ہماری ترجیحات نے موجودہ سیاست کا رخ بدل دیا
دنیاکے کسی بھی ملک کے الیکشن اور سیاسی پارٹیوں کی حمایت یا مخالفت میں وہاں کی مذہبی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں کا عمل دخل بہت کم ہی پایا جاتا ہے ،یا مذہب کے دخل کو برداشت نہیں کیا جاتا ۔خاص طور سے امریکہ ،یوروپ اور کمیونسٹ ممالک میں جہاں سے جدید لبرل جمہوری سیاست کی روایت شروع ہوئی۔ یہاں پر تمام سیاسی پارٹیاں وہاں کے تعلیمی اداروں ،صنعت کاروں اور زیادہ سے زیادہ غیر سرکاری فلاحی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔اسی لئے موجودہ لبرل سیاست کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں ۔یعنی اس معاشرے اور سماج کے لوگ اپنے سیاست دانوں سے انصاف مانگنے کی بجائے روٹی کپڑا اور مکان کو ترجیح دیتے ہیں ۔تقریباً یہی صورتحال مغرب نواز ہندوستانیوں کی بھی ہے جو اپنے سیاست دانوں سے روزی روزگار ،سڑک اور سڑک پر چلنے والی آسانی اور سستی سواریوں کی سہولیات مہیا کروانے کی فہرست پیش کرتے ہیں تاکہ انہیں تعلیم اور تجارت کے بہتر مواقع حاصل ہو سکیں ۔کم سے کم یوروپ ،چین امریکہ اور بہت سارے مغرب نواز ممالک کے حکمرانوں نے عوام کی سوچ کے مطابق ان کی خواہشات کو پورا بھی کیا ہے ۔ انہوں نے صنعت و ٹکنالوجی کو عروج دے کر ہزاروں میل کے سفر کو گھنٹوں اور منٹوں میں تبدیل کردیا ہے کہ اب اسے دن ہفتہ اور مہینے کے گزرنے کا بھی خیال نہیں ہوتا ۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ عمر کے دس سال گزرجانے کے بعد بھی وہ خود کو دس سال چھوٹا ہی سمجھ رہا ہوتا ہے اور خود سے دس سال چھوٹے آدمی کو بھی چاچا اور بابا پکارتا ہوا نظر آتا ہے ۔یعنی ترقی اور مسابقت کے جنون میں وہ اس تیز رفتار ی سے آگے آچکا ہوتا ہے کہ اسے اپنے سوا ہر شخص بوڑھا نظر آتا ہے ۔اس طرح نہ صرف وہ اپنی پہچان کھوچکا ہے بلکہ وہ اپنے اصل نصب العین اور دنیا کی حقیقت سے ناواقف اور انجان ہے ۔اسے یہ جاننے کی فرصت بھی کہاں ہے کہ اس دنیا اور کائنات کا خالق کون ہے اور اس کی تخلیق کا راز کیا ہے ۔
قرآن کہتا ہے زمین اور آسمان بغیر ستون کے پیدا کئے گئے ہیں ،پھر بھی وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں ۔یہ اس وجہ سے کہ ان کے آپس میں میزان قائم ہے ۔ذرا غور کیجئے کہ جس طرح سے لاتعداد ستارے اور سیارے خلاء میں تیر رہے ہیں اگر ان کے آپس میں ذرہ برابر بھی خلل پڑ جائے تو ہم زمین والوں کا کیا ہوگا ۔ہماری ساری ترقی اور ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ سپر پاور طاقتیں ہر سال آنے والے طوفان ،زلزلے اور سونامی کے آگے کس طرح بے بس اور مجبور نظر آتے ہیں اور سیٹیلائٹ ٹکنالوجی سے بھی چین کا سفر کرنے والے ملیشیا کے طیارے کو سمندر نے کہاں اپنی آغوش میں چھپالیا مستقبل کا سپر پاور چین جو اپنی بے پناہ فوج اور ٹکنالوجی کے ذریعے امریکہ کو آنکھ دکھارہا ہے ،جاپان اور ہندوستان کے علاقوں کو چھین کر اپنی سرحدوں کو وسیع کرلینے کی تاک میں ہے ایک طیارے کو ڈھونڈ لینے سے بھی قاصر ہے ۔مگر اسے کون سمجھائے کہ ماضی کے قیصر و کسریٰ ،یونان،مصر اور ترکی اور آج کے برطانیہ ،فرانس ،امریکہ ،روس ،جرمنی اور جاپان اپنے اسی ناپاک عزائم اور ناانصافی کی وجہ سے سمٹ گئے تو چین کی اپنی اوقات کیا ہے ۔مگر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان اپنی ترقی میں اپنی حقیقت اور پہچان کھو چکا ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہو کر یہ بھول بیٹھا ہے کہ اس کا قد وہیں سے چھوٹا ہونے لگتا جب وہ اپنے بڑے ہونے کا اعلان کرنا شروع کردے ۔جبکہ انسان کا لڑکپن اور اس کے بڑے ہونے کا راز اس کے رحم دل اور انصاف پسند ہونے میں ہے اور یہی صفت اس کائنات کے مالک کی بھی ہے جو نہ صرف اپنے عظیم ہونے کا اعلان کرتا ہے بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ رحمن اور رحیم بھی ہے ۔
ہم تاریخ کے حوالے سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ دنیا میں جن قوموں ،قبیلوں اور مذہب کے لوگوں نے حکومت کی اگر وہ زیادہ دنوں تک عوام پر حکومت کرسکے تو اس لئے نہیں کہ انہیں صرف تعلیم ٹکنالوجی اور معیشت میں ہی فوقیت حاصل تھی بلکہ اس لئے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ رحم اور انصاف کا معاملہ فرمایا ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چند مسلم قبیلوں نے عرب ممالک سے آکر پوری دنیا پر منجملہ ایک ہزار سال تک حکومت کی تو اس لئے کہ انہوں نے اسلام کے فلسفہ انصاف کو حکومت اور سیاست کا نصب العین اور اسی عدل و انصاف کی وجہ سے عوام کی اپنی معیشت اور تعلیم و تحقیق میں بھی ترقی ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ اسی دور کی تعلیمی و تحقیقی مواد ہیں جسے ہم مشینوں کی شکل میں استعمال کررہے ہیں جسکے امام اسی مسلم دور حکومت کے مسلم سائنسداں رہے ہیں ۔مگر اپنی تمام تر تعلیم ،ٹکنالوجی اور معاشی ترقی کے باوجود اسپین اور ہندوستان کے عرب اور مغل حکمرانوں کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا تو اس لئے کہ انہوں نے مادی ترقی کو اپنی اصلی طاقت تصور کرلیا اور انصاف پر روٹی کپڑا مکان اور عیش و عشرت کی زندگی نے غلبہ حاصل کرلیا ۔انسان پر جب دنیا کی محبت اور لالچ غالب آجائے اور وہ تصنع اور ریا کاری کو اپنی اصل طاقت سمجھ لے تو پھر اس کے اندر وہن کی کیفیت کا طاری ہونا بھی لازمی ہے ۔اس طرح اسپین بخارا اور ہندوستان کی تعلیم یافتہ اور متمدن قوم در بدر بھٹکنے والی قدامت پرست عیسائی قوم سے اپنے عالیشان مکانات خوبصورت مساجد خانقاہیں تعلیمی ادارے تعلیمی ترقی لائبریریاں ٹکنالوجی اور ہتھیار سب کچھ ہار گئے ۔آج ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم بھی اپنے سیاست دانوں سے اس بات کیلئے کبھی اصرار ہی نہیں کیا کہ ہمیں انصاف چاہئے ۔اس کے برعکس ہماری خواہشات اور ترجیحات میں وہی تمام چیزیں شامل ہیں جسکی وجہ سے سماج اور معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ پورا کرہ ارض جس دھماکہ خیز صورتحال سے دو چار ہے تو اس کے ذمہ دار صرف عیاش اور بد عنوان سیاست داں اور حکمراں ہی نہیں ہم سب بھی ہیں جنہیں انصاف نہیں روٹی چاہئے ۔جبکہ ہماری ترجیحات اور مطالبات میں اگر انصاف کو فوقیت حاصل ہو جائے تو ہماری تمام ضروریات جو ہم دوسروں کا چھین کر اور اپنے دن اور رات تباہ کرکے حاصل کررہے ہیں امن و سکون کے ساتھ میسر ہونے لگے ۔پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی تک سیاست کے ساتھ انصاف کا تھوڑا بہت تصور ضرور قائم رہا ہے ۔مگر انیسویں اور بیسویں صدی میں سیاست میں انصاف کی جگہ بھوک نے لے لیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس مختصر سے وقفے میں دو عظیم عالمی جنگ میں کروڑوں انسان ہلاک اور تباہ ہو گئے اور آج بھی پوری دنیا میں اسی سیاسی بھوک کی آگ میں ہزاروں انسان ہر روز تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں یا انسانوں کے ساتھ مختلف بہانے سے ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com
0 comments: