قرآن میں گائے کا ذکر

12:32 PM nehal sagheer 0 Comments


عبدالعزیز
موبائل: 9831439068    azizabdul03@gmail.com
    ’’یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ کو چالیس شبانہ روز کی قرار داد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے (گائے) کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو‘‘ (سورہ بقرہ: آیت52)۔
     سورہ بقرہ قرآن مجید کی دوسری سورہ ہے اور سب سے بڑی سورہ ہے جو ڈھائی پارے پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا نام بقرہ ہے اس لئے کہ ایک آیت 52 میں بقرہ یعنی گائے کا ذکر آیا ہے۔ ’لغات القرآن‘ میں ’بقر ‘ کے معنی بیل، گائے ہے۔ یہ اسم جنس ہے، مذکر اور مونث دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
    آیت 52 میں ’’اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو مصر سے نکلنے اور دریا پار کرچکنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام و ہدایات دینے کیلئے فرمایا اور اس مقصد کیلئے ان کو کوہِ طور پر پر بلایا۔ یہ چالیس دن کی مدت اس قلبی و روحانی تیاری کیلئے تھی جو کتاب الٰہی کے بارِ عظیم کے متحمل ہونے کیلئے ضروری تھی۔ ابتدا میں یہ وعدہ تیس دنوں کا تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام مقررہ وقت سے پہلے پہنچ گئے۔ ان کی اس جلدی کے سبب اللہ تعالیٰ کی حکمتِ تربیت مقتضی ہوئی کہ یہ مدت 30 دنوں سے بڑھاکر چالیس دن کر دی جائے۔ مذکورہ آیت میں یہ پوری مدت جمع کر دی گئی ہے۔ ’’اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور اس کو پورا کیا دس راتیں بڑھاکر۔ اس طرح اس کے رب کی مقررہ مدت چالیس راتوں میں پوری ہوئی‘‘۔  ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ْ یعنی موسیٰ کے پہاڑ پر چلے جانے کے بعد تم دھات کا ایک بچھڑا بناکر اس کی پرستش میں لگ گئے۔ کتاب خروج باب 32 میں اس واقعہ کی تفصیلات موجود ہیں لیکن یہود نے اپنی عادت کے مطابق اس میں حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی ملوث کر دیا ہے جس کی قرآن نے دوسرے مقام پر تردید فرمائی ہے۔
    ’’وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ‘‘یعنی اس گئو سالہ پرستی کا ارتکاب کرکے تم نے خود اپنی جانوں پر بہت بڑا ظلم کیا ہے، چنانچہ دو ہی آیتوں کے بعد قرآن نے خود اس کی وضاحت کر دی ہے ’’اے میری قوم کے لوگو؛ تم نے بچھڑے (گائے) کو معبود بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا‘‘۔ ظلم کی اصل حقیقت حق تلفی کرنا ہے۔ شرک کا ارتکاب کرکے انسان اپنے نفس کی سخت تحقیر کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ اور تمام مخلوقات سے اشرف ہونے کے باوجود اپنے ہی جیسی یا اپنے سے بھی کسی گھٹیا مخلوق کو اپنا خدا بنا بیٹھتا ہے۔ اپنے نفس کی اس سے بڑی حق تلفی اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘
    گئو سالہ پرستی کا واقعہ: صاحب ’روح القرآن ’گئو پرستی‘ یا ’گوسالہ پرستی‘ کے واقعہ کے متعلق رقم طراز ہیں: بنی اسرائیل جب فرعونیوں کی غلامی سے نجات پاکر بحر قلزم عبور کرکے جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انھوں نے خود موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اب ہمیں زندگی گزارنے کیلئے کوئی رہنما اصول دیئے جائیں، جس کی روشنی میں ہم ایسی زندگی گزاریں جس سے ہمارے اللہ راضی ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تو پروردگار نے احکام و ہدایات دینے کیلئے انھیں کوہِ طور پر طلب فرمایا، لیکن یہ ہدایت فرمائی کہ کوہ طور پر آکر تیس شب و روز، روزے اور اعتکاف کی حالت میں رہو تاکہ تم میں وہ قلبی اور روحانی استعداد پیدا ہوجائے جو کتابِ الٰہی کے بارِ عظیم کو اٹھانے کیلئے ضروری ہے۔ کتب الٰہیہ کے نزول کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو کتاب اتارنے سے پہلے ایک خاص مدت تک ایک ایسے ماحول میں رہنے کا حکم دیا جس میں اس کے گرد وپیش فضائے ملکوتی اور انوارِ الٰہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ مسلسل روزہ رکھنے اور اللہ سے لو لگائے رہنے سے دل و دماغ میں ایک ایسی پاکیزگی پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسانی کثافتیں کم اور ملکوتی صفات غالب آجاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں کلام الٰہی کا تحمل اور انوارِ الٰہی کی برداشت نسبتاً آسان ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ایسی ہی کیفیت میں ایک خاص عرصے تک رکھا گیا اور تب انھوں نے وہ پہاڑی وعظ کہا جو کتاب الٰہی کا پیش خیمہ ہے۔ ہمارے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم چالیسویں سال میں پہنچ کر ایسے خلوت پسند بنا دیئے گئے کہ آپ نے آبادی چھوڑ کر غارِ حرا کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ وہاں مسلسل روزے اور اعتکاف کی حالت میں تھے کہ آپ پر انوارِ الٰہی کی تجلی پڑی اور کلامِ الٰہی نے آپ کے قلب مبارک کو اپنا مورد بنایا۔
    معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی خاص حکمت کے تحت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مزید دس دن کوہ طور پر ٹھہرنے کا حکم دیا تو آپ چونکہ بنی اسرائیل کو تیس شب و روز کا کہہ کر گئے تھے اس دس روزہ تاخیر کے باعث مفسدین کو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا ان میں سامری نام کا ایک شعبدہ باز منافق تھا جو بنی اسرائیل میں جانا پہچانا جاتا تھا اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کے زیورات جو مصر سے نکلتے ہوئے شاید اس کے پاس جمع کرا دیئے گئے تھے، سے ایک بچھڑا بنایا اور وہ چونکہ پیشہ کے اعتبار سے ایک سنار تھا اور سونے سے مختلف شکلیں تیار کرنے کا ماہر تھا۔ اس نے اپنے فن کا ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے بچھڑے کو اس شکل میں ڈھالا کہ اس کے اندر ہوا گزرنے سے بولنے کی آواز آتی تھی جس طرح ہارن ہوا ہی کے گزرنے سے بجتا ہے، اسی طرح کی اس نے کوئی تکنیک استعمال کی تھی، لیکن سادہ لوح عوام کو ان کی قدیمی گو سالہ پرستی کی عادت کے باعث بہکانے میں کامیاب ہوگیا کہ اصل میں یہی گو سالہ تمہارا خدا ہے اور یہی مصر سے تمہیں نجات دے کر لایا ہے۔ موسیٰ نے نہ جانے کہاں بھول گئے انھیں واپس آنا ہوتا تو آگئے ہوتے، چنانچہ گو سالہ پرستی کے اسیر لوگ جو اب تک اپنے آپ کو اس سے نجات نہ دے سکے تھے، اس فریب میں آگئے اور انھوں نے اس بچھڑے کے سامنے سر جھکا دیا۔ اس پر چڑھاوے چڑھائے اور اس کی پوجا کرنا شروع کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے اس حادثے کی اطلاع دی، آپ نہایت پریشان ہوئے کہ میں اللہ تعالیٰ سے کتاب ہدایت لینے کیلئے آیا ہوں لیکن میری قوم کا حال یہ ہے کہ میری چالیس شب و روز کی غیر حاضری میں جب کہ حضرت ہارون علیہ السلام جیسے پیغمبران میں موجود تھے، شرک جیسی عظیم گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ تورات میں بھی باب 32 اور آیات 1 تا 7 میں اس واقعہ کو ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد پروردگار فرماتا ہے: وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ’’اے بنی اسرائیل! تم موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں گوسالہ پرستی کا ارتکاب کرکے ظلم کر رہے تھے‘‘۔ ’’ظلم‘‘ حق تلفی کو کہتے ہیں اور ایسی حرکت کا نام بھی ظلم ہے جو سراسر خلافِ عقل اور خلافِ فطرت ہو۔ ان دونوں حیثیتوں سے اگر ہم غور کریں تو ظلم کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ انسان کی ذات و صفات کا خالق صرف اللہ ہے۔ اسی نے اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کے عمل تخلیق اور احسانات کو دیکھتے ہوئے سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی کی جاسکتی ہے یا کسی اور کے سامنے سر جھکایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح انسانی فطرت جو ہمیشہ ٹھیک راستے پر چلتی ہے اس کا بھی تقاضا یہ ہے کہ مخلوق خالق کے سوا اور کسی کے سامنے نہ جھکے اور احسان سے گراں بار شخص اپنے محسن کے سوا کسی اور کی بندگی کیلئے تیار نہ ہو، لیکن بنی اسرائیل نے گوسالہ پرستی کا ارتکاب کرکے اگر ایک طرف عقل اور فطرت کے تقاضوں کو پامال کیا تو دوسری طرف انھوں نے خود اپنے نفس کی سخت تحقیر کی۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات اور اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ کیا خلیفۃ اللہ کیلئے یہ بات مناسب ہے کہ وہ ان چیزوں اور ان مخلوقات کے سامنے جھکے جو اس کی خدمت کیلئے پیدا کی گئی ہیں؟ جب وہ اپنے سے فروتر مخلوق کے سامنے جھکتا ہے تو وہ حقیقت میں اپنے نفس اور اپنی حیثیت کی حق تلفی کرتا ہے۔
    بنی اسرائیل کا یہ جرم اس قدر مکروہ اور اپنے نتائج بد میں اس قدر خطرناک تھا کہ اس پر اگر اللہ کا غضب بھڑکتا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنے احسان کے طور پر اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم نے تو ہر طرح سے اپنی تباہی کا سامان کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھو کہ اس نے اتنا بڑا جرم بھی معاف کر دیا او ریہ معافی صرف اس لئے تھی تاکہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اس کی نعمتوں کی قدر پہچانو، اپنی حیثیت کو سمجھو اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے میں کوتاہی نہ کرو‘‘۔
    گائے کے متعلق ہندوؤں کے خیالات: ہندو بھائیوں میں جو لوگ گائے کی پوجا اور پرستش کے قائل نہیں ہیں وہ تو گائے کو محض ایک جانور سمجھتے ہیں۔ گئو پرستوں کی طرح نہ اسے گائے ماتا کہتے ہیں اور نہ معبود سمجھتے ہیں مگر جو لوگ ہندوؤں میں پرانے خیال کے ہیں وہ گائے کے بارے میں طرح طرح کے خیال رکھتے رہیں۔ پہلے کے ہندوؤں کا خیال تھا پانی کے اوپر ایک بڑی مچھلی ہے۔ اور اس کی پشت پر ایک گائے کھڑی ہے اور گائے کی ایک سینک پر زمین قائم ہے۔ وہ گائے تھک جاتی ہے تو ایک سینک سے دوسرے سینک پر لے لیتی ہے اور یہی حرکت بھونچال (زلزلہ) کا باعث ہوتی ہے مگر ایسے خیالات کی غلطی ثابت ہوگئی۔ شاید اب ہندوؤں میں جو گاؤپرست ہیں وہ بھی سائنس کے اس دور میں یا گائے کے بارے میں اس طرح کی رجعت پسندی کی جرأت نہ کرسکیں مگر ابھی گائے کے متعلق جو بہتوں کے خیالات تھے کہ وہ ماں اور معبود ہے۔ اسے مرکز کی برسر اقتدار پارٹی اور حکمراں پارٹی نے سیاسی رنگ دے دیا ہے جس کی وجہ سے گائے کی سیاست یا گوشت خوری کی سیاست زوروں پر ہے۔ ایسے لوگ جو گئو پرست ہیں وہ گائے کے کو کھانے والوں کو قتل کر دینا جائز سمجھتے ہیں اور اپنی مذہبی کتابوں کے حوالے سے اس طرح کی فاسد اور لغوقسم کے بیانات دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہریانہ کے ایک وزیر نے بھی اسی طرح کی بات کی تھی۔ وزیر اعلیٰ ہریانہ نے بھی ایک بیان میں کہہ دیا کہ مسلمانوں کو ہندستان میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت چھوڑنا ہوگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندستان ان کے باپ دادا کی بنائی ہوئی زمین ہے، حالانکہ ’’بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین‘‘۔

0 comments: