Muslim Worlds
ممتاز میر
بالآخر۳۴ رکنی ’’اسلامی ‘‘فوج بنانے والے احمقوں نے قطر کو نکال باہر کر دیا ۔ قطر بہت دنوں سے سعودی عرب اور اس کے چمچوں کی نظروں میں کھٹک رہا تھا ۔بڑا ننھا سا ملک ہے (ننھا سا ملک تو سرائیل بھی ہے )۔مگرعلاقائی اور عالمی مسائل پر اس کے مواقف بڑے اور نپے تلے ہواکرتے ہیں۔ایسے جو امریکی چمچوں کے منہ پر طمانچوں کی طرح لگتے ہیں۔بار بار لگنے والے ان طمانچوں کا علاج یہی تھا کہ اسے غیر بنا دیا جائے۔اور اسے حتی الامکان ستا کر اپنی طرح بزدلانہ موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔اسلئے سات اسلامی نہیں مسلم ممالک نے (فی الوقت دنیا کوئی اسلامی ملک نہیں ہے) قطر سے ہر قسم کے روابط ختم کر نے کا اعلان کردیا ہے ۔اب ان سات ممالک اور قطر کے درمیان بری بحری اور فضائی سفر ممکن نہیں ۔یہاں تک کہ سفراء کو بھی واپس بلا لیا گیا ہے۔یہ انتہا پسندانہ اقدام کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا گیا گیا کہ اس سے عام لوگوں کو سیاحوں کو کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔خبروں کے مطابق سب سے زیادہ مصیبت میں عمرے کو جانے والے لوگ ہی پڑے ہیں اور ان سات ممالک کا سرغنہ سعودی عرب ہی ہے۔سعودی عرب کے علاوہ ان ۷ ممالک میں مصر،یمن لیبیا ،بحرین،یو اے ای اور حیرت انگیز طور پر مالدیپ شامل ہے۔ہمیں پہلی بار یہ پتہ چلا ہے کہ مالدیپ سعودی عرب کا تنا بڑا چمچہ ہے ۔اب سعودی عرب کی دنیا وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو کبھی تھی اب ان کی اگر کوئی حیثیت ہے تو بس اتنی کہ مسلمانوں کے حرمین شریفین سعودی عرب میں واقع ہیں۔اور یہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان میں self respect نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے ۔ابھی سال دو سال پہلے یمن مین سعودی سرحد کے قریب ایرانی یلغار سے گھبرا کرانھوں نے پاکستان کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ پھیلائے تھے مگر نواز شریف نے جو برسوں جلا وطنی میں سعودی شاہی میزبانی سے لطف اندوزہو چکے ہیں انھیں’’معاف کرو بابا‘‘ کہہ دیا تھا۔اور کیوں نہ کہتے ۔امریکی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب ہے ۔پھر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت کیا ہے ۔ یہ اسلحے بھی اس شرط پر ملتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہونگے۔۱۹۸۹ میں ایران عراق سے۸ سالہ جنگ کے بعد فقیر ہو چکا تھا ۔جبکہ سعودی عرب مسلم ممالک کے درمیان مالدار ترین ملک تھا ۔یہ ۸ سالہ جنگ بھی ایران پر اسی غرض سے تھوپی گئی تھی جس غرض سے مرسی کے تخت کو تختہ بنا دیا گیا ہے ۔اس کے باوجود ایران آج اس قابل ہے کہ تمام عرب ممالک کو اکیلے نپٹ سکتا ہے ۔اس کے باوجود کہ امریکہ سے اربوں کھربوں ڈالر سالانہ کے اسلحے نہیں لیتا۔کبھی کبھی ہمیں شک ہوتا ہے کہ یہ حضور ﷺاور صحابہ کرامؓ کی اولاد نہیں ہیں ۔یہ اسلام کے دشمنوں کی ذریت ہیں۔
یہ زمانہ تلبیس حق وباطل کا ہے ۔کسی بھی معاملے کی حقیقت تک پہونچنا بڑا مشکل بنا دیا گیا ہے۔اس کے باوجود جس طرح یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ شام میں ایران کی بشارالاسد کی حمایت نہ قوم کے لئے ہے نہ دین کے لئے بلکہ اپنے مسلکی مفادات کے لئے ہے(حالانکہ ایرانی علما نصیریوں کو کافر کہتے ہیں)اور ۲۰۱۱ تک ایران تقیہ کئے ہوئے تھا ۔ بالکل اسی طرح مصر میں سعودی عرب کی جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت اور مرسی کی مخالفت میں ڈالروں کے دریا بہانا نہ قوم کی خاطر ہے نہ دین بلکہ خاندانی اقتدار کی حفاظت کے لئے ہے۔اور اب تو وہ اتنے گر چکے ہیں کہ امریکی غنڈوں کو پالنے کے ہر سال حاجیوں پر نت نئے بوجھ بڑھا رہے ہیں ۔کاش کہ قوم کو عقل آئے اور ترکوں کی طرح وہ بھی فیصلہ کر لے کہ جب تک شاہوں کی حکومت ہے وہ نفلی حج و عمرہ سے دور رہیں گے۔ ہم قطر کے حکمراں کے حامی ہیں ۔وہ پہلے مسلم حکمراں ہیں جنھوں نے میڈیا کی اہمیت کو سمجھااور نومبر ۹۶ میں الجزیرہ کے نام سے ایک بین الاقوامی ٹی وی چینل شروع کیاجس کے اب دنیا بھر میں ۸۰ بیوریوز کام کر رہے ہیں اور کئی زبانوں میں کر رہے ہیں ۔امریکہ کے جتنے بڑے دشمن اخوان اور حماس ہیں اتنا ہی بڑا دشمن امریکہ الجزیرہ چینل کو بھی سمجھتا ہے۔یہ شاید دنیا کا وہ واحد چینل ہے جس پر امریکہ دشمن کی طرح حملے بھی کرتا ہے ۔امریکہ کا ایک فوجی اڈہ قطر میں بھی ہے اسلئے امریکہ نے ہر طرح کا دباؤ ڈال کریہ کوشش کی کہ اس کے دانت نکال دیئے جائیں مگر حیرت انگیز بات ہے کہ سعودی عرب جیسے مہارتھیوں کے ،جن کے پیسوں کے بل پر امریکہ کی لنگڑی لولی معیشت ٹکی ہوئی ہے ،امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بعد بھی قطر کے حکمران کم سے کم الجزیرہ کے معاملے میں تو جھکے نہیں۔پھر،پھر یہ کہ امریکہ کو جب بھی جہاں بھی موقع ملتا ہے الجزیرہ کے انفر اسٹرکچر حملہ کر دیتا ہے ۔صحافیوں کو مار؍مروا دیتا ہے ۔یا پھر متعلقہ ممالک امریکہ کے حکم پر انھیں قید کر لیتے ہیں۔ان کی نشریات بند کر دی جاتی ہیں ۔اب تک دنیا میں مرنے والے سب سے زیادہ صحافی الجزیرہ کے ہی ہیں۔
خیر جا رہا ہے کہ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب ہی اسلئے کیا تھا کہ غلاموں8 کی وفاداری کی حد جانچ سکیں۔مبصرین کہہ رہے ہیں کہ قطر کے تعلق سے مسلم ممالک کا یہ فیصلہ ٹرمپ کے دورے کا نتیجہ ہے ۔اس دورے سے ایک بات اور واضح ہوئی ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت بہت کمزور ہاتھوں میں ہے ۔امریکہ آج تو بہت کمزور ہو چکا ہے بلکہ اب دنیا یونی پولر نہیں رہ گئی ہے ۔مگر جب دنیا یونی پولر تھی تب بھی کسی امریکی حکمراں کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی خواتین سر پر اسکارف رکھے بغیر سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھے ۔اور یہ نتیجہ ہے اسلام پسندوں کی دشمنی کا۔حضرت عمرؓ نے کہا تھا ہماری عزت دنیا میں کپڑوں کی وجہ سے نہیں اسلام کی وجہ سے ہے ۔کیا موجودہ حکمراں ان کی اولاد ہو سکتے ہیں؟قطر کا حکمراں بھی ڈپلومیسی کا مظاہرہ تو کرتاہے غلامی کا نہیں کرتا۔اور سچ پوچھو تو یہی بات ان عرب مہارتھیوں کو کھٹکتی ہے۔اسی لئے قطر کی یہ بات سچ لگتی ہے کہ ’’وہ ہمیں Dictate کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
جو الزامات ان ۷ ممالک نے قطر کے خلاف لگائے ہیں وہ تمام الزامات تو پاکستان،ترکی ،سوڈان اور بہت سارے دیگر اسلامی ممالک کے خلاف بھی لگائے جاسکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر ان کے خلاف بھی وہی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟جبکہ ترکی تو کھلم کھلا قطر کی حمایت کر رہا ہے ۔اور السیسی کا سب سے بڑا دشمن بنا ہوا ہے۔ترکی اعلان کر رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ثالث کا رول ادا کرے گا ۔دراصل ظالم بزدل ہوتا ہے اور وہ کمزوروں کو نشانہ بناتا ہے اور شہزوروں سے دب کر رہتا ہے۔قطر پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایران کی حمایت کرتا ہے ۔مگر دوسری طرف الجزیرہ Anti Shia رپورٹنگ کے لئے مشہور ہے ۔اور یہ اسلئے ہے کہ الجزیرہ ایک آزاد چینل ہے ۔یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنے مالکین سے اتفاق کرے ۔دوسری طرف قطر کا ایران کے تعلق سے موقف یہ ہے کہ وہ ایران کے تعلق سے سخت موقف اپنا کر شیعہ سنی خلیج کو بڑھانا نہیں چاہتے بلکہ ان کا مقصد تو خلیج کو ختم کرکے ہم آواز ہونا ہے ۔مگر قطر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ایران کی توسیع پسندی ہی ایران کے خلاف مسلم ممالک میں بے چینی پیدا کر رہی ہے ۔ہم خود ۲۰۱۱ کے بعد سے یہ لکھ رہے ہیں کہ کل تک جو احمدی نژاداور حسن نصراللہ مسلم دنیا کے عوام کے ہیرو تھے وہ ایران کے مسلکی اقدامات کی بنا پر آج زیرو بن گئے ہیں ۔یہ سوچ کر بڑا دکھ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ دانشور شیعہ برادری کے پاس ہیں۔ایران میں بھی اور ایران کے باہر بھی ۔آج ایران جو کچھ کر رہا ہے وہ اس پر خوش بھی ہیں۔کسی کو عوام میں ایران کی اخلاقی ساکھ کھو جانے کا دکھ نہیں ۔وہ اس کے باوجود اپنے آپ کو اسلام پسند سمجھتے ہیں۔قطر کو اس سانحے کا احساس ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ مسلکی رنجش سے عالم اسلام کو جو نقصان ہو رہا ہے اس تعلق سے ایران کو سمجھایا جائے۔بس یہ بات چھوٹے دل والے بڑے حکمرانوں کو ناگوار گزر رہی ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو ایران سے اتنی ہی نفرت ہے تو اس کا اظہار اس وقت بھی ہونا چاہئے تھا جب فائیو پلس ون نے ایران سے نیو کلئرمعاہدہ کیا تھا ۔ان سے قطر کی طرح تعلقات کیوں منقطع نہیں کئے گئے؟ سچ یہ ہے کہ ۱۵ بلین کیوبک میٹر تیل اور نیچرل گیس کے بڑے ذخیروں میں سے ایک رکھنے والے قطر کو سعودی حکمراں صرف اور صرف خادم الحرمین شریفین ہونے کی بنا پر اپنا بغل بچہ سمجھتے ہیں ۔بچہ کوئی ایسا کام کر جائے جو خود اسکے بزرگوں کی اوقات سے بڑھ کر ہو تو دو باتیں ہوتی ہیں (۱)بزرگ اس کے کارنامے پر فخر کرتے ہیں ،اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس کے کارنامے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے یہ خود ان کا کارنامہ ہو (۲)وہ اس سے جل جاتے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں،اس کے نتائج و عواقب سے ڈراتے ہیں۔زندگی کے ہر معاملے میں اپنے موقف سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سب کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو اسے سزا دے ڈالتے ہیں۔ ہم قطر سے یہی کہیں گے کہ ان گیدڑوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔بہادر روز روز نہیں مرتے ۔انھیں بس ایک ہی بار موت آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
ممتاز میر
بالآخر۳۴ رکنی ’’اسلامی ‘‘فوج بنانے والے احمقوں نے قطر کو نکال باہر کر دیا ۔ قطر بہت دنوں سے سعودی عرب اور اس کے چمچوں کی نظروں میں کھٹک رہا تھا ۔بڑا ننھا سا ملک ہے (ننھا سا ملک تو سرائیل بھی ہے )۔مگرعلاقائی اور عالمی مسائل پر اس کے مواقف بڑے اور نپے تلے ہواکرتے ہیں۔ایسے جو امریکی چمچوں کے منہ پر طمانچوں کی طرح لگتے ہیں۔بار بار لگنے والے ان طمانچوں کا علاج یہی تھا کہ اسے غیر بنا دیا جائے۔اور اسے حتی الامکان ستا کر اپنی طرح بزدلانہ موقف اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے۔اسلئے سات اسلامی نہیں مسلم ممالک نے (فی الوقت دنیا کوئی اسلامی ملک نہیں ہے) قطر سے ہر قسم کے روابط ختم کر نے کا اعلان کردیا ہے ۔اب ان سات ممالک اور قطر کے درمیان بری بحری اور فضائی سفر ممکن نہیں ۔یہاں تک کہ سفراء کو بھی واپس بلا لیا گیا ہے۔یہ انتہا پسندانہ اقدام کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا گیا گیا کہ اس سے عام لوگوں کو سیاحوں کو کس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔خبروں کے مطابق سب سے زیادہ مصیبت میں عمرے کو جانے والے لوگ ہی پڑے ہیں اور ان سات ممالک کا سرغنہ سعودی عرب ہی ہے۔سعودی عرب کے علاوہ ان ۷ ممالک میں مصر،یمن لیبیا ،بحرین،یو اے ای اور حیرت انگیز طور پر مالدیپ شامل ہے۔ہمیں پہلی بار یہ پتہ چلا ہے کہ مالدیپ سعودی عرب کا تنا بڑا چمچہ ہے ۔اب سعودی عرب کی دنیا وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو کبھی تھی اب ان کی اگر کوئی حیثیت ہے تو بس اتنی کہ مسلمانوں کے حرمین شریفین سعودی عرب میں واقع ہیں۔اور یہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ۔ہم برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان میں self respect نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے ۔ابھی سال دو سال پہلے یمن مین سعودی سرحد کے قریب ایرانی یلغار سے گھبرا کرانھوں نے پاکستان کے سامنے مدد کے لئے ہاتھ پھیلائے تھے مگر نواز شریف نے جو برسوں جلا وطنی میں سعودی شاہی میزبانی سے لطف اندوزہو چکے ہیں انھیں’’معاف کرو بابا‘‘ کہہ دیا تھا۔اور کیوں نہ کہتے ۔امریکی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار سعودی عرب ہے ۔پھر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت کیا ہے ۔ یہ اسلحے بھی اس شرط پر ملتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہونگے۔۱۹۸۹ میں ایران عراق سے۸ سالہ جنگ کے بعد فقیر ہو چکا تھا ۔جبکہ سعودی عرب مسلم ممالک کے درمیان مالدار ترین ملک تھا ۔یہ ۸ سالہ جنگ بھی ایران پر اسی غرض سے تھوپی گئی تھی جس غرض سے مرسی کے تخت کو تختہ بنا دیا گیا ہے ۔اس کے باوجود ایران آج اس قابل ہے کہ تمام عرب ممالک کو اکیلے نپٹ سکتا ہے ۔اس کے باوجود کہ امریکہ سے اربوں کھربوں ڈالر سالانہ کے اسلحے نہیں لیتا۔کبھی کبھی ہمیں شک ہوتا ہے کہ یہ حضور ﷺاور صحابہ کرامؓ کی اولاد نہیں ہیں ۔یہ اسلام کے دشمنوں کی ذریت ہیں۔
یہ زمانہ تلبیس حق وباطل کا ہے ۔کسی بھی معاملے کی حقیقت تک پہونچنا بڑا مشکل بنا دیا گیا ہے۔اس کے باوجود جس طرح یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ شام میں ایران کی بشارالاسد کی حمایت نہ قوم کے لئے ہے نہ دین کے لئے بلکہ اپنے مسلکی مفادات کے لئے ہے(حالانکہ ایرانی علما نصیریوں کو کافر کہتے ہیں)اور ۲۰۱۱ تک ایران تقیہ کئے ہوئے تھا ۔ بالکل اسی طرح مصر میں سعودی عرب کی جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت اور مرسی کی مخالفت میں ڈالروں کے دریا بہانا نہ قوم کی خاطر ہے نہ دین بلکہ خاندانی اقتدار کی حفاظت کے لئے ہے۔اور اب تو وہ اتنے گر چکے ہیں کہ امریکی غنڈوں کو پالنے کے ہر سال حاجیوں پر نت نئے بوجھ بڑھا رہے ہیں ۔کاش کہ قوم کو عقل آئے اور ترکوں کی طرح وہ بھی فیصلہ کر لے کہ جب تک شاہوں کی حکومت ہے وہ نفلی حج و عمرہ سے دور رہیں گے۔ ہم قطر کے حکمراں کے حامی ہیں ۔وہ پہلے مسلم حکمراں ہیں جنھوں نے میڈیا کی اہمیت کو سمجھااور نومبر ۹۶ میں الجزیرہ کے نام سے ایک بین الاقوامی ٹی وی چینل شروع کیاجس کے اب دنیا بھر میں ۸۰ بیوریوز کام کر رہے ہیں اور کئی زبانوں میں کر رہے ہیں ۔امریکہ کے جتنے بڑے دشمن اخوان اور حماس ہیں اتنا ہی بڑا دشمن امریکہ الجزیرہ چینل کو بھی سمجھتا ہے۔یہ شاید دنیا کا وہ واحد چینل ہے جس پر امریکہ دشمن کی طرح حملے بھی کرتا ہے ۔امریکہ کا ایک فوجی اڈہ قطر میں بھی ہے اسلئے امریکہ نے ہر طرح کا دباؤ ڈال کریہ کوشش کی کہ اس کے دانت نکال دیئے جائیں مگر حیرت انگیز بات ہے کہ سعودی عرب جیسے مہارتھیوں کے ،جن کے پیسوں کے بل پر امریکہ کی لنگڑی لولی معیشت ٹکی ہوئی ہے ،امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بعد بھی قطر کے حکمران کم سے کم الجزیرہ کے معاملے میں تو جھکے نہیں۔پھر،پھر یہ کہ امریکہ کو جب بھی جہاں بھی موقع ملتا ہے الجزیرہ کے انفر اسٹرکچر حملہ کر دیتا ہے ۔صحافیوں کو مار؍مروا دیتا ہے ۔یا پھر متعلقہ ممالک امریکہ کے حکم پر انھیں قید کر لیتے ہیں۔ان کی نشریات بند کر دی جاتی ہیں ۔اب تک دنیا میں مرنے والے سب سے زیادہ صحافی الجزیرہ کے ہی ہیں۔
خیر جا رہا ہے کہ مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب ہی اسلئے کیا تھا کہ غلاموں8 کی وفاداری کی حد جانچ سکیں۔مبصرین کہہ رہے ہیں کہ قطر کے تعلق سے مسلم ممالک کا یہ فیصلہ ٹرمپ کے دورے کا نتیجہ ہے ۔اس دورے سے ایک بات اور واضح ہوئی ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت بہت کمزور ہاتھوں میں ہے ۔امریکہ آج تو بہت کمزور ہو چکا ہے بلکہ اب دنیا یونی پولر نہیں رہ گئی ہے ۔مگر جب دنیا یونی پولر تھی تب بھی کسی امریکی حکمراں کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی خواتین سر پر اسکارف رکھے بغیر سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھے ۔اور یہ نتیجہ ہے اسلام پسندوں کی دشمنی کا۔حضرت عمرؓ نے کہا تھا ہماری عزت دنیا میں کپڑوں کی وجہ سے نہیں اسلام کی وجہ سے ہے ۔کیا موجودہ حکمراں ان کی اولاد ہو سکتے ہیں؟قطر کا حکمراں بھی ڈپلومیسی کا مظاہرہ تو کرتاہے غلامی کا نہیں کرتا۔اور سچ پوچھو تو یہی بات ان عرب مہارتھیوں کو کھٹکتی ہے۔اسی لئے قطر کی یہ بات سچ لگتی ہے کہ ’’وہ ہمیں Dictate کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
جو الزامات ان ۷ ممالک نے قطر کے خلاف لگائے ہیں وہ تمام الزامات تو پاکستان،ترکی ،سوڈان اور بہت سارے دیگر اسلامی ممالک کے خلاف بھی لگائے جاسکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر ان کے خلاف بھی وہی کاروائی کیوں نہیں کی گئی؟جبکہ ترکی تو کھلم کھلا قطر کی حمایت کر رہا ہے ۔اور السیسی کا سب سے بڑا دشمن بنا ہوا ہے۔ترکی اعلان کر رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں ثالث کا رول ادا کرے گا ۔دراصل ظالم بزدل ہوتا ہے اور وہ کمزوروں کو نشانہ بناتا ہے اور شہزوروں سے دب کر رہتا ہے۔قطر پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایران کی حمایت کرتا ہے ۔مگر دوسری طرف الجزیرہ Anti Shia رپورٹنگ کے لئے مشہور ہے ۔اور یہ اسلئے ہے کہ الجزیرہ ایک آزاد چینل ہے ۔یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنے مالکین سے اتفاق کرے ۔دوسری طرف قطر کا ایران کے تعلق سے موقف یہ ہے کہ وہ ایران کے تعلق سے سخت موقف اپنا کر شیعہ سنی خلیج کو بڑھانا نہیں چاہتے بلکہ ان کا مقصد تو خلیج کو ختم کرکے ہم آواز ہونا ہے ۔مگر قطر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ایران کی توسیع پسندی ہی ایران کے خلاف مسلم ممالک میں بے چینی پیدا کر رہی ہے ۔ہم خود ۲۰۱۱ کے بعد سے یہ لکھ رہے ہیں کہ کل تک جو احمدی نژاداور حسن نصراللہ مسلم دنیا کے عوام کے ہیرو تھے وہ ایران کے مسلکی اقدامات کی بنا پر آج زیرو بن گئے ہیں ۔یہ سوچ کر بڑا دکھ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں سب سے زیادہ دانشور شیعہ برادری کے پاس ہیں۔ایران میں بھی اور ایران کے باہر بھی ۔آج ایران جو کچھ کر رہا ہے وہ اس پر خوش بھی ہیں۔کسی کو عوام میں ایران کی اخلاقی ساکھ کھو جانے کا دکھ نہیں ۔وہ اس کے باوجود اپنے آپ کو اسلام پسند سمجھتے ہیں۔قطر کو اس سانحے کا احساس ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ مسلکی رنجش سے عالم اسلام کو جو نقصان ہو رہا ہے اس تعلق سے ایران کو سمجھایا جائے۔بس یہ بات چھوٹے دل والے بڑے حکمرانوں کو ناگوار گزر رہی ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو ایران سے اتنی ہی نفرت ہے تو اس کا اظہار اس وقت بھی ہونا چاہئے تھا جب فائیو پلس ون نے ایران سے نیو کلئرمعاہدہ کیا تھا ۔ان سے قطر کی طرح تعلقات کیوں منقطع نہیں کئے گئے؟ سچ یہ ہے کہ ۱۵ بلین کیوبک میٹر تیل اور نیچرل گیس کے بڑے ذخیروں میں سے ایک رکھنے والے قطر کو سعودی حکمراں صرف اور صرف خادم الحرمین شریفین ہونے کی بنا پر اپنا بغل بچہ سمجھتے ہیں ۔بچہ کوئی ایسا کام کر جائے جو خود اسکے بزرگوں کی اوقات سے بڑھ کر ہو تو دو باتیں ہوتی ہیں (۱)بزرگ اس کے کارنامے پر فخر کرتے ہیں ،اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس کے کارنامے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے یہ خود ان کا کارنامہ ہو (۲)وہ اس سے جل جاتے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں،اس کے نتائج و عواقب سے ڈراتے ہیں۔زندگی کے ہر معاملے میں اپنے موقف سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سب کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو اسے سزا دے ڈالتے ہیں۔ ہم قطر سے یہی کہیں گے کہ ان گیدڑوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔بہادر روز روز نہیں مرتے ۔انھیں بس ایک ہی بار موت آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137
0 comments: