Muslim Issues
سائنس کائنات کے ا س علم کا نام ہے جو ہمیں مظاہر قدرت کے مشاہدے اور مطالعے سے
حاصل ہوتا ہے، مظاہر قدرت کی تین بڑی قسمیں ہیں: ایک تو وہ مادی مظاہر قدرت ہیںجو ہر وقت مشاہدے میں آتے ہیں، جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج اور اجرام فلکی ، پہاڑ اور نباتات وغیرہ وغیرہ ۔اور دوسرے وہ مظاہر قدرت ہیں جن کا تعلق نفس انسانی اور جسم انسانی اور حیات سے ہے، اور تیسری قسم میں انسان کے ذہن وشعور میں پید ا ہونے والے افعال واعمال ہیں، سائنس مظاہر قدرت کے اندر ایک نظم (order)کی تلاش کا نام ہے، یہ نظم ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اور جو کبھی منقطع نہیںہوتا سائنس اسی نظم کے دریافت کا نام ہے، یہ نظم ایک جوہر میں ، ایک سالمہ میں ، ایک کرسٹل میں ، اور برف کے ڈالے میں اور اجرام فلکی میں موجود ہے، اسی نظم کے جاننے کا نام سائنس ہے، اور یہ نظم اتنا جچا تلا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسی نظم کو دریافت کرنے کے بعد ریاضیاتی فارمولے تیار کئے جاتے ہیں، سائنس کی تمام حیران کن ترقیاں اسی نظم کو دریافت کرنے کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں، انسان ان مظاہر قدرت پر جتنا غور کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور وہ پھر اس کی علت دریافت کرنا چاہتا ہے، اور اگر عقل یہاں پر ٹھوکر نہ کھائے تو ایک سائنس داں خدا کے وجود کا اقرار کر لیتا ہے، اسی لئے اس عہد کے ایک بڑے شاعر نے اپنے انداز میں یہ بات کہی ہے:
کئی بار اس کی خاطر ذرہ ذرہ کا جگر چیرا
مگر یہ چشم حیراں اس کی حیرانی نہیں جاتی
اسی نظم کو سمجھنے کا نام سائنس ہے اور اس کے عملی اطلاق کا نام ٹکنالوجی ہے، جدید عہد میں ٹکناجولی اور انجینئرنگ کے تمام کمالات اسی سائنس کے مرہون منت ہیں، یہ نظم جس طرح مادہ کے تمام مظاہر میں اور اوصاف قدر ت میں پایا جاتا ہے، وہی ایک زندہ جسم انسانی ا ور حیوانی میں بھی کارفرما ہے، جسم انسانی اور حیوانی کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تمام خلیات اور اس کے تمام اعضاء رئیسیہ اسی نظم کے قانون کے تحت کام کرتے ہیں، ہضم کے اعضاء، خون اور گوشت اور ہڈیوں کے ساخت کے ا ندر بھی ،زخموں کا اندمال اور توالد وتناسل سب چیز کے اندر یہی قانون نظم کارفرما ہوتا ہے، جیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم اور قانون کسی بلند وبرتر ذہن کی حکیمانہ تخلیق کی کارفرمائی ہے، اور اس کی حکمت تخلیق ذرہ ذرہ میں جلوہ فرما ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ایک سائنس داں اپنی عقل کو استعمال کرکے خدا کے وجود اور مذہب تک پہونچتا ہے، قرآن میں خدا کے وجود کی یہی نشانیاں ہر جگہ بیان کی گئی ہیں، ایک جگہ قرآن میں ہے’’پیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میںاور دن اور رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے خدا کی نشانیاں ہیں‘‘۔دوسری جگہ قرآن میں ہے’’آسمان اور زمین میں مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرو‘‘۔قرآن اللہ تعالی کا قول ہے اور یہ پوری کائنات اللہ تعالی کا عمل ، جس طرح سے قرآن میں اللہ تعالی کی نشانیاں (آیات )ہیں اسی طرح سے یہ پوری کائنات اللہ تعالی کی نشانیوں کا مجموعہ ہے، قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، اور کائنا ت کی آیتوں کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کا علم سائنس ہے، قرآن میں ہے وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا(سورۃ بقرہ :۳۱)‘‘ یعنی آدم کو تمام چیزوں کے اسماء بتائے گئے ، اور مفسرین نے اور خاص طور پر امام رازی نے لکھا ہے کہ یہاں اسماء سے مراد ہر شے کی حقیقت اور ماہیت کا علم ہے، اور اسی کا نام سائنس ہے۔
سائنس سے متعلق کوئی بھی گفتگو ہوگی اس میں بنیادی چیز خو د سائنس کو سمجھنا ہے، سائنس کسی شیء کے پیدا کرنے یا ایجاد کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ قدرت کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا نام ہے، مثال کے طور پر جب سے اس کائنات کی ابتداء ہوئی ہے پانی ہر انسان کی ضرورت ہے اور وہ اس کو ہمیشہ استعمال کرتا آیا ہے ، لیکن یہ کہ پانی دو حصہ ہائڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے ، یہ ایک سائنسی دریافت ہے، سائنس کی دریافت کے ذریعہ ہمیں اللہ تعالی کی ربوبیت کا تفصیلی علم معلوم ہوتا ہے، سورج کا زمین سے کیا فاصلہ ہے، زمین کی گردش کی رفتار کیا ہے ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے ، سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں ، بارش کیسے بنتی ہے، بادل کہاں سے آتے ہیں، اور کیسے ہوا کے دوش پر سوار ہوکر دور دراز کے علاقوں میں برستے ہیں،نباتات کیسے پیدا ہوتے ہیں انسان کا نظام ہضم کیا ہے انسان کا علم ان تمام تفصیلات کے بارے میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ اللہ تعالی کی ر بوبیت کے نظام پر حیرت کرنے لگے گا، اور اس کا رواں رواں شکر گذاری کے جذبہ سے لبریز ہوجائیگا۔اور پھر یہ خو ش رنگ اور خوش ذائقہ پھول اور پھل اور غلے اور درختوں کی پتیاں ان ساری چیزوں کے بارے میں جتنا علم انسان کو حاصل ہوگا، اتناہی اسے اپنے خالق اور مالک سے محبت زیادہ ہوگی اور خشیت بھی زیادہ ہوگی اسی لئے قرآن میں آیا ہے: اِنّما یٍٍَخشَی اللّہَ مِن عِبَادِہ العلمائُ‘ یعنی اللہ کے بندوں میں اہل علم اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں‘ اور قرآن میں ہے، ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاًً‘ یعنی اللہ نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزیں پیدا کیں ‘جب تک انسان مظاہر فطرت کی پرستش کرتا تھا، اس وقت تک وہ اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق نہیں بن سکا تھا، کائنات کے بارے میںاس کی تحقیق اور دریافت کا جذبہ تھا جس نے انسان کے اندر فکری اور علمی انقلاب برپا کردیا۔سولہویں صدی عیسوی سے پہلے مسلمان علم کے ہر میدان میں سب سے آگے اور استادی کے مقام پر تھے ، ایجادو تحقیق اور ارتقا کا سلسلہ جاری تھا ،مسلمانوں کے دور میں سائنس مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی کے اہم مرحلہ سے گذری ،کتابیں لکھی گئیں،آج بھی دنیا میں مختلف علوم وفنون میں اسلامی مخطوطات کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے یہ سب عربی زبان میں ہیں۔اس سے کئی گنازیادہ وہ کتابیں تھیں جو مرورایام سے ضائع ہوگئیں۔پہلے عربی زبان صرف مذہبی تعلیم کی زبان نہیں تھی بلکہ اپنے اپنے زمانے کے عصری علوم کی زبان بھی تھی۔دنیا میں علوم وفنون کی ترقی میں عربی زبان نے کلیدی رول اداکیا ہے۔ جارج سارٹن نے تاریخ سائنس کے نام سے جوکتاب لکھی ہے اس میں ایک ہزار مسلم سائنس دانوںکا تذکرہ ہے ، اس نے مسلمانوں کے سائنسی کارناموں کا اعتراف کیا ہے ،فواد سیزگین نے اپنی کتاب میں بے شمار مسلم سائنس دانوں کا تذکرہ کیا ہے ،کیمیاء ،طب اور فلکیات اور ریاضی ہر میدان میں مسلم سائنس دانوں اور ان کے کارناموں کا تذکرہ ہے ، یہ مسلمان جس موضوع پر کام کرتے تھے اس کا پورا حق ادا کرتے تھے ان کا اندازسطحی نہیںہوتا تھا ، یورپ کے لوگوں نے مسلمانوں کے علم کو لیا، اور اس میں انھوں نے اتنی زیادہ ترقی کی کہ مسلمانوں کو شاگردی کے مقام سے بھی نیچے تک پہونچا دیا، ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمان دوبارہ سائنسی علوم کو یورپ والوں سے لیتے ان کا مقابلہ کرتے لیکن ہوا یہ کہ یہ سائنس مسلمانوں کے سامنے ملک گیری اور استعمارکے جلو میں آئی، اس لئے مسلمانو ں کو استعماری طاقتوں سے نفرت ہوئی ، اور یہ نفرت ہونی بھی چاہئے تھی، لیکن مسلمانوں کے منفی رویے کی وجہ سے یورپ کی زبانیں جن میں یہ سائنسی علوم تھے مسلمانوں کے لئے اجنبی رہیں، اوربعد میں اگر مسلمانوں نے یہ زبانیں سیکھیں بھی تو انھوں نے غلطی یہ کی کہ ادب اور تہذیب حاصل کرنے کے لئے سیکھیں ، شیکسپیر اور برنارڈ شاکو پڑھنے کیلئے سیکھیں، چنانچہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں مسلمان ملک مغربی طاقتوں سے اتنے زیادہ پیچھے ہوگئے کہ ان دونوں میں کو ئی مقابلہ نہ تھا، پوری دنیا میں مسلمانوں کی شکست اور زوال کا یہی بنیادی سبب ہے، دوبارہ سائنس کی طرف قدم بڑھانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ مسلمان خود اپنی تاریخ سے واقف ہوں اور یہ دیکھیں کہ ان کے اسلاف نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کیسے محیر العقول کارنامے انجام دئے ، اسی مقصد کے لئے اس کتاب میں ان مسلمان سائنس دانوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن سے خو د یورپ نے استفادہ کیاتھا۔اور سائنس کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔ ( مقدمہ کتاب جو انسٹی ٹیوٹ آف ابجکٹیو اسٹڈیز دہلی کی طرف سے زیر طبع ہے)
سائنس اور صنعت میں مسلمانوں کا عروج وزوال
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
سائنس کائنات کے ا س علم کا نام ہے جو ہمیں مظاہر قدرت کے مشاہدے اور مطالعے سے
حاصل ہوتا ہے، مظاہر قدرت کی تین بڑی قسمیں ہیں: ایک تو وہ مادی مظاہر قدرت ہیںجو ہر وقت مشاہدے میں آتے ہیں، جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج اور اجرام فلکی ، پہاڑ اور نباتات وغیرہ وغیرہ ۔اور دوسرے وہ مظاہر قدرت ہیں جن کا تعلق نفس انسانی اور جسم انسانی اور حیات سے ہے، اور تیسری قسم میں انسان کے ذہن وشعور میں پید ا ہونے والے افعال واعمال ہیں، سائنس مظاہر قدرت کے اندر ایک نظم (order)کی تلاش کا نام ہے، یہ نظم ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اور جو کبھی منقطع نہیںہوتا سائنس اسی نظم کے دریافت کا نام ہے، یہ نظم ایک جوہر میں ، ایک سالمہ میں ، ایک کرسٹل میں ، اور برف کے ڈالے میں اور اجرام فلکی میں موجود ہے، اسی نظم کے جاننے کا نام سائنس ہے، اور یہ نظم اتنا جچا تلا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسی نظم کو دریافت کرنے کے بعد ریاضیاتی فارمولے تیار کئے جاتے ہیں، سائنس کی تمام حیران کن ترقیاں اسی نظم کو دریافت کرنے کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں، انسان ان مظاہر قدرت پر جتنا غور کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور وہ پھر اس کی علت دریافت کرنا چاہتا ہے، اور اگر عقل یہاں پر ٹھوکر نہ کھائے تو ایک سائنس داں خدا کے وجود کا اقرار کر لیتا ہے، اسی لئے اس عہد کے ایک بڑے شاعر نے اپنے انداز میں یہ بات کہی ہے:
اسی نظم کو سمجھنے کا نام سائنس ہے اور اس کے عملی اطلاق کا نام ٹکنالوجی ہے، جدید عہد میں ٹکناجولی اور انجینئرنگ کے تمام کمالات اسی سائنس کے مرہون منت ہیں، یہ نظم جس طرح مادہ کے تمام مظاہر میں اور اوصاف قدر ت میں پایا جاتا ہے، وہی ایک زندہ جسم انسانی ا ور حیوانی میں بھی کارفرما ہے، جسم انسانی اور حیوانی کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تمام خلیات اور اس کے تمام اعضاء رئیسیہ اسی نظم کے قانون کے تحت کام کرتے ہیں، ہضم کے اعضاء، خون اور گوشت اور ہڈیوں کے ساخت کے ا ندر بھی ،زخموں کا اندمال اور توالد وتناسل سب چیز کے اندر یہی قانون نظم کارفرما ہوتا ہے، جیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم اور قانون کسی بلند وبرتر ذہن کی حکیمانہ تخلیق کی کارفرمائی ہے، اور اس کی حکمت تخلیق ذرہ ذرہ میں جلوہ فرما ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ایک سائنس داں اپنی عقل کو استعمال کرکے خدا کے وجود اور مذہب تک پہونچتا ہے، قرآن میں خدا کے وجود کی یہی نشانیاں ہر جگہ بیان کی گئی ہیں، ایک جگہ قرآن میں ہے’’پیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میںاور دن اور رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے خدا کی نشانیاں ہیں‘‘۔دوسری جگہ قرآن میں ہے’’آسمان اور زمین میں مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرو‘‘۔قرآن اللہ تعالی کا قول ہے اور یہ پوری کائنات اللہ تعالی کا عمل ، جس طرح سے قرآن میں اللہ تعالی کی نشانیاں (آیات )ہیں اسی طرح سے یہ پوری کائنات اللہ تعالی کی نشانیوں کا مجموعہ ہے، قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، اور کائنا ت کی آیتوں کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کا علم سائنس ہے، قرآن میں ہے وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا(سورۃ بقرہ :۳۱)‘‘ یعنی آدم کو تمام چیزوں کے اسماء بتائے گئے ، اور مفسرین نے اور خاص طور پر امام رازی نے لکھا ہے کہ یہاں اسماء سے مراد ہر شے کی حقیقت اور ماہیت کا علم ہے، اور اسی کا نام سائنس ہے۔
سائنس سے متعلق کوئی بھی گفتگو ہوگی اس میں بنیادی چیز خو د سائنس کو سمجھنا ہے، سائنس کسی شیء کے پیدا کرنے یا ایجاد کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ قدرت کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا نام ہے، مثال کے طور پر جب سے اس کائنات کی ابتداء ہوئی ہے پانی ہر انسان کی ضرورت ہے اور وہ اس کو ہمیشہ استعمال کرتا آیا ہے ، لیکن یہ کہ پانی دو حصہ ہائڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے ، یہ ایک سائنسی دریافت ہے، سائنس کی دریافت کے ذریعہ ہمیں اللہ تعالی کی ربوبیت کا تفصیلی علم معلوم ہوتا ہے، سورج کا زمین سے کیا فاصلہ ہے، زمین کی گردش کی رفتار کیا ہے ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے ، سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں ، بارش کیسے بنتی ہے، بادل کہاں سے آتے ہیں، اور کیسے ہوا کے دوش پر سوار ہوکر دور دراز کے علاقوں میں برستے ہیں،نباتات کیسے پیدا ہوتے ہیں انسان کا نظام ہضم کیا ہے انسان کا علم ان تمام تفصیلات کے بارے میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ اللہ تعالی کی ر بوبیت کے نظام پر حیرت کرنے لگے گا، اور اس کا رواں رواں شکر گذاری کے جذبہ سے لبریز ہوجائیگا۔اور پھر یہ خو ش رنگ اور خوش ذائقہ پھول اور پھل اور غلے اور درختوں کی پتیاں ان ساری چیزوں کے بارے میں جتنا علم انسان کو حاصل ہوگا، اتناہی اسے اپنے خالق اور مالک سے محبت زیادہ ہوگی اور خشیت بھی زیادہ ہوگی اسی لئے قرآن میں آیا ہے: اِنّما یٍٍَخشَی اللّہَ مِن عِبَادِہ العلمائُ‘ یعنی اللہ کے بندوں میں اہل علم اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں‘ اور قرآن میں ہے، ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاًً‘ یعنی اللہ نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزیں پیدا کیں ‘جب تک انسان مظاہر فطرت کی پرستش کرتا تھا، اس وقت تک وہ اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق نہیں بن سکا تھا، کائنات کے بارے میںاس کی تحقیق اور دریافت کا جذبہ تھا جس نے انسان کے اندر فکری اور علمی انقلاب برپا کردیا۔سولہویں صدی عیسوی سے پہلے مسلمان علم کے ہر میدان میں سب سے آگے اور استادی کے مقام پر تھے ، ایجادو تحقیق اور ارتقا کا سلسلہ جاری تھا ،مسلمانوں کے دور میں سائنس مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی کے اہم مرحلہ سے گذری ،کتابیں لکھی گئیں،آج بھی دنیا میں مختلف علوم وفنون میں اسلامی مخطوطات کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے یہ سب عربی زبان میں ہیں۔اس سے کئی گنازیادہ وہ کتابیں تھیں جو مرورایام سے ضائع ہوگئیں۔پہلے عربی زبان صرف مذہبی تعلیم کی زبان نہیں تھی بلکہ اپنے اپنے زمانے کے عصری علوم کی زبان بھی تھی۔دنیا میں علوم وفنون کی ترقی میں عربی زبان نے کلیدی رول اداکیا ہے۔ جارج سارٹن نے تاریخ سائنس کے نام سے جوکتاب لکھی ہے اس میں ایک ہزار مسلم سائنس دانوںکا تذکرہ ہے ، اس نے مسلمانوں کے سائنسی کارناموں کا اعتراف کیا ہے ،فواد سیزگین نے اپنی کتاب میں بے شمار مسلم سائنس دانوں کا تذکرہ کیا ہے ،کیمیاء ،طب اور فلکیات اور ریاضی ہر میدان میں مسلم سائنس دانوں اور ان کے کارناموں کا تذکرہ ہے ، یہ مسلمان جس موضوع پر کام کرتے تھے اس کا پورا حق ادا کرتے تھے ان کا اندازسطحی نہیںہوتا تھا ، یورپ کے لوگوں نے مسلمانوں کے علم کو لیا، اور اس میں انھوں نے اتنی زیادہ ترقی کی کہ مسلمانوں کو شاگردی کے مقام سے بھی نیچے تک پہونچا دیا، ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمان دوبارہ سائنسی علوم کو یورپ والوں سے لیتے ان کا مقابلہ کرتے لیکن ہوا یہ کہ یہ سائنس مسلمانوں کے سامنے ملک گیری اور استعمارکے جلو میں آئی، اس لئے مسلمانو ں کو استعماری طاقتوں سے نفرت ہوئی ، اور یہ نفرت ہونی بھی چاہئے تھی، لیکن مسلمانوں کے منفی رویے کی وجہ سے یورپ کی زبانیں جن میں یہ سائنسی علوم تھے مسلمانوں کے لئے اجنبی رہیں، اوربعد میں اگر مسلمانوں نے یہ زبانیں سیکھیں بھی تو انھوں نے غلطی یہ کی کہ ادب اور تہذیب حاصل کرنے کے لئے سیکھیں ، شیکسپیر اور برنارڈ شاکو پڑھنے کیلئے سیکھیں، چنانچہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں مسلمان ملک مغربی طاقتوں سے اتنے زیادہ پیچھے ہوگئے کہ ان دونوں میں کو ئی مقابلہ نہ تھا، پوری دنیا میں مسلمانوں کی شکست اور زوال کا یہی بنیادی سبب ہے، دوبارہ سائنس کی طرف قدم بڑھانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ مسلمان خود اپنی تاریخ سے واقف ہوں اور یہ دیکھیں کہ ان کے اسلاف نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کیسے محیر العقول کارنامے انجام دئے ، اسی مقصد کے لئے اس کتاب میں ان مسلمان سائنس دانوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن سے خو د یورپ نے استفادہ کیاتھا۔اور سائنس کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔ ( مقدمہ کتاب جو انسٹی ٹیوٹ آف ابجکٹیو اسٹڈیز دہلی کی طرف سے زیر طبع ہے)
0 comments: