اروند نے مایوسی میں امیدوں کے چراغ روشن کئے

نہال صغیر،ممبئی۔ موبائل:9987309013

اروند نے مایوسی میں امیدوں کے چراغ روشن کئے
عام انتخابات ۲۰۱۴ سے پہلے بی بی سی کے نمائندے کو انٹر ویو دیتے ہوئے منی پور کی آئرن لیڈی ایروم شرمیلا نے کہا تھا ’’کانگریس کی طرف سے لوک سبھا الیکشن کی پیش کش کو ٹھکرادیا کیوں کہ سیاست میں داخل ہونا نہیں چاہتی لیکن عام آدمی پارٹی سے بہت امید ہے ۔اروند کیجریوال کی سربراہی میں ۴۹ دن کی دلی حکومت کے کام سے میں بہت متاثر ہوئی ہوں۔وہ سچ مچ بد عنوانی سے لڑنا چاہتے ہیں۔ان کی حکومت میں لوگوں نے ایک تبدیلی محسوس کی ہے‘‘۔عام آدمی پارٹی کی حالیہ تاریخی کامیابی جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے ایروم شرمیلا کی ان امید افزا باتوں سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ساٹھ سال سے ہندوستانی جمہوریت کے خاردار صحرا میں عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال نے سیدھی اور سچی بات سے الیکشن لڑنے کی بنیاد رکھ کر اور زمینی وعدے کرکے عام آدمی کے دلوں میں کتنی امیدیں جگائی ہیں۔اسی امید کا نتیجہ عوام کاحالیہ سیلاب تھا جس نے اروند کی سچائی پر یقین کرکے کسی کے بھی گمراہ کن اعلانات اور جھوٹے وعدوں میں نہ بہتے ہوئے تاریخ رقم کرنے کی شاندار پہل کی ہے ۔کہتے ہیں کہ جب رات زیادہ سیاہ ہو جائے تو سمجھ لو کہ عنقریب صبح کا سپیدہ طلوع ہونے والا ہے ۔ہندوستانی سیاست میں بھی پچھلے پینسٹھ سالوں سے زیادہ سے سیاہی چھائی ہوئی تھی وہ اس وقت اور زیادہ گہری ہو گئی جب اچھے دنوں کے دلفریب وعدوں کے ساتھ مودی حکومت براجمان ہوئی ۔جس نے اپنے آپ کو پردھان سیوک کہہ کر اور کانگریس کی بے وقوفی کی وجہ سے چائے والا جیسے عام فہم اور عام آدمی کو مرعوب و متاثر کرنے والے الفاظ سے خوب شہرت کمائی لیکن ان کی پول اس وقت کھل گئی جب لاکھوں سے تیار شدہ اپنا نام لکھا ہوا سوٹ زیب تن کیا۔یہ اس ملک کے وزیر اعظم کے کتھنی اور کرنی میں واضح فرق کا کھلا ثبوت تھا جسے آسانی سے عوام کی نظروں اور ان کی یادداشت سے اوجھل نہیں کیا جاسکتا ۔کسی نے کہا ہے کہ ’’جمہوریت وہ کیچڑ ہے جس میں صرف کنول ہی کھل سکتا ہے یاہاتھ ہی گندے ہو سکتے ہیں۔نہ کنول میں خوشبو ہوتی ہے ،اور خوبصورتی بھی دور سے ہی نظر آتی ہے ،قریب آنے پر نہ گلاب کی طرح خوشبو اور نہ ہی خوبصورتی‘‘۔چنانچہ ہندوستانی جمہوریت کے کیچڑ میں کنول ہی کھِلے یا ہاتھ گندے ہوئے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس نظام سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلیا اس کا ثبوت ہے کہ پیتیس سے پینتالیس فیصد لوگوں کا ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لینا ہے ۔حالیہ دلی الیکشن سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ اس کیچڑ میں صرف کنول ہی نہیں کھِلتے بلکہ اس میں مینگروو جیسے خوشبو دار اور سود مند پودے بھی کبھی کبھی اگ سکتے ہیں لیکن ہاتھ کو گندہ ہونے سے پھر بھی نہیں بچا سکتے۔
اروند کیجریوال نے شاندار کامیابی کے بعد اپنے کیڈر اور عوام کے ایک انبوہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس جیت سے ہمیں خوف محسوس ہو رہا ہے۔عوام نے جس امید کے سہارے ہمیں یہ جیت دلائی ہے اب اس پر پورا اترنا ضروری ہے‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے عوام چھ دہائیوں سے زیادہ سے سیاسی پارٹیوں اور سیاسی بازیگروں کے دام میں الجھ کر اپنا سب کچھ گنوا چکے ہیں ۔اسی لئے آج ملک کا دو تہائی سے زیادہ خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔ مجھے حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے رکن نے بتایا تھا کہ وہ ایک بات چھتیس گڑھ کے دورے پر تھے وہاں کے جو حالات انہوں نے بیان کئے وہ ناقابل یقین حد تک سچ ہیں ۔لوگوں کی فی کس آمدنی دس سے پندرہ روپئے سے زیادہ نہیں اور سو اور پچاس کا نوٹ انہوں نے نہیں دیکھا تھا ۔
ہندوستانی سیاسی جمہوری نظام میں منافقت بھی ایک بڑی خرابی ہے ۔کیجریوال کی شاندار کامیابی کی خبر کے بعد وزیر اعظم مودی نے انہیں فون کرکے مبارکباد دی اور دلی کی ترقی کے لئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔لیکن دور وز کے بعد ہی کسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بغیر نام لئے وزیر اعظم نے کیجریوال کے ذریعے عوام کو سستی بجلی دینے کے وعدے کا مذاق اڑایا۔اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کا کیجریوال کو دلی کی ترقی میں مدد کا وعدہ محض خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ۔ایک بات اور بھی کہ مودی نے اس وقت اس لئے کیجریوال کو مبارکباد پیش کی کیوں کہ سبھی میڈیا چینلوں پر صرف اور صرف کیجریوال اور ان کی ٹیم نیز عام آدمی پارٹی ہی چھائے ہوئے تھے ۔ایسے میں میڈیا میں آنے اور کیجریوال فیکٹر کے بیچ میں اپنی بات پہنچانے اور کیجریوال کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش اپنے زر خرید صحافیوں کے ذریعے واحد راستہ تھا ۔یہ کام انہوں نے اپنے میڈیا صلاح کاروں کے مشورہ کے مطابق ہی کیا ہوگا ۔
بہر حال ہم بات کررہے ہیں اس امید کے کرن کی جس کی وجہ سے مایوس لوگوں میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں۔زیر حراست لوگوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ایروم نے بھی پچھلے تیرہ سال سے ووٹ نہیں دیا ہے۔لیکن آپ فیکٹر نے مایوس سے مایوس دلوں میں بھی امیدوں کی کرن روشن کردی ہے یہی سبب ہے کہ ایروم بھی ووٹنگ میں حصہ لینے کی خواہش رکھنے لگی ہیں’’پچھلے دنوں میں چناؤ سے کوئی امید نہیں ہوتی تھی لیکن عام آدمی کا کام دیکھنے کے بعد مجھے اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھ میں آنے لگی ہے‘‘۔عام آدمی پارٹی یا اروند اور ان کے ساتھیوں کے عروج سے پہلے تک ان کے لئے سیاستداں کی حیثیت ’’بے شرم لوگ‘‘ کی سی ہے جو کہ انسانی حقوق پر ضرب لگانے والا سیاہ قانون افسپا کو ہٹانے میں ناکام ہیں۔کیجریوال نے اس شکل کو بدلنے کی پہل کی ہے۔
عام آدمی پارٹی کے بہت سے زمینی وعدوں میں ایک وعدہ بٹلہ ہاؤس انکائنٹر کی تحقیقات کا بھی ہے کیوں کہ یہ وہ نکتہ ہے جہاں ایک خاص طبقہ اسے صرف دیش بھکتی کی نظر سے دیکھتا ہے ۔اس قتل میں ایک پولس انسپکٹر بھی مارا گیا تھا ۔بس دیش بھکتی کی دہائی دینے والوں کی نظر میں یہی ایک بات کافی ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ ایک انکاؤنٹر تھا۔پچھلی ۴۹ دنوں کی حکومت میں بھی ان پر اس کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا ۔اس سلسلے میں بٹلہ ہاؤس قتل پر سیاست کرنے والے آصف محمد خان کو امانت اللہ خان نے بھاری اکثریت سے ہرایا۔وہی آصف محمد خان جو عام آدمی پر بٹلہ ہاؤس قتل کے لئے تحقیقات کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے اور اسے بی جے پی کا ایجنٹ اور جانے کیا کچھ کہہ رہے تھے اس سے قبل کانگریس کی حکومت میں خاموش رہے ۔انجام کار عوام نے ان کی منافقت کو سمجھ کر اس الیکشن میں دھول چاٹنے پر مجبور کردیا ۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم ووٹروں کو اب قوم کے نام پر جذباتی نعروں سے الو نہیں بنایا جاسکتا۔وہ اب عملی اقدام چاہتا ہے۔لیکن مسلمانوں کو ورغلانے اور ان کو عام آدمی پارٹی کی طرف سے گمراہ کرنے کے لئے سیاسی مافیا میدان میں پوری قوت سے آئیں گے۔مسلمانوں کو یہاں اپنے فہم و تدبر کا ثبوت دینا ہوگا اور بہت منصوبہ بند طریقے سے کام کرنا ہوگا ۔مسلم لیڈر شپ جو جیسی بھی ہے اسے اس وقت اپنے بھرپور شعور کا ثبوت دینا ہوگا۔دلی کا پیغام دلی میں ہی گھٹ کر نہ رہ جائے بلکہ اسے ملک گیر پیمانے پر پھیلانے اور کارآمد بنانے کا کام صرف مسلمان کر سکتے ہیں ۔اگر ایروم شرمیلا ان سیاستدانوں کو ’’بے شرم لوگ‘‘ کہتی ہیں تو اس کی وجہ ہے۔وہ یوں ہی نہیں کسی پر الزام لگاتی ہیں وہ اس سسٹم سے پچھلے چودہ سال سے جوجھ رہی ہیں جس کی شہادت ہم میں سے ہر شخص دے گا۔یاد رہے کہ قدرت بار بار موقع نہیں دیتی ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے مسلمانوں ،ملی تنظیموں اور قائدین کا خود احتسابی کے دور سے گزرنا لازمی ہے۔
 
نہال صغیر،ممبئی

0 comments:

نوشتہ دیوار پڑھیے

جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
نوشتہ دیوار پڑھیے
 
2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک کے کئی صوبوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج دوسری چیزوں کے علاوہ اس بات کی طرف بھی بہت ہی واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت حکمرانوں کے قول و عمل کے تضاد اوران کی دوغلی پالیسیوں کو اب مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لوگ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی تضاد بیانی اور دو عملی سے اب اوب گئے ہیں اور اب وہ دونوں ہی حالتوں میں دیانت دار اور ایمان دار حکمراں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ شخصیت پرستی کے حصار اور خوش کن وعدوں کے سحر سے بڑی حد تک آزاد ہوچکے ہیں، اب انہیں نہ تو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے نہ جبر و دباؤ کے ذریعے ہی ان کو اپنی مرضی ک خلاف کوئی قدم اٹھانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
دہلی کو کانگریس کے ایک بہت ہی مضبوط قلعہ کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن اس چناؤ میں یہ ناقابل تسخیر قلعہ بھی اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس پر اب ان لوگوں کا قبضہ ہے جو اپنے آپ کو نہ تو ہندتو کا اور نہ ہی کانگریسی سیکولرزم کا بلکہ عام آدمی کا علمبردار کہتے ہیں۔ ان پر بھروسہ کرتے ہوئے دہلی کے باشعور شہریوں نے ہندتو، سیکولر، ترقی پسند اور جمہوریت کی تقریباً تمام ہی علمبردار طاقتوں کو شکست دے کر یہ بتا اور جتا دیا ہے کہ اب دو عملی اور تضاد بیانی کا دور نہیں رہا۔ کانگریس کا مکمل صفایا، بی جے پی کی شرمناک شکست اور عام آدمی پارٹی کی تاریخی فتح سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی کے عوام کا یہ فیصلہ ملک کی سیاسی شاہراہ پر نیا سنگ میل ثابت ہوگا۔ ہمارے ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس ہے جس نے آزادی کے بعد لگ بھگ نصف صدی تک ملک پر حکمرانی کی ہے۔ وہ اتنی بُری ہار سے کبھی دوچار نہیں ہوئی جتنی کہ دہلی اسمبلی میں ایک نومولود پارٹی سے۔ کانگریس کی شکست نے بہت سے سوالات پیدا کردیئے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ابھر رہا ہے کہ کیا یہ سیکولر اور جمہوریت پسندی کی شکست ہے؟ کیا اسے اس روپ میں ہی دیکھنا درست ہوگا؟ بظاہر تو اس کا جواب اثبات میں ہی دیا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بی جی پی کی شرمناک ہار ہو یا کانگریس کا صفایا، دراصل ان کی دوغلی پالیسیوں اور اقتدار کی ہوس نے ہی انہیں یہ براوقت دکھایا ہے۔ بی جے پی کا نظریہ اور اس کا ایجنڈا کیا ہے وہ سب پر واضح ہے، وہ ہندتو کی علمبردار ہے اور ایک خاص نظریہ ملک کے عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے جسے راجدھانی دہلی کے سیکولر اور باشعور عوام نے یکسر مسترد کردیا اور عام آدمی پارٹی کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نومولود پارٹی کس حد تک عوام کی توقعات پر کھری اترتی ہے۔
دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی شکست کو حقیقی معنوں میں سیکولرزم کی شکست کا نام دینا فی الواقع سرخ انگاروں جیسی دہکتی حقیقتوں کو جھٹلانا ہوگا، ہاں مگر اس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کانگریس اپنے آپ کو ایک سیکولر اور جمہوریت پسند پارٹی کے روپ میں پیش کرتی رہی ہے لیکن انکار اس سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا سیکولر چہرہ نقلی اور سوشلزم و جمہوریت پسندی کے اس کے دعوے کھوکھلے تھے۔ یہ بہت پہلے سیکولرزم کی شاہراہ سے ہٹ کر اس راستے پر چل پڑی تھی جسے عرف عام میں ’نرم ہندتو‘ کا راستہ کہا جاتا ہے۔ اس میں اور اپنے آپ کو ہندتو کی علمبردار کہنے والی پارٹیوں میں اگر کوئی فرق اب تک جو رہا ہے وہ اصطلاحات اور شدت پسندی کا ہی رہا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے اور بعد کے واقعات کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کے تعلق سے اس کی پالیسیوں کا اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح بے نقاب ہوجاتی ہے کہ کانگریس کم از کم سیکولرزم اور جمہوری قدروں کے احترام کے معاملے میں کچھ زیادہ دیانت دار اور مخلص نظر نہیں آتی۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں اصل مقابلہ تو ہندتو اور نرم ہندتو کی نمائندگی کرنے والی طاقتوں کے درمیان ہونا تھا مگر انہیں تو کسی اور کے ہاتھوں منھ کی کھانی تھی، دو کی دونوں ہی عام آدمی پارٹی کے سپریمو کیجریوال کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ اس صورت میں عوام کی غالب اکثریت کی تائید و حمایت اسے ہی حاصل ہوئی جو ان کی نگاہ میں اپنے معتقدات، نظریات اور اعلانات کے تعلق سے نسبتاً زیادہ دیانت دار اور مخلص تھی۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی 70 سیٹوں میں 67 پر قبضہ کرکے دونوں قومی پارٹیوں کو جو سبق دیا ہے وہ انہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ برسوں پرانی پارٹی کانگریس اور چند دہائی قبل پیدا ہونے والی بی جے پی جس کی مرکز میں حکومت بھی ہے، اپنے پورے تام جھام کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھیں اور ایک نوزائیدہ تنظیم عام آدمی پارٹی سے ایسی شکست سے دوچار ہوئیں کہ کہیں منھ دکھانے کے بھی لائق نہیں رہیں۔ لیکن چونکہ سیاست میں شرم و غیرت ایک بے معنی چیز ہے اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ کب پھر یہ اپنی بے شرمی کا مظاہرہ کربیٹھیں۔
بہرحال دہلی کے عوام نے بلاتفریق مذہب و ملت انتخابات میں جس طرح کی بصیرت و بصارت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بلاشبہ ان کی سیاسی پختگی اور شعور و ایقان کا مظہر ہے اور ان کا یہ فیصلہ سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کو آئینہ دکھانے اور ان کی بداعمالیوں کی سزا دینے کے عزم کے علاوہ حقیقی سیکولر پارٹیوں کو ہی برسراقتدار دیکھنے کی آرزو مند بھی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو مثبت فیصلہ اور مثبت ووٹنگ کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ دہلی کے کئی علاقہ ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں اوکھلا (جامعہ نگر) پرانی دہلی، جعفر آباد، مصطفی آباد، سیلم پور وغیرہ بھی شامل ہیں، لیکن کوئی مشترکہ سیاسی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے بے حیثیت ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور آئندہ کے لیے ایک ایسا سیاسی لائحہ عمل ترتیب دیں جو ملک و ملت دونوں کے لیے سود مند ثابت ہو۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس ملت کے ہاتھوں میں عملاً حکومتوں کے بنانے اور بگاڑنے کی قوت مرکوز ہو، اپنے اجتماعی وزن کے ذریعہ کسی بھی پلڑے کو جھکانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو، جسے نظر انداز کرکے یا جس کی مخالفت مول لے کر کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے ایوان اقتدار میں اپنی موجودگی کو بنائے رکھنا غیر معمولی حد تک ایک دشوار امر بن چکا ہو، اس کے افراد اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی سطحوں پر بے چارگی، کسمپرسی، استحصال، محرومی اور ظلم و جبر کے نہ صرف یہ کہ شکار ہیں بلکہ اب اس صورت حال پر اب وہ قانع بھی نظر آرہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اگر سنجیدہ کوشش کی جائے تو یہ حقیقت نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکے گی کہ مسلمانوں کو اس حال کو پہنچانے، ان کے اندر شکست خوردگی کا احساس پیدا کرکے انہیں قوت عمل اور جوش عمل سے محروم کردینے کی تمام تر ذمہ داری ہماری سیاسی اور ملی قیادت پر عائد ہوتی ہے جس کی نظر ہمیشہ اپنے نجی مفادات پر رہتی ہے۔ اکثر انتخابات کے موقعوں پر یہ بے غیرت سودے بازی کرتے ہیں ان کی کوئی سنے یا نہ سنے کسی نہ کسی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں سے اپیلیں بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ سرکار دربار میں اپنا قد بھی اونچا دکھاسکیں اور مزید رسائی کے لیے نت نئی راہیں بھی تلاش کرتے رہیں۔ ہماری یہ سودے باز قیادت جب چاہتی ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ دریافت کرکے سرکار دربار میں حاضری لگاتی رہتی ہیں تاکہ اس طرح ان کے نجی مفادات کا سلسلہ قائم و دائم رہ سکے۔
ایک دو دنوں میں ہی دہلی حکومت کی تشکیل عمل میں آجائے گی۔ شکست خوردہ پارٹیاں نئی حکومت کو گھیرنے کی بھی کوشش کریں گی اور مسلمانوں کو اپنی خاردار سوچ کے ذریعے زخمی کرنے اور اپنے مہلک فکر سے ان کی زندگیاں اجیرن کرنے کے لیے نئے نئے حملے بھی کریں گی۔ اور ہماری قیادت اور سیکولر کہلانے والی پارٹیاں اپنے حسب سابق خاموش عمل کا مظاہرہ کریں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر ہماری نئی حکومت اور وزیر اعلیٰ کیجریوال کون سا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ توقع تو یہی ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر سنجیدگی ظاہر کریں گے اور اپنے سیکولر عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ دہلی اسمبلی ک نتائج کا پہلا اور بنیادی سبق بھی یہی ہے کہ عام آدمی پارٹی اور اس کی حکومت کے حکمرانوں کو اگر دہلی کے عوام کی حمایت و تائید برقرار رکھنی ہے تو انہیں اپنے نظریات، اعلانات اور پروگراموں کے تعلق سے مخلص اور دیانت دار ہونا پڑے گا۔ دوسرا سبق خاص طور سے کانگریس اور اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی دوسری پارٹیوں کے لیے یہ ہے کہ دائیں بازو کی سوچ اور ’ہندتو‘ کی قوتوں کا مقابلہ اس صورت میں ہی کیا جاسکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں سیکولر، سوشلسٹ اور جمہوری سوچ کی حامل بنالیں۔ کانگریس کو اگر اس وقت اپنی دو عملیوں کی قیمت چکانی پڑی ہے تو کل دوسری پارٹیوں کو بھی یہ قیمت چکانی ہوگی، یہ وہ نوشتہ دیوار ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسی طرح مسلمانوں کو ملک کے سیاسی منظر پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔ نت نئی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے مترادف ہوگا۔ اس سے پہلے کہ طوفان باد و باراں انہیں پوری طرح گھیرلے، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے چھان چھپر درست کرلیں اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں لے آئیں کہ ملک کو بدترین قسم کے برہنہ فاشزم کی ہلاکت خیز بھنور میں گرفتار ہونے سے بچانے میں اپنے شایان شان رول ادا کرسکیں۔

0 comments:

عام آدمی کے ادھورے انقلاب کا جشن

عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811
  umarfarrahi@gmail.com  ای میل
عام آدمی کے ادھورے انقلاب کا جشن
عام آدمی نے ہمیشہ کمال دکھایا ہے اور منگل ۱۰؍فروری کو ایک بار پھر عام آدمی پارٹی کی طاقت نے دلی کے دنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا۔لیکن ہمیں عام آدمی کی اس کامیابی سے بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔عام آدمی دراصل ایک ایسے رتھ پرسوار بھیڑ کی طرح ہے جس کی باگ ڈور ہمیشہ خاص آدمی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔خاص آدمی سے مراد آپ سماج کے سرمایہ دار،اعلیٰ خاندان،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ارباب اقتدار کو بھی لے سکتے ہیں ۔انہوں نے جب اپنے اسی اعلیٰ مقام اور خاصیت کے لئے عام آدمی کا استحصال کیا ہے تو سماج میں ایک طرح سے فساد اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ عام آدمی کی اس بے چینی کو اکثر انہیں خاص اور طبقہ اشرافیہ کے چند مخلص اور ایماندار افراد نے ہی محسوس کیا تو ایک مدت تک امن اور سکون کا ماحول بھی دیکھا اور محسوس کیا گیا ہے ۔لیکن یہ تحریکیں بھی زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوئیں تو اس لئے کہ اقتدار پر دوبارہ پھر وہی خاص لوگ ہی قابض رہے ہیں یا عام لوگوں میں سے جن لوگوں نے اقتدار اور حکومت کا مزہ چکھا وہ لوگ بھی خاص میں شمار ہونے لگے یا خاص ہو گئے ۔خاص ہونا یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا یاسیاست میں داخل ہونا اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ اپنی محنت جرات اور جد وجہد کی بدولت یہ مقام حاصل کرتے ہیں ۔مگر خاص آدمی کا طور طریقہ اکثر عیش و عشرت اور آسودہ زندگی سے بہت قریب ہوتا ہے ۔اور با لآخر یہ ماحول مخلص اور ایماندار لوگوں کو بھی خرافات اور برائی میں ملوث کر دیتا ہے ،یا اگر وہ نہیں ہو پاتے تو ان کی دوسری نسل اپنے اسلاف کی شہرت اور وراثت میں ملے مفت کے اقتدار اور خاص ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ہم اگر آزادی سے پہلے کے ہندوستان کی بات کریں تو دیکھتے ہیں کہ حکمراں طبقے نے اپنے ساتھ ساتھ ملک کے ساہو کاروں اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کو بھی جاگیریں سونپ کر انہیں اپنے خاص دربار میں شمار رکھا تاکہ عام آدمی پر حکومت کرنا آسان ہو جائے ۔اس طرح دونوں نے مل کر عام آدمی کے مفاد کو نقصان پہنچایا اور انہیں اپنی محنت اور مشقت کا جائز حق بھی نہیں مل سکا ۔انہیں حالات اور عام آدمی کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے خاص میں سے ہی کچھ مخلص اور تعلیم یافتہ افراد نے تحریک اٹھائی اور بالآ خر وہ کامیاب بھی ہوئے ،مگر جس مقصد کے لئے انہوں نے آزادی حاصل کی اور ہم ہر سال رسمی طور پر اس کا جشن بھی منارہے ہیں ،کیا اس جشن آزادی سے عام آدمی کا فائدہ ہوا اور جن خاص آدمیوں نے آزادی کی تحریک اٹھائی تھی وہ پھر سے ہندوستان کے انگریز نہیں بن گئے ۔اور اپنے رکھ رکھاؤ پر کروڑوں روپئے صرف نہیں کررہے ہیں ۔کیا جئے پرکاش نرائن کو اس طر ح کی بدعنوانی کے خلاف تحریک نہیں چھیڑنی پڑی ؟کیا عام آدمی نے جنتا پارٹی کو اقتدار نہیں سونپا؟کیا راجہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے منڈل کے نام پر عام آدمی کو ایک بار پھر نہیں جگایا ،مگر کیا وہ ہندوستان کا نقشہ بدل سکے ؟کیا اس دوران اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے انڈیا شائننگ کا نعرہ نہیں دیا مگر کانگریس سے لے کر جنتا پارٹی ،جنتا دل اور اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بھی عام آدمی کے معیار کو بلند نہیں کر سکی۔عوام نے مجبوراً کانگریس کا انتخاب کیا مگر ۲۰۰۴ سے ۲۰۱۴ تک اس حکومت سے سوائے مہنگائی اور گھوٹالے کے کیا ملا۔عام آدمی اور کسان تو خود کشی کرہی رہا ہے۔
اگر بات نظم و ضبط کی کی جائے تو ملک میں عام عورتوں کی عزت و عصمت بھی محفوظ نہیں رہی اور خود ملک کی راجدھانی دلی میں پولس اس طرح کے شرمناک واردات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے۔اس پوری صورتحال کے مد نظر عام آدمی نے ایک چائے بیچنے والے کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا تاکہ وہ اس کے درد کو آسانی کے ساتھ محسوس کرسکے ۔مگر اس چائے والے نے بھی جشن یوم جمہوریہ میں دس لاکھ کا لباس پہن کر یہ بتادیا کہ اب وہ عام نہیں خاص ہے۔دلی کے ریاستی انتخاب میں عوام نے عام آدمی پارٹی اور کیجریوال کو کامیاب بناکر پورے ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مودی حکومت عوام سے کئے وعدے کو بھول گئی ہے اس لئے ملک کی باگ ڈور عام آدمی کو سونپ دی جانی چاہئے ۔عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بھی بیشک ایک امید جگائی ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام نے اس ادھورے انقلاب کی شکل میں کوئی حل ڈھونڈ لیا ہے ۔اکثر کالم نگار اور ہم عصر صحافی جو اس بدلاؤ سے بہت خوش ہیں انہوں نے اس کا موازنہ عرب بہار اور یوروپ کی وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک سے کرنا شروع کردیا ہے اور جذبات میں بہہ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عرب اور یوروپ کے دونوں انقلاب اس لئے ناکام ہوئے کیوں کہ اس تحریک کے لیڈران عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکے ،جبکہ عام آدمی تحریک اور اروند کیجریوال نے عوام کے دل پر دستک دیکر کامیابی حاصل کرلی ہے اور اب ان کے لئے پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ بھی صاف ہو چکا ہے ۔ یہ درست بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دلی کے انتخاب میں کمال کر دکھایا ہے اور کیجریوال کا اصل نصب العین دلی کے راستے سے عوام کو لال قلعے سے آواز دینا ہے ۔ممکن ہے کہ ان کی یہ خواہش اور جد وجہد آزادی کے دیگر سابقہ مجاہدین کی طرح کامیاب بھی ہوجائے لیکن جو لوگ اس انقلاب کا موازنہ عرب بہار سے کررہے ہیں یہ لوگ یا تو عربوں کی اسلامی تاریخ سے واقف نہیں ہیں یا پھر یہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان میں بد عنوانی کے خلاف اروند کیجریوال کو یہ تحریک عرب نوجوانوں سے ہی ملی ہے اور اس تحریک سے متاثر ہو کر انہوں نے انا ہزارے تحریک میں شامل ہو کر اسے نیا رخ دیا مگر کامیاب نہیں ہو سکے تو سیاست میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ انا ہزارے جس سیاسی بد عنوانی کا خاتمہ کرکے خوش ہونا اور تاریخ بنانا چاہتے ہیں کم سے کم یوروپ اور عرب کے حکمراں کسی حد تک پہلے ہی اس لعنت سے پاک ہیں اور انہوں نے اپنے عوام کو وہ تمام بنیادی سہولیات تو ضرور مہیا کروائی ہیں جس کی وجہ سے ان کی غیرت زندہ ہے اور یہ لوگ ہم ہندوستانیوں سے روزی روزگار اور باشندگی کی بھیک تو نہیں مانگ رہے ہیں ۔جبکہ ہم ہندوستانی اس معاملے میں یوروپ اور عرب کے سفارت خانوں کے سامنے قطار در قطار اپنے ویزے کے انتظار میں کھڑے ہیں ۔
جہاں تک یوروپ کی وال اسٹریٹ تحریک کا سوال ہے یہ تحریک محدود تھی اور یہ لوگ بینکوں کے قرض اور سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جبکہ عرب نوجوانوں کی تحریک میں عام انسانوں کی اخلاقی تربیت کے لئے آفاقی پیغام بھی شامل ہے جس کی پابندی نہ ہونے کی صورت میں عام اور خاص ہر طبقے کا آدمی بہت سی سماجی اور معاشرتی برائیوں سے پاک نہیں ہو پاتا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ایوان سیاست میں شریعت اور دین کو آئینی حیثیت کا درجہ نہیں مل جاتا ۔اس طرح عرب کے کچھ ممالک میں اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہے تو سودی معیشت اور دنیا کے طاقتور سرمایہ داروں کی حرام پر مبنی تجارت کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اس تحریک سے صرف عرب کے حکمراں ہی خوفزدہ نہیں ہیں کہ اس تحریک کی کامیابی سے ان کے عیش و عشرت کے دن پلٹ جائیں گے بلکہ اس تحریک سے مغرب کے حکمراں بھی خوفزدہ ہیں ۔ویسے ہندوستان کے تناظر میں جہاں تک عام آدمی کی تحریک کا سوال ہے ہم خود بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور مسلمانوں کو عام ہندوؤں کے ساتھ مل کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے ۔اگر یہ کوئی انقلاب ہے تو پھر اس انقلاب کی حفاظت بھی لازمی ہے۔بہت کم لوگ شاید اس طرف غور کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی پارٹی کی اس تحریک کو صرف بد عنوان سیاست دانوں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ اس تحریک کی سرگرمیوں پر فرقہ پرست سیاسی تنظیموں کی بھی نظر ہے ۔خاص طور سے آر ایس ایس نے جس طرح آزادی کے بعد کانگریس میں اپنے تربیت یافتہ متعصب ذہنیت کے افراد کو شامل کرکے اس کا رخ موڑ دیا اور ملک مسلسل فرقہ وارانہ فسادات سے گذرتا رہا اور کانگریس مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہی ۔عام آدمی کے سیاسی رخ کو بھی موڑنے کی سازش کی جائے گی اور ایسے آثار نظر بھی آنے لگے ہیں ۔اب یہ بات مسلم قیادت کے شعور اور جدو جہد پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک آر ایس ایس کی سازش کو ناکام بنا پاتے ہیں اور کیا خود اروند کیجریوال اپنے چنندہ ساتھیوں کے ساتھ جس میں کہ پہلے ہی سے آر ایس ایس کے لوگوں کے شامل ہونے کا اندیشہ ہے آر ایس ایس کے اس خفیہ حملے کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔جبکہ سوشل میڈیا میں یہ خبر پہلے ہی سے گردش کررہی ہے کہ اگر کیجریوال نہیں سمجھے تو ان کا حشر بھی گاندھی اور کرکرے کی طرح ہو سکتا ہے۔
عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811
  umarfarrahi@gmail.com  ای میل

0 comments:

دورِ حاضر کی چند اصلاحی تحریکیں

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
دورِ حاضر کی چند اصلاحی تحریکیں
ظلمت میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں

وہ مثالی عہد جسے خیر القرون کہا گیاہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے، اس کے بعد خلفائے راشدین کا عہد ہے۔ اس پورے عہد میں اسلام کا سورج درخشاں تھا، عبادت اور روحانیت اور اخلاقی قدروں سے لے کر حکومت اور اقتدار اور غلبہ واستیلا، یعنی اسلام کا پورا نظام کار آفریں اور کارگر تھا۔ اسلام کا پورا نظام حیات کامل شکل میں بعد کی صدیوں میں باقی نہیں رہا، اسلام کے چمن میں پھول کھل رہے تھے لیکن بہت سے غنچے ناشگفتہ رہ جاتے ہیں۔ پھولوں کے ساتھ کہیں خارزار بھی نمودار ہوجاتے تھے۔ اسلام کے نظام حیات میں جہاں جہاں کمی تھی اسے درست کرنے کی کوشش بھی ہر عہد میں جاری رہی۔ عباد وزہاد اپنی عبادتوں میں اور تزکیہ نفس کی کوششوں میں مشغول رہے تھے اور روحانیت کی شمع روشن کررہے تھے لیکن انہیں بھی اس بات کا علم تھاکہ اسلام کے کامل اجتماعی نظام کا مطلب کیا ہے۔ ان کے بس میں جو تھا اس سے انھوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اسلام کی پوری تاریخ میں دعوت واصلاح اور جہاد اور انقلاب اور تدوین علوم کی مختلف اقدار کی کوششیں جاری رہیں اور کسی عہد میں بھی ایسا خلا نہیں پایا گیا جس میں کسی نے چراغ جلا نے اور اور اندھیرے کو مٹانے کی کوشش نہ کی ہو۔ مجاہدین او رمجددین اور مصلحین سے کوئی زمانہ خالی نہ رہا۔
دور حاضر یعنی بیسویں صدی کا جائزہ لیا جائے اور اِس دور کی اصلاحی تحریکات کا ذکر کیا جائے تو پس منظر کے طور پر عرب دنیا کے محمد بن عبد الوہاب کی تحریک اور ہندستان میں سید احمد شہید کا ذکر مناسب ہوگا۔ محمد بن عبدالوہاب (۱۱۱۵۔۱۲۰۶) کی تحریک خلافت عثمانیہ کے دور کی پہلی اسلامی تحریک ہے یہ تحریک مرکز سوات یعنی الجزیرۃ العرب میں پروان چڑھی۔ یہ تحریک انیسویں صدی کے اواخر کی تحریک ہے۔ انھوں نے اپنے والد شیخ عبد الوہاب سے فقہ حنبلی پڑھی مدینہ مکہ بغداد بصرہ اور اصفہان کے علماء سے استفادہ کیا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی اصلاحی تحریک کا مرکزی نکتہ اور محور توحید ہے۔ انھوں نے بدعات کے خلاف پورے شدومد سے تحریک چلائی اور توحید خالص کو پیش کیا مشرکانہ عقائد کی نفی کی۔ انھوں نے معاشرہ میں پھیلی ہوئی بدعتوں اور قبر پرستی پر نکیر کی اور لوگوں کو اس سے روکا۔ ان کی اصل دعوت تصحیح عقائد کی دعوت ہے۔ انھوں نے صحیح عقائد کی اشاعت کے لیے اہل بدعات سے جنگیں بھی کیں۔ اور جب شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت پھیلی تو امیر محمد بن سعود کے دل کو اللہ نے اس کی طرف متوجہ کیا اور انھوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور اس طرح اس دعوت کو سیاسی اقتدار بھی حاصل ہوگیا لیکن شیخ نے نظام خلافت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ طرز ملوکیت پر راضی ہوگئے۔ انھوں نے اسی حد تک حکمت کے ساتھ اصلاحی کام کیا جس حد تک حالات اجازت دیتے تھے۔ اگر وہ امیروں سے برسر پیکار ہوجاتے اور ملوکیت کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے تو ان کی اتنی بھی کامیابی نہیں ہوتی جتنی کہ انہیں حاصل ہوئی ، اسلام کا سیاسی نظام پورے طور پر برسر عمل نہ آسکا ،شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تصانیف بے شما رہیں۔ ان کا کار تجدید ایک دائرہ کی اندر محدود ہے ۔
جس طرح بیسویں صدی کی تحریک کے پس منظر میں شیخ محمد بن عبد الوہاب کا ذکر کیا گیا اسی طرح سے ہندستان میں اس سے ملتی جلتی ایک تحریک اٹھی یہ سید احمد شہید کی تحریک تھی جو اس ملک میں اسلام کی بقاء کے لیے، بدعات اور خرافات کا قلع قمع کرنے کے لیے، غیر ملکی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے، سکھوں کے ظلم اور استبداد سے مسلمانوں کو نجات دلانے کے لیے اور امارت اور خلافت کے احیاء کے لیے اٹھی تھی۔ سید احمد شہید کے مرید ین معتقدین اور خلفاء پورے ملک میں پھیل گئے تھے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات وعقائد کی اشاعت کی۔ جس وقت یہ تحریک اٹھی تھی مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہورہی تھی۔ پنجاب میں سکھوں کا قبضہ تھا اور باقی ہندستان میں انگریزوں کا ۔ معاشرہ خرافات اور بدعات کا گہوارہ تھا۔ سید احمد شہید نے ہر محاذ پر کام کیا اور تجدید و اصلاح کا عظیم کام انجام دیا۔ لاکھوں لوگوں کو توبہ کی توفیق ہوئی اور ہزاروں اسلام میں داخل بھی ہوئے۔ ان سب کے ساتھ انھوں نے امارت اور خلافت کا احیاء بھی کیا۔ لوگ ان کو سید بادشاہ اور امیر المؤمنین اور خلیفہ المسلمین کے نام سے یاد کرتے تھے۔ لیکن تجدید کا یہ پیامبر سکھوں سے جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے میدان میں شہید ہوگیا۔ سید احمد شہید اور محمد بن عبد الوہاب دونوں کی تحریکیں انیسویں صدی کی تحریکیں تھیں اور دونوں تحریکوں نے مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ڈالا۔
بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوتا ہے تو اسلامی دنیا کے افق پر سنوسی تحریک اصلاح وانقلاب بر دوش نظر آتی ہے یہ وقت تھا جب خلافت عثمانیہ زوال سے دوچار تھی اور ترکی کا مرد بیمار نزع کے عالم میں گرفتار تھا، مغربی استعمار نے اپنے خونی پنجے عالم اسلام کے بدن میں گاڑنے شروع کردے تھے۔ اس تحریک نے اطالوی استعمار کا مقابلہ کیا اور اسلامی معاشرہ میں صحیح روح پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔ مذہب اور سیاست دونوں کو بہم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریک کے بانی محمد بن علی ابن سنوسی تھے۔ انھوں نے مغربی نظام اقدار کے مقابلہ میں اسلام کے دینی اور اخلاقی اقدار کو معاشرہ میں مؤثر طریقہ سے اجاگر کیا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو ایک طرف روحانیت اور پاکیزگی کی غذا عطا کی اور دوسری طرف انہیں جہاد کے جذبہ سے لبریز کیا اور پرجوش کیا۔ سنوسی تحریک کے پاس اسلام کا یک انقلابی تصو رتھا۔ وہ تصور تھا جس میں جہاد بھی تھا اور عبادت اور روحانیت بھی۔ جہاد اس لیے ضروری تھا کہفرانس نے الجزائر اور تیونس پر قبضہ کی کوشش کی تھی۔ بعد میں مصر پر پہلے فرانس کا اور برطانیہ کا تسلط ہوگیاتھا۔ اٹلی طرابلس (لیبیا) پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ محمد بن علی سنوسی نے حجاز سے افریقہ تک اصلاحی مراکز کا جال بچھادیا۔ ان میں سے ہر مرکز خانقاہ بھی، تربیت گاہ بھی، تعلیم گاہ بھی تھا اور یہاں جہاد کی تیاری بھی ہوتی تھی، ان میں سے ہر مرکز کو زاویہ کہتے تھے، عربی میں زاویہ خانقاہ کو کہتے ہیں۔ اس سنوسی تحریک کی طرف سے الجزائر کو مالی امداد بھی بھیجی گئی اور مجاہدین بھی بھیجے گئے تاکہ فرانسیسی فوجوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ مرکزی حیثیت زاویہ بیضاء کو اور پھر زاویہ جعفوب کو حاصل ہوئی جہاں ازہر کے طرز پر تعلیم دی جاتی تھی۔ ہر زاویہ میں ایک مہمان خانہ ہو تا تھا، معلمین کے رہنے کی جگہ ہوتی تھی، تعلیم و ارشاد کے لیے ہال ہوتے تھے، مسجد ہوتی تھی اور مدرسہ قرآنیہ ہوتا تھا۔ اس تحریک کو اطالوی فوجوں کا مقابلہ کرنے میں قوت کا بڑا حصہ صرف کرنا پڑا۔ اس تحریک نے ایک اجتماعی کیفیت پید اکردی تھی ان مراکز کی تعداد ۱۰۲ تھی جو طرابلس سے لے کر سوڈان اورالجزائز تک پھیلے ہوتے تھے، یہ تحریک اقامت دین کے مقصد کے لیے تھی۔
سنوسی تحریک کی بڑی طاقت اٹلی کی فوجوں سے جہاد میں صرف ہوئی۔ اس نے جہاد کی اسپرٹ پید اکی اور مسلم معاشرہ بھی قائم کیا لیکن یہ تحریک کوئی فکر انگیز لٹریچر نہیں تیار کرسکی۔ استعمار کی غلامی سے نجات پانے کے بعد یہ تحریک باقی نہیں رہی اور اس تحریک سے کوئی بڑا فکری انقلاب پیدا نہیں ہوسکا یعنی وہ انقلاب جو مغربی تہذیب اور فوج کا مقابلہ کرسکے اور اسلامی اصولوں پر حکومت قائم کرسکے۔
معیار اور نمونہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد ہے اور اس کے بعد خلفائے راشدین کا عہد۔ جو اصلاحی اور تجدیدی کام نتیجہ کے اعتبار سے انفرادی زندگی میں اور اجتماعی زندگی میں وہ انقلاب پیدا کردے گا جو اس معیار سے قریب تر ہو اس کے کام کو اسی درجہ میں کامیاب اور فتح یاب قرار دیا جائے گا۔ ایسی جامع المجددین قسم کے شخصیت شاذو نادر پیدا ہوتی ہے لیکن دوچار پہلو کے اعتبار سے جو اسلامی زندگی کو دوبارہ واپس لے آتا ہے وہ بھی مجدد ہوتا ہے۔ سنوسی تحریک نے معاشرہ میں برائیوں کو ختم کیا لوگوں کو عبادت کے کاموں اور نیکی کی طرف راغب کیا، بیرونی استعمار کا مقابلہ کیا اس لیے وہ بڑا اصلاحی اور تجدیدی کام ہے لیکن استعمار سے رہائی دلانے کے بعد لیبیا میں جو حکومت قائم ہوئی وہ ملوکیت تھی خلافت کے طرز کی حکومت نہ تھی۔ اسی طرح سے محمدبن عبد الوہاب کی اصلاحی تحریک سے خلافت قائم نہ ہوسکی۔ انھوں نے ملوکیت کے نظام سے سمجھوتہ کرلیا۔
عرب دنیا کی ایک اور تحریک جس نے فکری انقلاب برپا کیا وہ جمال الدین افغانی کی تحریک تھی وہ افغانستان میں پید اہوئے لیکن وہ جہاں گئے وہاں لوگ ان کے انقلاب آفریں خیالات سے متاثر ہوئے۔ ان کی آواز صور اسرافیل تھی، ا ن کا قلم تیغ اصل تھا، ان کی صدا استعمار کے لیے بانگ رحیل تھی، وہ خود ایک شہاب ثاقب تھے، وہ ایک شعلہ جوالہ تھے، ان کی زندگی اسلامی روح کا مظہرتھی، وہ جہاں گئے انھوں نے اپنا ایک حلقہ بنالیا اور لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ ان کا مقصد ایسی اسلامی حکومت کا قیام تھا جس کی برکات دور دور پہونچیں۔ شیخ محمد عبدہ، شیخ عبدالقادر الجزائری، امیر شکیب ار سلان، شیخ رشید رضا اور بے شمار مصلحین نے اپنے چراغ کو ان کے چراغ سے روشن کیا۔ صرف عوام نہیں حکومتیں ان سے متاثر ہوئیں، بہت سی حکومتیں ان کے خیالات سے خائف بھی رہتی تھیں۔ شیخ جمال الدین افغانی پہلے عوام کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ جمال الدین افغانی کے خیالات وافکار کئی نسلوں تک منتقل ہوتے رہے، یہاں تک کہ حسن البنا کی شخصیت اور ان کی تحریک الاخوان المسلمون کو بھی جمال الدین افغانی کی تحریک کا تسلسل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جمال الدین افغانی نے پیرس سے العروۃ الوثقی کے نام سے رسالہ بھی نکالا اور اس کے ذریعہ سے مسلم ملکوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ مسلم حکومتوں کو متحد کرنا چاہتے تھے اور مغربی استعمار کا مقابلہ کرناچاہتے تھے۔ شاہ ایران نے ان کو دعوت دی اور اس نے ان کو وزیر اعظم بنانا چاہا لیکن ان کے سیاسی خیالات سے اور جمہوریت اور شورائیت کے ذریعہ حکومت چلانے کی دعوت سے شاہ ایران ڈر گیا۔ وہ جب مصرمیں تھے وہاں بھی انھوں نے شورائی نظام کی دعوت دی۔ انگریز ان سے خائف ہوئے اور خدید توفیق پر دباؤ ڈال کر ان کو مصر سے نکلوادیا۔
جمال الدین افغانی کے تلامذہ میں سب سے ممتاز مفتی محمد عبدہ ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی فکری شاہ راہ جمال الدین افغانی سے الگ کرلی۔ سیاسی انقلاب جمال الدین افغانی کا مطمح نظر تھا۔لیکن استعمار کی گرفت اتنی سخت تھی کہ شیخ محمد عبدہ کو صرف دینی تربیتی اور تعلیمی انقلاب تک خود کو محدود کرنا پڑا اور انھوں نے تفسیر قرآن اصلاحی عقائد دینی تعلیم پر ارتکاز کرلی۔ انھوں نے انگریزوں سے مصالحت کرلی۔ ان کے لیے جمال الدین افغانی کی پالیسی پر گامزن ہونا مشکل ہوگیا، شیخ عبدہ کی شخصیت کی تشکیل میں جمال الدین افغانی کی مردم ساز اور انقلاب آفریں شخصیت کا بڑا حصہ ہے۔ لیکن بعد میں شیخ محمد عبدہ نے اپنی راہ الگ نکالی اور اپنی انفرادیت کا سکہ جمایا۔ انھوں نے ایک طرف تقلید جامد اور روایتی ذہن کا مقابلہ کیا دوسری طرف تجدد پسندی کے ذہن کی مزاحمت کی۔ ان کا خیال تھا کہ دین سے ناواقفیت نے مسلمانوں کے اخلاق کو بگاڑ دیا ہے اور اس کا علاج صحیح دینی تعلیم ہے۔ شیخ محمد عبدہ اسلامی عقائد کی تعلیم کے ساتھ فقہ کو اقتضاء زمانہ کے مطابق بنانا چاہتے تھے،اجتہاد کا دروازہ کھولنا چاہتے تھے اور ازہر کی اصلاح چاہتے تھے۔ لیکن ازہر کے نصاب کی اصلاح آسان نہ تھی جس طرح ہندستان میں درس نظامیہ کے مدر سے کسی تبدیلی کے روادار نہیں ہیں ازہر میں بھی جمود پسند علماء تبدیلی کے روادار نہ تھے۔ شیخ دینی اور دنیوی علوم میں توافق پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن علماء اس کے حامی نہ تھے۔ شیخ محمد عبدہ کی بہت سے کوششیں جمال الدین افغانی کی کوششوں کا نتیجہ اور تکملہ ہیں، ان میں سے ایک کوشش زبان وبیان اور اسلوب کی اصلاح ہے، عربی زبان وادب میں مسجّع اور مقفی عبارتوں کا رواج تھا شیخ عبدہ سادہ اور سلیس اسلوب پسند کرتے تھے۔
اعرابی پاکی کی بغاوت اور اس میں ناکامی کے بعد شیخ عبدہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ یہ وہی راستہ ہے جسے ہندستان میں سر سید کو اختیار کرنا پڑا۔ شیخ جمال الدین افغانی کا نقطہ نظر اور تھا لیکن ان کے شاگرد شیخ محمد عبدہ کواپنا راستہ الگ اختیار کرنا پڑا۔ شیخ فرانسیسی زبان سے واقف تھے اہل مغرب کے علمی تصورات سے بھی واقف تھے۔
جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کے افکار کی کہکشاں کا ایک جگمگاتا ہواستارہ شیخ رشید رضا تھے۔ رسالہ المنار اور تفسیرکے ذریعہ اس حلقہ کے خیالات کی عام اشاعت ہوتی تھی اور اس نے دانشوروں کا ایک حلقہ پیدا کردیا تھا۔ اس تحریک کے مقاصد میں مسلمانوں کو توہم پرستی اور بدعات وخرافات سے نجات دلانا اور اسلام کی روشنی میں عصر جدید کے تقاضوں کو سمجھناتھا اور اسلامی نظام قائم کرنا تھا اور جدید عصری مسائل پر غور کرنا تھا اور مستشرقین کے الزامات کا جواب دینا تھا۔ شیخ رشید رضا امام غزالی کی احیاء العلوم سے اور پھر العروۃ الوثقی سے جزوی طور پر متاثر ہوئے، العروۃ الوثقی کے بند ہونے کے بعد انہوں نے ’’المنار‘‘ نکالا اور جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کے پیغام کو عام کیا۔ رشید رضا کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے ترکی کی خلافت کو کی حمایت کی اور عرب قوم پرستی کی شدید مخالفت کی جس کا بیج انگریزوں نے بویا تھا اور ترکوں کے مظالم کاہوا کھڑا کیا تھا۔انھوں نے سلف کے افکار پر عمل کرنے پر بھی زور دیا اس لیے ان کی تحریک کو سلفیت کی تحریک بھی کہاجاتا ہے۔ رشید رضا شروع میں امام غزالی سے متاثر ہوئے اور بعد میں ابن تیمیہ سے۔
سرزمین عرب کی سب سے زیادہ بڑی ہمہ گیر اسلامی تحریک جو بیسویں صدی میں اٹھی اور ہر طرف چھا گئی وہ الاخوان المسلمون کی تحریک ہے۔ عقیدہ عبادات سے سے لے کر اقتصاد وسیاست جسمانی اور روحانی تربیت یعنی مکمل اسلام کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیم ہے۔ اس سے زیادہ جامع اس سے زیادہ وسیع اور اس سے زیادہ ہمہ گیر کوئی تحریک عالم اسلام میں نہیں اٹھی۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کی وسعت کا حال یہ تھا کہ ۷۲ ملکوں میں اس کی شاخیں اور دس کروڑ اس کے ممبران کی تعداد ہے۔ اس تحریک کے لوگوں نے ۸۰ سال سے دین کے لیے قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لوگوں کو پھانسی بھی دی گئی اور جیلوں میں ڈالاگیا اور جیلوں میں ان کو سخت ایذائیں پہونچائی گئی اورظلم اور ناانصافی کا ہر حربہ ان پرآزمایا گیا اور وہ ثابت قدم رہے مولانا علی میاں نے ان کے بارے میں یہ جملہ لکھا ہے ’’لایحبہم الامؤمن ولایبغضم الامنافق‘‘ یعنی ان سے صرف مؤمن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی ان سے بغض رکھے گا۔ آج دیکھنے والی آنکھیں اہل ایمان کو بھی پہچھانتی ہیں اور منافقین کو بھی ۔ مولانا علی میاں نے اخوانیوں کو بہت قریب سے دیکھاتھا اور تحریک کے بانی حسن البناء شہید کے والد سے ملاقات کی تھی، اب تک جن لوگوں نے اخوان کی تحریک کا مطالعہ کیا اور قریب سے ان کے قائدین اور اراکین کو دیکھا ہے ان سب کا خیال ہے کہ بیسویں صدی میں اس سے بڑی ہمہ گیر اور ہمہ جہت تحریک دنیا ئے اسلام میں نہیں اٹھی، یہ تحریک ایک سیل رواں کی طرح ہے جو بنجر زمینوں کو سیراب کرتی ہوی، نخلستانوں کو شاداب کرتی ہوی ، مختلف عرب ملکوں کے شہروں اور صحراوں سے گذری۔ مصر، شام، عراق، سوڈان، یمن، الجزائر، اردن ہر جگہ اس کی شاخیں قائم ہوئیں۔ اخوانیوں کے قلم سے عظیم الشان لٹریچر وجود میں آیا۔ مصروشام وعراق کے بے دین اور اباحیت پسند ادیبوں کا اگر کسی نے مقابلہ کیا تو اخوان کے ادیبوں نے کیا۔ ایک طویل عرصہ کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں عرب دنیا میں انقلابات کی جو لہر اٹھی اس نے کئی ملکوں میں اخوان کو اقتدار کے قریب پہونچادیا لیکن دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے اور اسرائیل کے لیے یہ ایک خطرناک طوفان تھا۔ چنانچہ سازش کے ذریعہ اس حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جو جمہوری اور دستوری طور پر برسراقتدار آئی تھی۔ اور اس کھیل میں کچھ خلیجی ممالک بھی شریک تھے جنہیں حرمین کی وجہ سے تقدس کا مقام حاصل ہے، اب مسلمانوں کی نئی نسل نے آئینہ ایام میں ان چہروں کو پہچان لیا ہے جس پر تقدس کا غازہ لگاہوا ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب ان کے خلاف بھی بغاوت شروع ہوجائے گی۔ہم ان لوگوں میں ہیں جو ان کے خلاف بغاوت نہیں چاہتے لیکن ان کی اصلاح ضرور چاہتے ہیں اور ان کی غلطیوں پر ان کو متنبہ کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔
اخوان کی تحریک کے بانی شیخ حسن البناء تھے جنہوں نے ۱۹۲۸ سے ۱۹۴۸ تک کے بیس سال کے عرصہ میں مسلمانوں کو اسلامی جوش سے سرشار کردیا اور ایسی مضبوط اور متحدہ جماعت تیار کی جس نے امت مسلمہ کو بیدار کرنے، متحد کرنے اور ان کے اندر دین اور وحانیت کی روح پھوکنے کی زبردست کوشش کی اور مغربی تہذیب کا مقابلہ بھی کیا۔
شیخ حسن البناء جو تحریک اخوان المسلمین کے بانی تھے، خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے، انھیں اپنی دعوت اور تحریک سے غیر معمولی شغف تھا۔ اس تحریک میں ان کی فنائیت تھی مقصد سے عشق کامیابی کی شاہ کلید ہوتی ہے، ان کو مقصد سے ایساعشق تھا جیسا کسی کو کسی پیکر جمال سے ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ تربیت اور مردم سازی کے کام میں ان کو غیر معمولی قابلیت حاصل تھی۔ تصوف میں طریق شاذلیہ سے ان کا تعلق تھا۔ وہ ایک پوری قوم کے مربی تھے۔ انھوں نے پوری ایک نسل تیار کی جو مغربی تہذیب اور حیاسوز کلچر کا مقابلہ کرسکے انھوں نے لکھنے والے اصحاب قلم ادیبوں کی ایک پوری ٹیم تیارکردی۔ انھوں نے ۱۹۵۱ میں جام شہادت نوش کیا جب کہ اس وقت ان کی عمر صرف بیالیس سال کی تھی۔ اس عمر میں اسلام کے لیے فدا کاروں کی ایک جماعت پیدا کی جو دار ورسن کی آزمائش میں بھی ثابت قدم رہے۔ اور جب یہ جماعت اپنی ملک گیر مقبولیت کی وجہ سے اقتدار پر فائز ہوئی تو دنیا کے سپر پاور کو خطرہ ہوا کہ مستقبل میں اسرائیل کا وجود خطرہ میں ہے،چنانچہ سازش کے ذریعہ حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ اس طرح کی کارروائیوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور نہ نقوش مٹائے جاسکتے ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ قربانیاں رنگ لائیں گی۔ یہ اس لالہ کی حنا بندی ہے جسے ایک دن کھلنا ہے حسن البناء نے اپنے ماننے والوں میں جذبہ جہاد بھی پیداکردیا تھا۔ معرکہ فلسطین اور سوئز کی جنگ آزادی میں اخوان کے لوگوں نے شجاعت اور یامروی کار کارڈ قائم کیا تھا، پھر حضرت حسین کو جس قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑا تھا۔ اس طرح کے لوگوں سے ان کو سابقہ پیش کیا پھر حضرت حسین کی طرح اس فقیر بے نوا نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ انہیں موت اس وقت آئی جب ان کا لگایا ہوا پودا پروان چڑھ چکا تھا اور اس کی جڑیں مضبوط ہوچکی تھیں۔ شیخ حسن البناء سے پوچھنے والے نے ایک بار یہ سوال کیا کہ کیا دین وسیاست کا اجتماع ممکن ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ سیاست کے بغیر اسلام صرف نماز اور چند الفاظ کے مجموعہ کا نام رہ جائے گا جس کا زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ ان کے اس جواب سے ان کے ذہن کو اور ان کی تحریک کو پورے طور پر سمجھاجاسکتا ہے۔
بیسویں صدی کی ایک اور اہم تحریک جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے وہ ترکی کی تحریک جماعۃ النور ہے۔ کمال اتاترک نے دین کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ کمال اتاترک نے ملک سے اسلامی شعار کو مٹانے کی کوشش کی، عربی رسم الخط کو ممنوع قراردیا۔ اذان عربی کے بجائے ترکی میں ہونے لگی۔ حجاب پر پابندی لگ گئی، سروں پر ہیٹ رکھ دیاگیا، اس مغرب پرستی کا علاج ’’جماعت النور‘‘ کے شروع کیا۔ جماعت نور کے بانی بدیع الزماں سعید نورسی تھے۔ کمال اتاترک کے خلاف دینی تحریک چلانے کی وجہ سے ان کو قید میں ڈال دیا گیا اور اس قید سے ان کو رہائی اس وقت ملی جب قید زندگی سے ان کو آزاد کردیا گیا۔ اس وقت ترکی میں جدید اسلامی بیداری نظر آتی ہے اس میں سعید نورسی کی کوششوں کا بڑا حصہ ہے۔ سعید نورسی کو جب جیل میں ڈال دیا گیا تو انھوں نے خطوط کے ذریعہ اسلامی اور روحانی بیداری پید اکرنے کی کوشش کی اور ان رسائل النور کے اثرات سے سب نے استفادہ کیا۔ ان کی شخصیت میں کشش تھی او تحریرمیں دلآویزی، مصطفی کمال اتاترک کے اثرات کو مٹانے اور دین کی بقاء اور استحکام میں حصہ لینے میں جماعۃ النور کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے ان کو قید میں ڈالا گیا تھا۔ آج ترکی میں جو اسلامی بیداری نظر آتی ہے اس کا سہرا بڑی حد تک سعید نور سی کے سر پر ہے۔
بیسویں صدی میں بر صغیرمیں جو ایک بہت اہم اصلاحی اور اسلامی تحریک اٹھی وہ جماعت اسلامی کی تحریک ہے جس کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ جس طرح سے عالم اسلام کے دگرگوں حالات اورمغربی سامراج کے ظلم اورمغربی تہذیب کے غلبہ کے رد عمل میں پورے عالم اسلام میں بہت سی تحریکیں اٹھیں اسی طرح سے ہندستان سے بھی کئی تحریکیں اٹھیں۔ ان میں ایک اہم تحریک جماعت اسلامی ہے۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے ایک عظیم الشان اسلامی لٹریچر پیش کیا۔ اس پہلو سے اس تحریک سے قریب کوئی تحریک ہے تو وہ الاخوا ن المسلمون کی تحریک ہے ورنہ باقی دوسری اسلامی تحریکوں کے پاس وسیع اورمؤثر لٹریچر کی کمی ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے صرف قرآن وحدیث کا مطالعہ نہیں کیا بلکہ دنیا کے نظریات اور خیالات اور جدید فلسفوں کا بھی مطالعہ کیا اور ان جدید فاسد نظریات کے مقابلہ کے لیے ایک نیا علم الکلام پیش کردیا۔ اس تحریک نے وسیع اور ہمہ گیر ذہنی اور فکری انقلاب کی کوشش کی، اور ہزارون تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی تحریروں سے متاثر کیا۔ ان تحریروں کے عربی ترجمے ہوئے تو عرب دنیا کے مفکرین بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ مولانا مودودی نے دین اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے پیش کیا۔ یعنی یہ دین صرف انفرادی اصلاح کا دین نہیں ہے بلکہ اجتماعی اقتصادی اور سیاسی نظام بھی رکھتا ہے۔ جماعت اسلامی کے غیر معمولی اثرات بر صغیر کے ملکوں میں موجود ہیں اور عالمی سطح پر بھی اس کے نظریاتی اثرات پائے جاتے ہیں۔ مولانا مودودی نے مغرب کے اعتراضات کا جواب دیا اور اردو زبان میں ایک نیا علم الکلام پیش کیا الجہاد فی الاسلام، سود، پردہ، ضبط و ولادت مجیت حدیث جماعت کا خاض کلامی لیٹریچر ہے۔
بیسویں صدی کا آفتاب طلوع ہوا تو یہ مسلمانوں کی نکبت اور ناسازگاری کا دور تھا۔ معیشت پر زوال آچکا تھا، مغربی تہذیب اور عیسائیت کی فاتحانہ یلغار شروع ہوچکی تھی، زبان اور تہذیب ہر چیز خطرہ میں تھی۔ اس عہد میں اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کے دفاع کے لیے اور دین کی حفاظت کے لیے جو لوگ میدان عمل آئے ان میں ایک نام مولانا محمد الیاس کا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو مذہب سے وابستہ کرنے کے لیے ایک تحریک شروع کی جو عرف عام میں تبلیغی جماعت کے نام سے معروف ہے۔ یہ تحریک میوات سے شروع ہوئی اور پھر پورے ملک میں پھیلی اور اب دنیا کے تمام ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ راقم سطور کی نظر میں یہ ایک چلتی پھرتی خانقاہ ہے جہاں عبادت ،نماز وذکر پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ پہلے لوگ روحانیت کی تلاش میں خانقاہوں میں جاتے تھے جب مولانا الیاس نے دیکھا کہ روحانیت کی پیاس کم ہوچکی ہے اور پیاساکنویں کے پاس نہیں آتا ہے تو انھوں نے خود کنویں کو پیاسوں کے پاس بھیجنا شروع کردیا یعنی جماعتیں تبلیغ کے نام پر شہر شہر اور گاؤں گاؤں جانے لگیں اور دروازوں پر دستک دینے لگیں۔ اس کام کی برکت سے لاکھوں لوگ نمازی بن گئے اور جو نمازی تھے وہ تہجد گزار بن گئے۔ ہر شہر میں تبلیغی جماعتیں گشت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دیکھ کر یہ اشعار زبان پر آتے ہیں:
یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی
کریں گے تاریخ مئے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی
لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ جلو میں صد انقلاب رمضاں
نہ جانے آتے ہیں کس جہاں سے یہ حشر داماں سے لوگ ساقی
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

0 comments:

تہلکہ خیز معلومات جو شاید کسی کو معلوم ھو

 
30 سال سے امریکہ اور اسرائیل ایران کو دھمکیاں ہی دیتے آرہے ہیں، پتہ ھے کیوں ؟؟
وجوھات جانیں
"Yedioth Ahronoth ,یدعوت احرنوتھ" نامی عبری اخبار لکھتا ھے کہ ایران اسرائیل ظاھری دشمنیاں دکھاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ اسرائیلی 30 بلین کی سرمایہ کاری ایرانی سرزمین پے ھورہی ھے۔۔
اخبار کیمطابق علی الاقل 200 اسرائیلی کمپنیوں کیساتھ ایران کے مضبوط تجارتی روابط ہیں جن میں سے اکثر تیل کمپنیاں ہیں جو ایران کے اندر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
اسرائیل میں ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا 20 لاکھ کے قریب ھے جو کہ ایران میں موجود انکے سب سے بڑے دیدیا شوفط نامی حاخام مرجع جوکہ ایرانی حکمرانوں خاص کر جعفری وغیرہ کے مقرب ھے، سے تعلیمات لیتے ہیں۔
اور ان لوگوں کو اسرائیلی فوجی قیادت،سیاست اور عام تجارتی کنٹریکٹنگ میں بھت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ھے۔
طہران میں یہودی معبد خانوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ھے جبکہ صرف طہراب میں سنیوں کی تعداد 15 لاکھ ھونے کے باوجود ایک بھی سنی مسجد نھیں۔
امریکہ اور اسرائیل کے اندر ایران اور یہودی حاخامات(مذھبی پیشواوں) کے درمیان
رابطوں کا گرو ایک اوریل داویدی سال نامی حاخام ھے جوکہ ایرانی ھے۔
کینڈا بریطانیہ فرانس میں موجود یہودیوں میں سے 17000 ایرانی یہودیوں کے پاس تیل کمپنیوں کی نہ صرف ملکیت اور شئیرز ھیں بلکہ ان میں سے لوگ ھاوس آف لارڈز (House of Lords) کے ممبرز بھی ہیں۔
ایران امریکہ میں موجود اپنے یہودیوں کی وساطت سے وھاں موجود یہودی لوبیز کے ذریعہ امریکی ممکنہ کسی بھی حملے سے اسکو باز رکھتی ھے جسکے مقابل میں ایران یہودی کمپنیز کو مشترکہ تعاون فراہم کرتی ھے۔
امریکہ میں موجود یہودیوں میں سے 12 ھزار ایرانی ہیں جو کہ یہودی لوبیز میں نہ صرف بھت اثر و نفوذ رکھتے ہیں بلکہ بھت سے لوگ کانگریس اور سینٹ کے ممبرز بھی ہیں۔
خاص ایرانی یہودویوں کیلئے اسرائیل کے اندر ریڈیو سٹیشنس ہیں جن میں سے ایک "radis" راڈیس" نامی مشہور ریڈیو سٹیشن ھے بلکہ انکے ھاں اور بھی ایرانی تعاون سے اس طرح کے ریڈیو سٹیشنس قائم کئے جاچکے ہیں۔
اسرائیل کے بعد ایران میں سب سے زیادہ 30 لاکھ یہودی آباد ہیں جنکی رشتہ داریاں ابھی تک اسرائیلی یہودویوں سے قائم و دائم ہیں۔
اسرائیل میں یہودی بڑے بڑے حاخامات ایرانی شھر اصفھان کے یہود میں سے ہیں جنکو ٹھیک ٹھاک مذھبی اور فوجی اثر و رسوخ حاصل ھے جو کہ اصفہان معبد خانوں کے تھرو ایران سے تعلقات رکھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع شاءول موفاز ایرانی یہودی ھے جسکا تعلق اصفھان شھر سے ھے جوکہ اسرائیلی فوج کے اندر ایرانی ایٹمی پروگرام پر حملوں کی سخت مخالفین میں سے ایک ھے، سابق اسرائلی صدر ،موشیہ کاتسف کا تعلق بھی اصفھان سے ہی تھا اسی وجہ سے احمدی نجاد خامنائی اور پاسداران انقلاب کے رہنماؤں کیساتھ اسکے مضبوط مراسیم تھے۔
انکے مطابق حضرت یوسف علیہ اسلام کے بھائی بنیامین علیہ السلام کا آخری آرام گاہ ایران میں ھے اسی وجہ سے یہودی القدس شھر کی طرح ایران کیساتھ بھی ٹوٹ کے محبت کرتے اور چاھتے ہیں دنیا بھر سے یہودی لوگ وھاں زیارت یا حج پے جاتے ہیں۔
یہودی فلسطین سے بھی زیادہ ایران کا احترام اس لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ یزدجرد کی بیوی شوشندخت کا تعلق ایران سے تھا اور وہ خبیث قسم کی یہودیہ عورت تھی۔
یہودیوں کے لئے ایران سائرس کی زمین ہے کیونکہ وھاں "استرومردخاي" مقدس "دانیال" حبقوق" وغیرہ مدفون ہیں جوکہ یہودیوں کے مطابق انبیاء اور مقدس لوگ ہیں۔۔۔
اسرائیل حس نصر اللہ کو اب تک کیوں قتل نھیں کر رہی ؟؟ حالانکہ لبنان بلکہ اسکے گھر کے اوپر فضاوں میں انکے جنگی طیارے گھوم رھے ھوتے ہیں جبکہ فلسطین میں اپنے مخالفین کو چن چن کے شھید کردیا جاتا ھے مساجد تک کو نھیں چھوڑتے۔
ایران اسرائیل کیساتھ دشمنی کا ڈھونک رچاکر کس طرح عرب ممالک کو دھوکہ دے رھا حالانکہ ایران کے اندر یہودی 200 کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں فوقیت دی جارہی ھے
اور آخر میں
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے دوتہائی حصہ ایرانی یہودیوں پر مشتمل ہیں ؟؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی بستیوں میں بسنے والوں کی سب سےبڑی تعداد کا تعلق ایرانی یہودیوں کی ھے ؟؟
یہ تمام معلومات جاننے کے بعد آپ کو یہ حدیث پاک اچھی طرح سے سمجھ میں آجائیگی
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اصفھان کے 70 ھزار یہودی دجال کی پیروی کریں گے ان پر طیالسہ    ( یعنی سبز و سیاہ رنگ کے چوغہ نما لباس) ھونگے۔۔ مسلم شریف
یاد دہانی کیلئے
شیعہ مذھب کی بنیاد رکھنے والا ایک یمنی یہودی تھا جسکا نام ابن سبا تھا، اللہ اس خبیث کو سخت سے سخت عذاب میں گرفتار کردے اور قیامت کے دن ھم سب کے سامنے شدید،ازیت ناک اور ذلیل و رسوا کردینے والی عذاب میں ھمیشہ ھمیشہ کیلئے دفن کردے جس نے مسلمانیت کا ڈھونک رچا کر اسلام کو منقسم کرنے کا بیچ بویا جو آج شیعوں کی صورت میں ایک تنا آور درخت کی شکل اختیار کرچکا ھے جنہوں نے اسلام کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا۔لعنة الله عليه و الملائكة والناس أجمعين إلى يوم الدين
کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات لینا یا جاننا جھالت سے ھزار درجہ بہتر ھے اور بھت سے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں لہذا امید کرتا ھوں اس پوسٹ کو آپ شئیر کریں گے۔

0 comments:

اودھ نامہ اردو اخبار کی لیڈی ایڈیٹر نے جھوٹی شہرت کی لالچ میں اپنے ضمیر کا سودا کیا


آج کے اس تیز رفتار زمانے نے جہاں انسان کو دولت اور عزت سے مالا مال کیا ہے. وہاں ایک اور چیز کی بھی بہت زیادہ فراوانی ہے. اور وہ ہے شہرت. شہرت کئی قسم کی ہوتی ہے. لیکن زیادہ تر انسان دو طرح سے شہرت پاتا ہے.ایک وہ شہرت جوتقویٰ اور پر ہیز گاری سے حاصل کی جاتی ہے.جو بے شک ہر طرح کے گناہ اور مذموم غلط کاموں سے مبّرا شہرت ہوتی ہے. جو انسان کو اللہ سبحانہ تعالی کی جانب سے اس کے نیک کردار اور نیک عمل پر بنا چاہے بنا مانگے غیب سے مل جاتی ہے.کیونکہ ایسی شہرت پانے والے انسان کا دل ہر طرح کی حسد لالچ اور کینہ سے پاک و صاف ہوتا ہے.ایسی شہرت پانے والوں کا نظریہ اور ان کا دلی مقصد صرف اور صرف نیک عمل ہوتا ہے. جو ہر کام ہر نیک عمل دل سے اور اپنے پورے تقویٰ کے ساتھ کرتے ہیں.جہاں مجبوری. ضروری. اور ہونا ہی چاہئے. یہ الفاظ قطعی طور پر استعمال نہیں ہوتے .ایسی مبّرا اور منّزا شہرت انسان کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ان کی نجات اور بھلائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں. اور بے شک ایسے انسان دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں عزت و احترام کے ساتھ زندہ رہتے ہیں. ان کے نیک عمل اور عمدہ کار کر دگیاں صد قہ جاریہ بن کر حیات رہتی ہے. اللہ سبحانہ تعالیٰ ایسی شہرت پانے والے سے بے انتہا محبت کرتے ہے.کیونکہ یہ شہرت خا لص اللہ کے حکم اور اس کی نیک ہدایات پر عمل پیرا رہ کر حاصل کی جاتی ہے. یہ دنیا یہ رنگ برنگی اور خوبصورت دنیا اللہ سبحانہ تعالی کی بنائی ہوئی ہے. جس کے پّتے پتّے اور ذرہّ ذرّہ کا مالک صرف اور صرف اللہ ربُالعزت ہے . اور اسکی راہ پر ایمان داری سے چلنے والے اور اس کی بنائی کائنات کی قدر کرنے والوں کے ساتھ بلا شبہ اللہ کی رحمت اور اس کی قوّ ت ہو تی ہی ہے. سبحان اللہ
دوسری شہرت وہ ہوتی ہے جو گناہوں سے غلط ا ور مذموم کاموں سے .بے حیائی. عریانیت. اور گمراہی سے. جھوٹ رشوت خوری. ریاکاری اور دھوکہ دہی اور بے ایمانی سے حاصل کی جاتی ہے. اور یہ بتانے کی قطعی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہ سارے عمل بلا شبہ شیطانی عمل میں شامل ہیں. اور ایسے کام کرنے والوں کے ساتھ صرف اور صرف شیطان کا شر ہوتا ہے. اور کچھ نہیں . اوراللہ کی بنائی دنیا میں اس کے خلاف ہو کر شیطان مر دود کا ساتھ دینے والے اور شیطان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے والوں کے ساتھ بے شک اللہ کا قہر ہوتا ہے .اس لئے اس طرح کی حاصل کی گئی شہرت میں سوائے نقصان . ذلالت. بد نامی .رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا. ایسے لوگوں کی دنیا تو تباہ ہو ہی جاتی ہے . ساتھ ساتھ آخر ت بھی برباد ہو جاتی ہے. یہ دوسری قسم کی شہرت کے دلدادا وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں دینی تعلیم اللہ اور اللہ کے رسول کی پہچان قطعی طور پر نہیں ہوتی. اگر زرا سی بھی مذہبی تعلیم کی روشنی انسان مین ہو تو وہ غلط اور مذموم کاموں کو کرنے سے پہلے ایک بار تو بھی سوچے گا ضرور .مگر جن کو اللہ کی پہچان ہی نا ں ہو . بھلا وہ ناستک کیا جانے کہ اللہ کی عظمت اور اس کی بر تری کیاہے. اور وہ سب پر قادر قادِرمطلق ہے. اور اس دنیا اور اس اس دنیا کی ہر شئے پر صرف اسی کی حکومت ہے. جسے کو ئی بدل نہیں سکتا. جو زمین و آسمان کا مالک ہے. اور کسی کی بھی اتنی اوقات نہیں ہے کہ وہ رب کی بنائی کائنات میں اپنی ریاکاری کے بل بوتے پر تھوڑا سا بھی ٹک سکیں.
آج ممبئی اودھ نامہ اردو اخبار کی نادان اللہ کی ذاتِ کامل سے انجان مذہبی تعلیم سے بے بہرہ اور شیطان کی دوست گستاخ ایڈیٹر جس کا نام لکھتے ہوئے بھی ندامت محسوص ہورہی ہے. کیونکہ یہ نام میری کئی اچھی مسلم بہنوں کا ہے . اس لئے میں اس نام کو ایک شرمناک لیڈی کے لئے استعمال نہیں کر سکتی. بلا شبہ اس ایڈیٹرلیڈی کو ہم مسلمان کہ ہی نہیں سکتے. جس نے میرے اللہ کی کائنات میں رہتے ہوئے میرے اللہ ہی کی ذات کے ساتھ دھوکہ کیا. جس نے میرے نبی آقائے نامدار ﷺ کی ذات کے ساتھ بد تمیزی ی اور گستاخی کی. میں اس گستاخی کو قطعی اپنے قلم سے نہیں لکھوں گی. جسے لکھنا بھی میری نظر میں گناہ ہے. ہم مسلمان دیندار کسی بھی صورت میں اس ان پڑھ لیڈی کو مسلمان کہ نہیں سکتے . ایسے ناستک کو تو بعد مرنے کے قبرستان میں میں بھی دفنانے کی جگہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ اللہ اور رسول کے ساتھ گستاخی کرنے واالوں کا اسلام مذہب سے کو ئی واسطہ نہیں رہتا. اس وقت میری انگلیاں تک برف کی طرح سِل ہو گئی ہے. اور میں یہ لکھنے کی جرات نہیں کر پارہی ہوں کہ اس لیڈی نے اپنی جھوٹی پبلیسٹی کے لئے میرے نبی کی کل عالمین کے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے.جو پوری کائنات کو اللہ کی پہچان اور اسلام مذہب کی روشنی لے کر اللہ کے آخری پیغمبر آخری نبی بن کر اللہ کی جانب سے اس دنیا میں لائے گئے. سبحان اللہ . جن کا نام زبان پر آتے ہی ایک تازگی سی محسوس ہوتی ہے. جن کی تعریف میں الفاظ میں کہاں سے لاؤں.میری نم آنکھیں اور نبی کی محبت میں آئے آنسوں حیران ہے کہ کیسے اور کن لفظوں سے میرے نبی سرورِ کائنات کی شانِ کریمی میں بیان کروں.
میرے اور اس کل عالمین کے نبی کی شان میں گستاخی کرنے والی اودھ نامہ اخبار کی لیڈی ایڈیٹر کو کیا زرا سا بھی اپنی مذموم حرکت اور گستاخیٰ کا احساس نہیں ہوا ہوگا؟ اس کے ہاتھ نہیں لرزے ہوگے؟ اس کے ضمیر نے اُس پر لعنت نہیں بھیجی ہو گی؟ اگر ایسا نہیں ہوا ہو گا تو ایک بات بلکل صاف ہے کہ یہ خاتون شیطان سلمان رشدی کی قریبی رشتے دار ہے . یعنی شیطان کی خالہ ہے.
طیش آ رہا ہے یہ سوچ کر کہ پبلسیٹی کے لئے اتنا گھناؤنا کھیل. وہ بھی اس رب کے ساتھ جو خود عزت اور شہرت دینے اور لینے والا مالکِ کل عالمین ہے. و تو عزوّ من تشا و تو ذلّ من تِشا . تھوڑی سی بھی عقل اگر اس بے وقوف خاتون میں ہوتی تو وہ اتنا مذموم عمل پبلیسٹی کے لئے ناں کرتی . اسے پتہ ہوتا کہ جس گندھے عمل سے وہ پبلیسٹی کی طلب رکھے ہوئے ہے. یہ عمل اسے نام نہیں ذلّت دے گا. یہ بھی ایک اللہ کی شانِ کریمی ہے کہ اچھے عمل کرنے والے لاکھ کہی چھپے بیٹھے صرف اپنے نیک کار کردگیوں پرعمل پیرا ہو جن کو ناں شہرت کی لالچ ہو ناں کسی انعام کی طلب ہو. جو صرف اللہ کی خو شنودی پانے کے مستحق ہو. ان کے نیک عمل سے اللہ اس قدر خوش ہو جاتا ہے. کہ وہ انہیں ایسے حیران رہ جانے والے بیش بہا انعام و اکرام اور نام اور مرتبے سے اسے نوازتا ہے. کہ ساری دنیا اللہ کی دی اس عزت سے خوش ہوکر سبق حاصل کرتی ہیں. اور یہ کہتی ہیں. و تُعزّ من تِشا . بے شک اللہ عزّت دینے والا ہے. اور جو اپنی ریاکاری چالاکی گمراہی جھوٹ. حسد اور بے حیائی .بے ایمانی سے شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے مذہب تک سے غداّری پر اتر آتے ہیں. انہیں اللہ ربُالعزت اتنی ذلت عطا کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتا . اور اس سے دنیا کو عبرت حاصل ہوتی ہیں. اور دنیا کہ ا ٹھتی ہیں و تُذِلّ من تِشا بے شک اللہ ذلت دینے والا ہے.
اللہ تبارک وتعلی نے ایسے لوگوں کے لئے دنیا ہی میں دوزخ طے کر رکھی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ گستاخی کریں .
اب یہ بھی اللہ ہی کی شان ہے کہ جہان اللہ گاؤں دیہات اور پہاڑوں میں چھپے گوہروں کی روشنی سے لوگوں کو متعارف کراتا ہے. بے پناہ شہرت اور عزت بخشتا ہے. وہی نام اور شہرت کے ایسے لالچیوں کو اللہ لوگوں کے قہر سے چھپے اور بچے رہنے کی ذلت دیتا ہے.
اللہ اور نبی کی شان میں گستاخی کرنے والی اودھ نامہ اردو اخبار کی اس ایڈیٹر اور اس کے ساتھیوں کو اللہ کی جانب سے تو سزا ملے گی ہی مگر ہمیں پورا یقین ہے کہ مسلمان اس لیڈی کو بچانے کی یا ٹحفظ دینے کوشش نہیں کریں گے. کیونکہ یہ کوئی معاف کرنے جیسا عمل نہیں ہے. جو اس گستاخ لیڈی نے صرف اس لئے کیا کہ لوگ اسے جاننے لگے اور اخبار کو پبلیسٹی ملے . نعوذوبا للہ . اللہ کی لعنت ایسی گھٹیا سوچ اور شہرت کی لالچ پر.

فیروزہ تسبی

0 comments:

اودھنامہ میں شائع اہانت آمیز خاکہ قصدا اور کسی ناپاک منصوبے کا حصہ ہے

میرے کچھ صحافی دوستوں  کی رائے ہے کہ روزنامہ اودھنامہ کے ممبئی ایڈیشن کی خاتون صحافیہ شیریں دلوی کا موجودہ گستاخی رسول ﷺ کا معاملہ محض سہوہے اس لئے اسے معاف کردینا چاہئے ۔لیکن مجھے ان کی اس رائے سے سخت اختلاف ہے ۔چونکہ میں بھی اس اخبارکے ممبئی ایڈیشن سے مذکورہ واقعہ سے ایک دن پہلے تک وابستہ تھا اس لئے میں اس بات کا گواہ ہوں کہ یہ سہواً سرزد ہونے والا واقعہ نہیں ہے ۔اس فعل قبیح کو جان بوجھ کر انجام دیا گیا ہے ۔جو لوگ اسے سہواً ہونے والی بھول مان رہے ہیں ۔وہ یا تو اس خاتون اس کے افکار و خیالات اور اس کے گروہ سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ بھی کہیں نہ کہیں نام نہاد روشن خیالی کے مرض میں مبتلاء ہیں جس میں آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان ہے۔غلطی سے کسی کام کے ہوجانے کا مطلب ہے کہ اس پہ انسان کو شرمندگی ہو ۔لیکن یہاں معاملہ غلطی کے جواز تلاشنے اور اس پر اکڑنے کا بھی ہے جو کہ ذیل کے کچھ امور پر دھیان دینے معلوم ہو جائے گا۔بہتر ہوگا کہ موجودہ اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت میں سچائی پرکھنے اور اس کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے کچھ اس اخبار کے تعلق سے بھی بات سامنے لائی جائے تاکہ جو لوگ اس اخبار سے انجان تھے وہ معاملے کو اچھی طرح جان لیں۔
اودھنامہ ممبئی کااجراء ایک بڑے اردو اخبار کے مد مقابل کے طور پر ہوا تھا ۔اس کی اشاعت کے لئے ایک کمپنی مریک میڈیا کے نام سے بنائی گئی تھی جس کے چار ڈائریکٹر ہیں(ہیں کا لفظ اس لئے لکھ رہا ہوں کیوں کہ ابھی تک وہ کمپنی اور اس کے ڈائریکٹر قانونی طور پر موجود ہیں اس کمپنی کو تحلیل نہیں کیا گیا ہے ) جس میں سے ایک ڈائریکٹر یونس صدیقی کو اخبار ھذا کا پرنٹر پبلشر بنایا گیا تھا۔اخبار کی حالیہ اشاعت تک اس کی پرنٹ لائن میں یونس صدیقی کا ہی نام بطور پرنٹر پبلشر آرہا ہے تھا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ دفتر کی جگہ کے تبادلے کے بعد اودھنامہ کی انتظامیہ سے یونس صدیقی کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے استعفیٰ بھی دے دیا تھا ۔لیکن پتہ نہیں کیوں ان کا نام پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے باقی رکھا گیا ۔باقی ایک اور ڈائریکٹر امیت کبرے کا بھی اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ۔موجودہ مرحلہ میں اس اخبار سے دو لوگ ہی بطور ڈائریکٹر وابستہ ہیں ۔یہ دونوں دیپک مہاترے اور بھوشن مہاترے سگے بھائی ہیں ۔اور ان کی ایک اور کمپنی پریزم کے نام سے ہے ۔جو ان کے اپنے قول کے مطابق چودہ اخبارات کے لئے اشتہارات حاصل کرنے والی اشتہاری ایجنسی ہے ۔ اودھنامہ سے میں بھی اس اہانت آمیز کارٹون کی اشاعت سے ایک دن پہلے تک وابستہ تھا ۔اس لئے میں اس بات پر روشنی ڈال سکتا ہوں کہ مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ ایک دانستہ حرکت ہے اور کیوں اس میں ایک ناپاک منصبوبہ بندی کی بو محسوس ہوتی ہے ۔
اودھنامہ لکھنو سے سمجھوتہ کے مطابق انہیں ہر ماہ ایک خاص رقم اصل مالک کو دینا طے ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اگر اخبار بند کرنا ہو تب بھی انہیں ایک خطیر رقم اخبار کی مالک کو دے کر ہی اس سے علیحدگی اختیار کرسکتے تھے ۔اخبار کااجراء تو بڑے شاندار طریقہ سے ہوا لیکن اس میں چار ڈائریکٹروں نے جو آپس میں طے کیا تھا اس پر اس میں سے کوئی کھرا نہیں اترا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اخبار جلد ہی اپنی جاذبیت اور مقبولیت کھوتا چلاگیا۔پھر ایک وقت آیا جب موجودہ ڈائریکٹر (دیپک مہاترے اور بھوشن مہاترے)جلد بازی میں پرانی جگہ سے دفتر اودھنامہ کو منتقل کر لے گئے ۔ان کا خیال تھا کہ یہاں عملہ کو کم کرکے اخبار کے اخراجات کو کنٹرول کرکے منافع کمائیں گے ۔لیکن بد قسمتی سے یہاں انہوں نے ایڈیٹر ایک انتہائی نا تجربہ کار اور جھگڑالو قسم کی خاتون شیریں دلوی کو بنالیا ۔یہ پوچھے جانے پر اس خاتون میں ایسی کیا خوبی ہے کہ اسے آپ نے ایڈیٹر بنادیا ۔جواب تھا ان کی وجہ سے اشتہار لینے میں آسانی ہوتی ہے یا آسانی سے اشتہار مل جاتا ہے ۔یہ بھی اردو اخبار کی بد قسمتی ہو چکی ہے کہ اب ایڈیٹر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اخبار کے لئے اشتہار وغیرہ حاصل کرنے میں معاون بنے گا۔بہر حال پتہ نہیں تسلیمہ نسرین کی راہ کی مسافر اس ایڈیٹر کی مدد سے اخبار کو کتنا اشتہار ملا ۔لیکن کچھ دنوں بعد ہی دفتر کے ماحول میں ناخوشگواریت کا احساس ہونے لگا۔انہوں نے ایک سب ایڈیٹر سے انتہائی بد تمیزی سے گفتگو کی ،انداز ان کا انتہائی تحکمانہ تھا ۔لیکن سب ایڈیٹر نے تحمل سے کام لے کر معاملہ کو رفع دفع کرنے کی راہ ہموار کی۔اسی معاملے کی میٹنگ میں ڈائریکٹر نے کہا کہ ایڈیٹر جو کہے وہ کرو ،وہ اگر بھینس کو گدھا لکھنے کو بولے تو لکھو خبروں اور اخبار کے سارے مشمولات کی ذمہ داری ایڈیٹر کی ہے۔خیر معاملہ آیا گیا ہو گیا ۔
تنخواہ میں مسلسل تاخیر اور اس پر بے توجہی کے سبب ایک دن سارے اسٹاف نے کام نہیں کیا نتیجہ جیسے تیسے کہیں اور سے کٹ پیسٹ کرکے نکل پایا۔پھرایک دن اسٹاف کو ایک نوٹس تھمادیا گیا کہ ۱۵؍جنوری سے دفتر ممبرا منتقل ہو رہا ہے۔جس سے کئی کارکن سخت ناراض ہو ئے کیوں کہ یہ اسٹاف کو کم کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ بتایا۔دس یا گیارہ جنوری کو میٹنگ میں یہ بات بتائی گئی کہ دفتر۲۶؍جنوری کے بعد منتقل ہوگا اور تنخواہ کا معاملہ اسی طرح رہے گاجسے ہمارے ساتھ چلنا ہے انہی حالات میں چلنا ہوگا ۔مجھ سمیت کئی اور اسٹاف ممبر نے کہا کہ ممبرا جانا ممکن نہیں ہے آپ حساب کرکے ہماری چھٹی کریں ۔اس میٹنگ میں ایک بات دیپک مہاترے نے یہ کہی کہ پروڈکٹ (اخبار) کو کامیابی نہیں مل رہی ہے اس لئے ہم لوگ کچھ ایسا کرنے والے ہیں جس سے اخبار کو مقبولیت یا کامیابی ملے ۔یہ کہنا بھی اس طر ف اشارہ کررہا ہے کہ کارٹون شائع کرنا ہی شاید وہ نیا اور بڑا کام تھا جس سے اخبار کو مقبولیت ملنی تھی۔۱۶؍جنوری کو مجھے ایس ایم ایس کیا گیا کہ آپ چاہیں تو آج ہی سے نہ آئیں آپ کی تنخواہ ۲۴؍جنوری کو مل جائے گی ۔اسی روز رات میں کارٹون والا معاملہ ہوا جسے وہاں موجود حسین ساحل نے روکا لیکن تسلیمہ نسرین کی ہم خیال ایڈیٹر نے انہیں کہا کہ ہمیں تھوڑا براڈ مائنڈیڈ ہونا چاہئے ۔کئی دوسرے لوگوں نے اور وہاں موجود اسٹاف نے بھی یہ بات کہی کہ اگر اس دن اخبار کے دفتر میں پرویز شیخ نیوز ایڈیٹر ،مولانا نسیم احمد ڈی پی آپریٹر اورنہال صغیر موجود ہوتے تو مسلمانوں اور خاص طور سے اردو اخباروں کے سر پر یہ کلنک نہیں لگ پاتا ۔لیکن شاید اس بڑے کام کے لئے جس سے اخبار کی اشاعت اور اس کی مقبولیت میں چارلی ہیبڈو کی طرح اضافہ ہو جائے جیسے مکروہ کام کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان تینوں کو کسی نہ کسی بہانے اخبار کے دفتر میں آنے سے روکا جائے ۔دوسرے دن شیریں دلوی نے انگریزی اخبار کو بیان دیتے ہوئے یہ قبول کیا کہ اس نے ہی یہ سب کیا ہے ۔واقعہ سے تیسرے دن اپنی دریدہ دہنی کے جواز میں اس نے اپنے ایک ہمنوا ایڈیٹر جو کہ ایک اخبار کے مالک بھی ہیں دو میل کرکے یہ واضح کیا کہ کارٹون صرف اس گستاخ ملعون نے ہی نہیں بلکہ پانچ اور اخبارات اور میگزین کے ای ایڈیشن نے شائع کیا ہے ۔یعنی گناہ کا جواز بھی تلاش کررہی ہے کہ ان سارے نے کیا ہے تو میں نے کیا تو کیاگناہ کیا۔یہ سارے واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مذکورہ اردو اخبار میں کارٹون اس کی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر نے دانستہ شائع کیا ہے اور اس کی پوری منصوبہ بندی ہوئی ہے ۔ جس سے ایڈیٹر سمیت اس کے دونوں موجودہ ڈائریکٹر کے مالی مفاد بھی وابستہ ہیں۔اس کی تفتیش بھی ضروری ہے کہ سرمایہ دینے والا کون اس کھیل کے پیچھے ہے۔مذکورہ ذلیل حرکت سے یقینااخبار کو فائدہ ہوتا اگر وہ اردو کا نہیں ہوتا ۔لیکن ان ملعونوں کی بد قسمتی یہ رہی کہ اردو پوری طرح مسلمانوں کی زبان بن چکی ہے وہی اسے پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔اردو اخبار بھی مسلمانوں کے علاوہ شاید دس بیس لوگ غیر مسلم پڑھتے ہوں گے ۔بقول ایک خدا بیزار گروپ سے تعلق رکھنے والے ادیب کے جوجب موقع ملا اسلام اور شعائر اسلام پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے ’’اردو کے جو رہے سہے قاری ہیں وہ میونسپل اردو اسکولوں کے بعد ملاؤں کے مدرسوں ہی کی ٹکسال سے ڈھل کر آتے ہیں ۔اسکولوں سے پہلے ہی اردو اٹھتی جارہی ہے ،وہ نزع کا سنبھالا بھی لے گی تو ان ملاؤں کے ہاتھوں میں ‘‘۔ آؤ اخبار پڑھیں !اردو اخبار(نیا ورق شمارہ انچالیس)
مذکورہ اہانت آمیز کارٹون معاملے میں مسلمانوں میں اضطراب ہے ۔عام مسلمانوں نے بڑے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ۔کوئی سڑک پر نہیں اترا ۔لوگوں نے کئی تھانوں میں ایف آئی آر درج کرائیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولس نے جرات مندانہ اقدام اس لئے نہیں اٹھایا کیوں کہ مسلمان سڑکوں پر نہیں آئے ۔جس اس نے بزعم خود یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں میں اس معاملے میں کوئی خاص اضطراب نہیں ہے۔اس سے عام لوگوں میں یہ احساس جاگے گا کہ پولس اور انتظامیہ پر دباؤ بنانے کے لئے اور بروقت کارروائی کے جواز کے لئے شاید تشدد ہی واحد راستہ ہے ۔یعنی ملک ،ریاست یا کسی شہر میں تشدد کی واحد وجہ پولس انظامیہ کی عدم توجہی اور اور اپنے فرائض کے تئیں مجرمانہ غفلت ہی ہے ۔یہی سبب ہے کہ مذکورہ اخبار کی براڈ مائنڈیڈ ایڈیٹر کو بنام تفتیش چھوٹ دی گئی اور گرفتاری سے اسے بچایا گیا تاکہ وہ اپنی ضمانت کا انتظام کرلے یا اس کے وہ ہمدرد جو مسلمانوں میں موجود ہیں انہیں ان کی مدد کرنے کا وقت مل جائے ۔اب جو لوگ اس معاملے میں قانونی کارروائی کے لئے آگے آئے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کو قانونی طور پر اپنے انجام تک پہنچائیں ۔
نہال صغیر،ممبئی ۔ موبائل: 9987309013

0 comments:

اودھنامہ ممبئی کی مدیرہ کی گستاخی نادانستہ نہیں ہے

 
لیجئے صاحب اودھنامہ ممبئی کی مدیرہ نے اعتذار شائع کرکے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ۔لیکن کیا یہ معاملہ اتنا ہی سیدھا ہے جتنا کہ یہ نظر آتا ہے ۔میری جانکاری کے مطابق جس وقت مدیرہ موصوف یہ دریدہ دہنی کرنے کی جسارت کررہی تھیں اس وقت آپریٹر نے اعتراض کیاتھا ۔لیکن انہوں نے آپریٹر کی بات کو نظر انداز کرکے اس گستاخ کارٹون کی اشاعت کی ۔پیج تیار ہونے کے بعد پریس جانے سے پہلے ایک اور رکن اودھنامہ نے میڈم کو ٹوکا اور یہ کہا کہ اس سے کل ہنگامہ ہو جائے گا ۔اس بات پر انہوں نے اس رکن کو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ہمیں براڈ مائنڈیڈ ہونا چاہئے ‘‘ چپ کرادیا ۔حالانکہ انہوں نے اپنے اعتذار میں نادانستہ لفظ کا استعمال کیا ہے جو سراسر جھوٹ ہے انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا کیوں کہ وہ اسی ذہنیت کی پروردہ ہیں ۔میں بھی اس واقعہ کے ایک دن پہلے یعنی ۱۵؍جنوری تک اودھنامہ سے وابستہ تھا لیکن ان کی آمریت اور ڈائریکٹر کے استحصالی طریقہ کار کی وجہ سے میرا تنازعہ شروع ہوا اور مدیرہ کی گستاخانہ کارروائی سے ایک دن پہلے میں نے اودھنامہ چھوڑ دیا ۔ویسے پہلے اسی چارلی ہیبڈو کے میٹر پر میرا ان سے تنازعہ ہوا بھی میں چارلی ہیبڈو کی کسی بھی خبر کے ساتھ گستاخ کارٹون شائع کرنے والے جیسے الفاظ کا اضافہ چاہتا تھا لیکن اس کو انہوں نے کاٹ دیا اور خبروں کو اس انداز سے لگاتی تھیں جیسے وہ چارلی ہیبڈو کی حمایتی ہوں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہو۔دراصل اس اخبار کے ذریعہ ادیب اور شاعروں کے اس گروپ کے ہاتھوں وہ کھیل رہی تھی جو دہریت پھیلانے کے لئے ہی جانا جاتا ہے ۔اس میں ایک ناول نگار بھی شامل ہے جو کہ ایک فحش ناول لکھنے کے جرم میں مقدمہ کا سامنا بھی کیا اور انجمن اسلام سے اپنی ملازمت سے بھی اسے ہاتھ دھونا پڑا ۔وہ شخص پاک و ہند کے ان ادیب و شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں میں مصروف ۔وہ ہر ایسے ادیب اور شاعروں کو ذلیل کرنے اور ان کے خلاف مہم چلانے کی کوشش بھی اسی اخبار کے ذریعے کررہا تھا۔چنانچہ عبدلستار دلوی کے خلاف کئی قسطوں میں مضامین کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا ۔مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ان کے اردو اکیڈمی میں رہتے ہوئے ان لوگوں کو ایوارڈ نہیں ملا۔
اخبار کی نامقبولیت کی وجہ سے ردعمل ذرا دیر میں ہوا اور شام تک ہی ان پر ایف آئی آر درج ہو پائی ۔لیکن اس میں کئی قانونی معاملات ہیں ۔اخبار کی پرنٹ لائن میں ابھی تک یونس صدیقی کا نام جارہا ہے جبکہ کئی مہینے ہو گئے جب یونس صدیقی اس سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں ۔اب اودھنامہ ممبئی میں صرف دیپک مہاترے اور شیرین دلوی ہی دو ذمہ دار لوگ ہیں ۔حالانکہ مسلمانوں نے اس پر قانونی حد میں رہتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بروقت گرفتاری نہیں ہونے سے کچھ شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ کیا انتظامیہ انہیں بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔شیریں دلوی کوئی معصوم اور نو عمر بچی نہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کیا شائع کرنے جارہی ہیں ۔شاید یہی سبب ہے کہ اس پر ایک الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ دار مسلم صحافی نے لکھا’’جس عورت کو عام کارٹون اور اہانت رسول پاک کے بیچ کا فرق نہ معلوم ہو اس سے اور کیا امید۔نام نہاد براڈ مائنڈیڈ اور ایکسٹرا کمرشیل مائنڈ ہونے کا یہی نتیجہ ہے۔دین سے دوری اور مسلمان بھائیوں کو پچھڑا سمجھتی رہی ہوں گی محترمہ ۔تسلیمہ نسرین کی راہ پکڑنا اور شارٹ کٹ پبلسٹی کا راستہ اپناناانہیں مبارک۔ہم انکے خیالوں کی مذمت کرتے ہیں۔کسی اور زبان کے اخبار پر ہمارا زور نہیں مگر اردو اخبار میں ریپرنٹ ہونا شرمناک ہے ‘‘۔ایک دوسرے صحافی نے بھی کم بیش اسی طرح کے رد عمل کا اظہار کیا وہ کہتے ہیں’’اس وقت کسی نے اسے ٹوکا یا نہیں ٹوکا ہووہ معنی نہیں رکھتا ،یہ غلطی کوئی عام خیال رکھنے والے نے نہیں کی ،جبکہ ایسے ماحول میں معاملہ عروج پر ہو ،تو ہر خاص و عام کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے کی وہ کیا کر رہا ہے یا کر رہی ہے‘‘۔
اردو پتر کار سنگھ کے ذمہ دار اظہار احمد کہتے ہیں کہ جب وہ ممبرا میں اس کے خلاف رپورٹ درج کرانے گئے تو وہاں معلوم ہوا کہ جب اس خاتون صحافیہ کو روکا گیا تو اس نے کہا کہ ’’کل دیکھنا تھوڑی کاپی جلائی جائے گی اور پبلسٹی ملے گی‘‘۔تو یہ سارا معاملہ گھٹیا پبلسٹی کا ہے ۔شاید کچھ لوگ مسلمانوں جیسا نام رکھ کر مسلم معاشرے میں دہریت پھیلانے کے کام پر معمور ہیں ۔سنا ہے آر ایس ایس کی نام نہاد مسلم ونگ راشٹریہ مسلم سنگھ نے بھی اپنا نشانہ مسلم عورتوں کو ہی بنانے کا حکم خفیہ طور پر جاری کیا ہے اور بکاؤ اور ایمان فروش لوگ اس کام میں پوری تندہی کے ساتھ لگ گئے ہیں ۔ہم اردو پتر کار سنگھ کی جانب سے کئے گئے اس مطالبہ کی پرزور حمایت کرتے ہیں کہ اخبار کی مالک تقدیس فاطمہ فوراًاس منجمنٹ سے اخبار واپس لے کر کسی ذمہ دار منجمنٹ کے حوالے کریں ۔تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اخبار کی اس دریدہ دہنی کے بعد بھی دوسرے دن اخبار کیوں کر شائع ہوا جبکہ اس میں ادارتی اسٹاف سارے مسلمان ہی ہیں ۔        (دی انڈین پریس
نہال صغیر۔ممبئی ۔موبائل:9987309013

0 comments:

ملک کے مستقبل سے جڑے ہیں دہلی اسمبلی کے نتائج



جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

گذشتہ دو تین ہفتوں تک راجدھانی دہلی کی گلیاں اور سڑکیں انتخابی ریلیوں اور جلسے جلوسوں سے اس طرح بھری پڑی تھیں کہ لوگوں کا اپنے گھروں سے دفتروں، کارخانوں اور کارگاہوں تک وقت پر پہنچنا محال تھا۔ بعض بعض دنوں میں تو ایسا بھی لگا کہ جیسے دہلی والے دارالسلطنت کے بجائے کسی انسانی سمندر میں جی رہے ہوں۔ سیاسی پارٹیوں کی زرخرید بھیڑ نے اگر لوگوں کا امن و سکون چھین لیا تھا، تو سیاست دانوں نے دہلی کے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ مداریوں کی طرح ڈمرو یا ڈگڈگی بجاکر کھیل دکھانے والے سیاست دانوں نے بھی وہی کیا جو مداری کھیل دکھاکر جو کچھ حاصل کرپاتا ہے اسے ہی مقدر مان کر اپنی بساط لپیٹ لیتا ہے۔ اس بار اسمبلی انتخابات میں ہمیں ایسا ہی کچھ لگا، جو کبھی گلی کوچوں میں کرتب دکھایا کرتے تھے اور بہروپیوں کی طرح دروازے دروازے دستک دے کر لوگوں کو ’الّو‘ بناتے اور ہاتھ جوڑ کر رخصت ہوجاتے تھے، شاید اب وہی لوگ سیاست داں بن گئے ہیں۔ ہاں کل اور آج کے بہروپیوں میں جو نمایاں فرق دیکھنے میں آرہا ہے وہ ہے اخلاقیات کا۔ آج کے سیاسی بہروپیوں نے تو جیسے انسانی اور سماجی قدروں کی دھجیاں اڑانے کا ہی ٹھیکہ لے لیا ہو۔ بے شک الیکشن میں ہر پارٹی یا امیدوار اپنے مدمقابل اُمیدوار کی کمزوریوں اور غلطیوں کو عوام کے سامنے لاکر اپنے حق میں رائے ہموار کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں کہ مخالفت میں آپ اخلاقیات اور انسانی قدروں کی پامالی کی تمام حدیں بھی پار کرنے لگیں۔
الیکشن کے دوران اقتدار و منصب کی لالچ میں وفاداریاں بدلنے کا چلن تو کئی دہائی پرانا ہے، امیدوار اور پارٹیاں دونوں ہی اپنے کردار و عمل سے اب تک یہی ثابت کرتی رہی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے کی غرض و غایت محض اقتدار حاصل کرنا ہے، ملک و قوم کی خدمت تو ضمنی اور جزوی ہی ہے۔ اس الیکشن میں تو عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال کو اس طرح گھیرنے کی کوشش کی گئی جس طرح جنگل میں شیر کے شکاری اور ہر کارے گھیرتے ہیں۔ ہم کیجریوال کے نہ حامی ہیں نہ مخالف، لیکن ملک کی دو بڑی قومی پارٹیوں نے جو طریقہ اور طرز عمل ان کے تئیں اپنایا عام لوگوں نے محسوس کیا کہ ان قومی پارٹیوں میں بھی شاید یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ اگر دہلی اسمبلی الیکشن میں کیجریوال کامیاب ہوگئے تو کہیں ہمارے مستقبل کے تعلق سے بھی کوئی سوال نہ کھڑا ہوجائے۔
صرف دہلی اسمبلی انتخابات میں ہی نہیں بلکہ اس سے قبل دوسرے صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں بھی اسی طرح کی ہارس ٹریڈنگ اور گھٹیاپن کا مظاہرہ ہوا۔ حالات اگر ایسے ہی رہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارا سیاسی معیار کس سطح پر جائے تو پھر ملک کا کیا حال ہوگا؟ اب جبکہ وہ پارٹیاں بھی گراوٹ کی اس سطح پر پہنچ گئی ہیں جو دن رات خود کو نظریاتی، اصول پسندی اور اخلاقی قدروں اور جمہوریت کی پاسبان کہتی اور کہلاتی رہی ہیں تو اب کس پر اعتماد وبھروسہ کیا جائے؟
بی جے پی ایک اصول پسند جماعت ہے، اس کا ایک نظریہ ہے، اس سے وابستہ افراد اخلاقی قدروں کے پاس و لحاظ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، اس کے افراد کی ایک بڑی تعداد کے کردار آر ایس ایس کی کارگاہ میں ڈھالے گئے ہیں۔ یہ پارٹی اقتدار کے لیے اپنے اصولوں سے دست بردار ہو ہی نہیں سکتی، یہ کرسی کے بجائے خدمت کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ یہ جوڑ توڑ اور دل بدلی سیاست سے بھی دور ہے، اس طرح کے دعوے بی جے پی کی قیادت کرتی رہی ہے اور لوگوں کو تھوڑا بہت اس کی بات پر یقین بھی ہوچلا تھا کہ یہ اپنے کو قوم پرستی اور بھارتیہ سنسکرتی کی امین کہنے والی پارٹی ہماری تمام سیاسی پارٹیوں سے واقعتاً کچھ مختلف ہے، لیکن گذشتہ دہائیوں کے دوران ہونے والے انتخابات کے نتائج نے عوام کے اعتماد و یقین کو متزلزل کرکے رکھ دیا اور اب رہی سہی قلعی بھی دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران اُترگئی۔ کون جیتا اور کون ہارا اس بحث سے قطع نظر یہ بات سچ ثابت ہوگئی کہ بی جے پی بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ہی ہے اور اقتدار کے لیے یہ تو وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو دوسری پارٹیاں سوچ بھی نہیں سکتیں۔
پچھلے ایک ماہ سے دہلی کے انتخابی سمندر میں سیاسی غوطہ خوروں نے اتنی ڈبکیاں لگائیں کہ تہہ آب جمی کیچڑ سطح آب پر آگئی، اتنا مٹ میلا اور گدلاپانی کہ رائے دہندگان کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ اسے کس کام میں لایا جائے، بالآخر دہلی کے باشعور عوام نے اپنی عزت بھی رکھ لی اور سارا کا سارا پانی بھی انہی کو لوٹادیا جنہوں نے انہیں سخت آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ دہلی کے انتخابی دنگل میں ابھی تک شاید ہی کوئی ایسا دنگل عوام نے دیکھا ہو جس میں ایک نومولود پہلوان کو دو پرانے پہلوان بیک وقت پچھاڑنے کے لیے وہ تمام داؤ استعمال کر رہے ہوں جنہیں وہ برسوں سے اپنی ورزشوں کے دوران اپنے اپنے اکھاڑوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔
دہلی کے عوام نے تو اپنے حق رائے دہی کو جو کہ قومی امانت ہے، آپ کے حوالے کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عظیم قومی امانت کو آپ کس حد تک سنبھال پاتے ہیں۔ یہ وہ امانت ہے جس پر ملک کی جمہوریت اور جمہوری قدروں کی ہماری پُرشکوہ عمارت قائم ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی خیانت عمارت میں دراڑ پیدا کرنے کے ہی مترادف ہوگی۔ گذشتہ کل یعنی 7 فروری کو دہلی کے رائے دہندگان کا فیصلہ ان کا صرف نجی فیصلہ ہی نہیں بلکہ ملک کے ان تمام شہریوں کا فیصلہ ہے جو قوم و ملک کے تابناک مستقبل کی تمنار کھتے ہیں اور قومی ترقی اور خوش حالی کے آرزومند ہیں۔
آنے والا کل یعنی 10 فروری نہ صرف سیاسی پارٹیوں اور انتخاب میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کے لیے ہی اہم ہے بلکہ ان تمام ملکی و غیر ملکی لوگوں کے لیے بھی اہم ہے جن کے دل و دماغ اور فکر و نظر سبھی کچھ دہلی کے شہریوں کے سیاسی شعور و بصیرت پر ٹکی ہوئی تھیں۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی قسمت بے شک مشین کے ڈبوں میں بند ہے اور 7 فروری سے 10 فروری تک ان امیدواروں کی نیندیں بھی حرام رہیں گی، لیکن کہتے ہیں کہ انتظار کا پھل میٹھا ہوتا ہے اس لیے ان کی تڑپ اور بے چینی میں ہم سب بھی برابر کے شریک ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ 10 فروری کو طلوع ہونے والا سورج اپنی ست رنگی کرنوں کی طرح ہی رنگا رنگ خوشیوں کے ساتھ طلوع ہو، تاکہ ملک میں بسی تمام قومیں اس خوشی میں برابر کی شریک بھی رہیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار پیش کرسکیں۔
ہمیں یہ مان کر چلنا ہوگا کہ ملک کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو، ملک کے مقدر سے ہی اس کا مقدر اور اس کے خواب و خیال بھی اسی طرح وابستہ ہیں جس طرح دوسروں کے ہیں۔ وہ بھی دوسروں کی طرح ہی ملک کی سالمیت اور قومی اتحاد کے لیے آرزو مند ہے۔ اس لیے جو لوگ بھید بھاؤ اور نفرت کی سوچ رکھتے ہیں انہیں عام رائے دہندگان کے مشترکہ فیصلے سے بہرحال سبق حاصل کرنا چاہیے اور یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہر الیکشن میں جب بلاتفریق مذہب رائے دہندگان انہیں اپنے ووٹوں سے جتاتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی تفریق نہ صرف امانت میں خیانت ہے بلکہ قوم و ملک کے حق میں عظیم نقصان بھی ہے۔ مداری کا کھیل تو اس کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے لیکن سیاسی مداری کا کردار قوم و ملک کی سا لمیت اور اس کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے لہٰذا الیکشن میں کامیاب ہونے والے کرداروں کو ملک کی جمہوری قدروں کا بہرحال خیال رکھنا ہوگا۔
(دی انڈین پریس)      

0 comments:

مرحوم شاہ عبد اللہ کے سیاسی فیصلے اور مشرق وسطیٰ کا بحران!


عالم اسلام کے مسلمانوں کا سعودی عرب کے حکمرانوں سے جذباتی لگاؤ رہا ہے ،اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ اس سرزمین کو خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ نے مسلمانوں کے لئے مقدس قرار دیا ہے۔یہی وہ سرزمین ہے جہاں مسلمانوں کے رسول حضرت محمد ﷺ بھی مبعوث ہوئے اور یہیں سے آپ ﷺ نے پہلی بار دعوت اسلامی کا آغاز کیا جو بعد میں ایک عالم گیر تحریک کی شکل اختیار کرتے ہوئے یوروپ اور ہندوستان کے علاقوں تک پھیل گئی اور تقریباً ایک ہزار سال تک پوری دنیا میں اسلامی تہذیب اور اسلامی قانون کا غلبہ رہا۔ تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیا جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اقوام یوروپ نے تمام عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا اور پھر اپنے مطلب کے جنرلوں اور نوابوں کو عرب کے مختلف علاقوں کا بادشاہ بناکر اسلامی خلافت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔حجاز کے بھی ایک بہت بڑے علاقے پر خاندان سعود کا قبضہ ہو گیا اور یہ لوگ اس علاقے کے بادشاہ قرار پائے ۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سعود خاندان نے باوجود سیاست کے اسلام کے شرعی نظام کو جاری رکھا اور باقاعدہ آج تک جاری ہے جبکہ عراق ،شام ،مصر اور لبنان وغیرہ کے حکمرانوں نے اشتراکیت اور مغربیت سے متاثر ہو کر لبرل طرز سیاست کو رائج کیا اور خود ترکی جو کہ خلافت اسلامیہ کا مرکز ہوا کرتا تھا ،مصطفیٰ کمال پاشا جو کہ ایک فوجی جنرل تھا جب اسے اقتدار حاصل ہوا تو اس نے خلافت اسلامیہ کے سارے نام و نشان کو مٹا ڈالا اور یہ وہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی جرات اور پہل کی۔یا یوں کہہ لیجئے کہ بیسویں صدی کا ایک بہت بڑا حصہ پوری طرح امت مسلمہ کے لئے ذلت اور رسوائی کا رہا ہے اور خود ترکی ،مصر ،شام تیونس اور ایران کے حکمرانوں نے ہر اس تحریک پر جبر و تشدد کے پہاڑ توڑے جنہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ۔خاص طور سے اس پورے علاقے میں تحریک اخوان المسلمون کے بانیوں اور ان کے کارکنان کو جیلوں میں قید کرکے پھانسی کی سزادی گئی اور اس تحریک کے بیشتر ارکان کو جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی ۔ایسے میں سعودی عرب کے حکمرانوں نے نہ صرف اخوانیوں کو پناہ دی بلکہ انہیں ہر طرح کی مدد اور تعاون بھی اس ملک کے عوام سے ملتا رہا ہے۔ممکن تھا کہ شاہ فیصل مرحوم دیگر مسلم ممالک کے تعاون سے اس علاقے کا نقشہ بدل دیتے مغرب اور اسرائیل نے ان کی نیت کو بھانپتے ہوئے انہیں راستے سے ہٹادیا اور وہ اپنے بھتیجے کی تلوار سے ہی جام شہادت نوش فرماگئے ۔
یہ سچ ہے کہ قوم یہود جو کہ انقلاب فرانس سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے مصنف اور موجد رہے ہیں اور جن کا نصب العین تھا کہ وہ کسی طرح بیت المقدس جسے وہ ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اس پر قابض ہو جائیں ۔وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہے ۔وہ یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ جس ریاست کو قائم کرنے کے لئے انہوں نے انقلاب فرانس سے لے کر دوسری جنگ عظیم تک سات کروڑ انسانوں کا خون کیا ہے اسے حاصل کرنے کے لئے کوئی صلاح الدین ایوبی پھر سے زندہ ہو جائے ۔اپنے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اسرائیل اور قوم یہود نے پوری مغربی دنیا اور خاص طور سے امریکہ کو یر غمال بنا رکھا ہے اور آج بھی وہ مغرب کو افغانستان سے لیکر عراق وغیرہ میں الجھانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ مسلمان اور مسیحی دنیا ایک دوسرے کے خلاف متصادم ہوتے رہیں اور وہ اپنا الو سیدھا کرتا رہے۔شاید اسی لئے سعودی عرب اور اس علاقے کے مسلم حکمرانوں پر ان کی خاص نظر رہی ہے کہ یہ لوگ کن ممالک سے کس طرح رابطے میں ہیں اور ان کے اتحاد سے کہاں تک ریاست اسرائیل کے مفاد کو نقصان سکتا ہے ۔ہم نے دیکھا بھی ہے کہ شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر ضیاء الحق اور صدام حسین جو ان کے قبضے اور دام میں نہیں آسکے انہیں کس طرح راستے سے ہٹادیا گیا یا پھر مرحوم آیت اللہ خمینی اور ایران ان کی غیر فطری سازش کا شکار نہیں ہو پائے تو بھی عالمی سطح پر انہوں نے ایران کی حیثیت کو بھی بے وقعت بنادیا ہے اور ان وہ خود اپنے مسلکی مفاد کے تئیں مشرق وسطیٰ میں الجھ کر رہ گیا ہے ۔ عالم اسلام کے مسلمانوں کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ جن مسلم ممالک سے انہوں نے خیر کی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں یا جہاں سے وہ مسلم قیادت اور خلافت کی خوشبو محسوس کررہے تھے بعد کے دنوں میں یہ ممالک اور ان کے حکمراں اسرائیل اور قوم یہود کے مفاد کا کھلونا بن گئے ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ یوروپ اورامریکہ میں اسرائیل کے خلاف بے چینی کی فضا صاف طور پر نظر آرہی تھی اور یہ حکمراں ان حالات کا فائدہ بھی اٹھا سکتے تھے ایسے میں شاہ عبد اللہ کی بے بصیرتی نے سب کچھ ملیامیٹ کردیا اور سعودی حکومت کی تاریخ میں یہ وہ پہلے حکمراں ہوں گے جن کی موت پر عالم اسلام کو کوئی افسوس نہیں ہوا ۔جبکہ شاہ فہد کے زمانے میں ہی ان کی امریکہ مخالف ذہنیت اور تعلیمی لیاقت کی وجہ سے عالم اسلام کو ان سے یہ امید وابستہ تھی کہ وہ اپنی حکمرانی میں کوئی انقلابی قدم ضرور اٹھائیں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بہت سارے اقدامات اور سیاسی فیصلے کئے بھی ،جن میں ایک فیصلہ تو یہ تھا کہ انہوں نے خفیہ طریقے سے امریکہ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کردے مگر جب امریکہ نے ان کی اس پیشکش کو ٹھکرادیا تو انہوں نے پہلی بار امریکہ کو نظر انداز کرتے ہوئے روس اور چین کی کمپنیوں کے ساتھ سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کا تجارتی معاہدہ کرنے کی جرات دکھائی اور امریکہ کو اشارہ دیا کہ وہ امریکہ کے بغیر بھی اپنا کاروبار چلاسکتے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ معاشی بدحالی کے دور سے گذر رہا تھا اور یہ وہی ملک ہے جس نے سعودی عرب میں تیل کا خزانہ ڈھونڈ کر اس ملک کی قسمت بدل دی تھی ،اگر اس ملک کا کوئی حکمراں مشکل حالات میں اس کے دشمن ممالک کو فائدہ پہنچائے تو کیا اسے اچھا لگ سکتا ہے۔مگر امریکہ کی اپنی مجبوری بھی یہ تھی کہ وہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا ۔مگر کہتے ہیں کہ عقلمند اور دانا دشمن اپنے غصے کا اظہار بھی براہ راست نہیں کرتا ،وہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے ۔اسی طرح خود امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ادھر حال میں جو تلخیاں ابھر کر سامنے آئیں اس کی وجہ یہودی سرمایہ داروں کا بھی وہی فیصلہ تھا جو انہوں نے اپنی صنعتوں کو امریکہ کے بجائے روس اور چین میں قائم کرنا شروع کردیا ۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ یوروپ اور امریکہ کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور یہودیوں کے خلاف عوامی بیداری سے واقف ہو چکے تھے ،جنہوں نے یہودی تنظیموں کی ساری جدو جہداور اشتہاری پروپگنڈے کے باوجود یہود مخالف صدر اوبامہ کو منتخب کیا ۔خود یہودی سرمایہ دار الیکشن سے پہلے اوبامہ کے اس عہد اور وعدے سے بھی خوش نہیں تھے کہ اگر وہ صدر منتخب ہو ئے تو افغانستان اور عراق سے اپنی افواج واپس بلالیں گے۔اسرائیل نے امریکہ کو متنبہ بھی کیا کہ اس طرح اسرائیل غیر محفوظ ہو جائے گا اور خطے میں اسلام پسندوں کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے ۔یہاں پر امریکہ نے جس طرح ایران پر حملے کے لئے سعودی حکمراں عبد اللہ کی اپیل کو ٹھکرادیا اسرائیل کو بھی عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی سے مایوس ہونا پڑا۔
بالآخر اسرائیل کا خوف یقین میں بدل گیا اور ۲۰۱۱میں عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد ہی اسرائیل اور سعودی عرب کے کئی مشترکہ دوست بہار عرب کے پت جھڑ کا شکار ہو گئے ۔امریکہ نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کرتے ہوئے خود کو مشرق وسطیٰ کے اس بحران سے الگ کرلیا یا ایسا ہونے دیا ۔بد قسمتی سے مصر میں اسرائیل اور سعودی عرب کو جو خطرہ تھا وہی ہو ایعنی اخوان اقتدار میں آگئے اور اللہ کے دونوں قبلے کی حفاظت کرنے والی سلطنتوں کا اقتدار ڈولنے لگا ۔حالانکہ اگر قطر اور ترکی کی طرح شاہ عبد اللہ نے مصر کے اس انقلاب کی حمایت کی ہوتی تو یہ ان کے حق میں ہی بہتر ہوتا مگر کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے یا اس کی عقل ماری جاتی ہے ۔شاہ عبد اللہ نے سعودی عرب کے سابق حکمرانوں کی روایت کو توڑتے ہوئے کھل کر مصری فوج کی بغاوت کی تعریف کی اور مالی امداد بھی فراہم کی ۔یہاں پر یہ کہنا بہتر ہوگا کہ انہوں نے اسلام کی بجائے کفر اور دشمن کے ساتھ تعاون کیا جس کا نتیجہ خود سعودی حکومت کے بھی حق میں اچھا نہیں ہوا اور تقریباً ایک سال بعد اسرائیل اور سعودی حکومت دونوں کی دہلیز پر داعش اخوان سے بھی زیادہ طاقتور خطرے کے طور پر ابھر کر آئے ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ شاہ عبد اللہ کے غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلے نے پورے مشرق وسطیٰ کو آگ اور خون کے میدان میں تبدیل کردیا ۔شاہ عبد اللہ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جس نفرت کی ریاست کے ساتھ تعاون کیا ان کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم ملک میں باپردہ مسلم خواتین کو ہتھکڑیاں لگا کر جیلوں میں ڈالا گیا اور وہ مرد مجاہد جنہیں مصری حکومت نے موت کی سزا سنائی ہے ان کا قصور یہ ہے کہ وہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی اور ظالمانہ قانون سے آزاد کرواکر اللہ کی رحمت میں داخل کرنا چاہتے تھے ۔شاہ عبد اللہ اپنے اس گناہ کی تلافی کے لئے تو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔لیکن اگر انہوں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی کام کیا ہے تو اللہ انہیں مصر کے ان معصوم اور مظلوم مسلمانوں کی بد عا سے محفوظ رکھے ! (دی انڈین پریس)
عمر فراہی۔ موبائل۔  09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com

0 comments: