اب چوہے بھاگیں گے

6:39 PM nehal sagheer 0 Comments

                                ممتاز میر  
  انتخابات کے طویل عمل سے گذر کر ۸ نو مبرکو بہار کے نتائج آگئے۔حسب توقع مودی اینڈ کمپنی کی یہ دوسری کراری ہار ثابت ہوئی ہے۔سب سے بڑی اور سب سے زبردست شکست مودی اینڈکمپنی کی دلی میں ہوئی تھی جو کئی معنوں بالکل الگ تھی۔بہار میں سارے کے سارے کھلاڑی پرانے،آزمودہ کار اور ماہر تھے۔مگر دلی میں ایک نوآموز نے انھیں خاک چٹا دی تھی۔انھیں اسی وقت اپنے منہ پر پڑنے والے طمانچے کا احساس ہو جانا چاہئے تھا مگر سنگھ کی تربیت میں انسان کو بے شرم بنانے کا عنصرسب سے قوی ہے۔اس لئے سنگھی ہر طرف سے پڑنے والے طمانچوں کے باوجود بے مزہ نہیں ہوتے اور وہی حرکتیں دہراتے رہتے ہیں جن کی بنا پر عوام،اور خواص بھی ان کو طمانچے مارتے ہیں۔امید تو یہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی وہ بس اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔  حالیہ انتخابات میں بھی سنگھ اور اس کے پرچارکوں نے خود اپنی حماقتوں سے لالو اور نتیش کو کئی ایسے نکات تھالی میں سجا کر پیش کئے جس کو دونوں نے بخوبی کیش کیا۔مثلاً انتخابی مہم کے بالکل ابتداء میں مودی جی نے بہاریوں کے ڈی این اے کی بات کرکے بہاری عوام کو بھڑکا دیا۔پھر بہار میں جنگل راج کی بات کی گئی جبکہ ہر وہ شخص جس کے سر میں آنکھیں ہیں،بلکہ آنکھیں نہ ہونے والا شخص بھی دیکھ رہا ہے کہ جنگل
راج کی کیفیت تو راجدھانی کے آس پاس ہے۔اور اس جنگل راج کو برقرار رکھنے میں خود سنگھیوں کا ہاتھ ہے۔راجدھانی دہلی میں ایک دن میں ۴/۴ گینگ ریپ ہوتے ہیں اور مرکز پھر بھی پولس کو دہلی حکومت کو سونپنے کے بجائے اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔موہن بھاگوت کا رزرویشن پر بیان بھی لالو اور نتیش کی مدد کے لئے ہی تھا۔لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ این ڈی اے کا سب سے بڑا دوست شاید پاکستان ہی ہے۔جب جب بھی این ڈی اے مصیبت میں ہوتا ہے پاکستان کچھ نہ کچھ ایسا کرتا ہے جس سے این ڈی اے مصیبت سے باہر نکل آتا ہے۔
گروداس پور اٹیک کے بعد اب کوئی نہ بی جے پی کی کرپٹ مہارانیوں کا ذکر کرتا ہے نہ ویاپم گھوٹالے کا اس ہار سے سب سے زیادہ خوشی بہاری بابو شترو گھن سنہا کو ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔امیت مودی جوڑی نے انھیں نوویئر کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ بڑی عجیب انسانی نفسیات ہے کہ انسان اسی درخت کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اس کا آشیانہ ہوتا ہے۔یہ شاہی دور میں بھی ہوتا تھا یہی جمہوری دور میں بھی ہو رہا ہے۔مسٹر مودی ہر شخص کو حاشیہ پر پہونچا رہے ہیں جنھوں نے انھیں یہاں تک پہونچانے میں دامے درمے مدد کی اور جس سے انھیں رتی برابر بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔خیر 
  اب آئیے حالیہ انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہیں۔مہا گٹھ بندھن یا عظیم اتحاد میں آر جے ڈی یا لالو پرساد کو ۰۸ سیٹیں ملی ہیں۔جے ڈی یو یا نتیش کمار کو ۱۷اور کانگریس کو ۷۲ سیٹیں ملی ہیں۔کانگریس کو جو نشستیں ملی ہیں وہ بھی عظیم اتحاد میں شمولیت کی بنا پر ملی ہیں۔راہل گاندھی کی محنت یا شخصیت کا اس میں کوئی کمال نہیں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ اب کانگریس راہل گاندھی کو درمیان سے ہٹا کر الیکشن لڑے۔کانگریسیوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہئے کہ وہ اب ہر جگہ ایک جونیئر پارٹی بن چکی ہے اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ ان کی منافقت یا نرم ہندتو کی پالیسی کا ہے۔ دوسری طرفاین ڈی اے کی پارٹی پوزیشن بھی دیکھ لیں۔بی جے پی کو ۳۵نشستیں حاصل ہوئی ہیں ایل جے پی کو صرف ۳آر ایل ایس پی کو بھی صرف دو نشستیں اور جتن رام مانجھی کو صرف ایک۔یعنی اپنی پارٹی میں خود ہی جیتے ہیں بس۔دیگر میں سی پی آئی ایم کی ۳ نشستیں ہیں اور آزاد ۴جبکہ ۰۱۰۲ کے الیکشن میں انہی پارٹیوں کی پوزیشن کچھ یوں تھی۔بی جے پی۔۱۹۔جے ڈی یو ۵۱۱۔کانگریس ۴۔آر جے ڈی  ۲۲۔سی پی آئی ایک۔ایل جے پی ۳۔یہ دونوں نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی اسی وقت جیت سکتی ہے جب ووٹوں کی تقسیم عمل میں آئے اس کے علاوہ یہ بات بھی وطن عزیز کا ہر فرد جانتا ہے کہ بی جے پی نے آج تک اپنے دم پر لڑ کر کبھی کامیابی حاصل نہیں کی وہ ہمیشہ حمایتیوں کے ساتھ ہی میدان میں آئی ہے۔
  بہار میں جب انتخابی مہم جاری تھی تب ہی تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا اس الیکشن میں این ڈی اے کی دال نہیں گلے گی۔آخری”چرن“ تو یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ این ڈی اے الیکشن ہار گیا ہے۔مگر اب ہمارا میڈیا بھی اسی مٹی کا بن گیا ہے جس کا سنگھ پریوار بناہوا ہے۔سنگھ کی لغت میں شرم و حیا نام کا کوئی لفظ نہیں ہے۔تمام واضح علامات کے باوجود کچھ ایگزٹ پول این ڈی اے کو جیتتے ہوئے دکھا رہے تھے۔اس سے بھی آگے بڑھ کر نتائج کے دن صبح ۹ سے ساڑھے ۹ کے درمیان جب ووٹوں کی گنتی میں این ڈی اے لیڈ کر رہا تھا تو چینلوں کے تقریباً تمام اینکر کہہ رہے تھے کہ نتیش کی یہ ہار لالو کے ساتھ کی وجہ سے ہے۔کیا اتنا قبل از وقت اس طرح کا ریمارک دینا ٹی وی چینلوں کے اتنے ذمے دار صحافیوں کو زیب دیتا ہے۔پیڈ یا ایمبیڈصحافت کوئی نئی چیز نہیں۔کم و بیش ہر ملک میں یہ بیماری نظر آئے گی۔مگر کچھ انا،خودداری اور انفرادیت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔دنیا کے ایک بڑے جمہوری،طاقتور اور قابل احترام ملک کے میڈیا کی یہ روش کس نظر سے دیکھی جائے گی؟ نیپال سے ہمارے تعلقات بگاڑنے میں میڈیا کا بھی کچھ حصہ ہے مگر میڈیا کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے حکمراں میڈیا میں یہ شعور نہیں پیدا کرسکتے۔میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کو سدھارنے کا کام میڈیا کی سفید(گوری)بھیڑوں کو ہی کرنا ہوگا۔وکالت کا کاروبار سب جانتے ہیں کہ جھوٹ پر ہی چلتا ہے۔حکومت بھی کلائنٹ بھی اور منصف بھی۔مگر نام کے لئے ہی سہی ایک پروفیشنل ایتھکس طلباء کو پڑھائی جاتی ہے جس میں بدقسمتی سے یہ بھی لکھا ہے کہ وکیل اپنی ذاتی رائے کو طاق پر رکھ ہر کلائنٹ(کم وبیش) کا کیس لے اس کا مطلب کم سے کم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس کو وہ قاتل سمجھتا ہے اس کا کیس بھی لڑے۔مگر صحافت کے پیشہ ورانہ اخلاقیات میں تو ایسے پیچ نہیں ہے۔پھر اس میدان میں تو ہمارے اسلاف نے بڑی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔عوام صحافیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ چیزوں کو بالکل ویسی ہی دکھائیں گے جیسی کہ وہ ہیں۔عوام کی ذہم سازی مثبت بنیادوں پر ہوگی منفی نہیں۔اب اگر لالو پرساد اس طرح کے صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو کیا وہ غلط ہوگا؟اس الیکشن میں تو لالو پرساد سب سے بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔اور سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود شیو سینا بی جے پی کی طرح وزارت اعلیٰ پر کوئی لڑائی نہیں ہے۔لالو سے پہلے ان کی دختر میسا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہی ہوں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نتیش کمار کے دس سالہ ترقیاتی دور کے باوجود لالو یا آرجے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر کیوں ابھری؟
  یہ مانا جاتا ہے کہ لالو پرساد یادو نے اپنے دور حکومت میں بہار کی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ لالو نے اپنے دور میں فرقہ پرستوں کو پوری طرح اپنے پیروں تلے دبا رکھا تھا۔ان کے دور حکومت میں فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھالالو پرساد فرقہ پرستوں کے جتنے بڑے دشمن ہیں نتیش کماراپنے دور میں اتنے ہی بڑے دوست ثابت ہوئے۔ بی جے پی کی محبت میں انھوں نے بھی وہی ظلم کئے جو بی جے پی یا کانگریس کے لئے مخصوص ہیں اس لئے جیسے ہی ون بائے ون فائٹ کا موقع آیا مسلمانوں نے اپنا سارا وزن لالو کے پلڑے میں ڈال دیا۔اب اگر نتیش کو مسلمانوں کے ووٹ لینا ہے تو ان کے پاس اپنے گذشتہ گناہوں کی تلافی کرنے کا موقع ہے۔یاد رہے کہ اب سنگھی کیڈر بہار میں جنگل راج قائم کرنے کی پوری کوشش کریگا۔ان سے کن آہنی ہاتھوں سے نپٹا جاتا ہے وہ یہ سبق لالو سے لے سکتے ہیں۔ 
  کہتے ہیں کہ جب جہاز ڈوبتا ہے تو سب سے پہلے چوہے نکل کر بھاگتے ہیں۔لوک سبھا انتخابات کے کامیاب سفر کے بعد این ڈی اے کا جہاز اب بھنور میں پھنس چکا ہے۔اور مختلف انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ڈوبنے کی شروعات ہو چکی ہے۔چوہوں کا بھاگنا شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔دوسرے جہاز کے کپتانوں کو چاہئے کہ الرٹ رہیں۔یہ بھگوڑی مخلوق اب انھیں نشانہ بنائے گی۔وہ لوگ جو سیکولرزم کے چاہنے والے ہیں انھیں چاہئے کہ ان سے دور رہیں ورنہ۔۔یہ تو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔
  آخر میں بزرگ صحافی حفیظ نعمانی  کے ایک مضمون سے چند سطریں نقل کرتے ہیں۔اس لئے کہ ہم ان کے خیالات سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں ”ایک بات تمام سیاسی پاٹیوں سے عرض کرنا ہے کہ بے وجہ جو یو پی بہار اور بڑے صوبوں میں پانچ یا سات یا چار راؤنڈ میں الیکشن کرایاجاتا ہے یہ اس وقت تو ٹھیک تھا جب کہیں مار پیٹ ہو جاتی تھی کہیں بیلٹ باکس لوٹ کر لے جاتے تھے۔ کہیں دبنگ کمزوروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیتے تھے اور اپنے ساتھیوں براتیوں سے فرضی ووٹنگ کرا لیتے تھے۔لیکن اب جبکہ بہار کے پانچوں راؤنڈ میں ایک بھی سنگین واردات نہیں ہوئی تو دو مہینے الکشن کا ماحول طاری کرائے رکھنا اور بڑے لیڈروں کا قیمتی وقت برباد کرنا ہرگز مناسب نہیں۔بہار میں زیادہ سے زیادہ دو راؤنڈ میں (الیکشن) ہونا چاہئے۔“سوال یہ ہے کہ جن اندیشوں کی بنا پر اتنے لمبے الیکشن چلائے جاتے ہیں وہ کس کے پیدا کردہ ہیں۔اس تعلق سے حکومت کی کوئی ذمے داری ہے یا نہیں؟ملک میں امن و شانتی بنائے رکھنا کس کی ذمے داری ہے؟اس سال ترکی میں دو بار الیکشن ہوئے ہیں۔ایک بار اس وقت جبپی کے کے حکومت سے معاہد تھی اور دوسری بار اس وقت جب وہ دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کر چکی تھی۔دونوں بار ووٹنگ سے لے کر رزلٹ تک کا عمل ترکی میں ۴۲ گھنٹوں میں مکمل ہو گیا تھا۔ہمار ے یہاں ووٹنگ سے لے کر رزلٹ تک کا طویل عمل شایدمینوپولیشن کے لئے ہے۔عوام بے چاری صرف اتنا سوچتی ہے کہ ہم نیو کلیئر پاور ہیں۔اقوام متحدہ میں مستقل نشست کے دعویدار ہیں اور ڈھنگ سے الیکشن بھی نہیں کرا سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137


0 comments: