عدلیہ اور حکومت کا دوہرا معیار ملک کی سا لمیت کیلئے خطرہ
سپریم کورٹ کا راجیو گاندھی کے قتل کی سازش میں ملوث تین مجرمین کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیئے جانے سے ملک عزیز میں انصاف اور حکومت کے دوہرے پیمانے کو ایک بار پھر عالم انسانیت کے سامنے ظاہر کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت اور انصاف کا صرف گردان ہی باقی رہ گیا ۔حقیقت میں نہ کہیں جمہوریت ہے اور نہ ہی کہیں انصاف ۔ایک سال ہی قبل افضل گرو کو بڑی سرعت اور افراتفری میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔افضل گرو کو سپریم کورٹ نے سزا سناتے ہوئے وہ بات کہی تھی جس کے بعد شاید کسی کو سپریم کورٹ سے بھی انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔سپریم کورٹ نے صاف لکھا تھا کہ واضح طور پر کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے لیکن عوام کی اجتماعی ضمیر کی تسکین کیلئے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے ۔واہ !کیا عدالت ہے اور کیسا انصاف کہ ناکافی ثبوت ہونے کے باوجود صرف اس لئے پھانسی پر لٹکادو کیوں کہ عوام کی خواہش ہے ۔اور وہ عوام کی خواہش کیسے بنی یہ ایک لمبی داستان ہے اس کا تذکرہ پھر کبھی ۔دوسری طرف وہی سپریم کورٹ جرم ثابت ہو جانے کے باوجود محض اس وجہ سے کہ رحم کی درخواست پر ایک لمبا عرصہ گذر گیا اور یہ کسی اذیت سے کم نہیں ۔پھانسی کو عمرقید میں بدل دیتا ہے ۔عدالت یہیں پر نہیں رکی اس نے ریاستی حکومت کو اپنے اختیارات کے استعمال کرنے کا اشارہ بھی دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو انہیں رہا بھی کر سکتی ہے کیوں کہ یہ عمر قید کی سزا 23 سال جیل میں کاٹ چکے ہیں ۔یہی سپریم کورٹ ہے جس نے ممبئی بم دھماکہ کیس میں عمر قید کی معیاد موت تک مقرر کی ہے ۔ملک عزیز میں جمہوریت سیکولرزم اور عدلیہ کی بالادستی کی دہائی دینے والوں کیلئے سبق ہے ۔جس ملک کی عدالت میں عدالتی فیصلے اب آستھا اور عوامی ضمیر کی آواز پر دیئے جارہے ہوں اس کی جمہوریت ،سیکولرزم اور عدلیہ کی انصاف پروری کی داستان کے سلسلے میں غالب کا یہ مصرعہ ہی کافی ہے دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے
نہال صغیر۔ایکتا نگر۔کاندیولی (مغرب) ممبئی 400067 موبائل: 9987309013
0 comments: