اسرائیل کی الجھن
ایک
عقل مند دشمن جب دوسرے دشمن پر غالب آ تا ہے تو سب سے پہلے اس کا ہتھیا ر چھین
لیتا ہے تا کہ دشمن کے شدید وار سے محفوظ رہ سکے یا پھر ایسے داؤ اختیار کرتا ہے
جہاں تک پہنچ کر دشمن کے لیے حملہ کرنا ممکن نہ ہوسکے۔ غالب اور طاقتور قوموں کا
شعار یہ بھی رہا ہے کہ اگراس کے دشمن کو حکومت اور اقتدار حاصل ہے تو اس طاقت سے
بھی محروم کردیا جائے تاکہ آزادانہ ماحول میں وہ اس کے خلاف کسی بھی طرح کی فوجی
منصوبہ بندی نہ کرسکے۔ بیسویں صدی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے
اتحادیوں نے جرمنی اور جاپان پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد ان ممالک کی نام نہاد حکومت
کو تو قائم رہنے دیا مگر اسلحہ سازی کی صنعت اور فوجی منصوبہ بندی کے عمل پر
پابندی عائد کردی۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک دشمن قوم کے لیے
دوسری دشمن قوم کی سوچ اور فکر بھی نقصاندہ ثابت ہوئی ہے۔ کمیونسٹ روس نے جب وسطی ایشیا
کے مسلم ممالک پر قبضہ کیا تو نہ صرف ان کے نام نہاد اقتدار کو بھی قائم نہیں رہنے
دیا بلکہ مسلمانوں کی مسجدوں خانقاہوں اور لائبریریوں تک کو نظر آتش کرنا شروع
کردیا تاکہ سویت روس میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ چیچن
مجاہدین جنہوں نے اپنے ہتھیار نہیں سونپے اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا وہ آج
بھی روسی حکومت کے ظلم و استبداد کا شکار ہیں۔ کمیونسٹ حکومت نے مکمل طور پر اس
علاقے سے اسلامی نظریے کا صفایا کرنے کے لیے افغانستان میں بھی اپنی فوج کو اُتار
دیا تاکہ وہ دھیرے دھیرے مشرقی وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی اپنے استعماری عزائم
کا مظاہرہ کرسکے۔ مگر طاقت کے اس جنون میں وہ یہ بھول گیا کہ امریکہ خود بھی نہ
صرف ایک عظیم فوجی قوت ہے نظریاتی طور پر ایک جدید لبرل جمہوری نظام کا علمبردار
بھی ہے وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ عربوں کے تیل کے ذخیرے پر روس کا قبضہ ہو۔ امریکہ
نے سویت روس کی اس غلطی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان مجاہدین کی مدد سے روس کی فوجی
طاقت اور نظریاتی بالادستی کو بھی خاک میں ملا دیا۔ مگر بعد میں امریکی استعمار کے
لیے کمیونزم کے زوال کے بعد اسلامی نظریہ بذات خود سردرد بن گیا۔ 1979ء میں آیت
اللہ خمینی کے ذریعے ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف امریکہ کے استعماری عزائم
پر کاری ضرب لگائی،اس انقلاب سے تحریکات اسلامی کی جدوجہد کو حوصلہ ملا اور وہ لوگ
جنہوں نے لبرل جمہوری نظام کے خالق امریکہ کو اپنا خدا قبول کرنے کی تیاری کرلیا
تھا شک و شبہات میں مبتلا ہوگئے یعنی جس وسیع مقصد کے لیے اس نے افغانستان میں
سرمایہ کاری کی تھی اس مقصد کو بعد میں طالبان نے ہائی جیک کرلیا۔ تاریخ کا یہی وہ
موڑ ہے جہاں سے امریکہ اور ایران کے درمیان خلش میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر اب جب کہ
امریکہ اور ایران کی خلش نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا ہے بہت سے لوگوں کے لیے یہ
سمجھنا بھی آسان نہیں رہا کہ ایران کا اصل دشمن کون ہے؟ امریکہ یا اسرائیل؟ اور
دشمنی کی اصل وجہ ایران کا ایٹمی پلانٹ ہے یا اسلامی نظریہ؟ اور اسرائیل ایران کے
نیوکلیئر پلانٹ کو تباہ کرنے کے لیے بضد ہے توکیوں؟
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہر آدمی کے اپنے مزاج، ضائقے اور ترجیحات میں تبدیلی واقع ہوتے رہتی ہے حالات بہت سی جارح اور فاتح قوموں کی ترجیحات کا بھی رُخ بدل دیتے ہیں۔ چونکہ امریکہ نے اپنی بالادستی کے جنون میں ویتنام عراق صومالیہ لیبیا اور افغانستان میں مداخلت کرکے اتنا بری طرح زخمی کرلیا کہ اب وہ اپنے دشمن ملک کے ہتھیاروں پر قبضہ کرنا تو دور کی بات نظریاتی جنگ کو بھی طول نہیں دینا چاہتا۔ جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کی جنگ نے ماضی میں یونان ، مصر اور روما جیسی عظیم سلطنتوں کا بھی نام و نشان مٹا دیا۔ جب کہ امریکہ اور روس دو سے تین دہائی تک بھی اس جنگ کی شدت کو برداشت نہیں کرسکے۔ خود صیہونی مقتدرہ کے لیے بھی جو کہ ایک صدی سے امریکہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسلم ممالک کے درمیان بدامنی اور فساد کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے تحریکات اسلامی کی جدوجہد کو روکنا آسان نہیں رہا۔ جو کہ اسرائیل کی اپنی سرحدوں کے اطراف میں گھیرا تنگ کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ طاقتیں اسرائیل کے خلاف ایک زبردست عسکری قوت کے ساتھ جنگ کی بھی منصوبہ بندی کریں ۔ اسی لیے اسرائیل کو اب یہ تشویش لاحق ہے کہ اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے جب کہ ابھی تک اسرائیل کے وجود کے بارے میں سوچنا امریکہ کی اپنی حکمت عملی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور خود صیہونی مقتدرہ کی اپنی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ وہ امریکہ کو کسی نہ کسی طرح کسی مسلم ممالک پر حملے کا جواز فراہم کرتا رہے یا امریکہ خود مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے جنگ میں الجھانے کی سازش کرتا رہے اور عالم اسلام کو فلسطین کی آزادی کے بارے میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی فرصت ہی نہ ملے مگر 11؍ستمبر کے بعد امریکی حکمراں خود اس الجھن سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں شاید اسی لیے بارک اوبامہ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کیا ہے اور پچھلے تیس سالوں میں پہلا موقع ہے جب امریکہ کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کا اشارہ بھی نظر آیا ہے۔ یعنی اوبامہ نے اس کے باوجود کہ زین العابدین حسنی مبارک امریکہ اور اسرائیل کے اپنے مفاد میں ہی کام کررہے تھے اسرائیل کی مرضی کے خلاف عوامی بغاوت کو حوصلہ دیا۔ شاید اسرائیل کو اوبامہ کا یہی فیصلہ کھٹک رہا ہے اور اسے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر اوبامہ دوسری بار بھی امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کہیں پورے خطۂ عرب میں شدت پسند اسلامی تحریکوں کا غلبہ نہ ہوجائے اور پھر اسرائیل کے لیے ایک صیہونی ریاست کے طور پر قائم رہنا بہت مشکل ہوجائے گا یہ صرف اسرائیل کا اپنا خدشہ نہیں ہے بلکہ متحد عرب امارت کی فوجی سربراہ جو کہ خود ایران مخالف نظریے کی حامی ہیں امریکہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ عرب میں شدت بعد اسلامی تحریکوں کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کررہا ہے جو خطے کی سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دے گا۔ شاید اسی لیے پچھلے ڈیڑھ سالوں سے اسرائیل نے ایران کے ایٹمی پلانٹ کو بہانہ بنا کر بار بار ایران پر جو حملے کی دھمکی دی ہے وہ صرف یہ جاننے کے لیے ہے کہ اس تعلق سے امریکہ یا اوبامہ انتظامیہ کا اپنا ردعمل کیا ہے یعنی اگر امریکہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرتا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اسرائیل کا وفادار نہیں رہا یا موجودہ صدر اوبامہ اسرائیل کے لیے اعتماد کے قابل نہیں رہے اس طرح اسرائیل کوعنقریب امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اوبامہ کے خلاف پروپیگنڈے کا ہتھیا فراہم ہوجائے گا جیسا کہ اسرائیل چاہتا ہے اور جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہوکے امریکی دورے کے بعد امریکہ میں قائم یہودیوں کی پراثر ایمرجنسی کمیٹی نے بیان بھی دیا ہے کہ اوبامہ یہودیوں کے لیے اعتماد کے قابل نہیں رہے اور اس اوبامہ کو کسی بھی طرح آئندہ صدارتی الیکشن میں یہودیوں کی حمایت نہیں ملنا چاہیے۔ اس کے باوجود بارک اوبامہ نے کبھی اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا مگر وہ خاموشی کے ساتھ وہی کررہے ہیں جو انہیں امریکی صدر کی حیثیت سے کرنا چاہیے شاید وہ یہودیوں کی مکاری اور عیاری کی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں اور وہ یہ بھی کیسے بھول سکتے ہیں کہ امریکہ کے ایک سابق صدر جان ایف کینڈی کو اسرائیل کے خلاف بیان دینے کی کیا سزا ملی اور کس طرح 11؍ستمبر کے بعد امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں کودنا پڑا جس کی سزا آج پوری امریکی قوم کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ بارک حُسین اوبامہ آئندہ صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر حُسین نے اسرائیل کی الجھن میں اضافہ تو کر ہی دیا ہے۔
عمر فراہی۔موبائل،09699353811
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہر آدمی کے اپنے مزاج، ضائقے اور ترجیحات میں تبدیلی واقع ہوتے رہتی ہے حالات بہت سی جارح اور فاتح قوموں کی ترجیحات کا بھی رُخ بدل دیتے ہیں۔ چونکہ امریکہ نے اپنی بالادستی کے جنون میں ویتنام عراق صومالیہ لیبیا اور افغانستان میں مداخلت کرکے اتنا بری طرح زخمی کرلیا کہ اب وہ اپنے دشمن ملک کے ہتھیاروں پر قبضہ کرنا تو دور کی بات نظریاتی جنگ کو بھی طول نہیں دینا چاہتا۔ جب کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کی جنگ نے ماضی میں یونان ، مصر اور روما جیسی عظیم سلطنتوں کا بھی نام و نشان مٹا دیا۔ جب کہ امریکہ اور روس دو سے تین دہائی تک بھی اس جنگ کی شدت کو برداشت نہیں کرسکے۔ خود صیہونی مقتدرہ کے لیے بھی جو کہ ایک صدی سے امریکہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر مسلم ممالک کے درمیان بدامنی اور فساد کی منصوبہ بندی کرتا رہا ہے تحریکات اسلامی کی جدوجہد کو روکنا آسان نہیں رہا۔ جو کہ اسرائیل کی اپنی سرحدوں کے اطراف میں گھیرا تنگ کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ طاقتیں اسرائیل کے خلاف ایک زبردست عسکری قوت کے ساتھ جنگ کی بھی منصوبہ بندی کریں ۔ اسی لیے اسرائیل کو اب یہ تشویش لاحق ہے کہ اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے جب کہ ابھی تک اسرائیل کے وجود کے بارے میں سوچنا امریکہ کی اپنی حکمت عملی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور خود صیہونی مقتدرہ کی اپنی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ وہ امریکہ کو کسی نہ کسی طرح کسی مسلم ممالک پر حملے کا جواز فراہم کرتا رہے یا امریکہ خود مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے جنگ میں الجھانے کی سازش کرتا رہے اور عالم اسلام کو فلسطین کی آزادی کے بارے میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی فرصت ہی نہ ملے مگر 11؍ستمبر کے بعد امریکی حکمراں خود اس الجھن سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں شاید اسی لیے بارک اوبامہ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کیا ہے اور پچھلے تیس سالوں میں پہلا موقع ہے جب امریکہ کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کا اشارہ بھی نظر آیا ہے۔ یعنی اوبامہ نے اس کے باوجود کہ زین العابدین حسنی مبارک امریکہ اور اسرائیل کے اپنے مفاد میں ہی کام کررہے تھے اسرائیل کی مرضی کے خلاف عوامی بغاوت کو حوصلہ دیا۔ شاید اسرائیل کو اوبامہ کا یہی فیصلہ کھٹک رہا ہے اور اسے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر اوبامہ دوسری بار بھی امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کہیں پورے خطۂ عرب میں شدت پسند اسلامی تحریکوں کا غلبہ نہ ہوجائے اور پھر اسرائیل کے لیے ایک صیہونی ریاست کے طور پر قائم رہنا بہت مشکل ہوجائے گا یہ صرف اسرائیل کا اپنا خدشہ نہیں ہے بلکہ متحد عرب امارت کی فوجی سربراہ جو کہ خود ایران مخالف نظریے کی حامی ہیں امریکہ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ عرب میں شدت بعد اسلامی تحریکوں کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کررہا ہے جو خطے کی سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دے گا۔ شاید اسی لیے پچھلے ڈیڑھ سالوں سے اسرائیل نے ایران کے ایٹمی پلانٹ کو بہانہ بنا کر بار بار ایران پر جو حملے کی دھمکی دی ہے وہ صرف یہ جاننے کے لیے ہے کہ اس تعلق سے امریکہ یا اوبامہ انتظامیہ کا اپنا ردعمل کیا ہے یعنی اگر امریکہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرتا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اسرائیل کا وفادار نہیں رہا یا موجودہ صدر اوبامہ اسرائیل کے لیے اعتماد کے قابل نہیں رہے اس طرح اسرائیل کوعنقریب امریکہ کے صدارتی الیکشن میں اوبامہ کے خلاف پروپیگنڈے کا ہتھیا فراہم ہوجائے گا جیسا کہ اسرائیل چاہتا ہے اور جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہوکے امریکی دورے کے بعد امریکہ میں قائم یہودیوں کی پراثر ایمرجنسی کمیٹی نے بیان بھی دیا ہے کہ اوبامہ یہودیوں کے لیے اعتماد کے قابل نہیں رہے اور اس اوبامہ کو کسی بھی طرح آئندہ صدارتی الیکشن میں یہودیوں کی حمایت نہیں ملنا چاہیے۔ اس کے باوجود بارک اوبامہ نے کبھی اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا مگر وہ خاموشی کے ساتھ وہی کررہے ہیں جو انہیں امریکی صدر کی حیثیت سے کرنا چاہیے شاید وہ یہودیوں کی مکاری اور عیاری کی تاریخ سے بخوبی واقف ہیں اور وہ یہ بھی کیسے بھول سکتے ہیں کہ امریکہ کے ایک سابق صدر جان ایف کینڈی کو اسرائیل کے خلاف بیان دینے کی کیا سزا ملی اور کس طرح 11؍ستمبر کے بعد امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں کودنا پڑا جس کی سزا آج پوری امریکی قوم کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔ بارک حُسین اوبامہ آئندہ صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں مگر حُسین نے اسرائیل کی الجھن میں اضافہ تو کر ہی دیا ہے۔
عمر فراہی۔موبائل،09699353811
0 comments: