یکساں سول کوڈ عدلیہ کے دائرہ سے باہر (قسط ۲)
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
فاضل بنچ نے اپنے اس فیصلے میں سرلا مدگل اور تین دیگر عذرداریوں کی سماعت کے بعد جسٹس کلدیپ سنگھ اور مسٹر آرایم سہائے کے متفقہ فیصلے کے علاوہ جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس ایم سی چھاگلہ کے فیصلوں کے حوالے بھی دیئے ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ مسٹر جسٹس کلدیپ سنگھ نے اپنے فیصلے میں یونیفارم سول کوڈ کی تشکیل کے تعلق سے جو باتیں کہی تھیں ان کا تعلق نفس مسئلہ سے نہیں تھا بلکہ یہ محض اتفاق تھا کہ انہوں نے ایسا کچھ کہہ دیا۔ اگر فاضل بنچ اپنے فیصلے میں مسٹر جسٹس کلدیپ سنگھ کے فیصلے کا ذکر اس انداز میں نہ کرتی تو بھی اس کی روشنی میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکنے کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے کہ اب مسٹر جسٹس کلدیپ سنگھ اور مسٹر جسٹس آرایم سہائے کا متفقہ فیصلہ عملاً بے معنی بن کر رہ گیا ہے۔ اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ ہم مسٹر جسٹس کلدیپ سنگھ کے فیصلے کے ان حصوں پر ایک نظر ڈال لیں جن میں انہوں نے یکساں سول کوڈ کی حمایت کی تھی یا مسلم پرسنل لا کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ یہ حصے درج ذیل ہیں:
(۱) آئین ہند کی دفعہ 44 کے تحت یہ غیر مبہم انداز میں طے کیا جاچکا ہے کہ ریاست ، ہندوستان کے تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش کرے گی۔ اس دفعہ کا مقصد یونیفارم پرسنل لا کو رائج کرنا ہے جو کہ قومی استحکام کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہوگا۔
(۲) جب ملک کے 80 فیصد سے زائد شہریوں کو ایک مدون پرسنل لا کے دائرے میں لایا جاچکا ہے تو اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا کہ پورے ہندوستان کے تمام شہریوں کے لیے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ وضع کرنے کے کام کو مزید التوا میں رکھا جائے۔
جب تک ہم ہندوستان کے تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی تشکیل کا مقصد حاصل نہ کرلیں تب تک کسی ایسے ہندو شوہر کے لیے جو پہلی بیوی کے موجود ہونے کے باوجود دوسری شادی کا خواہش مند ہو، مسلمان بن جانے کی ترغیب برقرار رہے گی۔
(۳) چونکہ ہندوستان میں ہندوؤں کے لیے یک زوجگی (صرف ایک بیوی) کا قانون ہے اور مسلم لا چار بیویوں کی اجازت دیتا ہے اس لیے ہندو قانون کی دفعہ اور سزا سے بچنے کے لیے ہندو شوہر اسلام قبول کرلیتا ہے۔
(۴) پورے ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ بنانا حکومت (ریاست) کا فرض ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کو قانون سازی کی یہ اہلیت حاصل ہے۔ اس کیس میں ایک وکیل نے قابل سماعت سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون سازی کی اہلیت الگ چیز ہے لیکن اس اہلیت کو بروئے کار لانے کی سیاسی جرأت پر اس سے بالکل اگل ایک دوسری چیز ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں بھی آتی ہے کہ مختلف عقائد کے لوگوں کو مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے میں طرح طرح کی دشواریاں موجود ہیں لیکن اگر آئین کو واقعتا بامعنی بنانا ہے تو اس سلسلے میں کوئی پہل تو کرنی ہی ہوگی۔ ناگزیر طور سے مصلح کا کردار عدالتوں کو ہی ادا کرنا ہوگا کیوں کہ حساس ذہن کے لوگ اس طرح ناانصافی کا سلسلہ جاری نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن مختلف نجی قوانین کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے کے لیے عدالتوں کو جستہ جستہ کوششیں یکساں سول کوڈ کا مقام نہیں حاصل کرسکتیں۔
الگ الگ مختلف مقدمات میں انصاف دلانے سے کہیں زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف دلانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ (بحوالہ جسٹس چندرچور)
ہندوؤں کا رایتی قانو ن یعنی ہندوؤں کا وہ نجی قانون جس کے تحت وراثت، جانشینی اور شادی وغیرہ کے امور طے پاتے تھے اسے باضابطہ ہندو قانون کی تدوین کے ساتھ ختم کردیا گیا ہے اور اب ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے میں غیر معینہ مدت کی تاخیر کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا ہے۔
(۵) دفعہ 44 کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کسی مہذب سماج میں مذہب اور پرسنل لا میں کوئی لازمی تعلق نہیں پایا جاتا۔ دفعہ 25 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہے جب کہ دفعہ 44 مذہب کو سماجی تعلقات اور پرسنل لا سے الگ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شادی، وراثت اور اس طرح کے مذہبی کردار والے دوسرے امور کو دفعہ 25، 26 اور 27 کے ذریعہ دی گئی ضمانتوں کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا۔ شادی، جانشینی اور اسی نوع کے دوسرے معاملات سے متعلق ہندوؤں کے پرسنل لا کی بنیاد بھی مسلمانوں یا عیسائیوں کی طرح مذہب پر ہی ہے۔ ہندوؤں اور ان کے ساتھ ساتھ سکھوں، بودھوں اور جینوں نے قومی اتحاد اور یک جہتی کے مفاد میں اپنے جذبات کو خیرباد کہہ دیا لیکن دوسرے فرقوں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ آئین پورے ہندوستان کے لیے ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کی تشکیل کی وکالت کرتا ہے۔
(۶) ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ بات عدلیہ کی جانب سے کہی گئی ہے کہ تعدد ازدواج (ایک سے زائد شادی) عوامی اخلاقیات کے لیے تباہ کن ہے خواہ کوئی مذہب اپنے پیروؤں کے لیے اسے لازمی یا پسندیدہ کیوں نہ قرار دیتا ہو۔ ریاست کو اسے اسی طرح ختم کردینا چاہیے جس طرح اس نے مفاد عامہ میں انسانی قربانی یاستی کو ختم کیا ہے۔
(۷) چنانچہ ہم ملک کے وزیر اعظم کے توسط سے حکومت ہند سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ دستور ہند کی دفعہ 44 پر ازسرنو غور کرے اور پورے خطہ ہند کے شہریوں کے لیے ایک مشترک سول کوڈ وضع کرنے کی کوشش کرے۔
فاضل بنچ نے مسٹر جسٹس کلدیپ سنگھ کے سابقہ فیصلے میں یکساں سول کوڈ کی پرزور وکالت اور ان کے بعض تکلیف دہ مشاہدات کو ’’محض اتفاق‘‘ قرار دے کر عملاً یہ مان لیا ہے کہ مذکورہ بالا اقتباسات جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے بے محل بھی تھے اور غیر ضروری بھی۔ اسی طرح فاضل بنچ کے اس فیصلے سے یہ آس بھی بندھتی ہے کہ اب عدالتیں یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا سے متعلق ایشوز سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گی۔ یہ صورت حال کا انتہائی خوش آئند پہلو ہے اور اس کی بہرحال تحسین کی جانی چاہیے۔ لیکن جسٹس کلدیپ سنگھ کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے اسی معاملے میں جسٹس ایم آر سہائے نے جو الگ فیصلہ دیا تھا، فاضل بنچ نے اپنے تازہ فیصلے میں اس کا حوالہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ مسٹر جسٹس سہائے نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے جو مشورے دیئے ہیں وہ قابل عمل بھی ہیں اور پسندیدہ بھی۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اس میں پسندیدگی کا کوئی پہلو اس صورت میں ہی تلاش کیا جاسکتا ہے جب یہ مان کر چلا جائے کہ یکساں سول کوڈ بہر صورت ضروری ہے۔
جسٹس سہائے نے اپنے فیصلے میں درج ذیل دو باتیں کہی تھیں:
(۱) یکساں سول کوڈ ایک پسندیدہ چیز ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بیل اس صورت میں ہی منڈھے چڑھ سکتی ہے جب سماج کے سربر آوردہ لوگ اور قائدین کی صف سے تعلق رکھنے والے مدبر اس کے لیے سماجی فضا تیار کریں اور ذاتی مفادات سے بلند تر ہوکر عوام الناس کو اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے تیار و بیدار کریں۔
(۲) مذہب کی آزادی ہمارے کلچر کی اصلی بنیاد ہے۔ اس سے ہلکا سا انحراف بھی ہمارے سماجی تانے بانے کو ہلاکر رکھ دیتا ہے۔ لیکن انسانی حقوق اور انسانی وقار کو پامال کرنے والے مذہبی عمل اور بنیادی نوعیت کی شہری آزادیوں کا دم گھونٹ دینے والی متبرک روایتوں کو خود مختاری نہیں بلکہ استحصال ہی کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ یکساں سول کوڈ جبر و استحصال کے شکار لوگوں کے تحفظ اور قومی اتحاد و یک جہتی کے فروغ، دونوں ہی کے تعلق سے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں اولین قدم اقلیتوں کے پرسنل لا کو معقول بنانے کی صورت میں ہی اٹھایا جانا چاہیے تاکہ مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔ بہتر ہوگا کہ حکومت یہ ذمہ داری قانونی کمیشن کو سونپ دے جو اقلیتی کمیشن کے صلاح و مشورہ سے اس معاملہ کی چھان بین کرے اور ایک ایسا جامع مسودہ قانون تیار کرے جو عورتوں کے انسانی حقوق کے عصری تصور سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔
جسٹس ایم آر سہائے نے جو مشورے دیئے ہیں، انہوں نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ قابل عمل ہیں بھی یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ بات بجائے خود کم از کم مسلمانوں کے سواد اعظم کے نزدیک ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہے کہ مسلم پرسنل لا اور دوسرے نجی قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ ملک کے تمام لوگوں کے لیے یکساں سول کوڈ تشکیل دیا جائے۔ مسلم پرسنل لا کو وہ اپنے مذہب کا لازمی جز تصور کرتے ہیں اور بجا طور پر یہ مان کر چلتے ہیں کہ ان کے پرسنل لا میں مداخلت کا مطلب براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان کے مذہب میں مداخلت ہی ہوگا اور یہ موقف صرف مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ مسٹر جسٹس آر ایم سہائے نے اپنے جس فیصلے میں یکساں سول کوڈ کو پسندیدہ قرار دے کر اس کی صورت گری کے راستے سجھائے ہیں خود اسی میں انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ شادی، وراثت اور تبدیلی مذہب جیسے امور جن کا تعلق مسلم پرسنل لا سے ہے، عملاً مذہبی عقیدہ کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
’’جب آئین کی تشکیل عمل میں آئی اور سیکولرزم کو اس کا آدرش اور مقصد قرار دیا گیا تو سماجی اعتبار سے اتفاق رائے اور ایقان کا اظہار اس کی دفعہ 44 میں ہوا۔ لیکن مذہبی آزادی جو سیکولرزم کی اصل بنیاد ہے اس کی ضمانت آئین کی دفعہ 25 سے لے کر 28 تک کی دفعات کے تحت دی گئی۔‘‘
دفعہ 25 کافی جامع ہے۔ اس کے تحت تمام لوگوں کو صرف عقیدہ کی آزادی ہی نہیں بلکہ مذہب کی تبلیغ، اس پر عمل اور ترک و اختیار کے حق کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ مذہب کیا ہے؟ مذہب کا مطلب ہے عقیدہ، ایقان۔ آئین میں مذہبی آزادی کی مختلف شکلوں میں جو ضمانت دی گئی ہے، عدالت نے اسے مزید وسیع کیا ہے اور اس کے دائرے میں مذہبی اعمال یہاں تک کہ فرد کے خارجی اعمال تک کو شامل کردیا ہے۔ مذہب، صرف عقیدہ نہیں ہے، یہ اس سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ آئین میں ضمیر کی آزادی کی ضمانت دے کر مذہبی عقیدہ کے داخلی پہلو کی ضمانت مہیا کی گئی ہے جب کہ اس کے خارجی مظہر کو، مذہب پر آزادانہ طور پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی آزادی کے حق کی ضمانت دے کر تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
مذہبی کتابیں مثلاً رامائن یا قرآن یا بائبل یا گروگرنتھ صاحب کا پڑھنا یا جاپ کرنا مذہب کا ٹھیک اسی طرح سے ایک حصہ ہے جس طرح ہندوؤں کا دیوی دیوتاؤں کو بھوگ لگانا یا کسی مورتی کو غسل دینا یا اسے کپڑے پہنانا اور مندر، مسجد، چرچ یا گرو دوارہ جانا مذہب کا حصہ مانا جاتا ہے۔
’’شادی، وراثت اور تبدیلی مذہب اپنی نوعیت اور اپنے مواد کے اعتبار سے ٹھیک عقیدہ کی ہی طرح مذہبی حیثیت کی حامل ہیں۔ آگ کے گرد سات پھیرے لگانا یا قاضی کے سامنے ایجاب و قبول کے مرحلہ سے گزرنا عبادت ہی کی طرح ضمیر و عقیدہ کا معاملہ ہے۔ جب کوئی ہندو کلمہ پڑھ کر مذہب تبدیل کرلیتا ہے یا کوئی مسلمان کچھ خاص منتروں کا جاپ کرکے ہندو بن جاتا ہے تو یہ ضمیر اور عقیدہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی مذہب کے ماننے والوں کے بعض عمل بظاہر انتہا پسندانہ حتیٰ کہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے انسانی حقوق کو پامال کرتے نظر آئیں، لیکن ان کی حیثیت بہرحال عقیدے پر مبنی عمل کی ہی ہوگی۔‘‘
اس اعتراف حقیقت کے باوجود اگر مسٹر جسٹس سہائے یہ سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ ضروری ہے اور قانون کمیشن اقلیتی کمیشن کے ساتھ صلاح و مشورہ کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کی صورت گری کے راستے تلاش کرے تو اس پر ایک عام آدمی اظہار حیرت کے سوا اور کیا کرسکتا ہے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ کچھ مفروضات کو بنیاد بناکر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی خاصی بڑی تعداد خواہ اس کا تعلق عدلیہ سے ہو یا کسی اور شعبے سے یہ وکالت کرتے کبھی نہیں تھکتی، کہ چاہے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے اور اس کے نتیجے میں خواہ انتشار و خلفشار کے کتنے ہی دروازے کیوں نہ اپنے آپ کھلتے چلے جائیں یکساں سول کوڈ نہ صرف یہ کہ ضرور بنایا جائے بلکہ نجی قوانین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن بھی کردیا جائے۔ ظاہر ہے اس طرح کی سوچ کو کسی بھی اعتبار سے نہ تو صحت مند کہا جاسکتا ہے نہ ہندوستان جیسے کثیر قومی ملک کی تعمیر و ترقی کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آئین میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے باب میں دفعہ 44 جب تک موجود رہے گی، یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کسی نہ کسی شکل میں سر اٹھاتا رہے گا۔ اس سے نجات کی واحد شکل یہی ہے کہ اس دفعہ کو آئین سے نکال دیا جائے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو چاہیے کہ بہت سے دوسرے معاملات میں ٹانگ اڑانے اور اپنی توانائی ضائع کرنے کے بجائے اپنی توجہ اسی ایک مسئلے پر مرکوز کردے۔
0 comments: