اروند نے مایوسی میں امیدوں کے چراغ روشن کئے

6:52 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر،ممبئی۔ موبائل:9987309013

اروند نے مایوسی میں امیدوں کے چراغ روشن کئے
عام انتخابات ۲۰۱۴ سے پہلے بی بی سی کے نمائندے کو انٹر ویو دیتے ہوئے منی پور کی آئرن لیڈی ایروم شرمیلا نے کہا تھا ’’کانگریس کی طرف سے لوک سبھا الیکشن کی پیش کش کو ٹھکرادیا کیوں کہ سیاست میں داخل ہونا نہیں چاہتی لیکن عام آدمی پارٹی سے بہت امید ہے ۔اروند کیجریوال کی سربراہی میں ۴۹ دن کی دلی حکومت کے کام سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔وہ سچ مچ بد عنوانی سے لڑنا چاہتے ہیں۔ان کی حکومت میں لوگوں نے ایک تبدیلی محسوس کی ہے‘‘۔عام آدمی پارٹی کی حالیہ تاریخی کامیابی جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ایروم شرمیلا کی ان امید افزا باتوں سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ساٹھ سال سے ہندوستانی جمہوریت کے خاردار صحرا میں عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال نے سیدھی اور سچی بات سے الیکشن لڑنے کی بنیاد رکھ کر اور زمینی وعدے کرکے عام آدمی کے دلوں میں کتنی امیدیں جگائی ہیں۔اسی امید کا نتیجہ عوام کاحالیہ سیلاب تھا جس نے اروند کی سچائی پر یقین کرکے کسی کے بھی گمراہ کن اعلانات اور جھوٹے وعدوں میں نہ بہتے ہوئے تاریخ رقم کرنے کی شاندار پہل کی ہے ۔کہتے ہیں کہ جب رات زیادہ سیاہ ہو جائے تو سمجھ لو کہ عنقریب صبح کا سپیدہ طلوع ہونے والا ہے ۔ہندوستانی سیاست میں بھی پچھلے پینسٹھ سالوں سے زیادہ سے سیاہی چھائی ہوئی تھی وہ اس وقت اور زیادہ گہری ہو گئی جب اچھے دنوں کے دلفریب وعدوں کے ساتھ مودی حکومت براجمان ہوئی ۔جس نے اپنے آپ کو پردھان سیوک کہہ کر اور کانگریس کی بے وقوفی کی وجہ سے چائے والا جیسے عام فہم اور عام آدمی کو مرعوب و متاثر کرنے والے الفاظ سے خوب شہرت کمائی لیکن ان کی پول اس وقت کھل گئی جب لاکھوں سے تیار شدہ اپنا نام لکھا ہوا سوٹ زیب تن کیا۔یہ اس ملک کے وزیر اعظم کے کتھنی اور کرنی میں واضح فرق کا کھلا ثبوت تھا جسے آسانی سے عوام کی نظروں اور ان کی یادداشت سے اوجھل نہیں کیا جاسکتا ۔کسی نے کہا ہے کہ ’’جمہوریت وہ کیچڑ ہے جس میں صرف کنول ہی کھل سکتا ہے یاہاتھ ہی گندے ہو سکتے ہیں۔نہ کنول میں خوشبو ہوتی ہے ،اور خوبصورتی بھی دور سے ہی نظر آتی ہے ،قریب آنے پر نہ گلاب کی طرح خوشبو اور نہ ہی خوبصورتی‘‘۔چنانچہ ہندوستانی جمہوریت کے کیچڑ میں کنول ہی کھِلے یا ہاتھ گندے ہوئے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس نظام سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلیا اس کا ثبوت ہے کہ پیتیس سے پینتالیس فیصد لوگوں کا ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لینا ہے ۔حالیہ دلی الیکشن سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ اس کیچڑ میں صرف کنول ہی نہیں کھِلتے بلکہ اس میں مینگروو جیسے خوشبو دار اور سود مند پودے بھی کبھی کبھی اگ سکتے ہیں لیکن ہاتھ کو گندہ ہونے سے پھر بھی نہیں بچا سکتے۔
اروند کیجریوال نے شاندار کامیابی کے بعد اپنے کیڈر اور عوام کے ایک انبوہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس جیت سے ہمیں خوف محسوس ہو رہا ہے۔عوام نے جس امید کے سہارے ہمیں یہ جیت دلائی ہے اب اس پر پورا اترنا ضروری ہے‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے عوام چھ دہائیوں سے زیادہ سے سیاسی پارٹیوں اور سیاسی بازیگروں کے دام میں الجھ کر اپنا سب کچھ گنوا چکے ہیں ۔اسی لئے آج ملک کا دو تہائی سے زیادہ خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔ مجھے حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے رکن نے بتایا تھا کہ وہ ایک بات چھتیس گڑھ کے دورے پر تھے وہاں کے جو حالات انہوں نے بیان کئے وہ ناقابل یقین حد تک سچ ہیں ۔لوگوں کی فی کس آمدنی دس سے پندرہ روپئے سے زیادہ نہیں اور سو اور پچاس کا نوٹ انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔
ہندوستانی سیاسی جمہوری نظام میں منافقت بھی ایک بڑی خرابی ہے ۔کیجریوال کی شاندار کامیابی کی خبر کے بعد وزیر اعظم مودی نے انہیں فون کرکے مبارکباد دی اور دلی کی ترقی کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔لیکن دور وز کے بعد ہی کسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بغیر نام لئے وزیر اعظم نے کیجریوال کے ذریعے عوام کو سستی بجلی دینے کے وعدے کا مذاق اڑایا۔اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کا کیجریوال کو دلی کی ترقی میں مدد کا وعدہ محض خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ۔ایک بات اور بھی کہ مودی نے اس وقت اس لئے کیجریوال کو مبارکباد پیش کی کیوں کہ سبھی میڈیا چینلوں پر صرف اور صرف کیجریوال اور ان کی ٹیم نیز عام آدمی پارٹی ہی چھائے ہوئے تھے ۔ایسے میں میڈیا میں آنے اور کیجریوال فیکٹر کے بیچ میں اپنی بات پہنچانے اور کیجریوال کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش اپنے زر خرید صحافیوں کے ذریعے واحد راستہ تھا ۔یہ کام انہوں نے اپنے میڈیا صلاح کاروں کے مشورہ کے مطابق ہی کیا ہوگا ۔
بہر حال ہم بات کررہے ہیں اس امید کے کرن کی جس کی وجہ سے مایوس لوگوں میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔زیر حراست لوگوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ایروم نے بھی پچھلے تیرہ سال سے ووٹ نہیں دیا ہے۔لیکن آپ فیکٹر نے مایوس سے مایوس دلوں میں بھی امیدوں کی کرن روشن کردی ہے یہی سبب ہے کہ ایروم بھی ووٹنگ میں حصہ لینے کی خواہش رکھنے لگی ہیں’’پچھلے دنوں میں چناؤ سے کوئی امید نہیں ہوتی تھی لیکن عام آدمی کا کام دیکھنے کے بعد مجھے اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھ میں آنے لگی ہے‘‘۔عام آدمی پارٹی یا اروند اور ان کے ساتھیوں کے عروج سے پہلے تک ان کے لئے سیاستداں کی حیثیت ’’بے شرم لوگ‘‘ کی سی ہے جو کہ انسانی حقوق پر ضرب لگانے والا سیاہ قانون افسپا کو ہٹانے میں ناکام ہیں۔کیجریوال نے اس شکل کو بدلنے کی پہل کی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے بہت سے زمینی وعدوں میں ایک وعدہ بٹلہ ہاؤس انکائنٹر کی تحقیقات کا بھی ہے کیوں کہ یہ وہ نکتہ ہے جہاں ایک خاص طبقہ اسے صرف دیش بھکتی کی نظر سے دیکھتا ہے ۔اس قتل میں ایک پولس انسپکٹر بھی مارا گیا تھا ۔بس دیش بھکتی کی دہائی دینے والوں کی نظر میں یہی ایک بات کافی ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ ایک انکاؤنٹر تھا۔پچھلی ۴۹ دنوں کی حکومت میں بھی ان پر اس کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا ۔اس سلسلے میں بٹلہ ہاؤس قتل پر سیاست کرنے والے آصف محمد خان کو امانت اللہ خان نے بھاری اکثریت سے ہرایا۔وہی آصف محمد خان جو عام آدمی پر بٹلہ ہاؤس قتل کے لئے تحقیقات کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے اور اسے بی جے پی کا ایجنٹ اور جانے کیا کچھ کہہ رہے تھے اس سے قبل کانگریس کی حکومت میں خاموش رہے ۔انجام کار عوام نے ان کی منافقت کو سمجھ کر اس الیکشن میں دھول چاٹنے پر مجبور کردیا ۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم ووٹروں کو اب قوم کے نام پر جذباتی نعروں سے الو نہیں بنایا جاسکتا۔وہ اب عملی اقدام چاہتا ہے۔لیکن مسلمانوں کو ورغلانے اور ان کو عام آدمی پارٹی کی طرف سے گمراہ کرنے کے لئے سیاسی مافیا میدان میں پوری قوت سے آئیں گے۔مسلمانوں کو یہاں اپنے فہم و تدبر کا ثبوت دینا ہوگا اور بہت منصوبہ بند طریقے سے کام کرنا ہوگا ۔مسلم لیڈر شپ جو جیسی بھی ہے اسے اس وقت اپنے بھرپور شعور کا ثبوت دینا ہوگا۔دلی کا پیغام دلی میں ہی گھٹ کر نہ رہ جائے بلکہ اسے ملک گیر پیمانے پر پھیلانے اور کارآمد بنانے کا کام صرف مسلمان کر سکتے ہیں ۔اگر ایروم شرمیلا ان سیاستدانوں کو ’’بے شرم لوگ‘‘ کہتی ہیں تو اس کی وجہ ہے۔وہ یوں ہی نہیں کسی پر الزام لگاتی ہیں وہ اس سسٹم سے پچھلے چودہ سال سے جوجھ رہی ہیں جس کی شہادت ہم میں سے ہر شخص دے گا۔یاد رہے کہ قدرت بار بار موقع نہیں دیتی ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے مسلمانوں ،ملی تنظیموں اور قائدین کا خود احتسابی کے دور سے گزرنا لازمی ہے۔
 
نہال صغیر،ممبئی

0 comments: