ترکی میں احتجاج ،مصری فوج کی بغاوت اور مملکت اسرائیل کا نظریہ
یوروپ
میں جب تک بادشاہت یا حکومت اور اقتدار میں کلیسا اور عیسائی پادریوں کا دبدبہ
قائم رہا ہے یہودی قوم ہجرت پر مجبور رہی ہے اور بعض ملکوں میں یہودیوں کے داخلے
پر تو پابندی عائد رہی ہے یا عیسائیوں نے ان کی بستیوں اور محلوں کو اپنی بستی اور
شہر سے الگ رکھا ہے اور ان کے چاروں طرف بلند دیواریں تعمیر کردی گئیں مگر جنہوں
نے عیسائیت قبول کرلی انہیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاتا تھا۔بعد کے حالات
میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد نے عیسائیت کو قبول کر لیا مگر انہوں نے اپنے دلوں
میں یہودیت کو ہمیشہ محفوظ رکھا اس طرح اپنی یہودیت کو چھپا کر انہوں نے تجارت کے
پیشے کو اختیار کیا ،کثیر دولت جمع کی اور انسانوں کو اپنا محکوم بنانے کیلئے اس کا
استعمال کیا۔
فرانسیسی انقلاب میں انہی یہودی سرمایہ داروں نے نمایاں رول ادا کیا ۔انہوں نے اخوت مساوات اور عدل جیسے پر فریب نعروں کا کھل کر پرپگنڈہ کیا اور فرانسیسی عوام کو بغاوت پر مجبور کرکے جمہوری حکومت قائم کی ۔چونکہ جمہوریت میں اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مختلف ایجنڈوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ہر کسی کو اپنی شہرت اور پروپگنڈے کیلئے سرمایہ داروں کی مدد کا حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے اس لئے یہودی سرمایہ داروں کیلئے وہ راستہ آسان ہو گیا جسکے ذریعے وہ اپنی مرضی کی حکومت اور حکمراں کا انتخاب کرسکیں ۔فرانس کے اس انقلاب کے بعد یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور یہودیوں کیلئے فرانس میں سیاست ،تجارت اور معیشت کے تمام دروازے کھل گئے ،یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو فرانس کے وزارت عظمیٰ کے عہدے تک بھی پہنچ گئے ۔فرانسیسی انقلاب آزادی کے اثرات بقیہ یوروپی ممالک تک پہنچنا شروع ہو گئے اور 1874 میں یہودی بلجیم ،ڈنمارک ،ناروے،انگلینڈ ،ہالینڈاور جرمنی جیسے ممالک میں مکمل طور پر سیاسی و مذہبی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سر سید احمد خان واحد معروف شخصیت رہے ہیں جو یہودیوں کی فری مشنری تحریک کا شکار ہوئے اور انہیں یہودیوں کی جمہوریت بنام آزادی انصاف اور مساوات میں دور خلافت کا گمشدہ خزانہ نظر آیا جبکہ یوروپ میں یہودی سرمایہ داروں کی اس سازش اور منصوبے کو کسی نے سمجھا تو وہ ہٹلر کی شخصیت تھی ۔ہٹلر کے خلاف یہودی سرمایہ دار وں کے پروپگنڈے کی ایک وجہ بھی یہی رہی کہ اس نے اپنی کتاب ’’میری جد وجہد ‘‘ جس پر کافی دنوں تک پابندی رہی ہے اسلامی طرز سیاست کو بہتر نظام قرار دیا اور ڈیموکریسی کو کمیونزمکا متبادل قرار دیتے ہوئے اسے رد کر دیا ۔یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ ہٹلر کے وہی دشمن جنہوں نے ہٹلر اور اس کی نازی تحریک کو تاریخ میں اس لئے ظلم وجبر کی علامت قرار دے دیا ہے کیوں کہ اس نے لاکھوں یہودیوں کا قتل عام کروایا تھا وہی آج مسلمانوں کے بھی دشمن کیوں ہیں ؟جبکہ ایک ایسے وقت میں جبکہ عیسائی دنیا یہودیوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اسپین اور ترکی کے مسلم حکمرانوں نے انسانیت کی بنیاد پر یہودیوں کو پناہ دی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم دانشوروں کی ایک بہت بڑی جماعت قرآنی تعلیمات سے منسلک ہونے کی وجہ سے یہودیوں کی تاریخ سے واقف ہے۔حالانکہ یہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب تو نہیں ہیں مگر ذرائع ابلاغ کی طاقت پر اپنے اثر و رسوخ قائم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مسلسل اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے اور جہاں کہیں بھی اسلام پسندوں کو ملکی اور علاقائی سیاست میں کامیابی ملتی ہے انہیں اپنا مقصد فوت ہوتا ہوا نظر آنے لگتا ہے اور یہ لوگ اپنی زر خرید تنظیموں کے ذریعے ان حکومتوں کے خلاف سازش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
ترکی میں دولت عثمانیہ کے زوال کے بعد سعودی عرب ایران افغانستان پاکستان اور ترکی میں دوبارہ اسلامی بیداری کی لہر سے ان کی نیند تو حرام ہو ہی چکی تھی 2010 کے بعد عرب بہار سے مملکت اسرائیل کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے ۔مصر میں اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون کے خلاف ہو نے والے احتجاج ،مظاہرے اور فوجی جنرل کے ذریعہ عوامی طور پر منتخب صدر مرسی کی جبراً بے دخلی یہودی سرمایہ داروں کی اسی قدیم سازش کا حصہ ہے ۔پچھلے مہینے میں مسلسل پندرہ دنوں تک یہودی سرمایہ داروں کی زر خرید تنظیموں نے ترکی حکومت کے خلاف صرف اس وجہ سے فساد برپا کرنے کی کوشش کی کیوں کہ طیب اردگان کی حکومت کو ترکی عوام میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور وہ اپنی اسلامی روایت اور غیرت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں ۔تعجب ہے کہ جب امریکہ روس چین اور اسرائیل جیسے ممالک نہ صرف درختوں اور بستیوں کو اجاڑ دیتے بلکہ زندہ انسانوں کو یر غمال بناکر انہیں ٹینکوں اور میزائلوں سے اڑا دیتے تو ان ممالک میں کوئی احتجاج اور مظاہرہ نہیں ہوتا مگر ترکی میں پیڑوں کے کاٹنے اور افغانستان میں بامیان کے مجسموں کے منہدم کرنے کے بعد پوری دنیا میں سیکولرزم کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔
ترکی اور مصر میں تاریخ ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے جب دولت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبد الحمید ثانی کو اسی طرح کی بغاوت کے بعد معزول ہونا پڑا تھا اور یہ سازش بھی انہی لوگوں کے ذریعے بروئے کار لائی گئی تھی جو فرانسیسی انقلاب کے بانی تھے اور ترکی اور مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے بوکھلائے ہوئے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ سلطان عبد الحمید نے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دے دیا اور ان کی سازش ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی تو انہوں نے فری مشنری تحریک کے ذریعے آزادی ،انصاف ،مساوات اور جمہوریت کے پر فریب نعروں کے ساتھ عثمانی قوم کے خلاف ترقی اور اتحاد کے نام سے ترک نوجوانوں کا ایک سیاسی محاذ قائم کروایااور پورے ملک میں عثمانی قوم کے خلاف یہ کہہ کر بغاوت کی کہ یہ ملوکیت ہے اور اسلام میں ملوکیت حرام ہے ۔اس طرح استنبول میں جب تنظیم اتحاد و ترقی کی حکومت قائم ہوئی تو نہ ملوکیت ہی رہی اور نہ ہی خلافت ،مگر جمہوریت کے نام پر جس طرح قومیت کے رجحان کو تقویت حاصل ہوئی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا ۔اور پورے عرب میں قومیت کے نام سے مختلف تنظیمیں وجود میں آگئیں ۔یہودی سرمایہ داروں نے فرانس اور یوروپی ممالک کی طرح یہاں پر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کردیا ۔سب سے پہلے تو انہوں نے ترکی کے مشہور بڑے بڑے اخبارات کو خریدا اور اندرونی طور پر صنعت و تجارت ،اقتصادیات اور مالیات کے اداروں پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کردیا ۔اور فلسطین پر اپنے قبضے کا پہلا محاذ سر کرلیا ۔مگر تنظیم اتحاد و ترقی کے ناقص فیصلے کے بعد جب ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی عرب علاقوں پر برطانیہ اور فرانس نے قبضہ کرلیا تو یہودی سرمایہ داروں نے یوروپ کے حکمرانوں کی مدد سے فلسطین پر اپنی مکمل حکومت کی منصوبہ بندی شروع کردی اور 1947 تک اسرائیل ایک مملکت میں تبدیل ہو گیا ۔
آج 66 سال بعد اسرائیل ایک بار پھر اپنی مملکت کی بقا کیلئے فکرمند ہے اور عالم اسلام میں اسلامی بیداری اور موجودہ لبرل جمہوریت کی موت سے ان کے سرمایہ دارانہ عزائم کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے ۔اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہونے کی صورت میں شراب اور شباب کی شکل میں ان کی فحش اور ناجائز تجارت کو خطرہ لاحق ہو جبکہ یہی ان کی اصل طاقت اورسرمایہ ہے اور اپنے انہیں سرمایہ داروں کی مدد سے انہوں نے سوپر پاور ملکوں کے حکمرانوں کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا اور ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا رہتا ہے ۔شاید یوروپی حکمراں اور ان کی عوام یہودیوں کے خونخوار چہرے کو سمجھنے لگی ہے اسی لئے یہودی سرمایہ دار اور ان کے سیاست داں اپنے نئے دوستوں کی تلاش میں ہیں ۔جرمنی ،برطانیہ ،فرانس اور امریکی معیشت روز بروز زوال کی طرف گامزن ہے ۔چینی اور روسی معیشت اپنے عروج کے دور میں ہیں کیوں کہ یہودی سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ اپنی صنعتوں اور مالی اداروں کو روس اور چین میں منتقل کر چکے ہیں اور اپنے اقتصادیات کے ہتھیارسے انہوں نے روس اور چین پر دباؤ ڈالکر شام کے مسئلے کو بھی پیچیدہ بنادیا ہے تاکہ عرب بہار کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کیا جاسکے ۔اور کسی حد تک وہ عربوں کے درمیان شیعہ سنی کا تنازعہ کھڑا کرکے انہیں دوخانوں میں بانٹنے میں بھی کامیاب نظر آرہاہے ۔اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام میں مسلمانوں کی جدید نسل مصطفیٰ کمال پاشا ؤں کے سحر سے باہر آچکی ہے اور اب جبکہ مرسی کو معزول کیا جاچکا ہے لیکن صہیونی اور اشتراکی سازشیوں کیلئے بہت زیادہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے کیوں کہ جو خبریں چھن چھن کر مصر سے آرہی ہیں وہ اسلام پسندوں کی مقبولیت انکے عزائم اورقائدانہ صلاحیت کی دلیل ہیں اگر فوج نے اپنا وعدہ وفا کیا تو انتخاب کا نتیجہ ایک سال قبل کے نتیجہ سے انشاء اللہ زیادہ بہتر ہوگا ۔باطل کو بہر حال ہمیشہ سازش اور گریہ و زاری ہی کرنا ہے اور مالک کائنات نے ابلیس کو تو صرف ایمان والوں کے تقویٰ ،صبر ،عزم و استقلال اور ایمان کے امتحانات کیلئے ہی پیدا کیا ہے ۔اب جو چاہے اپنا ایمان بچا لے۔
umarfarrahi@gmail.com 09699353811عمر فراہی۔ موبائل۔
فرانسیسی انقلاب میں انہی یہودی سرمایہ داروں نے نمایاں رول ادا کیا ۔انہوں نے اخوت مساوات اور عدل جیسے پر فریب نعروں کا کھل کر پرپگنڈہ کیا اور فرانسیسی عوام کو بغاوت پر مجبور کرکے جمہوری حکومت قائم کی ۔چونکہ جمہوریت میں اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے مختلف ایجنڈوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ہر کسی کو اپنی شہرت اور پروپگنڈے کیلئے سرمایہ داروں کی مدد کا حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے اس لئے یہودی سرمایہ داروں کیلئے وہ راستہ آسان ہو گیا جسکے ذریعے وہ اپنی مرضی کی حکومت اور حکمراں کا انتخاب کرسکیں ۔فرانس کے اس انقلاب کے بعد یہودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور یہودیوں کیلئے فرانس میں سیاست ،تجارت اور معیشت کے تمام دروازے کھل گئے ،یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو فرانس کے وزارت عظمیٰ کے عہدے تک بھی پہنچ گئے ۔فرانسیسی انقلاب آزادی کے اثرات بقیہ یوروپی ممالک تک پہنچنا شروع ہو گئے اور 1874 میں یہودی بلجیم ،ڈنمارک ،ناروے،انگلینڈ ،ہالینڈاور جرمنی جیسے ممالک میں مکمل طور پر سیاسی و مذہبی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سر سید احمد خان واحد معروف شخصیت رہے ہیں جو یہودیوں کی فری مشنری تحریک کا شکار ہوئے اور انہیں یہودیوں کی جمہوریت بنام آزادی انصاف اور مساوات میں دور خلافت کا گمشدہ خزانہ نظر آیا جبکہ یوروپ میں یہودی سرمایہ داروں کی اس سازش اور منصوبے کو کسی نے سمجھا تو وہ ہٹلر کی شخصیت تھی ۔ہٹلر کے خلاف یہودی سرمایہ دار وں کے پروپگنڈے کی ایک وجہ بھی یہی رہی کہ اس نے اپنی کتاب ’’میری جد وجہد ‘‘ جس پر کافی دنوں تک پابندی رہی ہے اسلامی طرز سیاست کو بہتر نظام قرار دیا اور ڈیموکریسی کو کمیونزمکا متبادل قرار دیتے ہوئے اسے رد کر دیا ۔یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ ہٹلر کے وہی دشمن جنہوں نے ہٹلر اور اس کی نازی تحریک کو تاریخ میں اس لئے ظلم وجبر کی علامت قرار دے دیا ہے کیوں کہ اس نے لاکھوں یہودیوں کا قتل عام کروایا تھا وہی آج مسلمانوں کے بھی دشمن کیوں ہیں ؟جبکہ ایک ایسے وقت میں جبکہ عیسائی دنیا یہودیوں کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں تھی اسپین اور ترکی کے مسلم حکمرانوں نے انسانیت کی بنیاد پر یہودیوں کو پناہ دی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم دانشوروں کی ایک بہت بڑی جماعت قرآنی تعلیمات سے منسلک ہونے کی وجہ سے یہودیوں کی تاریخ سے واقف ہے۔حالانکہ یہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب تو نہیں ہیں مگر ذرائع ابلاغ کی طاقت پر اپنے اثر و رسوخ قائم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مسلسل اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے اور جہاں کہیں بھی اسلام پسندوں کو ملکی اور علاقائی سیاست میں کامیابی ملتی ہے انہیں اپنا مقصد فوت ہوتا ہوا نظر آنے لگتا ہے اور یہ لوگ اپنی زر خرید تنظیموں کے ذریعے ان حکومتوں کے خلاف سازش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
ترکی میں دولت عثمانیہ کے زوال کے بعد سعودی عرب ایران افغانستان پاکستان اور ترکی میں دوبارہ اسلامی بیداری کی لہر سے ان کی نیند تو حرام ہو ہی چکی تھی 2010 کے بعد عرب بہار سے مملکت اسرائیل کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے ۔مصر میں اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون کے خلاف ہو نے والے احتجاج ،مظاہرے اور فوجی جنرل کے ذریعہ عوامی طور پر منتخب صدر مرسی کی جبراً بے دخلی یہودی سرمایہ داروں کی اسی قدیم سازش کا حصہ ہے ۔پچھلے مہینے میں مسلسل پندرہ دنوں تک یہودی سرمایہ داروں کی زر خرید تنظیموں نے ترکی حکومت کے خلاف صرف اس وجہ سے فساد برپا کرنے کی کوشش کی کیوں کہ طیب اردگان کی حکومت کو ترکی عوام میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور وہ اپنی اسلامی روایت اور غیرت کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں ۔تعجب ہے کہ جب امریکہ روس چین اور اسرائیل جیسے ممالک نہ صرف درختوں اور بستیوں کو اجاڑ دیتے بلکہ زندہ انسانوں کو یر غمال بناکر انہیں ٹینکوں اور میزائلوں سے اڑا دیتے تو ان ممالک میں کوئی احتجاج اور مظاہرہ نہیں ہوتا مگر ترکی میں پیڑوں کے کاٹنے اور افغانستان میں بامیان کے مجسموں کے منہدم کرنے کے بعد پوری دنیا میں سیکولرزم کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔
ترکی اور مصر میں تاریخ ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے جب دولت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبد الحمید ثانی کو اسی طرح کی بغاوت کے بعد معزول ہونا پڑا تھا اور یہ سازش بھی انہی لوگوں کے ذریعے بروئے کار لائی گئی تھی جو فرانسیسی انقلاب کے بانی تھے اور ترکی اور مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے بوکھلائے ہوئے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ سلطان عبد الحمید نے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دے دیا اور ان کی سازش ناکام ہوتی ہوئی نظر آئی تو انہوں نے فری مشنری تحریک کے ذریعے آزادی ،انصاف ،مساوات اور جمہوریت کے پر فریب نعروں کے ساتھ عثمانی قوم کے خلاف ترقی اور اتحاد کے نام سے ترک نوجوانوں کا ایک سیاسی محاذ قائم کروایااور پورے ملک میں عثمانی قوم کے خلاف یہ کہہ کر بغاوت کی کہ یہ ملوکیت ہے اور اسلام میں ملوکیت حرام ہے ۔اس طرح استنبول میں جب تنظیم اتحاد و ترقی کی حکومت قائم ہوئی تو نہ ملوکیت ہی رہی اور نہ ہی خلافت ،مگر جمہوریت کے نام پر جس طرح قومیت کے رجحان کو تقویت حاصل ہوئی ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا ۔اور پورے عرب میں قومیت کے نام سے مختلف تنظیمیں وجود میں آگئیں ۔یہودی سرمایہ داروں نے فرانس اور یوروپی ممالک کی طرح یہاں پر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کردیا ۔سب سے پہلے تو انہوں نے ترکی کے مشہور بڑے بڑے اخبارات کو خریدا اور اندرونی طور پر صنعت و تجارت ،اقتصادیات اور مالیات کے اداروں پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کردیا ۔اور فلسطین پر اپنے قبضے کا پہلا محاذ سر کرلیا ۔مگر تنظیم اتحاد و ترقی کے ناقص فیصلے کے بعد جب ترکی کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی عرب علاقوں پر برطانیہ اور فرانس نے قبضہ کرلیا تو یہودی سرمایہ داروں نے یوروپ کے حکمرانوں کی مدد سے فلسطین پر اپنی مکمل حکومت کی منصوبہ بندی شروع کردی اور 1947 تک اسرائیل ایک مملکت میں تبدیل ہو گیا ۔
آج 66 سال بعد اسرائیل ایک بار پھر اپنی مملکت کی بقا کیلئے فکرمند ہے اور عالم اسلام میں اسلامی بیداری اور موجودہ لبرل جمہوریت کی موت سے ان کے سرمایہ دارانہ عزائم کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے ۔اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلم ممالک میں شرعی قوانین نافذ ہونے کی صورت میں شراب اور شباب کی شکل میں ان کی فحش اور ناجائز تجارت کو خطرہ لاحق ہو جبکہ یہی ان کی اصل طاقت اورسرمایہ ہے اور اپنے انہیں سرمایہ داروں کی مدد سے انہوں نے سوپر پاور ملکوں کے حکمرانوں کو اپنی مٹھی میں قید کر رکھا اور ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرواتا رہتا ہے ۔شاید یوروپی حکمراں اور ان کی عوام یہودیوں کے خونخوار چہرے کو سمجھنے لگی ہے اسی لئے یہودی سرمایہ دار اور ان کے سیاست داں اپنے نئے دوستوں کی تلاش میں ہیں ۔جرمنی ،برطانیہ ،فرانس اور امریکی معیشت روز بروز زوال کی طرف گامزن ہے ۔چینی اور روسی معیشت اپنے عروج کے دور میں ہیں کیوں کہ یہودی سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ اپنی صنعتوں اور مالی اداروں کو روس اور چین میں منتقل کر چکے ہیں اور اپنے اقتصادیات کے ہتھیارسے انہوں نے روس اور چین پر دباؤ ڈالکر شام کے مسئلے کو بھی پیچیدہ بنادیا ہے تاکہ عرب بہار کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کیا جاسکے ۔اور کسی حد تک وہ عربوں کے درمیان شیعہ سنی کا تنازعہ کھڑا کرکے انہیں دوخانوں میں بانٹنے میں بھی کامیاب نظر آرہاہے ۔اس کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام میں مسلمانوں کی جدید نسل مصطفیٰ کمال پاشا ؤں کے سحر سے باہر آچکی ہے اور اب جبکہ مرسی کو معزول کیا جاچکا ہے لیکن صہیونی اور اشتراکی سازشیوں کیلئے بہت زیادہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے کیوں کہ جو خبریں چھن چھن کر مصر سے آرہی ہیں وہ اسلام پسندوں کی مقبولیت انکے عزائم اورقائدانہ صلاحیت کی دلیل ہیں اگر فوج نے اپنا وعدہ وفا کیا تو انتخاب کا نتیجہ ایک سال قبل کے نتیجہ سے انشاء اللہ زیادہ بہتر ہوگا ۔باطل کو بہر حال ہمیشہ سازش اور گریہ و زاری ہی کرنا ہے اور مالک کائنات نے ابلیس کو تو صرف ایمان والوں کے تقویٰ ،صبر ،عزم و استقلال اور ایمان کے امتحانات کیلئے ہی پیدا کیا ہے ۔اب جو چاہے اپنا ایمان بچا لے۔
umarfarrahi@gmail.com 09699353811عمر فراہی۔ موبائل۔
0 comments: