دلت بودھ مذہب ہی کیوں اختیار کرتے ہیں۔۔؟
عمر فراہی
umar shaikh <umarfarrahi@gmail.com>
کل کے اخبارات سے ہمیں یہ خبر ہوئی کے روہت وومیلا کی ماں اور اس کے بھائی 14 اپریل کو ممبئ کے امبیڈکر بھون میں آرہے ہیں جہاں وہ نہ صرف رسمی طور پر بودھ مذہب قبول کریں گے بلکہ اس اجلاس میں آرایس ایس کی دیش بھکتی اور فرقہ وارانہ نظریات کو بھی زیر بحث لایا جائے گا -ایک سوال یہ ہے کہ اگر روہت وومیلا کا خاندان آر ایس ایس کے برہمنی ظلم کے ردعمل میں بودھ مذہب اختیار کر سکتا ہے تو اس نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی کیوں نہیں غور کیا- اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی مسلم تنظیم نے اس خاندان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت یا رہنمائی بھی نہیں کی ہوگی -اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ میں مصروف مسلمانوں کی ساری جماعتیں اپنے اجتماعات میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد جمع کر کے خوش تو ہو جاتی ہیں مگر جب مظلوموں اور بے سہارا غیر مسلم قوموں کی مدد کی بات آتی ہے تو یہ تعداد اور ان جماعتوں کی قیادت کہیں نظر نہیں آتی ہے - کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری یہ ساری جماعتیں خوف اور دہشت میں مبتلا ہیں -دیکھا بھی گیا ہے کہ ابھی سات آٹھ مہینہ پہلے ہریانہ کے کچھ دلت خاندانوں نے حکومت کی ناانصافی کے خلاف دلی کے جنتر منتر میں اسلام قبول کر لیا اور باقاعدہ ایک مسجد میں جاکر باجماعت نماز بھی ادا کی مگر ان نو مسلم دلت خاندانوں کی حمایت اور مدد کیلئے مسلمانوں کی کوئی جماعت سامنے نہیں آئی جبکہ اسی دلی میں تبلیغی جماعت جو پوری دنیا میں دین کے کام کی دعویدار ہے , جماعت اسلامی اقامت دین کی علمبردار اور جمعیتہ العلماء جس نے کہ آذادی میں اہم کردار ادا کیا ان تینوں کا مرکز اور دفتر بھی موجود ہے-حالانکہ کہ ایسے حالات میں ان جماعتوں کے امیر اور خلیفہ کو آگے آنا چاہیئے مگر اب اکیسویں صدی کے کارپوریٹ کلچر کے دور میں ان اسلامی جماعتوں کے رہنماؤں کے فیصلے بھی صرف دفتروں اور خانقاہوں سے انجام دیئے جاتے ہیں اور انہیں میدان عمل میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی ضرورت نہیں -جہاں تک اہل تشیع اور بریلوی حضرات کی بات ہے ان کے علماء اور قائدین اس وقت محترم وزیراعظم نریندرمودی جی کے تعاون سے وہابی دہشت گردی کے خلاف تصوف کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ یعنی ہندوستان میں لوگ ایک ایک بوند پانی کے قطروں کیلئے تڑپ رہے ہیں اور انہیں عراق اور شام کی فکر ستا رہی ہے -غرض کہ مسلمانوں کی کسی تنظیم کو کوئی فکر نہیں ہے کہ دلی کے جنتر منتر میدان میں اسلام قبول کرنے والے ان دلت خاندانوں کا بعد میں کیا ہوا- کیا یہ خاندان دین اسلام پر ہی ہے یا اس نے صرف حکومت کو دھمکی دینے کیلئے احتجاجاً ایسا کیا تھا یا انہیں کسی طرح کی مدد درکار ہے تو ان کی ضروریات کو کون پورا کر رہا ہے- یہ خبر بعد میں مسلمانوں کے کسی اردو اخبارات میں بھی نظر سے نہیں گذری -شاید اب آپ کو یہ جواب مل گیا ہوگا کہ روہت وومیلا کا مظلوم خاندان اگر اسلام قبول کر لیتا تو ممکن ہے کہ اس بار انہیں مسلم تنظیموں کی طرف سے اس کی مدد کیلئے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے خودکشی کرنا پڑتی -جہاں تک روہت وومیلا کی ماں اور بھائی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا یہ فیصلہ ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ اس فیصلے کیلئے بودھ تنظیموں کی طرف سے ضرور کہیں نہ کہیں ان کی ذہن سازی اور حوصلہ افزائی کی گئی ہوگی -جیسا کہ ممبئ کے امبیڈکر بھون میں نہ صرف اس خاندان کو مدعو کیا گیا ہے بلکہ بودھ تنظیموں نے اس خاندان کی مدد کیلئے جسٹس فار روہت وومیلا ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دی ہے اور ممکن ہے کہ یہ تنظیم بعد میں بھی اس خاندان کو تنہا نہیں چھوڑے گی -اس کا مطلب مسلم تنظیموں سے کہیں زیادہ فعال اور بیدار بودھشٹوں کی تنظیم ہے اور مسلمانوں کی تنظیموں اور ان کے علماء نے صرف اپنی مساجد مدارس اور دعوت و تبلیغ کے عمل کو بت بنا کر رکھا ہے -اس بحث کی تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت دلچسپ ہے کہ جس روہت وومیلا پر پچھلے دو مہینے سے پورے ہندوستان میں بحث جاری ہے اور اس نوجوان نے مرنے کے بعد بھی کنہیا کو ہندوستان کا ہیرو اور عنوان بنا کر کھڑا کردیا ہے اتفاق سے ان دونوں نوجوانوں کو جو سزا ملی یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشس کی گئی ان کی تحریک سے بودھشٹوں کی نہیں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی - یہ بات کون نہیں جانتا کہ جب مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے بیف پر پابندی لگائی تو اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی بودھشٹوں اور جینیوں کو پہنچی تھی کیونکہ یہ دونوں ہی مذاہب کے لوگ سختی کے ساتھ جیو ہتیا کے مخالف ہیں -اس کے باوجود روہت وومیلا نے کسانوں اور مسلمانوں کے حق کیلئے دلت تنظیموں کو لیکر بیف پارٹی کا انعقاد کیا - یہ وہی نوجوان ہے جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یعقوب میمن اور افضل گرو کی پھانسی کی بھی مخالفت کی تھی - یہ مسئلہ خالص مسلمانوں سے تعلق رکھتا تھا مگر اس کی نمائندگی ایک دلت نوجوان کر رہا تھا جس نے کبھی قرآن کا درس نہیں لیا تھا اور نہ ہی چالیس دن کے چلے اور کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعلیٰ عنہ کی شہادت اور چہلم کی روایت سے ہی واقف تھا ..! یہ بات مرکز کی بی جے پی سرکار کو برداشت نہی ہوئی اور اس نے اس نوجوان کی اسکالر شپ رکوا دی اور مجبوراً روہت وومیلا کو خودکشی کرنا پڑی -اس درمیان اگر کسی غیر سرکاری تنظیم نے بھی روہت کے خاندان کی مالی مدد کی ہوتی تو اس نوجوان کی جان بچ سکتی تھی -مگر ایسا کسی نے نہیں کیا - کسی مسلمانوں کی تنظیم نے بھی نہیں....! مگر روہت کو مسلمانوں کی وجہ سے ہی جان دینا پڑی یہ سچ ہے - یہ بھی عجیب بات ہے کہ اب وہی بودھشٹ تنظیمیں اس کے خاندان کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھی ہیں جن کے اپنے عقیدے کے خلاف روہت کا بیف پارٹی منانا گناہ عظیم خیال کیا جاتا ہے-سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ہندوستان میں ہر سال ہزاروں دلت خاندان بودھ مذہب ہی اختیار کر تے ہیں کوئی اور مذہب کیوں نہیں ...؟ اور خود آرایس ایس کو بودھ مذہب کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے تشویش نہیں ہے تو کیوں؟ دلتوں کی طرف سے بھی مذہب کو تبدیل کر کے احتجاج درج کرانے کا کیا مطلب جبکہ بودھ مذہب اختیار کرنے کے بعد بھی تو دلت دلت ہی رہتا ہے اور آرایس ایس کی صحت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا-اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دلت اپنے خالص دلت ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا دوست تو ہوسکتا ہے لیکن بودھ مذہب اختیار کرنے کے بعد کم سے کم روہت وومیلا کی طرح گئو ہتیا کی وکالت تو نہیں کریگا- دوسرے لفظوں میں ایک دو نسل بعد یہی لوگ گںئو ہتیا کی وجہ سے مسلمانوں سے نفرت ضرور کرنے لگیں گے جیسا کہ برما کے بدھشٹوں نے مسلمانوں سے دشمنی نبھائی -اس کا مطلب کہ آرایس ایس خود چاہتی ہے کہ دلت دلت تو رہیں لیکن بودھ مذہب کی شکل میں وہ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑا دشمن کھڑا کردے -ہوسکتا ہے ہم غلط سوچ رہے ہوں لیکن یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آخر دلت بودھ مذہب ہی کیوں اختیار کرتے ہیں .....؟؟؟؟
0 comments: