کیا ایران مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ کی روایت کا پاسبان نہیں رہا؟
یہ
کہنا کہ شام کا موجودہ حکمراں بشار الاسد امریکہ اور اسرائیل کا مخالف رہا ہے اس
لئے شامی عوام یا اسلام پسندوں کے مقابلے ایک مشرک اور کافر کی حمایت کرنا جائز ہے
سراسر ظلم اور نا انصافی ہے ۔جبکہ خود بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے شامی عوام
اور اسلام پسندوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں وہ امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی سے کم
نہیں ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ علویوں اور صہیونیوں دونوں کا اپنا مقصد اور نصب العین
اس کے سوا اور کچھ نہیں رہا ہے کہ پورے خطہ عرب سے اسلام پسندوں کا صفایا کردیا
جائے ۔اس کے علاوہ یہ کہنا کہ وہ بعثی ،کمیونسٹ عربی ،عرب قومیت کا علمبردار اور استعماریت
کا دشمن ہے اس لئے فلسطین کا حمایتی اور اسرائیل کا مخالف ہے سراسر جھوٹ اور حق و
باطل کی تلبیس کے مترادف ہے ۔جبکہ کافروں مشرکوں ،سرمایہ داروں اور کمیونسٹوں کو
صرف اپنا اقتدار عزیزہو تا ہے ان کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اور یہ شیطان کے حکم کے
مطابق کبھی بھی کسی کے ساتھ اپنی وفاداری بدل سکتے ہیں ۔تعجب ہے کہ ایران جو یہ
دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا نظام تمدن و سیاست صرف اور صرف قرآن و سنت پر استوار ہے
طاغوتی نظرئیے کو بھی اصول سمجھ رہا ہے ۔ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ اس کے باوجود بھی
ان کی حمایت نہیں لینی چاہئے یا ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے مگر کم سے کم جہاں باطل
سے اہل ایمان کا ٹکراؤ ہوتا ہو محتاط رویہ تو ضرور اختیار کیا جانا چاہئے ۔جہاں تک
فلسطین کا معاملہ ہے ہم نے دیکھا ہے کہ صدام حسین سے لیکر کرنل قذافی اور
بشارلاسدتک نے صرف اپنے اقتدار کیلئے فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کے خون کو
اشتہار کے طور پر ضرور استعمال کیا ہے تاکہ وہ بھولی بھالی قوم جو قبلہ اول کے تعلق
سے بہت ہی حساس اور جذباتی ہے اور فلسطینی عوام سے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی ہے
اخلاقی طور پر ان کی حمایت کرتی رہے اور بغاوت پر آمادہ نہ ہو ۔مگر ان حکمرانوں نے
کبھی بھی اپنی نظریاتی مماثلت کا ثبوت دیتے ہوئے کسی ایسے اتحاد کی کوشش اور ضرورت
محسوس نہیں کی جو اسرائیل سے فلسطینیوں کی آزادی کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوتا ۔اب
یہی سوال ایران کے تعلق سے بھی کیا جانے لگا ہے ۔جبکہ امریکہ اور روس کے حواریوں
نے بھی اپنے معصوم عرب دوستوں کو بیوقوف بنانے کیلئے مختلف معاہدات اور امن کی پیشکش
کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو زندہ تو رکھا مگر کوئی ٹھوس حل نہیں نکال سکے اب دنیا کے
نئے سوپر پاور چین نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور محمود عباس کو اپنے ملک
میں مدعو کرکے پہلے ہی سے طئے کر رکھا ہے کہ اگر اسے سوپر پاور کے منصب پر قائم
رہنا ہے تو اسرائیل کی داداگیری کو بھی قائم رکھنا ہوگا اور فلسطینیوں کی مظلومیت
کا اشتہار قائم کرتے ہوئے عربوں کی بزدلی سے بھی فائدہ اٹھایا جائے ۔مگر اب حالات
بدل چکے ہیں عرب بہار نے عرب کے نہیں پوری دنیا کے مساوات (Equation )کو بدل دیا ہے ۔اگر چین یا
کسی بھی ملک نے عقل کی بجائے نقل سے کام لیا تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو سوویت
روس کا ہو چکا ہے اور امریکی استعماریت کا ہو رہا ہے ۔مستقبل کی صورتحال جو بھی ہو
مگر ایران اور حز ب اللہ نے ایک ظالم ،جابر اور مکار حکمراں کی حمایت کرکے نہ صرف
شام کے موجودہ بحران کو پیچیدہ بنادیا ہے بلکہ اس نے مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ کی
خالص اسلامی روایت کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے جو انہوں نے 1979 میں ایک پر امن انقلاب
کے بعد قائم کی تھی اور اب ایرانی صدر احمدی نژاد جنہیں عالم اسلام نے اپنے قائد و
رہبر کے طور پر عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا تھا انہوں نے اپنے قد کو چھوٹا
کرلیا ہے ۔افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایران جو کہ عرب بہار کا روح رواں رہا ہے
اسے تو اپنی قائدانہ صلاحیت اور فراست کا استعمال کرتے ہوئے کسی ایسے حل کی طرف بڑھنا
چاہئے تھا جو شامی عوام اور بشار الاسد دونوں کیلئے قابل قبول ہوتا اور ایک عوامی
حکومت میں دونوں کی شراکت داری ہوتی مگر ایران نے ایک ظالم حکمراں کے ساتھ شامی
عوام کے قتل عام میں خود کو ایک فریق کی طرح شامل کرکے تنگ نظری کا ثبوت دیا ہے
اور وہ خود اس شک و شبہات میں مبتلاء ہے کہ کہیں یہ تحریک لبنان اور عراق تک طول
پکڑ کر اس علاقے میں موجود شیعہ آبادی اور ان کی حکومت کیلئے خطرہ نہ بن جائے ۔یہ
خدشہ بھی درست ہو سکتا ہے مگر اس کا حل بھی خالص قرآن وسنت کے احکامات پر یقین و
عمل سے ہی نکالا جاسکتا ہے نہ کہ کسی ظالم کی مدد و حمایت سے جبکہ اس کا اپنا
مستقبل بھی تاریک ہو ۔
افسوس ناک خبر یہ بھی ہے کہ ایران نے حماس کو دی جانے والی 22 ملین ڈالر کی امداد کو اس لئے دینا بند کردیا ہے کہ حماس نے شامی حکمراں کی حمایت کی بجائے شامی عوام کی طرف داری کا اعلان کردیا ہے ۔جبکہ یہ شام اور حماس کا مسئلہ ہے اس تنازعے میں دنیا کے دوسرے کسی مسلم ملک کو دخل نہیں دینا چاہئے ۔ایران اور حزب اللہ کے اس ناقص فیصلے سے عالم اسلام دوخانوں میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور جو فائدہ عرب بہار سے عالم اسلام کو ہونا چاہئے تھا وہ ایک سیاسی کشمکش کا شکار ہو چکا ہے ،جس کا بہر حال فائدہ اسرائیل کو ہی ہو رہا ہے ۔یعنی ایران اور عراق کے درمیان خلیج کی پہلی جنگ میں جو غلطی سعودی عرب اور کویت نے امریکہ کی امداد لیکر کی تھی ایران کی موجودہ قیادت اور اس کے حمایتی شام کے اندر چین اور روس کی مداخلت کے ساتھ وہی غلطی دوبارہ دوہرانا چاہتے ہیں مگر ایران یہ بھول رہا ہے کہ خلیج کی یہ جنگ ایک خالص علاقائی اور سیاسی کشمکش تھی اور ایران کے اس انقلاب سے عراقی حکمراں اور سعودی حکومت دونوں کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا ۔جبکہ عالم اسلام کی جہاندیدہ شخصیات عمائدین کی جماعت منجملہ امت مسلمہ کو اس فساد سے دلی رنج پہنچا تھا۔خود بعد میں سعودی حکومت نے صدام حسین کی حکومت کے خاتمہ کیلئے شیعہ اور سنی کا مسئلہ کھڑا نہیں کیا اور مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ نے بھی عراق ایران کی اس جنگ کو شیعہ اور سنی کے رنگ میں نہیں رنگنے دیا ۔بعد کے حالات میں جب احمدی نژاد صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں بھی عالم اسلام میں شہرت اور عزت ملی اور امت مسلمہ نے اپنا قائد تسلیم کیا کیوں کہ وہ ایران کے دیگر صدور کے برعکس مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ کے زیادہ قریب رہے ہیں اور نظریاتی طور پر ان کی شخصیت شیعہ سنی اتحاد کی علامت کے طور پر مشتہر رہی ہے۔ایک سروے کے مطابق خود سعودی عوام کی اکثریت نے احمدی نژاد کو عالم اسلام کی قیادت کا اہل قرار دیا تھا۔خلیج کی اس پہلی جنگ کے دوران ہمارے سامنے سے ایک اچھی خبر یہ بھی گزرچکی ہے کہ سعودی عرب کے اس وقت کے حکمراں اور پاکستان کے فوجی صدر ضیاء الحق کے درمیان یہ خفیہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستانی حکومت کسی بھی ناگہانی جنگی صورتحال میں سعودی حکومت کی مدد کریگی جسکے عوض سعودی عرب کی حکومت پاکستان کو ایٹمی اسلحہ کی تیاری میں مالی امداد فراہم کریگی ۔اس معاہدہ کے تحت خلیج کی اس جنگ کے دوران سعودی حکومت نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ ایران سے قریب سعودی سرحد پر کچھ پاکستانی فوجوں کو تعینات کرے تاکہ عراقی فوجوں کی مدد کی جاسکے ۔ضیاء الحق نے یہ کہتے ہوئے فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا کہ ہمارا معاہدہ کسی غیر مسلم ملک کی طرف سے ممکنہ حملے کی صورت میں طئے پایا ہے جبکہ ایران ایک مسلم ملک ہے اور یہ عربوں کا آپسی معاملہ ہے نہ کہ عالم اسلام کا ۔یہ واقعہ کہاں تک سچ ہے یا کہاں تک جھوٹ مگر ایران ایک شیعہ ملک ہے سعودی عرب سنی ملک ہے اس کے باوجود اہل دانش اور تحریکی علماء کی یہ سوچ بالکل نہیں رہی ہے کہ دونوں میں کوئی تفریق کی جائے اور ہمارے درمیان مشرکین و ملحدین کو مداخلت کا موقع مل جائے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے اور ہم آج پھر وہی حالات پیدا کررہے ہیں ۔ کچھ سالوں سے ایران کے نیوکلیئر ٹکنالوجی کے معاملے کو لیکر امریکہ اور اسرائیل نے جو بحران پیدا کیا ہے عالم اسلام پوری طرح ایران کے ساتھ رہا ہے اس درمیان یہ بحث بھی چھڑی کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کے جنگی جہازوں کو ایران تک سفر کرنے میں ایک ہزار میل کا سفر طے کرنا ہوگا اور پھر اس درمیان اگر ایران نے خود اسرائیل کو نشانہ بنادیا تو صورتحال بہت سنگین ہو سکتی ہے ایسی صورت میں کیا سعودی عرب اسرائیل کو اپنی فضائی حدود کا استعمال کرنے دیگا ۔نہ صرف سعودی حکومت نے اس خبر کی تردید کی بلکہ ترکی اور پاکستان نے بھی جو کہ امریکہ کے دوست رہے ہیں ایران پر کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی جنگی جہازوں کو پڑاؤ دینے سے انکار کیا ۔
اس کے برعکس ایران اور حز ب اللہ نے جو رخ اختیار کیا ہے یہ ایک ایسی سیاسی غلطی ہے جس کا خمیازہ پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔اور اس طرح ایران غیر دانشتہ طور پر اسرائیلی منصوبے کو بھی تقویت پہنچارہا ہے اور یہ فیصلہ خود اس کے اپنے حق میں بھی نہیں ہے ۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور یہ خبر اخبارات میں کئی مرحلے میں شائع ہو چکی ہے کہ اسرائیل اسد سے نہیں عرب انقلابات سے سے خوفزدہ ہے اور امریکہ نے اس انقلاب کو روکنے میں کوئی پہل نہیں کی اسی لئے پہلی بار اسرائیلی عوام نے اپنے ملک میں امریکی صدر اوبامہ کا اس طرح سے پرجوش استقبال نہیں کیا جیسا کہ اسرائیل کی روایت رہی ہے۔اسرائیل کا فوجی سربراہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اسد اور اس کے قبیلے کو گولان کی پہاڑیوں میں جوکہ اس کے قبضہ میں ہے پناہ دینے کی تجویز بھی رکھ چکا ہے تاکہ مستقبل میں وہ اسرائیل کیلئے کام کرسکیں اسی لئے اسرائیل یہ نہیں چاہتا کہ شام کی حکومت باغیوں کے قبضے میں جائے ۔اسی دوران ہمارے سامنے سے یہ خبر بھی گذر چکی ہے کہ شامی فوجوں نے اسرائیلی فوجوں کی مدد سے گولان پہاڑی کے قریب باغیوں کے قبضے سے ایک سرحدی چوکی پر دوبارہ قبضہ کرلیاہے۔ اس کا مطلب اسرائیل ایک طرف شامی حکومت کیخلاف ہونے کا دعویٰ کررہا ہے اور دوسری طرف درپردہ اسکی مدد بھی جاری ہے ۔اسرائیل یہ سمجھ چکا ہے کہ اب امریکہ اور یوروپ نے اسے مایوس کیا ہے اس لئے اب اس نے روس اور چین کے ساتھ اپنی وفاداری کا سودا کرنا شروع کردیا ہے ورنہ ایسا کیوں ہے کہ خلیج کی دوسری جنگ میں وہی روس اور چین صدام حسین کے معاملے میں خاموش رہتے ہیں اور اسد کے معاملے میں انہیں اسد کے کمیونسٹ نظریات یاد آجاتے ہیں ۔اسرائیل بظاہر روس کی اس حکمت عملی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے آپ کو یوروپی اتحاد میں شامل ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے جبکہ اب وہ ان کے ساتھ نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا بدل رہی ہے اب امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ نعرہ پرانا ہو چکا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی دوستی ایک حقیقت ہے وہ غلط ہیں ۔اسرائیل کی حیثیت پوری دنیا میں ایک دلال کی طرح ہے جو ڈیل کرواتا ہے کرتا نہیں ۔اب عالم اسلام کو چین اور اسرائیل کا سبق یادکرنے کی مشق شروع کردینی چاہئے تاکہ مستقبل کی صورتحال کا مقابلہ کرنے میں انہیں اور بھی آسانی ہو ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ایران اپنے مسلکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے حماس اور فلسطین کے تئیں اپنا نظریہ بدل سکتا جیسا کہ نظر آرہا ہے تو وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی بھی حفاظت نہ کرسکے ۔کیوں کہ اسلامی انقلابی اور یوم القدس کا نعرہ مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ نے دیا تھا جو نہ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی مگر و ہ صرف مسلمان تھے اور اب وہ اس کی حفاظت کیلئے موجود نہیں ہیں ۔ ان للہ و ان الیہ راجعون
عمر فراہی۔09699353811موبائل۔ umarfarrahi@gmail.com
افسوس ناک خبر یہ بھی ہے کہ ایران نے حماس کو دی جانے والی 22 ملین ڈالر کی امداد کو اس لئے دینا بند کردیا ہے کہ حماس نے شامی حکمراں کی حمایت کی بجائے شامی عوام کی طرف داری کا اعلان کردیا ہے ۔جبکہ یہ شام اور حماس کا مسئلہ ہے اس تنازعے میں دنیا کے دوسرے کسی مسلم ملک کو دخل نہیں دینا چاہئے ۔ایران اور حزب اللہ کے اس ناقص فیصلے سے عالم اسلام دوخانوں میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور جو فائدہ عرب بہار سے عالم اسلام کو ہونا چاہئے تھا وہ ایک سیاسی کشمکش کا شکار ہو چکا ہے ،جس کا بہر حال فائدہ اسرائیل کو ہی ہو رہا ہے ۔یعنی ایران اور عراق کے درمیان خلیج کی پہلی جنگ میں جو غلطی سعودی عرب اور کویت نے امریکہ کی امداد لیکر کی تھی ایران کی موجودہ قیادت اور اس کے حمایتی شام کے اندر چین اور روس کی مداخلت کے ساتھ وہی غلطی دوبارہ دوہرانا چاہتے ہیں مگر ایران یہ بھول رہا ہے کہ خلیج کی یہ جنگ ایک خالص علاقائی اور سیاسی کشمکش تھی اور ایران کے اس انقلاب سے عراقی حکمراں اور سعودی حکومت دونوں کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا ۔جبکہ عالم اسلام کی جہاندیدہ شخصیات عمائدین کی جماعت منجملہ امت مسلمہ کو اس فساد سے دلی رنج پہنچا تھا۔خود بعد میں سعودی حکومت نے صدام حسین کی حکومت کے خاتمہ کیلئے شیعہ اور سنی کا مسئلہ کھڑا نہیں کیا اور مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ نے بھی عراق ایران کی اس جنگ کو شیعہ اور سنی کے رنگ میں نہیں رنگنے دیا ۔بعد کے حالات میں جب احمدی نژاد صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں بھی عالم اسلام میں شہرت اور عزت ملی اور امت مسلمہ نے اپنا قائد تسلیم کیا کیوں کہ وہ ایران کے دیگر صدور کے برعکس مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ کے زیادہ قریب رہے ہیں اور نظریاتی طور پر ان کی شخصیت شیعہ سنی اتحاد کی علامت کے طور پر مشتہر رہی ہے۔ایک سروے کے مطابق خود سعودی عوام کی اکثریت نے احمدی نژاد کو عالم اسلام کی قیادت کا اہل قرار دیا تھا۔خلیج کی اس پہلی جنگ کے دوران ہمارے سامنے سے ایک اچھی خبر یہ بھی گزرچکی ہے کہ سعودی عرب کے اس وقت کے حکمراں اور پاکستان کے فوجی صدر ضیاء الحق کے درمیان یہ خفیہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستانی حکومت کسی بھی ناگہانی جنگی صورتحال میں سعودی حکومت کی مدد کریگی جسکے عوض سعودی عرب کی حکومت پاکستان کو ایٹمی اسلحہ کی تیاری میں مالی امداد فراہم کریگی ۔اس معاہدہ کے تحت خلیج کی اس جنگ کے دوران سعودی حکومت نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ ایران سے قریب سعودی سرحد پر کچھ پاکستانی فوجوں کو تعینات کرے تاکہ عراقی فوجوں کی مدد کی جاسکے ۔ضیاء الحق نے یہ کہتے ہوئے فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا کہ ہمارا معاہدہ کسی غیر مسلم ملک کی طرف سے ممکنہ حملے کی صورت میں طئے پایا ہے جبکہ ایران ایک مسلم ملک ہے اور یہ عربوں کا آپسی معاملہ ہے نہ کہ عالم اسلام کا ۔یہ واقعہ کہاں تک سچ ہے یا کہاں تک جھوٹ مگر ایران ایک شیعہ ملک ہے سعودی عرب سنی ملک ہے اس کے باوجود اہل دانش اور تحریکی علماء کی یہ سوچ بالکل نہیں رہی ہے کہ دونوں میں کوئی تفریق کی جائے اور ہمارے درمیان مشرکین و ملحدین کو مداخلت کا موقع مل جائے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے اور ہم آج پھر وہی حالات پیدا کررہے ہیں ۔ کچھ سالوں سے ایران کے نیوکلیئر ٹکنالوجی کے معاملے کو لیکر امریکہ اور اسرائیل نے جو بحران پیدا کیا ہے عالم اسلام پوری طرح ایران کے ساتھ رہا ہے اس درمیان یہ بحث بھی چھڑی کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کے جنگی جہازوں کو ایران تک سفر کرنے میں ایک ہزار میل کا سفر طے کرنا ہوگا اور پھر اس درمیان اگر ایران نے خود اسرائیل کو نشانہ بنادیا تو صورتحال بہت سنگین ہو سکتی ہے ایسی صورت میں کیا سعودی عرب اسرائیل کو اپنی فضائی حدود کا استعمال کرنے دیگا ۔نہ صرف سعودی حکومت نے اس خبر کی تردید کی بلکہ ترکی اور پاکستان نے بھی جو کہ امریکہ کے دوست رہے ہیں ایران پر کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی جنگی جہازوں کو پڑاؤ دینے سے انکار کیا ۔
اس کے برعکس ایران اور حز ب اللہ نے جو رخ اختیار کیا ہے یہ ایک ایسی سیاسی غلطی ہے جس کا خمیازہ پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔اور اس طرح ایران غیر دانشتہ طور پر اسرائیلی منصوبے کو بھی تقویت پہنچارہا ہے اور یہ فیصلہ خود اس کے اپنے حق میں بھی نہیں ہے ۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور یہ خبر اخبارات میں کئی مرحلے میں شائع ہو چکی ہے کہ اسرائیل اسد سے نہیں عرب انقلابات سے سے خوفزدہ ہے اور امریکہ نے اس انقلاب کو روکنے میں کوئی پہل نہیں کی اسی لئے پہلی بار اسرائیلی عوام نے اپنے ملک میں امریکی صدر اوبامہ کا اس طرح سے پرجوش استقبال نہیں کیا جیسا کہ اسرائیل کی روایت رہی ہے۔اسرائیل کا فوجی سربراہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اسد اور اس کے قبیلے کو گولان کی پہاڑیوں میں جوکہ اس کے قبضہ میں ہے پناہ دینے کی تجویز بھی رکھ چکا ہے تاکہ مستقبل میں وہ اسرائیل کیلئے کام کرسکیں اسی لئے اسرائیل یہ نہیں چاہتا کہ شام کی حکومت باغیوں کے قبضے میں جائے ۔اسی دوران ہمارے سامنے سے یہ خبر بھی گذر چکی ہے کہ شامی فوجوں نے اسرائیلی فوجوں کی مدد سے گولان پہاڑی کے قریب باغیوں کے قبضے سے ایک سرحدی چوکی پر دوبارہ قبضہ کرلیاہے۔ اس کا مطلب اسرائیل ایک طرف شامی حکومت کیخلاف ہونے کا دعویٰ کررہا ہے اور دوسری طرف درپردہ اسکی مدد بھی جاری ہے ۔اسرائیل یہ سمجھ چکا ہے کہ اب امریکہ اور یوروپ نے اسے مایوس کیا ہے اس لئے اب اس نے روس اور چین کے ساتھ اپنی وفاداری کا سودا کرنا شروع کردیا ہے ورنہ ایسا کیوں ہے کہ خلیج کی دوسری جنگ میں وہی روس اور چین صدام حسین کے معاملے میں خاموش رہتے ہیں اور اسد کے معاملے میں انہیں اسد کے کمیونسٹ نظریات یاد آجاتے ہیں ۔اسرائیل بظاہر روس کی اس حکمت عملی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے آپ کو یوروپی اتحاد میں شامل ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے جبکہ اب وہ ان کے ساتھ نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا بدل رہی ہے اب امریکہ اور اسرائیل کا مشترکہ نعرہ پرانا ہو چکا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی دوستی ایک حقیقت ہے وہ غلط ہیں ۔اسرائیل کی حیثیت پوری دنیا میں ایک دلال کی طرح ہے جو ڈیل کرواتا ہے کرتا نہیں ۔اب عالم اسلام کو چین اور اسرائیل کا سبق یادکرنے کی مشق شروع کردینی چاہئے تاکہ مستقبل کی صورتحال کا مقابلہ کرنے میں انہیں اور بھی آسانی ہو ۔یہ بھی ممکن ہے کہ اگر ایران اپنے مسلکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے حماس اور فلسطین کے تئیں اپنا نظریہ بدل سکتا جیسا کہ نظر آرہا ہے تو وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی بھی حفاظت نہ کرسکے ۔کیوں کہ اسلامی انقلابی اور یوم القدس کا نعرہ مرحوم آیت اللہ خمینی ؒ نے دیا تھا جو نہ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی مگر و ہ صرف مسلمان تھے اور اب وہ اس کی حفاظت کیلئے موجود نہیں ہیں ۔ ان للہ و ان الیہ راجعون
عمر فراہی۔09699353811موبائل۔ umarfarrahi@gmail.com
0 comments: