مصر پر جمہوریت نما آمریت کی شروعات
موجودہ دور کو جمہوریت ،سیکولرزم اور انسانی حقوق کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔لیکن اس جمہوری دور میں انسانیت جتنی شرمشار ہوئی ہے ،حقوق انسانی کی جتنی پامالی لبرل سیکولرزم کے نام پر ہوئی ہے اور انسانیت جس کرب بے چینی اور افراتفری کے دور سے گذر رہی ہے ۔شہنشاہیت کے دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن پھر مغربی جمہوریت کی اس نیلم پری سے لوگوں کی والہانہ وابستگی کم ہو کر ہی نہیں دیتی۔جب ہم حالات کا صحیح تجزیہ کریں تو ہم پائیں گے کہ موجودہ جمہوری نظام سے عوام کا ایک بڑا طبقہ دور ہے اور اس کی تعداد پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔اکثر جگہ جمہوری حکومت کے قیام کیلئے انتخابی عمل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں پچاس کہیں ساٹھ اور کہیں اس سے بھی زیادہ تعداد کو اس عمل سے لاتعلق پاتے ہیں ۔ایک شورش زدہ ریاست میں جب انتخاب ہوا تو وہاں کی عوام نے صرف پچیس فیصد ہی حق رائے دہی کا استعمال کیا لیکن اس کے باوجود جمہوری حکومت قائم ہو گئی ۔تعجب ہوتا ہے کہ جس نظام کو یا جس طریق حکومت یا جس پارٹی یا جس شخص کو عوام کی اکثریت نظر انداز کردیتی ہے اسے ہی کیوں عوامی طور پر منتخب حکومت کا درجہ مل جاتا ہے ۔ایسا ہی ابھی مصر میں ہوا جبکہ وہاں انتخابی عمل کیلئے دو دن کا وقت تھا لیکن دو روز میں جب عوام کی نوے فیصد سے زیادہ تعداد نے ووٹنگ کرنے سے احتراز کیا تو حکومت نے ایک روز اور ایکسٹینشن دیا لیکن تین روز میں بھی عوام کی 7.5% سے زیادہ تعداد گھروں سے باہر نہیں آئی ۔ چوتھے دن اچانک خبر آجاتی ہے کہ تقریبا 39% لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ۔بتائیے یہ اچانک تیس فیصد سے زیادہ عوام کی تعداد کہاں سے آگئی ۔یقینایہ کھلی بے ایمانی اور چوری کا معاملہ نظر آتا ہے ۔اس میں بھی سیسی کو 97% سے زیادہ سے کامیابی ملی ۔یہ وہی جنرل السیسی ہیں جنہوں نے عوامی طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرکے بڑی بے شرمی سے معزول کردیا یہ وہی سیسی ہیںجو کہ صہیونیت کے پروردہ اور اسکے منظور نظر ہیں اور جن کو مصر کے سلفیوں کی جماعت النور کی بھی حمایت حاصل ہے ۔اور خلیج کے اکثر ڈکٹیٹر بھی ان کی حمایت کرتے ہیں کیوں کہ ان عیش پسند حکمرانوں کیلئے جنرل السیسی اسرائیل سے انہیں امان دلانے والے واحد عبد اللہ ابن ابی کا کردار ادا کرنے والے ہیں جس میں ہمارے خادمین حرمین شریفین (جنہیں خادمین یہودین و امریکین کہنا زیادہ مناسب ہوگا)بھی شامل ہیں ۔
اوپر سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے کچھ خاص لوگوں کو شکایت ہو سکتی ہے ۔لیکن کیا کیا جائے کہ رات کے اندھیرے کو دیکھ کر بھی صبح کے اجالے کی گواہی نہیں دی جاسکتی ۔ان حکمرانوں کے کرتوت آن ریکارڈ ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔امریکہ تک کو یہ ہمت نہیں ہوئی تھی کہ وہ خلیج میں چلنے والی بہار عرب کی تحریک کی مخالفت کرتا بلکہ اس نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے اس تحریک کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے مرسی حکومت کی معزولی پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور مصر ی فوج کو ملنے والی امداد جو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ہے بند کردی ۔اس پر شاہوں کے ماتھے پر پسینے نظر آئے اور انہوں نے بڑے غرور اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ اگر امریکہ مصری فوجیوں کی امداد روک دیتا ہے تو ہم اس کی مدد کریں گے ۔لیکن یہ مدد کس کے لئے، اسرائیل کے خلاف نہیں صہیونیت سے نبرد آزما فلسطین کے معصوم بچوں کیلئے، انہیں اسلحہ سے لیس کرنے کیلئے نہیں ۔ان کی غذائی امداد کیلئے نہیں بلکہ عرب عوام کی حقیقی آزادی کیلئے لڑنے والے اخوانیوں کے خلاف ۔السیسی نے دکھایا بھی کہ وہ اخوانیوں کو وہ نقصاد پہنچا سکتا ہے اور صہیونیت کی وہ خدمت کرسکتا ہے جس کے بارے میں اسرائیل نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا اور اس نے کیا اس نے مصر کی سڑکیں اسلام پسندوں اور ملک اور پورے عالم میں اسلام کی سربلندی کیلئے جہد مسلسل کرنے والوں کے خون سے لال کردیں ۔ان کی لاشوں سے سڑکوں گلیوں اور مسجدوں کو بھردیا۔مسجدوں کو آگ کے حوالے کیا نمازیوں پر بموں اور ہیوی مشین گنوں سے فائرنگ کی ہزاروں معصوموں کا خون بہا کر بھی سیسی اور اسکے صہیونی پارٹنر عرب شیوخ مصر کے اسلام پسندوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے اور دنیا نے دیکھا کہ جب الیکشن کا ڈرامہ رچایا گیا تو صرف ساڑھے سات فیصد عوام نے ہی اس میں حصہ لیا اور اس میں سے ستانوے فیصد نے سیسی کی درندگی کے خلاف الیکشن میں حصہ نہ لے کر دنیا کو یہ بتادیا کہ وہ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر ظالم کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔مصر کی 93 فیصد عوام آج بھی سیسی اور اس کے حواریوں کی ڈرامے بازی سے دور ہے ۔یعنی اگر سیسی صدر بن بھی گئے تو بھی وہ عوامی نمائندہ کہلانے کے حق سے محروم ہو چکے ہیں نیز انہوں نے مصر کو ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے باوجود وہیں پہنچا دیا ہے جہاں وہ تین سال قبل حسنی مبارک دور میں تھا ۔اور یہ مغربی جمہوریت سیکولرسٹوں اور نا نہاد حقوق انسانی کے علمبرداروں کے منھ پر طمانچہ ہے ۔کیا مصر کے اس جمہوری ڈرامے کے بعد بھی دنیا میں جمہوری اقدار کی بات کرنے والے سیکولرزم کا دم بھرنے والے اور حقوق انسانی کی مالا جپنے والے لوگ اسلام پسندوں کے آگے اپنے بونے ہونے کا اعتراف کرنے کی جرات کریں گے ؟ ہر گز نہیں مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وہ اس جرات مندی سے یکسر خالی ہیں ۔ جو ظرف کے خالی ہے صدا دیتا ہے والی بات ان پر ہی صادق آتی ہے۔
نہال صغیر۔موبائل : 9987309013
0 comments: