Politics

اگر اڈوانی صدر جمہوریہ بن گئے تو۔۔۔؟

6:13 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

فی الحال بیف اور اس کے لئے لوگوں کی جان لینے کے ساتھ ملکی سیاست میں صدر جمہوریہ کا انتخاب بھی موضوع بحث ہے ۔یوں تو کئی نام سامنے آئے ہیں لیکن فی الحال حکمران بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس میں سے کسی جانب سے بھی واضح اشارے نہیں ملے ہیں ۔شروع میں شیو سینا نے موہن بھاگوت کا نام لے کر اس بحث کو نیا موڑ دیا ۔اس سے قبل اڈوانی کے نام کی قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ہو سکتا ہے یہی دونوں نام سامنے آئیں اور یہ بھی ممکن ہے کسی تیسرے کا نام بھی سامنے آئے ۔لیکن ہماری گفتگو کا اہم موضوع صرف یہ ہے کہ موہن بھاگوت اور اڈوانی میں سے کون اس پر وقار اور شہنشاہی عہدہ پر پہنچے گا ۔ویسے پردھان سیوک اور سنگھ کی پہلی پسند تو موہن بھاگوت ہی ہوں گے ۔لیکن اپوزیشن اور بی جے پی کے غیر مطمئن گروپ کی پہلی پسند اڈوانی ہو سکتے ہیں ۔یہ غیر مطمئن گروہ وہی ہے جس نے بی جے پی کوآج اس مقام پر پہنچایا ہے جہاں پہنچنے کا انہوں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوگا ۔لیکن جیسے ہی بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی ملی تو اس پورے سینئر سٹیزن کو ہی کوڑے دان میں ڈال کر نشان عبرت بنا دیا گیا۔اب ان کا حال یہ ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ۔اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے کہ وہ ایک فساد کو دوسرے سے یا ایک ظالم کو دوسرے سے ہٹا تا رہتا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جائے تو یہ دنیا فساد سے بھر جائے۔ ماضی قریب میں اڈوانی نے بھی خوب آگ اور خون کی ہولی کھیلی تھی لیکن آج کی ضعیفی میں تنہائی کا عذاب جھیل رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا وہاں صرف دماغ کام کرتا ہے اور دماغ کسی کی محبت اور وفا داری سے یکسر خالی ہوتا ہے اسے صرف مفاد اور نفع و نقصان کی ضرب تقسیم سے مطلب ہے ۔اب آج کی حقیقت نریندر مودی ہیں اور انہوں نے اڈوانی کے نقش قدم پر چل کر آج یہ مقام حاصل کیا ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ آج بی جے پی کی حکومت میں ملک میں افراتفری کا ماحول اس لئے ہے کیوں کہ یہاں کوئی تجربہ کار نہیں اور نا ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔بس سب کے سب صرف برہمنی سیاسی ایجنڈہ کو نافذ کرنے کے جوش میں ہوش سے بیگانہ ہو کر کام کررہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہرطرف فساد ہی فساد ہے ۔بہر حال جو ہونا ہے وہ تو ہوگا ہے ۔
غور کیجئے بابری مسجد کا معاملہ دہائیوں سے چل رہا ہے اب اس قدر پیش قدمی ہو ئی ہے کہ ان نامور ہستیوں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے اسی بابری مسجد کے ملبہ سے بی جے پی کی حکومت کی تعمیر کی ہے ۔لیکن اب وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ ہیں اور اپنے احتساب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہم یہ مانتے ہیں کہ سنگھ کے ایجنڈے کے مطابق ہی ملک میں بی جے پی کی حکومت چل رہی ہے ۔لیکن انسان میں لالچ کا مادہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کئی بار اسے سمجھنا اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہ لالچ اور ہوس پردھان سیوک میں بھی ہو سکتاہے ۔بلکہ یہ ہے ۔اسی کے تحت وہ پارٹی یا برہمنی ایجنڈہ کو صرف نافذ کرنے کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنی انا اور خود غرضی کی تسکین کیلئے بھی حکومت کررہے ہیں ۔اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب اخوان کی مرسی حکومت میں السیسی جیسے منافق نے اخوانیوں کا اعتماد جیت کر انہیں نقصان پہنچایا تو بی جے پی میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہی لالچ اور خود غرضی ہی انسان کو اس کے بدترین انجام تک پہنچاتی ہے ۔حق کے ساتھ منافق ہو سکتے ہیں تو باطل کے ساتھ بھی لالچی اور مفاد پرست ہو سکتے ہیں ۔ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ پردھان سیوک کیسی کیسی اداکاری کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنے جانتے ہوئے تو اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگادیا ۔لیکن یوپی میں یوگی کے عروج سے جہاں ہندوتوا کا ایجنڈا مضبوط ہوا وہیں مودی کی ون مین آرمی والی کیفیت کو بھی چوٹ لگی ۔اس سے عدم تحفظ کا احساس یقیناًان کے اندر پیدا ہو ا ہوگا ۔اسی لئے سرد خانوں میں دبے ہوئے بابری مسجد کے مقدمے میں جان ڈال کر اڈوانی کی راہوں کو مسدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ صدر جمہوریہ کی ریس سے دور رہیں ۔ اگر اڈوانی ان ساری مشکلات کو توڑتے ہوئے صدر جمہوریہ بن جاتے ہیں تو نریندر مودی کے لئے یہ نیک فال نہیں ہے ۔انہوں نے سواتین سال جتنی آسانی سے پرنب دا کی سر پرستی میں نکالا ہے وہ اڈوانی کے زیر سایہ آسانی میسر نہیں ہوگی ۔
لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بھلا اڈوانی اپنی ہی حکومت کے خلاف کیوں جائیں گے؟ اس کا جواب تو اوپر والا وہی جملہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے ۔ وہاں صرف مفاد کی بات کی جاتی ہے ۔ انسان میں شاید اقتدار کی ہوس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کیلئے رشتے اور دوستی بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔کانگریس نے بھی اپنے دور میں خود اپنی ہی ریاستی حکومت کو نہیں بخشا محض اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ وزیر اعلیٰ وزیر اعظم سے بڑی قوت والا نہ بن جائے یا اس کا سیاسی قد کچھ زیادہ ہی بلند نہ ہو جائے ۔مثال کے طور پر بہار میں کانگریس دور حکومت میں وزیر اعلیٰ کی فہرست دیکھ لیں ۔کانگریس نے خود اپنی ہی حکومت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کئی بار صدر راج کا نفاذ کیا۔دو سری جانب کانگریس نے عوامی ذہن کو دوسرا رخ دینے کیلئے جموں کشمیر کی منتخب عوامی حکومت کو بھی معمولی وجوہات کی بنا پر برخواست کیا ۔گیانی ذیل سنگھ بھی راجیو گاندھی حکومت کیلئے کئی بار مشکلات پیدا کرنے والے صدر جمہوریہ کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ وہ بھی کانگریس کے ہی تھے اور راجیو گاندھی کی حکومت کوئی کمزور حکومت نہیں تھی وہ بی جے پی کی موجودہ حکومت سے زیادہ بڑی تعداد میں اراکین پارلیمنٹ رکھنے والے وزیر اعظم تھے 542 سیٹوں کی پارلیمانی سیٹوں پر 411 کانگریس کے ممبران تھے۔اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ موجودہ حکومت بھی اپنے ہی منتخب صدر جمہوریہ اگر اڈوانی ہوتے ہیں تو مطمئن نہیں رہ پائے گی ۔ اس پر ہر آن تلوار لٹکتی رہے گی۔نریندر بھائی نے اڈوانی کو بھی کنارہ لگا کر انہیں وہی سیاست کا اصول سمجھایا ہے۔ اسی لئے بابری کیس کو کھلوایا گیا ۔ ہو سکتا ہے مزید کچھ اور کوششیں بھی ہوں ۔لیکن تقدیر کے قاضی نے اگر سب کچھ بہتر نہیں لکھا ہے تو ساری بندشوں کے باوجود اڈوانی کے صدر جمہوریہ بن جانے پر بہر حال مودی جی اور ان کے رفقاء کے اچھے دن ختم ہو جائیں گے ۔ مودی حکومت کے شروعاتی دنوں میں اڈوانی کئی عوامی فورم پر بول چکے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی کا خدشہ بنا ہوا ہے ۔ وہ مودی کے اپنے گرد ارتکاز اقتدار کی پالیسی پر دبے لفظوں میں شکایتیں بھی کرچکے ہیں ۔اس بات کو شاید لالو پرشاد بھی سمجھ رہے ہیں اسی لئے انہوں نے اڈوانی کے نام پر نرمی کا اظہار کیا ہے ۔ 

0 comments: