اچھی صحافت مر نہیں بلکہ توانا ہو رہی ہے : راج کمل جھا

6:44 PM nehal sagheer 0 Comments


 دو  نومبر کو رام ناتھ گوئنکا  تقسیم  ایوارڈ تقریب میں انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر راج کمل جھا نے وزیراعظم مودی کے سامنے جو کہا اس کی باز گشت  دیر تلک  باقی رہے گی!
پڑھیے راج کمل جھا کی تقریر کا  ترجمہ جسے ای ٹی وی اردو کے کاپی ایڈیٹر محمد علم اللہ نے اردو میں منتقل کیا ہے  ۔
’’آپ  کی  باتوں کے لئے بہت شکریہ ! جناب عالی ! آپ کی تشریف آوری  ایک مضبوط پیغام ہے ! ہم امید کرتے ہیں کہ  صحتمند  صحافت اس کام سے طے کیا جائے گا جسے ہم آج کی شام  منا رہے ہیں ، جسے رپورٹرز نےاپنی خبروں  سے ، اور مدیران نے اپنی ایڈیٹنگ تکنیک  سے  مزین کیا ہے ۔ بہترین صحافت سیلفی صحافی نہیں پیش  کریں گے جو آج کل کچھ زیادہ ہی نظر آ رہے ہیں، جو ہمیشہ اپنی دنیا میں مگن رہتے  ہیں ، اپنے  چہرے سے، اپنے خیالات سے جو کیمرے کو اپنی طرف  رکھتے ہیں ، ان کے لئے صرف ایک ہی چیز سے  فرق پڑتا ہے ، ان کی آواز اور ان کا چہرہ ! آج کے سیلفی  صحافت کے دور میں اگر آپ کے پاس سچائی  نہیں  ہے  تو کوئی بات نہیں، فریم میں بس پرچم رکھئے اور اس کے پیچھے  پناہ لے لیجئے !
جناب عالی آپ  کی تقریر  کا بے حد  شکریہ !
آپ نے ساکھ اور بھروسے کی ضرورت کو  اجاگر  کیا ۔  میرے خیال میں یہ  آپ کے انتہائی  قیمتی فرمودات ہیں جو ہم صحافی آپ کی تقریر سے سیکھ سکتے ہیں ۔ آپ نے صحافیوں کے بارے میں بہت اچھی باتیں کہی جس سے ہم تھوڑا نروس بھی ہیں !
(صحافی دوستو! )آپ  کو یہ وکی پیڈیا  میں  نہیں ملے گا، لیکن میں انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہ رام ناتھ گوئنکا نے ایک رپورٹر کو نوکری سے نکال دیا جب انہیں ایک ریاست کے وزیر اعلی نے بتایا کہ آپ کا رپورٹر بڑا اچھا کام کر رہا ہے !
یہ بڑی اہمیت کی حامل بات ہے ۔ خاص کراس وقت جبکہ میں 50  سال  کا ہو رہا ہوں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت جب ہمارے پاس ایسے صحافی ہیں جو ریٹويٹ اور لائک کے زمانہ میں جوان ہو رہے ہیں، جنہیں پتہ نہیں ہے کہ حکومت کی جانب سے کی گئی تنقید ہمارے لئے عزت کی بات ہے !
لہذا  ان کی حیثیت سینما  میں سگریٹ پینے والے کی سی ہے ، مجھے لگتا ہے ہم ایک صحافی کی تعریف سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک ٹیپ چلانے والا ہونا  چاہئے ، کہ حکومت کی جانب سے اس کی تنقید صحافت کے لئے حیرت انگیز خبر ہے۔ میرے خیال میں یہ انتہائی اہم ہے ۔
جناب عالی آپ کی تقریر کا بے حد شکریہ !
آپ نے کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے ۔  میرے خیال میں سب سے اہم نکتہ صحافت کی ساکھ  ہے ۔ ہم اس کے لئے حکومت پر الزام عائد نہیں کر تے ۔  یہ ہمارا کام ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اندر جھانکیں اور ہم ضرور آپ کے ریمارکس کی عکاسی اپنے اندر دیکھیں گے ۔
اس سال ہمارے پاس رامناتھ گوئنکا ایوارڈ کے لئے 562 ایپلی کیشنز آئیں ۔ یہ  پچھلے گیارہ برسوں میں اب تک کی سب سے زیادہ ایپلی کیشنز ہیں ! یہ ان لوگوں کو جواب ہے جنہیں لگتا ہے کہ اچھی صحافت  دم توڑ رہی ہے اور صحافیوں کو حکومت نے خرید لیا ہے !
بہترین صحافت مر نہیں رہی ، یہ توانا اور مضبوط ہو رہی ہے ۔ جی ہاں، صرف بری صحافت زیادہ شور مچا رہی ہے جو 5 سال پہلے اتنا نہیں مچاتی تھی ! مجھے لگتا ہے اسی لئے ریموٹ کنٹرول صحافت  کو رامناتھ گوئنکا یوارڈ دیا جانا  چاہئے  ‘‘
ممبئی کے ایک اردو روزنامہ کے 4؍نومبر کی اشاعت میں ایک مراسلہ شائع ہوا ہے ۔ اوپر انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر کی جرات مندی کہ انہوں نے وزیر اعظم کو خود انہی کے سامنے صحافت کی باریکیاں اور جو کچھ ان کی حکومت میں ہو رہا ہے بتا کر پانی پانی کردیا ۔ وہ ہائی پروفائل تھا اور یہ اردو روزنامہ میں شائع مراسلہ لو پروفائل ہے لیکن دونوں جگہ بات ایک ہی کہی گئی ہے آپ بھی پڑھیں اور فیصلہ کریں ہم صحافت میں کہاں سے چلے تھے اور اب کس جانب محو سفر ہیں ۔

 خبر نگاری یا پولس کی امیج سازی 

مکرمی:ملک کے حالات کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا ضمیر بھی مردہ ہوتا جارہا ہے ۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ بے ضمیری میں اب اردو صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد کی شمولیت ہو چکی ہے ۔ مجھے ایک صحافی دوست ایک رپورٹر کی دو اردو اخبارات کو بھیجی گئی اسٹوری پر ہمیشہ نظر رکھنے کے کہتا رہتا ہے ۔ شروع شروع میں تو مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا معاملہ ہے لیکن جب اس کی خبر دیکھی تو اندازہ ہو اکہ یہ اردو کا مسلمان صحافی کم اور پولس اور اے ٹی ایس کا دلال زیادہ ہے ۔ اس کی مسلم نوجوانو ں کی گرفتاری کی کو ئی بھی خبر یا خفیہ ایجنسیوں کی نام نہاد الرٹ جاری کرنے کی روایت والی خبر میں اس کی دلال والی فطرت کی صاف جھلک نظر آتی ہے ۔ جس اردو کے صحافی نے مجھے اس کی خبروں پر نظر رکھنے کے لئے کہا تھا اس نے بتایا کہ وہ کم از کم چار برسوں سے اسی طرح کی خبرنگاری کرتا ہے جس کو خبر نگاری کے بجائے پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی بدصورت شبیہ کو قوم کے نزدیک بہتر بنانے کوشش کہا جائے گا ۔ اس کے نزدیک مسلم نوجوان واقعی داعش جیسی کسی تنظیم کے جال میں پھنس کر گرفتار ہو رہے ہیں اور ہماری خفیہ ایجنسیاں مسلمانوں کی اتنی ہمدرد ہو گئی ہیں کہ ان کی بھلائی کے لئے ان کی ذہن سازی کررہی ہیں ۔ ایسے ایک نوجوان کا جو کہ داعش کے چنگل میں پھنس گیا تھا اس خبریں دو اردو اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں جس میں یہ دعویٰ کی گیا ہے کہ اے ٹی ایس یا پولس نے اس کی ذہن سازی کی جس کی وجہ سے وہ توبہ کرکے ایک اچھا شہری بننے کی جانب گامزن ہے ۔ اس نے اپنی ویب سائٹ پر اس کے انٹر ویو شائع کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے لیکن وہ کسی دوسرے صحافی کو اس بچے کا پتہ نہیں بتاتا کہ دوسرے صحافی بھی اس کی حقیقت جان سکیں اور داعش کے گمراہ کن پروپگنڈے سے خود کو اور قوم کو خبر دار کرسکیں ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی نظر میں بھوپال میں مسلم نوجوان قیدیوں کا قتل بھی انکائونٹر ہی ہو جیسا کہ پولس اور مدھیہ پردیش حکومت دعویٰ کررہی ہے ۔ اس صحافی نے ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہے جس کے تحت اس نے داعش جیسی تنظیم سے لڑنے اس کے پروپگنڈے کے جواب دینے کا دعویٰ کیا ہے ۔ جس تنظیم سے لڑکر امریکہ اور روس ہلکان ہوئے جارہے ہیں اس سے لڑنے کے لئے ہمارا یہ نحیف و نزار اردو کا رپورٹر کمر کس چکا ہے ۔ بڑی اچھی بات ہے کہ اس نے ایسی ہمت اور حوصلہ کا کام کیا ہے ۔ لیکن اس کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو اپنی جال میں پھنسانے والے پولس اور اے ٹی ایس کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش قابل مذمت ہی نہیں انتہائی خطر ناک بھی ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ملت کے لئے آستین کا سانپ ثابت ہوئے ہیں ۔ قوم کو ایسےبے ضمیر صحافیوں اور نام نہاد کرائم رپورٹروں کی اسٹوری پر نظر رکھنی چاہئے ۔ میرے دوست کے ساتھ ایک گروپ پراس نے ایک خبر موصل کے میدان جنگ سے بھی پیش کی ہے پتہ نہیں اس صحافی کو یہ خبریں کون سے ذرائع سے مل رہی ہیں اور کس حد تک قابل اعتماد ہیں یا دجالی میڈیاکے جھوٹے پروپگنڈے میں یہ صحافی بھی اپنا تعاون دینے میں شامل ہو گیا ۔ 
محمد اکبر علی ممبئی

صحافت پر انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر راج کمل جھا کی وزیر اعظم ہند نریندرمودی کی تقریر پر شکرانہ ادا کرتے ہوئے انہیں جو سبق پڑھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے واضح ہو کہ اسی تقریب میں ٹائمز آف انڈیا کے صحافی اکشے مکل نے مودی کے ہاتھوں ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔ ہمارے سامنے ایک اور بیباک صحافی رویش کمار کی بھی مثال ہے جس کی حق گوئی کے سبب این ڈی ٹی وی پر یک روزہ پابندی عائد کی گئی ہے ۔ ایسے میں اردو روز نامہ میں شائع شدہ مراسلہ بھی ہم نے پیش کردیا ہے ۔ آپ سے اس پر اپنی رائے دینے کی گزارش ہے ۔ امید ہے کہ اس پر کھل کر گفتگو ہو گی ۔ 

0 comments: