عراق کے مسئلہ میں ہماری بعض مسلم تنظیموں کا افسوسناک رویہ
بے شک اس وقت عالم اسلام ایک نازک دور سے گذر رہا ہے ۔سوائے چند ایک مسلم
ملکوں کے کہیں بھی امن و امان نہیں ہے ۔پچھلی دو دہائیوں سے خاص طور پر
مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ یہ اس وقت
سے ہے جب نیو ورلڈ آرڈر کی شروعات کی گئی تھی جو کہ اسرائیل نے امریکہ کے
کاندھوں پر سوار ہو کر کیا تھا ۔کسی بھی معاملے میں ہماری صفوں سے امریکہ
کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور یہ کچھ حد تک درست بھی ہے کیوں کہ
افرتفری پیدا کرنے میں دوسرے ملکوں کو روندنے اسے نقصان پہنچانے میں صف اول
میں جو نظر آتا ہے وہ امریکہ ہی ہے ۔اس سے قبل روس بھی ہوا کرتا تھا ۔اور
روس نے جن مسلم جمہوریاؤں کو اپنے توسیعی عزائم کا نشانہ بنایا،تاریخ گواہ
ہے کہ اس نے چنگیز اور ہلاکو کو بھی شرمسار کر دیا ۔روس نے مسلم جمہوریہ کے
سارے ممالک پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں مسلمانوں کی شناخت تک کومٹادیا ۔کوئی
مسلمان نہ تو داڑھی رکھ سکتا تھا اور نہیں اس کی پیشانی پر نماز پڑھنے کے
نشان نظر آنے چاہئے تھے ۔قرآن کو دریا برد کردیا گیا یا جلا دیا گیا ۔لیکن
اللہ تعالیٰ اپنے دین کو قیامت تک باقی رکھے گا سو وہاں پھر اسلام ابھر رہا
ہے ۔بہر حال ہمیں فی الحال عراق اور اس کے مسائل پر بات کرنی ہے ۔عراق
پچھلی دو دہائیوں سے زیادہ سے سرمایہ دارانہ جارحیت (جس کا پشت پناہ اور
مربی اسرائیل ہے )کا شکار ہے اس کا بہانہ اس وقت تلاش کیا گیا تھا جب عراق
اور کویت کے سرحدی تنازعہ میں عراق نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا۔اس کے بعد
نام نہاد ۱۱؍ستمبر کے واقعہ کے بعد اسے پھر سے نشانہ بنایا گیا اور اس بار
عراق کو پوری طرح تباہ و برباد کرکے وہاں اسرائیلی امریکی جمہوریت نافذ
کردیا گیا ۔اس جمہوری حکومت میں کیا ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔نام تو اس
کا جمہوریت ہے لیکن اس کی آڑ میں آمریت کو فروغ دیاجارہا ہے۔نوری المالکی
اسی نام نہاد جمہوریت کی دین ہیں ۔اور ابھی حال میں مصر اور اس کے بعد شام
میں بھی اسی جمہوری عمل کے طفیل عوام الناس کے قاتل السیسی اور بشار الاسد
حکمراں منتخب ہو گئے ۔مصر میں السیسی نے ہزاروں اخوانیوں کا قتل عام کیا
اورمساجد کو آگ کے حوالے کیا ۔جب دنیا سنت ابراہیمی ادا کررہی تھی تب مصر
میں اخوان اپنے عزیزوں کی قربانی پیش کررہے تھے ۔اور یہ سب کچھ سعودی
حکمرانوں کی شہ پر انجام دیا گیا ۔شام میں بشارالاسد پچھلے تین سالوں سے
عوامی تحریک کو اپنی فوجی قوت اور ایران کے اشتراک سے کچل رہا ہے ۔ایک
محتاط اندازے کے مطابق دولاکھ سے زائد نفوس کا قتل عام کیا جاچکا ہے جس کا
سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ شام میں ایران کی مداخلت اور حزب اللہ کے راست مداخلت
کی وجہ سے وہاں عوامی تحریک کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کے واضح اشارے
تحریک کے شروع کے دور میں ملنے لگے تھے ۔حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ ایک
دو روز یا چند ثانیوں میں بشار شام سے فرار ہی ہونے والا تھا کہ ایران اور
حزب اللہ کی مداخلت سے پانسہ پلٹ گیا ۔واضح ہو کہ حز ب اللہ وہی ہے جس نے
اسرائیل کے ساتھ ٹکر لے کر مسلم امہ کے درمیان اپنا وقار بہت بلند کرلیا
تھا ۔حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب تک میں اس کو چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہو
گئی تھی۔یہ وہی دور تھا جب احمدی نژاد بھی صرف عالم عرب ہی نہیں پورے عالم
اسلام کے ہیرو کے طور پر ابھرے تھے ۔لیکن مسلم امہ کی بد نصیبی ہے کہ جس
کوانہوں نے ان کے کارناموں کی وجہ سے اپنے دلوں میں جگہ دیا تھا ۔وہ بہت ہی
کم نظر نکلے اور شام میں ایک ظالم ڈکٹیٹر کی حمایت کرکے مسلمانوں کے دلوں
کو مجروح کرکے دکھ دیا ۔
دولت اسلامیہ عراق و شام نامی جس تنظیم کا نام ابھی عراق والے معاملے میں آرہا ہے اور جس کی پیش قدمی سے ہمارے درمیان کے ہی وہ بظاہر ہمارے خیر خواہ نظر آنے والے دوست اور بھائی زیادہ خوف زدہ ہیں ۔میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ پتہ چلے کہ داعش نے عراق میں پہنچ کر شیعوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہے یا وہاں کے مقامات مقدسہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔لیکن مجھے کوئی ایسا پختہ ثبوت یا اشارہ بھی نہیں مل سکا ۔لیکن یہاں ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اتنی بے چینی پھیلائی کہ آخر کار لکھنوء میں کچھ تناؤ پیدا ہو ہی گیا جس پر باشعور طبقہ نے قابو پالیا ۔پچھلے دوسالوں سے ہندوستان میں شام کے تعلق سے افواہ پھیلانے کا مشغلہ زوروں پر ہے اور یہ افواہ براستہ ایران ہی یہاں داخل ہوا ۔اس میں کئی بار ایسی باتیں سامنے آئیں کہ کسی صحابیؓ یاکسی بزرگ ؒ کے مزارات کھود دئے گئے اور ان کی نعشوں کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ۔لیکن اس کی توثیق کسی معروف ذرائع سے آج تک نہیں ہو سکی ۔جبکہ جنگ زدہ علاقوں میں اور پھر جہاں سرکاری فوجوں اور عام گوریلوں سے جنگ جاری ہو وہاں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ جن سے جنگ جاری ہے وہ لوگ زیر زمین ہیں ۔ان کا کوئی دفتر کوئی پتہ وغیرہ تو ہوتا نہیں ہے۔اس کا فائدہ مخالف سرکاری عوامل اٹھایا کرتے ہیں اور اپنی کشتی گرداب میں پھنستی دیکھ کر اسی طرح کی اوچھی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں ۔اس دور میں ویسے بھی تمام طرح کی جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔اسی لئے ڈکٹیٹر جب عوامی مخالفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں کر پاتے تو ان کے قائدوں کی تضحیک اور ان کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے ان سے نفرت کرنے لگیں کیوں کہ عوام الناس اپنے قائد کو بے داغ جری اور بہادر دیکھنا پسند کرتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہمارے دلوں میں حضرات صحابہ کرام اور خلفاء راشدین سمیت دیگر بزرگان دین کی عظمت اور بزرگی راسخ ہے ۔
داعش کی پیش قدمی سے ایسا لگا جیسے ہندوستان میں بھونچال آگیا ہو ۔کچھ لوگ تو جان بوجھ کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے لیکن کچھ لوگ اور تنظیمیں بغیر جانے بوجھے کہ یہ داعش کیا ہے اور کیوں ہے؟اور کیوں اس نے عراق میں مورچہ کھول دیا ہے ۔اپنی غلط سلط بیان بازی سے اسی طرح مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کیا جس طرح الیکشن سے قبل مودی آجائے گا ،مودی آجائے گا، کا شور کرکے کانگریس کی حمایت کا شور بلند کیااور مسلم ووٹوں کو منتشر کرکے رکھ دیا ۔اس بہاؤ میں وہ لوگ بھی بہے چلے جارہے ہیں جن کے بارے میں آج بھی یہ بھرم قائم ہے کہ یہ دانشوروں کا طبقہ ہے اور مسلمانوں میں واحد ایسا گروہ ہے جس کے بارے میں عوامی رائے ہے کہ سنجیدہ لوگو ں کی تلاش یہیں آکر ختم ہوتی ہے ۔لیکن وہ بھی بھرم توڑتے ہوئے نظر آئے ۔اگر ہمیں معلوم نہیں کہ کس ملک میں کیاہو رہا ہے اور اس کی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ تو کیا ہم خاموش نہیں رہ سکتے کیا ضروری ہے کہ چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی الٹا سیدھا بیان دیا جائے ۔کیا اس سے ہمارا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے ۔ایک بھرم ہی تو ہے، کیا اب ہم اسے بھی توڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چند گھسے پٹے اور مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کا ادراک کریں ۔دنیا میں بدلتے جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطابق بولیں اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو خاموش رہیں۔کیوں کہ نبی ﷺ کا رشاد ہے کہ ’’جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا‘‘۔
نہال صغیر ۔ ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل : 9987309013
دولت اسلامیہ عراق و شام نامی جس تنظیم کا نام ابھی عراق والے معاملے میں آرہا ہے اور جس کی پیش قدمی سے ہمارے درمیان کے ہی وہ بظاہر ہمارے خیر خواہ نظر آنے والے دوست اور بھائی زیادہ خوف زدہ ہیں ۔میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ پتہ چلے کہ داعش نے عراق میں پہنچ کر شیعوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا ہے یا وہاں کے مقامات مقدسہ کو نقصان پہنچارہے ہیں ۔لیکن مجھے کوئی ایسا پختہ ثبوت یا اشارہ بھی نہیں مل سکا ۔لیکن یہاں ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اتنی بے چینی پھیلائی کہ آخر کار لکھنوء میں کچھ تناؤ پیدا ہو ہی گیا جس پر باشعور طبقہ نے قابو پالیا ۔پچھلے دوسالوں سے ہندوستان میں شام کے تعلق سے افواہ پھیلانے کا مشغلہ زوروں پر ہے اور یہ افواہ براستہ ایران ہی یہاں داخل ہوا ۔اس میں کئی بار ایسی باتیں سامنے آئیں کہ کسی صحابیؓ یاکسی بزرگ ؒ کے مزارات کھود دئے گئے اور ان کی نعشوں کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ۔لیکن اس کی توثیق کسی معروف ذرائع سے آج تک نہیں ہو سکی ۔جبکہ جنگ زدہ علاقوں میں اور پھر جہاں سرکاری فوجوں اور عام گوریلوں سے جنگ جاری ہو وہاں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے کیوں کہ جن سے جنگ جاری ہے وہ لوگ زیر زمین ہیں ۔ان کا کوئی دفتر کوئی پتہ وغیرہ تو ہوتا نہیں ہے۔اس کا فائدہ مخالف سرکاری عوامل اٹھایا کرتے ہیں اور اپنی کشتی گرداب میں پھنستی دیکھ کر اسی طرح کی اوچھی الزام تراشی پر اتر آتے ہیں ۔اس دور میں ویسے بھی تمام طرح کی جنگیں میڈیا کے ذریعے لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔اسی لئے ڈکٹیٹر جب عوامی مخالفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں کر پاتے تو ان کے قائدوں کی تضحیک اور ان کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے ان سے نفرت کرنے لگیں کیوں کہ عوام الناس اپنے قائد کو بے داغ جری اور بہادر دیکھنا پسند کرتی ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہمارے دلوں میں حضرات صحابہ کرام اور خلفاء راشدین سمیت دیگر بزرگان دین کی عظمت اور بزرگی راسخ ہے ۔
داعش کی پیش قدمی سے ایسا لگا جیسے ہندوستان میں بھونچال آگیا ہو ۔کچھ لوگ تو جان بوجھ کر ان کے خلاف صف آرا ہو گئے لیکن کچھ لوگ اور تنظیمیں بغیر جانے بوجھے کہ یہ داعش کیا ہے اور کیوں ہے؟اور کیوں اس نے عراق میں مورچہ کھول دیا ہے ۔اپنی غلط سلط بیان بازی سے اسی طرح مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کیا جس طرح الیکشن سے قبل مودی آجائے گا ،مودی آجائے گا، کا شور کرکے کانگریس کی حمایت کا شور بلند کیااور مسلم ووٹوں کو منتشر کرکے رکھ دیا ۔اس بہاؤ میں وہ لوگ بھی بہے چلے جارہے ہیں جن کے بارے میں آج بھی یہ بھرم قائم ہے کہ یہ دانشوروں کا طبقہ ہے اور مسلمانوں میں واحد ایسا گروہ ہے جس کے بارے میں عوامی رائے ہے کہ سنجیدہ لوگو ں کی تلاش یہیں آکر ختم ہوتی ہے ۔لیکن وہ بھی بھرم توڑتے ہوئے نظر آئے ۔اگر ہمیں معلوم نہیں کہ کس ملک میں کیاہو رہا ہے اور اس کی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ تو کیا ہم خاموش نہیں رہ سکتے کیا ضروری ہے کہ چند لوگوں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی الٹا سیدھا بیان دیا جائے ۔کیا اس سے ہمارا وقار مجروح نہیں ہو رہا ہے ۔ایک بھرم ہی تو ہے، کیا اب ہم اسے بھی توڑنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چند گھسے پٹے اور مفروضوں کو چھوڑ کر حقائق کا ادراک کریں ۔دنیا میں بدلتے جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے مطابق بولیں اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو خاموش رہیں۔کیوں کہ نبی ﷺ کا رشاد ہے کہ ’’جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا‘‘۔
نہال صغیر ۔ ایکتا نگر ۔ کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل : 9987309013
0 comments: