عراق کے مسئلہ میں ہماری بعض مسلم تنظیموں کا افسوسناک رویہ

بے شک اس وقت عالم اسلام ایک نازک دور سے گذر رہا ہے ۔سوائے چند ایک مسلم ملکوں کے کہیں بھی امن و امان نہیں ہے ۔پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ یہ اس وقت سے ہے جب نیو ورلڈ آرڈر کی شروعات کی گئی تھی جو کہ اسرائیل نے امریکہ کے کاندھوں پر سوار ہو کر کیا تھا ۔کسی بھی معاملے میں ہماری صفوں سے امریکہ کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور یہ کچھ حد تک درست بھی ہے کیوں کہ افرتفری پیدا کرنے میں دوسرے ملکوں کو روندنے اسے نقصان پہنچانے میں صف اول میں جو نظر آتا ہے وہ امریکہ ہی ہے ۔اس سے قبل روس بھی ہوا کرتا تھا ۔اور روس نے جن مسلم جمہوریاؤں کو اپنے توسیعی عزائم کا نشانہ بنایا،تاریخ گواہ ہے کہ اس نے چنگیز اور ہلاکو کو بھی شرمسار کر دیا ۔روس نے مسلم جمہوریہ کے سارے ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں مسلمانوں کی شناخت تک کومٹادیا ۔کوئی مسلمان نہ تو داڑھی رکھ سکتا تھا اور نہیں اس کی پیشانی پر نماز پڑھنے کے نشان نظر آنے چاہئے تھے ۔قرآن کو دریا برد کردیا گیا یا جلا دیا گیا ۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کو قیامت تک باقی رکھے گا سو وہاں پھر اسلام ابھر رہا ہے ۔بہر حال ہمیں فی الحال عراق اور اس کے مسائل پر بات کرنی ہے ۔عراق پچھلی دو دہائیوں سے زیادہ سے سرمایہ دارانہ جارحیت (جس کا پشت پناہ اور مربی اسرائیل ہے )کا شکار ہے اس کا بہانہ اس وقت تلاش کیا گیا تھا جب عراق اور کویت کے سرحدی تنازعہ میں عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد نام نہاد ۱۱؍ستمبر کے واقعہ کے بعد اسے پھر سے نشانہ بنایا گیا اور اس بار عراق کو پوری طرح تباہ و برباد کرکے وہاں اسرائیلی امریکی جمہوریت نافذ کردیا گیا ۔اس جمہوری حکومت میں کیا ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔نام تو اس کا جمہوریت ہے لیکن اس کی آڑ میں آمریت کو فروغ دیاجارہا ہے۔نوری المالکی اسی نام نہاد جمہوریت کی دین ہیں ۔اور ابھی حال میں مصر اور اس کے بعد شام میں بھی اسی جمہوری عمل کے طفیل عوام الناس کے قاتل السیسی اور بشار الاسد حکمراں منتخب ہو گئے ۔مصر میں السیسی نے ہزاروں اخوانیوں کا قتل عام کیا اورمساجد کو آگ کے حوالے کیا ۔جب دنیا سنت ابراہیمی ادا کررہی تھی تب مصر میں اخوان اپنے عزیزوں کی قربانی پیش کررہے تھے ۔اور یہ سب کچھ سعودی حکمرانوں کی شہ پر انجام دیا گیا ۔شام میں بشارالاسد پچھلے تین سالوں سے عوامی تحریک کو اپنی فوجی قوت اور ایران کے اشتراک سے کچل رہا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دولاکھ سے زائد نفوس کا قتل عام کیا جاچکا ہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ شام میں ایران کی مداخلت اور حزب اللہ کے راست مداخلت کی وجہ سے وہاں عوامی تحریک کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کے واضح اشارے تحریک کے شروع کے دور میں ملنے لگے تھے ۔حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ ایک دو روز یا چند ثانیوں میں بشار شام سے فرار ہی ہونے والا تھا کہ ایران اور حزب اللہ کی مداخلت سے پانسہ پلٹ گیا ۔واضح ہو کہ حز ب اللہ وہی ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ ٹکر لے کر مسلم امہ کے درمیان اپنا وقار بہت بلند کرلیا تھا ۔حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب تک میں اس کو چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہو گئی تھی۔یہ وہی دور تھا جب احمدی نژاد بھی صرف عالم عرب ہی نہیں پورے عالم اسلام کے ہیرو کے طور پر ابھرے تھے ۔لیکن مسلم امہ کی بد نصیبی ہے کہ جس کوانہوں نے ان کے کارناموں کی وجہ سے اپنے دلوں میں جگہ دیا تھا ۔وہ بہت ہی کم نظر نکلے اور شام میں ایک ظالم ڈکٹیٹر کی حمایت کرکے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرکے دکھ دیا ۔
دولت اسلامیہ عراق و شام نامی جس تنظیم کا نام ابھی عراق والے معاملے میں آرہا ہے اور جس کی پیش قدمی سے ہمارے درمیان کے ہی وہ بظاہر ہمارے خیر خواہ نظر آنے والے دوست اور بھائی زیادہ خوف زدہ ہیں ۔میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ پتہ چلے کہ داعش نے عراق میں پہنچ کر شیعوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہے یا وہاں کے مقامات مقدسہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔لیکن مجھے کوئی ایسا پختہ ثبوت یا اشارہ بھی نہیں مل سکا ۔لیکن یہاں ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اتنی بے چینی پھیلائی کہ آخر کار لکھنوء میں کچھ تناؤ پیدا ہو ہی گیا جس پر باشعور طبقہ نے قابو پالیا ۔پچھلے دوسالوں سے ہندوستان میں شام کے تعلق سے افواہ پھیلانے کا مشغلہ زوروں پر ہے اور یہ افواہ براستہ ایران ہی یہاں داخل ہوا ۔اس میں کئی بار ایسی باتیں سامنے آئیں کہ کسی صحابیؓ یاکسی بزرگ ؒ کے مزارات کھود دئے گئے اور ان کی نعشوں کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ۔لیکن اس کی توثیق کسی معروف ذرائع سے آج تک نہیں ہو سکی ۔جبکہ جنگ زدہ علاقوں میں اور پھر جہاں سرکاری فوجوں اور عام گوریلوں سے جنگ جاری ہو وہاں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ جن سے جنگ جاری ہے وہ لوگ زیر زمین ہیں ۔ان کا کوئی دفتر کوئی پتہ وغیرہ تو ہوتا نہیں ہے۔اس کا فائدہ مخالف سرکاری عوامل اٹھایا کرتے ہیں اور اپنی کشتی گرداب میں پھنستی دیکھ کر اسی طرح کی اوچھی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں ۔اس دور میں ویسے بھی تمام طرح کی جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔اسی لئے ڈکٹیٹر جب عوامی مخالفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں کر پاتے تو ان کے قائدوں کی تضحیک اور ان کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے ان سے نفرت کرنے لگیں کیوں کہ عوام الناس اپنے قائد کو بے داغ جری اور بہادر دیکھنا پسند کرتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہمارے دلوں میں حضرات صحابہ کرام اور خلفاء راشدین سمیت دیگر بزرگان دین کی عظمت اور بزرگی راسخ ہے ۔
داعش کی پیش قدمی سے ایسا لگا جیسے ہندوستان میں بھونچال آگیا ہو ۔کچھ لوگ تو جان بوجھ کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے لیکن کچھ لوگ اور تنظیمیں بغیر جانے بوجھے کہ یہ داعش کیا ہے اور کیوں ہے؟اور کیوں اس نے عراق میں مورچہ کھول دیا ہے ۔اپنی غلط سلط بیان بازی سے اسی طرح مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کیا جس طرح الیکشن سے قبل مودی آجائے گا ،مودی آجائے گا، کا شور کرکے کانگریس کی حمایت کا شور بلند کیااور مسلم ووٹوں کو منتشر کرکے رکھ دیا ۔اس بہاؤ میں وہ لوگ بھی بہے چلے جارہے ہیں جن کے بارے میں آج بھی یہ بھرم قائم ہے کہ یہ دانشوروں کا طبقہ ہے اور مسلمانوں میں واحد ایسا گروہ ہے جس کے بارے میں عوامی رائے ہے کہ سنجیدہ لوگو ں کی تلاش یہیں آکر ختم ہوتی ہے ۔لیکن وہ بھی بھرم توڑتے ہوئے نظر آئے ۔اگر ہمیں معلوم نہیں کہ کس ملک میں کیاہو رہا ہے اور اس کی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ تو کیا ہم خاموش نہیں رہ سکتے کیا ضروری ہے کہ چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی الٹا سیدھا بیان دیا جائے ۔کیا اس سے ہمارا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے ۔ایک بھرم ہی تو ہے، کیا اب ہم اسے بھی توڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چند گھسے پٹے اور مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کا ادراک کریں ۔دنیا میں بدلتے جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطابق بولیں اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو خاموش رہیں۔کیوں کہ نبی ﷺ کا رشاد ہے کہ ’’جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا‘‘۔

نہال صغیر ۔ ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل : 9987309013

0 comments:

عراق کا موجودہ بحران


اوبامہ نے امریکہ کے منصب صدارت پر متمکن ہونے کیلئے اپنی انتخابی سرگرمیوں کے دوران جو سب سے اہم وعدے امریکی عوام سے کئے تھے وہ تھا امریکی فوجیوں کی واپسی کا ۔عہدہ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد اس پر عمل کرنا بھی شروع کردیا ۔اسی کے تحت عراق سے امریکی فوجیوں کی واپسی بھی ہوئی تھی ۔ اور افغانستان سے عنقریب امریکی فوجیں واپس ہو جائیں گی۔ان کا ایک وعدہ امریکی قید خانوں کو بند کروانا بھی تھا جو حقوق انسانی کے لئے سرگرم کارکنوں کی تنقید کی زد میں تھالیکن وہ اپنے اس وعدہ کو پورا نہیں کر پائے ۔دراصل امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ امریکہ صہیونیوں کے دباؤ میں اسلامی قوتوں کو کچلنے اور مسلم ممالک کی دفاعی ،جغرافیائی،معاشی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے نئے نئے حیلے اور بہانوں سے ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں کو اپنی فوجی قوت کے زعم میں کچلتا چلا گیا جس سے اسکے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور خلیج کے اپنے شاہی ایجنٹوں کے خزانوں کے منھ کھول دینے کے باوجود اپنی معاشی بربادی کو نہیں روک پایا حد تو یہ ہو گئی کہ ایک امریکی شہرڈیٹرائٹ اس حد تک دیوالیہ ہو گیا کہ اس کی آدھی سے زیادہ آبادی شہر کو خالی کرکے دوسرے شہروں میں جا بسی ۔وہاں کی شہری انتظامیہ کے پاس بجلی اور پانی جیسے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لائق بھی رقم نہیں رہی۔مذکورہ شہر کی آبادی جو 1950 میں1850000 تھی وہ 2013 میں صرف 701000 رہ گئی تھی ۔
اوپر جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عراق کی موجودہ صورت حال یعنی عراق کے اہم شہروں پر دولت اسلامیہ عراق و شام کے قبضہ کے بعد نو ری المالکی کی امریکی انتظامیہ سے مدد کی اپیل پر امریکہ ایک بار پھر عراق میں اپنی فوجیں اتار ے گا اور نو ری المالکی کی جنگ امریکہ لڑے گا یہ محض ایک خیال ہے۔اور اگر ایسا ہوگیا جس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں تب امریکہ شاید اپنے آخری انجام کو پہنچ جائے ۔یہ آخری انجام کیا ہوگا اس کو حالات کے بدلتے تناظر میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔اتنا تو ہو سکتا ہے کہ امریکہ عراقی فوج کی کچھ ہتھیار اور زیر زمین تخریبی سرگرمیوں سے کچھ مدد کرد ے جو کہ امریکی سی آئی اے نے موساد کی مدد سے مسلم ملکوں سے اہم سائنسدانوں اور اہم فوجی افسروں کو خفیہ طور پر قتل کرکے ماضی میں بھی انجام دیا ہے اور موساد کے پاس تو آرماگیڈون تک کیلئے اس کا خاکہ موجود ہے ۔ہوا یہ کہ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام حکومت کا خاتمہ کردیا اور عراقی فوجیوں کی بچی کھچی قوتوں کو کچل کر رکھ دیا لیکن امریکیوں سے مزاحمت کرنے والوں نے اپنا طرز عمل بدل دیا اور ایک حکمت عملی کے تحت انہوں نے امریکی قیادت میں عراقی فوجیوں میں شامل ہوکر ٹریننگ لی اور با لکل بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ جس القاعدہ کو ختم کرنے کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے خواب دیکھا تھا انہوں نے نئے روپ میں دولت اسلامیہ عراق و شام کی شکل لے لی ۔جن سے لڑنا عراقی فوجیوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔کیونکہ حالات سے پتہ چلتا ہے اس دس لاکھ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو داعش کے وفا دار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ خبر آرہی ہے کہ عراقی فوجی چوکی خالی کرتے جارہے ہیں داعش کے رضاکار شہر در شہر قبضہ کرکے اپنی حکومت کا اعلان کررہے ہیں ۔
مذکورہ بالا حالات اور داعش کی پیش قدمی سے سب سے زیادہ انقلاب اسلامی کاعلمبردار ایران خوف زدہ ہے۔اس کی وجہ وہی مسلکی منافرت ہے جس نے امت کو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے اور جس کی وجہ سے امت اپنا وقار کھوتی جارہی ہے ۔تین سال قبل تک تو کسی حد تک ایران سے متعلق لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ ایران واقعی اسلامی انقلاب کا ہر اول دستہ ہے اور وہ امت کی سربراہی کے لائق اور قائدانہ صلاحیت رکھنے والا ملک ہے ۔لیکن یہ خوش فہمی اس وقت کافور ہو گئی جب ایران نے شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی مدد بھی کی اور شام کی عوامی تحریک کو کچلنے میں بشار رجیم کی مدد کی ۔اب ایک بار پھر ایران اسی جذبے کے ساتھ نو ری المالکی کی حکومت کو بچانے کیلئے امریکہ کی مدد کو تیار ہے جسے انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی نے شیطان بزرگ کہا تھا ۔اس سے قبل بھی امریکہ جب افغانستان میں شمالی اتحاد کی قیادت میں طالبان کی حکومت کے خاتمہ کیلئے داخل ہوا تھا جب بھی ایران شمالی اتحاد کے ساتھ تھا ۔یعنی امریکہ کی جب بھی ایران نے مدد کی تھی ۔ لیکن اب تک کچھ لوگ اور تنظیمیں ایسی ہیں جو ان حقائق سے آنکھیں بچاکر وہی پرانا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی تناظر کو سمجھا جائے ۔محض کسی خوش کن نعروں سے متاثر ہو کر کسی کی ایمانداری اور اسلامی انقلاب کا نقیب نہ سمجھا جائے ۔ایسا ہی کچھ معاملہ سعادی عرب میں آل سعود کا بھی ہے کہ وہ بھی اپنی خاندانی حکومت کو بچانے کی فکر میں شام میں تو عوامی تحریک کی حمایت کرتے ہیں لیکن مصر میں اسی عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی سازش میں شریک ہوتے ہیں۔امت کو ان دونوں جگہوں ہونے والی سیاسی تبدیلی اور ان کے مفادات کا بغور جائزہ لینا چاہئے۔
نہال صغیر  ممبئی 400067
موبائل : 9987309013

0 comments:

میر جعفر، میر صادق کا کردار اور سعودی کی السیسی کوحمایت


فوجی بغاوت کے سربراہ فیلڈ مارشل عبد الفتاح السیسی آخر کار مغربی جمہوریت کی نیلم پری کے طفیل مصر کے عہدہ صدارت پر متمکن ہو چکے ہیں ۔ان کی حلف برداری سے قبل ہی جبکہ ساڑھے ساتھ فیصد ووٹ میں ستانوے فیصد ووٹ حاصل کرکے وہ فاتح قرار پائے تھے ۔اسرائیل نے انہیں مبارکباد پیش کی تھی اسی کے ساتھ ہی سعودی سربراہ عبداللہ بن عبد العزیز نے بھی انہیں فتح کی نوید سننے کے بعد مبارکباد پیش کی تھی ۔تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے شاہ عبد اللہ نے اپنے خاص ایلچی شہزادہ سلمان بن عبد العزیز نے بنفس نفیس شامل ہوکر بڑے گرم جوشانہ انداز میں کہا کہ ’’ان کا ملک ،حکومت اور پوری قوم خادم الحرمین شریفین کی ہدایت کے مطابق مصری قوم کے ساتھ ہے‘‘اسی کے ساتھ انہوں نے آگے کہا کہ سعودی عرب مصر کو اپنا بھائی سمجھتا ہے اور مشکل وقت میں مصر کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔شہزادہ سلمان نے یہ بھی کہا کہ ’’آج کا دن مصر کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کیوں کہ مصری قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ اور اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھنے جارہی ہے ‘‘۔
ہمیں یا کسی کو بھی ایسی باتوں سے جسے عام طور پر سفارتی زبان بھی کہتے ہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر اس میں جھوٹ کی آمیزش ہو اندھیرے کو اجالا بنا کر باطل کو حق بنا کر پیش کیاجائے ۔ظالم کو مسیحا بتایا جائے ۔تب خاموش رہنا اور اس پر کوئی تبصرہ نہ کرنا بھی ظالم کی مدد اور باطل کے ساتھی ہونے کے برابر ہے ۔شہزادہ سلمان نے جس انتخاب میں السیسی کی جیت پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اس کو مصری قوم کا فیصلہ بتایا ہے ۔اس کی حقیقت دجالی میڈیا کے جھوٹ کے باوجود چھن چھن کر لوگوں تک پہنچ ہی گئی ۔ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ووٹنگ کیلئے دو روز کا وقفہ تھا اور اس میں مصر میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن ان دو دنوں میں بھی ساڑھے سات فیصدی سے زیادہ لوگ ووٹ دینے گھر سے باہر نہیں نکلے تب تیسرے دن الیکشن کو جاری رکھا گیا ۔اور اس کے بعد نتائج کا جھٹ سے اعلان کیا گیا کہ 39% سے 42% ووٹروں نے حق رائے دہی میں حصہ لیا جس میں السیسی 97% ووت لیکر فاتح قرار پائے ۔اس الیکشن کا جس کو منصفانہ اور شفاف ماننے میں بین الاقوامی برادری کے انصاف پسندوں کو تامل تھا جس کا اظہار کئی لوگوں نے کیا بھی تھا ۔یہی سبب ہے کہ اخوان سمیت سبھی اہم سیاسی پارٹیوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس انتخاب کو عام طور پر دو گھوڑوں کی ریس قرار دیا گیا ۔موجودہ السیسی کی انتخاب میں کامیابی صرف سات فیصد عوام کا ہی فیصلہ ہے یعنی اکثریت السیسی کو آج بھی باغی ظالم اور یہودی اور صہیونی ایجنٹ کے طور پر ہی دیکھتی ہے ۔جس اسرائیل کو فلسطین کی دو مختلف گروپوں حماس اور الفتح کا اتحاد بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا ہو وہ سعودی حمایت یافتہ السیسی کی جیت سے اتنا خوش کہ اس نے فتح کی مبارکباد دیتے ہوئے یہ امید بھی ظاہر کی تھی کہ اسرائیل اور مصر کے اتحاد سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا نیز نئی حکومت اسرائیل کے ساتھ ماضی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کرے گی ۔یہی اسرائیل ہے جس نے اخوان کی حکومت بننے پرنہ صرف یہ کہ سخت تسویش کا اظہار کیا تھا بلکہ وہ اخوان کے عروج سے سخت خائف تھا ۔ایساہونے کی وجہ بھی ہے کہ یہ اخوان وہی ہیں جو 1948 میں اسرائیل کے خلاف راست طور پر جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور اسے ان کی غیرت اور شجاعت کا ادراک ہے ۔عنقریب تھا کہ اسرائیل کا وجود اسی وقت ختم ہو جاتا لیکن عالمی قوتوں کی مبینہ سازشوں اور مسلمانوں میں پل رہے میر جعفروں اور میر صادقوں کی وجہ سے وہ جنگ ختم ہوئی اور اسرائیل مسلم دنیا میں ایک کینسر کی طرح برقرار ہے ۔اسرائیل امریکہ سے بھی نالاں ہے جس کا اظہار زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اوبامہ کے اسرائیل کے دورے کے دوران سرد مہری سے کیا ۔سروے رپورٹ بتارہے ہیں کہ یوروپ اور امریکہ میں اسرائیل کو ایک بوجھ سمجھنے والوں کی تعداد اب بہت تیزی سے بڑھتی جارہی ہے جس سے اسرائیل اور بھی خوف زدہ ہے ۔ایسے وقت میں خادمین حرمین شریفین !کی پشت پناہی اور اسرائیلی منصوبوں سے مرسی کی حکومت کا تختہ پلٹاجانا اور ایک اسرائیل نواز جنرل کو چور دروازے سے مصر کا اقتدار سونپ دینا کیا کہانی بتا رہا ہے ۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ ’’اگر حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کی تیروں پر نظر رکھو وہ جہاں لگ رہے ہوں حق وہیں ہے‘‘۔ایک باغی فوجی سربراہ جس نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا کھلے عام مذاق اڑایا ہو ۔جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بد ترین مثال پیش کی ہو ۔جس کے حکم پر ہزاروں عورتوں مرد وں بچوں اور ضعیفوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہو ۔جس کے حکم پر مسجد میں آگ لگا دی گئی ہو اور ہزاروں مساجد میں تالے ڈال دئے گئے ہوں ۔اس کیلئے اسرائیل اور سعودی حکمراں دونوں کی طرف سے مبارکبار ،جوش اور فریفتگی سے کیا ظاہر ہوتا ہے ۔کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ باطل کا تیر کس کی طرف سے اور کس طرف ہے ۔کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مصر میں اخوان کی قانونی حکومت کا غیر قانونی اور غیر انسانی طریقے سے خاتمہ میں یہود اور سعود کی برابرشراکت ہے ۔اب یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ ان حقیقتوں کی روشنی میں آل سعود کو خادمین حرمین شریفین کہنا کہاں تک درست ہے جبکہ ان کے کارنامہ مسلم امہ کو نفاق میں مبتلا کرنے اور قاتل و جابراور غاصب اسرائیل کو قوت فراہم کرنے والا ہی ہے ۔کیا صرف حاجیوں کی مہمان نوازی ان کے پیسوں سے کرنا اور حج کے انتظامات کرنا ہی ساری خامیوں اور اسرائیل نوازی جیسی لعنت کو دھونے کیلئے کافی ہے ۔ مسلم امہ کو بیسویں صدی کے آخر میں شاہ فہد اور اکیسویں صدی کی ابتداء میں شاہ عبد اللہ نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید ہی کسی سے پہنچا ہو ۔

1 comments:

دنیا میں امن و استحکام کے لئے صرف اسلامی نظام حکومت ہی واحد متبادل ہے


تقریباً دو صدی قبل دنیا میں جمہوریت اورسرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کی فلاح کے لئے ماڈل کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔اور اس ماڈل کے نتائج ہم موجودہ دنیا میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس ماڈل نے انسانیت کی فلاح کا کام اس قدر کیا کہ امیر امیر ہوتا گیا اور بے چارہ غریب ،غریب ہوتا گیا ۔جس دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے عذاب میں سازشی یہودی اور ان کے ہمنوا دنیا کو مبتلائے آلام کرنے کی فکر میں تھے ۔ٹھیک اسی وقت مغرب نے جمہوریت کی نیلم پری کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔جمہوریت میں جو تھوڑی سی خوبیاں تھیں اسے خوب عیاں کرکے عام لوگوں کو بتایا گیا۔جمہوریت کو ایک خوبصورت پردے کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس خوبصورت حسینہ کو پیش کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگ باگ اس کی دلفریبی میں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو بھول جائیں ۔تاکہ انہیں غریب عوم کو لوٹنے کا بھر پور موقع مل سکے۔یہ لو گ اپنے اس قبیح مقصد میں دو صدی سے زیادہ کامیاب رہے۔لیکن بہر حال عوام کا ایک طبقہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو کچھ حد تک سمجھ گیا ،جس کے رد عمل کے طور پر اشتراکی تحریک کا ظہور ہوا۔اس وقت سے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیوں میں کشمکش شروع ہوئی کہ بالآ خرسقوط سوویت روس کی صورت میں اشتراکیت نے دم توڑا۔اس کے سارے قلعے ایک ایک کرکے زمین بوس ہوگئے ۔ وجہ تھی اس کا غیر فطری ہونا ۔ان تینوں نظاموں کی وقتی کامیابی کی واحد وجہ تھی کہ اس وقت بحیثیت مجموعی مسلم مملکتیں زوال پذیر تھیں ۔کوئی سی مسلم مملکت رہی ہو جو یہودیوں کی پروردہ نام نہادجمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کی دست برد سے محفوظ رہی ہوں ۔مسلمانوں میں بھی مسلکی علاقائی اور لسانی عصبیت عروج پر تھیں ۔منافقین کے عروج کا زمانہ تھا لارنس آف عربیہ کی شکل میں ان میں کئی منافقین موجود تھے تو غداروں کی بھی ایک جماعت عالم اسلام کے مضبوط قلعوں میں سیندھ لگانے میں مصروف کار رہی،جن کے سر خیل میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ تھے۔چونکہ ان ساری ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسلام کی طرف سے اس کا دفاع کمزور تھا ۔ نتیجتاًاس درمیان دنیا میں تین باطل تحریکوں کو پنپنے کا موقع مل گیا ۔ اشتراکیت تو خیر سے ستر پچھتر سالوں میں ہی اپنی موت آپ مر گئی۔مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام بھی بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے۔ویسے بھی مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا تحفظ حاصل ہے ۔
اب گاہے گاہے مغربی جمہوریت کی ناکامی پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔چنانچہ مشہور صحافی کلدیپ نیر اپنے ایک ہفتہ واری کالم کے شروع میں ہی لکھتے ہیں کہ ’’بد نصیبی سے پورے جنوبی ایشیا میں جمہوریت ناکام ہو چکی ہے‘‘۔لیکن انہوں نے صرف جنوبی ایشیا کا ہی تذکرہ کیا ہے جبکہ یہ عالمی تناظر میں ناکام طرز حکومت ہے ۔ جس نے عوام الناس کو غربت و جہالت میں دھکیلا ہے ۔محض چند لوگوں کو عیاشی فراہم کرایا ہے ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق بھی دنیا کے پچاسی فیصد سے زیادہ وسائل پر صرف دس فیصدسے بھی کم امیر لوگوں کا قبضہ ہے۔لیکن چونکہ میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ پر وہ پوری طرح حاوی ہیں اس لئے وہ تصویریں ہمیں اب دکھائی نہیں جاتیں جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔آج سے کوئی تیس پینتیس سال قبل تک اخبارات میں افریقہ اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھکمری کی ایسی دردناک تصاویر شائع ہوا کرتی تھیں کہ پتھر دل انسان بھی رنجیدہ ہو جائے ۔لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ،جس سے کہ انسانیت کا اصل مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ۔اب ہر جگہ سے جنگ و جدل کی خبریں دہشت گردانہ حملوں کے خطرات کی جھوٹی خبریں ہی چھائی رہتی ہیں ۔لیکن افریقہ جس کو سرمایہ داروں نے اپنی لوٹ مار کا اڈہ بنا رکھا ہے وہاں سے بھوک سے مرتے لوگوں کی تصاویر اور نہ ہی خبریں اخبارات یا نیوز چینل کی زینت بنا کرتی ہیں ۔اب گلیمر یعنی جنس زدہ اور جانوروں کو شرمسار کرنے والے بیہودہ پروگرام اور سلیبریٹی کی نیم برہنہ تصاویر ان کے شب وروز اور ان کی مصروفیات ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے ۔کہا ہی گیا ہے کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔وہ جمہوریت جس کے بارے میں 1908 میں برطانیہ کے گورنرجنرل برائے مصر لارڈ کرومر نے اپنی کتاب ’’ماڈرن ایجپٹ ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے ’’جونہی دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایک نسل انگریزی تعلیم کے ذریعے انگریزی کلچر کے آئیڈیل کی حامل پیدا ہو جائے گی انگلینڈ اپنی تمام کالونیوں کو سیاسی آزادی دے دیگا لیکن کسی بھی صورت میں برطانوی حکومت ایک لمحے کے لئے بھی خود مختاراسلامی ریاست برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ‘‘۔ یہ ہے یہود نواز مغرب کا اصلی چہرہ اسے وہ اسلام نہیں چاہئے جو زندگی کے سارے معاملات کی نگرانی اور اس میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔اسے تو صرف مساجد کی حد تک اسلام چاہئے ۔اور یہ اس لئے ہے کہ اگر اسلام کا پورا نظام غالب آگیا تو سود طبقہ جو عالم انسانیت کا خون پی کر تندرست و توانا ہوا ہے اس کا کیا ہوگا۔
آج عالم اسلام میں ایک بیداری اور خاندانی اور موروثی اجارہ داری سے بیزاری بڑی تیز رفتار سے بڑھ رہا ہے۔اس کی شروعات تیونس سے ہوئی لیکن اپنے ذہن کو ہم ذرا وسعت دیں تو اس کی شروعات ایران کے اسلامی انقلاب سے ہو گئی تھی۔پراس بیچ زیادہ وقفہ کی وجہ نام نہادمغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے علبردار اپنی پوری قوت سے موجود تھے ،جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور دولت کی چمک دمک سے اسلامی انقلاب کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی چنانچہ عراق ایران جنگ ،جنگ خلیج اور نام نہاد ۹؍۱۱ کے بعد افغانستان پر چڑھائی جس میں انکی میڈیا کی اجارہ داری سے کسی حد تک کامیابی ملتی محسوس ہوئی تھی ۔دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ دنیا میں اسلام بس برائے نام ہی باقی رہے گا۔لیکن وہ تو احکم الحاکمین کی جانب سے دی گئی ڈھیل تھی چنانچہ وہی جنگ اور دہشت سرمایہ داروں کی موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے ۔سرمایہ داروں کے امام اور اسرائیل کے سرپرست امریکہ کو عراق و افغانستان میں اپنی قوت گنوانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ہاں اس کے لئے مسلمانوں نے بڑی قیمتیں چکائیں ہیں ۔لاتعداد عوام اور خواص نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے رونما ہو ہی نہیں سکتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں تو اہنسا نے ہی کام کیا اور بھارت آزاد ہوگیا۔جو لوگ یہ سوچتے ہیں وہ یا تو خود فریبی میں مبتلا ہیں یا پھر ان ہزاروں مجاہدین آزادی کی تحقیر کرنے کے مجرم ہیں ،جنہوں نے اپنے خون سے ایک زرین تاریخ کا روشن باب تحریر کیا۔میں یہاں پر مولانا مودودی ؒ کا اقتباس نقل کرنا چاہوں گاانہوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا کہ ’’انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نہیں ڈھال دینے کا نام ہے،مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے موڑدینے کو کہتے ہیں۔دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا ،جو لوگ اپنا کوئی اصول ،کوئی مقصد حیات،کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں،جو بلند مقصد کے لئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں،جن کو دنیا میں آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو ،جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں،ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے ،انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے،دنیا کے خیالات بدلے ہیں ،منہاج عمل انقلاب پیدا اور برپا کیا ہے۔زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کرچھوڑاہے‘‘۔
اردو ٹائمز ممبئی جمعہ 20 ؍جون کے ایک مضمون میں ڈاکٹر لعل خان ’’عراق :کالی آندھی کا اندھیرا‘‘کے عنوان سے فرماتے ہیں ’’بربادی ،سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کرکے ہی فرقہ وارانہ،قومی،مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘۔مضمون نگار پتہ نہیں کس سوشلسٹ انقلاب کی بات کررہے ہیں ۔روس کے سوشلسٹ انقلاب کی جو صرف 75 سالوں میں آنجہانی ہو گیا ۔اس انقلاب کی تاریخ روح فرسا ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ اس انقلاب نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا خون بہایا ،مساجد پر تالے لگائے ،علماء کا قتل عام کیا گیا ،مذہبی کتابوں خصوصا قرآن کو دریا برد کیا گیا یا جلا دیا گیا ۔یا چین کے سوشلسٹ حکومت کی جسے شعار اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے کہ اس نے اپنے شہریوں پر روزہ رکھنے کی پابندی لگا رکھی ہے ۔یا اتا ترک کے سیکولر انقلاب کی جس نے اذان اور نماز پر پابندی لگائی شراب خانے کھلوائے اور جوئے اور قمار بازی کو ترک معاشرے میں عام کیا اور صرف اسلام دشمنی کے نام پر۔اگر انقلاب یہی ہے کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کو قتل کردیا جائے انہیں بالجبر کسی عقیدہ کوماننے پر مجبور کیا جائے تو ایسے انقلاب سے جمود ہی بھلا۔بھلا وہ انقلاب کہاں اور کس طرح انسانیت کی فلاح کا کام انجام دے سکتا ہے جس کو دنیا کی ایک بڑی آبادی نے مسترد کردیا ہو ۔ ہمارا کہنا ہے کہ تم کسی کی بات نہ کرو تم ایک بار صرف پانچ سال کیلئے اسلام کے مکمل نظام کی حمایت کرنے والی اور اسے نافذ کرنے والی حکومت کی تائید نہیں تو کم از کم اس کے خلاف سازشیں نہ کرو اور اپنی قوت اسے رد کرنے کی بجائے انسانیت کی بھلائی میں صرف کرو تو یقین جانو کہ اسلام صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی دنیا کو وہ سب کچھ دے گا جس کو مغربی جمہوریت ،سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب سو اور دو سو سال میں بھی نہیں دے سکے ۔لیکن تم باطل پرست ایساکبھی نہیں ہونے دو گے کیوں کہ اسلام کا شجر سایہ دار والی حکومت صرف پانچ سالوں میں ہی انسانوں کے دلوں کو تسخیر کرکے تمہیں ہمیشہ کیلئے مسترد کردے گی ۔اور تم انسانیت کی بھلائی چاہتے ہی نہیں ہو ۔تم آزادی نسواں کے بہانے تمہیں عورتوں تک پہنچنے کا راستہ چاہئے ۔تمہیں بے لگام آزادی چاہئے ۔جس سے کہ تمہیں آوارہ گردی اور بد کاری کے کھلے راستے دستیاب ہو جائیں جس کی زہریلی فصل دنیا ایڈز کینسر اور اس جیسے ان گنت بیماریوں کی صورت میں کاٹ رہی ہے۔
نہال صغیر۔ممبئی ۔موبائل: 9987309013

0 comments:

हिंदी

'मैं मुसलमान हूं, बदला लेना हमें नहीं सिखाया गया'

 बुधवार, 11 जून, 2014 को 07:43 IST तक के समाचार

हैदराबाद की मक्का मस्जिद धमाके के सिलसिले में फर्जी मुकदमे में गिरफ्तार  इब्राहिम अली जुनैद
यूनानी दवाइयों के डॉक्टर इब्राहिम अली जुनैद 29 वर्ष के हैं और पिछले छह सालों से अपने ऊपर लगी टेरर टैग की 'बीमारी' का ख़ुद इलाज कर रहे हैं.
हैदराबाद की मक्का मस्जिद में 18 मई 2007 के दिन ज़ोरदार बम धमाके हुए थे, जिसके बाद 25 युवाओं को गिरफ़्तार किया गया था.
इब्राहिम अली जुनैद उनमें से एक थे. इन सभी मुस्लिम युवाओं के ख़िलाफ़ पुलिस ने फ़र्ज़ी मुक़दमे किए थे जिन्हें बाद में अदालत ने बाइज़्ज़त बरी कर दिया. इसके बाद सीबीआई ने स्वामी असीमानंद को 2010 में गिरफ़्तार किया और उनके बयान से ये स्पष्ट हुआ कि मक्का मस्जिद विस्फोट में हाथ किसका था.
राज्य सरकार ने जुनैद को मुआवज़े के तौर पर तीन लाख रुपए दिए और 'सॉरी' के अंदाज़ में एक 'कैरेक्टर सर्टिफ़िकेट' भी दिया. लेकिन इन युवाओं का तब तक काफ़ी नुक़सान हो चुका था.
किसी की शादी नहीं हो सकी, कोई नौकरी हासिल न कर सका और कोई पढ़ाई पूरी नहीं कर सका. सभी को किसी न किसी रूप में सामाजिक बहिष्कार का सामना करना पड़ा.

'जारी है उत्पीड़न'

हैदराबाद की मक्का मस्जिद धमाके के सिलसिले में फर्जी मुकदमे में गिरफ्तार  इब्राहिम अली जुनैद
हैदराबाद के एक मुस्लिम इलाक़े में 'अल-शिफ़ा क्लिनिक' चलाने वाले डॉक्टर इब्राहिम का कहना है कि सरकार से 'सर्टिफ़िकेट' मिलने और स्वामी असीमानंद की गिरफ़्तारी के बावजूद भी स्थानीय पुलिस उन्हें तंग करती है.
वो अपने नाम के आगे लगे 'टेरर टैग' को हटाने में विफल रहे हैं. उनके मुताबिक़, "आज भी अगर कोई बम धमाका या आतंकी हमला होता है तो पुलिस हमें तंग करती है."
डॉक्टर इब्राहिम की कहानी के कई दूसरे युवाओं की कहानी है. इन युवाओं को बम धमाकों के बाद पुलिस के उत्पीड़न का सामना करना पड़ता है.
पुलिसिया कार्रवाई का स्वरुप एक जैसा है. इल्ज़ाम मिलते जुलते हैं और अंजाम एक ही है.
लेकिन एक उचित सवाल ये है कि पुलिस ने शहर के लाखों मुस्लिम लड़कों को छोड़कर इन्हीं युवाओं को फ़र्ज़ी मुक़दमे में क्यों फंसाया?
डॉक्टर इब्राहिम अली जुनैद से मैंने यही सवाल किया. उनका जवाब था, "असली मुजरिम अब पकड़े गए हैं लेकिन उस वक़्त स्थानीय पुलिस मुस्लिम बच्चों को धमाकों के केस में क्यों फंसाना चाहती थी, ये आज तक हमें समझ में नहीं आया."

दोहरापन

हैदराबाद में बम विस्फोट
वो कहते हैं कि पुलिस मुस्लिम विरोधी है, सांप्रदायिक है. वो आगे कहते हैं, "देखिए पुलिस का दोहरापन. हमें गिरफ़्तार करके मीडिया के सामने आतंकवादी कहा लेकिन अदालत में मुक़दमा आतंक के लिए नहीं किया बल्कि सीडी वग़ैरह बांटने के इल्ज़ाम लगाए."
लेकिन ये भी अपनी जगह सही है कि डॉक्टर साहब जब डॉक्टरी की पढ़ाई कर रहे थे तो वो वक़्फ़ की ज़मीन पर कथित रूप से एक गणेश मूर्ति लगाए जाने के ख़िलाफ़ प्रदर्शन करने के दौरान पुलिस की नज़रों में आए थे. बाद में उन्हें गिरफ़्तार भी किया गया था.
लेकिन इस मुक़दमे से बरी हुए एक और मुस्लिम युवा सैयद इमरान ख़ान का मक्का मस्जिद बम धमाकों से पहले कोई पुलिस रिकॉर्ड नहीं था. इसके बावजूद उन्हें इस केस का मास्टरमाइंड कहा गया.
वो इस सवाल के जवाब में कहते हैं, "ये सवाल वाजिब है. पड़ोसियों को छोड़िए, हमारे रिश्तेदार भी हमें शक की निगाहों से देखने लगे. उनकी निगाहें कहती थीं कि कहीं सच में हम चरमपंथी तो नहीं. पुलिस मुसलमानों के ख़िलाफ़ है. ख़ैर, इतना है कि अदालत अब भी निष्पक्ष है, जिससे हमें इंसाफ़ की अब भी उम्मीद है."

बदले की भावना?

हैदराबाद की चार मीनार मस्जिद
सैयद इमरान ख़ान आगे कहते हैं, "पुलिस ये साबित करना चाहती थी कि में मुसलमान शामिल थे. पुलिस मुसलमान बच्चों को नीचा दिखाना और हमारा भविष्य ख़राब करना चाहती थी. मैं बीटेक का छात्र था लेकिन अब मुझे नौकरी कौन देगा?"
इमरान ख़ान कहते हैं कि उनके अंदर बदले की भावना नहीं है. वो बताते हैं, "मैं मुसलमान हूं. बदला लेना हमें नहीं सिखाया गया है."
डॉक्टर इब्राहिम कहते हैं कि अब वक़्त आगे देखने का है. वो प्रधानमंत्री नरेंद्र मोदी से अपील करते हैं कि वो मुस्लिम बच्चों को पुलिस की ज़्यादतियों से बचाएं. वो कांग्रेस की सरकार से परेशान थे. अब उन्हें मोदी सरकार से उम्मीद है कि उनके साथ इंसाफ़ होगा.

0 comments:

کیجریوال کی 49 دن کی سرکار کے اہم کارنامے

 دسمبر 28 کو جب اروند کیجریوال نے دہلی کے وزیر اعلی کا حلف اٹھا لیا تھا اس وقت سینئر لیڈران ان کی خوب كھللي اڑا رہے تھے کی کیجریوال کو سیاست میں آئے ہوئے ہی دن ہی کتنے ہے حکومت چلنے کے لئے تجربہ ہے نہیں وغیرہ وغیرہ ، لیکن صرف 49 دنوں میں کیجریوال حکومت نے اپنے ورودھيو کی بولتی بند کر دی اور انہیں بھی اپنا مرید بنا لیا ، شاید یہ بھارت کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا جب صرف اخلاقیات کی وجہ سے خود ستتادھين پارٹی نے اپنی حکومت شہید ہو ، ان 49 دنوں میں کیجریوال حکومت نے دہلی کے علامت کے لئے جو بھی کچھ کیا اس کا دن - ب - دن کی تفصیل ہم نیچے دے رہے ہے   اروند کیجریوال نے 28 دسمبر رام لیلا میدان میں دہلی کے وزیر اعلی کے لئے حلف Dec 29 : دہلی کے جل بورڈ کے چیف کا ٹرانسپھر کر دیا گیاDec 30 : باقاعد ہ کنکشن صارف کو 700 لیٹر مفت پانی حاصل کرنے کی اعلان کیا گیاDec 31 :  یونٹ400  سے زیادہ والے بجلی صارف کو 50 ٪ سبسڈی دی گئیJan 1 : الیکٹرک بورڈ کی جانچ کے لئے کیگ آڈ ٹ کی ہدایت دیJan 2 : آپ حکومت نے ' ٹرسٹ ووٹ ' جیتاJan 3 : آپ MLA ایم ایس دھير کو اسمبلی اسپیکر بنایا گیاJan 4 : دہلی یونیورسٹی میں دہلی کے طلبہ کے لئے کوٹہ دینے کی سفارش ، کیجریوال نے سیکورٹی اور ڈپلكس گھر لینے سے انکار کر دیاJan 5 : آپ کے کارکنان نے دہلی کے تمام سرکاری اسپتالوں کا سروے کرنا شروع کیا اور سدھار سے متعلق رپورٹ تیار کیJan 6 :  دہلی جل بورڈ کے 800 ملازمین کا ٹرانسفر .Jan 7 : نرسری میں داخلے کے لئے ہیلپ لائن نمبر کی خدمت شروعJan 8 : سرکاری اسکول کے لئے انپھراسٹكچر آڈٹ قائمJan 8 : بدعنوانی مخالف ہیلپ لائن نمبر کا شبھارمبھJan 10 : بجلی کی کٹوتی کے لے ہیلپ لائن نمبر کی خدمت شروعJan 10 : ودھت بل کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کے لئے بجلی کی درو میں معافیJan 11 : کیجریوال کا عوام دربار شروعJan 16 : سومناتھ بھارتی اور راکھی بڑلا کا دیر رات چھاپا مہم شوروJan 18 : کیجریوال کے متريو طرف سے رات میں نگرانیJan 19 : راکھی بڑلا اور سمرتھكو نے کھڑکی توسیع میں غیر اخلاقی کام کے لئے چھاپہ مارا ، جو بعد میں صحیح ثابت ہواJan 20 : دہلی پولیس کے تعاون نہ کرنے کی وجہ سے کیجریوال ریل بھون میں دھرنے پر بیٹھےJan 26 : بنني کو آپ مخالف مهيم کے سبب باہر کا راستہ دکھایا گیاJan 31 : حکومت نے جانچ میں مدد نہ کرنے والی كپنيو کا لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دیFeb 3 : DERC نے لائسنس کو منسوخ کرنے کے لئے حکومت سے سفارش کی asked to cancel licences of discoms .Feb 6 : دولت مشترکہ کھیلوں کے ' سٹریٹ لائٹ منصوبے میں نئے سرے سے تفتیش .Feb 7 : سليمگڑھ بائی پاس کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کی جانچ .Feb 8 : کیجریوال نے ' جن لوک پال بل کو اپنی منظوری کے بعد بھی مرکز کو نہ بھیجنے پر اعتراض کیا.Feb 10 : دہلی جل بورڈ میں 3 گھوٹالو چیکFeb 11 : بھارت میں پیدا قدرتی گیس کی قیمت بڑھانے کے لئے مکیش امبانی ، ویرپا موئلی اور ملند دیوڑا کے خلاف کیجریوال نے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا |تو یہ تھی فہرست جو کی صرف 49 دن میں آپ کی حکومت نے علامت کو دی لیکن اس میں کچھ ایسی باتوں کا ذکر نہیں جو آپ کے اقتدار میں رہتے ہوئی جیسے کی
36000 عہدوں کو باقاعدہ کیا گیا ، جس انیدوست ڈرائیور ، كڈےكٹر ، اساتذہ، اور ٹھیکیدار شامل تھے ان عہدوں کو آپ کی حکومت نے باقاعدہ کرنے کی سفارش کی تھی اور اس کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جو کی عام آدمی پارٹی کے بعد عمل میں آئی ، اسی طرح نرسری اسکول میں داكھلو کو لے کر آپ حکومت کی طرف سے چلی گئی مهيم بھی آب رنگ لا رہی ہے اور آپ کارکنان نے تقریبا 400 بچوں کے لئے درخواست دے دیا ہے نیچے لنک پر جا کر یہ دونوں خبر پڑھیںکیجریوال کو دہلی والو کو تحفہ -36 ہزار کے عہدے ہوں گے باقاعدہدہلی میں آپ کارکنان نے 400 غریب بچوں کو نرسری اسکول میں درخواست کرایا

0 comments:

فلسطینیوں کی جد و جہد تاریخ کے مشکل دور میں


ابھی دو سال پہلے تک مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری اور بہار عرب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے بارے میں تھامس فرائیڈ مین جیسے مغربی دانشوروں نے پیشن گوئی کرنا شروع کردیا تھا کہ اسرائیل اور یہود تاریخ کے مشکل دور سے گذر رہے ہیں ۔خود اسرائیل کو بھی یقین ہو چکا تھا کہ جس طرح یکے بعد دیگرے عرب ڈکٹیٹروں کی سلطنتوں کے منہدم ہوجانے سے اقتدار پر اسلام پسندوں کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل کیلئے اس کا اپنا وجود بھی قائم رکھنا مشکل ہو جائے۔خاص طور سے مصر اور شام کی صورتحال اسرائیل کیلئے اس لئے بھی تشویش میں مبتلا کردینے والی تھی کیوں کہ ان دونوں مسلم ممالک سے اس کی سرحدیں لگی ہوئی ہیں ۔ماضی میں دو مرتبہ مصر کی فوجوں کے ساتھ اس کا تصادم بھی ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی اگر کسی ملک سے کوئی خطرہ ہے لاحق ہو سکتا ہے تو یہ شام اور مصر کا تاریخی علاقہ ہے اور ترکی جسکے ساتھ اس وقت اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں واحد ایسا طاقت ور ملک ہے جس نے کھل کر اس خطے میں عوامی بیداری کا ساتھ دیا ہے مزید تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔اسرائیل نے اپنی اسی تشویش کو دور کرنے کیلئے اپنے ماضی کے دشمن بشار الاسد اور اس کی علوی قوم کو گولان کی پہاڑیوں میں پناہ دینے کا منصوبہ بنالیا تھا تاکہ شام اور مصر میں اسلام پسندوں کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے میر جعفروں کی مدد لی جاسکے۔اسرائیل ابھی اس خلش میں مبتلا ہی تھا کہ آیت اللہ اور حز ب اللہ کے ذریعے بشارلاسد کی مدد نے اسرائیل کی بن مانگی مراد پوری کردی ۔اس طرح اسرائیل نے شام کی طرف سے اٹھ رہے طوفان پر تو قابو پالیا مگر مصر میں تحریک اخوان المسلمون جس کا وجود ہی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف عمل میں آیا تھا اچانک ان کا اقتدار پر غالب آجانا ان کیلئے فعال نیک نہیں تھا ۔اسرائیل نے یہ مرحلہ بھی خادم حرمین شریفین کی خدمت سے جلد حل کرلیا ۔سعودی عرب نے دجال السیسی کی مدد کرکے نہ صرف اسرائیل کے دشمنوں کو پابند سلاسل کروادیا بلکہ فاشسٹ حکومت کے زیر اثر مصری عدالت نے ہزاروں کی تعداد میں اخوانی قیادت کو پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے۔السیسی نے سعودی حکومت اور اپنے صہیونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مصر سے اخوانیوں کا خاتمہ کردیں گے ۔غالباً جس طرح دجالی شام اور مصر کے اس خطے میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ٗ کے نزول سے خوفزدہ ہے اسرائیل کے ساتھ ساتھ آیت اللہ ،عبد اللہ اور حز ب اللہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو ۔دیکھنا یہ ہے کہ حسنؓ و حسینؓ کے یہ دشمن دجال کے سفیر السیسی اور بشار الاسد کی مدد کرکے دجال کی معاون صہیونی ریاست کو کہاں تک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں اور اس پوری صورتحال سے جس قوم کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اللہ تعالیٰ کہاں تک فلسطینی مسلمانوں کے صبر و استقلال اور ایمانی غیرت کا امتحان لیتا ہے ۔مگر جس طرح سے انہوں نے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی نصرت اور مدد سے زرہ برابر بھی مایوس نہیں ہیں اور ہر وہ تدبیر اختیار کررہے ہیں جو ان کے اور قبلہ اول کی آزادی کے حق میں بہتر ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ان کا نصب العین زمین کا ایک ٹکڑا اور قبلہ اول کی آزادی ہی نہیں بلکہ اسرائیل جس آرماگیڈون یعنی تیسری عالمی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اس کے مقابلے کیلئے فولاد سے زیادہ سخت انسانوں کی جماعت کا تیار ہو بھی ضروری ہے۔عرب کی موجودہ صورتحال یہ کہہ رہی ہے کہ ٹینکوں میزائلوں اور بارودوں کے ڈھیر پر پیدا ہونے والی ان کی نسل بہت ہی باہمت اور باحوصلہ اور اپنے آپ میں نیو کلیئر ہوگی جنہیں جدید نیو کلیئر ہیڈ سے بھی خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا ۔جیسا کہ سعودی حکومت نے ایک مشق کے دوران نیر کلیئر ہیڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اس نے ایران اور اسرائیل کو خوفزدہ کرنے کیلئے کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور قبلہ اول کے نام پر یہ ساری طاقتیں اپنے اپنے اقتدار کی بھوکی ہیں اور آپس میں ایک سمجھوتے کے تحت متحد ہیں۔
عرب کی اس موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لوگ اس بحث میں بھی الجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح حماس اور الفتح کے لیڈران آپسی رضامندی سے فلسطین کی مشترکہ حکومت بنانے کیلئے رضامند ہوئے ہیں مستقبل میں فلسطین کی مکمل آزادی کیلئے ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے ۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ فلسطینی عوام جس حصے پر قابض ہیں انہیں اتنے ہی پر اتفاق کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرلینا چاہئے ۔ایک دوسرے طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ انہیں ماضی کی طرح ایک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کردینی چاہئے۔ایک تیسرے غیر مسلم اور مغرب نواز دانشوروں کا ماننا یہ ہے کہ آزادی فلسطینیوں کا اپنا حق ہے مگر اسے تشدد کی بجائے گاندھی ،منڈیلا،دلائی لامہ اور مارٹن لوتھر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تحریک کو جاری رکھنا چاہئے ۔ہو سکتا ہے کہ تقدیر کو ان پر رحم آجائے ۔اگر فلسطین کے مسلمان طبقہ اول کی بات مانتے ہوئے رضامند ہو جاتے ہیں تو نہ صرف انہیں قبلہ اول سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ پچاس فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کی جو آبادی دیگر عرب ممالک مین رفیوجی کی زندگی بسر کررہی ہے وہ شہریت سے محروم ہو جائیں گے اور بہت سے مسلم ممالک جو قبلہ اول کی وجہ سے ان کی مدد کررہے ہیں وہ اپنا ہاتھ روک لیں گے ۔جبکہ فلسطینیوں کی اپنی اکثریت بھی اس معاہدے پر کبھی رضامند نہیں ہوگی۔جہاں تک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کاسوال ہے کم سے کم ایک ایسے وقت میں جبکہ عالم اسلام میں ترکی اور قطر کے علاوہ کوئی مسلم ملک فلسطینی مسلمانوں کا حمایتی نہیں رہا وہ اس حکمت عملی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔دوسری طرف امریکہ اور یوروپ جو کہ روس کی مداخلت کی وجہ سے یوکرین اور شام کے مقابلے میں بے بس نظر آرہے ہیں اسرائیل کو قابو کرنے سے قاصر ہیں ۔اسی لئے ایک طبقے کا خیال ہے کہ پر امن تحریک کی وجہ سے یوروپ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں جو تحریک زور پکر رہی ہے ممکن ہے کہ باقاعدہ انتفاضہ کی شروعات سے ان کے دوستوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے ۔ایسا ممکن ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1980 کے بعد حماس کے ذریعے انتفاضہ تحریک کی شروعات کے بعد ہی یوروپ نے فلسطینیوں کی جد وجہد پر توجہ مرکوز کی اور اسرائیل اوسلو معاہدہ کیلئے رضامند ہوا۔ویسے بھی فلسطینیوں کی طرف سے کسی بھی پر تشدد مزاحمت کو بھی اس لئے جائز قراردیا جائے گا کیوں کہ اسرائیل ایک حملہ آور اور ناجائز طریقے سے عمل میں آنے والی ریاست ہے اور اس نے مسلسل فلسطینی مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ان کیلئے بہتر ہے کہ ان میں سے ایک طبقہ گاندھی اور نہرو کی شکل میں مفاہمت کا طریقہ اختیار کرے مگر دوسرے طبقے کو سبھاش چندر بوس ، بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان کا بھی کردار ادا کرتے رہنا چاہئے ۔دنیا کے ہر مسئلے کی سچائی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دو پہلو کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ نہرو اور گاندھی نے بالآخر آزادی حاصل کرلی مگر تاریخ کے دوسرے صفحے پر سبھاش چندربوس اور جلیا نوالہ کے سبق کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دلائی لامہ پر امن تحریک کے ذریعے نہ صرف تبت کے علاقے کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں بلکہ دنیا میں تبت کی آزادی کے تعلق سے کوئی شور شرابہ بھی نظر نہیں آتا ۔جبکہ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ اگر زندہ ہے اور اکثر و بیشتر عالمی طاقتوں کی مداخلت سے گفت و شنید کی شکل اختیار کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اس لئے کہ فلسطینی مسلمانوں نے گفتگو کے ساتھ ساتھ لہو گرم رکھنے کا طریقہ بھی اختیار کررکھا ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کے درمیان 29 ؍اپریل کو جو گفتگو ہونے والی تھی اس کا حشر بھی ہنسی مذاق اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔اس سے پہلے کہ اسرائیل اور کچھ عالمی طاقتیں ایک بار پھر فلسطینیوں کو مذاق بنا کر پیش کرتیں محمود عباس کی تنظیم الفتح نے حماس کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرکے نہ صرف اسرائیل کے منھ پر طمانچہ مارا ہے بلکہ شاہان عرب کی غیرت کو بھی للکارا ہے کہ تم اپنے اقتدار کیلئے یہود و مشرکین کے ساتھ اپنے ایمان کا سودا کرو ہماری مدد کیلئے اللہ کسی اور قوم اور مخلوق کو بھیجنے پر قادر ہے ۔انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ایسا ہوچکا ہے اور ایسانہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔
عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811  ای میل   umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

ہماری ترجیحات نے موجودہ سیاست کا رخ بدل دیا


    دنیاکے کسی بھی ملک کے الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت یا مخالفت میں وہاں کی مذہبی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں کا عمل دخل بہت کم ہی پایا جاتا ہے ،یا مذہب کے دخل کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔خاص طور سے امریکہ ،یوروپ اور کمیونسٹ ممالک میں جہاں سے جدید لبرل جمہوری سیاست کی روایت شروع ہوئی۔ یہاں پر تمام سیاسی پارٹیاں وہاں کے تعلیمی اداروں ،صنعت کاروں اور زیادہ سے زیادہ غیر سرکاری فلاحی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔اسی لئے موجودہ لبرل سیاست کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں ۔یعنی اس معاشرے اور سماج کے لوگ اپنے سیاست دانوں سے انصاف مانگنے کی بجائے روٹی کپڑا اور مکان کو ترجیح دیتے ہیں ۔تقریباً یہی صورتحال مغرب نواز ہندوستانیوں کی بھی ہے جو اپنے سیاست دانوں سے روزی روزگار ،سڑک اور سڑک پر چلنے والی آسانی اور سستی سواریوں کی سہولیات مہیا کروانے کی فہرست پیش کرتے ہیں تاکہ انہیں تعلیم اور تجارت کے بہتر مواقع حاصل ہو سکیں ۔کم سے کم یوروپ ،چین امریکہ اور بہت سارے مغرب نواز ممالک کے حکمرانوں نے عوام کی سوچ کے مطابق ان کی خواہشات کو پورا بھی کیا ہے ۔ انہوں نے صنعت و ٹکنالوجی کو عروج دے کر ہزاروں میل کے سفر کو گھنٹوں اور منٹوں میں تبدیل کردیا ہے کہ اب اسے دن ہفتہ اور مہینے کے گزرنے کا بھی خیال نہیں ہوتا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ عمر کے دس سال گزرجانے کے بعد بھی وہ خود کو دس سال چھوٹا ہی سمجھ رہا ہوتا ہے اور خود سے دس سال چھوٹے آدمی کو بھی چاچا اور بابا پکارتا ہوا نظر آتا ہے ۔یعنی ترقی اور مسابقت کے جنون میں وہ اس تیز رفتار ی سے آگے آچکا ہوتا ہے کہ اسے اپنے سوا ہر شخص بوڑھا نظر آتا ہے ۔اس طرح نہ صرف وہ اپنی پہچان کھوچکا ہے بلکہ وہ اپنے اصل نصب العین اور دنیا کی حقیقت سے ناواقف اور انجان ہے ۔اسے یہ جاننے کی فرصت بھی کہاں ہے کہ اس دنیا اور کائنات کا خالق کون ہے اور اس کی تخلیق کا راز کیا ہے ۔
    قرآن کہتا ہے زمین اور آسمان بغیر ستون کے پیدا کئے گئے ہیں ،پھر بھی وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔یہ اس وجہ سے کہ ان کے آپس میں میزان قائم ہے ۔ذرا غور کیجئے کہ جس طرح سے لاتعداد ستارے اور سیارے خلاء میں تیر رہے ہیں اگر ان کے آپس میں ذرہ برابر بھی خلل پڑ جائے تو ہم زمین والوں کا کیا ہوگا ۔ہماری ساری ترقی اور ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ سپر پاور طاقتیں ہر سال آنے والے طوفان ،زلزلے اور سونامی کے آگے کس طرح بے بس اور مجبور نظر آتے ہیں اور سیٹیلائٹ ٹکنالوجی سے بھی چین کا سفر کرنے والے ملیشیا کے طیارے کو سمندر نے کہاں اپنی آغوش میں چھپالیا مستقبل کا سپر پاور چین جو اپنی بے پناہ فوج اور ٹکنالوجی کے ذریعے امریکہ کو آنکھ دکھارہا ہے ،جاپان اور ہندوستان کے علاقوں کو چھین کر اپنی سرحدوں کو وسیع کرلینے کی تاک میں ہے ایک طیارے کو ڈھونڈ لینے سے بھی قاصر ہے ۔مگر اسے کون سمجھائے کہ ماضی کے قیصر و کسریٰ ،یونان،مصر اور ترکی اور آج کے برطانیہ ،فرانس ،امریکہ ،روس ،جرمنی اور جاپان اپنے اسی ناپاک عزائم اور ناانصافی کی وجہ سے سمٹ گئے تو چین کی اپنی اوقات کیا ہے ۔مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان اپنی ترقی میں اپنی حقیقت اور پہچان کھو چکا ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہو کر یہ بھول بیٹھا ہے کہ اس کا قد وہیں سے چھوٹا ہونے لگتا جب وہ اپنے بڑے ہونے کا اعلان کرنا شروع کردے ۔جبکہ انسان کا لڑکپن اور اس کے بڑے ہونے کا راز اس کے رحم دل اور انصاف پسند ہونے میں ہے اور یہی صفت اس کائنات کے مالک کی بھی ہے جو نہ صرف اپنے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ رحمن اور رحیم بھی ہے ۔
    ہم تاریخ کے حوالے سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ دنیا میں جن قوموں ،قبیلوں اور مذہب کے لوگوں نے حکومت کی اگر وہ زیادہ دنوں تک عوام پر حکومت کرسکے تو اس لئے نہیں کہ انہیں صرف تعلیم ٹکنالوجی اور معیشت میں ہی فوقیت حاصل تھی بلکہ اس لئے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ رحم اور انصاف کا معاملہ فرمایا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند مسلم قبیلوں نے عرب ممالک سے آکر پوری دنیا پر منجملہ ایک ہزار سال تک حکومت کی تو اس لئے کہ انہوں نے اسلام کے فلسفہ انصاف کو حکومت اور سیاست کا نصب العین اور اسی عدل و انصاف کی وجہ سے عوام کی اپنی معیشت اور تعلیم و تحقیق میں بھی ترقی ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ اسی دور کی تعلیمی و تحقیقی مواد ہیں جسے ہم مشینوں کی شکل میں استعمال کررہے ہیں جسکے امام اسی مسلم دور حکومت کے مسلم سائنسداں رہے ہیں ۔مگر اپنی تمام تر تعلیم ،ٹکنالوجی اور معاشی ترقی کے باوجود اسپین اور ہندوستان کے عرب اور مغل حکمرانوں کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا تو اس لئے کہ انہوں نے مادی ترقی کو اپنی اصلی طاقت تصور کرلیا اور انصاف پر روٹی کپڑا مکان اور عیش و عشرت کی زندگی نے غلبہ حاصل کرلیا ۔انسان پر جب دنیا کی محبت اور لالچ غالب آجائے اور وہ تصنع اور ریا کاری کو اپنی اصل طاقت سمجھ لے تو پھر اس کے اندر وہن کی کیفیت کا طاری ہونا بھی لازمی ہے ۔اس طرح اسپین بخارا اور ہندوستان کی تعلیم یافتہ اور متمدن قوم در بدر بھٹکنے والی قدامت پرست عیسائی قوم سے اپنے عالیشان مکانات خوبصورت مساجد خانقاہیں تعلیمی ادارے تعلیمی ترقی لائبریریاں ٹکنالوجی اور ہتھیار سب کچھ ہار گئے ۔آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم بھی اپنے سیاست دانوں سے اس بات کیلئے کبھی اصرار ہی نہیں کیا کہ ہمیں انصاف چاہئے ۔اس کے برعکس ہماری خواہشات اور ترجیحات میں وہی تمام چیزیں شامل ہیں جسکی وجہ سے سماج اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ پورا کرہ ارض جس دھماکہ خیز صورتحال سے دو چار ہے تو اس کے ذمہ دار صرف عیاش اور بد عنوان سیاست داں اور حکمراں ہی نہیں ہم سب بھی ہیں جنہیں انصاف نہیں روٹی چاہئے ۔جبکہ ہماری ترجیحات اور مطالبات میں اگر انصاف کو فوقیت حاصل ہو جائے تو ہماری تمام ضروریات جو ہم دوسروں کا چھین کر اور اپنے دن اور رات تباہ کرکے حاصل کررہے ہیں امن و سکون کے ساتھ میسر ہونے لگے ۔پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی تک سیاست کے ساتھ انصاف کا تھوڑا بہت تصور ضرور قائم رہا ہے ۔مگر انیسویں اور بیسویں صدی میں سیاست میں انصاف کی جگہ بھوک نے لے لیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس مختصر سے وقفے میں دو عظیم عالمی جنگ میں کروڑوں انسان ہلاک اور تباہ ہو گئے اور آج بھی پوری دنیا میں اسی سیاسی بھوک کی آگ میں ہزاروں انسان ہر روز تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں یا انسانوں کے ساتھ مختلف بہانے سے ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔  

عمر فراہی۔موبائل۔09699353811  ای میل  umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

بدایوں کا واقعہ اور پولس کا مورل


اتر پردیش ان دنوں میڈیا کی خبروں کا اہم ہدف بنا ہوا ہے ۔وجہ ہے بدایوں میں دو کمسن دلت لڑکیوں کی عصمت دری کے بعد قتل کا دلدوز واقعہ۔یہ واقعہ انسانیت کو شرمشار کرنے والا ہے ۔حالیہ واقعہ اور اس سے قبل بھی کئی اور جگہ عصمت دری نیز جنسی دست درازی کے کئی واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔یوں تو ملک عزیز کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہاں عورتوں کے خلاف جرائم کی رفتار تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔حالانکہ یہاں عورت کو دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے ۔ابھی دسمبر ۲۰۱۲ میں ہی دہلی میں ایک میڈیکل طالبہ کے ساتھ کیاکچھ ہوا وہ ہماری نظروں کے سامنے اور یادداشت میں محفوظ ہے ۔اس کے مجرمین کو سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ۔ بدایوں جیسے واقعات ملک میں تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور اس طرح کے بھیانک اور انسانیت سوز واقعات زیادہ تر پسماندہ طبقات کے خلاف ہو رہے ہیں ۔ الیکشن کے موقع پر ہی ہریانہ میں دلتوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات ہوئے جس کے بعد خوف اور دہشت سے انہوں نے گائوں خالی کردیا تھا ۔حالانکہ دلتوں کے خلاف اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے خاص قانون بھی موجود ہے ۔لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف قانون ہی مسئلے کا واحد حل ہے ؟حالات اور ہر دن ظہور پذیر ہونے والے واقعات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ صرف قانون بنانے سے مسئلہ کا حل ناممکن ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اصلاح کی کوشش بھی کی جائے ۔معاشرے کی اصلاح کے بغیر اورلوگوں کے ذہنوں کو بیدار کئے بغیر اس طرح کے واقعات نہیں روکے جاسکتے ۔اس شرمناک واقعہ میں جو بات سب سے زیادہ کھل کر اور سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے پولس کا انتہائی ظالمانہ رول جسے ہر بار نظر انداز کردیا جاتا ہے۔فسادات کے تعلق سے جب بھی کسی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تو اس میں انہوں نے پولس کے رول پر بھی سوالات اٹھائے یا پھر انہیں ہی پوری طرح فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔لیکن پولس کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی پولس سسٹم میں سدھار کی کوئی کوشش کی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جب جب پولس کے خلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے تو مرکزی یا ریاستی وزیر داخلہ کا ایک ہی قول سامنے آتا ہے کہ اس سے پولس کا مورل ڈائون ہو گا ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بدایوں جیسے واقعات یا گجرات جیسے حالات سے پولس کا مورل ڈائون ہوتا ہے یا ان کے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے ۔ ہمیں دہلی کا وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب دہلی کی ۴۹ دن والی عام آدمی پارٹی کی حکومت کے وزیر قانون سوم ناتھ بھارتی نے عوامی اطلاعات کی بنا پر دہلی پولس سے ایک گھر میں چھاپہ ڈالنے کیلئے کہا تو پولس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ حالانکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ وہاں واقعی جسم فروشی کا کاروبار ہو رہاتھا ۔لیکن میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے وزیر قانون کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔یہاں اس واقعہ پولس کی خود سری اور باغیانہ تیور بتانا مقصود ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پولس یوں ہی خودسر ہو جاتی ہے ۔بلکہ سیاست دانوں کی حرکتیں انہیں خودسر بناتی ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ جس کی حکومت ہوتی ہے وہ بجائے پولس کو عوامی مفادات اور ان کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کے اپنے ڈنڈے کے طور کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پولس کا اصل کام عوامی تحفظ اور معاشرے میں امن مان بحال کرنا تھا وہ اس سے بھٹک کر سیاستدانوں کی نوکری کرنے لگی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ ایک شریف آدمی کے پولس کا نام سن کر ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ مجرم اور سماج دشمن عناصر پولس کو اپنا محافظ اور محسن تصور کرتے ہیں ۔
حالیہ واقعات اتر پردیش حکومت کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہو اور پولس اور انتظامیہ کو چست درست کرے نیز کسی طرح کی غفلت پر ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے ۔کیوں کہ سیاسی حالات اب وہ نہیں رہے جو چند ماہ پیشتر تھے ۔ہر چند کہ بدایوں کا حالیہ واقعہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے لیکن اس کو میڈیا جس طرح اچھال رہا ہے اس سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولس والوں کو فوراً گرفتار کیا جاتا اور دیگر مجرموں کو بھی گرفتار کرکے قانون کے حوالے کئے جانے کی ضرورت تھی لیکن ہر واقعے کی طرح یہاں بھی تساہلی دیکھنے کو ملی اسی کا انجام ہے کہ دووسرے لوگوں نے اسے سیاسی رنگ دیکر حالات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اکھیلیش حکومت جسے شاید بھاری اکثریت سے جیتنے پر کچھ گھمنڈ سا ہو چلا تھا اسے اب ریاست کی امن و امان کی صورت حال کی طرف تندہی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ تو مجرمانہ ذہن رکھنے والے معاشرے میں خوف اور بے چینی پھیلاسکیں اور نہ ہی کسی کو سیاسی روٹی سینکنے کا موقع مل سکے ۔لیکن یہ جب ہی ہو سکے گا جب سیاسی حوصلہ مندی کاثبوت دیا جائے۔اسی طرح دیگر سیاسی لیڈروں کو بھی چاہئے کہ کسی کی مجبوری کو سیاسی ایشو بنانےکی بجائے اصل ایشو کی طرف دھیان دیں اور مجرموں کو ریاست سے باہر کا راستہ دکھانے میں انتظامیہ کی مدد بھی کریں اور اس پر اپنا دبائو بھی بنائیں۔
نہال صغیر ۔  موبائل 9987309013

0 comments:

مصر پر جمہوریت نما آمریت کی شروعات


    موجودہ دور کو جمہوریت ،سیکولرزم اور انسانی حقوق کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔لیکن اس جمہوری دور میں انسانیت جتنی شرمشار ہوئی ہے ،حقوق انسانی کی جتنی پامالی لبرل سیکولرزم کے نام پر ہوئی ہے اور انسانیت جس کرب بے چینی اور افراتفری کے دور سے گذر رہی ہے ۔شہنشاہیت کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن پھر مغربی جمہوریت کی اس نیلم پری سے لوگوں کی والہانہ وابستگی کم ہو کر ہی نہیں دیتی۔جب ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں تو ہم پائیں گے کہ موجودہ جمہوری نظام سے عوام کا ایک بڑا طبقہ دور ہے اور اس کی تعداد پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔اکثر جگہ جمہوری حکومت کے قیام کیلئے انتخابی عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں پچاس کہیں ساٹھ اور کہیں اس سے بھی زیادہ تعداد کو اس عمل سے لاتعلق پاتے ہیں ۔ایک شورش زدہ ریاست میں جب انتخاب ہوا تو وہاں کی عوام نے صرف پچیس فیصد ہی حق رائے دہی کا استعمال کیا لیکن اس کے باوجود جمہوری حکومت قائم ہو گئی ۔تعجب ہوتا ہے کہ جس نظام کو یا جس طریق حکومت یا جس پارٹی یا جس شخص کو عوام کی اکثریت نظر انداز کردیتی ہے اسے ہی کیوں عوامی طور پر منتخب حکومت کا درجہ مل جاتا ہے ۔ایسا ہی ابھی مصر میں ہوا جبکہ وہاں انتخابی عمل کیلئے دو دن کا وقت تھا لیکن دو روز میں جب عوام کی نوے فیصد سے زیادہ تعداد نے ووٹنگ کرنے سے احتراز کیا تو حکومت نے ایک روز اور ایکسٹینشن دیا لیکن تین روز میں بھی عوام کی 7.5% سے زیادہ تعداد گھروں سے باہر نہیں آئی ۔ چوتھے دن اچانک خبر آجاتی ہے کہ تقریبا 39% لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔بتائیے یہ اچانک تیس فیصد سے زیادہ عوام کی تعداد کہاں سے آگئی ۔یقینایہ کھلی بے ایمانی اور چوری کا معاملہ نظر آتا ہے ۔اس میں بھی سیسی کو 97% سے زیادہ سے کامیابی ملی ۔یہ وہی جنرل السیسی ہیں جنہوں نے عوامی طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرکے بڑی بے شرمی سے معزول کردیا یہ وہی سیسی ہیںجو کہ صہیونیت کے پروردہ اور اسکے منظور نظر ہیں اور جن کو مصر کے سلفیوں کی جماعت النور کی بھی حمایت حاصل ہے ۔اور خلیج کے اکثر ڈکٹیٹر بھی ان کی حمایت کرتے ہیں کیوں کہ ان عیش پسند حکمرانوں کیلئے جنرل السیسی اسرائیل سے انہیں امان دلانے والے واحد عبد اللہ ابن ابی کا کردار ادا کرنے والے ہیں جس میں ہمارے خادمین حرمین شریفین (جنہیں خادمین یہودین و امریکین کہنا زیادہ مناسب ہوگا)بھی شامل ہیں ۔
    اوپر سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کچھ خاص لوگوں کو شکایت ہو سکتی ہے ۔لیکن کیا کیا جائے کہ رات کے اندھیرے کو دیکھ کر بھی صبح کے اجالے کی گواہی نہیں دی جاسکتی ۔ان حکمرانوں کے کرتوت آن ریکارڈ ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔امریکہ تک کو یہ ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ خلیج میں چلنے والی بہار عرب کی تحریک کی مخالفت کرتا بلکہ اس نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے اس تحریک کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے مرسی حکومت کی معزولی پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور مصر ی فوج کو ملنے والی امداد جو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ہے بند کردی ۔اس پر شاہوں کے ماتھے پر پسینے نظر آئے اور انہوں نے بڑے غرور اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ اگر امریکہ مصری فوجیوں کی امداد روک دیتا ہے تو ہم اس کی مدد کریں گے ۔لیکن یہ مدد کس کے لئے، اسرائیل کے خلاف نہیں صہیونیت سے نبرد آزما فلسطین کے معصوم بچوں کیلئے، انہیں اسلحہ سے لیس کرنے کیلئے نہیں ۔ان کی غذائی امداد کیلئے نہیں بلکہ عرب عوام کی حقیقی آزادی کیلئے لڑنے والے اخوانیوں کے خلاف ۔السیسی نے دکھایا بھی کہ وہ اخوانیوں کو وہ نقصاد پہنچا سکتا ہے اور صہیونیت کی وہ خدمت کرسکتا ہے جس کے بارے میں اسرائیل نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا اور اس نے کیا اس نے مصر کی سڑکیں اسلام پسندوں اور ملک اور پورے عالم میں اسلام کی سربلندی کیلئے جہد مسلسل کرنے والوں کے خون سے لال کردیں ۔ان کی لاشوں سے سڑکوں گلیوں اور مسجدوں کو بھردیا۔مسجدوں کو آگ کے حوالے کیا نمازیوں پر بموں اور ہیوی مشین گنوں سے فائرنگ کی ہزاروں معصوموں کا خون بہا کر بھی سیسی اور اسکے صہیونی پارٹنر عرب شیوخ مصر کے اسلام پسندوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے اور دنیا نے دیکھا کہ جب الیکشن کا ڈرامہ رچایا گیا تو صرف ساڑھے سات فیصد عوام نے ہی اس میں حصہ لیا اور اس میں سے ستانوے فیصد نے سیسی کی درندگی کے خلاف الیکشن میں حصہ نہ لے کر دنیا کو یہ بتادیا کہ وہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر ظالم کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔مصر کی 93 فیصد عوام آج بھی سیسی اور اس کے حواریوں کی ڈرامے بازی سے دور ہے ۔یعنی اگر سیسی صدر بن بھی گئے تو بھی وہ عوامی نمائندہ کہلانے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں نیز انہوں نے مصر کو ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے باوجود وہیں پہنچا دیا ہے جہاں وہ تین سال قبل حسنی مبارک دور میں تھا ۔اور یہ مغربی جمہوریت سیکولرسٹوں اور نا نہاد حقوق انسانی کے علمبرداروں کے منھ پر طمانچہ ہے ۔کیا مصر کے اس جمہوری ڈرامے کے بعد بھی دنیا میں جمہوری اقدار کی بات کرنے والے سیکولرزم کا دم بھرنے والے اور حقوق انسانی کی مالا جپنے والے لوگ اسلام پسندوں کے آگے اپنے بونے ہونے کا اعتراف کرنے کی جرات کریں گے ؟ ہر گز نہیں مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وہ اس جرات مندی سے یکسر خالی ہیں ۔ جو ظرف کے خالی ہے صدا دیتا ہے والی بات ان پر ہی صادق آتی ہے۔
نہال صغیر۔موبائل : 9987309013

0 comments:

دہشت گردی کی سیاست اور فاشزم کا خفیہ چہرہ


    عام بول چال اور تحریروں کے ذریعے ہم فسطائیت اور فاشزم جیسے موضوعات پر بحث تو کرتے ہیں ،مگر اس عنوان کی پوری طرح وضاحت کرنا اسی طرح مشکل ہے جیسے کہ ہم ابھی تک دہشت گردی کے اصل معنی اور مفہوم کی تلاش میں ہیں۔انگلش لغات میںفاشزم کی تعبیر ایک ایسی سخت گیر حکومت اور سیاسی نظام سے کی جاتی ہے جس کے کسی بھی فیصلے کو عوامی سطح پر چیلنج کرنا مشکل ہو جائے ۔اسی طرح سیاسی مقاصد کیلئے بے قصوروں کا قتل اور تخریبی عمل کو دہشت گردی کہتے ہیں ۔دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے تعلیمی نصاب میں فاشزم اور دہشت گردی کے معنی اور مفہوم کی تشریح کون کرتا ہے اور کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ وہ سماج کو آئینہ دکھاسکیں ؟۔
    چونکہ عام آدمی ایک روایت اور قانون کا پابند ہوتا ہے ۔اس لئے وہ معاشرے کی قیادت کرنے والے طبقہ اشرافیہ کے پروپگنڈے اور حکومتی جھوٹ کا بہت جلد شکار ہو جاتا ہے ۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جدید نسل کی تعلیم وتربیت کیلئے سرکاری نصاب کی تیاری میں بھی اب سیاستدانوں کی مرضی شامل ہوتی ہے یا ملک کے چنندہ دانشور اور پروفیسر اپنے مفاد ،لالچ اور خوف کی وجہ سے سیاستدانوں کی مرضی کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔مثال کے طور پر ایک ہی آزادی کے مجاہد محمد علی جناح کو پاکستان میں جو مقام حاصل ہے ،ہندوستان میں ان کے تعلق سے الگ نظریہ پایا جاتا ہے۔تقریباً جواہر لال نہرواور پٹیل کے تعلق سے پاکستان کے لوگ مثبت سوچ نہیں رکھتے ۔تو اس لئے عوام کے منفی اور مثبت نظریے کی تخلیق میں ان ممالک کے سرکاری میڈیا اور نصاب کا اہم کردار شامل ہوتا ہے ۔ہمارے ملک کے قبائلی علاقوں میں ایک مدت سے نکسلائٹ اور مائووادی تحریکیں سرگرم ہیں اور اکثر سرکاری اہلکار ،سرکاری دفاتر اور شخصیات پر حملہ کرکے تباہی اور قتل و خون کا منظر پیش کرتے ہیں۔یہ لوگ ایسا کیوں کررہے ہیں ؟کن حالات سے گزررہے ہیں ؟ ان کے مطالبات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے کی بجائے ان کے خلاف دہشت گردی کا پروپگنڈہ کرکے صرف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔کشمیر کے مسئلہ کو بھی راجیو گاندھی کی حکومت اور سابق گورنر جگموہن نے اسی طرح الجھا کر رکھ دیا جیسے کہ پاکستان کے فوجی حکمراں پرویز مشرف نے لال مسجد پر حملہ کرکے مدرسوں کے ذریعے چلائی جارہی پر امن تحریک کو پر تشدد تحریک طالبان میں تبدیل کردیا ہے۔اور اب اس نے اپنی عسکری قوت کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ پاکستان کو انہیں ختم کرنے کیلئے امریکی ڈران میزائلوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے ۔اسی طرح عالمی پیمانے پر جب امریکہ طاقت کے ذریعے دنیا پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش میں انصاف نہیں کرسکا تو عرب اور افغان نوجوانوں پر مشتمل تحریک القاعدہ اور طالبان کا وجود عمل میں آیا ۔چونکہ پوری دنیا مغربی اور امریکی تہذیب کی گرویدہ ہے اس لئے جب انہوں نے اپنے نصاب میں ان تنظیموں کے دہشت گرد ہونے کا باب شامل کیا تو ان کا شمار دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورک میں ہونے لگا ۔ اب ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ فاشزم ،جمہوریت ،جہاد اور دہشت گردی کے معنی ہر دور میں وقت ،حالات اور طاقت کے حصول کے ساتھ بدلتے رہے ہیں ۔جسے نااہل اور بدعنوان حکمرانوں نے اپنے اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے ۔مثال کے طور پر پاکستان نے بھگت سنگھ کے گائوں کو یادگار بنانے کیلئے کروڑوں روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کیا اس کا مقصد بھگت سنگھ کے کردار کو نمایاں کرنا ہے یا وہ ان کی شہرت اور شخصیت سے فائدہ اٹھا کر اپنے ملک میں سیاحوں کو راغب کرنا چاہتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا کی کوئی بھی حکومت بھگت سنگھ کے کردار کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اقبال نے صحیح کہا ہے کہ نام سے کچھ نہیں ہوتا ۔ یعنی 
 جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ۔جدا ہوں دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
    سیاست میں دہشت گردی ،جمہوریت ،فاشزم اور آمریت سبھی کو شمار کیا جاتا ہے ۔فرق صرف اس نظریے کا ہے جس میں خلوص ،انصاف،ایمانداری اور للٰہیت کا جذبہ ناپید ہو چکا ہو اور اسے کتنا ہی خوبصورت اور خوشنما نام کیوں نہ دے دیا جائے وہی دہشت گردی چنگیزیت اور فاشزم ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ہمارے ملک میں آر ایس ایس کے جو عزائم ہیں اور جو کچھ شام ،میانمار ،مصر اور اسرائیل میں مسلمانوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی شکل و صورت تو بالکل واضح ہے اور برات کی صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے ۔مگر جمہوریت کے نام پر مختلف ممالک میں جو جبر ،ظلم اور بدترین استحصال کا ننگا ناچ ہو رہا ہے جس کے سحر سے ابھی عوام کی اکثریت باہر آنے کیلئے تیار نہیں ہے تو اس لئے کہ ہم ایک ایسے دجالی فتنے میں مبتلا ہو چکے ہیں جہاں ہر شخص حاکم اور حاکم کو بدلنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جو صحرا میں سراب اور ہلاکت سے کم نہیں ہے۔18 ؍فروری کو گواہاٹی کورٹ سے باہر آتے ہوئے تہلکہ کے ایڈیٹر ترون تیج پال نے انڈین ایکسپریس کی نامہ نگار استھا نائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ جوکچھ ملک میں ہم مشاہدہ کررہے ہیں یہ سب دائیں بازو کے فاشزم کی علامت ہے جو اپنے مخالفین کو بہت ہی خطرناک اور خفیہ طریقے سے راستے سے ہٹانے کیلئے حکومت کی ساری مشنری کا استعمال کررہے ہیںاور یہ سب کچھ ایک ایسی جماعت کے ذریعے کیاجارہا ہے جس نے ایک کثیر جہتی تہذیب پر حکومت کرنے کا عزم کیا ہے جس کا میں بھی ایک شکار ہوں ۔ یہ بات تیج پال کے تعلق سے بلاشبہ سچ ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستوں یا فاشسٹوں کے خلاف جس طرح اپنی اور اپنے رپورٹر کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ان کے خطرناک عزائم اور بد عنوانی کا انکشاف کیا انہیں اسی کی سزا اب مل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں ملک کے دیگر حالات بھی ہوں جس کا تذکرہ صرف مسلمان ہی کرسکتا ہے اور وہ ملک میں جمہوری اور سیکولر فاشزم کا بھی شکار ہیں۔
    یہ سچ ہے کہ ملک عزیز میں آر ایس ایس اور اس کی ملیٹینٹ تنظیمیں ایک زمانے سے نفرت ،بغض ،دشمنی ،فساد اور فرقہ پرستی پر مبنی نظریات کی بنیاد پر سیاسی انقلاب لانے کی جد وجہد میں مصروف رہی ہیں۔اورساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ملک میں کمیونسٹ ،مائووادی،نکسل،دلت اور کچھ مختلف مسلم تحریکیں اپنے اثر و رسوخ اور نظریاتی تبلیغ کیلئے آزاد ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کانگریس کے پچاس سالہ دور اقتدار میں صرف چند فیصد برہمنی ذہنیت کی حامل ہندو تنظیموں کو ہی بڑھاوا کیوں ملا اور حکومت اپنے ہر ملکی اور غیر ملکی معاہدے اور فیصلے کیلئے ان کی مرضی اور نظریات کی محتاج کیوں رہی ہے ۔کانگریسی حکومتیں اگر چاہتیں تو گاندھی کے قتل کے بعد ہی آر ایس ایس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردیتیں اور ملک میں فسطائیت کا خاتمہ ہوجاتا اور فرقہ وارانہ فسادات سے لیکر بم دھماکوں کی سازش کے درمیان بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش نہیں آتا ۔مگربابری مسجد کے تالا کھلوانے سے لے کر شیلا نیاس اور مسلم دشمن ملک اسرائیل سے دوستی کے ساتھ ہی بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری تک ملک کی جمہوری حکومتوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے پوری طرح آر ایس ایس کی مسلم دشمن حکمت عملی پر ہی عمل کیا ہے۔
    ملک کی موجودہ صورتحال میں عام آدمی پارٹی کی شہرت اور کیجریوال کی مقبولیت سے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل نہیں رہا کہ ملک کا عام شہری فرقہ پرست نہیں ہے اور وہ آر ایس ایس کی سیاسی پارٹی بی جے پی اور کانگریس دونوں کے فاشزم سے بد ظن اور بیزار ہے ۔وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ملک میں جتنے بھی دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ آر ایس ایس ،مرکزی حکومت اور اس کی انٹیلی جینس اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت اور حکمت عملی کا نتیجہ ہے تاکہ ان طاقتوں نے ایک گٹھ جوڑ بناکر ملک کو توڑنے اور لوٹنے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے ان کی اس بدعنوانی پر سے پردہ نہ ہٹنے پائے ۔اور یہ لوگ عام آدمی کو انڈین مجاہدین کے بھوت سے ڈراتے رہیں۔عام آدمی پارٹی کے روح رواں اروند کیجریوال بھی شاید اس حقیقت کو سمجھ رہے تھے اسی لئے جب انہیں بھی اس خطرے سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے بہت ہی جرات کے ساتھ ایک تاریخی جملہ ادا کیا کہ ’’اب یہ حملہ کوئی بھی کرسکتا ہے اور کہا جائیگا کہ انڈین مجاہدین کے لوگوں نے کیا ہے ‘‘۔سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں انڈین مجاہدین نام کی کوئی تنظیم بھی ہے؟یا ملک کی حکمراں جماعت اور اس کی مشنری کیجریوال اور مسلمانوں کو ذہنی طور پر یر غمال بنانے کیلئے نقلی نام کا استعمال کررہی ہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا خوف دلا یا ہے اور آر ایس ایس نے ہندوئوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری کی ہے ۔ دہلی پولس نے جب اروند کیجریوال کو انڈین مجاہدین کی دہشت سے آگاہ کیا تو ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ دہلی پولس پر کس کا کنٹرول ہے ؟کیا مرکز میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت ہے ؟عام آدمی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس تو ہندوئوں پر صرف مسلمانوں کا خوف طاری کررہی ہے ،مگر کانگریس نے پچھلے پچاس سالوں میں دونوں کو ایک دوسرے سے خوف زدہ کرنے کا وہی کام کیا ہے جو آزادی سے پہلے انگریزوں کی حکمت عملی رہی ہے۔اگر یہ فاشزم نہیں ہے تو بھی ان کی یہ سوچ ملک کی سلامتی کیلئے فاشزم اور دہشت گردی سے بھی زیادہ اس لئے خطرناک زہر ہے کیوں کہ ہم ایک ایسی جماعت کو اقتدار سونپتے آرہے ہیں جو اپنے فیصلے سے پولس ،فوج ،عدلیہ ،سماج اور ملک کے مالیاتی اداروں تک کے وقار کو مجروح کرتی رہی ہے۔  

عمر فراہی ۔ موبائل۔09699353811    umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

ملک عزیز میں عدل اور عدالت کا مطلب


عدالت کا تعلق عدل سے ہے ۔جب کوئی لفظ عدالت اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو مخاطب کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی کہ یہ عدل و انصاف کی وہ جگہ ہے جہاں کسی معاملے کا تشفیہ عدل کے معیار پر ہوگا اور حق دار کو اس کا حق مل جائے گا ۔پر ملک عزیز کے عدالت کی ادا ہی نرالی ہے ۔اول تو یہاں جو عدالتوں کا معاملہ ہے وہ یہاں برسوں سے التواء میں پڑے ہوئے لاکھوں مقدمات سے پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں اور منصف عدل کی حساسیت سے کس قدر واقف ہیں ۔18 ؍فروری کو سپریم کورٹ نے راجیو کی قتل کی سازش میں ملوث قرار دیئے گئے لوگوں کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا اور عدالت نے ریاستی حکومت کو یہ مشورہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے اختیارات کا استعمال کرکے ان مجرموں کو رہا بھی کرسکتی ہے ،کیوں کہ عمر قید کی سزا کے مطابق 23 سال جیل میں گذار چکے ہیں۔ٹھیک دوسرے دن تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ نے اپنے کابینی فیصلہ میں اس کو منظوری دیدی کہ جنکی پھانسی کو سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کی ہے انہیں رہا کردیا جائے ۔اب وہ مرکز کو اس کی سفارش بھیجیں گی ۔اگر مرکز نے اجازت دینے میں آنا کانی کی تو وہ اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کردیں گی۔یہ ایک قانونی اور انسانی پہلو ہے اس پر نہ مجھے اعتراض ہے اور نہ کسی کو ہونا چاہئے ۔کیوں کہ جب کوئی شخص کسی فوری ہیجان سے مجبور ہو کر کوئی قدم اٹھاتا ہے تو یہ اس کا فوری اور ذاتی رد عمل ہوتا ہے ۔ موجودہ ظلم اور نا انصافی سے بھری دنیا میں یہ کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے لیکن اس میں کسی خاص عینک سے معاملات نہ دیکھا جانا چاہئے۔لیکن جب بات انتہائی اقدام کی ہو جس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑنے کا خدشہ ہو تو اس کی سزا اوراس کے بارے میں تھوڑا اس نکتہ نظر سے سوچتے اور عمل کرتے ہیں کہ معاشرہ اس کے منفی عمل سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے ۔اسی زمرے میں قتل اور زنا جیسی بھیانک واردات آتی ہے ۔اسلام نے قتل کی سزا قتل ہی رکھی ہے اور اس کو قوم اور معاشرے کی زندگی سے تعبیر کیا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر معاشرے میں قتل اور خونریزی کی سزا سخت نہ ہو تو قاتلوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ بات بات پر کسی کو بھی قتل کر ڈالیں گے جس سے سماج میں انارکی پھیل جائے گی ۔آج ہم ان معاشرے میں جہاں اسلام کا عمل دخل نہیں ہے اسی انارکی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔اخبار اٹھا کر دیکھ لیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اخبارات قتل و خونریزی اور زنا بالجبر کے واقعات سے بھرے نہ ہوتے ہیں ۔راجیو گاندھی کا قتل بھی اسی انارکی اور افراتفری اور ناانصافی کے ماحول کی پیدا وار ہے ۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔راجیو گاندھی کے قاتلوں کو معافی جن کا جرم ثابت ہو گیا کہیں مقدمات میں کسی کمی یا فرضی دستاویزات پیش کرکے فرضی چارج شیٹ کا کوئی معاملہ کہیں روشنی میں نہیں آیا یعنی کہ وہ واقعی قتل کی سازش میں ملوث ہیں ۔اب سے ایک سال قبل بڑی افراتفری میں افضل گورو کو پھانسی دیدی گئی اور اس کی لاش بھی اس کے گھر والوں کو نہیں سونپی گئی ۔افضل گورو کا گناہ صرف یہ تھا کہ اول تو وہ کشمیری تھا اوردوئم وہ مسلمان بھی تھا۔اور ملک عزیزمیں یہ دونوں نام اور کردار والے لوگ معتوب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پھانسی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی نہ کسی کو کوئی رحم آیا اور نہ ہی کسی نے اس پر احتجاج کیا ۔جنہوں نے اس پر احتجاج کیا ان کی باتوں کو ان سنا کردیا گیا اور کافی عرصے سے ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اگر آپ کی بات میں دم ہے اور آپ اس کو مضبوط دلائل کی روشنی میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ہمارے سامنے دو مثالیں موجود ہیں ۔مثالیں تو اور ہوں گی لیکن اس پر نہ توتحقیق ہوئی اور نہ وہ منظر عام پر آئیں۔ ایک معاملہ تو یہی افضل گورو کا ہے جس کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتے ہوئے بھی عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے اس کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔اب یہ اجتماعی ضمیر ہے کیا اور اس کی تخلیق کس طرح ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ اور عدلیہ اور انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں گھناؤنے نفرت اور نسلی امتیاز کو دکھاتا ہے ۔افضل غورو کو گرفتار کرنے کے بعد اسے سخٹ اذیت دیکر اس سے ایک ویڈیو بیان لیا گیا اور اس ویڈیو بیان کو ٹی وی چینلوں پر نشر کیا گیا ۔یہ ویڈیو بیان اسے اس دھمکی کے ساتھ لیا گیا تھا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کا انجام اس کے گھر والوں کو بھگتنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے پر مشہور مصنفہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے نے سخت احتجاج کیا لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا۔دوسری مثال ممبئی کے26/11 دہشت گردانہ حملہ پر مہاراشٹر پولس کے سابق آئی جی ایس ایم مشرف کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالات ہیں جس پر انہوں نے ایک پوری تحقیقاتی کتاب بھی لکھ ڈالی ’’ہو کلڈ کرکرے‘‘ جو کہ اردو میں ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اور بھی کئی ہندوستانی زبانوں میں اسے اشاعت کا شرف حاصل ہوا ۔مشرف کی مذکورہ کتاب پر بامبے ہائی کورٹ میں ایک شخص نے پی آئی ایل بھی داخل کیا کورٹ نے حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہ کیا ہوا ۔عوام کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کے ذہنوں پر کسی نئے واقعہ کی دھول جم جاتی ہے اور پچھلا واقعہ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔برسوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ۔پولس ،نام نہاد دہشت گردی مخالف دستوں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایسے مکروہ اور ذلیل کارنامے کئی بار منظر عام پر آگئے ہیں ۔لیکن نہ تو حکومت نے بیان بازی سے ہٹ کر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ،نہ ہی معمولی معمولی واقعات پر جن عدالتوں کا ضمیر بیدار ہوتا ہے اور وہ سو موٹو لیکر حکومت اور انتظامیہ کے کان پکڑنے والی عدالتوں نے اس پر کبھی اپنے ضمیر میں جھانکنے کی کوشش کی اور نہ ہی مسلم لیڈروں اور تنظیموں نے خوف کی نفسیات سے نکل کر اس پر کسی طرح کی ٹھوس کارروائی کی۔
راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث افراد کی سزا عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ’’جس آدمی کے سر پر پھانسی کا پھندہ لٹکتا رہے ،جس کی رحم کی درخواست پر پہلے ہی اتنی دیر ہو چکی ہے، ظاہر ہے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے ۔ان حالات میں اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنا ہی درست ہے‘‘ ۔جو سپریم کورٹ ان پر اتنی مہربان ہے وہ افضل گورو کے معاملے میں وہ نرمی وہ ہمدردانہ رویہ کیوں نہیں اپنا پائی؟کیا صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور ساتھ میں کشمیری بھی ۔وہ بھی تو پھانسی کی سزا کا کافی دنوں سے منتظر تھا ۔اسے بھی تو انہی اذیتوں میں زندگی گزارنی پڑی جس میں بقول سپریم کورٹ راجیو گاندھی قتل کے مجرمین نے گزاری ہے ۔جبکہ خود سپریم کورٹ کے ہی مطابق پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت بھی نہیں تھا ۔سپریم کورٹ نے دوسرا مشورہ دیتے ہوئے ریاستی حکومت کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی عمر کی مدت پوری کر چکے ہیں جبکہ یہی سپریم کورٹ ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر کی معیاد پوری زندگی متعین کرتا ہے ۔ اب جو لوگ جے للیتا کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں خاص طور پر کانگریسی ورکرجنہوں نے جے للیتا کے پتلے جلائے اور احتجاج کیا ،یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ جے للیتا نے وہی کیا جو اس وقت کا تقاضہ ہے یعنی تمل باشندوں کی ہمدردی حاصل کرنا ۔کوئی بھی سیاسی پارٹی وہی کرتی جو جے للیتا نے کیاہے۔ اصل معاملہ تو سپریم کورٹ کے اس مشورے کا ہے کہ’’ حکومت چاہے تو انہیں رہا بھی کرسکتی ہے کیوں کہ وہ اپنی عمر قید کی مدت پوری کر چکے ہیں‘‘ ۔ عدالتوں سے لیکر حکومتوں تک اور انتظامیہ سے لے کر مقننہ تک مسلمانوں کے ساتھ یہ ظلم اور نا انصافی کیا رخ لے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملک کے اتحاد اور سا لمیت کیلئے خطرناک ہے ۔اس کا تدارک کرنا اور مسلمانوں سمیت سبھی فرقوں میں یہ احساس بیدارکرانا کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے اور اس کی ترقی اور بقا میں ہی ان کی اپنی ترقی اور بقا بھی ہے ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ارباب اقتدار ،مسلم تنظیمیں اور مسلم لیڈران اخلاس کے ساتھ عمل کریں ۔ منافقت سے نہ ملک کا اتحاد سلامت رہے گا نہ اس کے بقا کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ نئے عالمی منظر نامے میں اپنا منفرد مقام بنا پائے گا۔
نہال صغیر۔ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل :9987309013

0 comments:

عدلیہ اور حکومت کا دوہرا معیار ملک کی سا لمیت کیلئے خطرہ



سپریم کورٹ کا راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث تین مجرمین کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیئے جانے سے ملک عزیز میں انصاف اور حکومت کے دوہرے پیمانے کو ایک بار پھر عالم انسانیت کے سامنے ظاہر کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت اور انصاف کا صرف گردان ہی باقی رہ گیا ۔حقیقت میں نہ کہیں جمہوریت ہے اور نہ ہی کہیں انصاف ۔ایک سال ہی قبل افضل گرو کو بڑی سرعت اور افراتفری میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔افضل گرو کو سپریم کورٹ نے سزا سناتے ہوئے وہ بات کہی تھی جس کے بعد شاید کسی کو سپریم کورٹ سے بھی انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔سپریم کورٹ نے صاف لکھا تھا کہ واضح طور پر کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے لیکن عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔واہ !کیا عدالت ہے اور کیسا انصاف کہ ناکافی ثبوت ہونے کے باوجود صرف اس لئے پھانسی پر لٹکادو کیوں کہ عوام کی خواہش ہے ۔اور وہ عوام کی خواہش کیسے بنی یہ ایک لمبی داستان ہے اس کا تذکرہ پھر کبھی ۔دوسری طرف وہی سپریم کورٹ جرم ثابت ہو جانے کے باوجود محض اس وجہ سے کہ رحم کی درخواست پر ایک لمبا عرصہ گذر گیا اور یہ کسی اذیت سے کم نہیں ۔پھانسی کو عمرقید میں بدل دیتا ہے ۔عدالت یہیں پر نہیں رکی اس نے ریاستی حکومت کو اپنے اختیارات کے استعمال کرنے کا اشارہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو انہیں رہا بھی کر سکتی ہے کیوں کہ یہ عمر قید کی سزا 23 سال جیل میں کاٹ چکے ہیں ۔یہی سپریم کورٹ ہے جس نے ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر قید کی معیاد موت تک مقرر کی ہے ۔ملک عزیز میں جمہوریت سیکولرزم اور عدلیہ کی بالادستی کی دہائی دینے والوں کیلئے سبق ہے ۔جس ملک کی عدالت میں عدالتی فیصلے اب آستھا اور عوامی ضمیر کی آواز پر دیئے جارہے ہوں اس کی جمہوریت ،سیکولرزم اور عدلیہ کی انصاف پروری کی داستان کے سلسلے میں غالب کا یہ مصرعہ ہی کافی ہے ؂ دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے

نہال صغیر۔ایکتا نگر۔کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل: 9987309013

0 comments:

کیا اجتماعی نکاح سے جہیز کی رسم پر قابو پایا جاسکتا ہے؟


مسلم معاشرے میں دوسرے بہت سارے مسائل کے ساتھ شادی بھی ایک مسئلہ ہے ۔اس مسئلہ پر جہاں کئی سطح پر لوگ کوششیں کررہے ہیں وہیں کچھ تنظیمیں اجتماعی شادی یا نکاح کا نظم بھی کرنے لگی ہیں ۔ جو کہیں دھوم دھام اور کہیں سادگی سے ہوتا ہے ۔ایسے پروگرام کی خبریں ہم اخبار میں روزانہ پڑھتے ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ اہم شخصیات سے گفتگو کرنے پر تقریباً سبھی کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اس طرح کے پروگرام سے معاشرے میں کوئی نمایاں تبدیلی تو نہیں آئے گی لیکن اتنا تو ہے کہ سماج میں ایسے لوگوں کیلئے راحت کا سامان فراہم ہوجاتا ہے جو انتہائی مفلوک الحال ہیں ۔اس طرح کے نکاح یا شادی کے پروگرام میں عام طور پر ایسے افراد جو اپنی بچیوں کی شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ،ان کی بچیوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔اس طرح کے نکاح میں عام طور پر تنظیمیں خود ہی رشتے طے کرتے ہیں ۔ مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ ’’ اس طرح کے پروگرام سے کوئی بڑا انقلاب یا جہیز کی بری رسم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے لیکن یہ ان معنوں میں بہتر ہے کہ چند غریبوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر جاتی ہے جو غریب اپنی بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے ان کی پریشانیاں کم ہو جاتی ہیں ۔ کسی نمایاں تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ سماج کی وہ شخصیات جواس کا انعقاد کرتی ہیں اگر انہی محفلوں میں اپنے بچوں کے نکاح بھی کرنے لگیں تو یقیناًتبدیلی آئے گی ۔ لیکن وہ سماج میں یہ نیک کام تو کرتے ہیں لیکن معاشرے میں تبدیلی لانا ان کا مقصد نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادی فائیو اسٹار طرز پر ہی کرتے ہیں‘‘۔
اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر زمانے میں اور ہر طبقہ کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے ہے ۔ قرآن کا حکم ہے ’’تم میں جو لوگ بغیرنکاح کے ہوں ،اور تمہارے لونڈی ،غلاموں میں سے جو صالح ہوں ،ان کے نکاح کردو‘‘ النور 32 اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’نکاح میری سنت ہے ،پس جس نے میری سنت سے چشم پوشی کی وہ مجھ سے نہیں ہے ‘‘ ۔ یہ دو مثالیں قرآن اور حدیث سے ہیں جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے کہ کوئی بھی تنہا نہ رہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد ۔اسی لئے سورہ نور میں یہ حکم ہے کہ اگر تم میں کا کوئی بن نکاح کے ہو (عورت یا مرد)اور اسے کوئی اس کی پسند کا نہیں مل رہا ہو تو وہ لونڈی یا غلام جو ان کے پاس ہوں اور وہ پاکباز ہوں تو ان سے نکاح کرلیں ۔ یعنی اسلام کا معیار مال و دولت جاہ وحشم اور حسن و خوبصورتی نہیں بلکہ پاکبازی اور صالحیت ہے ۔اسی بات کو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حجتہ الوداع کے موقع پریوں بیاں فرمایا تھا آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’زمانہ جاہلیت کی ساری رسموں کو میں اپنے پیروں تلے روندتا ہوں ۔آج سے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی امیر کو کسی غریب پر نہ کسی عرب کو کسی عجمی(عرب کے باہر کے لوگ)پر کوئی فوقیت ہے ۔اگر تم میں سے کسی کو کسی پر فوقیت ہے تو وہ صرف اس بنا پر کہ کون اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے ‘‘۔اس موقع پر آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھےَ ۔
نکاح انسانی زندگی کا اہم جز اور انسانی نسل کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔اس لئے اسلام نے اس عمل کو تمام ہی طرح کے رسم و راج سے پاک کیا ۔ نبی ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کیلئے خود بھی نکاح انتہائی سادگی سے کی اور آپ ﷺ کے جان نثار ساتھیوں نے بھی اسی پر عمل کیا ۔ بلکہ اب تک عرب اور بہت سے مسلم ملکوں میں نکاح اسی سادگی اور بغیر کسی قباحت کے ہوتا ہے ۔ لیکن ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں نے کچھ رسمیں برادران وطن سے خود میں شامل کرلیں ۔اسی کا ایک حصہ ہے جہیز جس کی مار بر صغیر میں دیگر لوگوں کے ساتھ مسلمانوں پر بھی ہے ۔ صرف جہیز ہی نہیں بلکہ شادی میں شاہانہ خرچ اور فائیو اسٹار کلچر نے اس ضروری اور اہم فریضہ کو غریب اور درمیانہ درجہ کے والدین کیلئے مصیبت بنا دیا ہے ۔ جبکہ نبی ﷺ نکاح کے متعلق فرماتے ہیں ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو نہایت آسانی اور بغیر تکلف کے انجام پذیر ہو‘‘۔ یہاں ہم نے تکلف برتنے کو ہی اپنا مزاج بنالیا ہے۔اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اپنے نبی کے فرمان کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور محض نعرہ لگاکر عاشق نبی اور اسلام کا شیدائی ہونے کا دعویٰ ہے ۔ جبکہ قرآن ہمیں کہتا ہے ’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول ہی ایک بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ‘‘ ۔(الاحزاب:21 )لیکن مسلمان کس نمونہ پر عمل کررہا ہے اور اس نمونہ نے اس کو کیا دیا ہے ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ہم نے ظاہری چمک دمک اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں خود اپنا ہی نقصان کیا کہ آج اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو وہ اسے ایک مصیبت سمجھنے لگتا ہے ۔اس سوچ نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آبادی میں عورت اور مرد کی تعداد میں عدم توازن سے ہوتا ہے۔ہندوستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیاں بہت کم ہیں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں لڑکیاں ہیں ہی نہیں ۔
اس ماحول میں چند لوگوں یا تنظیموں کی طرف سے اجتماعی نکاح یا شادی کا پروگرام ایک مثبت قدم ہے ۔ جس سے کوئی بڑی تبدیلی نہ بھی آئے تب بھی ان لوگوں کیلئے راحت کا سامان ہے جو اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اپنی بچیوں کی شادی کرسکیں ۔اسی کے ساتھ اس طرح کے پروگرام کرنے والے تھوڑے مخلص ہوجائیں تو سماج میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا ساتھ ہی اگر مسلمان اپنے نبی ﷺ کی اس حدیث پر ہی عمل کرلیں تو شادی کے مسائل سے نپٹا جاسکتا ہے۔ حدیث نبی ﷺ ہے ’’عورتوں سے چار باتوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ۔ مال دیکھ کر،حسب و نسب دیکھ کر،خوبصورتی دیکھ کر،یا دینداری دیکھ کر ،پس تم دینداری دیکھ کر زندگی کی کامیابی حاصل کرو‘‘۔ اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ نبی ﷺ کی بات مان کر پرسکون زندگی گزارنا چاہتےہیں یا نبی کی باتوں کو نظر انداز کرکے مشکلات اور مصائب کی زندگی میں مبتلا رہنا۔

نہال صغیر۔ موبائل:9987309013

0 comments: