Muslim Issues

اور کتنے جنید

8:03 PM nehal sagheer 0 Comments


دوٹوک ۔ قاسم سید

اب ان سوالوں سے نظریں چرانے،شور سن کر گھر کا دروازہ بند کرنے کا وقت نہیں رہا کہ اکثر ہمارا مہذب ترقی یافتہ تکثیری سماج کا ایک حصہ جنون ودیوانگی کے ساتھ درندگی اور وحشی پن پر کیوں اترآیا ہے۔ ہمارے آنگن میں رواداری کے کبوتر اترناکیوں بند ہوگئے۔جمہوری مزاج میں بلاکی تندی، تلخی،زہر،نفرت کے جراثیم کیوں اثرانداز ہورہے ہیں۔ بھیڑتنتر کے بھڑیا تنتر میں بدلنے میں کتناوقت اور لگے گا۔ یہ سب اچانک ہونے لگا یا اس کی تیاری کافی عرصہ سے کی جارہی تھی اوراب اسے کھل کر پھلنے پھولنے اور کھادفراہمی کا بے روک ٹوک موقع ملا ہے۔ اسے پھلنے پھولنے کیوں دیاجارہا ہے کیا سب کا ساتھ اور سب کا وکاس اور ہندوتو اکے کاک ٹیل سے سیاسی تخلیق کا عمل جاری تھا وہ حقیقی شکل لے چکا ہے۔ کیا گاندھی کا رام راجیہ اور آر ایس ایس کا ہندو راشٹر اس راستہ سےآئے گا جہاں مخالفین کو سڑکوں پر گھیرکر چند منٹوں میں فیصلہ سنایاجانے لگے گا۔ واقعی ہندو راشٹر کی عملی تصویر بنی ہے یاپھر اقلیتوں، آدیواسیوں اور دلتوں میں ذلت وخواری کا احساس پیدا کرکے انہیں خوف ودہشت کانفسیاتی مریض بنایا جارہاہے تاکہ ان کی مزاحمتی قوت کا مزاج ختم ہوجائے۔ اخلاق سے پہلو خاں اور معصوم روزہ دار جنید کا قتل اس مہم کاناگزیر حصہ ہےکہ گر تم ہمارے مزعومہ ہندوتو کے آگے نتمستک نہیں ہوتےتو تمہاری ہڈیاں توڑدی جائیں گی۔ چاقوئوں سے گود کر سڑکوں پر پھینک دیاجائےگا۔ تم ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگوگے تو بھی زندگی نہیں بخشی جائے گی۔ تمہارے گھروں میں آگ لگادیں گے۔ دکانوں کوجلاکر راکھ کردیں گے اورتمہیں ذہنی افلاس کا شکار بناکر دوسرے کے لئے عبرت بنادیں گے۔ سیاسی پارٹیاں جنہیں تم سیکولر کہہ کر پکارتے ہو جو تمہارا خون پی کر اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں، تمہاری لاشوں کی تجارت کرتی ہیں تمہاری مدد کو نہیں آئیں گی۔ کیونکہ ہم نے منہ بھرائی اور خوشامد کی بات کہہ کر ان کی زبانیں بند کردی ہیں۔اب وہ صرف روایتی بیان جاری کرکے ذمہ داری سے پلہ جھاڑ لیں گی۔ اور پردھان سیوک بھی کچھ نہیں کہے گا۔
یہاں ایک سوال اورپیداہوتا ہے کیا جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہماری خاموشی،مصلحت پسندی، خود غرضی اوربزدلی کانتیجہ ہے یاپھر ہم اب اس لائق نہیں کہ ہمیں اخلاق،پہلو خان اور جنید بنادیاجائے۔ ان جیسے مسائل پر مسلم قیادت کا سواداعظم بیان بازی سے آگے کیوں نہیں بڑھتا وہ جنتر منتر پر جمع اس ہجوم کا حصہ کیوں نہیںبنتا جو جنید کے بے رحمانہ قتل اور کھٹر کے انصاف سے بے چین ہواٹھااور سڑکوں پر اتر گیا پورے ملک میں یہ جذبہ دکھائی دیا اوربغیر کسی پارٹی کے بینر اور لیڈر کی تصویر کے ہزار وں لوگ ہندوستانی رواداری اس کی شرافت وانسانیت کا تحفظ کرنے کے لئے جمع ہونے لگے ہیں۔ ان کا لیڈر سوشل میڈیاہے جس نے چھوٹے چھوٹے پیغامات کے ذریعہ سونے والوں کو بیدا رکردیا ان کی روح کو جھنجھوڑدیا مگرہم اپنے محلوں،حجروں اور خانقاہوں سےباہر آنے میں اب بھی جھجک کر رہے ہیں تو کیوں کالی پٹی باندھنے کے جواز اورعدم جواز پر الجھ گئے۔ اگر کسی میں احتجاج کرنے کی حس بھی ختم ہوجائے تو اس کا مرجانا ہی بہتر ہے۔انہیں معلوم نہیں کہ جب عوام کا غصہ سمندری طوفان بنتا ہے تو وہ محلوں اور سبزہ زاروں کو بھی نہیں بخشتا۔ اخلاق احمد کو گھر سے نکال کر سڑک پر مار دیاجاتا ہے اور جیل میں بند اخلاق کے قتل کا ملزم بیماری کی وجہ سے مرجاتا ہے تو اس کی لاش کو ترنگے میں لپیٹ کر درشن کے لئے رکھ دیاجاتا ہے۔ مرکزی وزیر شردھانجلی دینے آتے ہیں اور یوپی سرکار وارثین کو لاکھوں کامعاوضہ دیتی ہے گویا وہ سرحد پر لڑکر شہادت کاربند حاصل کرکے آیا ہو۔ ملک بھر میں گئو ماتا کو بچانے اور’راشٹرنرمان کے لئے کچھ بھی کر گزرجانے کی شہیدی تمنا لئے گئو رکشوں کو اس سے حوصلہ ملتا ہے۔ گئو ماتا بچانے سے زیادہ اسے خریدوفروخت کرنے والوں کو دہشت زدہ کرنا،چوراہوں پر کھلے عام پیٹنا،پولیس اور انتظامیہ کا اس مقدس کام میں دخل اندازی نہ کرنا ان کاقتل پوتر کام ہے۔ کس نےبتایا اور سکھایا کہ ان کا دشمن کون ہے۔ دشمن کی پہچان کیسے ہو اور یہ بھروسہ کہاں سے آیا کہ اگر مقدس فریضہ انجام دینے پر پکڑ ے گئے تو قانون تمہارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا کیونکہ جو کچھ کر رہے ہو وہ راشٹر نرمان اور سماج کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔ اجودھیا میں بجرنگ دل خود حفاظت کیمپ میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کے دوران دیش دروہیوں کو ٹوپی اور داڑھی والا بناکر دکھایاجاتا ہے اور پانچ جنیہ کے ایک مضمون میں لکھاجاتا ہے۔’’وید کا آدیش ہے کہ گئو ہتیا کرنے والے  پانکی کے پران لے لو،اس کا نظارہ دیکھنے کے لئے پہلو خان کے قتل کا ویڈیو دیکھ لیاجائے۔ سڑک پر بری طرح کھدیڑنے،لاتیں گھونسے مارتے ہائی وے کے فٹ پاتھ پر بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے پھر اس کے سفید کرتاپاجامہ اور داڑھی والا یہ شخص شکاری کتوں کےد رمیان ایسے گھرا ہوا ہے جیسے میمنہ ہو،لڑکوں کے سرپر خون سوار ہے وہ جتنامارتے ہیں ان کا جنون بڑھتا ہے کہیں دن کے اجالے میں کہیں رات کی چاندنی میں چلتی سڑک پر بھیڑکسی کو پکڑتی ہے بیف کاالزام لگاکر اس کا خون جائز قرار دیتی ہے اور قتل کی واردات کا ویڈیوبناکر سوشل میڈیا پر وائرل کیاجاتا ہے تاکہ دوسروں کے دلوں پر خوف بیٹھ جائے اور سرکاری سسٹم کو چیلنج کہ یہ ہم نے کیا ہے۔ کچھ بگاڑسکتے ہوتو بگاڑ لواورسادھو سماج سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ جو بیف کھائے گا ماراجائے گا۔ ایک لڑکی اٹھائیں ہم سواٹھاکر لائیں گے۔ ’لوجہاد، کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی جائے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سماج کو کہاں لے جایاجارہاہے۔ جنید اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مبینہ سیٹ کا جھگڑا ان کے مسلمان،پاکستانی ایجنٹ اور غدار ہونے تک جاپہنچا۔ ٹوپی اچھال دی گئی۔ داڑھی کھینچی گئی اور روزہ دارنابالغ جنید پر چاقو کے آٹھ واریہ کہہ کر کئے گئے کہ تم بیف کھاتے ہو۔ اس کے بعد جھارکھنڈ میں بزرگ عثمان انصاری کو محض اس لئے ادھر مرا کردینا اور اس کے گھر کو نذرآتش کردینا کہ اس کے گھر کے باہر مردہ گائے پڑی تھی۔ یعنی اقلیتوں میں احساس ذلت اوراحساس کمتری پیداکرنے کی منظم سازش سیکولر پارٹیوں کی خاموش حصہ داری کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا جو منہ بھرائی کے خوف سے اس ظلم کے خلاف کھل کر سامنے آنے سے ڈر رہی ہیں گرچہ ان سیکولر فرقہ پرستوں کی منافقانہ روش سے ہمیشہ نقصان پہنچا ۔خاص طور سے منڈل نے ہندوتو کو مضبوط کیا۔ سماجی انصاف کی مبینہ سیاست کو ہندوتو اور فاشزم کے لئے کوئی خطرہ نہیں یہ ان کی درد میں شریک نہیں ہے یہ بنیادی طور پر سنگھ کے ایجنٹ اور رنگیلے سیار ہیں جنہوں نے سیکولرازم کا رنگ چڑھا لیا ہے۔ اس لئے مایا،نتیش اور ملائم جیسے سیکولر فرقہ پرستوں کو بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں کوئی تکلف نہیں ہوتی۔ کانگریس مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے مودی کو بڑھاوادیتی رہی اب خود اس کے جال میں پھنس گئی۔ یہ ان جیسی پارٹیوں نے ہمیں صرف قربانی کا بکرا بنایا ہے ۔ بھارت کا پاکستانی کرن ہونے پر انہیں کوئی تشویش نہیں غیرآئینی طاقت کے نئے مراکز کے نیٹ ورک سے کوئی پریشانی نہیں۔ مسلم قیادت نے بحالت مجبوری ان سانپوں کو دودھ پلایا وہ ڈستے رہے تو ہم دودھ پلاتےرہے۔ ایک طرف کھائی تو دوری طرف کنواں اور آج بھی ان کی مدح سرائی اور فرشی سلام کرنے ،حضور میں سجدہ بجالانے،قدم بوسی کرنے اور دربار میں کورش بجانے سے کوئی گریز نہیں۔
صرف سول سوسائٹی امیدوں کا اکلوتامرکز ہے جس کی روح زندہ ہے۔ہر ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے۔ جنید کے بے رحمانہ قتل نے اس کے اضطراب کی گانوں کو چھیڑ دیا یہ سڑکوں پر نکل آتی ہے۔Not in my nameنے پورے ملک کو ایک لڑی میں پرودیا۔ صفیں پھر آراستہ ہیں ہم گھر میں آرام فرما رہے ہیں تو یہ نہیں چلے گا۔ سوشل میڈیانیا قائد بن کرابھرا ہے یہ بے چہرہ قیادت خطرہ لیتی ہے مگر جب ہم آرام طلبی میں رہیں گے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کریں گے،اپنی لکشمن ریکھا کھینچ کر بیٹھ جائیں گے تحفظات کے ساتھ بات کریںگے تو معاف کیجئے گا تاریخ آپ کا انتظار نہیں کرےگی۔ بھیڑ کا انصاف کیا کیجئے بلامسلک پوچھے صرف مسلمان سمجھ کر جان لیتاہے۔ نوجوان بہت غصہ میں ہے جھنجھلاہٹ کاشکار ہے اس کی رہنمائی کیجئے ورنہ پانی اپناراستہ بنالیتا ہے

0 comments: