سیاسی پارٹیاں اور فرقہ واریت
جلال الدین اسلم، نئی دہلی
ہماری سیاسی پارٹیاں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، علاقائی ہوں یا قومی سطح کی، سیکولر ہوں یا فرقہ پرست، ان سب نے فرقہ واریت کو بڑھانے اور فقہ وارانہ سوچ کو مسلسل غذا بہم پہنچانے میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ اپنے ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی ہے بلکہ امیدواروں کے انتخاب کے معاملے میں مذہب اور ذات پات کے عنصر کو عملاً فیصلہ کن اہمیت دے کر ان لوگوں کی مسلسل حوصلہ افزائی بھی کی ہے جو اپنے فرقے میں اپنی جگہ بنانے کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور آتش بار مسائل کو اُبھارنے کی روش پر گامزن رہے ہیں۔ سیکولر سیاست، سیکولر رویہ اور غیر جانب داری کی بات کرنے والے ہمارے سیاست داں انتخابات کو اقلیت اور اکثریت کے درمیان مفاہمت کے نت نئے پلوں کی تعمیر کا ذریعہ بنانے کے بجائے اور پہلے سے موجود پلوں کو تباہ کرنے کا وسیلہ ہی بناتے رہے ہیں۔ امیدواروں کے انتخاب میں مذہب اور ذات پات کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے اس کا اندازہ ایک سیاسی لیڈر کے اس ریمارک سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ”ہمارا انتخابی نظام عملاً ذات پات کی بنیاد پر ہی چل رہا ہے۔ امیدواروں کے انتخابات کے معاملے میں تقریباً ساری ہی پارٹیاں کوشش اس بات کی کرتی ہیں کہ امیدوار اسی شخص کو بنایا جائے جو متعلقہ حلقے میں اکثریت والی ذات یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ دوسروں کو تو جانے دیجیے، دن رات سیکولرزم کی رٹ لگانے والی کمیونسٹ پارٹی بھی امیدواروں کے انتخاب میں ذات پات اور مذہبی عنصر کو نظر انداز نہیں کرپا رہی ہے۔ یعنی اسے آپ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب ان پارٹیوں کے نزدیک اپنا کام، اپنا نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔“
اگر اس روگ کو ہم چھ دہائی پرانا قرار دیں تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے 1960 کی دہائی میں قومی یک جہتی کے موضوع پر ایک کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے بڑے ہی دلنشیں انداز میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ”مولانا ابوالکلام آزاد کی ہماری قومی زندگی میں بہرحال ایک خاص اہمیت تھی، ان کا ایک خاص مقام تھا، انہوں نے جب چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے لیے رام پور کے پارلیمانی حلقے کا انتخاب کیا گیا، کیونکہ وہاں مسلمان ووٹ کافی تھے۔ مولانا نے رام پور سے چناؤ لڑنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں ان کے لیے گڑگاؤں کا حلقہ چنا گیا جہاں مؤ مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد تھے وہاں وہ جیت گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان کے لیے کسی ایسے حلقے کا انتخاب کرتے جہاں صد فی صد ہندو ووٹ ہوتے اور وہ ہار جاتے۔ ان کی یہ شکست عملاً یک جہتی کی اخلاقی فتح ہوتی کیونکہ ان صورت میں پارٹی کے لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے اور پارٹی یک جہتی کے زیادہ مؤثر پروگرام کے ساتھ سامنے آتی۔“
کانگریس اُس وقت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیکولر تھی اور اس میں ایسے لوگ بھی خاصی تعداد میں موجود تھے جن کے ذہن خاصے صاف تھے، لیکن کانگریس اُس وقت بھی اپنے آپ کو اس مقام پر نہ لاسکی جہاں قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے انتخابی خسارے کو برداشت کرلیتی۔ انتخابی فائدے کے حصول کے لیے ہمارے یہ سیاست داں کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ گزشتہ خصوصاً دو تین دہائیوں کے دوران ملک کے لوگوں کو بہت ہی اچھی طرح ہوچکا ہے اور ان کی اس روش کی نکتہ چینی تو اوروں کے علاوہ فسادات کی تحقیقات کرنے والے کمیشنوں تک نے کی ہے۔ 1967 میں رانچی کے فسادات کی تحقیقات کرنے والے رگھوبردیال کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سیاسی پارٹیوں کی اسی روش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا ”سیاسی پارٹیوں کو اپنے نمائندوں کے لیے عوام کو استعمال کرنے کا رویہ ترک کردینا چاہیے۔ کسی بھی سیاسی، معاشی یا ثقافتی مسئلے پر خالص فرقہ وارانہ زاویہئ نظر سے نہ تو بحث و مباحثہ ہونا چاہیے اور نہ اس طرح کے مسائل کو لے کر فرقہ وارانہ بنیاد پر کوئی تحریک چلائی جانی چاہیے، سیاسی فائدے پر قومی ہم آہنگی کو بھینٹ چڑھا دینے کے طرز عمل سے بہرحال احتراز کیا جانا چاہیے۔“
فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال صرف فرقہ وارانہ پارٹیاں ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ پارٹیاں بھی کرتی ہیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور جنہوں نے اپنے دروازے بظاہر سب کے لیے کھول رکھے ہیں۔ بھیونڈی کے فساد (1970) کی تحقیقات کرنے والے مدان کمیشن نے ان کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ”ایسی سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی رکنیت کسی خاص فرقے کے افراد تک محدود نہیں رکھا ہے اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں فرقہ وارانہ ہیں جن کا رخ ایک خاص فرقے کی طرف ہی ہوتا ہے۔ دکھانے کے لیے یہ دوسرے فرقوں کے کچھ افراد کو اپنا ممبر بھی بنالیتی ہیں او راکثر و بیشتر انہیں تنظیمی عہدے بھی دے دیتی ہیں۔ جاہ و منصب کے لالچی ہر فرقے میں پائے جاتے ہیں اور ان پارٹیوں اور تنظیموں کو اپنا حقیقی چہرہ چھپانے کے لیے اس طرح کے لوگوں کو تلاش کرلینا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ اس طرح کی پارٹیوں اور تنظیموں کو بہرحال فرقہ پرست تنظیمیں ہی سمجھا جانا چاہیے۔“
اور مسئلہ صرف اس طرح کی تنظیموں کا ہی نہیں بلکہ وہ پارٹیاں بھی ہیں جنہوں نے حقیقتاً اپنے دروازے تمام فرقے کے لوگوں کے لیے کھول دیئے ہیں ان کا دامن بھی مذہب اور ذات پات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں صاف نہیں ہے، یہ بھی اپنے عمل اور بے عملی دونوں ہی کے ذریعے فرقہ وارانہ تلخی کو بڑھانے اور فرقہ وارانہ بنیاد پر ہندوستانی عوام کو تقسیم کرتے چلے جانے کے عمل میں بھرپور معاونت کر رہی ہیں۔ 1979 میں جمشیدپور اور اس کے قرب و جوار میں ہونے والے انتہائی بھیانک فرقہ وارانہ فساد کی تحقیقات کرنے والے ایک تین نفری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت ہی دو ٹوک انداز میں کہا کہ ”فرقہ وارانہ اُمور کے تئیں سیاسی پارٹیوں کے رویہ اور ان کے عام رجحان کے تذکرہ کے بغیر سفارشات کی فہرست مکمل نہیں ہوسکتی، انہوں نے ہمیشہ ہی مختلف فرقوں کو اپنا ووٹ بینک تصور کیا ہے اور اسی کے مطابق اپنے منصوبے اور لائحہ عمل تیار کیے ہیں۔ ووٹ کا مطلب ہوتا ہے اقتدار و اختیار اور سیاست دانوں کو اقتدار و اختیار، دوسری تمام چیزوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس رجحان کو بہرحال بدلنا چاہیے۔“
سیاسی پارٹیاں مذہب کا استحصال کس طرح کرتی رہتی ہیں اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے میں کیا رول ادا کرتی ہیں اس کا تذکرہ پارلیمنٹ میں بھی اکثر و بیشتر ہوتا رہا ہے۔ جولائی 1986 میں احمد آباد کے فسادات کے پس منظر میں لوک سبھا میں ہوئے مباحثہ کے دوران نیز اگست 1987 میں ہوئے فساد کے حوالے سے ملک میں فرقہ وارانہ صورت حال پر بحث کے دوران سیاست دانوں کی فرقہ وارانہ روش کا تذکرہ بار بار ہوا اور ایک دوسرے پر الزام بھی لگائے گئے۔ ایک رکن جن کا نام اس وقت یاد نہیں اپنی تقریر میں بڑی معنی خیز بات کہی جو ہمارے سیاست دانوں کے کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم یہاں اس ایوان میں کچھ کہتے ہیں اور جب اپنی ریاست اور اپنے حلقہئ انتخاب میں ہوتے ہیں تو کچھ اور کہتے ہیں اور جب اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو ہماری گفتگو اور ہمارا لب و لہجہ بالکل بدلا ہوا ہوتا ہے۔“ ہمارے سیاست دانوں کی اس سے بہتر تصویر کشی اور نہیں ہوسکتی، اقتدار و اختیار کے حصول کے لیے ہمارے سیاست داں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ذات پات اور مذہب کی جڑیں بہت مضبوط ہیں لہٰذا ذات پات اور مذہب کے نام پر لوگوں کو بہ آسانی ورغلایا یا گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ فرقہ وارانہ جذبات کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنانے کی راہ پر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور ان کے اسی طرز عمل کے نتیجے میں فرقہ واریت کا ننھا پودا آج ایک ایسا تناور درخت بن گیا ہے کہ اس کی شاخیں ہر گھر اور ہر آنگن میں جھولتی نظر آرہی ہیں جو ہلکی سی ہوا بھی چلتی ہے تو اس کے زہریلے پھولوں اور پھلوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، اتنا ڈھیر کہ ہمارا سیکولر آئین اور ہماری جمہوری قدریں سبھی کچھ اس کی نذر ہوتی نظر آرہی ہیں۔
٭٭٭
0 comments: