مذمت احتجاج میمورنڈم
نہال صغیر
یہ تین الفاظ ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں سے منسلک ہو کر رہ گئے ہیں ۔جب کہیں کوئی دھماکہ ہو تا ہے یا ملکی مخاصمت میں پاکستان ہندوستان کے بیج کوئی چھیڑ خانی ہوتی ہے اور کئی جانی نقصان ہو جاتے ہیںتو ہمارے قائدین مذمت کی لائین میں آجاتے ہیں اور پھر شروع ہوتا ہے اخبارات میں مذمتی بیان کے شائع ہونے کا سلسلہ ۔کسی نے اس پر بہت اچھا تبصرہ کیا تھا کہ اب نہیں زیادہ محنت کرنے کے بجائے ایک مذمتی فارم چھپوالینا چاہئے اور بس کوئی حادثہ یا واقعہ ہونے پر اس میں مطلوبہ خانوں کو پر کرکے اخبارات کو روانہ کردیں ۔بھوپال میں مسلم نوجوانوں کے قتل عام پر ملت کی جانب سے جس تیز و تند احتجاج کی خبر یا بیانات آنے چاہئیں تھیںاس کا کہیں کوئی پتہ نہیں ہے ۔شاید وہ بھی سہم گئے ہیں ۔ارباب اقتدار کی خواہش ہی یہی تھی کہ پوری امت کو تقسیم کردیا جائے یا انہیں خوفزدہ کردیا جائے ۔معمولی معمولی واقعات پر ناگپاڑہ اور بھنڈی بازار میں احتجاج اور مذمتی میمورنڈم دینے والے افراد اور’ یک شخصی‘ تنظیمیں خاموش ہیں ۔آج انہیں یہ محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ جو کچھ بھوپال میں ہوا ہے وہ سراسر ظلم اور درندگی ہے جس کو ریاستی دہشت گردی کہنا چاہئے ۔مولانا محمود مدنی نے بھی اس کو ریاستی دہشت گردی ہی قرار دیا ہے ۔پوری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ بھلا یہ کون سا مستقبل کا سوپر پاور ہے جہاں محکمہ انصاف کو عدلیہ سے لے کر پولس کے حوالے کردیا گیا ہے ۔لیکن ہمیں کہا جارہا ہے کہ خاموش رہو یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔وینکیا نائیڈوکا کہنا ہے کہ’’بھوپال تصادم پر سیاست نہ کریں ۔حال ہی میں 23 مائو ونواز ہلاک ہوگئے تھے تب کسی بھی سیاسی پارٹی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا ‘‘۔وینکیا کے بیان سے چھتیس گڑھ میں غریب اور ہندوستان کے قدیم باشندے آدیباسیوں کی حالت کا پتہ لگتا ہے ۔ایک ساتھ 23 آدیباسیوں کو مائو نواز بتاکر ہلاک کردیا گیا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی ۔چھتیس گڑھ میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ہمانشو کمار اکثر چھتیس گڑھ سے واٹس ایپ پر وہاں پولس اور انتظامیہ کی درندگی کی خبر بھیجتے رہتے ہیں جو کہیں میڈیا میں نہیں آتی ۔کچھ روز قبل انہوں نے لکھا تھا کہ ایک آدیباسی لڑکی مَڑکم ہِڑمے کے ساتھ سلامتی دستوں نے درندگی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے پہلے اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی اس کے بعد اعضا مخصوصہ سے ناف تک چاقو سے چیر دیا تھا ۔اسی طرح چھتیس گڑھ کے ایک گائوں جس کا نام گونڈریم ہے میں تین آدیباسی لڑکیوں کی آبرو ریزی کرنے کے بعد مارڈالا تھا اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے پولس نے ان لڑکیوں کے خاندان کے 66 افراد کی خودسپردگی کا ناٹک کیا تھا ۔چھتیس گڑھ اور جھار کھنڈ سے ایسی نجانے کتنی خبریں آرہی ہیں لیکن ہماری انسانیت نہیں جاگ رہی ہے ۔بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہی درندگی میں اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔ٹھیک کہا ہے وینکیا نے کہ ان پر کسی نے کوئی آواز بلند نہیں کی ۔مسلمانوں کے لئے بھی ہندوستان میں نجات کی راہ یہی ہے کہ وہ مظلومین کے ساتھ مل کر ناقابل تسخیر قوت بننے کی جانب پہل کریں ۔مسلمان اگر پسماندہ طبقات کے ساتھ مل کر اپنی قوت بڑھائیں گے تب ہی کوئی بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔ ورنہ یہ مذمت احتجاج میمورنڈم سے تو قوم کا کچھ بھلا نہیں ہوگا ۔ہاں آپ کے مفاد کی تسکین ضرور ہو جائے گی!
0 comments: