الیکشن 2014 :سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے ،مہرے تبدیل کئے جارہے ہیں

5:58 PM nehal sagheer 0 Comments


الیکشن 2014 کی ساری تیاری ہو چکی ہیں سیاسی مہاشے کچھ اپنے خول سے نکلنے لگے ہیں تو کوئی اپنے خول میں واپس جارہے ہیں ۔جس نے کھلے عام مسلم دشمنی کا وطیرہ اپنا رکھا تھا وہ مسلمانوں کا مسیحا بننے کی تگ و دو میں ہے ۔جو آزادی کی صبح سے ہی مسلم نوازی اور مسلم مسیحائی کا دعویدار تھا اس نے مسلم نوجوانوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑ دیا ۔کل ملا کر سیاست کے اکھاڑے میں سارے سیاسی پہلوان اتر چکے ہیں ۔نام نہاد مسلم قائدین کی قیمت لگائی جارہی ہے کہ کون کتنے میں مسلم ووٹ کا سودا کرئے گا ۔ہزاروں سال کی سنسکرتی کا راگ الاپنے والے ۔اجنتا اور کھجوراہو کے وارث سیاست میں بھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنی کہ یہ مورتیاں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان مورتیوں کو تراشنے والے کوئی اور تھے ۔اور یہ سیاست داں سیاست کے اس دلدل کے خود کھلاڑی ہیں ۔ان کو کسی نے نہیں تراشا ہے ۔مسلمانوں کے خون کی ارزانی پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔مسلم نوجوانوں کی تیرہ شبی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔نئے علاقے نئے امکانات تلاش کرلئے گئے ہیں ۔مسلم قائدین (اندھے بہرے گونگے جیسے بھی )ان سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہیں ۔کوئی کانگریس میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پہلے کانگریس کو ہدف تنقید بناتا ہے پھر کانگریس کی شکایت محبت آمیزطریقوں سے کرتا ہے تاکہ کوئی سیٹ کنفرم ہو جائے ۔قصور ان کا بھی کیا ہے وہ پلے ہی ہیں کانگریس نوازی اور کانگریس نوازوں کے سائے میں تو وہ کانگریس کے خلاف جا بھی کیسے سکتے ہیں ۔مسلمانوں میں تذبذب ہے ۔اضطراب ہے بے چینی ہے ۔حقیقت عوام پر پوری طرح منکشف ہے۔ایک عام اور ان پڑھ مسلم نوجوان بھی حالات کو سمجھ رہا ہے ۔آپ اس سے ملیں پوچھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔اس کے سوچنے کا یہ انداز خدا کرے قائم رہے ۔اگر ایسا ہی رہا اور الیکشن تک قائدین نے کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کیا تو چناؤ نتائج بالکل ایسے ہی ہونگے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہوں ۔
عام طور پر الیکشن کے قریبی سال میں ہی کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وعدوں کی رنگ برنگی برسات شروع کی جاتی ہے ۔ریاست ہو کہ مرکز سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو وعدوں کے لالی پاپ سے بہلانے کے علاوہ ان کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس کا بھوت اور مودی جیسے خطرناک عفریت ہندوستان میں ہیں کانگریس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔قائدین سے بات کرلیجئے مسلم تنظیموں سے بات کر لیجئے سب ایک پوائنٹ پر متفق کہ مسلمانوں کی بدحالی ان کے قتل عام ان کی بے آبروئی کیلئے کانگریس کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے ۔65 سالوں سے یہی ہو رہا ہے ۔آگے جہاں تک مسلمانوں کی خواب غفلت کی انتہا رہے تب تک یہی کہانی رقم ہو تی رہے گی ۔نہ مسلمانوں میں اتحاد ہوگا اور نہ ہی ان کی بے وزنی ختم ہوگی ۔کچھ امیدیں کی جاسکتی ہیں تو صرف اس نوجوان نسل سے جو اعلیٰ اور جدید تعلیم کے ساتھ دین سے بھی کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے ۔روشنی تو اسے ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے حاصل ہو گی ۔ لہٰذا اب ساری توجہ نوجوان نسل کی طرف ہی مبذول کرنا لازمی ہے ۔دشمن بھی اس سے واقف ہے اسی لئے وہ نوجوان نسل کو فرضی بم دھماکوں اور فرضی معاملات میں پھنسا کر اس کی زندگی کو تاریکی میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔تاکہ قوم کبھی سنبھل ہی نہ سکے ۔لیکن ان کی چال ہے اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور یقیناً اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہونے والی ہے ۔
پٹنہ بم دھماکہ ہو کہ نریندر مودی کا سردار پٹیل کے بارے میں دیاگیا گمراہ کن بیان سب اسی 2014 کے الیکشن کے سوچے سمجھے ہتھکنڈے ہیں ۔اب انہیں سازش بھی نہیں کہیں سازش چھپے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن یہاں تو سارے معاملات دوپہر کی دھوپ میں انجام دئے جارہے ہیں کہیں کوئی پردہ نہیں ہے ۔آخر ایک تباہ حال بے وزن اور لٹی پٹی قوم کے خلاف کچھ کرنے کیلئے کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کون ہے جو اس کی سدھ بدھ لیگا ۔کون ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس قوم کی بے بسی کا حساب مانگے گا ۔اس لئے اب اس کے خلاف کھلے عام منصوبے بنے جاتے ہیں اور بھری دوپہر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔سردار پٹیل کون تھے ان کے منصوبے کیا تھے یہ کوئی چھپی ہوئی کہانی نہیں ہے ۔لیکن قصداً ان کا نام اچھال کر کانگریس کے ذریعے ان کو سیکولر اور غیر فرقہ پرست یا روادار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آخر مسلمان پٹیل کے ان بیانات کو کیسے بھول جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جنگ آزادی کے دوران دئے اور مسلم معاملات میں ٹانگ اڑائے جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں نکلا۔مسلمان حید ر آباد کا پولس ایکشن بنام مسلمانوں کا قتل عام کیسے بھول جائے گا ۔ پٹیل کو کانگریسی تو کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال انہیں روادار اور سیکولر نہیں کہا جاسکتا ۔انہیں کے تو جانشین ہیں مودی پھر مودی کو بھی گجرات 2002 کے قتل عام کیلئے کیوں نہیں معافی دیدیتے ۔کیا صرف اس وجہ سے پٹیل روادار ہیں کہ وہ کانگریسی تھے یا پہلے وزیر داخلہ اور مودی کو صرف اس لئے مجرم گردانا جائے کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔یہ کیسا دوغلہ پن ہے ۔غیر کرے تو کرے اپنے بھی کیا اسی سر میں سر ملائیں گے ۔
قائدین اپنی قیادت ثابت کرنے کی کوشش کریں عمل سے ،صرف بیانات سے نہیں ۔وہ ثابت کریں کہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ ملت کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کے بھی بہی خواہ ہیں ۔پانچ اور دس ہزار میں اپنی حمایت بانٹنا بند کریں جس کی قیمت آج سے بیس پچیس سال پہلے تک تیس ہزار تھی (واضح ہو کہ میں نے یہ باتیں ممبئی کے تناظر میں لکھی ہیں ممکن ہو دوسری جگہوں کا ریٹ اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے)۔ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے لیکن ہمارے قائدین کے حمایت کی قیمت گھٹ چکی ہے ۔پچھلے دنوں اعظم گڑھ سے کوئی ایم ایل اے صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد نہ سمجھیں ۔سچ ہے ہم کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد کیوں سمجھنے لگے ۔کسی صحافی دوست نے کہا کہ ممبئی کے ایک نامی گرامی ایم ایل اے جو کہ منسٹر بھی ہیں کانگریس کے شہزادے کیلئے اسٹیج بنانے میں نوکروں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔اس کے برعکس دوسرے ایم ایل اے آئے اور شاہوں کی طرح اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔میری زبان سے بے ساختہ نکلا جب اپنی ملت میں اپنا اعتماد بحال نہیں کریں گے تو یہ کیا ہے انہیں جوتے اور ٹوائلیٹ بھی صاف کرنے ہونگے ۔جھوٹ بول کر قوم کو شاید بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اپنا وقار بلند نہیں کیا جا سکتا ۔قوم کیلئے کام کریں گے جس کیلئے قوم نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے تو قوم ایسے قائد کو سر پر بٹھاتی ہے اور قوم کے ووٹوں سے جیت کر قوم کو نظر انداز کرنے والے اس سے بھی بھیانک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں ۔لیکن انسان کو وقتی لذت اور وقتی فائدہ بہت محبوب ہے اسی وقتی لذت اور وقتی نفائدوں نے میر جعفر،میر صادق اور السیسی جیسے لوگ پیدا کئے ۔ تاریخ ان کے انجام بد کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے ۔قوم نے اپنے ہیرو کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور تاریخ میں ان کے بھی واقعات رقم ہیں ۔اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ گیدڑ کی سو سالہ ذلت آمیززندگی جینا چاہتا ہے یا شیر کی ایک روزہ شاندار زندگی۔ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اپنا نام پکارے جانے یا اس کے ذریعے عزت دینے سے کسی کو عزت نہیں ملتی عزت ساری کی ساری اللہ کیلئے اس کے رسولﷺ کیلئے اور مومنوں کیلئے ہے ۔حقائق واضح ہے اور کسی بھی طرح کے ابہام سے پاک بھی اس کو جو جتنا جلدی سمجھ لے وہ اتنا ہی بہتر ہے ۔وقت کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔اور نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا ہے لیکن کوئی میر جعفر یا میر صادق کا نام عزت سے لینے والا نہیں۔ ٹیپو سلطان کو ان کے دشمن نے بھی ان کی بہادری اور جوانمردی کی تحسین کرتے ہوئے ان کا جنازہ توپوں کی سلامی کے ساتھ اٹھایا تھا ۔جو اللہ کیلئے دنیا سے لاپرواہ ہوتے ہیں اللہ انہیں اسی طرح عزت و وقار عطا کرتا ہے ۔اب کسے کون سی زندگی عزیز ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com

0 comments: