کئی سو گنا ہوتی ہے۔ سماجوادی پارٹی کو 2012 میں کم و بیش 30 فیصد ووٹ ملے تھے، کیا اس وقت یہ کہا گیا کہ اترپردیش کے 70 فیصد عوام ایس پی کے خلاف ہیں۔ کانگریس نے اقلیتی اکثریت کے سہارے 60 برس حکومت کی تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ملک کے زیادہ تر عوام اس کے ہمیشہ خلاف رہے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ہم کبھی مرض کے اسباب تلاش نہیں کرسکیں گے۔
اور ہاں، مسلمان موجودہ سیاسی صورت حال کے قطعی ذمہ دار نہیں ہیں، وہ چٹان کی طرح سیکولر اقدار کے تحفظ کے لئے کھڑے رہے، باقی ساری مذہبی اکائیاں اور برادریاں ہندوتو کی ترپال میں چلی گئیں، حتیٰ کہ یادو بھی داغ مفارقت دے گئے۔ جو لوگ اویسی یا ایوب کو ذمہ دار قرار دینا چاہتے ہیں وہ سیکولر پارٹیوں کی مکاریوں اور منافقتوں کا دفاع کرنے کو اوّلیت دے رہے ہیں۔ کوئی پارٹی ’ثواب دارین‘ کے لئے قائم نہیں کی جاتی، ووٹوں کی سیاست پر سب کا حق ہے۔ یہ سوال ضرور کرئیے کہ اگر آپ واقعی مودی یا بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے تئیں نیک ارادہ رکھتے ہیں تو ایس پی اور بی ایس پی نے ہاتھ کیوں نہیں ملایا؟ ہم نے تو ہر اس پارٹی کو خون پلایا جس نے مذاق میں بھی سیکولرازم کا نام لے لیا، جو بھی پیار سے ملا ہم اسی کے ہولئے، کسی کو مایوس نہیں کیا، جس نے بی جے پی ہرائو کا نعرہ مستانہ لگایا اس پر لبیک کہا۔ یہ سادہ لوحی ہے یا سیکولرازم کے تئیں اٹوٹ وفاداری، دونوں صورتوں میں کسوٹی پر کھرے اترے ہیں۔ خاندانی سیاست اور شخصی بادشاہت کو چائے پلانے والے نے چیلنج کیا ہے، اس کے پاس ہندوتو کا نظریہ ہے، ملک کو ’نیو انڈیا‘ میں بدلنے کا خواب، آپ کے پاس کیا ہے؟

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

featured

چمن سرور کا جل گیا


محسن عثمانی ندوی

    ۱۱  مارچ ۲۰۱۷ کی شام کو سراج اورنگ آبادی کا یہ مصرعہ بہت یاد آیا ’’ چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا ‘چمن میں بادصرصر چلی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ قومیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں، اور انھیں سے ان کی قوت اورزندگی کا اظہار ہوتا ہے، انھیں سے ان کے اندر مدافعانہ قوت کی نشو ونما ہوتی ہے، جو لوگ سخت سردی یا سخت گر می کے موسم میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کی جسمانی قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔افراد کی طرف قومیں بھی مخالفت کی آندھیوں کے درمیان رہ کر خود کو زیادہ طاقتور اور ناقابل تسخیر اور حوصلوں سے معمور بنالیتی ہے، ان کے لئے سخت اور جانگسل حالات قدرت کی طرف سے انعام ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اور صحابہ کرام نے مکی دور میں بہت سی پریشانیاں برداشت کیں، لیکن مشکلات کے خاردار صحرا میں وہ ثابت قدم رہے، یہی نصیحت اقبال نے کی ہے
                                     کانپتا ہے ۔دل دل ترا اندریشہ طوفاں سے کیا
                                     نا خدا تو بحر  تو کشتی  بھی  تو  ساحل  بھی  تو
    ہمیں خود احتسابی کی شدید ضرورت ہے، ہم نے ہمالیہ پہاڑ کے برابر غلطیاں کی ہیں، یوپی کے الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ بری طرح تقسیم ہوگئے ، سیاسی پارٹیوں کے درمیان اور پھر ایک مسلم پارٹی کے درمیان جس نے مسلمانوں کے پاکٹ میں اپنے امید وار کھڑے کئے تھے ،جب مسلم قائدین صحیح رہنمائی سے قاصر ہوں اور جب مسلمانوں میں اتنا بھی اتحاد نہیں ہو کہ وہ سب مل کر اور اصابت رائے سے ووٹ دینے کا صحیح فیصلہ کر سکیں تو اس کا نتیجہ تو یہی ہونا تھا جو سامنے آیا،جہاں مسلمان تیس اور چالیس فی صد تھے اس تفرقہ اور اختلاف کی وجہ سے وہاں بھی ان کا امیدوار جیت نہیں سکا کیونکہ ان کے ووٹ تقسیم ہوگئے تھے۔
     تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ مسلم قائدین اور علماء میں بھی بصیرت اور اخلاص کی کمی بھی پائی جاتی ہے،ان کا کردار بھی بلند نہیں ہے ، بڑے بڑے اداروں مدرسوں اور تنظیموں میں اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کے واقعات جو پیش آتے ہیں وہ اسی سبب سے پیش آتے ہیں کہ اوپر کی قیادت کی صف میں کچھ لوگوں میں اخلاص ختم ہوجاتا ہے اور ان کا کردار داغدار ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حفاظت کا شامیانہ اٹھالیا جاتا ہے ابلیسی قوتیں اپنا کام کرنے لگتی ہیں بظاہر دیکھنے میں یہ لگتا ہے کہ فلاں شخص کے فلاں کام کی وجہ سے یہ برا وقت آیا ہے اور ادارہ کونقصان پہونچا ہے اور پھرایک دوسرے پر الزام اور اتہام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ہم قیادت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایسے اشخاص ملتے ہیں جن کے یہاں عہدوں کی ہوس اور جاہ ومال کی طلب موجود ہے وہ سیاسی لیڈروں کی طرح پیترا بازی کرتے ہیں اورشاطرانہ چال چلتے ہیں ،وہ قامت کی درازی کا بھرم قائم رکھنے کے لئے اپنے ناموں کے ساتھ القاب لگواتے ہیں جب کہ یہ القاب ان کی قامت پر راست نہیں آتے ، ان کے مزاج میں رعونت پائی جاتی ہے ،یہ امراض ہیں جو خواص کو لاحق ہوچکے ہیں ، ان عیوب کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ یہ عیوب اللہ کے یہاں ناپسندیدہ ہیں ۔اور ان عیوب کی وجہ سے پوری امت آسمانی حفاظت کی چھتری سے محروم ہوجاتی ہے ۔یہ وہ افراد ہیں جن کی اصلاح نہیں ہوئی تو ملت کی کشتی خطرہ سے دوچار ہوسکتی ہے ۔
  یوپی کے الیکشن کے نتائج نے ملت اسلامیہ کے مستقبل کے بارے میں اندیشے پیدا کردیئے ہیں۔ پرسنل لا کو ختم کرنے کا عہد تو بی جے پی کے منشور میں شامل ہے  ہندو تہذیب کے غلبہ کا وہ عہد کرچکی ہے وہ وقت قریب ہے کہ راجیہ سبھا میں اس کی اکثریت ہوجائے اور اس کے بعد قانون اور دستور کو بدلنا اس کے لئے بہت آسان ہوجائے گا ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کی جاچکی ہے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ہے ، الیکشن کے نتائج اسی فضا کے آئینہ دار ہیں ۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کو شرپسنداور دہشت گرد اور سازشی سمجھاجانے لگاہے ۔یہ ایک نظریہ ہے جو پروان چڑھ رہا ہے ، ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی سوچ ایک ہے اور یہ سوچ ہر جگہ قبول عام اختیار کرہی ہے ۔یوپی کا الیکشن چشم کشا ہے، بہر حال اب تو جو ہوناتھا وہ ہو چکا، اب سب سے پہلے ہمیں اپنے پروردگا ر کی طرف رجوع کرنا چائیے اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی مالک الملک ہے ، تمام حکومتوں کا مالک وہی ہے، وہی جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کر تا ہے اور اسے زمین کا وارث بناتا ہے ، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار حکومت چھین لیتا ہے ، جسے چاہتا ہے عزت عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے ، ا سی کے ہاتھ میں خیر ہے ، اقتدار کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے، مسلمانوں کو اللہ سے خیر وعافیت طلب کرنا چاہئے، اور باطل کے سامنے سر نگوں ہونے سے ہر حال میں پر ہیز کرنا چاہئے ، یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ کشمکش اور کشاکش کی دنیا میں بقاء انفع کا قانون جاری ہے، قدرت بہتر کا انتخاب کرتی ہے تاکہ خدا کی پیدا کی ہوئی دنیا کا انتظام درست ہو، اور جب حکمراں قوم اپنی اہلیت کھو دیتی تو پھر وہ معزول کردی جاتی ہے، یہ جو سیاسی انقلابات آتے ہیں، اس میں اللہ تعالی کی پوشیدہ مصلحتیں ہوتی ہیں، اگر مسلمانوں کے اندر جو ہر قابل پیدا ہوجائے، تو ممکن نہیں کہ انھیں عزت اور اقتدار سے سر فراز نہ کیا جائے باضابطہ طریقہ سے ملک میں ہر سطح پر کوشش ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان صالح بھی ہو اور صلاحیت والا یعنی تعلیم یافتہ بھی ہو، اور اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کردارواخلاق کی خوشبو سے اسلام کا معطر اشتہار بن جائے۔
    مسلمانوں کو بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، صرف مثبت اور تعمیری کاموں میں مصروف ہونے کی ضرورت ہے، اگر مسلمان اپنی قومی زندگی کے اس خطر ناک اور نازک موڑ پر یہ عہد کرلیں وہ اپنے دین کے کسی جزء سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں، اور یہ عہد کرلیں کہ وہ حسن عمل اور کردار اور اخلاق میں ممتاز بنیں گے، اور اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں گے، اور اپنے وقت کو ضائع نہیں کریں گے، وہ برادران وطن سے اور خاص طور پرپسماندہ اور مظلوم طبقات سے مضبوط تعلقات قائم کریں گے ۔ اپنے اندر نافعیت کی صفت پیدا کریں گے ،دوسروں کیلئے خیرخواہ اور ہمدرد ثابت ہوں گے ، اگر وہ اس ملک میں برادران وطن سے زیادہ فائق ، ممتاز اور بااخلاق بن کر رہیں گے تو وہ اس ملک میں بوجھ نہیں ہوں گے، اور ان کی قدرو منزلت میں اضافہ ہوگا، تعلیم کے میدان میں پیش رفت سے اقتصادی حالات بہتر ہوں گے اور اقتصادی حالات کی بہتری سے تعلیم کے میدا ن میں پیش رفت ہوگی۔یہ سمجھ لینا چاہئے جو قیادت مسلمانوں کو سنگھرش کے راستہ پر لے جانا چاہتی ہے وہ کم عقل اور غلط اندیش قیادت ہے اس ملک میں مسلمانوں کو قرآن مجید نے راستہ بتا یا ہے  ادفع بالتی ہی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم یعنی اے نبی برائی کو اس نیکی سے دفع کرو جو سب سے احسن ہو تب تم دیکھو گے کہ وہ شخص جس سے تمہاری دشمنی ہے وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ۔
    برادران وطن کے ساتھ اور بالخصوص پسماندہ طبقات کے ساتھ مسلمانوں کو گہرے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو اپنے حسن عمل اور تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعتبار سے دوسروں سے ممتاز بننا پڑے گا، اسلام پر اور مسلمانوں کی تہذیب اور ـعائلی قوانین پر جو اعتراضات ہیں اس کا بہت مدلل جواب تیار کرنا ہوگا، انگریزی اور مقامی زبانوں میں اس کے ترجمے کرنے ہوں گے ان کتابوں کو جج اور وکلاء اور اہل فکر وعلم کے درمیان تقسیم کرنا ہوگا،اسلام کے تعارف کے کام کے ساتھ اور حسن اخلاق اور اعلی کردار کے ساتھ اچھی تعلیم برادران وطن کے دلوں کو مسلمانوں کا شیدائی بنا سکتی ہے، اس وقت مسلمان دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں وہ جو کبھی شاہ زمن تھے اور خسروئے اقلیم وطن تھے وہ جارو ب کشوں کے درجہ تک پہنچ گئے ہیں، سچر کمیٹی کی سفارشات اوررنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی رپوٹ سب کے علم میں ہے ہمیں کمزوریوں کا مداوا خود کرنا ہوگا، اور مسلمانوں کو اس کے لئے تیا ر کرنا ہوگا کہ وہ خود اسلام پر عمل کریں گے اور اپنے بچوں میں اسلامی غیرت اور حمیت پیدا کریں گے خود روکھی سوکھی روٹی کھائیںگے لیکن اپنے اولاد کی تعلیم سے غافل نہیں ہوں گے اور تعلیم میں ممتاز ہونے کے لئے وہ دوسروں سے زیادہ دوگنی محنت کریںگے۔اور اپنا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔اور تعلیم کے میدان میں اپنا امتیاز قائم کریں گے ۔خدمت خلق کو اپنا شعار بنائیں گے ،کیونکہ اسلام میں اس کی تاکید بہت ہے اور یہ دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ ہے ، مسلمانوں کے ہر ادارے میں خدمت خلق کا شعبہ قائم ہونا چاہئے ۔
  ہمیں مستقبل میں ایسی نسل کی ضرورت ہے جو برادران وطن سے ان کی زبان میں ڈائیلاگ کرسکے ،مذہبی اور سماجی مسائل پر مکالمات کرسکے اورجو پورے اعتماد کے ساتھ ان سے ہمکلام ہوسکتی ہو ہمیں ایسے سیکڑوں علماء کی ضرورت ہے جو برادران وطن کے مذہب سے ان کی تہذیب سے ان کی تاریخ سے اور ان کی نفسیات سے واقف ہوں اس عظیم کام کے لئے برادران وطن کے مذہب اور ان کی تہذیب کا اور ان کی کتابوں کا عمیق مطالعہ ضروری ہے ان کی زبانوں سے واقفیت ضروری ہے اس کام کا شعور عیسائیوں کو ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں ہے عیسائی مسلمانوں میں کام کرنے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں اس کیلئے ان کے ہاں شعبے قائم ہیں مسلمانوں کے دینی تعلیمی اداروں کو اس کام کی کوئی فکر نہیں ہے ، اس اہم کام کا انتظام شروع سے دینی مدارس میں ہونا چاہئے حیدرآباد سے دہلی تک اور دہلی سے سہارنپور تک اور یوپی سے گجرات تک مدارس کے ذمہ داروں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال رکھی ہیں اور اسلاف نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق جونصاب بنایا تھا اب بدلے ہوئے حالات میں بھی انہیں اسی پر اصرار ہے اور وہ تبدیلی کے روادار نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انتخابات کے ہوش ربا نتائج کے بعد بھی مدارس کے ذمہ داروں کو ہوش آئے گا یا نہیں ۔کیا انہیں اس بات کی خبر ہے کہ اس ملک کو اسپین بنانے کے ارادے بھی پائے جاتے ہیں ؟ اگر ہم اب بھی نہیں جاگیں گے تو پھرجاگنے کے لئے ہم کو صور اسرافیل کا انتظار کرنا ہوگا ۔
      جب ۲۰۱۴ کے انتخابی نتائج سامنے آئے تھے اور حالات نے نیارخ اختیار کرلیا تھا اس وقت بھی اس سے ملتی جلتی باتیں کہی گئی تھیں اور اس الیکشن کے بعد تو خطرہ تمام حدود کو پار کرگیا ہے ،اب قانون اور دستور کو بدل کر صرف پرسنل لا اور بابری مسجد نہیں بلکہ عقیدہ کی فصیل پر بھی  حملہ ہونے والا ہے اب تو مسلمانوں میں حشر برپا ہوجانا چاہئے مردوں کو بھی کھڑاا ہوجانا چاہئے لیکن وہ قوم جس نے انکار وجحود کی تمام سنتیں ہمیشہ تازہ کی ہیں کیا اب وہ خطرہ عظیم کے بعد عقل کی بات سننے کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور کیا مسلم قیادت اپنی اصلاح کے لئے تیار ہوسکتی ہے اور اپنی کمزوریوں کوسمجھ سکتی ہے اور رجوع الی اللہ پرآمادہ ہوسکتی ہے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل ترتیب دے سکتی ہے ؟



0 comments: