میرے دیش کی دھرتی

6:47 PM nehal sagheer 0 Comments


کسی فلم کا گانا تھا ’میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے ،اگلے ہیرے موتی‘اس کے علاوہ عرصہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ ہمارا ملک سونے کی چڑیا ہے ۔لیکن یہ ماضی کی باتیں ہیں ۔عرصہ ہو گیا جب ملک کی زمین سونا اور ہیرا اگلنے کے بجائے ایسے سپوتوں کو جنم دے رہی جس نے انسانیت کو کہیں جنگل میں دفنا کر حیوانیت کا ننگا ناچ انسانی آباد یوں میں جاری کر رکھا ہے ۔دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی جمہوریت کی پہچان اب ایسے ملک کی بن گئی ہے جہاں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ملک کی زمین پر آگ اور خون ہر طرف بکھر ا ہے ۔کچھ سوالات اٹھتے ہیں ۔پھر سب کچھ ویسا ہی ہو جاتا ہے ۔ہر طرف خاموشی اس وقت تک کے لئے جب تک کوئی نیا سانحہ رونما نہ ہو جائے یا کیا جائے۔یہاں جانوروں کو تقدس کا درجہ حاصل ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ملک میں آج پہلی بار یا اچانک گائے کو تقدس حاصل ہو گیا ہے ۔پہلے بھی گائے مقدس تھی لیکن اس وقت انسان پر فوقیت حاصل نہیں تھی۔پوری دنیا ہم پر تھوک رہی ہے کہ یہ کون سی تہذیب کے علمبردار ہیں جہاں جانوروں کے لئے انسانوں کا قتل جائز ہے ۔بھلا ایسے میں ہم دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ہم انسانیت کے بہت بڑے بہی خواہ ہیں ۔ہم نے آگے بڑھ کر کسی ملک پر کوئی حملہ نہیں کیا ۔یہ ثبوت ہے ہماری انسانیت نوازی کا۔اس کے برعکس وہ ہنستے ہوں گے کہ یہ جو لوگ بین الاقوامی فورموں پر انسانیت کا درد بیان کرتے ہیں انسانوں کی ہمنوائی اور اس کی فلاح کی بات کرتے ہیں کیا یہ لوگ منافق نہیں ہیں ؟آخر دنیا کے سامنے انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لئے اپنی سنجیدگی بیان کرتے نہیں تھکتے خود ان کے یہاں قانون و انتظامیہ کے زیر سایہ جانوروں کے لئے انسانوں کا قتل ہو رہا ہے ۔دوسروں کو حقوق انسانی کا درس دینے والے دہشت گردی کے خلاف اپنی فکرمندی دکھانے والے نہتے لوگوں پر گولیاں برسادیتے ہیں اور کوئی سوال اٹھاتا ہے تو اس کوقومی سلامتی کا حوالہ دے کر خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔گویا ملک کی سلامتی مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر کی جائے گی؟
ہر دن کچھ نہ کچھ ہنگامہ بپا ہے۔کوئی نہ کوئی نیا شگوفہ چھوڑتا ہی رہتا ہے ۔اب ایک سادھو کا ایک مضحکہ خیز مطالبہ سامنے آیا ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گائے کو قانونی طور پر انسان کا درجہ دیا جائے ۔چلئے صاحب ہو سکتا ہے موجودہ حکومت گائے کو قانونی طور پر انسان کا درجہ دیدے ۔اب اس سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دنیا کی مہذب اور سائنسی طور پر انتہائی ترقی یافتہ قوموں کے بیچ ایک عجیب و غریب قوم کی صورت میں پہچانے جائیں گے ۔آج بھی ہماری کوئی کم ہنسی نہیں اڑتی ہے گنیش کے ہاتھی والے سر کے لئے کہا گیاکہ ہزاروں سال قبل بھی ہندوستان سائنس میں کتنا ترقی یافتہ تھا کہ انسان کے جسم پر ہاتھی کا سر فٹ کردیا تھا اور اس دور میں ہوائی جہاز سے بھی زیادہ ترقی یافتہ یان موجود تھے جو پلک جھپکتے میں ایک لوک(سیارہ )سے دوسرے لوک تک پہنچ جاتے تھے ۔یہ اور بات ہے کہ جانے وہ ترقی وہ سائنس کہاں دفن ہو گئے کہ اب ہمیں مریخ پر اپنے سیارے کو پہنچانے میں ایک سال لگ گیا۔اس سلسلے میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ہم تفنن طبع کا ذریعہ بن گئے ۔ہمارا وجود ہر جگہ مزاح کے لئے جانا جارہا ہے۔
گائے کو انسانی حیثیت دیئے جانے کے بعد اس کے لئے بنیادی انسانی حقوق کی بات بھی سامنے آئے گی ۔ان کی رہائش کے لئے تو خیر ابھی سے ہی گؤ شالہ موجود ہے ۔لیکن انسانی حیثیت مانے جانے کے بعد اب ان کی تعلیم و تربیت کے لئے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیز کی بھی ضرورت ہو گی جہاں گائے کے بچے تعلیم حاصل کریں گے ۔معاملہ یہیں پر نہیں رکے گا اس سے آگے گائے کی زچگی کے لئے زچہ خانہ اور ان کی بہتر صحت اور اس کی دیکھ ریکھ کے لئے بہترین ہسپتال کی ضرورت ہو گی ۔گؤ شالوں میں ایک اضافہ اور کرنا ہو گا کہ ان کے لئے بیڈ روم اور اٹیچ باتھ روم کی سہولت بھی مہیا کرانی ہو گی ۔جبکہ یہاں ابھی تک انسانوں کو ہی ان کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہو ئے ہیں ۔ مسلمانوں کی جانب سے کوئی اعتراض بھی نہیں ہو گا ۔آپ جو چاہیں کریں آپ کی حکومت ہے جس کو چاہیں جانور سے انسان بنائیں اور جس کو چاہیں انسان سے جانور بنادیں ۔اب دنیا کیا کہتی ہے اس کے تعلق سے آپ کچھ بھی نہ سوچیں ۔آپ نے اب تک دنیا کی فکر نہیں کی تو اب کیوں کریں ۔آخر دنیا ہمارا مذاق اڑا کر ہی کیا کرلے گی ہم تو مستقبل کے سوپر پاور ہیں اور کس کی مجال ہے جو سوپر پاور کے آگے زبان کھولے ۔آپ نے اس کی شروعات بھی کردی ہے دھونس اور دباؤ تو ابھی سے ہی عمل میں لایا جارہا ہے ۔این ڈی ٹی وی پر یک روزہ پابندی اسی کا ایک حصہ ہے ۔اس چینل نے بھی ابھی تک آپ لوگوں سے احتجاج نہیں کیا ہے تو دوسروں کی کیا مجال ۔سب کچھ آپ کے قابو میں ہے ۔زبان پر تالے لگاتے جائیے کوئی نہیں بولے گا ۔سب خاموش رہیں گے ۔ ہم بھی خاموش ہو جائیں گے یا کردیئے جائیں گے ۔آپ کے لئے راستے صاف ہیں ۔کوئی رکاوٹ نہیں اپنا ایجنڈا نافذ کرتے جائیں

0 comments: