مسلم خواتین کے غم میں گھلتے رہنے کا سوانگ

1:24 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

ایک بار پھر مسلم مطلقہ خواتین کا ’جن‘ بوتل سے باہر نکل آیا ہے جسے کچھ لوگ پھر بوتل میں بند کرنے کے عمل میں مصروف ہوگئے ہیں، تو کچھ لوگ اسے کھلی فضا میں آزاد رکھ کر لوگوں میں خوف و ہراس اور انتشار و افتراق جیسے حالات بنائے رکھنے میں ہی اپنی بھلائی اور بقا مان رہے ہیں۔ 
ایک بار میں تین طلاق دے دینے سے طلاق ہوجاتی ہے یا پھر تین طہر میں۔ اس مسئلے کا حل مسلم علما کے پاس ہے یا ان لوگوں کے پاس جو اپنے دھرم کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے، سیاہ بوتل میں مسلم مطلقہ خواتین ’جن‘ کو بند رکھنے یا اسے باہر نکالنے والے عموماً ایسے سیاہ چشموں کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں صرف مسلم مطلقہ خواتین کی زندگیوں میں اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ انہیں اپنی بیویاں اور زندگی بھر بیوہ رہنے والی وہ عورتیں جن کی سماج میں کوئی عزت نہیں ہوتی، نظر نہیں آتیں۔ ان کے خیال میں مسلم شوہر طلاق کا پستول ہمیشہ ساتھ میں رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے طلاق طلاق طلاق کی گولی داغ دیتا ہے۔ اس طرح گویا مسلم خواتین بے یار و مددگار در بدر پھر رہی ہیں اس لیے انہیں ان کے غم میں رہ رہ کر درد اٹھتا رہتا ہے۔ 
کچھ زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے غالباً 1995 میں ریاست کیرالا کی ایک مسلم اکثریتی بستی میں طلاق کی شرح معلوم کرنے کی غرض سے سروے کرایا گیا تھا جس کے نتائج مسلم مطلقہ خواتین کے نام نہاد بہی خواہان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں لیکن سچائی تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جن کے سینوں میں دل ہوتا ہے۔ سروے حسب ذیل ہے: 
ریاست کیرالا کی 68 فیصد مسلم آبادی والے ضلع ملاپورم کی 30 بستیوں کے ایک خصوصی سروے کے نتیجے میں یہ خوش کن حقیقت سامنے آئی کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح بہت تیزی کے ساتھ گر رہی ہے۔ علاوہ ازیں بہت ہی محدود پیمانے پر کیے جانے والے اس سروے سے اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ مسلمان عام طور پر، طلاق جیسا ناپسندیدہ قدم شاذ و نادر ہی اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدالتی ریکارڈوں، خطیبوں، قاضیوں، خاتون سماجی کارکنوں اور وکیلوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت پر مبنی اس سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ان 30 بستیوں سے 10 بستیوں میں گزشتہ ڈیڑھ برسوں کے دوران طلاق کے محض دو یا تین واقعات ہوئے ہیں۔‘‘ 
اسی طرح منجیری کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت اور منصف کورٹوں کے ریکارڈ بھی اس بات کی طرف بہت ہی واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں کہ نان و نفقہ کے مقدمات کی تعداد میں بھی غیر معمولی کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ منجیری کی عدالت میں 1988 میں نان و نفقہ کے 120 مقدمات دائر کیے گئے تھے جب کہ 1993 میں ان کی مجموعی تعداد گھٹ کر صرف 63 رہ گئی۔ 
ایک خاتون وکیل محترمہ جینسی واسو کا کہنا تھا کہ 1991 میں ان کے پاس 21 جوڑے آئے اور ان سب نے طلاق حاصل کی۔ جبکہ 1994 میں طلاق حاصل کرنے والے جوڑوں کی کل تعداد محض 10 رہی۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ برسوں کے دوران 26 مسلم 25 ہندو اور دو عیسائی جوڑوں نے ان کی صلاح پر عمل کرتے ہوئے طلاق یا علاحدگی کا ارادہ ترک کردیا۔ ان کی ازدواجی زندگی کی ہموار سطح دوبارہ بحال ہوگئی۔ 
اگرچہ اس سروے کا دائرہ بہت ہی محدود ہے اور اسے ہندوستان کے مسلم معاشرہ کی عائلی زندگی کا حقیقی آئینہ قرار نہیں دیا جاسکتا، تاہم یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ مسلم خواتین کی زبوں حالی، طلاق کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ اور مطلقہ خواتین کی کسمپرسی کی جو لرزہ خیز داستانیں مسلسل تصنیف کی جارہی ہیں، ان میں صداقت کا عنصر برائے نام ہی پایا جاتا ہے۔ مسلم خواتین کے غم میں مسلسل گھلتے رہنے کا سوانگ رچانے والے گلابی اور زرد دانشوروں، سیاست دانوں، سماجی کارکنوں اور صحافیوں نے یہ دلچسپ مشغلہ محض اس لیے اختیار کر رکھا ہے کہ اس کی آڑ میں وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس بھی آسانی کے ساتھ نکال سکتے ہیں اور کچھ ضرورت سے زیادہ پُرجوش مگر زمینی حقائق اور معاشرتی پیچیدگیوں سے بڑی حد تک ناواقف خواتین کو ورغلاکر مسلم معاشرے میں انتشار و خلفشار کے بیج بھی بوسکتے ہیں۔ 
یہ سلسلہ ایک عرصہ سے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جاری ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مسلمان طلاق نامہ ہمیشہ اپنی جیب میں رکھتا ہے، اس کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوئی نہیں کہ اس نے طلاق کی بندوق داغ دی۔ اس تاثر کو بے سر پیر کی کہانیوں سے تقویت پہنچائی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ تماشائی بنے رہتے ہیں۔ ان مسائل پر نظر رکھنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ تو ہے لیکن اس سے یہ تک نہیں ہوسکا کہ محدود پیمانے پر ہی سہی کوئی سروے کراکر، اعداد و شمار کی بنیاد پر اس غلط پروپیگنڈے کی قلعی کھولنے کی کوشش کرتا۔ یہ ادارہ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے اسے مسلم علما، دانشوروں اور باصلاحیت لوگوں کی خدمات بھی حاصل ہیں لیکن بہ وجوہ یہ کوئی ایسا کام کرنے سے قاصر ہے جو مسلم دشمنوں کے لیے سد راہ بن سکے۔ یہ طلاق کے بارے میں ہی کیا ہر روز مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر بھی اٹھتے طوفانوں کا سروے کراکر ان کا منہ موڑ سکتا ہے لیکن اس ادارہ اور اس سے جڑے لوگوں سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس راہ پر چلنے کی جسارت کریں گے جسے روشن رکھنے والے چراغوں میں جگر کا خون، نسوں کی چربی اور ہڈیوں کا روغن استعمال کیا جاتا ہے۔ 
مسلم خواتین کے غم میں سوانگ رچانے والوں کے سامنے صرف طلاق ہی نہیں بلکہ تعدد ازدواج بھی ہے، انہیں اسلام میں چار شادیوں کی اجازت بھی بے چین کیے ہوئے ہے۔ کچھ جغادری قسم کے لوگ لنگر لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں اتر آئے ہیں۔ ٹی وی پر طرح طرح کے بیانات اور اخباری مضامین کا سیلاب سا امنڈ آیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی سننے کی کبھی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی مسئلے کو سمجھنے کی بلکہ ہٹ دھرمی پر آمادہ رہتے ہیں۔ انہیں اگر آئینہ دکھایا جائے تو منہ بسور کر طوطوں کی طرح پھر وہی رٹی ہوئی رٹ رٹنے لگتے ہیں۔ 
اس وقت ہمیں 20-25 برس پرانی بات یاد آرہی ہے۔ بی جے پی کے چند ممبران پارلیمنٹ جو اس وقت اپنے بیانات و کردار کے تعلق سے اخبارات کی سرخیوں میں رہے ہیں، باگن بہرائی کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا۔ چار بار لوک سبھا کے ممبر رہ چکے ہیں جو تین بار پارٹیاں اور 57 بیویاں تبدیل کرچکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’وہ جنسی تسکین کے لیے نہیں بلکہ شادیاں اس لیے کرتے تھے کہ وہ خوبصورت لڑکیوں کی پرستش کرتے ہیں۔‘ ہمیں نہیں معلوم کہ موصوف اب بھی باحیات ہیں یا نہیں لیکن ان کا عمل ان کے اپنوں کے لیے ضرور زندہ و پائندہ ہے۔ خوبصورت عورتوں کے ’پرستار‘ باگن بہرائی کا شمار بھارتیہ جنتا پارٹی کے آدی باسی یا سنگھ پریوار کی اصطلاح میں بن باسی لیڈروں میں ہوتا رہا ہے۔ موصوف نے 1991 میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا جو بقول ان کے ’بھگوانوں کی پارٹی ہے۔‘ 
صرف باگن جی ہی کیوں ’بھگوانوں کی پارٹی‘ کے ایک اور معروف لیڈر سابق مرکزی وزیر حکم دیونارائن یادو بھی ایک سے زائد شادی کرنے والوں کی صف میں نہ صرف یہ کہ براجمان نظر آتے رہے بلکہ وہ تو اسی بات کی پُر زور وکالت بھی کرتے رہے کہ ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کرکے ایک سے زائد شادیوں کی باقاعدہ گنجائش کی جانی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ آئین کس کام کا جو ’مردوں کو درجنوں داشتائیں رکھنے کی تو اجازت دیتا ہے مگر ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں دیتا۔‘ یوں تو ایسے کئی ہندو لیڈر ہیں جن کی مثال دی جاسکتی ہے لیکن طوالت کے ڈر سے صرف دو کو ہی کافی سمجھا گیا۔ 
’بھگوانوں کی پارٹی‘ اپنے ان لیڈروں کے طرز عمل کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے یہ تو ہمیں نہیں معلوم، لیکن اس کے چھوٹے بڑے لیڈر، اس کے اپنے قلم گھسیٹ جب مسلمانوں پر تعدد ازدواج کے حوالہ سے حملہ کرتے ہیں اور اسلام پر بہتان تراشی کرتے ہیں تو ہنسی ضرور آتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلام نے چار شادیوں کی جو مشروط اجازت دی ہے اس کا مقصد فطرت انسانی کے تقاضوں کی تکمیل اور سماج کو ’داشتاؤں‘ کی لعنت سے بچانا ہی ہے۔ کچھ غیر معمولی حالات انسان کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ یک زوجگی کے حصار کو توڑ دے، ان حالات میں اس کے سامنے دو ہی راستے کھلے ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ جنسی بے راہ روی کو اپنا شعار بنالے اور دوسرا یہ کہ دوسری شادی کرکے پرسکون زندگی گزارے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن نہ بنائے۔ 
بہرکیف آخر میں ہم مسلمانوں کو چار چار شادیاں کرنے کا طعنہ دینے والے اگر بی جے پی کے ماگن اور حکم دیو نارائن (اگر یہ لوگ موجود ہوں تو) ان سے ضرور ملیں۔ ان کے علاوہ رام ولاس پاسوان، مادھو سنگھ، سوریہ نارائن یادو ایم پی، سابق گورنر بھیشم نارائن سنگھ بالخصوص دگ وجے سنگھ وغیرہ جیسے لوگوں سے بھی ملیں، جنہوں نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی ہیں، تو شاید ان کی یہ غلط فہمی کسی حد تک دور ہوجائے کہ تعدد از دواج گناہ نہیں بلکہ گناہ کی دلدل سے بچے رہنے کا ایک معقول ذریعہ ہے۔ 
کاش کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے قلم گھسیٹوں اور ٹی وی پر بے سر پیر کی بک بک کرنے والوں کو ہماری باتیں سمجھ میں آجاتیں کہ اب بہت ہوچکا۔ انہی لوگوں کی وجہ سے پورے ملک میں بدامنی جیسی صورت حال بنتی جارہی ہے جسے کسی بھی حال میں ملک و قوم کے لیے بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 

0 comments: