عرب انقلاب سے خوف زدہ لوگ
اسرائیل
کے سابق صدر یہود بارک نے ایک بار امریکی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’ہمارے سامنے تین چیلنج ہیں جن کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے ۔اس میں سے پہلے نمبر پر
اسلامی بنیاد پرستی ہے۔دوسرے اور تیسرے نمبر پر بھکمری اور بے روزگاری ہے۔ممکن ہے
امریکہ اور اسرائیل جیسے ترقی یافتہ ممالک کیلئے بھکمری اور بے روزگاری بھی کبھی
مسئلہ رہا ہو ،جبکہ یہ ممالک اپنی آمدنی ،خوراک اور پیداوار کا دوتہائی حصہ جنگ
اور عیاشی کی نظر کر دیتے ہیں ،اور اپنے دسترخوان کا ایک تہائی حصہ کچرے کے ڈھیر
میں پھینک دیتے ہیں جسے اگر محفوظ کرلیا جائے تو دنیا میں بھوک سے مرنے والے
لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں ۔مگر اپنے عنوان کو موضوع بحث بنانے کیلئے
اسرائیلی صدر نے بھکمری اور بے روزگاری جیسے جذباتی مسئلے کا ذکر بھی کیا ،جبکہ
انکا اصل مقصد اسلامی بنیاد پرستی کے خطرات سے آگاہ کرنا تھا ۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایران کے اسلامی انقلاب اور سرد جنگ کے خاتمہ سے پہلے کسی نے امریکی پارلیمنٹ میں اسلامی بنیاد پرستی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیوں نہیں کیا جبکہ یہی وہ دور تھا جب امریکہ کو خاص طور سے عرب نوجوانوں میں سے بن لادن جیسے مجاہدین کی تلاش تھی جو افغانستان میں روس کے خلاف امریکی مفاد کے لئے خون دے سکیں ۔امریکہ نے اسپین کی طرح ان مجاہدین کے خاتمے کا منصوبہ تو بنا رکھا تھا مگر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس دنیا کا مکمل آرڈر (حکم) کہیں اور سے ہوتا ہے اور اس طاقت نے ایک دوسرے راستے سے ایران میں اسلامی انقلاب کو بنیادی شکل عطا کردی ۔اس اچانک تبدیلی نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے منصوبے کو خاک میں ملادیا اور صہیونی مقتدرہ کو اسلام بنیاد کی شکل میں نظر آنے لگا ۔حالانکہ ایران میں اسلام پسندوں کے اقتدار سے امریکہ اور اسرائیل کی ذات پر بہت بڑا فرق نہیں پڑتا تھا مگر اس انقلاب کے طریقہ کار نے ان تمام حریت پسندوں کے حوصلوں کو بلند کردیا جو برسہا برس سے اپنے اپنے ملکوں میں شرعی نظام کی بالادستی کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں ۔اب ایران اور ترکی میں اسلامی بیداری کے بعد ۲۰۱۱ ء میں جبکہ تیونس ،مصر ،لیبیا اور شام وغیرہ میں اخوانی تحریک اصل بنیاد کے قریب پہنچ رہی ہے ۔ایک بار پھر صہیونی مقتدرہ کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور وہ مسلسل اس خطرے کو کم کرنے کیلئے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے مجبور ہیں ۔مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۱۲ ء کو اسرائیلی فوج کے سربراہ بینی گسٹز نے مقبوضہ فلسطین کے ایک فوجی کالج میں نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لئے فوج کی تعداد اور دفاعی صلاحیت میں اضافے کی ضرورت ہے ۔اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے ۱۰؍جنوری ۲۰۱۱ ء کو صہیونی فوج کے سربراہ نے اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’آج نہیں تو کل شام کے حکمراں بشر الاسد کو عوامی بغاوت کے سامنے ہتھیار ڈال ہی دینا ہوگا اس لئے ہمیں شام کی حکمراں جماعت جو کہ اقلیت میں ہیں اسے گولان کی پہاڑیوں میں پناہ دینے کی تیاری شروع کر دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں ملک شام کی زمین پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت کے خطرے کا سامنا کرنے کے لئے بشار الاسد کے علوی خاندان کی مدد لی جاسکے ‘‘ ہندوستان ٹائمز ۱۱؍جنوری ۲۰۱۱ ء۔
نیو یارک ٹائمز کے مشہور و معروف کالم نگار تھامس فرائیڈ مین نے اپنے ایک مضمون ’’اسرائیل اور عرب انقلابات‘‘ میں اسرائیل کی اس الجھن پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے بعد ترکی اور ترکی کے بعد مصر اور شام میں اسلام پسندوں کے غلبے نے صہیونی ریاست اسرائیل کی سرحدوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔اسرائیل کے پرائم منسٹر بنجامن نتن یاہونے اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے جب اس انقلاب کے شروع میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہم تاریخ کے نازک موڑ سے گذ ر رہے ہیں اس لئے ہمیں ابھی سے احتیاطی تدبیر اختیار کرنی چاہئے تو پارلیمنٹ کے کچھ ممبروں نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میں انہیں خوفزدہ کر رہا ہوں۔جبکہ عرب دنیا میں جمہوریت کو بنیاد حاصل ہورہی ہے ۔مگر اب جبکہ اقتدار پر اسلام پسندوں کے غلبے کے بعد صورت حال مغرب اور اسرائیل مخالف ہو رہی ہے کہاں ہیں وہ لوگ جو مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔یہاں تک کہ میں نے امریکی صدر براک اوبامہ اور دوسرے یوروپی ممالک کے سربراہان کو بھی جب اس انقلاب کی حمایت سے باز رہنے کو کہا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں کہ حقیقت سے کون واقف نہیں تھا میں یا وہ لوگ جنہوں نے حسنی مبارک کو بے دخل کرنے میں وہاں کی عوام کی مدد کی ‘‘۔تھامس فرائیڈ مین آگے لکھتا ہے کہ نیتن یاہوکی بے چینی بالکل جائز ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب جس طرح اچانک ہوا ایسی صورت حال میں اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا اور بغیر کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے کوئی جذباتی قدم مزید خطرناک ہوسکتا تھا ۔نیتن یاہو کا کہنا کہ اوبامہ نے اس بغاوت کی حمایت کی غلط ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اپنے تیس سالہ دور اقتدار میں حسنی مبارک نے جو دھاندلی کی اور جس طرح اپنے اقتدار کیلئے اس نے اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ سیکولر طاقتوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا اس کے اس ظلم سے سیکولر طاقتوں کو تو منظم ہونے کا موقع نہیں ملامگر اسلام پسندوں نے مسجد وں اور مدرسوں کے ذریعے اپنی تحریک کو کامیاب بناتے رہے ہیں ۔جبکہ اسرائیل خود ہی عرب ڈکٹیٹروں کی طرح فلسطینیوں پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور جو اس کے دوست ہوسکتے ہیں انہیں بھی دشمن بنارہا ہے ۔بنجامن نیتن یاہو اسرائیل امریکہ اور اوبامہ کی اپنی الجھن کو سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے ،کیوں کہ اپنے اقتدار اور وجود سے عالم اسلام کا صدیوں سے رشتہ رہا ہے اور انہوں نے براہ راست مسلم ممالک پر قبضہ کرکے یا حملہ کرکے نفرت اور دشمنی کی تاریخ رقم کی ہے اس لئے اسلام پسندوں کے عروج و زوال سے یہ لوگ کبھی خوش اور کبھی بے چین ہو اٹھتے ہیں مگر یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ عالم اسلام میں تحریکات اسلامی کی کسی بھی طرح کی کامیابی سے آزاد ہندوستان کے انگلش اور سیکولر صحافیوں کے چہرے کی رنگت کیوں بدل جاتی ہے ؟
خشونت سنگھ نے اپنے مضمون ’’عرب انقلابات سے ابھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ‘‘لکھا ہے کہ میں نے ایران کے جمہوری انقلاب کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور شاہ کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب سڑکوں پر کوئی بھی عورت نقاب میں نہیں ہوتی تھی اور شراب پینے کی آزادی تھی ۔مگر اس انقلاب کے بعد تصویر کا رخ بالکل الٹ دیا گیا یہاں تک کہ اس انقلاب کے روح رواں آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کردیا اور انکے جانشیں احمدی نزاد نے اسرائیل کو صفحہ ہستی مٹادینے کی بات کہی۔اس طرح مجھے ڈر ہے کہ اگر انقلابی پوری طرح عرب سلطانوں اور امیروں کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ لوگ طالبان جیسی قیادت کا انتخاب کریں گے ۔یعنی خوشونت سنگھ جیسے لوگ جو لبرلزم کا کلمہ پڑھتے پڑھتے بوڑھے ہوچکے ہیں ان کی لغات میں آزادی اور جمہوریت کا مطلب صرف مغربیت ہے اور مسلمانوں کو اپنی پسند اور انتخاب کا اختیار نہیں ہونا چاہئے اور ممکن ہوسکے تو ان کی پسند کو ہٹلریت کی طرح جبراًکچل دیا جائے ۔یہ صرف ہمارے سیکولر دانشوروں کا ہی اپنا خیال نہیں ہے ،ہمارے ملک کی جمہوری سرکار بھی چاہے وہ سیکولر ہی کیوں نہ ہو کم سے کم اس بات پر متفق ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاسی طاقت نہیں حاصل ہونی چاہئے شاید اسی نظرےئے کے تحت پچھلے دو سالوں سے جبکہ دہشت گردانہ کارروائیاں یا دھماکے بھی نہیں ہورہے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر شدت کے ساتھ عمل ہورہا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کردیا جائے تاکہ کسی بھی طرح کا قائدانہ رول ادا کرتے وقت وہ اپنے آپ کو اخلاقی مجرم سمجھتے رہیں ۔غرض کہ اس وقت بنجامن نیتن یاہو سے لیکر مغرب نواز دانشور تک عرب انقلابات کو اپنے لئے خطرہ محسوس کررہے ہیں اور وہ شدت کے ساتھ اس تبدیلی پر روک لگانے کیلئے بے چین ہیں ۔اسی لئے شام میں جو اس وقت خونریزی جاری ہے اسد حکومت کو اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہے ۔چونکہ اسرائیل موجودہ امریکی صدر اور سربراہان یوروپ کو قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے اس لئے اب اس نے شام میں عوامی بغاوت کو ناکام کرنے کیلئے روس اور چین کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے مگر ہمیں افسوس ہے کہ ایران اور احمدی نزاد جو کہ اسلامی جمہوری انقلاب کی نمائندگی کا دعویٰ کررہے ہیں شامی عوام کے ساتھ نہ ہوکر شام کے ڈکٹیٹر بشر الاسد کے ساتھ ہیں جسکی فوجوں نے اپنی عوام کا اسی طرح قتل عام کیا ہے جیسے کہ صہیونی فوج معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811
سوال یہ ہے کہ آخر ایران کے اسلامی انقلاب اور سرد جنگ کے خاتمہ سے پہلے کسی نے امریکی پارلیمنٹ میں اسلامی بنیاد پرستی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیوں نہیں کیا جبکہ یہی وہ دور تھا جب امریکہ کو خاص طور سے عرب نوجوانوں میں سے بن لادن جیسے مجاہدین کی تلاش تھی جو افغانستان میں روس کے خلاف امریکی مفاد کے لئے خون دے سکیں ۔امریکہ نے اسپین کی طرح ان مجاہدین کے خاتمے کا منصوبہ تو بنا رکھا تھا مگر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس دنیا کا مکمل آرڈر (حکم) کہیں اور سے ہوتا ہے اور اس طاقت نے ایک دوسرے راستے سے ایران میں اسلامی انقلاب کو بنیادی شکل عطا کردی ۔اس اچانک تبدیلی نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے منصوبے کو خاک میں ملادیا اور صہیونی مقتدرہ کو اسلام بنیاد کی شکل میں نظر آنے لگا ۔حالانکہ ایران میں اسلام پسندوں کے اقتدار سے امریکہ اور اسرائیل کی ذات پر بہت بڑا فرق نہیں پڑتا تھا مگر اس انقلاب کے طریقہ کار نے ان تمام حریت پسندوں کے حوصلوں کو بلند کردیا جو برسہا برس سے اپنے اپنے ملکوں میں شرعی نظام کی بالادستی کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں ۔اب ایران اور ترکی میں اسلامی بیداری کے بعد ۲۰۱۱ ء میں جبکہ تیونس ،مصر ،لیبیا اور شام وغیرہ میں اخوانی تحریک اصل بنیاد کے قریب پہنچ رہی ہے ۔ایک بار پھر صہیونی مقتدرہ کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور وہ مسلسل اس خطرے کو کم کرنے کیلئے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے مجبور ہیں ۔مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ۱۹؍مئی ۲۰۱۲ ء کو اسرائیلی فوج کے سربراہ بینی گسٹز نے مقبوضہ فلسطین کے ایک فوجی کالج میں نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لئے فوج کی تعداد اور دفاعی صلاحیت میں اضافے کی ضرورت ہے ۔اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے ۱۰؍جنوری ۲۰۱۱ ء کو صہیونی فوج کے سربراہ نے اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’آج نہیں تو کل شام کے حکمراں بشر الاسد کو عوامی بغاوت کے سامنے ہتھیار ڈال ہی دینا ہوگا اس لئے ہمیں شام کی حکمراں جماعت جو کہ اقلیت میں ہیں اسے گولان کی پہاڑیوں میں پناہ دینے کی تیاری شروع کر دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں ملک شام کی زمین پر قائم ہونے والی اسلامی حکومت کے خطرے کا سامنا کرنے کے لئے بشار الاسد کے علوی خاندان کی مدد لی جاسکے ‘‘ ہندوستان ٹائمز ۱۱؍جنوری ۲۰۱۱ ء۔
نیو یارک ٹائمز کے مشہور و معروف کالم نگار تھامس فرائیڈ مین نے اپنے ایک مضمون ’’اسرائیل اور عرب انقلابات‘‘ میں اسرائیل کی اس الجھن پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے بعد ترکی اور ترکی کے بعد مصر اور شام میں اسلام پسندوں کے غلبے نے صہیونی ریاست اسرائیل کی سرحدوں کو غیر محفوظ بنادیا ہے۔اسرائیل کے پرائم منسٹر بنجامن نتن یاہونے اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے جب اس انقلاب کے شروع میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہم تاریخ کے نازک موڑ سے گذ ر رہے ہیں اس لئے ہمیں ابھی سے احتیاطی تدبیر اختیار کرنی چاہئے تو پارلیمنٹ کے کچھ ممبروں نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میں انہیں خوفزدہ کر رہا ہوں۔جبکہ عرب دنیا میں جمہوریت کو بنیاد حاصل ہورہی ہے ۔مگر اب جبکہ اقتدار پر اسلام پسندوں کے غلبے کے بعد صورت حال مغرب اور اسرائیل مخالف ہو رہی ہے کہاں ہیں وہ لوگ جو مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔یہاں تک کہ میں نے امریکی صدر براک اوبامہ اور دوسرے یوروپی ممالک کے سربراہان کو بھی جب اس انقلاب کی حمایت سے باز رہنے کو کہا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں کہ حقیقت سے کون واقف نہیں تھا میں یا وہ لوگ جنہوں نے حسنی مبارک کو بے دخل کرنے میں وہاں کی عوام کی مدد کی ‘‘۔تھامس فرائیڈ مین آگے لکھتا ہے کہ نیتن یاہوکی بے چینی بالکل جائز ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ سب جس طرح اچانک ہوا ایسی صورت حال میں اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا اور بغیر کسی سوچی سمجھی حکمت عملی کے کوئی جذباتی قدم مزید خطرناک ہوسکتا تھا ۔نیتن یاہو کا کہنا کہ اوبامہ نے اس بغاوت کی حمایت کی غلط ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اپنے تیس سالہ دور اقتدار میں حسنی مبارک نے جو دھاندلی کی اور جس طرح اپنے اقتدار کیلئے اس نے اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ سیکولر طاقتوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا اس کے اس ظلم سے سیکولر طاقتوں کو تو منظم ہونے کا موقع نہیں ملامگر اسلام پسندوں نے مسجد وں اور مدرسوں کے ذریعے اپنی تحریک کو کامیاب بناتے رہے ہیں ۔جبکہ اسرائیل خود ہی عرب ڈکٹیٹروں کی طرح فلسطینیوں پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور جو اس کے دوست ہوسکتے ہیں انہیں بھی دشمن بنارہا ہے ۔بنجامن نیتن یاہو اسرائیل امریکہ اور اوبامہ کی اپنی الجھن کو سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے ،کیوں کہ اپنے اقتدار اور وجود سے عالم اسلام کا صدیوں سے رشتہ رہا ہے اور انہوں نے براہ راست مسلم ممالک پر قبضہ کرکے یا حملہ کرکے نفرت اور دشمنی کی تاریخ رقم کی ہے اس لئے اسلام پسندوں کے عروج و زوال سے یہ لوگ کبھی خوش اور کبھی بے چین ہو اٹھتے ہیں مگر یہ بات سمجھنا بہت مشکل ہے کہ عالم اسلام میں تحریکات اسلامی کی کسی بھی طرح کی کامیابی سے آزاد ہندوستان کے انگلش اور سیکولر صحافیوں کے چہرے کی رنگت کیوں بدل جاتی ہے ؟
خشونت سنگھ نے اپنے مضمون ’’عرب انقلابات سے ابھی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ‘‘لکھا ہے کہ میں نے ایران کے جمہوری انقلاب کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور شاہ کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب سڑکوں پر کوئی بھی عورت نقاب میں نہیں ہوتی تھی اور شراب پینے کی آزادی تھی ۔مگر اس انقلاب کے بعد تصویر کا رخ بالکل الٹ دیا گیا یہاں تک کہ اس انقلاب کے روح رواں آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کردیا اور انکے جانشیں احمدی نزاد نے اسرائیل کو صفحہ ہستی مٹادینے کی بات کہی۔اس طرح مجھے ڈر ہے کہ اگر انقلابی پوری طرح عرب سلطانوں اور امیروں کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ لوگ طالبان جیسی قیادت کا انتخاب کریں گے ۔یعنی خوشونت سنگھ جیسے لوگ جو لبرلزم کا کلمہ پڑھتے پڑھتے بوڑھے ہوچکے ہیں ان کی لغات میں آزادی اور جمہوریت کا مطلب صرف مغربیت ہے اور مسلمانوں کو اپنی پسند اور انتخاب کا اختیار نہیں ہونا چاہئے اور ممکن ہوسکے تو ان کی پسند کو ہٹلریت کی طرح جبراًکچل دیا جائے ۔یہ صرف ہمارے سیکولر دانشوروں کا ہی اپنا خیال نہیں ہے ،ہمارے ملک کی جمہوری سرکار بھی چاہے وہ سیکولر ہی کیوں نہ ہو کم سے کم اس بات پر متفق ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاسی طاقت نہیں حاصل ہونی چاہئے شاید اسی نظرےئے کے تحت پچھلے دو سالوں سے جبکہ دہشت گردانہ کارروائیاں یا دھماکے بھی نہیں ہورہے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر شدت کے ساتھ عمل ہورہا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کردیا جائے تاکہ کسی بھی طرح کا قائدانہ رول ادا کرتے وقت وہ اپنے آپ کو اخلاقی مجرم سمجھتے رہیں ۔غرض کہ اس وقت بنجامن نیتن یاہو سے لیکر مغرب نواز دانشور تک عرب انقلابات کو اپنے لئے خطرہ محسوس کررہے ہیں اور وہ شدت کے ساتھ اس تبدیلی پر روک لگانے کیلئے بے چین ہیں ۔اسی لئے شام میں جو اس وقت خونریزی جاری ہے اسد حکومت کو اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہے ۔چونکہ اسرائیل موجودہ امریکی صدر اور سربراہان یوروپ کو قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے اس لئے اب اس نے شام میں عوامی بغاوت کو ناکام کرنے کیلئے روس اور چین کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے مگر ہمیں افسوس ہے کہ ایران اور احمدی نزاد جو کہ اسلامی جمہوری انقلاب کی نمائندگی کا دعویٰ کررہے ہیں شامی عوام کے ساتھ نہ ہوکر شام کے ڈکٹیٹر بشر الاسد کے ساتھ ہیں جسکی فوجوں نے اپنی عوام کا اسی طرح قتل عام کیا ہے جیسے کہ صہیونی فوج معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کررہی ہے۔
عمر فراہی۔موبائل۔09699353811
0 comments: