کیا اجتماعی نکاح سے جہیز کی رسم پر قابو پایا جاسکتا ہے؟
مسلم معاشرے میں دوسرے بہت سارے مسائل کے ساتھ شادی بھی ایک مسئلہ ہے ۔اس مسئلہ پر جہاں کئی سطح پر لوگ کوششیں کررہے ہیں وہیں کچھ تنظیمیں اجتماعی شادی یا نکاح کا نظم بھی کرنے لگی ہیں ۔ جو کہیں دھوم دھام اور کہیں سادگی سے ہوتا ہے ۔ایسے پروگرام کی خبریں ہم اخبار میں روزانہ پڑھتے ہیں ۔اس سلسلے میں کچھ اہم شخصیات سے گفتگو کرنے پر تقریباً سبھی کا اس بات پر اتفاق تھا کہ اس طرح کے پروگرام سے معاشرے میں کوئی نمایاں تبدیلی تو نہیں آئے گی لیکن اتنا تو ہے کہ سماج میں ایسے لوگوں کیلئے راحت کا سامان فراہم ہوجاتا ہے جو انتہائی مفلوک الحال ہیں ۔اس طرح کے نکاح یا شادی کے پروگرام میں عام طور پر ایسے افراد جو اپنی بچیوں کی شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ،ان کی بچیوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔اس طرح کے نکاح میں عام طور پر تنظیمیں خود ہی رشتے طے کرتے ہیں ۔ مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ ’’ اس طرح کے پروگرام سے کوئی بڑا انقلاب یا جہیز کی بری رسم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے لیکن یہ ان معنوں میں بہتر ہے کہ چند غریبوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر جاتی ہے جو غریب اپنی بچیوں کی شادی نہیں کرسکتے ان کی پریشانیاں کم ہو جاتی ہیں ۔ کسی نمایاں تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ سماج کی وہ شخصیات جواس کا انعقاد کرتی ہیں اگر انہی محفلوں میں اپنے بچوں کے نکاح بھی کرنے لگیں تو یقیناًتبدیلی آئے گی ۔ لیکن وہ سماج میں یہ نیک کام تو کرتے ہیں لیکن معاشرے میں تبدیلی لانا ان کا مقصد نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادی فائیو اسٹار طرز پر ہی کرتے ہیں‘‘۔
اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر زمانے میں اور ہر طبقہ کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے ہے ۔ قرآن کا حکم ہے ’’تم میں جو لوگ بغیرنکاح کے ہوں ،اور تمہارے لونڈی ،غلاموں میں سے جو صالح ہوں ،ان کے نکاح کردو‘‘ النور 32 اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’نکاح میری سنت ہے ،پس جس نے میری سنت سے چشم پوشی کی وہ مجھ سے نہیں ہے ‘‘ ۔ یہ دو مثالیں قرآن اور حدیث سے ہیں جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اسلام نے اس کا حکم دیا ہے کہ کوئی بھی تنہا نہ رہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد ۔اسی لئے سورہ نور میں یہ حکم ہے کہ اگر تم میں کا کوئی بن نکاح کے ہو (عورت یا مرد)اور اسے کوئی اس کی پسند کا نہیں مل رہا ہو تو وہ لونڈی یا غلام جو ان کے پاس ہوں اور وہ پاکباز ہوں تو ان سے نکاح کرلیں ۔ یعنی اسلام کا معیار مال و دولت جاہ وحشم اور حسن و خوبصورتی نہیں بلکہ پاکبازی اور صالحیت ہے ۔اسی بات کو نبی ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حجتہ الوداع کے موقع پریوں بیاں فرمایا تھا آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’زمانہ جاہلیت کی ساری رسموں کو میں اپنے پیروں تلے روندتا ہوں ۔آج سے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی امیر کو کسی غریب پر نہ کسی عرب کو کسی عجمی(عرب کے باہر کے لوگ)پر کوئی فوقیت ہے ۔اگر تم میں سے کسی کو کسی پر فوقیت ہے تو وہ صرف اس بنا پر کہ کون اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے ‘‘۔اس موقع پر آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھےَ ۔
نکاح انسانی زندگی کا اہم جز اور انسانی نسل کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔اس لئے اسلام نے اس عمل کو تمام ہی طرح کے رسم و راج سے پاک کیا ۔ نبی ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کیلئے خود بھی نکاح انتہائی سادگی سے کی اور آپ ﷺ کے جان نثار ساتھیوں نے بھی اسی پر عمل کیا ۔ بلکہ اب تک عرب اور بہت سے مسلم ملکوں میں نکاح اسی سادگی اور بغیر کسی قباحت کے ہوتا ہے ۔ لیکن ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں نے کچھ رسمیں برادران وطن سے خود میں شامل کرلیں ۔اسی کا ایک حصہ ہے جہیز جس کی مار بر صغیر میں دیگر لوگوں کے ساتھ مسلمانوں پر بھی ہے ۔ صرف جہیز ہی نہیں بلکہ شادی میں شاہانہ خرچ اور فائیو اسٹار کلچر نے اس ضروری اور اہم فریضہ کو غریب اور درمیانہ درجہ کے والدین کیلئے مصیبت بنا دیا ہے ۔ جبکہ نبی ﷺ نکاح کے متعلق فرماتے ہیں ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو نہایت آسانی اور بغیر تکلف کے انجام پذیر ہو‘‘۔ یہاں ہم نے تکلف برتنے کو ہی اپنا مزاج بنالیا ہے۔اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اپنے نبی کے فرمان کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور محض نعرہ لگاکر عاشق نبی اور اسلام کا شیدائی ہونے کا دعویٰ ہے ۔ جبکہ قرآن ہمیں کہتا ہے ’’درحقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول ہی ایک بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے ‘‘ ۔(الاحزاب:21 )لیکن مسلمان کس نمونہ پر عمل کررہا ہے اور اس نمونہ نے اس کو کیا دیا ہے ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ہم نے ظاہری چمک دمک اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ میں خود اپنا ہی نقصان کیا کہ آج اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو وہ اسے ایک مصیبت سمجھنے لگتا ہے ۔اس سوچ نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آبادی میں عورت اور مرد کی تعداد میں عدم توازن سے ہوتا ہے۔ہندوستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیاں بہت کم ہیں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں لڑکیاں ہیں ہی نہیں ۔
اس ماحول میں چند لوگوں یا تنظیموں کی طرف سے اجتماعی نکاح یا شادی کا پروگرام ایک مثبت قدم ہے ۔ جس سے کوئی بڑی تبدیلی نہ بھی آئے تب بھی ان لوگوں کیلئے راحت کا سامان ہے جو اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اپنی بچیوں کی شادی کرسکیں ۔اسی کے ساتھ اس طرح کے پروگرام کرنے والے تھوڑے مخلص ہوجائیں تو سماج میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا ساتھ ہی اگر مسلمان اپنے نبی ﷺ کی اس حدیث پر ہی عمل کرلیں تو شادی کے مسائل سے نپٹا جاسکتا ہے۔ حدیث نبی ﷺ ہے ’’عورتوں سے چار باتوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے ۔ مال دیکھ کر،حسب و نسب دیکھ کر،خوبصورتی دیکھ کر،یا دینداری دیکھ کر ،پس تم دینداری دیکھ کر زندگی کی کامیابی حاصل کرو‘‘۔ اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ نبی ﷺ کی بات مان کر پرسکون زندگی گزارنا چاہتےہیں یا نبی کی باتوں کو نظر انداز کرکے مشکلات اور مصائب کی زندگی میں مبتلا رہنا۔
نہال صغیر۔ موبائل:9987309013
0 comments: