نوشتہ دیوار پڑھیے
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک کے کئی صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج دوسری چیزوں کے علاوہ اس بات کی طرف بھی بہت ہی واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت حکمرانوں کے قول و عمل کے تضاد اوران کی دوغلی پالیسیوں کو اب مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لوگ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی تضاد بیانی اور دو عملی سے اب اوب گئے ہیں اور اب وہ دونوں ہی حالتوں میں دیانت دار اور ایمان دار حکمراں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ شخصیت پرستی کے حصار اور خوش کن وعدوں کے سحر سے بڑی حد تک آزاد ہوچکے ہیں، اب انہیں نہ تو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے نہ جبر و دباؤ کے ذریعے ہی ان کو اپنی مرضی ک خلاف کوئی قدم اٹھانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
دہلی کو کانگریس کے ایک بہت ہی مضبوط قلعہ کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن اس چناؤ میں یہ ناقابل تسخیر قلعہ بھی اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس پر اب ان لوگوں کا قبضہ ہے جو اپنے آپ کو نہ تو ہندتو کا اور نہ ہی کانگریسی سیکولرزم کا بلکہ عام آدمی کا علمبردار کہتے ہیں۔ ان پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی کے باشعور شہریوں نے ہندتو، سیکولر، ترقی پسند اور جمہوریت کی تقریباً تمام ہی علمبردار طاقتوں کو شکست دے کر یہ بتا اور جتا دیا ہے کہ اب دو عملی اور تضاد بیانی کا دور نہیں رہا۔ کانگریس کا مکمل صفایا، بی جے پی کی شرمناک شکست اور عام آدمی پارٹی کی تاریخی فتح سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کے عوام کا یہ فیصلہ ملک کی سیاسی شاہراہ پر نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس ہے جس نے آزادی کے بعد لگ بھگ نصف صدی تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔ وہ اتنی بُری ہار سے کبھی دوچار نہیں ہوئی جتنی کہ دہلی اسمبلی میں ایک نومولود پارٹی سے۔ کانگریس کی شکست نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ابھر رہا ہے کہ کیا یہ سیکولر اور جمہوریت پسندی کی شکست ہے؟ کیا اسے اس روپ میں ہی دیکھنا درست ہوگا؟ بظاہر تو اس کا جواب اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بی جی پی کی شرمناک ہار ہو یا کانگریس کا صفایا، دراصل ان کی دوغلی پالیسیوں اور اقتدار کی ہوس نے ہی انہیں یہ براوقت دکھایا ہے۔ بی جے پی کا نظریہ اور اس کا ایجنڈا کیا ہے وہ سب پر واضح ہے، وہ ہندتو کی علمبردار ہے اور ایک خاص نظریہ ملک کے عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے جسے راجدھانی دہلی کے سیکولر اور باشعور عوام نے یکسر مسترد کردیا اور عام آدمی پارٹی کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نومولود پارٹی کس حد تک عوام کی توقعات پر کھری اترتی ہے۔
دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی شکست کو حقیقی معنوں میں سیکولرزم کی شکست کا نام دینا فی الواقع سرخ انگاروں جیسی دہکتی حقیقتوں کو جھٹلانا ہوگا، ہاں مگر اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس اپنے آپ کو ایک سیکولر اور جمہوریت پسند پارٹی کے روپ میں پیش کرتی رہی ہے لیکن انکار اس سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا سیکولر چہرہ نقلی اور سوشلزم و جمہوریت پسندی کے اس کے دعوے کھوکھلے تھے۔ یہ بہت پہلے سیکولرزم کی شاہراہ سے ہٹ کر اس راستے پر چل پڑی تھی جسے عرف عام میں ’نرم ہندتو‘ کا راستہ کہا جاتا ہے۔ اس میں اور اپنے آپ کو ہندتو کی علمبردار کہنے والی پارٹیوں میں اگر کوئی فرق اب تک جو رہا ہے وہ اصطلاحات اور شدت پسندی کا ہی رہا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے اور بعد کے واقعات کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے اس کی پالیسیوں کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے کہ کانگریس کم از کم سیکولرزم اور جمہوری قدروں کے احترام کے معاملے میں کچھ زیادہ دیانت دار اور مخلص نظر نہیں آتی۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں اصل مقابلہ تو ہندتو اور نرم ہندتو کی نمائندگی کرنے والی طاقتوں کے درمیان ہونا تھا مگر انہیں تو کسی اور کے ہاتھوں منھ کی کھانی تھی، دو کی دونوں ہی عام آدمی پارٹی کے سپریمو کیجریوال کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ اس صورت میں عوام کی غالب اکثریت کی تائید و حمایت اسے ہی حاصل ہوئی جو ان کی نگاہ میں اپنے معتقدات، نظریات اور اعلانات کے تعلق سے نسبتاً زیادہ دیانت دار اور مخلص تھی۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی 70 سیٹوں میں 67 پر قبضہ کرکے دونوں قومی پارٹیوں کو جو سبق دیا ہے وہ انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ برسوں پرانی پارٹی کانگریس اور چند دہائی قبل پیدا ہونے والی بی جے پی جس کی مرکز میں حکومت بھی ہے، اپنے پورے تام جھام کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھیں اور ایک نوزائیدہ تنظیم عام آدمی پارٹی سے ایسی شکست سے دوچار ہوئیں کہ کہیں منھ دکھانے کے بھی لائق نہیں رہیں۔ لیکن چونکہ سیاست میں شرم و غیرت ایک بے معنی چیز ہے اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ کب پھر یہ اپنی بے شرمی کا مظاہرہ کربیٹھیں۔
بہرحال دہلی کے عوام نے بلاتفریق مذہب و ملت انتخابات میں جس طرح کی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بلاشبہ ان کی سیاسی پختگی اور شعور و ایقان کا مظہر ہے اور ان کا یہ فیصلہ سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کو آئینہ دکھانے اور ان کی بداعمالیوں کی سزا دینے کے عزم کے علاوہ حقیقی سیکولر پارٹیوں کو ہی برسراقتدار دیکھنے کی آرزو مند بھی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو مثبت فیصلہ اور مثبت ووٹنگ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ دہلی کے کئی علاقہ ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں اوکھلا (جامعہ نگر) پرانی دہلی، جعفر آباد، مصطفی آباد، سیلم پور وغیرہ بھی شامل ہیں، لیکن کوئی مشترکہ سیاسی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے بے حیثیت ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئندہ کے لیے ایک ایسا سیاسی لائحہ عمل ترتیب دیں جو ملک و ملت دونوں کے لیے سود مند ثابت ہو۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس ملت کے ہاتھوں میں عملاً حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کی قوت مرکوز ہو، اپنے اجتماعی وزن کے ذریعہ کسی بھی پلڑے کو جھکانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو، جسے نظر انداز کرکے یا جس کی مخالفت مول لے کر کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے ایوان اقتدار میں اپنی موجودگی کو بنائے رکھنا غیر معمولی حد تک ایک دشوار امر بن چکا ہو، اس کے افراد اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر بے چارگی، کسمپرسی، استحصال، محرومی اور ظلم و جبر کے نہ صرف یہ کہ شکار ہیں بلکہ اب اس صورت حال پر اب وہ قانع بھی نظر آرہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اگر سنجیدہ کوشش کی جائے تو یہ حقیقت نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گی کہ مسلمانوں کو اس حال کو پہنچانے، ان کے اندر شکست خوردگی کا احساس پیدا کرکے انہیں قوت عمل اور جوش عمل سے محروم کردینے کی تمام تر ذمہ داری ہماری سیاسی اور ملی قیادت پر عائد ہوتی ہے جس کی نظر ہمیشہ اپنے نجی مفادات پر رہتی ہے۔ اکثر انتخابات کے موقعوں پر یہ بے غیرت سودے بازی کرتے ہیں ان کی کوئی سنے یا نہ سنے کسی نہ کسی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں سے اپیلیں بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ سرکار دربار میں اپنا قد بھی اونچا دکھاسکیں اور مزید رسائی کے لیے نت نئی راہیں بھی تلاش کرتے رہیں۔ ہماری یہ سودے باز قیادت جب چاہتی ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ دریافت کرکے سرکار دربار میں حاضری لگاتی رہتی ہیں تاکہ اس طرح ان کے نجی مفادات کا سلسلہ قائم و دائم رہ سکے۔
ایک دو دنوں میں ہی دہلی حکومت کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ شکست خوردہ پارٹیاں نئی حکومت کو گھیرنے کی بھی کوشش کریں گی اور مسلمانوں کو اپنی خاردار سوچ کے ذریعے زخمی کرنے اور اپنے مہلک فکر سے ان کی زندگیاں اجیرن کرنے کے لیے نئے نئے حملے بھی کریں گی۔ اور ہماری قیادت اور سیکولر کہلانے والی پارٹیاں اپنے حسب سابق خاموش عمل کا مظاہرہ کریں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ہماری نئی حکومت اور وزیر اعلیٰ کیجریوال کون سا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ توقع تو یہی ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر سنجیدگی ظاہر کریں گے اور اپنے سیکولر عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ دہلی اسمبلی ک نتائج کا پہلا اور بنیادی سبق بھی یہی ہے کہ عام آدمی پارٹی اور اس کی حکومت کے حکمرانوں کو اگر دہلی کے عوام کی حمایت و تائید برقرار رکھنی ہے تو انہیں اپنے نظریات، اعلانات اور پروگراموں کے تعلق سے مخلص اور دیانت دار ہونا پڑے گا۔ دوسرا سبق خاص طور سے کانگریس اور اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی دوسری پارٹیوں کے لیے یہ ہے کہ دائیں بازو کی سوچ اور ’ہندتو‘ کی قوتوں کا مقابلہ اس صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں سیکولر، سوشلسٹ اور جمہوری سوچ کی حامل بنالیں۔ کانگریس کو اگر اس وقت اپنی دو عملیوں کی قیمت چکانی پڑی ہے تو کل دوسری پارٹیوں کو بھی یہ قیمت چکانی ہوگی، یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح مسلمانوں کو ملک کے سیاسی منظر پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ نت نئی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہوگا۔ اس سے پہلے کہ طوفان باد و باراں انہیں پوری طرح گھیرلے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے چھان چھپر درست کرلیں اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں لے آئیں کہ ملک کو بدترین قسم کے برہنہ فاشزم کی ہلاکت خیز بھنور میں گرفتار ہونے سے بچانے میں اپنے شایان شان رول ادا کرسکیں۔
موبائل نمبر: 09868360472
نوشتہ دیوار پڑھیے
2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک کے کئی صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج دوسری چیزوں کے علاوہ اس بات کی طرف بھی بہت ہی واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت حکمرانوں کے قول و عمل کے تضاد اوران کی دوغلی پالیسیوں کو اب مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لوگ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی تضاد بیانی اور دو عملی سے اب اوب گئے ہیں اور اب وہ دونوں ہی حالتوں میں دیانت دار اور ایمان دار حکمراں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ شخصیت پرستی کے حصار اور خوش کن وعدوں کے سحر سے بڑی حد تک آزاد ہوچکے ہیں، اب انہیں نہ تو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے نہ جبر و دباؤ کے ذریعے ہی ان کو اپنی مرضی ک خلاف کوئی قدم اٹھانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
دہلی کو کانگریس کے ایک بہت ہی مضبوط قلعہ کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن اس چناؤ میں یہ ناقابل تسخیر قلعہ بھی اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس پر اب ان لوگوں کا قبضہ ہے جو اپنے آپ کو نہ تو ہندتو کا اور نہ ہی کانگریسی سیکولرزم کا بلکہ عام آدمی کا علمبردار کہتے ہیں۔ ان پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی کے باشعور شہریوں نے ہندتو، سیکولر، ترقی پسند اور جمہوریت کی تقریباً تمام ہی علمبردار طاقتوں کو شکست دے کر یہ بتا اور جتا دیا ہے کہ اب دو عملی اور تضاد بیانی کا دور نہیں رہا۔ کانگریس کا مکمل صفایا، بی جے پی کی شرمناک شکست اور عام آدمی پارٹی کی تاریخی فتح سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کے عوام کا یہ فیصلہ ملک کی سیاسی شاہراہ پر نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس ہے جس نے آزادی کے بعد لگ بھگ نصف صدی تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔ وہ اتنی بُری ہار سے کبھی دوچار نہیں ہوئی جتنی کہ دہلی اسمبلی میں ایک نومولود پارٹی سے۔ کانگریس کی شکست نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ابھر رہا ہے کہ کیا یہ سیکولر اور جمہوریت پسندی کی شکست ہے؟ کیا اسے اس روپ میں ہی دیکھنا درست ہوگا؟ بظاہر تو اس کا جواب اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بی جی پی کی شرمناک ہار ہو یا کانگریس کا صفایا، دراصل ان کی دوغلی پالیسیوں اور اقتدار کی ہوس نے ہی انہیں یہ براوقت دکھایا ہے۔ بی جے پی کا نظریہ اور اس کا ایجنڈا کیا ہے وہ سب پر واضح ہے، وہ ہندتو کی علمبردار ہے اور ایک خاص نظریہ ملک کے عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے جسے راجدھانی دہلی کے سیکولر اور باشعور عوام نے یکسر مسترد کردیا اور عام آدمی پارٹی کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نومولود پارٹی کس حد تک عوام کی توقعات پر کھری اترتی ہے۔
دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی شکست کو حقیقی معنوں میں سیکولرزم کی شکست کا نام دینا فی الواقع سرخ انگاروں جیسی دہکتی حقیقتوں کو جھٹلانا ہوگا، ہاں مگر اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس اپنے آپ کو ایک سیکولر اور جمہوریت پسند پارٹی کے روپ میں پیش کرتی رہی ہے لیکن انکار اس سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا سیکولر چہرہ نقلی اور سوشلزم و جمہوریت پسندی کے اس کے دعوے کھوکھلے تھے۔ یہ بہت پہلے سیکولرزم کی شاہراہ سے ہٹ کر اس راستے پر چل پڑی تھی جسے عرف عام میں ’نرم ہندتو‘ کا راستہ کہا جاتا ہے۔ اس میں اور اپنے آپ کو ہندتو کی علمبردار کہنے والی پارٹیوں میں اگر کوئی فرق اب تک جو رہا ہے وہ اصطلاحات اور شدت پسندی کا ہی رہا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے اور بعد کے واقعات کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے اس کی پالیسیوں کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے کہ کانگریس کم از کم سیکولرزم اور جمہوری قدروں کے احترام کے معاملے میں کچھ زیادہ دیانت دار اور مخلص نظر نہیں آتی۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں اصل مقابلہ تو ہندتو اور نرم ہندتو کی نمائندگی کرنے والی طاقتوں کے درمیان ہونا تھا مگر انہیں تو کسی اور کے ہاتھوں منھ کی کھانی تھی، دو کی دونوں ہی عام آدمی پارٹی کے سپریمو کیجریوال کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ اس صورت میں عوام کی غالب اکثریت کی تائید و حمایت اسے ہی حاصل ہوئی جو ان کی نگاہ میں اپنے معتقدات، نظریات اور اعلانات کے تعلق سے نسبتاً زیادہ دیانت دار اور مخلص تھی۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی 70 سیٹوں میں 67 پر قبضہ کرکے دونوں قومی پارٹیوں کو جو سبق دیا ہے وہ انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ برسوں پرانی پارٹی کانگریس اور چند دہائی قبل پیدا ہونے والی بی جے پی جس کی مرکز میں حکومت بھی ہے، اپنے پورے تام جھام کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھیں اور ایک نوزائیدہ تنظیم عام آدمی پارٹی سے ایسی شکست سے دوچار ہوئیں کہ کہیں منھ دکھانے کے بھی لائق نہیں رہیں۔ لیکن چونکہ سیاست میں شرم و غیرت ایک بے معنی چیز ہے اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ کب پھر یہ اپنی بے شرمی کا مظاہرہ کربیٹھیں۔
بہرحال دہلی کے عوام نے بلاتفریق مذہب و ملت انتخابات میں جس طرح کی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بلاشبہ ان کی سیاسی پختگی اور شعور و ایقان کا مظہر ہے اور ان کا یہ فیصلہ سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کو آئینہ دکھانے اور ان کی بداعمالیوں کی سزا دینے کے عزم کے علاوہ حقیقی سیکولر پارٹیوں کو ہی برسراقتدار دیکھنے کی آرزو مند بھی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو مثبت فیصلہ اور مثبت ووٹنگ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ دہلی کے کئی علاقہ ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں اوکھلا (جامعہ نگر) پرانی دہلی، جعفر آباد، مصطفی آباد، سیلم پور وغیرہ بھی شامل ہیں، لیکن کوئی مشترکہ سیاسی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے بے حیثیت ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئندہ کے لیے ایک ایسا سیاسی لائحہ عمل ترتیب دیں جو ملک و ملت دونوں کے لیے سود مند ثابت ہو۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس ملت کے ہاتھوں میں عملاً حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کی قوت مرکوز ہو، اپنے اجتماعی وزن کے ذریعہ کسی بھی پلڑے کو جھکانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو، جسے نظر انداز کرکے یا جس کی مخالفت مول لے کر کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے ایوان اقتدار میں اپنی موجودگی کو بنائے رکھنا غیر معمولی حد تک ایک دشوار امر بن چکا ہو، اس کے افراد اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر بے چارگی، کسمپرسی، استحصال، محرومی اور ظلم و جبر کے نہ صرف یہ کہ شکار ہیں بلکہ اب اس صورت حال پر اب وہ قانع بھی نظر آرہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اگر سنجیدہ کوشش کی جائے تو یہ حقیقت نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گی کہ مسلمانوں کو اس حال کو پہنچانے، ان کے اندر شکست خوردگی کا احساس پیدا کرکے انہیں قوت عمل اور جوش عمل سے محروم کردینے کی تمام تر ذمہ داری ہماری سیاسی اور ملی قیادت پر عائد ہوتی ہے جس کی نظر ہمیشہ اپنے نجی مفادات پر رہتی ہے۔ اکثر انتخابات کے موقعوں پر یہ بے غیرت سودے بازی کرتے ہیں ان کی کوئی سنے یا نہ سنے کسی نہ کسی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں سے اپیلیں بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ سرکار دربار میں اپنا قد بھی اونچا دکھاسکیں اور مزید رسائی کے لیے نت نئی راہیں بھی تلاش کرتے رہیں۔ ہماری یہ سودے باز قیادت جب چاہتی ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ دریافت کرکے سرکار دربار میں حاضری لگاتی رہتی ہیں تاکہ اس طرح ان کے نجی مفادات کا سلسلہ قائم و دائم رہ سکے۔
ایک دو دنوں میں ہی دہلی حکومت کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ شکست خوردہ پارٹیاں نئی حکومت کو گھیرنے کی بھی کوشش کریں گی اور مسلمانوں کو اپنی خاردار سوچ کے ذریعے زخمی کرنے اور اپنے مہلک فکر سے ان کی زندگیاں اجیرن کرنے کے لیے نئے نئے حملے بھی کریں گی۔ اور ہماری قیادت اور سیکولر کہلانے والی پارٹیاں اپنے حسب سابق خاموش عمل کا مظاہرہ کریں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ہماری نئی حکومت اور وزیر اعلیٰ کیجریوال کون سا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ توقع تو یہی ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر سنجیدگی ظاہر کریں گے اور اپنے سیکولر عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ دہلی اسمبلی ک نتائج کا پہلا اور بنیادی سبق بھی یہی ہے کہ عام آدمی پارٹی اور اس کی حکومت کے حکمرانوں کو اگر دہلی کے عوام کی حمایت و تائید برقرار رکھنی ہے تو انہیں اپنے نظریات، اعلانات اور پروگراموں کے تعلق سے مخلص اور دیانت دار ہونا پڑے گا۔ دوسرا سبق خاص طور سے کانگریس اور اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی دوسری پارٹیوں کے لیے یہ ہے کہ دائیں بازو کی سوچ اور ’ہندتو‘ کی قوتوں کا مقابلہ اس صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں سیکولر، سوشلسٹ اور جمہوری سوچ کی حامل بنالیں۔ کانگریس کو اگر اس وقت اپنی دو عملیوں کی قیمت چکانی پڑی ہے تو کل دوسری پارٹیوں کو بھی یہ قیمت چکانی ہوگی، یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح مسلمانوں کو ملک کے سیاسی منظر پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ نت نئی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہوگا۔ اس سے پہلے کہ طوفان باد و باراں انہیں پوری طرح گھیرلے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے چھان چھپر درست کرلیں اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں لے آئیں کہ ملک کو بدترین قسم کے برہنہ فاشزم کی ہلاکت خیز بھنور میں گرفتار ہونے سے بچانے میں اپنے شایان شان رول ادا کرسکیں۔
0 comments: