تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے

3:24 PM nehal sagheer 0 Comments



تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے
مسلم دنیا کے بیشتر دانشور اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 9/11 کی تخریب اور اس کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تخریب دونوں ہی پہلے ہی سے طے شدہ منصوبہ بند سازش جسے خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دنیا کی تشکیل نو کیلئے انجام دیا تھا ۔جبکہ امریکہ اور یوروپ میں اکثریت کا خیال اس کے برعکس ہے۔ان کا ماننا ہے کہ امریکی حکمرانوں کو مجبوراًایک طویل جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرنا پڑا تاکہ مستقبل میں امریکہ پر کوئی اس طرح کا حملہ کرنے کی جرات نہ کرسکے ۔مگر خود امریکہ کو 9/11 کی دہشت گردی سے کیوں گذرنا پڑا اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکہ نے غیر ضروری طور پر ویتنام ،صومالیہ ،لیبیا اور بوسنیا وغیرہ میں مداخلت کرکے دنیا کے سامنے اپنے سپر پاور ہونے کا دعویٰ پیش کیا ۔خود امریکی سیاست دانوں اور دانشوروں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور قومی بالادستی کے جنون میں جرمنی کی نازی تنظیم کی تقلید کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کی اس مداخلت کو جائزقرار دیا ۔مگر 9/11 کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کی تباہی ، اموات اور امریکہ کی معاشی بدحالی کے بعد یہ نظریہ اکثر بدلا ہوا نظر آیا اور ہر طرف سے یہ آوازاٹھنے لگی کہ اب امریکہ کو کسی ملک میں مداخلت کی یہ غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے ۔امریکی صدر اوبامہ نے امریکی عوام کے اس رجحان کو بھانپتے ہوئے اپنے صدارتی الیکشن کے دوران افغانستان اور عراق سے امریکی فوجوں کو واپس بلانے کا وعدہ یہ کیا اور اسی وعدے کی بنیاد پر کامیابی بھی حاصل کی اور پھر اقتدار سنبھالتے ہی عراق سے اپنی تقریباڈھائی لاکھ فوجوں کی واپسی کا عہد پورا بھی کیا اور 2014 میں افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کیلئے طالبان سے گفتگو کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ مصر کے فوجی آمر حسنی مبارک اور تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین جو پوری طرح مغرب نواز امریکہ اور اسرائیل کے پٹھو حکمراں تصور کئے جاتے رہے ہیں اور لوگوں کی سوچ بن چکی تھی کہ امریکہ کبھی بھی ان ممالک میں اپنے مفاد کی خاطر عرب آمریت کے برخلاف جمہوریت کو پنپنے نہیں دیگا ۔اوبامہ کی صدارت میں امریکی حکومت نے نہ صرف اس جھوٹ کو غلط ثابت کیا بلکہ پر امن طریقے سے ان ممالک میں عوامی تحریک کی کامیابی کا استقبال کیا ۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ امریکہ ہی کے پروردہ ہیں اور امریکہ مسلم ممالک میں اپنی مداخلت کیلئے دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو کبھی ختم نہیں ہونے دیگا ۔اوبامہ نے اس منطق اور فلسفے کو بھی پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں دفن کردیا ۔یہ الگ بات ہے کہ ڈھائی سال بعد جب ایک بار پھر مصر میں فوج نے جمہوری حکومت کو بت دخل کردیا توکچھ لوگ فوج کی اس بغاوت میں بھی وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ سب امریکہ کی حمایت کے بغیر ہوہی نہیں سکتا ۔جبکہ دانشوروں کو یہ نہیں پتہ کہ اس دنیا میں سب کچھ امریکہ ہی کی مرضی سے نہیں ہوتا ۔کچھ تو اللہ کی بھی مرضی سے ہوتا ہے تاکہ وہ ظالموں کا ہی نہیں ہم سب کے ایمان کو آزمائے کہ ہم کدھر جارہے ہیں ۔بلکہ ہمیں یوں کہنا چاہئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی مرضی سے ہوتا ہے فرق اتنا ہے کہ اکثر وہ ایک ظالم کو دوسرے سے دفع کرکے اس دنیا کو فساد میں غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔پہلی دوسری جنگ اور افغانستان میں سرد جنگ میں بھی یہی ہوا ۔شام میں بشارلاسدکے قتل عام کو اگر سعودی عرب ،ایران اور نام نہاد حز ب اللہ کی فوجیں نہیں روک سکتیں تو کیا ہوا اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ یہی کام دوسری قوموں سے بھی لے لیتا ہے ۔ اس وقت اوبامہ کی صدارت میں امریکی ایمپائر ایک امتحان کے دور سے گز ررہا ہے ۔یعنی جہاں وہ اپنے عدم تشدد کے نظرئیے اور نوبل انعام کا احترام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،انہیں دنیا کی نظر میں ایک حکمراں کی حیثیت سے امریکی بالادستی کے بھرم کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ایک سپر پاور ملک کا صدر ہونا بھی اتنا آسان نہیں ہے جیسا کہ آسانی کے ساتھ ہم بحث کر لیتے ہیں۔یعنی وہی لوگ جو مصر میں فوجی بغاوت کے بعد یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکہ مصر میں مداخلت کرکے جمہوریت کو بحال کروائے ،وہی لوگ اس سے پہلے اوبامہ پر الزام بھی عائد کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے حقیقت میں عرب انقلابات کی حمایت کرکے اسرائیل کے اطراف میں گھیرا تنگ کردیا ہے کیوں کہ اس طرح اسلام پسند غالب آجائیں گے ۔اس طرح ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ جمہوریت بھی ہو مگر لبرلزم کے لباس میں ۔مگر وہ یہ اقرار کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ مصر اور امریکہ کی تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ میں فرق ہے ۔جبکہ سچائی یہ بھی ہے کہ مصر میں فوجی بغاوت سے پہلے اسد رجیم کی فوجیں ایک لاکھ سے زیادہ معصوم عوام کا قتل کر چکی ہیں ۔اس کا مطلب خود ایک مسلم ملک مصر میں فوج کی حمایت کرے اور دوسرے ملک شام اور امریکہ کی اور امریکہ ڈنڈہ لیکر سعودی عرب ایران شام اور مصر میں پہریداری کرتا پھرے ۔امریکہ کی اپنی مجبوری بھی یہ ہے کہ اب وہ نہ تو دنیا کا سپاہی رہا اور نہ ہی سویت روس کی طرح یونائٹیڈ اسٹیٹ یعنی متحدہ ریاست زیادہ دنوں تک متحدہ رہ پائے گی کچھ کہا نہیں جاسکتا اور جن غلطیوں کی وجہ سے روس کو ان حالات سے گذرنا پڑا کوئی بھی امریکی صدر نہیں چاہے گا کہ وہی غلطی اسے بھی کرنا پڑے۔ مگر شام میں امریکہ کی مداخلت اگر ہوتی بھی ہے تو یہ اس کی ایک مجبوری ہوگی ۔مگر چونکہ امریکہ کو اور امریکی صدر کو اس وقت ایک کمزور ریاست اور کمزور صدر کے طور پر مشتہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس نظریے کو غلط ثابت کرنے کیلئے امریکی صدر شام میں مداخلت کرنے کیلئے مجبور ہو سکتے ہیں۔جیسا کہ ان کے اس عزم کا اظہار مارٹن لوتھر کنگ کے اس اقتباس سے ہوتا ہے کہ "The arc of moral universe is long but best towards justice" کائنات کا حقیقی دائرہ وسیع ضرور ہے مگر یہ انصاف کی طرف ہی جھکتا ہے ۔اوبامہ نے حال ہی میں مارٹن لوتھر کی پچاسویں برسی کے دوران اس قول میں تھوڑا سا تحریف کرکے یوں کہا کہ "The arc may bend towards justice but it does not bend on its own " بے شک دائرہ انصاف کی طرف جھکتا ہے مگر یہ اپنے آپ نہیں جھکتا ۔دیکھا جائے تو اس بات میں ایک بہت بڑی سچائی اور پیغام ہے کہ اس کائنات کو چلانے والی کوئی طاقت ہے اور وہی اسے انصاف کی طرف جھکاتا ،نہ یہ کہ کائنات خود بخود اپنے آپ انصاف پر قائم ہے۔
اس وقت مصر اور شام میں جو حالات ہیں وہ اپنے آپ نہیں ہیں بلکہ بنائے گئے ہیں اور خود امریکہ کی مخالف طاقتیں امریکی جرات اور عزم کا امتحان لینا چاہتی ہیں کہ کیا امریکہ میں ابھی بھی سپر پاور ہونے کا وہی جذبہ اور حوصلہ باقی ہے یا نہیں ۔یہ خیالات امریکی دانشوروں اور کچھ سیاست دانوں کی طرف سے بہت ہی شدت کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں کہ امریکہ نے اگر اب خاموشی اختیار کرلی تو وہ ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا جائے گا ۔یوں کہا جائے کہ دنیا پھر دو قطبی طاقتوں میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔دوسرے اتحادی اس وقت امریکہ کے ساتھ وہی کھیل کھیل رہے ہیں جو کھیل امریکہ اور اس کی خفیہ تنظیم سرد جنگ کے دوران کھیل چکے ہیں ۔یعنی دنیا کا سیاسی دائرہ اپنے آپ نہیں جھک رہا ہے جھکایا جارہا ہے ۔
21 ؍اگست کو شام میں کیمیاوی حملوں سے تقریباًچودہ سو لوگوں کی شہادت کے بعد امریکہ نے جو سخت رویہ اختیار کیا ہے روس،چین اور ایران اس کی اس لئے مخالفت کررہے ہیں کہ یہ حملہ باغیوں کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے تاکہ بشارالاسد کے خلاف عالمی طاقتوں کی مداخلت کا جواز پیدا کیا جاسکے ۔جبکہ ایک مہذب سماج کی نمائندگی اور اخلاق و اقدار کی بات کرنے والے خود بھی یہ نہ کہہ کر اپنے آپ میں مجرم اور دہشت گردی کے حمایتی ہیں کہ بشار الاسد کے ظلم اور گناہ کی حد تو اسی وقت ختم ہو چکی تھی جب اس نے پورے شام کو کربلا کا میدان بنا ڈالا اور صرف دوسال میں اس وقت کے یزید نے لاشوں کے پہاڑ کھڑا کر دئیے ،اتنی تباہی کرنے کیلئے اسرائیل کو 65 سال کا سفر کرنا پڑا۔اس لئے شام پر حملہ کرنے کا یہ جرم صرف امریکہ ،فرانس اور برطانیہ ہی کیوں کریں۔اقوام متحدہ کے ماتحت سلامتی کونسل کو خود بہت پہلے ہی مداخلت کرکے ایک ایسے ظالم اور ڈکٹیٹر حکمراں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ قائم کرنا چاہئے تھا جیسا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کا قاتل سرب حکمراں میلو سیوچ کے خلاف کیا گیا۔اور وہ مصر میں فوجی حکومت کے خلاف مداخلت کرکے مرسی کی صدارت بحال کریں ۔بیشک شام کی شورش سے حوصلہ پاکر ہی مصری فوج نے مرسی حکومت کو معزول کرنے کی جرات کی اور شام میں ایران اور حز ب اللہ نے ظالم بشارالاسد کی مدد کرکے نہ صرف مسئلے کو پیچیدہ بنادیا بلکہ اس انقلاب کے رخ کو موڑنے کی سازش کی جو اکیسویں صدی میں اسلامی انقلاب میں تبدیل ہونا چاہتا تھا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قطر کو چھوڑ کر عام عرب ممالک جنہیں اپنا ذاتی مفاد اور اقتدار عزیز ہے نے بھی مصر کی فوجی بغاوت میں اپنا تعاون پیش کیا ۔اس بغاوت میں خفیہ طریقے سے روس ،چین ،ایران ،حز ب اللہ اور اسرائیل سب نے مل کر ایک کھیل کھیلا ہے تاکہ خطے میں اسلام نہیں ان کی مرضی کی بالادستی قائم رہے ۔مصر میں امریکہ کی خاموشی کے بعد شام میں کیمیائی حملے کی سازش میں شامل حکمران اتحاد بھی شامل ہو سکتا ہے تاکہ امریکہ کو پوری طرح آزما لیا جائے کہ اب وہ پہلے کی طرح مرد نہیں رہا اور وہ جو اب بھی کسی خوف میں مبتلا ہیں امریکہ کی اس خاموشی کے بعد اپنے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کیلئے تیزی کے ساتھ عمل کرنا شروع کردیں تاکہ امریکہ سپر پاور نہ رہے ۔اب دیکھنا ہے کہ حالات کس رخ کی طرف جاتے ہیں مگر یہ سچ ہے کہ اب امریکہ پہلے جیسا طاقت ور نہیں رہا اور اگر مسلم دنیا نے بھی اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے میں غلطی کی تو وہ اپنی لاعلمی اور منافقت کے ہتھیار سے اور کچھ دن تک اسی طرح ذبح ہوتی رہے گی ۔
umarfarrahi@gmail.com 09699353811   عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments: