فلسطینیوں کی جد و جہد تاریخ کے مشکل دور میں

8:46 PM nehal sagheer 0 Comments


ابھی دو سال پہلے تک مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری اور بہار عرب کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے بارے میں تھامس فرائیڈ مین جیسے مغربی دانشوروں نے پیشن گوئی کرنا شروع کردیا تھا کہ اسرائیل اور یہود تاریخ کے مشکل دور سے گذر رہے ہیں ۔خود اسرائیل کو بھی یقین ہو چکا تھا کہ جس طرح یکے بعد دیگرے عرب ڈکٹیٹروں کی سلطنتوں کے منہدم ہوجانے سے اقتدار پر اسلام پسندوں کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل کیلئے اس کا اپنا وجود بھی قائم رکھنا مشکل ہو جائے۔خاص طور سے مصر اور شام کی صورتحال اسرائیل کیلئے اس لئے بھی تشویش میں مبتلا کردینے والی تھی کیوں کہ ان دونوں مسلم ممالک سے اس کی سرحدیں لگی ہوئی ہیں ۔ماضی میں دو مرتبہ مصر کی فوجوں کے ساتھ اس کا تصادم بھی ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی اگر کسی ملک سے کوئی خطرہ ہے لاحق ہو سکتا ہے تو یہ شام اور مصر کا تاریخی علاقہ ہے اور ترکی جسکے ساتھ اس وقت اسرائیل کے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں واحد ایسا طاقت ور ملک ہے جس نے کھل کر اس خطے میں عوامی بیداری کا ساتھ دیا ہے مزید تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔اسرائیل نے اپنی اسی تشویش کو دور کرنے کیلئے اپنے ماضی کے دشمن بشار الاسد اور اس کی علوی قوم کو گولان کی پہاڑیوں میں پناہ دینے کا منصوبہ بنالیا تھا تاکہ شام اور مصر میں اسلام پسندوں کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے میر جعفروں کی مدد لی جاسکے۔اسرائیل ابھی اس خلش میں مبتلا ہی تھا کہ آیت اللہ اور حز ب اللہ کے ذریعے بشارلاسد کی مدد نے اسرائیل کی بن مانگی مراد پوری کردی ۔اس طرح اسرائیل نے شام کی طرف سے اٹھ رہے طوفان پر تو قابو پالیا مگر مصر میں تحریک اخوان المسلمون جس کا وجود ہی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف عمل میں آیا تھا اچانک ان کا اقتدار پر غالب آجانا ان کیلئے فعال نیک نہیں تھا ۔اسرائیل نے یہ مرحلہ بھی خادم حرمین شریفین کی خدمت سے جلد حل کرلیا ۔سعودی عرب نے دجال السیسی کی مدد کرکے نہ صرف اسرائیل کے دشمنوں کو پابند سلاسل کروادیا بلکہ فاشسٹ حکومت کے زیر اثر مصری عدالت نے ہزاروں کی تعداد میں اخوانی قیادت کو پھانسی کی سزا بھی سنا دی ہے۔السیسی نے سعودی حکومت اور اپنے صہیونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اگر وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مصر سے اخوانیوں کا خاتمہ کردیں گے ۔غالباً جس طرح دجالی شام اور مصر کے اس خطے میں امام مہدی اور حضرت عیسیٰ ٗ کے نزول سے خوفزدہ ہے اسرائیل کے ساتھ ساتھ آیت اللہ ،عبد اللہ اور حز ب اللہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہو ۔دیکھنا یہ ہے کہ حسنؓ و حسینؓ کے یہ دشمن دجال کے سفیر السیسی اور بشار الاسد کی مدد کرکے دجال کی معاون صہیونی ریاست کو کہاں تک تحفظ فراہم کرسکتے ہیں اور اس پوری صورتحال سے جس قوم کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے اللہ تعالیٰ کہاں تک فلسطینی مسلمانوں کے صبر و استقلال اور ایمانی غیرت کا امتحان لیتا ہے ۔مگر جس طرح سے انہوں نے صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی نصرت اور مدد سے زرہ برابر بھی مایوس نہیں ہیں اور ہر وہ تدبیر اختیار کررہے ہیں جو ان کے اور قبلہ اول کی آزادی کے حق میں بہتر ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ان کا نصب العین زمین کا ایک ٹکڑا اور قبلہ اول کی آزادی ہی نہیں بلکہ اسرائیل جس آرماگیڈون یعنی تیسری عالمی جنگ کی تیاری میں مصروف ہے اس کے مقابلے کیلئے فولاد سے زیادہ سخت انسانوں کی جماعت کا تیار ہو بھی ضروری ہے۔عرب کی موجودہ صورتحال یہ کہہ رہی ہے کہ ٹینکوں میزائلوں اور بارودوں کے ڈھیر پر پیدا ہونے والی ان کی نسل بہت ہی باہمت اور باحوصلہ اور اپنے آپ میں نیو کلیئر ہوگی جنہیں جدید نیو کلیئر ہیڈ سے بھی خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا ۔جیسا کہ سعودی حکومت نے ایک مشق کے دوران نیر کلیئر ہیڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اس نے ایران اور اسرائیل کو خوفزدہ کرنے کیلئے کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور قبلہ اول کے نام پر یہ ساری طاقتیں اپنے اپنے اقتدار کی بھوکی ہیں اور آپس میں ایک سمجھوتے کے تحت متحد ہیں۔
عرب کی اس موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ لوگ اس بحث میں بھی الجھے ہوئے ہیں کہ جس طرح حماس اور الفتح کے لیڈران آپسی رضامندی سے فلسطین کی مشترکہ حکومت بنانے کیلئے رضامند ہوئے ہیں مستقبل میں فلسطین کی مکمل آزادی کیلئے ان کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے ۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ فلسطینی عوام جس حصے پر قابض ہیں انہیں اتنے ہی پر اتفاق کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرلینا چاہئے ۔ایک دوسرے طبقے کی رائے یہ بھی ہے کہ انہیں ماضی کی طرح ایک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کردینی چاہئے۔ایک تیسرے غیر مسلم اور مغرب نواز دانشوروں کا ماننا یہ ہے کہ آزادی فلسطینیوں کا اپنا حق ہے مگر اسے تشدد کی بجائے گاندھی ،منڈیلا،دلائی لامہ اور مارٹن لوتھر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تحریک کو جاری رکھنا چاہئے ۔ہو سکتا ہے کہ تقدیر کو ان پر رحم آجائے ۔اگر فلسطین کے مسلمان طبقہ اول کی بات مانتے ہوئے رضامند ہو جاتے ہیں تو نہ صرف انہیں قبلہ اول سے محروم ہونا پڑے گا بلکہ پچاس فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کی جو آبادی دیگر عرب ممالک مین رفیوجی کی زندگی بسر کررہی ہے وہ شہریت سے محروم ہو جائیں گے اور بہت سے مسلم ممالک جو قبلہ اول کی وجہ سے ان کی مدد کررہے ہیں وہ اپنا ہاتھ روک لیں گے ۔جبکہ فلسطینیوں کی اپنی اکثریت بھی اس معاہدے پر کبھی رضامند نہیں ہوگی۔جہاں تک دوسرے انتفاضہ کی شروعات کاسوال ہے کم سے کم ایک ایسے وقت میں جبکہ عالم اسلام میں ترکی اور قطر کے علاوہ کوئی مسلم ملک فلسطینی مسلمانوں کا حمایتی نہیں رہا وہ اس حکمت عملی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔دوسری طرف امریکہ اور یوروپ جو کہ روس کی مداخلت کی وجہ سے یوکرین اور شام کے مقابلے میں بے بس نظر آرہے ہیں اسرائیل کو قابو کرنے سے قاصر ہیں ۔اسی لئے ایک طبقے کا خیال ہے کہ پر امن تحریک کی وجہ سے یوروپ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں جو تحریک زور پکر رہی ہے ممکن ہے کہ باقاعدہ انتفاضہ کی شروعات سے ان کے دوستوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے ۔ایسا ممکن ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 1980 کے بعد حماس کے ذریعے انتفاضہ تحریک کی شروعات کے بعد ہی یوروپ نے فلسطینیوں کی جد وجہد پر توجہ مرکوز کی اور اسرائیل اوسلو معاہدہ کیلئے رضامند ہوا۔ویسے بھی فلسطینیوں کی طرف سے کسی بھی پر تشدد مزاحمت کو بھی اس لئے جائز قراردیا جائے گا کیوں کہ اسرائیل ایک حملہ آور اور ناجائز طریقے سے عمل میں آنے والی ریاست ہے اور اس نے مسلسل فلسطینی مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ان کیلئے بہتر ہے کہ ان میں سے ایک طبقہ گاندھی اور نہرو کی شکل میں مفاہمت کا طریقہ اختیار کرے مگر دوسرے طبقے کو سبھاش چندر بوس ، بھگت سنگھ اور اشفاق اللہ خان کا بھی کردار ادا کرتے رہنا چاہئے ۔دنیا کے ہر مسئلے کی سچائی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دو پہلو کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ نہرو اور گاندھی نے بالآخر آزادی حاصل کرلی مگر تاریخ کے دوسرے صفحے پر سبھاش چندربوس اور جلیا نوالہ کے سبق کو بھی بھلایا نہیں جاسکتا ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دلائی لامہ پر امن تحریک کے ذریعے نہ صرف تبت کے علاقے کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں بلکہ دنیا میں تبت کی آزادی کے تعلق سے کوئی شور شرابہ بھی نظر نہیں آتا ۔جبکہ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ اگر زندہ ہے اور اکثر و بیشتر عالمی طاقتوں کی مداخلت سے گفت و شنید کی شکل اختیار کرتے ہوئے نظر آتا ہے تو اس لئے کہ فلسطینی مسلمانوں نے گفتگو کے ساتھ ساتھ لہو گرم رکھنے کا طریقہ بھی اختیار کررکھا ہے۔اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں کے درمیان 29 ؍اپریل کو جو گفتگو ہونے والی تھی اس کا حشر بھی ہنسی مذاق اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ۔اس سے پہلے کہ اسرائیل اور کچھ عالمی طاقتیں ایک بار پھر فلسطینیوں کو مذاق بنا کر پیش کرتیں محمود عباس کی تنظیم الفتح نے حماس کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرکے نہ صرف اسرائیل کے منھ پر طمانچہ مارا ہے بلکہ شاہان عرب کی غیرت کو بھی للکارا ہے کہ تم اپنے اقتدار کیلئے یہود و مشرکین کے ساتھ اپنے ایمان کا سودا کرو ہماری مدد کیلئے اللہ کسی اور قوم اور مخلوق کو بھیجنے پر قادر ہے ۔انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ایسا ہوچکا ہے اور ایسانہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔
عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811  ای میل   umarfarrahi@gmail.com

0 comments: