بند دروازے پر موت کی آہٹ

7:13 PM nehal sagheer 0 Comments


 مشرّف عالم ذوقی

Every time a dictator dies, or an atrocity is perpetrated, or details of the torture endured by those who lived through one regime or another escapes to the outside world, invariably the cry goes up that this must never be allowed to happen again. The unsavory fact is, however, that it does happen again, over and over, from one continent to another."
-Shelley Klein, author of The Most Evil Dictators in History
ہم آہستہ آہستہ موت کے گلیشئر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ فرض کیجئے۔ ہم میں سے کچھ لوگ اچانک غائب ہوجائیں۔ پھر آہستہ آہستہ اچانک گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگے ...۔ فرض کیجئے، ایک دن محسوس ہو کہ تھوڑا تھوڑا کرکے ہم باون کروڑ آبادی میں سے پندرہ کروڑ رہ گئے ہیں۔
اور فرض کیجئے کہ پھر اس بات کا بھی احساس ہو کہ یہ آبادی برف کی بڑی بڑی سلیوں کے درمیان بدبودار لاش کی طرح ہے جس کے اندر زندگی کی کوئی رمق، کوئی نشانی باقی نہیں۔
اور فرض کیجئے، ایک ایسا منظر سامنے ہو کہ یہ کم ہوتی آبادی کسی لاش کی طرح، ایک جگہ جمع ہو کر ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے موت کی دعا مانگ رہی ہو۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ودرنگ ہائٹس میں، ہیٹھ کلف کھڑکی کے پاس ، سہما ہوا اپنی محبوبہ کی روح کو آواز دیتا ہے۔فرض کیجئے ..یہ آپ اور ہم سب ہوں اور ہمیں نازیوں کے گیس چمبر میں ڈال دیا گیا ہو ..مرنے کے لئے ...
الگزنڈر سولسنٹین کا ناول، گلاگ آرکپلا گو کا ایک منظر ہے۔ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جارہا ہو تا ہے۔ ایک دوسرا شخص آواز دیتا ہے۔ اور اس سے کہتا ہے کہ اسے بس دو منٹ چاہیے۔ بیوی کے ساتھ جو شخص ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہ دومنٹ، ۰۲ برس بھی ہوسکتے ہیں اور یہ بھی کہ دو منٹ کے بعد اسے اس دنیا سے دور کسی موت کے سیارے میں بھیج دیا جائے--- کیونکہ اسے حکومت کے خلاف بولنے کے جرم میں سزا سنائی جاچکی ہے۔
پاکستان میں جب ضیاءالحق کی حکومت تھی تو پاکستانی افسانہ نگار نعیم آروی نے اپنے افسانہ ہجرتوں کی مسافت میں کچھ اسی طرح کی وحشت اور کرب کا اظہار کیا تھا۔ سچ پر پابندی تھی۔ بولنا منع تھا۔
ہندستان میں اندرا گاندھی نے ١٩٧٥ میں ایمرجنسی لگائی تو خوف کا ماحول تھا لیکن احتجاج کرنے والے بھی تھے اور احتجاج کرنے والوں میں میڈیا کا بڑا رول تھا۔
بھوپال انکاﺅنٹر پر لکھنو میں رہائی منچ سے وابستہ ایک ذمہ دار رکن کو احتجاج کرنے پر پولیس بے دردی سے پیٹ ڈالتی ہے۔ اور اب وینکیا نائیڈو کی انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ منسٹری ان ڈی ٹی وی پر ۹ نومبر، پابندی لگانے کا اعلان کرتی ہے۔ وجہہ، پٹھان کوٹ حملے کو لے کر ان ڈی ٹی وی کی رپورٹنگ کو حکومت نے خطرناک تصور کیا۔ یعنی حکومت کے ساتھ نہیں وہ مجرم ہے ۔
آپ آواز اٹھاتے ہیں تو آپ آپ مجرم ہیں۔
آپ مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں تو آپ مجرم ہیں۔
آپ اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو آپ مجرم ہیں۔
آپ مودی کے ساتھ نہیں تو آپ گنہگار اور مجرم دونوں ہیں۔
اندرا گاندھی کی ایمرجنسی میں میڈیا کا احتجاج جاری تھا۔
مودی کے غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں ان ڈی ٹی وی کو چھوڑ دیا جائے تو میڈیا ہے ہی نہیں-- میڈیا مودی کی زبان بولتا ہے۔ یہ وقت این ڈی ٹی وی کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ ہم سوشل ویب سائٹس پر اپنی تحریروں سے ایسی آگ لگا دیں کہ پورا ہندوستان جاگ جائے۔
ایمرجنسی لگ چکی ہے ۔ ہم نجیب کی طرح آہستہ آہستہ غائب ہورہے ہیں۔ کل کسی ننگی پہاڑی پر بلا کر ہمیں بھی ہلاک کیا سکتا ہے۔ سچ بولنے والے ٹی وی چینل اور صحافیوں کو حکومت کی ناراضگی جھیلنی ہوگی۔
سامنے موت کا گلیشئر کھلا ہے۔ابھی نہیں جاگے تو پھر کبھی نہیں جاگیں گے۔
موت پہلے سے کہیں زیادہ قریب آچکی ہے.
ہٹلر سے ایدی امین تک ظالم و جابر حکمرانوں کی تفصیلات سامنے ہیں ..یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خوف کی حکومت قایم کرنے کے لئے ہر اصول ہر اخلاقیات کو بالائے طاق رخ دیا ..ہر ناجایز کو جایز بنا دیا ..آج ہم میں سے ایک نجیب گم ہو رہا ہے ...کل ہزاروں گم ہونگے ..آج ٨ قیدی مارے جا رہے ہیں ..کل ہزاروں پر آفت اے گی اور کویی آواز نہیں بلند ہوگی ...ظلم کی طاقت اور بربریت کی چھاؤں میں آواز بلند کرنے والے بھی خوف زدہ اپنے گھروں میں بند ہوں گے کہ کویی نا گہانی حادثہ انکے ساتھ نہ پیش آ جائے ...آج ایک چینل پر اظہار راہے کی آزادی کے نام پر بندش لگایی جا رہی ہے .کل ایسے چینل حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر بند کر دیے جاینگے .کیا اسکے بعد کویی سچ بولنے کا حوصلہ کریگا ؟ جبکہ ملک میں آتش بیانی اور زہر پھیلانے والی آر ایس ایس جیسی جماعتوں پر کویی پابندی نہیں --
وقت ہے کہ ہم ہزاروں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں ..لاکھوں ..کروڑوں کی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوں ..
ورنہ ..... تاریخ کے خوفزدہ کرنے والے کارناموں میں ایک اور اضافہ ہو جاےگا ..ہم کم ہونے لگیںگے ..ہماری گمشدگی بڑھنے لگیگی ...ہم بے صوت و صدا ہونگے ...ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ...
آخر میں دو باتیں ...رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ فنکشن میں انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر راجکمل جھا نے نے وزیر اعظم مودی کی تقریر کے بعد کہا کہ صحافت کا میعار سیلفی صحافی نہیں ہو سکتے ..جھا نے رام ناتھ گوئنکا کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار ایک صحافی کی ایک منسٹر نے تعریف کی ، تو گویینکا نے اس صحافی کو نکال دیا .. عمدہ صحافت کی ایک مثال اسی فنکشن میں سامنے آی جب ٹائمز آف انڈیا کے صحافی اکشے مکل نے مودی کے ہاتھ سے ایوارڈ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے ساتھ ایک فریم میں ہونے کا خیال ہی میری زندگی کو جہنم بنا دیتا ...بہار ،سیتا مڑھی کے دلیپ ارن نے صدر جمہوریہ ہند کو لکھے گئے ایک خط میں دریافت کیا ہے .....:ملک کی وہ آخری کھڑکی کون سی ہے جہاں ایک مرتا ہوا انسان اپنی جان کی بھیک مانگ سکے ؟
اظہار رائے کی آخری کھڑکی بند ہویی تو زندگی موت سے بدتر ہو جاےگی ...

0 comments: