یہ خاموشی اچھے اشارے نہیں دیتی
قاسم
سید
نوٹ بندی کے بحران
نے ہر اس شخص کو سڑ ک پر لا کھڑ کیا ہے جس کی آمدنی میں کالی کمائی دوربین لگا کر
ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔پیسا بچا کر رکھنے والے لائن میں ہیں اور چھپا کر رکھنے
والے سفید کرنے میں مصروف ہیں۔نوٹ بندی نے ان تمام مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے
جنہوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے،سرجیکل اسٹرائیک بھی ذہنو ں سے محوہوگئی ،جبکہ سرحد
پرپڑوسی ملک اپنی بزدلانہ کاروائیوں سے باز نہیں آرہا۔سرجیکل اسٹرائیک کے بعد سے اب
تک 18جوان شہید ہوگئے۔ہر سوال سمٹ کر روز مرہ کی ضرورتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہے،
ہر شخص حیران پریشان سا ہے کہ وہ کل اپنے بچوں کے لئے کیا اور کیسے انتظام کرے۔ایسے
ملک میں جہاں کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہ ہوتی ہو انکی جیب سے ’’کالادھن‘‘
نکال کر بینکوں میں جمع کرانے کے لئے قطار میں کھڑا کردیا گیا ہے اور 2000روپئے بدلنے
کے لئے پولس کے لاٹھیاں کھانے کے لئے مجبور ہیں مگر ضد اور انانیت کے لات و منات کو
آوازیں گونگیں لگ رہی ہیں۔پھر بھی عوام صبر و تحمل کے ساتھ دیش کی ترقی ،کالا دھن
کے خاتمہ،دہشت گردی پر ضرب اور نہ جانے کب آنے والے اچھے دنوں کے لئے لاٹھیوں کی ضرب
برداشت کرنے کے ساتھ مسکرانے پر مجبور ہیں۔اقتدار کے حلقوں اور انکے حامیوں کی جانب
سے نوٹ بندی یا بد انتظامی پر احتجاج کرنے والوں کو پاکستان پرست ،دہشت گردی کے حامی
اور دیش دروہی تک کہا جارہا ہے۔سرکار کی کسی پالیسی پر نکتہ چینی دیش دروہ اور غدار
وطن کی دہلیز تک دھکیل دیتی ہے۔ظاہر ہے کوئی ماتھے پر غدار ہونے کا ٹیگ لگا کر زندہ
رہنا نہیں چاہے گا۔یہ آمرانہ جمہوریت ہے،اندرا گاندھی کے بعد ملک اسکا دوبارہ تجربہ
کررہا ہے۔
نوٹ بندی کے ماحول
میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کولکاتہ اجلاس پورے وقار، آن بان شان کے ساتھ ہوا اور
بظاہر اس پر سرکار کے فیصلے کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ایمانی حرارت والوں نے دل کی
شمع روشن کیں اور اجلاس عام میں لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت کی سعادت حاصل کی،مسلم
پرسنل لاء کے تحفظ کے لئے ہر قربانی کا عہد کیا ،علماء کرام کی تقریر دل پذیر کو غور
سے سنا۔اس دوران سرکار کی طرف سے متنازع مبلغ ذاکر نائک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی
لگانے ،اسکے اسکولوں پر سرکاری کنٹرول اور کھاتوں کو منجمد کرنے کے احکامات کے ساتھ
نائک کے خلاف انٹر پول کا ریڈ کارنر نوٹس جاری کئے جانے پر غور کی خبریں آئیں۔اگرچہ
نائک پر ابھی الزامات طے نہیں کئے گئے ہیں۔ایک بنگلہ دیشی مشتبہ دہشت گرد کی طرف سے
یہ جاننے کے بعد کہ وہ نائک کی تبلیغی ویڈیو سنتا تھا سرکار کے کان کھڑے ہوئے ورنہ
بی جے پی سرکار کے ڈھائی سال کے وقفہ میںکبھی ایسی کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور نہ
ہی کسی طرف سے کوئی آواز اٹھائی گئی۔بورڈ کے اجلاس میں اسکا تذکرہ تک نہیں ہوا،بھوپال
انکائونٹر میں جسے سواد اعظم فرضی سمجھتا ہے مارے گئے سیمی کے دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں
کے بارے میں بھی خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا گیا۔یہ غالبا اس لئے ہوا کہ یہ سارے
معاملات سیاسی ہیں اور بورڈ کے دائرے کار سے باہر ہیں۔گرچہ یہ لوگ بھی اسی شریعت پر
عمل پیرا رہے ہونگے جسکے تحفظ کے لئے دسمبر 1972میں بورڈ عمل میںآیا تھا۔یہ ایک ایسا
نمائندہ بورٖڈ سمجھا جاتا ہے جسکی مثال اپنی وسعت عمومیت
اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کے لحاظ سے تحریک خلافت کے بعد نہیںملتی۔یہ بھرم آج
بھی قائم ہے،اگر چہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کئی مسالک و مکاتب فکر خاطر خواہ نمائندگی
سے محروم ہیں اور مقاصد کی بآوری میں بھی بورڈ اب اتنا فعال اور متحرک نہیں رہا جس
کی ہمیشہ توقع کی جاتی رہی ہے۔بہر حال قحط الرجال کے دور میں جو بھی ہے غنیمت ہے اور
اسی سرمایہ افتخار کے سہارے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔کولکاتہ اجلاس میں سب کی نظریں
اس لئے اس پر مرکوز تھیں کہ کوئی ٹھوس پیغام ملے گا،ملت طلاق ثلاثہ اور دیگر امور میں
جن چیلنجوں سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کے لئے رہنمائی کی جائیگی۔کئی قرار دادیں منظور
کی گئیں۔مولانا رابع نے اپنے بلیغ خطبے میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ کیا ،انکا یہ مشورہ
دوسوں فیصد درست ہے کہ مسلمان حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں ،مسلک و مشرب سے اوپر
اٹھ کر اتحاد امت پر توجہ دیں،ملک میں رواداری ،بھائی چارہ کا فروغ،مذہب کے تئیں پیدا
غلط فہمیوں کے ازالہ اور تفہیم شریعت کے لئے جہد مسلسل ناگزیں ضرورت ہے۔
تین پہلو ایسے ہیں
جن پر توجہ دی جانے چاہئے ۔ایک تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ناواقف لوگوں کے اشکالات رفع
کئے جائیں اور انہیں مطمئن کیا جائے۔دوسرے عدالتی ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد کی جائے۔تیسرے
یہ کہ مسلمانوں کو عملی سطح پر مثالی نمونہ پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ہوش کے
بجائے جوش اور جلد بازی کی جگہ تحمل کا مظاہر کیا جائے۔طلاق کے مسئلہ پر جو اعتراضات
کئے جارہے ہیںاس میں خاصا دخل نکاح اور طلاق کے مسئلہ کو صحیـح طور پر نہ سمجھنے کی
وجہ سے ہے۔خود مسلمان بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہیں اسکی وجہ سے غلط فہمیاں پیداہوتی
ہیں۔مسلمانوں کی غلطی شریعت کی غلطی سمجھی جاتی ہے،شاید یہ وہ امور ہیں جن پر ٹھوس
کام کرنے کی ضرورت ہے ۔سوال یہ ہے کہ بورڈ بذات خود اس سمت میں کام کرنے کے تئیں کتنی
سنجیدگی اور فعالیت کا مظاہر ہ کرتا ہے۔اسی کے ساتھ بورڈ کو سیاسی آلودگی سے بچانے
کا بھی چیلینج ہے۔سیاسی طالع آزمائوں نے بورڈ کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے
سیڑھی بنانے کی کوشش کی،جسے اکثر بورڈ کی برگزیدہ اور جہاں دیدہ قیادت نے ناکام بنا
دیا۔ٹکرائو کا راستہ کبھی مفید نتائج پیدا نہیں کرتا،اشتعال اور ہنگامہ آرائیاں سمندری
جھاگ کی طرح ہوتی ہیں۔ایک سوال یہ بھی ذہنوں میں پیدا ہوا جس پر بورڈ وکو غور کرنا
چاہئے تھا کہ ہماری توقعات ،خواہشات اور عدالت میں پرزور دلائل کے باوجود خدانخواستہ
یہ مقدمہ ہار جاتے ہیں ،عدالت کے رویہ اور حکومت کے تیوروں سے بھی یہ خدشات پیدا ہوتے
ہے۔اگر کوئی ایسی ناخوشگوار صورتحال ہمارے نا چاہنے کے باوجود پیدا ہوجاتی ہے تب مسلمانوں
کی حکمت عملی کیا ہوگی؟جو سرکار اپنے پل بھر کے آمرانہ فیصلہ کے نتیجہ میں نوے فیصد
آبادی کو اس بات پر مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنی ہر جمع پونجی اس کے حوالے کردے ،وہ
خواتین جو کبھی غیر ضروری طور پر گھروں سے نہیں نکلیں انہیں اپنے نقاب ہٹا ہٹا کر شناخت
اور ثبوت دینے کے لئے مجبورکیا گیا ہو،دن ورات کے لئے لائن میں کھڑا کردیتی ہے اور
قطاروں میں متعدد افراد کے مرنے پر بھی اسکے احساسات زندہ نہیں ہوتے اور عام آدمی
اس پر احتجاج بھی نہیں کرسکتا ۔اسکے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بلا توقف دیش دروہی
تک کہا جارہا ہواور حکمراں جماعت نے طلاق ثلاثہ کو انتخابی ایشو بنا کر ’’مظلوم مسلم
خواتین‘‘کو ہر حالت میں انصاف دلانے کا عہد کررکھا ہو اور خود وزیر اعظم یہی بات کہہ
رہے ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کس حدتک سنگین ہیں۔نوٹ بندی کے حوالے سے
سرکار کے آہنی ہاتھ مدارس کی گردنوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور حکومت اپنی ضد پر اڑی
رہتی ہے تو کونسے قدم ہونگے جو اٹھائے جاسکتے ہیں۔ہو سکتا ہے بورڈ نے ان پر غور کیا
ہو مگر ابھی اسکا اظہار مناسب نہ سمجھا ہو۔ہم نے اپنی بد اعمالیوں ،شریعت سے دوری اور
خدائی احکامات سے بغاوت کا طرز عمل اختیار کرکے جہاں برادران وطن کو اسلام سے متعلق
شریعت قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کیا ہے وہیںاپنی عائلی و سماجی زندگی میں بھی کانٹے
بچھا لئے ہیں۔آج جو بھی حالات ہیں اس میں سرکار اور اسلام و مسلم مخالفوں کا کتنا
بھی دخل کیوں نہ ہو ہم خود کشی جیسے حالات پیدا کرنے کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔اگر ہمیں
خود اپنی حالت بدلنے کا احساس نہیں ہے تو خدا سے شکوہ کس لئے۔ہم خود کو مظلوم و مجبور
سمجھ کر دوسروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری محرومیوں کا ازالہ کریں،مسائل کے حل کے
لئے گداگری کا راستہ اختیار کریں،شاہوں کی چوکھٹ پر رکوع و سجود کریں اور اپنی ضرورتوں
کے لئے ہاتھ پھیلائیں،مانگنے والوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔سب
اپنی انانیت کے خول میں مصروف ہیں،عقیدت مندوں کی فوج انکے ’’اعلی حضرت ‘‘پر انگلی
اٹھانے والوں کی خبر لینے کے لئے تیار بیٹھی رہتی ہے۔جماعتی عصبیتیں خوار کررہی ہیں،دوسروں
کو وسعت قلبی ،ذہنی کشادگی او ررواداری اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ اور خود قدم
قدم پر عدم برداشت کا مظاہرہ متضاد رویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔مصنوعی اتحاد کو زیادہ
دنوں تک باقی نہیںرکھا جاسکتا،اگر آج ہم کسی پر زیادتی پر خاموش ہیں تو کل ہمارے اوپر
زیادتی ہوگی تو کہیں سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوگی۔
qasimsyed2008@gmail.com
0 comments: