بدایوں کا واقعہ اور پولس کا مورل
اتر پردیش ان دنوں میڈیا کی خبروں کا اہم ہدف بنا ہوا ہے ۔وجہ ہے بدایوں میں دو کمسن دلت لڑکیوں کی عصمت دری کے بعد قتل کا دلدوز واقعہ۔یہ واقعہ انسانیت کو شرمشار کرنے والا ہے ۔حالیہ واقعہ اور اس سے قبل بھی کئی اور جگہ عصمت دری نیز جنسی دست درازی کے کئی واقعات ظہور پذیر ہوئے ۔یوں تو ملک عزیز کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہاں عورتوں کے خلاف جرائم کی رفتار تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ۔حالانکہ یہاں عورت کو دیوی کے طور پر پوجا جاتا ہے ۔ابھی دسمبر ۲۰۱۲ میں ہی دہلی میں ایک میڈیکل طالبہ کے ساتھ کیاکچھ ہوا وہ ہماری نظروں کے سامنے اور یادداشت میں محفوظ ہے ۔اس کے مجرمین کو سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ۔ بدایوں جیسے واقعات ملک میں تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں اور اس طرح کے بھیانک اور انسانیت سوز واقعات زیادہ تر پسماندہ طبقات کے خلاف ہو رہے ہیں ۔ الیکشن کے موقع پر ہی ہریانہ میں دلتوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات ہوئے جس کے بعد خوف اور دہشت سے انہوں نے گائوں خالی کردیا تھا ۔حالانکہ دلتوں کے خلاف اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے خاص قانون بھی موجود ہے ۔لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف قانون ہی مسئلے کا واحد حل ہے ؟حالات اور ہر دن ظہور پذیر ہونے والے واقعات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ صرف قانون بنانے سے مسئلہ کا حل ناممکن ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اصلاح کی کوشش بھی کی جائے ۔معاشرے کی اصلاح کے بغیر اورلوگوں کے ذہنوں کو بیدار کئے بغیر اس طرح کے واقعات نہیں روکے جاسکتے ۔اس شرمناک واقعہ میں جو بات سب سے زیادہ کھل کر اور سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ ہے پولس کا انتہائی ظالمانہ رول جسے ہر بار نظر انداز کردیا جاتا ہے۔فسادات کے تعلق سے جب بھی کسی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی تو اس میں انہوں نے پولس کے رول پر بھی سوالات اٹھائے یا پھر انہیں ہی پوری طرح فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔لیکن پولس کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی پولس سسٹم میں سدھار کی کوئی کوشش کی گئی۔حد تو یہ ہے کہ جب جب پولس کے خلاف کارروائی کی بات کی جاتی ہے تو مرکزی یا ریاستی وزیر داخلہ کا ایک ہی قول سامنے آتا ہے کہ اس سے پولس کا مورل ڈائون ہو گا ۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بدایوں جیسے واقعات یا گجرات جیسے حالات سے پولس کا مورل ڈائون ہوتا ہے یا ان کے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے ۔ ہمیں دہلی کا وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے کہ جب دہلی کی ۴۹ دن والی عام آدمی پارٹی کی حکومت کے وزیر قانون سوم ناتھ بھارتی نے عوامی اطلاعات کی بنا پر دہلی پولس سے ایک گھر میں چھاپہ ڈالنے کیلئے کہا تو پولس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ حالانکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ وہاں واقعی جسم فروشی کا کاروبار ہو رہاتھا ۔لیکن میڈیا نے عام آدمی پارٹی کے وزیر قانون کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔یہاں اس واقعہ پولس کی خود سری اور باغیانہ تیور بتانا مقصود ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پولس یوں ہی خودسر ہو جاتی ہے ۔بلکہ سیاست دانوں کی حرکتیں انہیں خودسر بناتی ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ جس کی حکومت ہوتی ہے وہ بجائے پولس کو عوامی مفادات اور ان کے تحفظ کیلئے استعمال کرنے کے اپنے ڈنڈے کے طور کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پولس کا اصل کام عوامی تحفظ اور معاشرے میں امن مان بحال کرنا تھا وہ اس سے بھٹک کر سیاستدانوں کی نوکری کرنے لگی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ ایک شریف آدمی کے پولس کا نام سن کر ہی پسینے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ مجرم اور سماج دشمن عناصر پولس کو اپنا محافظ اور محسن تصور کرتے ہیں ۔
حالیہ واقعات اتر پردیش حکومت کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن ہے کہ وہ نیند سے بیدار ہو اور پولس اور انتظامیہ کو چست درست کرے نیز کسی طرح کی غفلت پر ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے ۔کیوں کہ سیاسی حالات اب وہ نہیں رہے جو چند ماہ پیشتر تھے ۔ہر چند کہ بدایوں کا حالیہ واقعہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے لیکن اس کو میڈیا جس طرح اچھال رہا ہے اس سے اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولس والوں کو فوراً گرفتار کیا جاتا اور دیگر مجرموں کو بھی گرفتار کرکے قانون کے حوالے کئے جانے کی ضرورت تھی لیکن ہر واقعے کی طرح یہاں بھی تساہلی دیکھنے کو ملی اسی کا انجام ہے کہ دووسرے لوگوں نے اسے سیاسی رنگ دیکر حالات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اکھیلیش حکومت جسے شاید بھاری اکثریت سے جیتنے پر کچھ گھمنڈ سا ہو چلا تھا اسے اب ریاست کی امن و امان کی صورت حال کی طرف تندہی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ نہ تو مجرمانہ ذہن رکھنے والے معاشرے میں خوف اور بے چینی پھیلاسکیں اور نہ ہی کسی کو سیاسی روٹی سینکنے کا موقع مل سکے ۔لیکن یہ جب ہی ہو سکے گا جب سیاسی حوصلہ مندی کاثبوت دیا جائے۔اسی طرح دیگر سیاسی لیڈروں کو بھی چاہئے کہ کسی کی مجبوری کو سیاسی ایشو بنانےکی بجائے اصل ایشو کی طرف دھیان دیں اور مجرموں کو ریاست سے باہر کا راستہ دکھانے میں انتظامیہ کی مدد بھی کریں اور اس پر اپنا دبائو بھی بنائیں۔
نہال صغیر ۔ موبائل 9987309013
0 comments: