فرضی انکائونٹراورآزاد ہندوستان کے جنرل ڈائر!
نہال صغیر
یہ کہنے میں بات عجیب لگتی ہے کہ آزاد ہندوستان میں بھی جنرل ڈائر کی ذریت موجود ہے ۔انگریزوں کے دور میں تو ایک ہی جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہوا تھاجس میں ایک ہزار افراد ہلاک اور گیارہ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے لیکن آزاد ہندوستان کے درجنوں جلیانوالہ باغوں نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا ۔جلیا نوالہ باغ قتل عام جس نے بالآخر انگریزوں کی حکومت کی چولیں ہلادی تھیں ۔ بھوپال میں آٹھ مسلم نوجوانوں کا انکائونٹر کے نام پر قتل درندگی اور بہیمگی کی ساری حدوں کو عبور کرتا ایک ایسا سیاہ کارنامہ ہے جس کی مہذب معاشرے میں مثال نہیں ملتی لیکن وطن عزیز کی لیلا نرالی ہے ۔یہاں انسانیت کو شرمسار کرنے والے کارنامے روز انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اس پر معمولی چیخ پکار کے علاوہ آج تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ۔اس طرح کے درندگی والے کارنامے ملک میں دو طبقوں کے خلاف پوری شدت سے جاری ہیں اس میں اول اس ملک کے قدیم باشندوں میں سے ایک آدیباسی اور دوسرے مسلمان۔آدیباسیوں کو نکسلی قرار دے کر فرضی انکائونٹر میں ہلاک کردیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر ہلاک کردیا جاتا ہے ۔عرصہ سے یہ سب کچھ چل رہا ہے لیکن ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم ایک مذمت کے جملے ادا کرکے خاموش ہو جاتے ہیں کیوں کہ راوی فی الحال ہمارے گھروں کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔عرصہ سے چھتیس گڑھ اور جھار کھنڈ میں آدیباسیوں کا قتل عام ہو رہا ہے ۔لیکن کسی بھی مسلم تنظیم یا اردو اخبارات نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی ۔یہ الگ الگ آوازاٹھانے اور تحریک چلانے کا انجام ہے کہ اب ہماری کوئی سنتا نہیں ۔حکومت ہند کو شاید اندازہ ہو گیا ہے کہ ؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے ۔یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
مجھے کسی معاملہ میں کہانی سنانے کی عادت نہیں ہے ۔حالانکہ اکثر اردو کے مضمون نگار کسی بھی واقعہ پر پورے کا پورا صفحہ صرف کہانیوں کو سنانے میں سیاہ کردیتے ہیں ۔جبکہ وہ ساری کہانیاں خبروں میں آچکی ہوتی ہیں ۔مضمون نگار کو ان نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہئے جس کی ضرورت ہے ۔ان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عوام کو بیدار کریں انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کریں ۔نہ ہی ماتم کی جائے نہ ہی کسی معاملے میں جشن منایا جائے ہمیشہ اقدام کی جانب ذہن مرکوز کی جائے۔اب بھی وقت ہے کہ اس طرح کے فرضی انکائونٹر جسے سیدھے سیدھے قتل عمد کہنا زیادہ بہتر ہوگا پر روک لگانے اور اس کے خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اجتماعیت کے ساتھ اقدامی پوزیشن میں آیا جائے ۔صرف جھوٹ کا پردہ فاش اور بے نقاب جیسے الفاظ کا استعمال کرکے خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ہے ۔اس کے لئے تاریخ سے کوئی باب کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔آئے دن ہمارے سامنے بھوپال جیسے قتل کے معاملات یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ صرف احتجاج دھرنا اور مذمت سے ظالموں کو قابومیں نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی بدعائوں سے شیطان مرتا ہے ۔5 ؍جولائی 2016 کو سپریم کورٹ نے وہ درخواست رد کردی جس میں اکشر دھام مندر حملہ میں پھنسائے گئے لوگوں کے لئے معاوضہ کی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔لیکن جمعیت العلماء جو چھوٹے چھوٹے معاملات میں پریس ریلیز جاری کرتی ہے اس نے بھی خاموشی اختیار کرلی اور ذاکر نائک والے میٹر کے شور میں وہ خبر کہیں دب گئی ۔اردو اخبارات میں بھی اس خبر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔اس کی وجہ مجھے آج تک نہیں معلوم نہیں ہو سکی ۔
بھوپال قتل کے بارے میں جمعیت العلماء نے سپریم کورٹ جانے کی بات کہی ہے ۔ اس سلسلے میں ابھی تک صرف بیان ہی آیا ہے ۔لیکن سپریم کورٹ سے انصاف مل سکتا ہے مجرموں کو ان کے کئے کی سزا مل سکے گی اس پر شبہ کے دبیز پردے حائل ہیں ۔اس کو اکشر دھام مقدمہ سے بری ہونے والوں کو معاوضہ دینے سے انکار کرنے کے سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلہ سے ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔عدلیہ وہ جگہ ہے جہاں سے لوگوں کو انصاف کی امید ہوتی ہے ۔پرشانت بھوشن کے ساتھ ایک میٹنگ میں ایک شخص نے ان سے کہا تھا کہ آپ سمیت اکثر لوگ کہتے ہیں عدلیہ پر بھروسہ ہے لیکن ہمیں یہاں کی عدلیہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔وہ شخص شاید سچ ہی کہہ رہا تھا۔کچھ ماہ قبل زی نیوز سے استعفیٰ دینے والے صحافی نے محمد کاظمی کی گرفتاری پر ان کے بیٹے کا بیان نقل کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ’’ ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ‘‘لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا دل کہہ رہا ہے کہ عدلیہ پر بھروسہ نہیں ہے ۔ممتاز وکیل محمود پراچہ نے ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ جب کوئی پولس والاکسی کو گرفتار کرکے لے جائے تو آپ کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ نوجوان بے گناہ ہے اور عدالت میں جس دن اس کی تاریخ ہو اس دن سو دو سو افراد عدالت کے احاطے میں ضرور ہو نے چاہئیں۔یہاں معاملہ یہ ہے کہ پولس یا اے ٹی ایس جسے گرفتار کر کے لے جاتی ہے اس کو ہم پہلے ہی مجرم مان لیتے ہیں ۔یہ باتیں میں یونہی ہوا میں نہیں کہہ رہا ہوں ایسا لوگوں نے کہا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہے جو پولس نے انہیں گرفتار کیا ہے ۔اسی طرح عدلیہ کے ذریعہ بری کئے جانے والے نوجوانوں کے بارے میں ایک بہت اہم ملی تنظیم کے ایک رکن نے کم از کم دو بار مجھ سے یہ کہا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو لوگ بری ہوئے ہیں وہ بے گناہ ہیں وہ تو ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے رہا ہوئے ہیں۔گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جو گرفتاریاں ہو رہی ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔دوسری جانب صحافیوں میں یہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ بے گناہوں کو پولس گرفتار کرتی ہے اور انکائونٹر میں ان کا قتل کرتی ہے۔ایسے ہی ایک صحافی وسیم اکرم تیاگی نے پولس محکمہ پر طنز کررتے ہوئے اپنے ٹیوٹ میں لکھا ہے کہ ’’سیمی کے آٹھ کارکن رات کو جیل سے بھاگ گئے رات بھر شاپنگ کی اور دن میں برانڈیڈ کپڑے پہن کر پولس کے پاس آ گئے اور کہنے لگے کہ ہمیں مار دو‘‘۔ایک اور صحافی جن کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہی ہے ان کا کہنا ہے کہ جہاں پر بتایا گیا ہے کہ انکائونٹر ہوا ہے وہاں ان کے بھاگنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا وہ پیچھے ہٹتے تو ہزاروں میٹر گہری کھائی میں گر کر مرجاتے ۔معاملہ صاف ہے کہ انہیں جیل سے اٹھا کر کہیں باہر گولی ماری گئی اور وہاں لے جاکر اپنی حیوانیت اور درندگی کا تماشہ دکھایا ۔لیکن بی جے پی کے ایک وزیر کہتے ہیں کہ پولس کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا جائے ۔اس کے باوجود کوئی کہتا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے تو مجھے ہنسنے سے کون روک پائے گا ۔کیا اس سے بڑا بھی کوئی لطیفہ ہو سکتا ہے کہ کہا جائے کہ یہاں جمہوریت بھی ہے اور آواز اٹھانے والوں کو حب الوطنی کا حوالہ دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی جائے ۔
یہ تو رہی حکومت کی بات لیکن ہمارے بھائی لوگ کیا کررہے ہیں ۔ان کو یہ فکر نہیں ہے کہ آٹھ بے گناہ ماردیئے گئے ۔انہیں فکر ہے تو بس اتنی سی کہ اس پر واویلا نہیں مچایا جائے کوئی شور نہ کیا جائے کیوں کہ اس سے اتر پردیش میں آئندہ الیکشن میں ووٹوں کا ارتکاز ہوگا ۔یہ بی جے پی کے منصوبوں کا ایک حصہ ہے کہ اس طرح ہندوئوں کو اپنے حق میں کیا جائے ۔ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو یا یقینی طور پر کہا جائے کہ ایسا ہی ہے ،تو کیا اس ڈر سے کہ اس سے رائے عامہ کا ارتکاز ہو گا ۔ مسلمانوں کو بے گناہ مسلم نوجوانوں کے قتل پر خاموشی اختیار کرلینی چاہئے ؟یا یہ کہ خاموشی اختیار کرلینے سے ووٹوں کا ارتکاز رک جائے گا ، یا خاموش ہوجانے کی وجہ سے آئندہ کوئی بے گناہ نہیں مارا جائے گا ؟ یا کیا خاموش ہوجانے سے مسلمانوں کو ہندوستان میں امن و چین نصیب ہو جائے گا ؟کوئی بابری مسجد شہید نہیں ہو گی ۔کہیں کوئی مسلم کش فساد نہیں ہوگا ۔دشمن کا مقصد پورا ہوتا نظر آرہا ہے اس نے ہمیں خوف زدہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا سو وہ کامیاب ہو چکا ہے ۔یہ خوف زدگی کی ہی علامت ہے کہ اب ہمیں سوالات اٹھانے اور انصاف کی دہائی دینے یا سچائی کو سامنے لانے سے بھی روکا جارہا ہے ۔یاد رکھئے ریت میں منھ چھپا لینے سے مصیبتیں نہیں ٹلتیں ۔مصیبتیں تو صرف اقدامات سے ہی کم ہو سکتی ہیں یا ٹل سکتی ہیں ۔ہمیں صرف اقدام کی صورتحال پر غور کرنا چاہئے کہ اس کے علاوہ سارے دروازے بند ہیں ۔ہمیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے ۔دیوار سے لگائے گئے افراد کو کیا کرنا چاہئے یا وہ کیا کرسکتا ہے؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
0 comments: