کیا عرب انقلاب ناکام ہوچکا ہے ؟
مصر
اور شام میں عوامی تحریک اور جمہوریت کی بے حرمتی اور تیونس میں اسلام پسندوں کی
جمہوری حکومت کے خلاف نئے سرے سے احتجاج اور مظاہروں کی شروعات کے بعد یہ بحث شدت
اختیار کرتی جارہی ہے کہ کیا آمریت کے خلاف عرب نوجوانوں کی عوامی تحریک ناکام ہو
چکی ہے ؟۔ایسا محسوس کیا جاسکتا کہ اس انقلاب کے شروع میں جن عالمی اور علاقائی
طاقتوں نے اس تحریک کی حمایت کی تھی انتخابات میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کی
کامیابی کے بعد اس انقلاب کو ناکام بنانے میں ایک بار پھر انہیں طاقتوں نے اپنی ساری
طاقت دولت اور تدبیر کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔علاقے کی دو نمائندہ مسلم
ریاستیں جو خود بھی اسرائیل اور اس کے ربیوں کی نظر میں دہشت گرد اور انتہا پسند ممالک
کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں ۔مصر اور شام میں باغی حکمرانوں کے ذریعے عوامی قتل
عام کو اس لئے جائز ٹھہرارہے ہیں کیوں کہ ان کی نگاہ میں آزادی کے متوالے عوام
دہشت گرد اور القاعدہ کے لوگ ہیں۔اللہ کے ان مقرب بندوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ پہلے
ان کے لئے استعمال ہونے والے یہ سارے الفاظ اور القابات صہیونی مقتدرہ اور سیکولر
عناصر کیلئے خاص تھے ۔اب مصری اور شامی فوج کے حمایتی منافق نما مسلمان اور منافق
نما مسلم حکمراں بھی ادا کررہے ہیں ۔جو خود کو اسلامی انقلاب اور تحفظ شریعت کا
دعویدار مانتے ہیں ۔ان کی خلش کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں مسلم ریاستیں نہیں چاہتیں
کہ ان کے علاوہ عالم اسلام میں کوئی تیسری تحریک جمہوری طریقے سے شرعی قوانین کے
نفاذ اور بالادستی کی نمائندگی کر ے اور ان کی مسلکی اور موروثی حکومت پر کوئی آنچ
آئے ۔خود اسرائیل کی اپنی سوچ بھی یہی ہے جو یہ دونوں مسلم ریاستیں سوچتی ہیں۔مزے
کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل ایران اور عرب لیگ میں شامل عرب حکمران آپس میں خود تو
ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر عربوں کے اس نئے طرز کے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے
میں تینوں ہی متفق ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مقصد کے تئیں اس انقلاب
کی افادیت اور مضر اثرات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ان کے علاوہ ایک چوتھی طاقت بھی
ہے اور وہ مغرب کا جدید طاقتور لبرل طبقہ ہے جو ترقی اور جدید تعلیم یافتہ سماج
اور معاشرے کا موجد اور اس کی نمائندگی کا دعویدار ہے ۔عربوں کی اس انقلابی تحریک
میں اس کی دلچسپی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔مگر کہیں نہ کہیں عربوں کے اس
حقیقی انقلاب کو سمجھنے کیلئے یہ طبقہ خود اسرائیل ایران اور عرب ممالک کے سفارت
خانوں اور ان کے میڈیا اور ان کے دانشوروں کے خیالات کا محتاج ہے۔مگر اپنی سوچ اور
ذاتی معلومات کی بنیاد پر مغرب کے سوشل اور آزاد میڈیا نے اپنے طور پر عربوں کی
عوامی تحریک کی حمایت میں جو تبصرے کئے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔چونکہ
مغربی عوام آج بھی عربوں کی اسلامی روایت ان کے دین اور قرآنی اصول اور ایمان و
آخرت کے تصور سے پوری طرح نا آشنا ہے اسی لئے انہوں نے عربوں کو بھی اپنی ہی طرح
مادہ پرست الیکٹرانک مخلوق تصور کرتے ہوئے ان کے اقتصادی اور سماجی مسائل کو جو کہ
انٹرنیٹ میڈیا پر موجود ہیں اشتہار بناکر اس طرح پیش کیا جیسے کہ سارے عرب بھوکے
پیاسے تڑپ رہے تھے اور اچانک مشتعل ہو کر اپنے حکمرانوں کو چیر کھانے کیلئے دوڑ
پڑے ۔مغربی مفکرین ،صحافی برادری اور جدید نسل بہر حال اسلام اور مسلمانوں کے تعلق
سے اپنی کم علمی اور سوچ کی وجہ سے اپنی جگہ درست بھی ہیں ۔اسی لئے انہوں نے مختلف
ویب سائٹوں اور فیس بک پر اس انقلاب کا استقبال کرتے ہوئے جو تبصرہ کیا وہ ان کے
اس اخلاص کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ دنیا میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے
تئیں کتنے فکر مند اور سنجیدہ ہیں۔کسی نے لکھا ہے کہ a lost generation finds it's voice یعنی
جدید نسل اپنے حق کو پانے کا ہنر سیکھ چکی ہے اور اب وہ اپنے آباء اجداد کی طرح
موجودہ حکمرانوں کے وعدوں اور قسموں پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔جو بات
اکثر اس انقلاب کے تعلق سے بحث اور تبصرہ میں سامنے آئی ہے اس کا تقابلی جائزہ
لینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 2011 عالمی سطح پر انقلابی نوجوانوں کا سال رہا ہے
جنہیں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ میڈیا نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ماضی کی نسل سے
مختلف بنادیا ہے اور اپنے مقاصد کے حصول میں کسی طرح کے ذہنی انتشار کا شکار نہیں ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تیونس ،مصر اور شام وغیرہ میں عوامی تحریک کو منظم کرنے میں انٹر نیٹ کے سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹوئٹر نے آپسی رابطے کو آسان بنا نے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے خلاف عرب ممالک میں جو بات لوگ ایک دوسرے کے سامنے کہنے اور لانے سے ڈرتے رہے ہیں وہی بات نیٹ اور فیس بک کے ذریعے آسانی کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں لانا آسان ہو گیا جسکا بھرپور فائدہ مصر کی تنظیم اخوان المسلمون نے اٹھایا مگر یہ کہنا کہ اس میڈیا نے نظریاتی طور پر نوجوانوں کی سوچ میں بھی ہم آہنگی پیدا کی ہے ،غلط ہے۔جبکہ اکثر فیس بک پر ہونے والی بحث و تکرار بھی تنازعے کا شکار ہوجاتی ہے ۔دراصل میڈیا وہ چاہے پرنٹ ہو یا کوئی بھی الیکٹرانک چینل ایک رابطے اور اشتہار کا آسان ذریعہ ہیں اس کی افادیت کا اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتا ہے جب ایک سماج اور معاشرے میں نظریاتی طور پر ہم آہنگی اور پختگی پائی جاتی ہو۔مثال کے طورپر اسرائیل کا یہودی ایران کا شیعہ ،سعودی عرب کا سلفی اور مغرب نواز طبقہ سب نے اس ٹکنالوجی کے ذریعے اپنی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے مگر ان سب میں وہ مغرب نواز لبرل طبقہ جو سب پر غالب ہے اور جو نظر یاتی طور پر مادہ پرست ہے وہ اپنی اسی سرمایہ دارانہ تعلیم و تہذیب اور سوچ کے ذریعے بہت جلد امبانی ،بل گیٹس ،عظیم پریم جی اور اوبامہ وغیرہ کے مقام کو پالینا چاہتا ہے ۔جدید مشینی الیکٹرانک میڈیا نے اس کے مزاج اور مسابقت کے جنون میں اور بھی شدت اور ہیجان پیدا کردیا ہے ۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہی طبقہ بہت زیادہ مایوسی کا بھی شکار اور طرح طرح کے نشے اور عیاشی کے ماحول میں غرق ہے ۔ جب وہ مسابقت اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے تو زندگی پر خودکشی کو ترجیح دیتا ہے اور اس طرح یہ طبقہ کوئی پائیدار فلاحی انقلاب کیسے برپا کر سکتا جبکہ اس کے اندر اصل آخرت کی زندگی اور اخرجت الالناس کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا ۔اگر واقعی بھوک خودکشی اور بے روز گاری کسی طرح کے اشتعال اور انقلاب کا سبب بن سکتی ہے تو پھر یہی انقلاب امریکہ میں کیوں نہیں آتا اور امریکہ کے ایک شہر ڈیٹرائٹ کے لوگ حکومت کے خلاف مشتعل کیوں نہیں ہوتے جو پوری طرح دیوالیہ ہو چکا ہے ۔جہاں بڑی بڑی صنعتیں ویران ہو چکی ہیں ۔اٹھارہ لاکھ کی آبادی میں سے گیارہ لاکھ عوام نے شہر چھوڑ دیا اور ساٹھ فیصد مکانات مکینوں سے خالی ہیں۔پانی بجلی اور عام ضروریات کی قلت کی وجہ سے جو پریشانی ہے وہ الگ ۔عوام بینکوں کے قرضوں سے تنگ آکر خود کشی کرنے پر آمادہ ہیں۔اسی طرح ہمارے ملک ہندوستان کی معاشی بدحالی اور ملک کی مختلف ریاستوں میں نظم ونسق کی صورت حال یہ ہے کہ اکیلے مہاراشٹر جیسی صنعتی ریاست کے ودربھ علاقے میں 2001 سے لیکر 2012 تک ہر سال ایک ہزار کسان خودکشی کررہا ہے اور ہر بیس منٹ پر ایک عورت اور بچی کے ساتھ جبری جنسی ذیادتی کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔جبکہ ظلم ناانصافی اور لا قانونیت کا حال یہ ہے کہ ہماری پولس اکثر ہی کسی غریب ہاتھ گاڑی والے اور شہروں میں پھل فروٹ بیچنے والے بوعزیزی کو تھپڑ مارتی رہتی ہے مگر وہ اس رسوائی اور بے عزتی کو روز مرہ کے حالات اور اپنی تقدیر پر تصور کرتے ہوئے برداشت کر لیتا ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ بد عنوانی ،قتل عام ،عصمت دری ،حکومتی فساد و بے حسی اور انسانی حقوق کی پامالی کے یہ حالات عربوں سے زیادہ بر صغیر کے اس پورے خطے میں تشویشناک حد تک زیادہ ہیں ۔مگر یہاں کی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کیلئے آمادہ کیوں نہیں ہے۔کیا مصر اور شام جیسے حالات پیدا کرنے کیلئے یہاں پر انٹرنیٹ میڈیا اور فیس بک فعال نہیں ہے ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ میڈیا اس لئے بھی کئی دیگر ممالک سے بھی زیادہ فعال اور متحرک ہے کیوں کہ یہاں لوگوں کے پاس وقت کو ضائع کرنے کیلئے بھی وقت ہے ۔مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اس میڈیا کے ذریعے ذہنی بیداری اور مثبت حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جبکہ اکثر لوگ اسے ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس کے برعکس عربوں کی جدید نسل جو قرآن اور تاریخ کو اپنی خالص زبان میں پڑھ اور سمجھ رہی ہے اس نے جدید کمپیوٹر ٹکنالوجی کا جائزفائدہ اٹھایا ہے ۔اس طرح پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ اس کا تقابلی جائزہ لیکر مغربی تہذیب اور اسلامی روایت کے درمیان فرق کرنا بھی سیکھ چکے ہیں ۔اور آج سے چالیس پچاس سال پہلے جو تعلیم یافتہ نوجوان ترقی پسندوں کے بہکاوے میں آکر مغربیت ،کمیونزم ،سوشلزم وغیرہ کے فریب میں مبتلاء ہو چکے تھے انہوں نے ان بتوں کو اپنے سامنے منہدم ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے ۔اب ایک دوسری نسل جسے مغربی مفکرین اور اقتصادیات کے ماہر lost generation کا خطاب دیتے ہیں ،یہ نسل بہت ہی تیزی کے ساتھ نہ صرف اسلام کی طرف رجوع ہو چکی ہے بلکہ تمام تر مایوسی اور مشکلات کے بعد بھی خود کشی کرنے کی بجائے ان اڑچنوں کو مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے جو اس کے مقصد کے سامنے حائل ہے۔بیشک نماز روزہ حج زکوٰۃ اور اسلامی تاریخ کے مطالعے کی شکل میں اسلام کا یہ تعلیمی اور تحریکی نظام جس طرح اس کے ماہر ریاضی دانوں کی تربیت کرتا ہے اگر خدانخواستہ اس کے قدم لڑکھڑا بھی جائیں اور اس کا سب کچھ ختم بھی ہو جائے تو بھی اس امید اور حوصلے کے ساتھ خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس اللہ کا یقین تو ہے جو اسے آخرت کی خوبصورت زندگی کی بشارت دیتا ہے ۔یہی وہ یقین اور اعتماد کا جذبہ ہے جس نے مصر اور شام میں دسیوں لاکھ افراد کو شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ظالم حکمرانوں کی بندوقوں کے سامنے لاکر کھڑا کردیا ۔ورنہ یہی الیکٹرانک اتحاد ہندوستان میں بابا رام دیو اور انا ہزارے کی قیادت میں ناکام کیوں ہو جاتا ہے؟۔
سال 2011 میں عرب بہار کی جو شروعات ہو چکی ہے وہ صرف ایک بو عزیزی کی خودسوزی کا ردعمل نہیں بلکہ یہ انقلاب ان پچاس سالوں پر مشتمل ڈکٹیٹروں اور مغرب کی سوپر پاور طاقتوں کی منافقت کے خلاف پھٹ پڑنے والی جوالا مکھی کا لاوا ہے جس نے بو عزیزی کو عرب بہار کا ہیرو بنادیا اور اب دوبارہ اسے ٹینکوں اور میزائلوں کی طاقت سے ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ مصر و شام کے حکمرانوں نے سامراجی طاقتوں کی مدد لیکر تھوڑا سا وقت خرید ضرور لیا ہے ۔مگر جن کی جان ومال کو کائنات کے مالک نے جنت کے بدلے خرید لیا ہے انہیں کوئی نہیں خرید سکتا اور نہ ہی انہیں کوئی شکست دے سکتا ہے ۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com
اس میں کوئی شک نہیں کہ تیونس ،مصر اور شام وغیرہ میں عوامی تحریک کو منظم کرنے میں انٹر نیٹ کے سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹوئٹر نے آپسی رابطے کو آسان بنا نے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے خلاف عرب ممالک میں جو بات لوگ ایک دوسرے کے سامنے کہنے اور لانے سے ڈرتے رہے ہیں وہی بات نیٹ اور فیس بک کے ذریعے آسانی کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں لانا آسان ہو گیا جسکا بھرپور فائدہ مصر کی تنظیم اخوان المسلمون نے اٹھایا مگر یہ کہنا کہ اس میڈیا نے نظریاتی طور پر نوجوانوں کی سوچ میں بھی ہم آہنگی پیدا کی ہے ،غلط ہے۔جبکہ اکثر فیس بک پر ہونے والی بحث و تکرار بھی تنازعے کا شکار ہوجاتی ہے ۔دراصل میڈیا وہ چاہے پرنٹ ہو یا کوئی بھی الیکٹرانک چینل ایک رابطے اور اشتہار کا آسان ذریعہ ہیں اس کی افادیت کا اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتا ہے جب ایک سماج اور معاشرے میں نظریاتی طور پر ہم آہنگی اور پختگی پائی جاتی ہو۔مثال کے طورپر اسرائیل کا یہودی ایران کا شیعہ ،سعودی عرب کا سلفی اور مغرب نواز طبقہ سب نے اس ٹکنالوجی کے ذریعے اپنی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے مگر ان سب میں وہ مغرب نواز لبرل طبقہ جو سب پر غالب ہے اور جو نظر یاتی طور پر مادہ پرست ہے وہ اپنی اسی سرمایہ دارانہ تعلیم و تہذیب اور سوچ کے ذریعے بہت جلد امبانی ،بل گیٹس ،عظیم پریم جی اور اوبامہ وغیرہ کے مقام کو پالینا چاہتا ہے ۔جدید مشینی الیکٹرانک میڈیا نے اس کے مزاج اور مسابقت کے جنون میں اور بھی شدت اور ہیجان پیدا کردیا ہے ۔یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہی طبقہ بہت زیادہ مایوسی کا بھی شکار اور طرح طرح کے نشے اور عیاشی کے ماحول میں غرق ہے ۔ جب وہ مسابقت اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے تو زندگی پر خودکشی کو ترجیح دیتا ہے اور اس طرح یہ طبقہ کوئی پائیدار فلاحی انقلاب کیسے برپا کر سکتا جبکہ اس کے اندر اصل آخرت کی زندگی اور اخرجت الالناس کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا ۔اگر واقعی بھوک خودکشی اور بے روز گاری کسی طرح کے اشتعال اور انقلاب کا سبب بن سکتی ہے تو پھر یہی انقلاب امریکہ میں کیوں نہیں آتا اور امریکہ کے ایک شہر ڈیٹرائٹ کے لوگ حکومت کے خلاف مشتعل کیوں نہیں ہوتے جو پوری طرح دیوالیہ ہو چکا ہے ۔جہاں بڑی بڑی صنعتیں ویران ہو چکی ہیں ۔اٹھارہ لاکھ کی آبادی میں سے گیارہ لاکھ عوام نے شہر چھوڑ دیا اور ساٹھ فیصد مکانات مکینوں سے خالی ہیں۔پانی بجلی اور عام ضروریات کی قلت کی وجہ سے جو پریشانی ہے وہ الگ ۔عوام بینکوں کے قرضوں سے تنگ آکر خود کشی کرنے پر آمادہ ہیں۔اسی طرح ہمارے ملک ہندوستان کی معاشی بدحالی اور ملک کی مختلف ریاستوں میں نظم ونسق کی صورت حال یہ ہے کہ اکیلے مہاراشٹر جیسی صنعتی ریاست کے ودربھ علاقے میں 2001 سے لیکر 2012 تک ہر سال ایک ہزار کسان خودکشی کررہا ہے اور ہر بیس منٹ پر ایک عورت اور بچی کے ساتھ جبری جنسی ذیادتی کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔جبکہ ظلم ناانصافی اور لا قانونیت کا حال یہ ہے کہ ہماری پولس اکثر ہی کسی غریب ہاتھ گاڑی والے اور شہروں میں پھل فروٹ بیچنے والے بوعزیزی کو تھپڑ مارتی رہتی ہے مگر وہ اس رسوائی اور بے عزتی کو روز مرہ کے حالات اور اپنی تقدیر پر تصور کرتے ہوئے برداشت کر لیتا ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ بد عنوانی ،قتل عام ،عصمت دری ،حکومتی فساد و بے حسی اور انسانی حقوق کی پامالی کے یہ حالات عربوں سے زیادہ بر صغیر کے اس پورے خطے میں تشویشناک حد تک زیادہ ہیں ۔مگر یہاں کی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کیلئے آمادہ کیوں نہیں ہے۔کیا مصر اور شام جیسے حالات پیدا کرنے کیلئے یہاں پر انٹرنیٹ میڈیا اور فیس بک فعال نہیں ہے ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ میڈیا اس لئے بھی کئی دیگر ممالک سے بھی زیادہ فعال اور متحرک ہے کیوں کہ یہاں لوگوں کے پاس وقت کو ضائع کرنے کیلئے بھی وقت ہے ۔مگر فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اس میڈیا کے ذریعے ذہنی بیداری اور مثبت حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جبکہ اکثر لوگ اسے ذہنی عیاشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس کے برعکس عربوں کی جدید نسل جو قرآن اور تاریخ کو اپنی خالص زبان میں پڑھ اور سمجھ رہی ہے اس نے جدید کمپیوٹر ٹکنالوجی کا جائزفائدہ اٹھایا ہے ۔اس طرح پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے وہ اس کا تقابلی جائزہ لیکر مغربی تہذیب اور اسلامی روایت کے درمیان فرق کرنا بھی سیکھ چکے ہیں ۔اور آج سے چالیس پچاس سال پہلے جو تعلیم یافتہ نوجوان ترقی پسندوں کے بہکاوے میں آکر مغربیت ،کمیونزم ،سوشلزم وغیرہ کے فریب میں مبتلاء ہو چکے تھے انہوں نے ان بتوں کو اپنے سامنے منہدم ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے ۔اب ایک دوسری نسل جسے مغربی مفکرین اور اقتصادیات کے ماہر lost generation کا خطاب دیتے ہیں ،یہ نسل بہت ہی تیزی کے ساتھ نہ صرف اسلام کی طرف رجوع ہو چکی ہے بلکہ تمام تر مایوسی اور مشکلات کے بعد بھی خود کشی کرنے کی بجائے ان اڑچنوں کو مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے جو اس کے مقصد کے سامنے حائل ہے۔بیشک نماز روزہ حج زکوٰۃ اور اسلامی تاریخ کے مطالعے کی شکل میں اسلام کا یہ تعلیمی اور تحریکی نظام جس طرح اس کے ماہر ریاضی دانوں کی تربیت کرتا ہے اگر خدانخواستہ اس کے قدم لڑکھڑا بھی جائیں اور اس کا سب کچھ ختم بھی ہو جائے تو بھی اس امید اور حوصلے کے ساتھ خود کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس اللہ کا یقین تو ہے جو اسے آخرت کی خوبصورت زندگی کی بشارت دیتا ہے ۔یہی وہ یقین اور اعتماد کا جذبہ ہے جس نے مصر اور شام میں دسیوں لاکھ افراد کو شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ظالم حکمرانوں کی بندوقوں کے سامنے لاکر کھڑا کردیا ۔ورنہ یہی الیکٹرانک اتحاد ہندوستان میں بابا رام دیو اور انا ہزارے کی قیادت میں ناکام کیوں ہو جاتا ہے؟۔
سال 2011 میں عرب بہار کی جو شروعات ہو چکی ہے وہ صرف ایک بو عزیزی کی خودسوزی کا ردعمل نہیں بلکہ یہ انقلاب ان پچاس سالوں پر مشتمل ڈکٹیٹروں اور مغرب کی سوپر پاور طاقتوں کی منافقت کے خلاف پھٹ پڑنے والی جوالا مکھی کا لاوا ہے جس نے بو عزیزی کو عرب بہار کا ہیرو بنادیا اور اب دوبارہ اسے ٹینکوں اور میزائلوں کی طاقت سے ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ مصر و شام کے حکمرانوں نے سامراجی طاقتوں کی مدد لیکر تھوڑا سا وقت خرید ضرور لیا ہے ۔مگر جن کی جان ومال کو کائنات کے مالک نے جنت کے بدلے خرید لیا ہے انہیں کوئی نہیں خرید سکتا اور نہ ہی انہیں کوئی شکست دے سکتا ہے ۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com
0 comments: