اس دریدہ دہنی کا کوئی علاج بھی ہے!
قاسم
سید
میڈیا کا ایک سیکشن
لگاتار اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے ، مضحکہ اڑانے اور غلط معلومات فراہم کرانے
کی مہم میںمصرو ف ہے ۔نان ایشوز کو ایشو بنانا ، لا یعنی مسائل پر بحث کرانا اور مسلمانوںکو
دفاعی پوزیشن میں کھڑا کرنے کی کوشش اس کے مزاج کی شرانگیزی کا نمایاں پہلو بن چکا
ہے ۔بد قسمتی سے جو لوگ مسلمانوں کے نام پر ٹی وی مباحثوںمیں جاتے ہیں الا ماشاء اللہ
مسئلے کی گہرائی ، پیچیدگی اور نزاکت سے واقف نہیں ہوتے ۔اسلام اور مسلمانوں کے تعلق
سے موقف کی پر زور انداز میں وکالت نہیں ہو پاتی۔ بعض دفعہ ان کے تخاطب سے ایسا لگتا
ہے کہ تیاری کرکے نہیں آئے ہیں کئی نیوز چینلوں نے اسلام اور مسلم دشمنی کو اپنی پالیسی
کا نا گزیر حصہ بنا لیا ہے ادھر کچھ عرصے سے ایک پاک نژاد کناڈیائی شہری ایسے چینلوں
کا محبوب نظر بن گیا ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جتنی مہذب گالیاں اسلام اور مسلمانوں
کو دی جا سکتی ہیں ان کی تاریخ کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے وہ اس کی زبان سے دلوا سکیں
۔ پتا نہیں حکومت کے علم میں یہ بات ہے یا نہیں کی اس کی شرانگیز ، مذہبی جذبات مجروح
کرنے والی باتوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے گزشتہ
پارلیمانی اجلاس میں کانگریس کے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے اس
طرف حکومت کی توجہ دلائی تھی کہ طارق فتح کی بے ہنگم بے سروپا باتوں سے اشتعال پھیل
سکتا ہے اس کا نوٹس لیا جائے ۔ مگر وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اس کو اہمیت نہیں دی اور
میڈیا کی آزادی کے بہانے سب کو مافی الضمیر ادا کرنے کی اجازت کی بات کہہ کر معاملہ
کو ٹال دیا ۔
ادھر زی نیوز نے
اسلام اور مسلم دشمنی میں کافی ’نام‘ کما لیا ہے حب الوطنی میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں
کر سکتا اس سے قبل بھی کئی ایسی باتوں پر ماضی میں بھی توجہ دلائی گئی تھی اور حال
ہی میں ہائی ٹیک اینی میشن کے ذریعے تیار کردہ ’ایکسکیوز می ‘نام سے دکھائی جانے والی
کارٹونی کہانی کے ذریعے مسلم پرسنل لاء ، بورڈ ،علما اور قاضیوں کا مذاق اڑایا گیا
ہے جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے ۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک قاضی صاحب کا خادم ان
کا بدن دبا رہا ہے ایک شخص داڑھی ٹوپی اور کرتے پاجامے کے ساتھ آتا ہے قاضی صاحب ایک
کاغذ پر تین طلاق اور چار شادی کا فتویٰ اسے تھما دیتے ہیں وہ خوشی سے قلانچیں بھرتا
ہوا جاتا ہے اس کی بیوی کو مظلومی کی حالت میں ایک پنجرہ نما چبوترے پر دکھایا گیا
ہے وہ اس پر تین طلاق والا کاغذ چسپاں کردیتا ہے ۔ آگے ایک مولوی نما شخص چار لڑکیوں
کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اسے چار شادی والا فتویٰ تھما دیتا ہے وہ خوشی سے پاگل ہوجاتا
ہے ۔ آگے کا منظر اور زیادہ مضحکہ اڑانے والا ہے مسلم پرسنل لاء نامی ایک عمارت پر
کئی علما ء ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں لاء کمیشن اس عمارت کو دھکا مارتا ہے علامتی
طور پر لاء کمیشن کو درخت کے دو تنوں کے طور پر دکھایا گیا ہے لگاتا ر دروازے پر چوٹ
مارنے سے علماء چوکنے ہوتے ہیں احتجاج کرتے ہیں نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا
ہے مگر لاء کمیشن کے پے درپے حملوں سے آخر کار عمارت تہس نہس ہوجاتی ہے ۔ چھت پر موجود
علماء ادھر ادھر جا گرتے ہیں ۔ اس کا مقصد کیا ہے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسلام اور
مسلمانوں کے تعلق سے مختلف سطحوں پر ناپاک سرگرمیاں شدو مد کے ساتھ جاری ہیں اور یہ
سب میڈیا کی آزادی کے نام پر ہو رہا ہے دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس میڈیا کی نگرانی
اور پروپیگنڈے پر نظر رکھنے اور اس کا جواب دینے کا کوئی میکنیزم نہیںہے ۔ اور نہ ہی
اب تک میڈیا کی طاقت اور اہمیت محسوس کی جا رہی ہے یہ دور تلوار اور میزائل کا نہیں
ہے میڈیا کا ہے ہر جنگ اس کے ذریعے لڑی جا رہی ہے مسلم جماعتیں اپنے میدان میں استطاعت
سے زیادہ کام کر رہی ہیں سیکڑوں این جی او ز بھی ہیں مگر اس پہلو پر خاطرخواہ توجہ
نہیں دی جا ررہی ہے آگے چل کر یہ بہت بڑا خسارہ ثابت ہو سکتا ہے ۔موجودہ حالات میں
یہ اور ضروری ہے کہ ہم اپنی قلمی اور فکری توانائی غیر ضروری معاملوں پر غیر ضروری
مباحثے ، واٹس اپ پر ایک دوسرے پر دشنام درازی ، نیتوں پر حملہ کرنے کے شوق کو موجودہ
ہنگامی و نازک حالات میں موقوف کر کے وسیع تر میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس
کے ناپاک مہم کا انگریزی اور ہندی میں بھی موثر اور مدلل جواب دینے کی کوشش کریں اور
قومی میڈیا میں اپنے دوست بنانے کی کوشش کریں تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں آسانی
ہو۔
qasimsyed2008@gmail.com
0 comments: