Muslim Worlds
عبدالعزیز
اس وقت مسلم ممالک میں ترکی حکومت ایک ایسی اسلامی حکومت ہے جو امریکہ یا کسی بھی بڑی طاقت کے دباؤ کے بغیر حق و صداقت کی آواز بلند کرتی ہے۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت جب امریکہ ، اسرائیل اور سعودی بادشاہ کے اشارے پر یہودی نواز جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کی اور 26 ہزار اخوانیوں کو تہ تیغ کر دیا اور پچاس ہزار اخوان المسلمون کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تو ترکی حکومت کے صدر طیب اردوگان نے جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے منتخب مصری صدر کے خلاف فوجی بغاوت کو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی مہذب فوج اپنے منتخب صدر کے خلاف ایسا غیر مہذب اور وحشیانہ رویہ نہیں اپنا سکتی ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب، بحرین، عرب امارات نے السیسی کی کھلم کھلا حمایت کی تھی۔ آج یہی فاسد طاقتیں قطر کی ناکہ بندی کر رہی ہیں۔ اس مہینہ میں کر رہی ہے جسے ماہ رمضان کہا جاتا ہے۔ جس کی رحمت اور فضیلت اللہ کے رسولؐ نے بیان کی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ماتحتین پر نرم رویہ اپنانے کی تاکید کی ہے۔ مگر ارض القرآن کا حکمراں آج کیا کر رہا ہے، اللہ رحم فرمائے۔
صدر ترکی طیب اردوگان نے سعودی عرب اور ان کے دوست ممالک جو اپنے آپ کو مسلم ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان ممالک نے اسلامی اقدار کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔ رمضان جیسے مقدس مہینہ میں قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی تاکہ قطر کی حکومت اور اس کے شہری پریشان ہوجائیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب قطر کا پڑوسی ملک ہے اور قطر کا ایک ہی بری راستہ ہے جو سعودی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ اشیائے خوردنی اسی راستہ سے قطر کو سپلائی ہوتی ہیں۔ سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر اس راستہ کو ہی نہیں بلکہ فضائی اور بحری راستہ کو بھی بند کر دیا ہے اور اس کے آس پاس کے ممالک نے بھی سعودی بادشاہ اور ٹرمپ کے اشارے پر قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں صاف صاف کہا ہے کہ عرب ممالک قطر سے جو سلوک کر رہے ہیں وہ میرے کہنے پر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کٹر یہودی نواز ہیں اور اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض سے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب گئے تھے۔ دونوں ملکوں میں انھوں نے قطر کا نام نہیں لیا۔ ایران کی دشمنی کی بات کی۔ قطر تو اس اجلاس میں شریک تھا جس میں سعودی بادشاہ دنیا کے مسلم ممالک سے اتحاد و اتفاق کی بات کر رہے تھے۔ اجلاس ٹرمپ کے دوسرے یا تیسرے ہی دن سعودی حکومت نے قطر کے خلاف جارحانہ اقدام کا اعلان کیا۔ ٹرمپ یا امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ مسلم دنیا اتحاد کے بجائے انتشار کا شکار رہے تاکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی مسلم ملک سوچ بھی نہ سکے۔ سعودی عرب یا ان کے ساتھی ممالک جو اخوان المسلمون اور حماس کا نام لے رہے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں اسرائیل کے وجود اور جارحیت کے خلاف ہیں۔ اخوان المسلمون تو مصر کی تنظیم ہے۔ ایک بار اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہوچکی ہے۔ حماس تو اسرائیلی جارحیت اور شیطنت کی مزاحمت کیلئے ہی عالم وجود میں آئی ہے۔ سعودی بادشاہت کو ایران، اخوان اور حماس سے خطرہ ہے۔ یہ بات صدر ٹرمپ اپنے بادشاہ کو سمجھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
سعودی بادشاہ اور ان کے شہزادوں کو خاص طور سے شاہ سلمان کے 32سالہ شہزادہ محمد بن سلمان جس کی حقیقت میں سعودی عرب میں حکمرانی ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے۔ شاہ سلمان اَسی برس کے ہوگئے ہیں۔ ان کا حافظہ بھی کمزور ہے اور وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہیں۔ مشکل سے چل پھر سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنی بات بھی یاد نہیں رہتی۔ شہزادہ اپنے باپ کے پردے میں اس وقت سعودی عرب کا حکمراں ہے۔ شہزادوں کی جو حالت ہوتی ہے اسی طرح کی ان کی حکومت ہوتی ہے۔سعودی عرب کے بادشاہ سلامت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کو ہر بات میں ہاں کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر مرحوم شاہ فیصل کے سوا سعودی عرب کے سارے بادشاہوں کا یہی حال رہا۔ شاہ فیصل نے امریکہ کی بات سننے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ایک شہزادہ نے امریکہ کی سازش کا شکار ہوکر شاہ فیصل کو شاہی محل میں ہی قتل کردیا۔ قاتل شاہ فیصل کے کسی بھائی کا لڑکا تھا۔ بادشاہت عام طور پر ایسی ہوتی ہے۔ اسے نہ اسلامی اقدار کی پرواہ ہوتی ہے نہ رمضان جیسے مہینہ کی رحمت اور برکت سے کوئی مطلب ہوتاہے۔ اسے اپنے اقتدار یا بادشاہت کو باقی رکھنے سے سروکار ہوتا ہے۔ اس وقت سعودی بادشاہت اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کے پیسے جو حاجی سعودی عرب کو ادا کرتے ہیں وہ پیسے بھی اسرائیل اور امریکہ کے کام آرہے ہیں اور یہ دونوںحکومتیں مسلم اور اسلام دشمنی پر ان پیسوں کو خرچ کر رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو سعودی بادشاہ نے ہزاروں ڈالر کی قیمت کے ہیرے جواہرات تحفہ کی شکل میں دیا ہے اور لاکھوں ڈالر امریکہ کو ہتھیار خریدنے کیلئے سعودی حکومت نے امریکی صدر کے دورے کے موقع پر دیئے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے پیسے ہی مسلم اور اسلام دشمنی پر خرچ ہورہے ہیں۔ بھلا ایسی بادشاہت جو اسلام اور مسلم دشمنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہو اسے اسلامی اقدار سے کیاسروکار ہوسکتا ہے؟
موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com
قطر کی ناکہ بندی اسلامی اقدار کے خلاف
عبدالعزیز
اس وقت مسلم ممالک میں ترکی حکومت ایک ایسی اسلامی حکومت ہے جو امریکہ یا کسی بھی بڑی طاقت کے دباؤ کے بغیر حق و صداقت کی آواز بلند کرتی ہے۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت جب امریکہ ، اسرائیل اور سعودی بادشاہ کے اشارے پر یہودی نواز جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کی اور 26 ہزار اخوانیوں کو تہ تیغ کر دیا اور پچاس ہزار اخوان المسلمون کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تو ترکی حکومت کے صدر طیب اردوگان نے جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے منتخب مصری صدر کے خلاف فوجی بغاوت کو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی مہذب فوج اپنے منتخب صدر کے خلاف ایسا غیر مہذب اور وحشیانہ رویہ نہیں اپنا سکتی ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب، بحرین، عرب امارات نے السیسی کی کھلم کھلا حمایت کی تھی۔ آج یہی فاسد طاقتیں قطر کی ناکہ بندی کر رہی ہیں۔ اس مہینہ میں کر رہی ہے جسے ماہ رمضان کہا جاتا ہے۔ جس کی رحمت اور فضیلت اللہ کے رسولؐ نے بیان کی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ماتحتین پر نرم رویہ اپنانے کی تاکید کی ہے۔ مگر ارض القرآن کا حکمراں آج کیا کر رہا ہے، اللہ رحم فرمائے۔
صدر ترکی طیب اردوگان نے سعودی عرب اور ان کے دوست ممالک جو اپنے آپ کو مسلم ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان ممالک نے اسلامی اقدار کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔ رمضان جیسے مقدس مہینہ میں قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی تاکہ قطر کی حکومت اور اس کے شہری پریشان ہوجائیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب قطر کا پڑوسی ملک ہے اور قطر کا ایک ہی بری راستہ ہے جو سعودی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ اشیائے خوردنی اسی راستہ سے قطر کو سپلائی ہوتی ہیں۔ سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر اس راستہ کو ہی نہیں بلکہ فضائی اور بحری راستہ کو بھی بند کر دیا ہے اور اس کے آس پاس کے ممالک نے بھی سعودی بادشاہ اور ٹرمپ کے اشارے پر قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں صاف صاف کہا ہے کہ عرب ممالک قطر سے جو سلوک کر رہے ہیں وہ میرے کہنے پر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کٹر یہودی نواز ہیں اور اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض سے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب گئے تھے۔ دونوں ملکوں میں انھوں نے قطر کا نام نہیں لیا۔ ایران کی دشمنی کی بات کی۔ قطر تو اس اجلاس میں شریک تھا جس میں سعودی بادشاہ دنیا کے مسلم ممالک سے اتحاد و اتفاق کی بات کر رہے تھے۔ اجلاس ٹرمپ کے دوسرے یا تیسرے ہی دن سعودی حکومت نے قطر کے خلاف جارحانہ اقدام کا اعلان کیا۔ ٹرمپ یا امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ مسلم دنیا اتحاد کے بجائے انتشار کا شکار رہے تاکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی مسلم ملک سوچ بھی نہ سکے۔ سعودی عرب یا ان کے ساتھی ممالک جو اخوان المسلمون اور حماس کا نام لے رہے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں اسرائیل کے وجود اور جارحیت کے خلاف ہیں۔ اخوان المسلمون تو مصر کی تنظیم ہے۔ ایک بار اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہوچکی ہے۔ حماس تو اسرائیلی جارحیت اور شیطنت کی مزاحمت کیلئے ہی عالم وجود میں آئی ہے۔ سعودی بادشاہت کو ایران، اخوان اور حماس سے خطرہ ہے۔ یہ بات صدر ٹرمپ اپنے بادشاہ کو سمجھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
سعودی بادشاہ اور ان کے شہزادوں کو خاص طور سے شاہ سلمان کے 32سالہ شہزادہ محمد بن سلمان جس کی حقیقت میں سعودی عرب میں حکمرانی ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے۔ شاہ سلمان اَسی برس کے ہوگئے ہیں۔ ان کا حافظہ بھی کمزور ہے اور وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہیں۔ مشکل سے چل پھر سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنی بات بھی یاد نہیں رہتی۔ شہزادہ اپنے باپ کے پردے میں اس وقت سعودی عرب کا حکمراں ہے۔ شہزادوں کی جو حالت ہوتی ہے اسی طرح کی ان کی حکومت ہوتی ہے۔سعودی عرب کے بادشاہ سلامت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کو ہر بات میں ہاں کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر مرحوم شاہ فیصل کے سوا سعودی عرب کے سارے بادشاہوں کا یہی حال رہا۔ شاہ فیصل نے امریکہ کی بات سننے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ایک شہزادہ نے امریکہ کی سازش کا شکار ہوکر شاہ فیصل کو شاہی محل میں ہی قتل کردیا۔ قاتل شاہ فیصل کے کسی بھائی کا لڑکا تھا۔ بادشاہت عام طور پر ایسی ہوتی ہے۔ اسے نہ اسلامی اقدار کی پرواہ ہوتی ہے نہ رمضان جیسے مہینہ کی رحمت اور برکت سے کوئی مطلب ہوتاہے۔ اسے اپنے اقتدار یا بادشاہت کو باقی رکھنے سے سروکار ہوتا ہے۔ اس وقت سعودی بادشاہت اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کے پیسے جو حاجی سعودی عرب کو ادا کرتے ہیں وہ پیسے بھی اسرائیل اور امریکہ کے کام آرہے ہیں اور یہ دونوںحکومتیں مسلم اور اسلام دشمنی پر ان پیسوں کو خرچ کر رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو سعودی بادشاہ نے ہزاروں ڈالر کی قیمت کے ہیرے جواہرات تحفہ کی شکل میں دیا ہے اور لاکھوں ڈالر امریکہ کو ہتھیار خریدنے کیلئے سعودی حکومت نے امریکی صدر کے دورے کے موقع پر دیئے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے پیسے ہی مسلم اور اسلام دشمنی پر خرچ ہورہے ہیں۔ بھلا ایسی بادشاہت جو اسلام اور مسلم دشمنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہو اسے اسلامی اقدار سے کیاسروکار ہوسکتا ہے؟
موبائل: 9831439068 azizabdul03@gmail.com
0 comments: