شام و مصر کی داستان بلاخیز، سعودی شاہ کا کرداراور ہندوستان میں ان کے ایجنٹ

3:36 PM nehal sagheer 0 Comments

جو لوگ شام پرامریکی حملے کی دھمکی کی مخالفت کررہے ہیں وہ بتائیں کہ اس کے علاوہ آپشن کیا ہے ۔پچھلے دو سالوں سے جس قدر بشارالاسد رجیم کی فوج نے نہتے عوام پر زندگی تنگ کی ہے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کا قتل کیا ہے ۔عورتوں اور بچوں تک کو اس کے وحشی فوجیوں نے درندگی کے ساتھ قتل کیا ہے ۔کیا اس کی نظیر بھی ملتی ہے ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد رجیم نے بھی ایسا ہی کیا تھا حمات شہر کو کھنڈر میں بدل دیا تھا اور اسی ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا ۔ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ صرف نام کے نہیں عملی مسلمان تھے اور وہ مسلم ملک میں لادینی قانون کے قائل نہیں تھے ۔ان کاعزم تھا کہ وہ اللہ کی سرزمین پر حق و انصاف پر مبنی قانون الہٰی نافذ کریں گے ۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونی سرمایہ داروں نے پوری دنیا کو یرغمال بناکر مسلم دنیا کو لسانی علاقائی مسلکی اختلافات کو ہوا دیکر ٹکڑوں میں بانٹنا شروع کیا اور وہاں اپنے پالتو حکمراں متعین کئے ۔ان پالتو حکمرانوں نے مسلم عوام پر وہ ظلم وستم کئے کہ ہلاکو اور چنگیز بھی نادم ہو جائیں ۔اگر اس پوزیشن میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ غیر مسلم حکومتیں ظلم و ستم میں اتنی طاق نہیں جتنی مسلم نام والی حکومتیں ہیں۔اسرائیل بھی اس ظلم و ستم اور خون خرابے میں شاید سب سے پچھلی قطار میں نظر آئے ۔جب ہی تو مہاراشٹر کی فاشسٹ تنظیم شیو سینا کا ترجمان سامنا مصر میں فوجیوں کی درندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اتنی اموات اگر ہندوستان میں ہو گئی ہوتی تو دنیا میں بھونچال آجاتا پوری دنیا میں چیخ و پکار مچ جاتا ۔گجرات میں 2002 میں مودی کی حکومت میں مودی کے اشارے پر مسلمانوں کے قتل عام سے مودی ابھی تک پیچھا نہیں چھڑا پارہا ہے ۔غور کیجئے تو سامنا کا تبصرہ درست ہے دیکھئے فوجیوں کی درندگی پر دنیا کس طرح خاموش رہی۔نہ صرف خاموش رہی بلکہ دنیا کے سربراہان مملکت مصر جاتے رہے اور مصری فوج کے فرعون وقت السیسی سے ہاتھ ملاتے رہے ۔اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ کسی کی ضمیر نے بھی دھتکارا نہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا ضمیرصرف سو ہی نہیں گیا ہے ،مربھی چکا ہے ۔
مصر اور اخوان کے تعلق سے کچھ سیکولرسٹ صحافی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی نمک خواری میں جو کچھ بیان کررہے ہیں اس میں دس فیصد بھی سچائی نظر نہیں آتی ۔سعودی حکومت کا حق نمک ادا کرنے کے لئے انصاف کی کوئی بات زبان سے نکالنے کو راضی ہی نہیں بلکہ دنیا نے جس جرم کو دن کے اجالے میں سرے عام دیکھا ہے اور جس کو یہودی اور سعودی دونوں کی حمایت حاصل تھی اس کی بھی تاویل کرتے نظر آرہے ہیں ،وہ بھی مصر کے المیہ کے پورے دو ماہ بعد اتنے دن کہاں تھے ۔کیا اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اپنی اسٹریٹیجی طئے کی کہ یہودی نواز سعودی حکومت کا دفاع کس طرح کیا جائے،تب یہ بلوں سے باہر نکلے اور دشنام طرازی پر اتر آئے کہ اخوان کی ہی ساری غلطیاں ہیں ۔ان کی معلومات کا ذریعہ محض صہیونی میڈیا کے توسط سے آنے والی خبروں پر آمنا صدقنا والی بات ہے ۔خیر سے اگر کوئی سیکولرسٹ صحافی اگر یہ بات کرتا ہے تو اس کی بے دینی کی وجہ سے ایسی باتیں سمجھ میں آتی ہیں لیکن جب کوئی عالم دین ایسی کوئی بات کرے تو پھر دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عالم دین کے بھیس میں کون ہے؟میں نے دو سلفی مولویوں کے مضامین دیکھے جس میں انہوں نے مصری فوج کو ایسا پیش کیا ہے مانو وہ بالکل معصوم ہیں جبکہ وہ درحقیقت مصر کو اس کھائی میں دھکیلنے والے گروہوں میں سے ہیں جس کھائی میں پچھلے دو سو سالوں سے مسلم دنیا کو پورا مغرب اور یہودی سرمایہ داردھکیلنے میں لگا ہوا ہے ۔ میں نے زیادہ تو نہیں لیکن جو کچھ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر مصر و شام کے معاملات پر غور کیا ہے وہاں کے حالات کو دیکھا ہے اس سے بس یہ اندازہ لگایا ہے اورجو بعض ذرائع سے تصدیق شدہ ہے کہ مصر میں فوج کو وہاں کے دین بیزار اور نام نہاد سیکولر طبقہ اور ایک ایسی تنظیم جس کا تعلق سلفی مسلک سے ہے ،نے سعودی ،یہودی اور ایرانی فنڈ کے ذریعہ مرسی اور اخوان کے خلاف استعمال کیا ۔جس البرادعی نے سب سے زیادہ ہنگامی خیزی کی اور جو مرسی کیخلاف پہلے دن سے تھا ۔ جب فوج نے جس کو خون لگا ہوا تھا اس کی حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بھی بول اٹھا کہ مرسی حق پر تھے ۔جس کی خبر عام اردو اخبارات میں آئی ہے ۔جہاں تک اخوان کی حکومت کے اہم عہدوں پر اخوانیوں کو بھرنے کی بات ہے اس میں بھی سچائی نہیں ہے ۔میرے پاس کئی ایسے اعداد شمار ہیں جو کہتے ہیں مرسی کی اخوانی حکومت نے اپنی تعداد سے بھی کم اپنے لوگوں کو ان عہددوں پر لگائے اور فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے کئی اہم عہدوں پر ان لوگوں کو متعین کیا جو ان کے مخالفین میں سے تھے ۔

مصر میں مرسی حکومت کے خلاف جس احتجاج کی بات کی جاتی ہے اس کی سچائی اتنی ہی ہے کہ چند ہزار لوگوں کو ایک مصری تاجر جو امریکہ میں رہتا ہے کرایہ پر تحریر اسکوائر پر لے آیا اور اس کے آقا اسرائیل نے اس کی بھرپور مدد کی ۔جہاں تک احتجاج کی بات ہے تو حکومت مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو اس عوامی احتجاج کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔کیوں کہ اس سے بیس گنا زیادہ یا اس سے بھی زیادہ عوام نے مرسی کو ہٹائے جانے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی ۔دراصل مصر میں پہلے دن سے ہی اخوان کے خلاف لبرل دہشت گرد وں نے مورچہ کھول رکھا تھا لیکن اس وقت وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے کیوں کہ معاملہ تازہ تھا اور عوامی رد عمل کے ساتھ عالمی ضمیر کے بھی بیدار ہونے کا خوف تھا اس لئے مرسی کی اخوانی حکومت کو مشکلات کے باوجود بن جانے دیا گیا ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا ۔مصر میں گیس بجلی اور غذائی اجناس کی تنگی پیدا کی گئی اس میں پورا حکومتی کارندہ جس کی تربیت پچھلی حکومتوں نے کی تھی شامل تھا ۔بات یہاں تک ہے کہ گیس کے ٹینکر آتے تھے لیکن وہ ڈپو میں جانے کی بجائے صحرا میں جاکر گیس کو برباد کردیتے ۔جب اس پر مرسی کی حکومت نے گرفت کی اور اس میں مائیکروچپس لگا کر اس کے ڈائریکشن معلوم کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی کوشش کی تو ان کا تعاون نہیں کیا گیا ۔ان عرب ملکوں نے جنہوں نے مرسی کے رہتے ہوئے ایک پائی کی مدد نہیں کی ،مرسی کے ہٹتے ہی خزانے کا منھ کھول دیا ۔اس کے بعد عرب کے عیاش اور بد کردار حکمرانوں کے بیانات اور اسرائیل کی خوشی کا اظہار اور ایران کی منافقانہ روش سب یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ مصر میں حقیقتاً کیا ہوا ہے؟مصر کی النور پارٹی کے کردار پر شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں جو کچھ لکھا وہ کتنا صحیح ہے ۔وہ لکھتے ہیں’’سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال سلفیوں کی جماعت نور پارٹی کے حوالے سے آئی ۔نور پارٹی نے مصر کے انتخابات میں 25 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔اور یہ پارٹی خود کو اخوان سے زیادہ بنیاد پرست باور کراتی ہے ۔لیکن فوج نے صدر مرسی کے خلاف سازش کی تو نور پارٹی سیکولر عناصر کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے جنرل السیسی کو قوت فراہم کی ۔لیکن فوج کے قتل عام نے ایک ہفتے میں نور پارٹی کو بھی فوج سے فاصلہ بڑھانے پر مجبور کردیا،اور اب نور پارٹی کہہ رہی ہے کہ اگر فوج نے ملک کے آئین میں موجود اسلامی شقوں کو ختم کیا تو وہ مظاہرے شروع کردے گی۔لیکن نور پارٹی مظاہرہ کرے یا نہ کرے اس کے بارے میں سب کو معلوم ہو گیا کہ اس کا مسئلہ اسلام نہیں ،عرب حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب کے حکمرانوں سے اس کی قربت اور ان حکمرانوں سے ملنے والی مالی امداد ہے‘‘۔یہی مسئلہ یہاں بھی ان علماء سوء کا ہے جن کو اخوان میں ہی کمیاں نظر آرہی ہیں۔عالم اسلام اور انصاف پسندوں کی نظر میں جو کاربد ایران نے شام میں مداخلت کرکے کیا ہے وہی بد کرداری سعودی شاہ نے مصر میں کی ہے ۔ اس لئے ایران اور سعودی شاہ دونوں ہی ملامت زدہ ہیں۔
دنیا میں پھر ایک نئی گروہ بندی ہو رہی ہے ۔چین عالمی افق پر نیاسپر پاور بن کر ابھر رہا ہے ۔ا س لئے روس ایک طرح سے چین کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آرہا ۔چین کچھ مصلحتوں کی بناء پر کھل کر دنیا کی اس نئی گروہ بندی میں متحرک رول نہیں ادا کررہا ہے بلکہ وہ فی الوقت پردے کے پیچھے سے اپنا کام روس کی مدد سے کررہا ہے جس کی طرف بہت کم بلکہ نہیں کے برابر لوگوں کا ذہن جارہا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کمزور ہو چکا ہے ۔وہ کیسے؟اس کو بلندی پر پہنچانے میں بھی اسرائیلی صہیونی سرمایہ داروں کا رول تھا تاکہ اسرائیل کی امریکہ کے ذریعہ غیر مشروط حمایت جاری رہے اور اب اس کو کمزور کرنے میں بھی انہی صہیونی سرمایہ داروں کا ہاتھ ہے کیوں کہ انہوں نے امریکہ اور یوروپ کے بجائے اب چین کو اس کے لئے چنا ہے ۔ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کے سینکڑوں مالی ادارے تاش کے پتے کی طرح بیٹھتے جارہے ہیں اور جتنی تیزی کے ساتھ امریکہ بیٹھ رہا ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ چین عالمی افق پر بلند ہو رہا ہے ۔ہاں امریکی قوت بالکل تو ختم نہیں ہوگی لیکن اس کی پوزیشن وہ نہیں رہ پائے گی جو ابھی تک ہے ۔مسلمانوں میں اب تک چین سے متعلق کوئی سوچ نہیں ہے جو ایک خطرناک طرز عمل ہے ۔ پورے مشرق وسطی کی اسٹڈی اسلامی تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے ۔نہ کسی سے دشمنی نہ کسی کی طرف داری بلکہ حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنا چاہئے ۔اسی تجزیہ کو مولانا سلمان حسنی نے پیش کیا ہے جس کے جواب میں عبد المعید مدنی اور فرقان مہربان علی صاحبان اپنی علمی قابلیت بھول کر جاہلوں کی طرح ان پر ذاتی حملہ کرنے لگے ۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہے لیکن اس کا جواب ان کے پاس کیا ہے کہ مصرمیں اسلام پسندوں کی حکومت جس نے اپنا دستور قرآن وسنت ہی کو بنایا تھا اس کے خاتمہ میں کیوں رول ادا کیا ؟اور کیوں سعودی ،یہودی ،کویت اور ایران ایک ساتھ متحد ہو گئے ؟ان دونوں مولویوں کی نظر میں اخوان شدت پسند اور دہشت گرد ہیں جیسا کہ ان کے آقا سعودی نے بھی کہا ۔ظلم و نا انصافی کے خلاف غیر متشدد طریقے سے احتجاج کرنے والوں کو جنہوں نے اپنے متبعین کو سختی کے ساتھ ہتھیار اٹھانے سے روکا ہے ۔فوج نہتے لوگوں جن میں ضعیف ،عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں پر گولیاں برساتی ہے اصمان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے ٹینکوں سے ان کو روند دیا جاتا ہے ۔اتنے سارے ظلم سہنے کے بعد بھی اگر کوئی یہودی زبان میں ان کو دہشت گرد شدت پسند کہے تو کیا لوگ یہودی سعودی گٹھ جوڑ کو سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہونگے؟تعجب ہے کہ قرآن وسنت کے دستور کا اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا دعویٰ کرنے والوں کا عمل ایسا ہے کہ یہودی اور سعودی سب ایک ہی زبان میں بول رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ سارے سلفی علماء ان دونوں کی طرح سطحی نظریات و افکار کے لوگ ہیں ۔نہیں ،بلکہ ان کے اندر بھی حق پسندوں کی کمی نہیں ہے ۔ ہندوستان میں بھی کئی جگہ پر کئی سلفی علماء نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گو ان کے افسوس اور دکھ کے اظہار میں دو ماہ کا عرصہ لگا ۔ان کی بھی کوچھ مجبوریاں ہیں ۔اس میں سب سے بلند نام مولانا سید اطہر حسین دہلوی کا ہے ۔جنہوں نے سعودی عرب کے گناہوں کی کھل کر تو نہیں لیکن کچھ عرب ممالک کا نام لیکر ضرور ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔اسی طرح میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں اس امام صاحب نے بھی نام لیکر نہیں لیکن عرب ممالک کہہ کر ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔پتہ نہیں کیا مجبوری ہے یا ان کا بھی کوئی مفاد وابستہ ہے ۔مولانا سلمان پر انتہائی رکیک حملہ کیا ہے ان سے میرا سوال ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے کسی ادارے کو امداد دینے کا مطلب کیا یہی لیا جائے کہ اگر وہ کوئی بدکرداری دکھائے کسی اسلام دشمن اور مسلم دشمنی پالیسی پر عمل کرے تو اس کی گرفت نہ کی جائے ؟اگر اسی مقصد کیلئے سعودی حکومت امداد دیتی ہے تو یہ رشوت ہے۔اور آپ لوگ ہی رشوت کا حق ادا کریں ۔مولانا سلمان حسنی جیسے عالم اگر اپنے وارث انبیاء ہونے کا حق ادا کررہے ہیں تو اس میں آپ جیسے مطلب پرست دین فروش اور اسرائیل نواز لوگوں کو برا ہی لگے گا اس کا کیا جائے ۔تاریخ ہم نے بھی پڑھی ہے اور اس میں آپ جیسے ابن الوقت عالم کے بہت سارے کردار ہیں اور ایسے ہی میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کی وجہ سے ایسے بہت سارے علماء حق کو حکومت وقت کا عتاب جھیلنا پڑا تھا ۔وہی عتاب اب بھی سعودی اور مصرمیں علماء حق کو جھیلنا پڑرہا ہے ۔اگر ثبوت دیکھنا ہو تو اردو کے اخبارات میں یہ خبریں آہی گئی ہیں کہ مصر میں پندرہ ہزار علماء کے خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔سعودی سے بھی ایک خبر کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ ان ہزاروں خبروں میں سے ایک ہے خبر خلیج نیوز کے حوالے سے لندن سے شائع ہونے والے عربی رسالہ الحیات نے شائع کی ہے جس میں اٹھارہ امام جمعہ کو برخواست کیا گیا ہے ۔یہ خبر 11 ستمبر کے خلیج نیوز ڈاٹ کام کے اس لنک پر http://gulfnews.com/news/gulf/saudi-arabia/saudi-arabia-suspends-18-friday-preachers-1.1229834 دیکھی جاسکتی ہے ۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے شام و مصر کے حالات پر خطبہ جمعہ میں تبصرہ کیا تھا۔آل سعود کے کم ظرف اولادوں نے صاف ستھرے مسلمانوں کے گروہ کو عوام کی نظر میں مشکوک بنادیا ہے ؟دراصل ان ابن الوقت عالموں اور سعودی کے موجودہ کردار نے حق کے راستے میں کانٹے بچھائے ہیں ۔اسے پرخار اور دشوار گزار بنادیا ہے ۔
فرقان مہربان علی جیسے لوگوں کو یا تو معلومات نہیں ہے یاپھر انہیں عوام کو گمراہ کرنے کا ہی کام سونپا گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مصری صدر مرسی صدر مملکت بننے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب ہی گئے تھے اس کے بعد ہی کہیں گئے ۔ایک بات اور کہ آپ جس کی وجہ سے محمد مرسی کو الزام دے رہے ہیں ہمیں یہ بتائیں کہ کیا ایران کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔دوسری بات یہ کہ کسی اہم موقع پر ایرانی صدر احمدی نژاد بھی سعودی عرب گئے تھے اور سعودی بادشاہ عبد اللہ نے ان کو اپنے بازو میں بٹھایا تھا ہم اسے ڈاکٹر صاحب کے نظریہ سے کیا سمجھیں ؟۔ڈاکٹر فرقان اور عبدالمعید صاحب کو شام میں شامی فوج اور بشار الاسد کا ظلم وستم تو نظر آتا ہے لیکن مصری فوجوں کا ظلم ستم اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگ جن میں ان کے آقا بھی ہیں نظر نہیں آتے ان کا گناہ ان کو گناہ ہی نظر نہیں آتا جس پر دنیا کے انصاف پسند لوگ حیران و پریشان ہیں اوردنیا میں دوہرے معیار کا معائنہ کررہے ہیں ۔افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ اس دوہرے معیار کے لوگوں میں ڈاکٹر فرقان اور عبد المعید جیسے اہل ایمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔آخر میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ مسلمانوں کی وفاداری صرف اللہ اور اس کے رسول سے ہے اور اس کے دل میں عقیدت و محبت کا مرکز مکہ اور مدینہ ہے ریاض تل ابیب اور واشنگٹن اس کی امیدوں کااور عقیدتمندیوں کا مرکز نہیں ہے اوروہ اس امام کا مطیع ہوگا جو مصالح امت کے خلاف یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرے
۔ نہال صغیر۔ ممبئی ۔09987309013

0 comments: