اودھنامہ ممبئی کی مدیرہ کی گستاخی نادانستہ نہیں ہے
لیجئے
صاحب اودھنامہ ممبئی کی مدیرہ نے اعتذار شائع کرکے اپنی غلطی کا اعتراف
کرلیا ۔لیکن کیا یہ معاملہ اتنا ہی سیدھا ہے جتنا کہ یہ نظر آتا ہے ۔میری
جانکاری کے مطابق جس وقت مدیرہ موصوف یہ دریدہ دہنی کرنے کی جسارت کررہی
تھیں اس وقت آپریٹر نے اعتراض کیاتھا ۔لیکن انہوں نے آپریٹر کی بات کو نظر
انداز کرکے اس گستاخ کارٹون کی اشاعت کی ۔پیج تیار ہونے کے بعد پریس جانے
سے پہلے ایک اور رکن اودھنامہ نے میڈم کو ٹوکا اور یہ کہا کہ اس سے کل
ہنگامہ ہو جائے گا ۔اس بات پر انہوں نے اس رکن کو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ہمیں
براڈ مائنڈیڈ ہونا چاہئے ‘‘ چپ کرادیا ۔حالانکہ انہوں نے اپنے اعتذار میں
نادانستہ لفظ کا استعمال کیا ہے جو سراسر جھوٹ ہے انہوں نے جان بوجھ کر
ایسا کیا کیوں کہ وہ اسی ذہنیت کی پروردہ ہیں ۔میں بھی اس واقعہ کے ایک دن
پہلے یعنی ۱۵؍جنوری تک اودھنامہ سے وابستہ تھا لیکن ان کی آمریت اور
ڈائریکٹر کے استحصالی طریقہ کار کی وجہ سے میرا تنازعہ شروع ہوا اور مدیرہ
کی گستاخانہ کارروائی سے ایک دن پہلے میں نے اودھنامہ چھوڑ دیا ۔ویسے پہلے
اسی چارلی ہیبڈو کے میٹر پر میرا ان سے تنازعہ ہوا بھی میں چارلی ہیبڈو کی
کسی بھی خبر کے ساتھ گستاخ کارٹون شائع کرنے والے جیسے الفاظ کا اضافہ
چاہتا تھا لیکن اس کو انہوں نے کاٹ دیا اور خبروں کو اس انداز سے لگاتی
تھیں جیسے وہ چارلی ہیبڈو کی حمایتی ہوں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی
ہو۔دراصل اس اخبار کے ذریعہ ادیب اور شاعروں کے اس گروپ کے ہاتھوں وہ کھیل
رہی تھی جو دہریت پھیلانے کے لئے ہی جانا جاتا ہے ۔اس میں ایک ناول نگار
بھی شامل ہے جو کہ ایک فحش ناول لکھنے کے جرم میں مقدمہ کا سامنا بھی کیا
اور انجمن اسلام سے اپنی ملازمت سے بھی اسے ہاتھ دھونا پڑا ۔وہ شخص پاک و
ہند کے ان ادیب و شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں میں مصروف ۔وہ
ہر ایسے ادیب اور شاعروں کو ذلیل کرنے اور ان کے خلاف مہم چلانے کی کوشش
بھی اسی اخبار کے ذریعے کررہا تھا۔چنانچہ عبدلستار دلوی کے خلاف کئی قسطوں
میں مضامین کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا ۔مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کے اردو
اکیڈمی میں رہتے ہوئے ان لوگوں کو ایوارڈ نہیں ملا۔
اخبار
کی نامقبولیت کی وجہ سے ردعمل ذرا دیر میں ہوا اور شام تک ہی ان پر ایف
آئی آر درج ہو پائی ۔لیکن اس میں کئی قانونی معاملات ہیں ۔اخبار کی پرنٹ
لائن میں ابھی تک یونس صدیقی کا نام جارہا ہے جبکہ کئی مہینے ہو گئے جب
یونس صدیقی اس سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں ۔اب اودھنامہ ممبئی میں صرف
دیپک مہاترے اور شیرین دلوی ہی دو ذمہ دار لوگ ہیں ۔حالانکہ مسلمانوں نے اس
پر قانونی حد میں رہتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بروقت
گرفتاری نہیں ہونے سے کچھ شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ کیا انتظامیہ انہیں بچانے
کی کوشش کررہی ہے ۔شیریں دلوی کوئی معصوم اور نو عمر بچی نہیں کہ انہیں
معلوم نہیں کہ وہ کیا شائع کرنے جارہی ہیں ۔شاید یہی سبب ہے کہ اس پر ایک
الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ دار مسلم صحافی نے لکھا’’جس عورت کو عام کارٹون اور
اہانت رسول پاک کے بیچ کا فرق نہ معلوم ہو اس سے اور کیا امید۔نام نہاد
براڈ مائنڈیڈ اور ایکسٹرا کمرشیل مائنڈ ہونے کا یہی نتیجہ ہے۔دین سے دوری
اور مسلمان بھائیوں کو پچھڑا سمجھتی رہی ہوں گی محترمہ ۔تسلیمہ نسرین کی
راہ پکڑنا اور شارٹ کٹ پبلسٹی کا راستہ اپناناانہیں مبارک۔ہم انکے خیالوں
کی مذمت کرتے ہیں۔کسی اور زبان کے اخبار پر ہمارا زور نہیں مگر اردو اخبار
میں ریپرنٹ ہونا شرمناک ہے ‘‘۔ایک دوسرے صحافی نے بھی کم بیش اسی طرح کے رد
عمل کا اظہار کیا وہ کہتے ہیں’’اس وقت کسی نے اسے ٹوکا یا نہیں ٹوکا ہووہ
معنی نہیں رکھتا ،یہ غلطی کوئی عام خیال رکھنے والے نے نہیں کی ،جبکہ ایسے
ماحول میں معاملہ عروج پر ہو ،تو ہر خاص و عام کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے
کی وہ کیا کر رہا ہے یا کر رہی ہے‘‘۔
اردو
پتر کار سنگھ کے ذمہ دار اظہار احمد کہتے ہیں کہ جب وہ ممبرا میں اس کے
خلاف رپورٹ درج کرانے گئے تو وہاں معلوم ہوا کہ جب اس خاتون صحافیہ کو روکا
گیا تو اس نے کہا کہ ’’کل دیکھنا تھوڑی کاپی جلائی جائے گی اور پبلسٹی ملے
گی‘‘۔تو یہ سارا معاملہ گھٹیا پبلسٹی کا ہے ۔شاید کچھ لوگ مسلمانوں جیسا
نام رکھ کر مسلم معاشرے میں دہریت پھیلانے کے کام پر معمور ہیں ۔سنا ہے آر
ایس ایس کی نام نہاد مسلم ونگ راشٹریہ مسلم سنگھ نے بھی اپنا نشانہ مسلم
عورتوں کو ہی بنانے کا حکم خفیہ طور پر جاری کیا ہے اور بکاؤ اور ایمان
فروش لوگ اس کام میں پوری تندہی کے ساتھ لگ گئے ہیں ۔ہم اردو پتر کار سنگھ
کی جانب سے کئے گئے اس مطالبہ کی پرزور حمایت کرتے ہیں کہ اخبار کی مالک
تقدیس فاطمہ فوراًاس منجمنٹ سے اخبار واپس لے کر کسی ذمہ دار منجمنٹ کے
حوالے کریں ۔تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اخبار کی اس دریدہ دہنی کے بعد
بھی دوسرے دن اخبار کیوں کر شائع ہوا جبکہ اس میں ادارتی اسٹاف سارے مسلمان
ہی ہیں ۔ (دی انڈین پریس
نہال صغیر۔ممبئی ۔موبائل:9987309013
0 comments: