تاکہ بشار الاسد کا قتل عام جاری رہے۔۔۔۔!
تبدیلی دنیا کی فطرت میں شامل ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پیدل اور گھوڑا
گاڑیوں کے دور میں اس کی رفتار میں اتنی شدت اور تیزی نہیں واقع ہوا کرتی
تھی ،جیسا کہ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں انٹر نیٹ اور فیس بک نے
دنیا اور انسانی ذہن اور مزاج کو پل پل بدلنا شروع کردیا ہے۔اگر یہ بات
درست ہے اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ اور دلیل بھی اس لئے نہیں ہو سکتی
کیوں کہ مولاناروم ؒ ،اقبال ؒ اور بیشتر مورخین نے اپنے مضامین اور
رباعیوں میں جس یونان و مصر اور روما کی شان و شوکت اور سلطنتوں کے تعلق سے
اظہار خیال کیا ہے ان کی تہذیبیں ہزار وں سال کی تاریخ پر محیط رہی ہیں۔اس
کے بعد خود اسلامی تہذیب و ثقافت اور سیاست کا رعب و دبدبہ بھی تقریباً
ایک ہزار سال تک پوری دنیا پر غالب اور قائم رہا ہے جبکہ اس درمیان جس
ٹکنالوجی کے سہارے برطانیہ ،روس ،فرانس اور امریکہ نے انیسویں صدی کے بعد
بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے عروج کا سفر طے کیا صرف بیسویں صدی کے ایک قلیل
وقفے میں اپنے انجام کو بھی پہنچ گئے ۔اسی طرح مستقبل کے سپر پاور چین کا
نشہ بھی چڑھتے ہی اتر جائے گا ۔غیر فطری طریقہ کار جبر تشدد اور نا انصافی
کے راستے سے جن تہذیبوں اور قوموں نے دنیا پر عروج و بالادستی کا خواب
دیکھا ہے اقبال نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی ...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
تو اب ہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ موجودہ سپر پاور امریکہ بھی وہ امریکہ نہیں رہا جب اسے ویتنام ،صومالیہ،لیبیا،سوڈان اور عراق وغیرہ پر حملہ کرنے کیلئے کسی کی اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں پڑی تھی مگر شام کے معاملے میں امریکی صدر کے ساتھ خود امریکی عوام میں بھی جوش نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ اتنا بھی طاقتور نہیں رہا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج کے بعد نئی نسل کے مزاج اور نظریے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ امریکی سیاستدانوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ ایک بار پھر 9/11 جیسے حادثے کا شکار ہوں یعنی کہیں نہ کہیں وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر نہیں ہیں اور دلچسپی نہیں رکھتے ۔
مصر اور شام کے معاملے میں بیشتر امریکی صحافیوں اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ وہاں کی عوام کو ان کا جمہوری حق ملنا چاہئے اور اگر ان ممالک کے ڈکٹیٹر وں کو عوام کے قتل عام سے نہیں روکا گیا تو دنیا کے حالات اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔مگر امریکہ تنہا یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔اسی طرح روس کے ایک شہری Anna Neistat انا نیٹیٹ جو تنظیم انسانی حقوق کے معاون ڈائریکٹر بھی ہیں انہوں نے نیو یارک ٹائمس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ایک مطبوعہ مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ روسی صدر نے شام کے تعلق سے جو بات امریکیوں کو نہیں بتائی اور نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ بشارلاسد نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا ہے ۔ہزاروں لوگوں کا اغوا کرکے لاپتہ کردیا بلا اشتعال گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ہزاروں لوگ شام کی جیلوں میں تشدد اور تعذیب سے گذارے جارہے ہیں جس کا مشاہدہ میں نے خود پچھلے ڈھائی سال سے شام کے اندر رہ کر کیا ہے ۔اس کے باوجود روس کی حکومت ایک ظالم حکمراں کی ہتھیاروں کے ذریعے مدد کررہی ہے ،جس کا کوئی بھی تذکرہ پوتن کے مضمون میں نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شورش کے دوران باغیوں کے ذریعے بھی کچھ ناانصافیاں ہوئی ہیں مگر ان حالات سے پہلے پر امن احتجاجیوں اور مظاہرین پر گولیاں کس نے چلائیں ۔ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے ٹارچر کس نے کیا ۔مگر اس جبر تشدد اور نا انصافی کے خلاف عالمی طاقتوں کی مسلسل خاموشی نے مخالف طاقتوں کو بھی تشدد پر آمادہ کیا جس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔روس کی یہ تجویز کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے درست ہے ۔مگر کیا اس طرح قتل کئے گئے ، گرفتار کئے گئے ،اور جو گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں ،انہیں انصاف مل جائے گا ؟بغیر کسی ثبوت کے باغیوں کو کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا مجرم ماننا بھی روسی صدر کو زیب نہیں دیتا ۔انہیں ایک مہذب اور نمائندہ ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ ان کے عمل کو عالمی برادری اور روسی عوام میں اچھی نظر سے دیکھا جائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب روس خود آگے بڑھ کر شام کی شورش کے خاتمے کیلئے مثبت قدم بڑھائے ۔بیشک دنیا اسی تبدیلی کا خیر مقدم کرتی ہے جو تعمیری ہو۔(ہندوستان ٹائمس14 ؍ستمبر 2013 )
ہمارے کچھ تحریکی دوست جو امریکہ کو اسلام کا دشمن نمبر 1 مانتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ امریکہ شام پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ خود بھی تنہا پڑجانے اور صہیونی مقتدرہ اور اس کی زرخرید تنظیموں اور سیاستدانوں کے دباؤ میں اپنے فیصلے کو موخر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ شام پر حملہ ہونے سے نیزعالمی طاقتوں کی مداخلت سے کیا واقعی اسرائیل محفوظ ہو جائے گا ؟فری سیرین آرمی کے سربراہ کرنل عبد الجبار العقیدی نے 11 ؍ستمبر کو العربیہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس نظریہ کا جواب دیا ہے کہ عالمی طاقتیں کیمیاوی ہتھیاروں پر گندی ڈیل کررہی ہیں تاکہ اوبامہ کو اس درخت سے بچایا جائے جس پر وہ چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں اور روس اس سیڑھی کو کھینچ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے ۔واضح ہو کہ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق کے بعد اس کو سب سے پہلے ایک ملک کی صورت میں منظوری دینے والا ملک روس ہی ہے ۔لیکن شاید ہمارے دوست تاریخ کے اس بدترین مسلم اور عرب دشمن ملک کو بھلابیٹھے ہیں ۔12 ؍ستمبر کو ہندوستان ٹائمس نے اپنے اداریے میں اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح عالمی طاقتوں کی توجہ کیمیاوی ہتھیاروں کی حوالگی کی طرف موڑدی گئی ،بد قسمتی سے شام کے اصل مسئلہ کی طرف سے یعنی ہر روز اور ہر ہفتے قتل عام کا جو مسئلہ کیمیاوی ہتھیاروں کے حملے سے بھی زیادہ سنگین ہے عالمی برادری کی توجہ وہاں سے ہٹادی گئی ہے۔
اسی طرح 11 ؍ستمبر کے انڈین ایکسپریس میں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے ایک تجزیہ خبر کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امریکی کانگریس میں بہت سے ممبران شام پر اوبامہ کے حملے کی اس لئے بھی حمایت نہیں کررہے ہیں کہ اس طرح شام کی حکومت پر جو لوگ قابض ہونگے وہ بشار الاسد سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیوں کہ باغیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو افغانستان کی طرح طالبان طرز کی حکومت چاہتے ہیں ۔تقریباً یہی نظریہ اسرائیل کے صدر بنجامن نیتن یاہو کا بھی ہے جو یکم ستمبر کے ہندوستان ٹائمس میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بشار الاسد سے کوئی تنازعہ نہیں ہے کیوں کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تصادم سے گریز کیا ہے ۔ اس کے برعکس عرب بہار سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور ہم شام میں شدت پسند اور اعتدال پسند دونوں طبقات کو ناپسند کرتے ہیں ۔مگر ہم نہیں چاہتے کہ اسد کے پاس کیمیاوی ہتھیار ہوں اور اس کی وجہ سے ایران کو طاقت ملے ۔شام کے معاملے میں ایران کے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں یعنی شامی عوام کا قتل عام ہوتا ہے تو ہوتا رہے کیوں کہ بشار الاسد کے جانے سے ایران کو بھی ان لوگوں سے خطرات لاحق ہیں جن سے خود اسرائیل خوفزدہ ہے ۔شام پر حملے کے تعلق سے ہمارے تحریکی دوستوں کے جو مضامین اخبارات میں آئے انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رائے بھی وہی ہے جو ایران اور اسرائیل کی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ابھی بھی امریکہ کو مرحوم آیت اللہ خمینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ہم اسی طرف جھکیں گے جس طرف ایران جھکے گا ۔جبکہ امریکہ اور ایران دونوں کے اپنے موقف میں تبدیلی آچکی ہے ۔آیت اللہ خمینی مرحوم نے امریکہ ،روس اور اسرائیل تینوں کو برائی کا محور اور شیطان کی آنت کہا تھا ۔بعد میں ان کے جانشین سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک شیطان روس سے دوستی کرکے وقت کے سب سے بڑے شیطان اسد رجیم کو اپنا بھائی قرار دے دیا ۔اس کے بعد اصلاح پسند وں کی حکومت میں تھوڑی سی اور اصلاح یہ ہوئی کہ ایران کے وزیر خارجہ نے ہولو کاسٹ کی مذمت کرکے اسرائیل دوستی کا اشارہ دے دیا ۔تیسرے دن ایرانی صدر حسن روہانی نے اپنے فیس بک پر یہودیوں کو نئے دن کی مبارکباد بھیجتے ہوئے اسرائیل کی سلامتی کو جائز ٹھہرایا ۔شاید فراخ دلی اس وجہ سے بھی ہے کہ اسرائیل کے سارے اقدامات خود ایران کے حق میں ہیں ۔ہم اپنے ایک مضمون ’’بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے‘‘ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اسرائیل ماضی کی طرح اپنے مفاد کیلئے ایران سے دوستی کر لے گامگر جس طرح ایران نے اسلامی انقلاب کا مکھوٹا اوڑھ کر شام میں اپنے گھناؤنے کردار کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کیلئے ایرانی حکمراں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔اس طرح ایسا بھی لگتا ہے کہ تمام شیطانوں سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کیلئے ایران پانچویں شیطان سلمان رشدی کے خلاف لگائے گئے اپنے فتوے کو بھی واپس لے لے ۔بیشک تبدیلی آنی بھی چاہئے اور ایران کو اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ایسا کرنے کا حق بھی ہے ۔
دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی نفرت اور دشمنی کے ماحول میں مغرب کی ایک نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔مغرب کی نئی نسل کیا سوچ رہی ہے ،ہم اس کا استقبال کریں یا نہ کریں ،کم سے کم ہماری اسلامی روایت اور تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی قوم کی دوستی اور دشمنی میں حد سے گذر جائیں اور جو ہماری طرف رجوع بھی ہونا چاہے تو ہم اسے پہچان نہ سکیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر اوبامہ بھی امریکہ کے سابق حکمرانوں مختلف نہیں ہیں ،وہ بغض معاویہ میں مبتلاء ہیں اور اگر وہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے تعلق سے ہم ان کے چہرے پر داڑھی اور ٹوپی دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب دارھی اور ٹوپی والے مسلم حکمراں تو مسلمان ہو کر بھی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ہم بہر حال اس فطری نظریے کے قائل ہیں کہ جب دولوگوں کے بیچ میں تنازعہ ہو تو تیسرے کی مداخلت کے بغیر فیصلہ ممکن ہی نہیں ہے ۔جو مسلم دانشور اور تحریکی علماء یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ اور امریکہ کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔انہیں شاید اچھی طرح یہ بھی پتہ ہے کہ جو مسلم ممالک مداخلت کرکے روک سکتے ہیں وہ خود شام کے میدان میں ایک دوسرے کے خلاف فریق کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چلئے اب یہ مداخلت کچھ وقت کیلئے رکی ہوئی بھی لگ رہی ہے اور خدا نخواستہ رک بھی گئی تو پھر؟۔چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ بشار الاسد کا قتل عام زندہ آباد اور اوبامہ کی امداد مرد ہ آباد ۔
عمر فراہی ،موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی ...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
تو اب ہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ موجودہ سپر پاور امریکہ بھی وہ امریکہ نہیں رہا جب اسے ویتنام ،صومالیہ،لیبیا،سوڈان اور عراق وغیرہ پر حملہ کرنے کیلئے کسی کی اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں پڑی تھی مگر شام کے معاملے میں امریکی صدر کے ساتھ خود امریکی عوام میں بھی جوش نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ اتنا بھی طاقتور نہیں رہا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج کے بعد نئی نسل کے مزاج اور نظریے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ امریکی سیاستدانوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ ایک بار پھر 9/11 جیسے حادثے کا شکار ہوں یعنی کہیں نہ کہیں وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر نہیں ہیں اور دلچسپی نہیں رکھتے ۔
مصر اور شام کے معاملے میں بیشتر امریکی صحافیوں اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ وہاں کی عوام کو ان کا جمہوری حق ملنا چاہئے اور اگر ان ممالک کے ڈکٹیٹر وں کو عوام کے قتل عام سے نہیں روکا گیا تو دنیا کے حالات اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔مگر امریکہ تنہا یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔اسی طرح روس کے ایک شہری Anna Neistat انا نیٹیٹ جو تنظیم انسانی حقوق کے معاون ڈائریکٹر بھی ہیں انہوں نے نیو یارک ٹائمس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ایک مطبوعہ مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ روسی صدر نے شام کے تعلق سے جو بات امریکیوں کو نہیں بتائی اور نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ بشارلاسد نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا ہے ۔ہزاروں لوگوں کا اغوا کرکے لاپتہ کردیا بلا اشتعال گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ہزاروں لوگ شام کی جیلوں میں تشدد اور تعذیب سے گذارے جارہے ہیں جس کا مشاہدہ میں نے خود پچھلے ڈھائی سال سے شام کے اندر رہ کر کیا ہے ۔اس کے باوجود روس کی حکومت ایک ظالم حکمراں کی ہتھیاروں کے ذریعے مدد کررہی ہے ،جس کا کوئی بھی تذکرہ پوتن کے مضمون میں نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شورش کے دوران باغیوں کے ذریعے بھی کچھ ناانصافیاں ہوئی ہیں مگر ان حالات سے پہلے پر امن احتجاجیوں اور مظاہرین پر گولیاں کس نے چلائیں ۔ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے ٹارچر کس نے کیا ۔مگر اس جبر تشدد اور نا انصافی کے خلاف عالمی طاقتوں کی مسلسل خاموشی نے مخالف طاقتوں کو بھی تشدد پر آمادہ کیا جس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔روس کی یہ تجویز کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے درست ہے ۔مگر کیا اس طرح قتل کئے گئے ، گرفتار کئے گئے ،اور جو گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں ،انہیں انصاف مل جائے گا ؟بغیر کسی ثبوت کے باغیوں کو کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا مجرم ماننا بھی روسی صدر کو زیب نہیں دیتا ۔انہیں ایک مہذب اور نمائندہ ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ ان کے عمل کو عالمی برادری اور روسی عوام میں اچھی نظر سے دیکھا جائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب روس خود آگے بڑھ کر شام کی شورش کے خاتمے کیلئے مثبت قدم بڑھائے ۔بیشک دنیا اسی تبدیلی کا خیر مقدم کرتی ہے جو تعمیری ہو۔(ہندوستان ٹائمس14 ؍ستمبر 2013 )
ہمارے کچھ تحریکی دوست جو امریکہ کو اسلام کا دشمن نمبر 1 مانتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ امریکہ شام پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ خود بھی تنہا پڑجانے اور صہیونی مقتدرہ اور اس کی زرخرید تنظیموں اور سیاستدانوں کے دباؤ میں اپنے فیصلے کو موخر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ شام پر حملہ ہونے سے نیزعالمی طاقتوں کی مداخلت سے کیا واقعی اسرائیل محفوظ ہو جائے گا ؟فری سیرین آرمی کے سربراہ کرنل عبد الجبار العقیدی نے 11 ؍ستمبر کو العربیہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس نظریہ کا جواب دیا ہے کہ عالمی طاقتیں کیمیاوی ہتھیاروں پر گندی ڈیل کررہی ہیں تاکہ اوبامہ کو اس درخت سے بچایا جائے جس پر وہ چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں اور روس اس سیڑھی کو کھینچ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے ۔واضح ہو کہ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق کے بعد اس کو سب سے پہلے ایک ملک کی صورت میں منظوری دینے والا ملک روس ہی ہے ۔لیکن شاید ہمارے دوست تاریخ کے اس بدترین مسلم اور عرب دشمن ملک کو بھلابیٹھے ہیں ۔12 ؍ستمبر کو ہندوستان ٹائمس نے اپنے اداریے میں اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح عالمی طاقتوں کی توجہ کیمیاوی ہتھیاروں کی حوالگی کی طرف موڑدی گئی ،بد قسمتی سے شام کے اصل مسئلہ کی طرف سے یعنی ہر روز اور ہر ہفتے قتل عام کا جو مسئلہ کیمیاوی ہتھیاروں کے حملے سے بھی زیادہ سنگین ہے عالمی برادری کی توجہ وہاں سے ہٹادی گئی ہے۔
اسی طرح 11 ؍ستمبر کے انڈین ایکسپریس میں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے ایک تجزیہ خبر کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امریکی کانگریس میں بہت سے ممبران شام پر اوبامہ کے حملے کی اس لئے بھی حمایت نہیں کررہے ہیں کہ اس طرح شام کی حکومت پر جو لوگ قابض ہونگے وہ بشار الاسد سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیوں کہ باغیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو افغانستان کی طرح طالبان طرز کی حکومت چاہتے ہیں ۔تقریباً یہی نظریہ اسرائیل کے صدر بنجامن نیتن یاہو کا بھی ہے جو یکم ستمبر کے ہندوستان ٹائمس میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بشار الاسد سے کوئی تنازعہ نہیں ہے کیوں کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تصادم سے گریز کیا ہے ۔ اس کے برعکس عرب بہار سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور ہم شام میں شدت پسند اور اعتدال پسند دونوں طبقات کو ناپسند کرتے ہیں ۔مگر ہم نہیں چاہتے کہ اسد کے پاس کیمیاوی ہتھیار ہوں اور اس کی وجہ سے ایران کو طاقت ملے ۔شام کے معاملے میں ایران کے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں یعنی شامی عوام کا قتل عام ہوتا ہے تو ہوتا رہے کیوں کہ بشار الاسد کے جانے سے ایران کو بھی ان لوگوں سے خطرات لاحق ہیں جن سے خود اسرائیل خوفزدہ ہے ۔شام پر حملے کے تعلق سے ہمارے تحریکی دوستوں کے جو مضامین اخبارات میں آئے انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رائے بھی وہی ہے جو ایران اور اسرائیل کی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ابھی بھی امریکہ کو مرحوم آیت اللہ خمینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ہم اسی طرف جھکیں گے جس طرف ایران جھکے گا ۔جبکہ امریکہ اور ایران دونوں کے اپنے موقف میں تبدیلی آچکی ہے ۔آیت اللہ خمینی مرحوم نے امریکہ ،روس اور اسرائیل تینوں کو برائی کا محور اور شیطان کی آنت کہا تھا ۔بعد میں ان کے جانشین سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک شیطان روس سے دوستی کرکے وقت کے سب سے بڑے شیطان اسد رجیم کو اپنا بھائی قرار دے دیا ۔اس کے بعد اصلاح پسند وں کی حکومت میں تھوڑی سی اور اصلاح یہ ہوئی کہ ایران کے وزیر خارجہ نے ہولو کاسٹ کی مذمت کرکے اسرائیل دوستی کا اشارہ دے دیا ۔تیسرے دن ایرانی صدر حسن روہانی نے اپنے فیس بک پر یہودیوں کو نئے دن کی مبارکباد بھیجتے ہوئے اسرائیل کی سلامتی کو جائز ٹھہرایا ۔شاید فراخ دلی اس وجہ سے بھی ہے کہ اسرائیل کے سارے اقدامات خود ایران کے حق میں ہیں ۔ہم اپنے ایک مضمون ’’بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے‘‘ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اسرائیل ماضی کی طرح اپنے مفاد کیلئے ایران سے دوستی کر لے گامگر جس طرح ایران نے اسلامی انقلاب کا مکھوٹا اوڑھ کر شام میں اپنے گھناؤنے کردار کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کیلئے ایرانی حکمراں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔اس طرح ایسا بھی لگتا ہے کہ تمام شیطانوں سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کیلئے ایران پانچویں شیطان سلمان رشدی کے خلاف لگائے گئے اپنے فتوے کو بھی واپس لے لے ۔بیشک تبدیلی آنی بھی چاہئے اور ایران کو اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ایسا کرنے کا حق بھی ہے ۔
دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی نفرت اور دشمنی کے ماحول میں مغرب کی ایک نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔مغرب کی نئی نسل کیا سوچ رہی ہے ،ہم اس کا استقبال کریں یا نہ کریں ،کم سے کم ہماری اسلامی روایت اور تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی قوم کی دوستی اور دشمنی میں حد سے گذر جائیں اور جو ہماری طرف رجوع بھی ہونا چاہے تو ہم اسے پہچان نہ سکیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر اوبامہ بھی امریکہ کے سابق حکمرانوں مختلف نہیں ہیں ،وہ بغض معاویہ میں مبتلاء ہیں اور اگر وہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے تعلق سے ہم ان کے چہرے پر داڑھی اور ٹوپی دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب دارھی اور ٹوپی والے مسلم حکمراں تو مسلمان ہو کر بھی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ہم بہر حال اس فطری نظریے کے قائل ہیں کہ جب دولوگوں کے بیچ میں تنازعہ ہو تو تیسرے کی مداخلت کے بغیر فیصلہ ممکن ہی نہیں ہے ۔جو مسلم دانشور اور تحریکی علماء یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ اور امریکہ کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔انہیں شاید اچھی طرح یہ بھی پتہ ہے کہ جو مسلم ممالک مداخلت کرکے روک سکتے ہیں وہ خود شام کے میدان میں ایک دوسرے کے خلاف فریق کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چلئے اب یہ مداخلت کچھ وقت کیلئے رکی ہوئی بھی لگ رہی ہے اور خدا نخواستہ رک بھی گئی تو پھر؟۔چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ بشار الاسد کا قتل عام زندہ آباد اور اوبامہ کی امداد مرد ہ آباد ۔
عمر فراہی ،موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com
0 comments: