دنیا میں امن و استحکام کے لئے صرف اسلامی نظام حکومت ہی واحد متبادل ہے
تقریباً دو صدی قبل دنیا میں جمہوریت اورسرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کی فلاح کے لئے ماڈل کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔اور اس ماڈل کے نتائج ہم موجودہ دنیا میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس ماڈل نے انسانیت کی فلاح کا کام اس قدر کیا کہ امیر امیر ہوتا گیا اور بے چارہ غریب ،غریب ہوتا گیا ۔جس دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کے عذاب میں سازشی یہودی اور ان کے ہمنوا دنیا کو مبتلائے آلام کرنے کی فکر میں تھے ۔ٹھیک اسی وقت مغرب نے جمہوریت کی نیلم پری کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔جمہوریت میں جو تھوڑی سی خوبیاں تھیں اسے خوب عیاں کرکے عام لوگوں کو بتایا گیا۔جمہوریت کو ایک خوبصورت پردے کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس خوبصورت حسینہ کو پیش کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ لوگ باگ اس کی دلفریبی میں سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کو بھول جائیں ۔تاکہ انہیں غریب عوم کو لوٹنے کا بھر پور موقع مل سکے۔یہ لو گ اپنے اس قبیح مقصد میں دو صدی سے زیادہ کامیاب رہے۔لیکن بہر حال عوام کا ایک طبقہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو کچھ حد تک سمجھ گیا ،جس کے رد عمل کے طور پر اشتراکی تحریک کا ظہور ہوا۔اس وقت سے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیوں میں کشمکش شروع ہوئی کہ بالآ خرسقوط سوویت روس کی صورت میں اشتراکیت نے دم توڑا۔اس کے سارے قلعے ایک ایک کرکے زمین بوس ہوگئے ۔ وجہ تھی اس کا غیر فطری ہونا ۔ان تینوں نظاموں کی وقتی کامیابی کی واحد وجہ تھی کہ اس وقت بحیثیت مجموعی مسلم مملکتیں زوال پذیر تھیں ۔کوئی سی مسلم مملکت رہی ہو جو یہودیوں کی پروردہ نام نہادجمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کی دست برد سے محفوظ رہی ہوں ۔مسلمانوں میں بھی مسلکی علاقائی اور لسانی عصبیت عروج پر تھیں ۔منافقین کے عروج کا زمانہ تھا لارنس آف عربیہ کی شکل میں ان میں کئی منافقین موجود تھے تو غداروں کی بھی ایک جماعت عالم اسلام کے مضبوط قلعوں میں سیندھ لگانے میں مصروف کار رہی،جن کے سر خیل میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ تھے۔چونکہ ان ساری ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسلام کی طرف سے اس کا دفاع کمزور تھا ۔ نتیجتاًاس درمیان دنیا میں تین باطل تحریکوں کو پنپنے کا موقع مل گیا ۔ اشتراکیت تو خیر سے ستر پچھتر سالوں میں ہی اپنی موت آپ مر گئی۔مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام بھی بہت جلد تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے۔ویسے بھی مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا تحفظ حاصل ہے ۔
اب گاہے گاہے مغربی جمہوریت کی ناکامی پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔چنانچہ مشہور صحافی کلدیپ نیر اپنے ایک ہفتہ واری کالم کے شروع میں ہی لکھتے ہیں کہ ’’بد نصیبی سے پورے جنوبی ایشیا میں جمہوریت ناکام ہو چکی ہے‘‘۔لیکن انہوں نے صرف جنوبی ایشیا کا ہی تذکرہ کیا ہے جبکہ یہ عالمی تناظر میں ناکام طرز حکومت ہے ۔ جس نے عوام الناس کو غربت و جہالت میں دھکیلا ہے ۔محض چند لوگوں کو عیاشی فراہم کرایا ہے ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق بھی دنیا کے پچاسی فیصد سے زیادہ وسائل پر صرف دس فیصدسے بھی کم امیر لوگوں کا قبضہ ہے۔لیکن چونکہ میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ پر وہ پوری طرح حاوی ہیں اس لئے وہ تصویریں ہمیں اب دکھائی نہیں جاتیں جس نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔آج سے کوئی تیس پینتیس سال قبل تک اخبارات میں افریقہ اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھکمری کی ایسی دردناک تصاویر شائع ہوا کرتی تھیں کہ پتھر دل انسان بھی رنجیدہ ہو جائے ۔لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا ،جس سے کہ انسانیت کا اصل مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ۔اب ہر جگہ سے جنگ و جدل کی خبریں دہشت گردانہ حملوں کے خطرات کی جھوٹی خبریں ہی چھائی رہتی ہیں ۔لیکن افریقہ جس کو سرمایہ داروں نے اپنی لوٹ مار کا اڈہ بنا رکھا ہے وہاں سے بھوک سے مرتے لوگوں کی تصاویر اور نہ ہی خبریں اخبارات یا نیوز چینل کی زینت بنا کرتی ہیں ۔اب گلیمر یعنی جنس زدہ اور جانوروں کو شرمسار کرنے والے بیہودہ پروگرام اور سلیبریٹی کی نیم برہنہ تصاویر ان کے شب وروز اور ان کی مصروفیات ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے ۔کہا ہی گیا ہے کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔وہ جمہوریت جس کے بارے میں 1908 میں برطانیہ کے گورنرجنرل برائے مصر لارڈ کرومر نے اپنی کتاب ’’ماڈرن ایجپٹ ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے ’’جونہی دانشوروں اور سیاستدانوں کی ایک نسل انگریزی تعلیم کے ذریعے انگریزی کلچر کے آئیڈیل کی حامل پیدا ہو جائے گی انگلینڈ اپنی تمام کالونیوں کو سیاسی آزادی دے دیگا لیکن کسی بھی صورت میں برطانوی حکومت ایک لمحے کے لئے بھی خود مختاراسلامی ریاست برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ‘‘۔ یہ ہے یہود نواز مغرب کا اصلی چہرہ اسے وہ اسلام نہیں چاہئے جو زندگی کے سارے معاملات کی نگرانی اور اس میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔اسے تو صرف مساجد کی حد تک اسلام چاہئے ۔اور یہ اس لئے ہے کہ اگر اسلام کا پورا نظام غالب آگیا تو سود طبقہ جو عالم انسانیت کا خون پی کر تندرست و توانا ہوا ہے اس کا کیا ہوگا۔
آج عالم اسلام میں ایک بیداری اور خاندانی اور موروثی اجارہ داری سے بیزاری بڑی تیز رفتار سے بڑھ رہا ہے۔اس کی شروعات تیونس سے ہوئی لیکن اپنے ذہن کو ہم ذرا وسعت دیں تو اس کی شروعات ایران کے اسلامی انقلاب سے ہو گئی تھی۔پراس بیچ زیادہ وقفہ کی وجہ نام نہادمغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے علبردار اپنی پوری قوت سے موجود تھے ،جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ اور دولت کی چمک دمک سے اسلامی انقلاب کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی چنانچہ عراق ایران جنگ ،جنگ خلیج اور نام نہاد ۹؍۱۱ کے بعد افغانستان پر چڑھائی جس میں انکی میڈیا کی اجارہ داری سے کسی حد تک کامیابی ملتی محسوس ہوئی تھی ۔دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ دنیا میں اسلام بس برائے نام ہی باقی رہے گا۔لیکن وہ تو احکم الحاکمین کی جانب سے دی گئی ڈھیل تھی چنانچہ وہی جنگ اور دہشت سرمایہ داروں کی موت کا پیغام ثابت ہورہا ہے ۔سرمایہ داروں کے امام اور اسرائیل کے سرپرست امریکہ کو عراق و افغانستان میں اپنی قوت گنوانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ہاں اس کے لئے مسلمانوں نے بڑی قیمتیں چکائیں ہیں ۔لاتعداد عوام اور خواص نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی انقلاب بغیر خون بہائے رونما ہو ہی نہیں سکتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں تو اہنسا نے ہی کام کیا اور بھارت آزاد ہوگیا۔جو لوگ یہ سوچتے ہیں وہ یا تو خود فریبی میں مبتلا ہیں یا پھر ان ہزاروں مجاہدین آزادی کی تحقیر کرنے کے مجرم ہیں ،جنہوں نے اپنے خون سے ایک زرین تاریخ کا روشن باب تحریر کیا۔میں یہاں پر مولانا مودودی ؒ کا اقتباس نقل کرنا چاہوں گاانہوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا کہ ’’انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور قوت ڈھل جانے کا نہیں ڈھال دینے کا نام ہے،مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے موڑدینے کو کہتے ہیں۔دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا ،جو لوگ اپنا کوئی اصول ،کوئی مقصد حیات،کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں،جو بلند مقصد کے لئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں،جن کو دنیا میں آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو ،جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں،ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے ،انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے،دنیا کے خیالات بدلے ہیں ،منہاج عمل انقلاب پیدا اور برپا کیا ہے۔زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کرچھوڑاہے‘‘۔
اردو ٹائمز ممبئی جمعہ 20 ؍جون کے ایک مضمون میں ڈاکٹر لعل خان ’’عراق :کالی آندھی کا اندھیرا‘‘کے عنوان سے فرماتے ہیں ’’بربادی ،سامراجی استحصال اور معاشی محرومیوں سے نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔پورے خطے کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا کرکے ہی فرقہ وارانہ،قومی،مذہبی اور نسلی تعصبات سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے ‘‘۔مضمون نگار پتہ نہیں کس سوشلسٹ انقلاب کی بات کررہے ہیں ۔روس کے سوشلسٹ انقلاب کی جو صرف 75 سالوں میں آنجہانی ہو گیا ۔اس انقلاب کی تاریخ روح فرسا ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ اس انقلاب نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا خون بہایا ،مساجد پر تالے لگائے ،علماء کا قتل عام کیا گیا ،مذہبی کتابوں خصوصا قرآن کو دریا برد کیا گیا یا جلا دیا گیا ۔یا چین کے سوشلسٹ حکومت کی جسے شعار اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے کہ اس نے اپنے شہریوں پر روزہ رکھنے کی پابندی لگا رکھی ہے ۔یا اتا ترک کے سیکولر انقلاب کی جس نے اذان اور نماز پر پابندی لگائی شراب خانے کھلوائے اور جوئے اور قمار بازی کو ترک معاشرے میں عام کیا اور صرف اسلام دشمنی کے نام پر۔اگر انقلاب یہی ہے کہ کسی مذہب کے ماننے والوں کو قتل کردیا جائے انہیں بالجبر کسی عقیدہ کوماننے پر مجبور کیا جائے تو ایسے انقلاب سے جمود ہی بھلا۔بھلا وہ انقلاب کہاں اور کس طرح انسانیت کی فلاح کا کام انجام دے سکتا ہے جس کو دنیا کی ایک بڑی آبادی نے مسترد کردیا ہو ۔ ہمارا کہنا ہے کہ تم کسی کی بات نہ کرو تم ایک بار صرف پانچ سال کیلئے اسلام کے مکمل نظام کی حمایت کرنے والی اور اسے نافذ کرنے والی حکومت کی تائید نہیں تو کم از کم اس کے خلاف سازشیں نہ کرو اور اپنی قوت اسے رد کرنے کی بجائے انسانیت کی بھلائی میں صرف کرو تو یقین جانو کہ اسلام صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی دنیا کو وہ سب کچھ دے گا جس کو مغربی جمہوریت ،سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب سو اور دو سو سال میں بھی نہیں دے سکے ۔لیکن تم باطل پرست ایساکبھی نہیں ہونے دو گے کیوں کہ اسلام کا شجر سایہ دار والی حکومت صرف پانچ سالوں میں ہی انسانوں کے دلوں کو تسخیر کرکے تمہیں ہمیشہ کیلئے مسترد کردے گی ۔اور تم انسانیت کی بھلائی چاہتے ہی نہیں ہو ۔تم آزادی نسواں کے بہانے تمہیں عورتوں تک پہنچنے کا راستہ چاہئے ۔تمہیں بے لگام آزادی چاہئے ۔جس سے کہ تمہیں آوارہ گردی اور بد کاری کے کھلے راستے دستیاب ہو جائیں جس کی زہریلی فصل دنیا ایڈز کینسر اور اس جیسے ان گنت بیماریوں کی صورت میں کاٹ رہی ہے۔
نہال صغیر۔ممبئی ۔موبائل: 9987309013
0 comments: