Muslim Worlds
نہال صغیر
مشرق وسطیٰ ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر ہے ۔ویسے پچھلی دو دہائی سے وہاں بارود ہی بارود ہے ۔لیکن بیچ بیچ میں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ابھی بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور امن ہی امن ہوگا ۔لیکن دو وجوہات سے وہاں امن کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہے اول امریکہ اور صہیونی ناپاک سازشیں اور دوم ہمارے عربوں کی احمقانہ حرکتیں ۔ایک بار پھر انہوں نے وہی حرکتیں کی ہیں جو کبھی نوے کی دہائی میں کی تھی جس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ اب تک بھگت رہی ہے ۔قطر کو چھ عرب اور دیگر مسلم ملکوں نے علیحدہ کردیا ہے ۔اس پر الزام ہے کہ وہ شدت پسندوں کی مدد کررہا ہے ۔تین نام آئے ہیں ان میں آئسس یعنی داعش کا نام تو صرف دباؤ بنانے کیلئے اور امریکہ بہادر یا عالم انسانیت میں امن کے دیگر ٹھیکیداروں کو متحرک اور ان کو مدعو کرنے کیلئے لیا گیا ہے ۔ہاں حماس اور اخوان المسلمون کی مدد اور انہیں دہشت گرد ماننے سے انکار ہی اصل جرم ہے جو نام نہاد عرب ملکوں کو پسند نہیں ہے ۔ایک صدی سے عالم عرب اور عالم اسلام مغربی استعماری قوتوں کی چیرہ دستیوں کامرکز ہے ۔اسی دور میں مسلمانوں کی قوت کو مجتمع کرنے اور انہیں عالمی پیمانے پر موثر رول ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے اخوان المسلمون وجود میں آئی تھی۔داعش کو تو آج تک کسی بھی مسلم ملک نے شرف قبولیت نہیں بخشا۔اسے قبولیت مل بھی کیسے سکتی ہے جبکہ اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے سیدھے اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔یہ بات اب مسلمانوں کو صرف تقریروں اور تحریروں میں اچھی لگتی ہے لیکن عمل کے میدان چونکہ سخت اور صبر آزماء ہوتے ہیں اس لئے اسے رد کردیاجاتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ خلافت یا ایسی کسی بھی تحریک جس سے مسلمانوں کے عالمی پیمانے پر متحد ہونے کا دشمنوں کو خدشہ ہو وہ سیدھے دہشت گردی کے زمرے میں آجاتی ہے ۔دشمن توخیر دشمن ہی ٹھہرے وہ تو اسی کام کیلئے ہی بنے ہیں پر مسلمانوں کے شاہان بھی ایسی کسی تحریک کے حق میں اس لئے نہیں ہیں کہ اس سے ما بدولت کی پر تعیش زندگی میں رخنہ پڑ جائے گا۔انہیں شاہی محلوں سے نکل کر میدان عمل کا رخ کرنا ہوگا ۔داعش کو اتنے خطرناک دہشت گرد کے روپ میں دکھایا گیا کہ شاید ہی کوئی ہو جو ان کی حمایت کرے گا ورنہ ان کا نام آتے ہی مسلمان کان کو ہاتھ لگاتا ہے ۔ اخوان المسلمون اور حماس چونکہ تحریکی جماعتیں ہیں۔اس کی جڑیں زمین میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں اس لئے عالم عرب کے یہ چند بے وقعت حکمراں اگر اس کے ساتھ کوئی تعاون نہ بھی کریں تو عوام کا دل تو ان کے ساتھ ہی ہے اور انہوں نے مالی اخلاقی اور افرادی مدد بھی کی ہے ۔یہ شاید پہلی بار ہے جب کھل کر ایک عرب ملک نے ان کی حمایت کی ہے اور اتنی سختیوں کے باوجود بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔شاہان عرب کے غیر دانشمندانہ ، دوسرے کی ایماء اور عجلت میں کئے گئے یہ فیصلے تیسری خلیجی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو معاشی مندی کی شکار دنیا کو ایک نئے کرب سے گزرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔
قطر پر پابندی اور اسے تنہا کرنے کی کوشش پر ترکی صدر طیب ارودگان نے کہا کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا سبب بنے گا ۔یہاں ترکی وہ واحد ملک ہے جو قطر کے ساتھ کھڑا ہے ۔بلکہ سوشل میڈیا پر تو ایک تصویر وائرل ہورہی ہے اس کے مطابق قطر نے ترکی سے اشیائے خوردونوش منگوانا شروع کردیا تھا ۔کیوں کہ عرب ملکوں نے اچانک اس پر پابندی عائد کرکے سارے تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قطر پر پابندی کیوں لگائی گئی اور اب اس سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔قطر پر پابندی کی اصل وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں ترکی کے بعد ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت بن رہا تھا ۔بلکہ جو کچھ تفصیلات آرہی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو وہ ترکی کے بعد دوسرے مسلم ملک ہے جو دینے کے قابل بن گیا ہے ۔قطر کے ساتھ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے مسلم امہ کے خلاف صہیونی میڈیا کا جواب دینے کیلئے ایک ایسا نیوز چینل کھڑا کردیاجس کے بارے میں ملک کے سربراہ سے لے کر قومی لیڈر اور علاقائی قائد تک صرف باتیں کرتے ہیں اور بس لیکن اس نے بین الاقوامی معیار کا چینل کھڑا کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ کام ایسے کیا جاتا ہے ۔ قطر صحت تعلیم معیشت سب میں ایک مثال قائم کرتا جارہا تھا ۔یہ باتیں ان قوتوں کو ہضم کیسے ہوں گی جنہوں نے منصوبہ ہی بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی آگے نہیں آنے دینا ہے ۔ان کے سامنے ترکی کی مثال ہے جب وہ خود کفیل ہو گیا اور عالمی بینک سے قرض لینے کی بجائے اسے دینے کے قابل ہو گیا تو اب اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے ۔اس پر کسی دباؤ کا اثر نہیں ہوتا ۔اسی طرح قطر بھی کرنے لگا اور پھر دیگر اور بھی مسلم ملک سامنے آتے گئے تو کیا ہوگا ۔
شاید ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ میں عرب سربراہان کو جہاں دہشت گردی سے لڑنے کے اسباق پڑھائے وہیں انہوں نے ان کے احساس عدم تحفظ کو اور گہرا کردیا ۔حماس اور اخوان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش اور شہنشاہوں کی ان کے تئیں نفرت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ظاہر کرتا کہ اگر یہ عوامی تحریکیں زور پکڑ گئیں اور انہیں عوام میں تو مقبولیت حاصل ہی ہیں اگر انہیں اس میں مزید کامیابی مل گئی تو ان کی خاندانی بادشاہت کیا ہوگا ۔حالانکہ یہ محض ایک واہمہ ہے ۔یہ وہم بزدلوں اور ظالموں کو ہر آن ڈراتا رہتا ہے ۔مسلم امہ کی جو صورتحال ہے اور ہر میدان میں ہماری پسماندگی پر جو تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے عملی شکل میں لایا جائے اور ایسی عوامی تحریک کو ابھارا جائے جس سے مسلمانوں کی طاقت مضبوط ہو اور وہ عالمی پیمانے پر قائدانہ رول اداکرسکیں ۔لیکن برا ہو عدم تحفظ کے احساس کا جس نے سب پر پانی پھیر دیا ہے ۔سعودی عرب اور عرب امارات ہمیشہ ایران سے خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ علاقہ میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے ۔یہ سچ بھی ہے ۔لیکن سعودی عربیہ کی سربراہی میں موجودہ قطر مقاطعہ سے پیدا ہونے والی بے چینی سے تو خطہ میں کسی کو فائدہ ہوگا تو وہ صر ف ایران ہے ۔یہ بھلا کہاں کی دانشمندی ہے کہ محض اپنی خاندانی حکومت کو بچانے اور اس کی طرف سے کسی خدشہ میں پڑ کر ایسی کارروائی کی جائے جس سے علاقے میں دوسروں کو کھیل کھیلنے کا موقعہ ملے ۔آج تک عرب ممالک اپنی کوئی مضبوط و مستحکم فوج نہیں بنا سکے ۔اگر انہوں نے حماس اور اخوان جیسی تنظیموں کی سرپرستی کی ہوتی تو خطہ ایک فوجی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہوتا ۔لیکن انہوں نے بجائے یہ کہ اخوان کی قوت میں اضافہ کا سبب بنتے ان کی فکر اور اس کی قوت کو کچلنے میں اپنا سرمایہ لگایا ۔مصر میں سیسی کی بغاوت اور مرسی کی گرفتاری اور اس کے بعد ہزاروں اخوانیوں کے قتل عام سے آخر کیا ظاہر ہوتا ہے ۔ آج وہی دہشت گرداور باغی سیسی قطر کے خلاف کھڑا دنیا کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وکالت کررہا ہے ۔بہتر ہوگا کہ سعودی عرب اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور امت کے وسیع تر مفاد میں قطر کے خلاف مقاطعہ کو ختم کرے ۔اگر وہ ایران کی مداخلت اور بحرین اور یمن میں نہیں چاہتا تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خطے کے ممالک کو یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا ۔ورنہ اس طرح کی غیر دانشمندانہ کارروائی سے وہ فوجی اتحاد جو سعودی عرب کی سربراہی میں ہوا ہے جس سے مسلمانوں کو کافی امیدیں تھیں دم توڑ دیں گی۔قطر پر یہ الزام کہ وہ عرب عوام کو خبروں کے ذریعہ گمراہ کررہاہے بچکانہ پن ہے ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ آج کل ہیکر کتنے سرگرم ہو گئے ہیں ۔وہ ہیک کرکے کچھ بھی اور کبھی بھی کرسکتے ہیں ۔جیسا کہ الزام لگایا جارہا ہے کہ روسی ہیکروں نے قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی میں ہیکنگ کے ذریعے ایران کی حمایت اور سعودی عرب کے خلاف نیوز پوسٹ کئے ۔یہ ممکن بھی ہے ۔روس فی الحال مشرق وسطیٰ میں پھر سے متحرک ہونے کی کوشش میں ہے ۔اس لئے ترکی اور کویت کی گزراشات پر غور کیاجائے اور خطہ میں عدم استحکام کو روکا جائے ۔بہت دنوں کے بعد سعودی عرب کی عوامی حمایت میں جو اضافہ ہوا تھا وہ موجودہ بحران سے متاثر ہوگا ۔سعودی عرب کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
مشرق وسطیٰ کو سکون نہیں!
نہال صغیر
مشرق وسطیٰ ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر ہے ۔ویسے پچھلی دو دہائی سے وہاں بارود ہی بارود ہے ۔لیکن بیچ بیچ میں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ابھی بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور امن ہی امن ہوگا ۔لیکن دو وجوہات سے وہاں امن کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہے اول امریکہ اور صہیونی ناپاک سازشیں اور دوم ہمارے عربوں کی احمقانہ حرکتیں ۔ایک بار پھر انہوں نے وہی حرکتیں کی ہیں جو کبھی نوے کی دہائی میں کی تھی جس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ اب تک بھگت رہی ہے ۔قطر کو چھ عرب اور دیگر مسلم ملکوں نے علیحدہ کردیا ہے ۔اس پر الزام ہے کہ وہ شدت پسندوں کی مدد کررہا ہے ۔تین نام آئے ہیں ان میں آئسس یعنی داعش کا نام تو صرف دباؤ بنانے کیلئے اور امریکہ بہادر یا عالم انسانیت میں امن کے دیگر ٹھیکیداروں کو متحرک اور ان کو مدعو کرنے کیلئے لیا گیا ہے ۔ہاں حماس اور اخوان المسلمون کی مدد اور انہیں دہشت گرد ماننے سے انکار ہی اصل جرم ہے جو نام نہاد عرب ملکوں کو پسند نہیں ہے ۔ایک صدی سے عالم عرب اور عالم اسلام مغربی استعماری قوتوں کی چیرہ دستیوں کامرکز ہے ۔اسی دور میں مسلمانوں کی قوت کو مجتمع کرنے اور انہیں عالمی پیمانے پر موثر رول ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے اخوان المسلمون وجود میں آئی تھی۔داعش کو تو آج تک کسی بھی مسلم ملک نے شرف قبولیت نہیں بخشا۔اسے قبولیت مل بھی کیسے سکتی ہے جبکہ اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے سیدھے اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔یہ بات اب مسلمانوں کو صرف تقریروں اور تحریروں میں اچھی لگتی ہے لیکن عمل کے میدان چونکہ سخت اور صبر آزماء ہوتے ہیں اس لئے اسے رد کردیاجاتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ خلافت یا ایسی کسی بھی تحریک جس سے مسلمانوں کے عالمی پیمانے پر متحد ہونے کا دشمنوں کو خدشہ ہو وہ سیدھے دہشت گردی کے زمرے میں آجاتی ہے ۔دشمن توخیر دشمن ہی ٹھہرے وہ تو اسی کام کیلئے ہی بنے ہیں پر مسلمانوں کے شاہان بھی ایسی کسی تحریک کے حق میں اس لئے نہیں ہیں کہ اس سے ما بدولت کی پر تعیش زندگی میں رخنہ پڑ جائے گا۔انہیں شاہی محلوں سے نکل کر میدان عمل کا رخ کرنا ہوگا ۔داعش کو اتنے خطرناک دہشت گرد کے روپ میں دکھایا گیا کہ شاید ہی کوئی ہو جو ان کی حمایت کرے گا ورنہ ان کا نام آتے ہی مسلمان کان کو ہاتھ لگاتا ہے ۔ اخوان المسلمون اور حماس چونکہ تحریکی جماعتیں ہیں۔اس کی جڑیں زمین میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں اس لئے عالم عرب کے یہ چند بے وقعت حکمراں اگر اس کے ساتھ کوئی تعاون نہ بھی کریں تو عوام کا دل تو ان کے ساتھ ہی ہے اور انہوں نے مالی اخلاقی اور افرادی مدد بھی کی ہے ۔یہ شاید پہلی بار ہے جب کھل کر ایک عرب ملک نے ان کی حمایت کی ہے اور اتنی سختیوں کے باوجود بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔شاہان عرب کے غیر دانشمندانہ ، دوسرے کی ایماء اور عجلت میں کئے گئے یہ فیصلے تیسری خلیجی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو معاشی مندی کی شکار دنیا کو ایک نئے کرب سے گزرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔
قطر پر پابندی اور اسے تنہا کرنے کی کوشش پر ترکی صدر طیب ارودگان نے کہا کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا سبب بنے گا ۔یہاں ترکی وہ واحد ملک ہے جو قطر کے ساتھ کھڑا ہے ۔بلکہ سوشل میڈیا پر تو ایک تصویر وائرل ہورہی ہے اس کے مطابق قطر نے ترکی سے اشیائے خوردونوش منگوانا شروع کردیا تھا ۔کیوں کہ عرب ملکوں نے اچانک اس پر پابندی عائد کرکے سارے تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قطر پر پابندی کیوں لگائی گئی اور اب اس سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔قطر پر پابندی کی اصل وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں ترکی کے بعد ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت بن رہا تھا ۔بلکہ جو کچھ تفصیلات آرہی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو وہ ترکی کے بعد دوسرے مسلم ملک ہے جو دینے کے قابل بن گیا ہے ۔قطر کے ساتھ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے مسلم امہ کے خلاف صہیونی میڈیا کا جواب دینے کیلئے ایک ایسا نیوز چینل کھڑا کردیاجس کے بارے میں ملک کے سربراہ سے لے کر قومی لیڈر اور علاقائی قائد تک صرف باتیں کرتے ہیں اور بس لیکن اس نے بین الاقوامی معیار کا چینل کھڑا کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ کام ایسے کیا جاتا ہے ۔ قطر صحت تعلیم معیشت سب میں ایک مثال قائم کرتا جارہا تھا ۔یہ باتیں ان قوتوں کو ہضم کیسے ہوں گی جنہوں نے منصوبہ ہی بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی آگے نہیں آنے دینا ہے ۔ان کے سامنے ترکی کی مثال ہے جب وہ خود کفیل ہو گیا اور عالمی بینک سے قرض لینے کی بجائے اسے دینے کے قابل ہو گیا تو اب اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے ۔اس پر کسی دباؤ کا اثر نہیں ہوتا ۔اسی طرح قطر بھی کرنے لگا اور پھر دیگر اور بھی مسلم ملک سامنے آتے گئے تو کیا ہوگا ۔
شاید ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ میں عرب سربراہان کو جہاں دہشت گردی سے لڑنے کے اسباق پڑھائے وہیں انہوں نے ان کے احساس عدم تحفظ کو اور گہرا کردیا ۔حماس اور اخوان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش اور شہنشاہوں کی ان کے تئیں نفرت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ظاہر کرتا کہ اگر یہ عوامی تحریکیں زور پکڑ گئیں اور انہیں عوام میں تو مقبولیت حاصل ہی ہیں اگر انہیں اس میں مزید کامیابی مل گئی تو ان کی خاندانی بادشاہت کیا ہوگا ۔حالانکہ یہ محض ایک واہمہ ہے ۔یہ وہم بزدلوں اور ظالموں کو ہر آن ڈراتا رہتا ہے ۔مسلم امہ کی جو صورتحال ہے اور ہر میدان میں ہماری پسماندگی پر جو تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے عملی شکل میں لایا جائے اور ایسی عوامی تحریک کو ابھارا جائے جس سے مسلمانوں کی طاقت مضبوط ہو اور وہ عالمی پیمانے پر قائدانہ رول اداکرسکیں ۔لیکن برا ہو عدم تحفظ کے احساس کا جس نے سب پر پانی پھیر دیا ہے ۔سعودی عرب اور عرب امارات ہمیشہ ایران سے خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ علاقہ میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے ۔یہ سچ بھی ہے ۔لیکن سعودی عربیہ کی سربراہی میں موجودہ قطر مقاطعہ سے پیدا ہونے والی بے چینی سے تو خطہ میں کسی کو فائدہ ہوگا تو وہ صر ف ایران ہے ۔یہ بھلا کہاں کی دانشمندی ہے کہ محض اپنی خاندانی حکومت کو بچانے اور اس کی طرف سے کسی خدشہ میں پڑ کر ایسی کارروائی کی جائے جس سے علاقے میں دوسروں کو کھیل کھیلنے کا موقعہ ملے ۔آج تک عرب ممالک اپنی کوئی مضبوط و مستحکم فوج نہیں بنا سکے ۔اگر انہوں نے حماس اور اخوان جیسی تنظیموں کی سرپرستی کی ہوتی تو خطہ ایک فوجی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہوتا ۔لیکن انہوں نے بجائے یہ کہ اخوان کی قوت میں اضافہ کا سبب بنتے ان کی فکر اور اس کی قوت کو کچلنے میں اپنا سرمایہ لگایا ۔مصر میں سیسی کی بغاوت اور مرسی کی گرفتاری اور اس کے بعد ہزاروں اخوانیوں کے قتل عام سے آخر کیا ظاہر ہوتا ہے ۔ آج وہی دہشت گرداور باغی سیسی قطر کے خلاف کھڑا دنیا کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وکالت کررہا ہے ۔بہتر ہوگا کہ سعودی عرب اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور امت کے وسیع تر مفاد میں قطر کے خلاف مقاطعہ کو ختم کرے ۔اگر وہ ایران کی مداخلت اور بحرین اور یمن میں نہیں چاہتا تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خطے کے ممالک کو یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا ۔ورنہ اس طرح کی غیر دانشمندانہ کارروائی سے وہ فوجی اتحاد جو سعودی عرب کی سربراہی میں ہوا ہے جس سے مسلمانوں کو کافی امیدیں تھیں دم توڑ دیں گی۔قطر پر یہ الزام کہ وہ عرب عوام کو خبروں کے ذریعہ گمراہ کررہاہے بچکانہ پن ہے ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ آج کل ہیکر کتنے سرگرم ہو گئے ہیں ۔وہ ہیک کرکے کچھ بھی اور کبھی بھی کرسکتے ہیں ۔جیسا کہ الزام لگایا جارہا ہے کہ روسی ہیکروں نے قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی میں ہیکنگ کے ذریعے ایران کی حمایت اور سعودی عرب کے خلاف نیوز پوسٹ کئے ۔یہ ممکن بھی ہے ۔روس فی الحال مشرق وسطیٰ میں پھر سے متحرک ہونے کی کوشش میں ہے ۔اس لئے ترکی اور کویت کی گزراشات پر غور کیاجائے اور خطہ میں عدم استحکام کو روکا جائے ۔بہت دنوں کے بعد سعودی عرب کی عوامی حمایت میں جو اضافہ ہوا تھا وہ موجودہ بحران سے متاثر ہوگا ۔سعودی عرب کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
0 comments: