عام آدمی کے ادھورے انقلاب کا جشن
عام آدمی کے ادھورے انقلاب کا جشن
عام آدمی نے ہمیشہ کمال دکھایا ہے اور منگل ۱۰؍فروری کو ایک بار پھر عام
آدمی پارٹی کی طاقت نے دلی کے دنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا۔لیکن ہمیں
عام آدمی کی اس کامیابی سے بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔عام آدمی
دراصل ایک ایسے رتھ پرسوار بھیڑ کی طرح ہے جس کی باگ ڈور ہمیشہ خاص آدمی کے
ہاتھوں میں ہوتی ہے۔خاص آدمی سے مراد آپ سماج کے سرمایہ دار،اعلیٰ
خاندان،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ارباب اقتدار کو بھی لے سکتے ہیں ۔انہوں نے
جب اپنے اسی اعلیٰ مقام اور خاصیت کے لئے عام آدمی کا استحصال کیا ہے تو
سماج میں ایک طرح سے فساد اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔یہ بھی سچ ہے
کہ عام آدمی کی اس بے چینی کو اکثر انہیں خاص اور طبقہ اشرافیہ کے چند
مخلص اور ایماندار افراد نے ہی محسوس کیا تو ایک مدت تک امن اور سکون کا
ماحول بھی دیکھا اور محسوس کیا گیا ہے ۔لیکن یہ تحریکیں بھی زیادہ دیر پا
ثابت نہیں ہوئیں تو اس لئے کہ اقتدار پر دوبارہ پھر وہی خاص لوگ ہی قابض
رہے ہیں یا عام لوگوں میں سے جن لوگوں نے اقتدار اور حکومت کا مزہ چکھا وہ
لوگ بھی خاص میں شمار ہونے لگے یا خاص ہو گئے ۔خاص ہونا یا اعلیٰ تعلیم
یافتہ ہونا یاسیاست میں داخل ہونا اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنا کوئی
معیوب بات نہیں ہے ۔یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ اپنی
محنت جرات اور جد وجہد کی بدولت یہ مقام حاصل کرتے ہیں ۔مگر خاص آدمی کا
طور طریقہ اکثر عیش و عشرت اور آسودہ زندگی سے بہت قریب ہوتا ہے ۔اور با
لآخر یہ ماحول مخلص اور ایماندار لوگوں کو بھی خرافات اور برائی میں ملوث
کر دیتا ہے ،یا اگر وہ نہیں ہو پاتے تو ان کی دوسری نسل اپنے اسلاف کی شہرت
اور وراثت میں ملے مفت کے اقتدار اور خاص ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھانا
شروع کر دیتی ہے۔ہم اگر آزادی سے پہلے کے ہندوستان کی بات کریں تو دیکھتے
ہیں کہ حکمراں طبقے نے اپنے ساتھ ساتھ ملک کے ساہو کاروں اور اعلیٰ ذات کے
لوگوں کو بھی جاگیریں سونپ کر انہیں اپنے خاص دربار میں شمار رکھا تاکہ عام
آدمی پر حکومت کرنا آسان ہو جائے ۔اس طرح دونوں نے مل کر عام آدمی کے مفاد
کو نقصان پہنچایا اور انہیں اپنی محنت اور مشقت کا جائز حق بھی نہیں مل
سکا ۔انہیں حالات اور عام آدمی کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے خاص میں سے
ہی کچھ مخلص اور تعلیم یافتہ افراد نے تحریک اٹھائی اور بالآ خر وہ کامیاب
بھی ہوئے ،مگر جس مقصد کے لئے انہوں نے آزادی حاصل کی اور ہم ہر سال رسمی
طور پر اس کا جشن بھی منارہے ہیں ،کیا اس جشن آزادی سے عام آدمی کا فائدہ
ہوا اور جن خاص آدمیوں نے آزادی کی تحریک اٹھائی تھی وہ پھر سے ہندوستان کے
انگریز نہیں بن گئے ۔اور اپنے رکھ رکھاؤ پر کروڑوں روپئے صرف نہیں کررہے
ہیں ۔کیا جئے پرکاش نرائن کو اس طر ح کی بدعنوانی کے خلاف تحریک نہیں
چھیڑنی پڑی ؟کیا عام آدمی نے جنتا پارٹی کو اقتدار نہیں سونپا؟کیا راجہ وشو
ناتھ پرتاپ سنگھ نے منڈل کے نام پر عام آدمی کو ایک بار پھر نہیں جگایا
،مگر کیا وہ ہندوستان کا نقشہ بدل سکے ؟کیا اس دوران اٹل بہاری واجپئی کی
قیادت میں بی جے پی حکومت نے انڈیا شائننگ کا نعرہ نہیں دیا مگر کانگریس سے
لے کر جنتا پارٹی ،جنتا دل اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بھی عام آدمی کے
معیار کو بلند نہیں کر سکی۔عوام نے مجبوراً کانگریس کا انتخاب کیا مگر
۲۰۰۴ سے ۲۰۱۴ تک اس حکومت سے سوائے مہنگائی اور گھوٹالے کے کیا ملا۔عام
آدمی اور کسان تو خود کشی کرہی رہا ہے۔
اگر بات نظم و ضبط کی کی جائے تو ملک میں عام عورتوں کی عزت و عصمت بھی محفوظ نہیں رہی اور خود ملک کی راجدھانی دلی میں پولس اس طرح کے شرمناک واردات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے۔اس پوری صورتحال کے مد نظر عام آدمی نے ایک چائے بیچنے والے کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا تاکہ وہ اس کے درد کو آسانی کے ساتھ محسوس کرسکے ۔مگر اس چائے والے نے بھی جشن یوم جمہوریہ میں دس لاکھ کا لباس پہن کر یہ بتادیا کہ اب وہ عام نہیں خاص ہے۔دلی کے ریاستی انتخاب میں عوام نے عام آدمی پارٹی اور کیجریوال کو کامیاب بناکر پورے ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مودی حکومت عوام سے کئے وعدے کو بھول گئی ہے اس لئے ملک کی باگ ڈور عام آدمی کو سونپ دی جانی چاہئے ۔عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بھی بیشک ایک امید جگائی ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام نے اس ادھورے انقلاب کی شکل میں کوئی حل ڈھونڈ لیا ہے ۔اکثر کالم نگار اور ہم عصر صحافی جو اس بدلاؤ سے بہت خوش ہیں انہوں نے اس کا موازنہ عرب بہار اور یوروپ کی وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک سے کرنا شروع کردیا ہے اور جذبات میں بہہ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عرب اور یوروپ کے دونوں انقلاب اس لئے ناکام ہوئے کیوں کہ اس تحریک کے لیڈران عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکے ،جبکہ عام آدمی تحریک اور اروند کیجریوال نے عوام کے دل پر دستک دیکر کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب ان کے لئے پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ بھی صاف ہو چکا ہے ۔ یہ درست بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دلی کے انتخاب میں کمال کر دکھایا ہے اور کیجریوال کا اصل نصب العین دلی کے راستے سے عوام کو لال قلعے سے آواز دینا ہے ۔ممکن ہے کہ ان کی یہ خواہش اور جد وجہد آزادی کے دیگر سابقہ مجاہدین کی طرح کامیاب بھی ہوجائے لیکن جو لوگ اس انقلاب کا موازنہ عرب بہار سے کررہے ہیں یہ لوگ یا تو عربوں کی اسلامی تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھر یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان میں بد عنوانی کے خلاف اروند کیجریوال کو یہ تحریک عرب نوجوانوں سے ہی ملی ہے اور اس تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے انا ہزارے تحریک میں شامل ہو کر اسے نیا رخ دیا مگر کامیاب نہیں ہو سکے تو سیاست میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ انا ہزارے جس سیاسی بد عنوانی کا خاتمہ کرکے خوش ہونا اور تاریخ بنانا چاہتے ہیں کم سے کم یوروپ اور عرب کے حکمراں کسی حد تک پہلے ہی اس لعنت سے پاک ہیں اور انہوں نے اپنے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولیات تو ضرور مہیا کروائی ہیں جس کی وجہ سے ان کی غیرت زندہ ہے اور یہ لوگ ہم ہندوستانیوں سے روزی روزگار اور باشندگی کی بھیک تو نہیں مانگ رہے ہیں ۔جبکہ ہم ہندوستانی اس معاملے میں یوروپ اور عرب کے سفارت خانوں کے سامنے قطار در قطار اپنے ویزے کے انتظار میں کھڑے ہیں ۔
جہاں تک یوروپ کی وال اسٹریٹ تحریک کا سوال ہے یہ تحریک محدود تھی اور یہ لوگ بینکوں کے قرض اور سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ عرب نوجوانوں کی تحریک میں عام انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے آفاقی پیغام بھی شامل ہے جس کی پابندی نہ ہونے کی صورت میں عام اور خاص ہر طبقے کا آدمی بہت سی سماجی اور معاشرتی برائیوں سے پاک نہیں ہو پاتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ایوان سیاست میں شریعت اور دین کو آئینی حیثیت کا درجہ نہیں مل جاتا ۔اس طرح عرب کے کچھ ممالک میں اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہے تو سودی معیشت اور دنیا کے طاقتور سرمایہ داروں کی حرام پر مبنی تجارت کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اس تحریک سے صرف عرب کے حکمراں ہی خوفزدہ نہیں ہیں کہ اس تحریک کی کامیابی سے ان کے عیش و عشرت کے دن پلٹ جائیں گے بلکہ اس تحریک سے مغرب کے حکمراں بھی خوفزدہ ہیں ۔ویسے ہندوستان کے تناظر میں جہاں تک عام آدمی کی تحریک کا سوال ہے ہم خود بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو عام ہندوؤں کے ساتھ مل کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے ۔اگر یہ کوئی انقلاب ہے تو پھر اس انقلاب کی حفاظت بھی لازمی ہے۔بہت کم لوگ شاید اس طرف غور کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی پارٹی کی اس تحریک کو صرف بد عنوان سیاست دانوں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ اس تحریک کی سرگرمیوں پر فرقہ پرست سیاسی تنظیموں کی بھی نظر ہے ۔خاص طور سے آر ایس ایس نے جس طرح آزادی کے بعد کانگریس میں اپنے تربیت یافتہ متعصب ذہنیت کے افراد کو شامل کرکے اس کا رخ موڑ دیا اور ملک مسلسل فرقہ وارانہ فسادات سے گذرتا رہا اور کانگریس مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہی ۔عام آدمی کے سیاسی رخ کو بھی موڑنے کی سازش کی جائے گی اور ایسے آثار نظر بھی آنے لگے ہیں ۔اب یہ بات مسلم قیادت کے شعور اور جدو جہد پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک آر ایس ایس کی سازش کو ناکام بنا پاتے ہیں اور کیا خود اروند کیجریوال اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ جس میں کہ پہلے ہی سے آر ایس ایس کے لوگوں کے شامل ہونے کا اندیشہ ہے آر ایس ایس کے اس خفیہ حملے کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔جبکہ سوشل میڈیا میں یہ خبر پہلے ہی سے گردش کررہی ہے کہ اگر کیجریوال نہیں سمجھے تو ان کا حشر بھی گاندھی اور کرکرے کی طرح ہو سکتا ہے۔
اگر بات نظم و ضبط کی کی جائے تو ملک میں عام عورتوں کی عزت و عصمت بھی محفوظ نہیں رہی اور خود ملک کی راجدھانی دلی میں پولس اس طرح کے شرمناک واردات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے۔اس پوری صورتحال کے مد نظر عام آدمی نے ایک چائے بیچنے والے کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا تاکہ وہ اس کے درد کو آسانی کے ساتھ محسوس کرسکے ۔مگر اس چائے والے نے بھی جشن یوم جمہوریہ میں دس لاکھ کا لباس پہن کر یہ بتادیا کہ اب وہ عام نہیں خاص ہے۔دلی کے ریاستی انتخاب میں عوام نے عام آدمی پارٹی اور کیجریوال کو کامیاب بناکر پورے ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مودی حکومت عوام سے کئے وعدے کو بھول گئی ہے اس لئے ملک کی باگ ڈور عام آدمی کو سونپ دی جانی چاہئے ۔عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بھی بیشک ایک امید جگائی ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام نے اس ادھورے انقلاب کی شکل میں کوئی حل ڈھونڈ لیا ہے ۔اکثر کالم نگار اور ہم عصر صحافی جو اس بدلاؤ سے بہت خوش ہیں انہوں نے اس کا موازنہ عرب بہار اور یوروپ کی وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک سے کرنا شروع کردیا ہے اور جذبات میں بہہ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عرب اور یوروپ کے دونوں انقلاب اس لئے ناکام ہوئے کیوں کہ اس تحریک کے لیڈران عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکے ،جبکہ عام آدمی تحریک اور اروند کیجریوال نے عوام کے دل پر دستک دیکر کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب ان کے لئے پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ بھی صاف ہو چکا ہے ۔ یہ درست بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دلی کے انتخاب میں کمال کر دکھایا ہے اور کیجریوال کا اصل نصب العین دلی کے راستے سے عوام کو لال قلعے سے آواز دینا ہے ۔ممکن ہے کہ ان کی یہ خواہش اور جد وجہد آزادی کے دیگر سابقہ مجاہدین کی طرح کامیاب بھی ہوجائے لیکن جو لوگ اس انقلاب کا موازنہ عرب بہار سے کررہے ہیں یہ لوگ یا تو عربوں کی اسلامی تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھر یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان میں بد عنوانی کے خلاف اروند کیجریوال کو یہ تحریک عرب نوجوانوں سے ہی ملی ہے اور اس تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے انا ہزارے تحریک میں شامل ہو کر اسے نیا رخ دیا مگر کامیاب نہیں ہو سکے تو سیاست میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ انا ہزارے جس سیاسی بد عنوانی کا خاتمہ کرکے خوش ہونا اور تاریخ بنانا چاہتے ہیں کم سے کم یوروپ اور عرب کے حکمراں کسی حد تک پہلے ہی اس لعنت سے پاک ہیں اور انہوں نے اپنے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولیات تو ضرور مہیا کروائی ہیں جس کی وجہ سے ان کی غیرت زندہ ہے اور یہ لوگ ہم ہندوستانیوں سے روزی روزگار اور باشندگی کی بھیک تو نہیں مانگ رہے ہیں ۔جبکہ ہم ہندوستانی اس معاملے میں یوروپ اور عرب کے سفارت خانوں کے سامنے قطار در قطار اپنے ویزے کے انتظار میں کھڑے ہیں ۔
جہاں تک یوروپ کی وال اسٹریٹ تحریک کا سوال ہے یہ تحریک محدود تھی اور یہ لوگ بینکوں کے قرض اور سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ عرب نوجوانوں کی تحریک میں عام انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے آفاقی پیغام بھی شامل ہے جس کی پابندی نہ ہونے کی صورت میں عام اور خاص ہر طبقے کا آدمی بہت سی سماجی اور معاشرتی برائیوں سے پاک نہیں ہو پاتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ایوان سیاست میں شریعت اور دین کو آئینی حیثیت کا درجہ نہیں مل جاتا ۔اس طرح عرب کے کچھ ممالک میں اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہے تو سودی معیشت اور دنیا کے طاقتور سرمایہ داروں کی حرام پر مبنی تجارت کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اس تحریک سے صرف عرب کے حکمراں ہی خوفزدہ نہیں ہیں کہ اس تحریک کی کامیابی سے ان کے عیش و عشرت کے دن پلٹ جائیں گے بلکہ اس تحریک سے مغرب کے حکمراں بھی خوفزدہ ہیں ۔ویسے ہندوستان کے تناظر میں جہاں تک عام آدمی کی تحریک کا سوال ہے ہم خود بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو عام ہندوؤں کے ساتھ مل کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے ۔اگر یہ کوئی انقلاب ہے تو پھر اس انقلاب کی حفاظت بھی لازمی ہے۔بہت کم لوگ شاید اس طرف غور کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی پارٹی کی اس تحریک کو صرف بد عنوان سیاست دانوں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ اس تحریک کی سرگرمیوں پر فرقہ پرست سیاسی تنظیموں کی بھی نظر ہے ۔خاص طور سے آر ایس ایس نے جس طرح آزادی کے بعد کانگریس میں اپنے تربیت یافتہ متعصب ذہنیت کے افراد کو شامل کرکے اس کا رخ موڑ دیا اور ملک مسلسل فرقہ وارانہ فسادات سے گذرتا رہا اور کانگریس مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہی ۔عام آدمی کے سیاسی رخ کو بھی موڑنے کی سازش کی جائے گی اور ایسے آثار نظر بھی آنے لگے ہیں ۔اب یہ بات مسلم قیادت کے شعور اور جدو جہد پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک آر ایس ایس کی سازش کو ناکام بنا پاتے ہیں اور کیا خود اروند کیجریوال اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ جس میں کہ پہلے ہی سے آر ایس ایس کے لوگوں کے شامل ہونے کا اندیشہ ہے آر ایس ایس کے اس خفیہ حملے کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔جبکہ سوشل میڈیا میں یہ خبر پہلے ہی سے گردش کررہی ہے کہ اگر کیجریوال نہیں سمجھے تو ان کا حشر بھی گاندھی اور کرکرے کی طرح ہو سکتا ہے۔
0 comments: