تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ

7:04 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی
کسی ملک اورمعاشرے میں جب غالب اورمغلوب دونوں ہی قومیں اپنی قدیم تہذیب اورسیاسی نظریے اورعزائم سے بھی آراستہ ہوں تو ان کے لیے ایک دوسرے کی حکمرانی یا سیاست کوبرداشت کرپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے- اوروہ ایک دوسرے کے خلاف ایک طرح کے تہذیبی تصادم میں مبتلا ہو جاتے ہیں - حکمراں جماعت جہاں اپنی حکمرانی کو مزید مضبوط اورمستحکم بنانے کیلئے مخالف گروہ کے تہذیب وتمدن اورثقافت کوطاقت کے ذریعے کچلنا چاہتی ہے محکوم قومیں بھی وعظ و نصیحت اور قلم و کتاب کے ذریعے اپنی تہذیبی وراثت کا دفاع کرتی ہیں اوراکثر انہیں اس کی سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے - دراصل دنیا کی تمام ناحق اور باطل قومیں اپنے کمزورعقائد اورنظریات کی بنا پر حق کے علمبرداروں سے خوفزدہ رہی ہیں-اسی لیے جب یہ اقتدارپر قابض ہوتی ہیں تو سب سے پہلے مخالف قوم کی قیادت اور تہذیبی وراثت کو ختم کرنا شروع کر دیتی ہیں- شاید اسی نظریے کے تحت دنیا کےتمام انبیاء کرام کو باطل قوموں نے شہید کرنے کی کوشس کی - ہلاکو  نے جب بغداد پر حملہ کیا تو سب پہلے مسلمانوں کے علماء کا قتل کروایا-ایک ایسے دور میں جبکہ کوئی یونیورسٹی اورسیاست کے عنوان پر کوئ کتاب اورریسرچ اسکالربھی نہیں تھے ان قبائلیوں کو بھی اتنا علم اور  شعور تھا کہ مسلمانوں کے علماء اور ان کے کتب خانوں کو بھی مٹا دیا جانا چاہیے ورنہ یہ پھر سے غالب آجائیں گے- اور یہی کام اندلس اورغرناطہ میں بھی ہوا - کمیونزم کے عروج کے بعد روس میں لینن اور اسٹالن نے بھی یہی کیا- برما میں سب سے پہلے مدارس پر پابندی لگائی گئ ان کے علما اور سیاسی قیادت کو وہاں کی فوجی حکومت نے مفلوج بنایا اوراب ان کا نسلی صفایا بھی آخری مرحلے میں ہے-
اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ یہی کررہا ہے مگر فلسطینیوں نے اپنے عرب پڑوسیوں کی مدد سے اپنی جرات اور لامتناہی قیادت کا سلسلہ قائم رکھتے ہوئے اسرائیل کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے- اب جس طرح ایران میں شہرام احمدی اور کچھ سنی مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو سزائے موت  سنائے جانے کی خبرہے کہا جانا چاہیے کہ ایران بھی انہیں باطل قوموں کے نقش قدم پراپنے ملک کے سنی مسلمانوں کی قیادت کو کچل دینا چاہتا ہے -اس کے برعکس مسلمانوں نے دنیا کے جس خطے پر بھی حکومت کی نہ تو مغلوب قوموں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی مغلوب قوموں کی مذہبی اور سیاسی قیادت کو کبھی ختم کرنے کی کوشس کی بلکہ مغلوں نے یہاں کے معزز ہندو خاندانوں کے افراد  کو اپنے دربار میں شامل کر کے راجہ کا درجہ دیا اورمیسور کے حکمراں ٹیپو سلطان کا وزیر اعظم پورنیا ایک ہندو برہمن تھا - اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کواقتدارتھالی میں سجا کر نہیں پیش کیا گیا بلکہ انہوں نے باقاعدہ جنگ کرکے موجودہ حکمرانوں پر فتح حاصل کی - لیکن اگروہ مسلسل ایک ہزارسال تک غالب رہے تواس لیے کہ ان کے پاس انصاف مساوات اوراخلاق پرمبنی ایک مضبوط سیاسی نظریہ تھا جبکہ جو قومیں حکومت اوراقتدار پرقابض رہی ہیں وہ اپنے عوام کو انسانیت کی فلاح وبہبود اوردنیا میں جدوجہد  کا کوئی ٹھوس مقصد اور نصب العین نہیں دے سکے تھے - اسی لیے مغلوب ہونے کے بعد بھی یہاں کی عام آبادی نےمسلمانوں کے خلاف  کوئی خاص بغاوت اور مزاحمت نہیں کی  بلک دیگر عوام  نے بھی  ایک حد تک مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور اخلاق کو اسی طرح اپنا لیا جیسے کہ بیسویں صدی کے بعد عام لوگوں نے مغربیت کوسکہ رائج الوقت کے طورپر تسلیم کر لیا ہے - انگریزوں نےمسلمانوں کی عسکری قوت کے کمزورپڑجانے کے سبب اپنے نوزائدہ سیاسی نظام کے ساتھ ہندوستان پرقبضہ تو کرلیا مگر وہ خود بھی ایک صدی سے زیادہ اس لیے حکومت نہیں کر سکے کیونکہ ہندوستان میں ان کی مخالفت کیلئے ایک مضبوط سیاسی نظریے پر مبنی مسلمانوں کی جماعت موجود تھی اور خودایک عرصے سے مسلمانوں اورانگریزوں کی تربیت میں  ہندوؤں کی نئی نسل بھی کسی حد تک متمدن اورسیاسی شعورکی حامل ہوچکی تھی اورپھران دونوں قوموں نے مل کرانگریزی حکومت ک خلاف جو مزاحمت کی اس کی شکل آج ہمارے سامنے ہے اور اب اقتدار پر جو لوگ قابض ہیں یہ لوگ بھی  سیاسی طورپر کتنا بالغ ہیں وہ تصویر بھی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے اور آذادی کے بعد سے لیکر ابھی تک  مسلمانوں کی سیاسی قیادت اورحیثیت کو جس مقام پرلا کرکھڑا کیا جاچکا ہے وہ نقشہ بھی ہمارے سامنے ہے- یعنی اقتدارکی منتقلی کیلئے مسلح جدوجہد اورطاقت کا استعمال تو بہرحال ضروری ہوتا ہے جس کا استعمال مسلمانوں نے بھی کیا جو کہ ایک فطری عمل ہے اوراسلام نے بھی اس فطری طریقے کو جائزرکھا ہے بلکہ دنیا کی سیاست کو انصاف کے ماتحت لانے کیلئے اسلام نے جہاد کا حکم دیا ہے -اور جیسا کہ حدیث بھی ہے کہ ایمان کا افضل طریقہ یہ ہے کہ فحاشی اورظلم کو طاقت کے ذریعے ختم کیا جائے - یہ بات انفرادی طریقے سے اپنے گھر اور خاندان کیلئے  تو ممکن ہے کی کوئی شخص اپنی طاقت کا صحیح استعمال کر سکے مگر ایک معاشرے اورملک سے برائیوں کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ایک باقاعدہ جماعت اورفوج کی تشکیل دی جائے اور تمام افراد ایک خلیفہ کے ماتحت  نظم اور قانون کے پابند ہوں اورلوگوں کے درمیان فساد کی صورت میں اسی طاقتور جماعت کے ذریعے انصاف قائم کیا جاسکے - دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر حکومت اورقانون کے ایمان کے افضل طریقے پرعمل کرنا ناممکن ہے اور اگر کوئی شخص یا مخالف قوم اس پر عمل کرنے کیلئے آمادہ بھی ہوتی ہے تو اس کا وہی حشر ہونا ہے جو مصرمیں اخوان کے ساتھ ہوا جو فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے, شام اسی معرکہ ایمان اورمادیت کی جنگ میں مبتلا ہے اورانفرادی سطح پر دنیا کے بہت سارے مسلم اورغیرمسلم ممالک میں مسلسل ہو رہا ہے - مسئلہ یہ ہے کہ اگر باشعورافراد اس جدوجہد میں شامل نہ ہوں تو خود مسلم ممالک کےمادہ پرست حکمراں پورے معاشرے کو فساد اور بدامنی سے بھردیں - ہمارے جمہوری دور کی  طرز سیاست کا  بھی یہ المیہ ہے کہ معاشرے کا جو بدمعاش اور بدعنوان طبقہ ہے سیاست پروہی غالب ہے اور گویا ایمان و اخلاق کے اول درجے پر عمل کرنے کا علمبردار بھی ہے - مگر جو حالات کو بدلنا چاہتے ہیں وہ ان کی نظر میں معتوب ہیں -ایک بہت بڑی سچائی اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جاہل اور بدمعاش تو سیاست کی طاقت کو سمجھتا ہے مگر شریفوں کو آج بھی یہ بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے کہ سیاست انسانوں کےمکمل نظام حیات کو  بدل کر رکھ دیتی ہے جسکے اندر نہ صرف انسانوں کی معیشت طرز معاشرت اور تہذیب و ثقافت شامل ہے انسانوں کی تعلیم و تربیت اور سوچ بھی مادیت اور دجالیت کے ڈھانچے اور پیکر میں ڈھل جاتی ہے اورافسوس کا مقام یہ کہ ایک وقت کے بعد انسانوں کے اندر اچھے اور برے کی تمیز کا احساس اورشعوربھی ختم ہو جاتا ہے اور لوگوں کو یہی معاشرہ خوشنمااورمتمدن دکھائی دینے لگتا ہے اور پوری کی پوری قوم اپنے اس کارنامے اورکامیابی پر جشن بھی مناتی ہے- یہ ہے جدید اور ماڈرن سیاست اور سیاست کے ماتحت سیکولر طرز تعلیم کا فتنہ جس میں بر صغیر کا نوے فیصد مسلمان بھی غرق ہے اورجس کی وجہ سے ہم اپنی آنکھوں سے تباہ ہوتے ہوئے معاشرے کو دیکھ سکتے ہیں -حالانکہ مختلف رسم ورواج اوراسراف کی  شکل میں اخلاقی قدروں کا زوال بھی ہمارے سامنے ہے پھر بھی معاشی ترقی کے دھوکے میں جو انسان  معاشرتی تنزلی کی طرف مائل ہے اس کا حل بھی وہ اسی دین بیزار جدید تعلیم اور سیاست میں ہی ڈھونڈھ رہا ہے- اس بات کو آج  بھی  صرف چند لوگ ہی سمجھتے ہیں کہ کس طرح غالب قومیں ایک قوم کی صالح فکر اور سوچ کو پوری طرح تباہ کرنے کیلئے ان کے علماء اور قیادت کو خریدنے کی کوشس کرتی ہیں مگر جو حوصلہ مند قیادت بکنے کو تیار نہیں ہوتی انہیں طاقت کے ذریعے کچلنے کی بھی کوشس کی جاتی ہے- پاکستان میں جنرل ایوب خان کے دور میں مولانا مودودی کو صرف اس لیے سزائے موت سنائی گئ تھی کہ انہوں نے قادیانیت کے خلاف صرف ایک پمفلٹ لکھا تھا - جبکہ اس دور میں بھی پاکستان کے اخبارات میں بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے- کیا مولانا مودودی کے ایک مضمون سے کوئی قیامت آجانے والی تھی -دراصل مولانا مودودی جس عالم گیر نظریے کی وکالت کر رہے تھے ان کے دلائل نہ صرف قادیانی عقیدے پر ضرب لگا رہے تھے بلکہ ان کے نظریات پاکستانی سیاست میں غالب ترقی پسندوں اور لبرلسٹوں کے مفاد پر بھی اثر انداز ہو رہے تھے اور وہ قطعی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اس تحریک کو حوصلہ ملے اور  پاکستان ایک متمدن اسلامی ریاست میں تبدیل ہو- مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا تھا جسے اسلام اور مسلمان کے نام پر بنایا گیا تھا - یہ تو بہرحال ایک مسلم ملک کی مثال ہے - چین نے تبت کے اندر بدھشٹوں پر یہ پابندی لگائی ہے کہ دلائی لامہ کے بعد تبتیوں کا روحانی پیشوا وہی شخص بن سکے گا جسے چین کی حکومت منظوری دے گی - مسلمانوں کی صالح اور حوصلہ مند قیادت کو آج بھی اسی طرح کچلنے کی کوشس کی جارہی ہے جیسا ماضی قریب اور قدیم زمانے میں ہوتا رہا ہے   - مغرب نے نوے کی دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے مہم شروع کر کے  پوری دنیا کی لبرل جمہوری حکومتوں کو سند فراہم کر دی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ دیندار مسلم نوجوانوں کی سیاسی قیادت کو پوری طرح  کچل دیں- پاکستان سے لیکر افغانستان ایران عراق مصر اور شام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس تصادم کے پس پشت وہی شیطانی ذہنیت کارفرما ہے جو  فرعونوں اور نمرودوں کی ایجاد کردہ ہے-اور اب جس طرح اس نظریے نے عالم گیر تحریک اختیار کر لی ہے ایسا لگتا ہے یہ حالات بالآخر دجال اکبر کے ساتھ تصادم پر ہی اختتام پزیر ہونگے  -واللہ علم با الثواب -
عمر فراہی     umarfarrahi@gmail.com

0 comments: