ڈاکٹرامبیڈکرقبول اسلام سے کیسے پیچھے ہٹے؟
عبدالعزیز
ڈاکٹرامبیڈکر ہندستان کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے ،آج بھی دلت طبقہ یاپسماندہ طبقہ انہیں اپنارہبراوررہنماسمجھتاہے اوران کے بتائے ہوئے راستہ پرچلناچاہتاہے ۔انہوں نے دنیاکے بڑے مذاہب کامطالعہ گہرائی سے کیاتھا۔ ان کارجحان اسلام قبول کرنے کاتھامگراسلام کی طرف ان کے بڑھتے قدم رک گئے ایک بڑی وجہ انہیں مسلمانوں کے اندربرہمنوادکاتھایعنی چھوٹی بڑی ذاتوں کاسسٹم جس سے ان کے دل میں یہ بات پیداہوئی کہ اگروہ اسلام قبول کرتے ہیں توانہیں مسلم سماج میں بھی برہمنوادکاسامناکرناپڑے گا۔دوسرامسلمانوں کے اندرمسلکی جھگڑاتھاجوان کے لئے پاؤں کی زنجیربن گیا،انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریرمیں کہا :
’’ میں اسلام قبول کرناچاہتاہوں لیکن اگرمیں اسلام قبول کرتاہوں تومجھے وہابی کہہ کرخارج ازاسلام کردیاجائے گا۔‘‘
کہاجاتاہے کہ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم اورمصنف سے جب ملاقات کے لئے گئے توانھوں نے دیکھاکہ ان کے مریدیں انہیں غسل خانے کی طرف لے جارہے ہیں کسی کے ہاتھ میں تولیہ ہے کسی کے ہاتھ میں تہبنداوربنیائین ہے ،کوئی ہاتھ میں صابن اورمسواک لئے ہے ۔ یہ دیکھ کروہ حیران رہ گئے کہ جس مذہب نے اپنے کام کوخودسے کرنے کی تلقین اورتعلیم دی ہے عالم دین کاہاتھ خالی ہے اوراس کاسارابوجھ غیروں کے سرپرہے ۔ جب عالم دین غسل سے فارغ ہوکرڈاکٹرامبیڈکرکے پاس آئے توعالم دین نے اسلام کی اچھی اچھی باتیں ڈاکٹرامبیڈکرکوبتاناشروع کیاڈاکٹرامبیڈکرسنتے رہے اورجب عالم دین خاموش ہوئے توڈاکٹرامبیڈکرنے کہاکہ اسلام کی باتیں توسوفیصدسچائی اورصداقت پرمنحصرہیں مگرآپ کاسماج اسلام سے دورہٹاہواہے اگرمیں اسلام قبول کرکے آتاہوں تومیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑے گاکیونکہ وہاں بھی برہمنوادہے اوریہاں بھی برہمنواد، ایک برہمن کوچھوڑکرآؤں گاپھردوسرے برہمن سے مقابلہ درپیش ہوگا۔‘‘
31-30مئی 1936 کوڈاکٹرامبیڈکرممبئی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جوتحریری تقریرپیش کی تھی اس میں کہاتھا :
ہندودھرم ہمارے آباواجدادکامذہب نہیں ہے ۔ وہ توغلامی ہے ، جوان پرمسلط کردی گئی تھی ۔ ہمارانصب العین ہے آزادی کاحصول ........اورتبدیلئ مذہب کے بغیرآزادی کاحصول ممکن نہیں ......میں تسلیم کرتاہوں کہ اچھوتوں کومساوات کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے ۔مساوات حاصل کرنے کے بھی دوراستے ہیں، ایک ہندوسماج میں رہ کر، دوسراتبدیلئ مذہب کے ذریعہ اسے چھوڑکر۔ مساوات کومختلف ذاتوں سے مل جل کرکھانے پینے اوران کے درمیان شادی بیاہ ہی سے حاصل کیاجاسکتاہے ۔ اس کامطلب یہ ہواکی چاروں ورنوں کے سسٹم اوربرہمنی مذہب کوختم کردیاجائے ۔ کیایہ ممکن ہے ........؟ جب تک ہندورہوگے سماجی روابط ، کھانے پینے اورمختلف ذاتوں کے درمیان شادی بیاہ کے لئے جدوجہدکرتے رہوگے اورجب تک یہ کشمکش جاری رہے گی ، تمہارے اورہندوؤں کے درمیان تعلقات مستقل دشمنوں کے سے [جیسے] رہیں گے۔ تبدیلئ مذہب کے ذریعہ ان تمام جھگڑوں کی بنیادڈھ جائے گی...... ذاتیں اگرچہ اسلام اورعیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مگریہ ان کے سمانجی ڈھانچہ کی بنیادی خصوصیت نہیں ہے ........ہندوؤں میں ذات پات کاسسٹم مذہبی بنیادرکھتاہے ، دوسرے مذاہب میں ذات پات کومذہب کی توثیق حاصل نہیں ہے ۔ ہندواپنے مذہب کوختم کئے بغیرذات پات کے سسٹم کوختم نہیں کرسکتے ، مسلمانوں اورعیسائیوں کوذاتیں ختم کرنے کے لئے اپنے مذہب کوختم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ ان کامذہب بہت حدتک ایسی تحریکات کی تائیدکرے گا۔‘‘
ڈاکٹرسعودعالم فلاحی اپنی کتاب ’’چھوت چھات اورمسلمان‘‘ میں رقمطرازہیں :
’’اس منصوبے اورعزم کے تحت ڈاکٹرامبیڈکرنے دھرم تبدیل کرنے کافیصلہ کرلیا، ان کارجحان اسلام کی طرف تھا۔ ایک دلت دانشور’’ایس .ایل.ساگرجی‘‘ نے اپنی کتاب ’’ہریجن کون اورکیسے؟‘‘(ہندی) میں اس جانب اشارہ کیاہے جس کی تفصیل باب ہشتم میں ’’گاندھی واد‘‘کے زیرعنوان گزرچکی ہے ۔خود ڈاکٹرامبیڈکرجی آخرالذکرقول میں اس کی طرف لطیف اشارہ ملتاہے ۔ ایک دفعہ توانھوں نے واضح لفظوں میں دلتوں سے کہاکہ ہماری چھوت چھات سے واحدراستہ صرف قبول اسلام ہی ہے ۔ انھوں نے کہا :
’’دوستو!ہماری جوشودرہونے کی بیماری ہے وہ خطرناک ہے ۔ یہ کینسرکی مانندہے جوبہت پرانی شکایت ہے ۔ اس کی ایک دواہے اوروہ ہے اسلام ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری دوانہیں ، ورنہ یاتوہمیں اس کوبرداشت کرناہے یااس کوبھلانے کے لئے نیندکی خوراک لینی ہے ۔ اس سے بچنے کے لئے کھڑے ہوجاؤاورچلوایک تندرست انسان کی طرح ۔ اسلام ہی صرف ایک راستہ ہے ۔‘‘
ڈاکٹرامبیڈکرجی کے اس قول سے بالکل واضح ہوگیاکہ وہ صرف اسلام قبول کرناچاہتے تھے کوئی دوسرامذہب نہیں؛لیکن ان کی تبدیلی دھرم کرنے سے روکنے کے لئے گاندھی جی اورکانگریس کومعلوم تھاکہ اگرانھوں نے اسلام قبول کرلیاتوہندستان میں مسلمان غالب ہوجائیں گے اورمسلمان کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ ’’اس صورت میں نہ ہندوبچیں اورنہ ہندودھرم ‘‘۔جب حدسے زیادہ امبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی کوشش کی گئی توانھوں نے گاندھی جی اورکانگریس کوجواب دیتے ہوئے کہا :
’’کوئی انسان صرف آسانیوں کے لئے اپنی دین نہیں چھوڑتا۔ آدمی جس مذہب میں پیداہوتاہے اسے بڑی تکلیف کے ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کرتاہے ۔ میں نے ہندومذہب کواپنے اوراپنے سماج کے لئے بے حسی کے رویہ کی وجہ سے چھوڑنے کافیصلہ کیاہے۔‘‘
’’گاندھی اورکانگریس کے کچھ نیتامجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھرم کوکیوں چھوڑرہاہوں۔ میں گاندھی سے پوچھتاہوں تمہاری چھواچھوت مٹانے کی منشاء تم سے ایک ہاتھ آگے بڑھ سکتی ہے کیا؟گاندھی اورکانگریس نے اچھوتوں کے لئے کیاکیاہے ؟ تبدیلئ مذہب ایساہے جیساکہ اپنے کوڈوبنے سے بچانے کے لئے کیاگیاکوئی قدم ۔کیاڈوبنے سے بچنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھاناچاہئے۔‘‘
’’تبدیلئ مذہب مادی لالچ نہیں ،اخلاقی بہادری کاکام ہے۔‘‘
جب ڈاکٹرامبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی توان سے کہاگیاکہ آپ مسلمان بن کرکون سی ذات میں داخل ہوں گے؟مسلمانوں میں بھی [ہماری قائم کردہ] اونچی نیچی ذاتیں ہیں؛لیکن وہ ان چالوں کوسمجھ گئے کہ ہمیں غلام بنائے رکھنے کے واسطے اس طرح کہاجارہاہے اوروہ تبدیلئ مذہب پرمصررہے ۔
تبدیلئ مذہب کی بات تو ڈاکٹرامبیڈکربہت پہلے سے سوچتے اورکہتے چلے آرہے تھے۔ ان کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کے واسطے ہی گاندھی جی نے دلتوں کے واسطے بہت سے رفاہی کام کئے لیکن ان کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی کوشش میں اس وقت اچانک تیزی آئی جب انھوں نے اپنی بیوی ’’آئساہیب رامابائی(Aisaheb Rama Bai) کی وفات ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء کے ایک سال بعد۳۰۔۳۱ ؍ مئی ۱۹۳۶ء میں بمبئی کے اندرمنعقدایک بڑی مہرکانفرنس میں تبدیلئ مذہب کے بعدقبول اسلام کی طرف اشارہ کیاتھا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل توخود ڈاکٹرامبیڈکرکاوہ قول ہے جس کوانہوں نے گاندھی جی اورکانگریس سے کہاتھاجوابھی ابھی اوپرگزراکہ ’’گاندھی اورکانگریس ........نہیں اُٹھاناچاہئے۔‘‘
ڈاکٹرامبیڈکرکاقبول اسلام سے روکاجانا : جب ڈاکٹرامبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب اورقبول اسلام سے بازرکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں توایک دوسراکامیاب طریقہ اپنایاگیا۔ وہ کامیاب طریقہ اپنایاگیا۔ وہ کامیاب طریقہ تھابرہمن خاتون سے ڈاکٹرامبیڈکرکی شادی ۔اکثردلت مفکرین اوردانشوران حتی کہ ڈاکٹرامبیڈکرجی کے ایک قریبی ساتھی جناب شنکرانندشاستری جی ، ان کے صاحبزادے جناب یسونت راؤامبیڈکرجی وغیرہ کاکہناہے کہ مہاراشٹرکی ’’سراسوت‘‘ برہمن ذات کی ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹرسویتاکبیر/شاردی کبیرجی نامی عورت سے ڈاکٹرامبیڈکرجی کی شادی کوئی ان کاذاتی عمل نہیں تھابلکہ یہ شادی برہمنیت اورمنووادیت کے علمبرداروں کے اشارہ پرایک سازش کے تحت ہوئی تھی۔خودڈاکٹرامبیڈکرجی کواس شادی کاافسوس تھااورانہوں نے اپنی وفات ۶؍دسمبر۱۹۵۶ء سے صرف چندگھنٹے قبل ۵؍دسمبرکو۱۱؍بجے رات میں اپنے ساتھی شنکرانندشاستری جی سے کہاکہ وہ محترمہ شارداکبیرجی کوطلاق دینے کے لئے عنقریب کورٹ میں رٹ داخل کریں گے ، اس لئے انہوں نے طلاق کے قوانین پرمشتمل ایک کتاب بھی خریدی ہے ۔ڈاکٹرامبیڈکرجی نے اپنی بیوی آئساہب رامابائی جی کی وفات ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء کے تیرہویں سال ۱۵؍اپریل۱۹۴۸ء کوان سے شادی کی ،جنھوں نے موقع ملتے ہی اپنے برہمن وادی اورمنووادی ایجنڈاکے تحت ان کوزہردے کرمارڈالااورمطالبہ کیاکہ اب چونکہ باباامبیڈکرکی وفات ہوچکی ہے لہٰذاشیڈولڈفیڈریشن کاصدرانھیں بنایاجائے۔
ڈاکٹرامبیڈکرجی کی برہمن بیوی سویتاکبیرجی نے ان پراس طرح شکنجہ کساکہ نظام حیدرآبادنے ان سے کروڑوں روپیہ کی پیش کش کی کہ وہ اپنے دوسرے اچھوتوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیں توانھوں نے اسے ٹھکرادیا۔
" He was offered crores of rupees by Nizam of Hydrabad had he converted to Islam along with his other untouchables."
اورجب انھوں نے تبدیلئ مذہب کااعلان کیاتوتقریباً ۵۴۔۱۹۵۳ء میں دوسرے مذاہب کے اسکالرزکی طرح مولاناحفظ الرحمن سیوہارو ؒ اوردوسرے علمائے اسلام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے ، اسلام کاپیغام مساوات اوراخوتِ اسلامی ان کوبتاتے تھے۔یہ ملاقاتیں لگاتاران کی لائبریری میں ہوتی تھیں، ایک دن انھوں نے کتابوں کی ایک الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
’’مولانااس الماری میں آپ کتابیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ سب مذہب اسلام اوراسلامیات سے متعلق ہیں ۔ میں نے سیدامیرعلی ، عبداللہ یوسف علی، پکھتال اوردوسرے مسلم ، نومسلم اورغیرمسلم اسلام کے اسکالرزکی کتابوں کاتوجہ سے مطالعہ کرلیاہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ اصولی طورپراسلام سماجی جمہوریت اورانسانی مساوات کاداعی ونقیب ہے ؛لیکن ہندستان میں آپ لوگ منوکے ورن آشرم پرعمل پیراہیں اورآپ نے اپنے سماج کوبھی برادریوں میں تقسیم کررکھاہے ، میں اسلام قبول کرلیتاہوں توآپ مجھے کس خانے میں رکھیں گے ۔‘‘
اس سماجی تلخ حقیقت کامولاناؒ کے پاس کوئی جواب نہ تھااوراس طرح ۱۴؍ اکتوبر۱۹۵۶ء وجے دشمی کے دن انھوں نے اپنے تین یاچھ لاکھ ہمنواؤں کے ساتھ بدھ مذہب اختیارکرلیا‘‘۔
آج 14؍اپریل 2016ء روہت ویمولاکی ماں اوران کے خاندان کے لوگ ڈاکٹرامبیڈکرکی 125ویں برسی کے موقع پرڈاکٹرصاحب کے نقش قدم کواپناتے ہوئے بدھ مذہب قبول کریں گے ویمولاکے بھائی نے گزشتہ روزاپنے ایک بیان میں کہاکہ ان کابھائی بدھ مذہب کودل سے بہت پسندکرتاتھااسی لئے اس کی آخری رسومات بدھ مذہب کے مطابق ہی کیاگیا۔
آج مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اندرکی چھوت چھات کی لعنت کوباقی رکھیں گے یاچھوڑدیں گے؟غیرمسلموں کے لئے دیواربنے رہیں گے یادروازہ؟ڈاکٹرامبیڈکرکواسلام اپنی طرف کھینچ رہاتھامگرمسلم سماج ان کے آڑے آرہاتھا۔ آج بھی وہی سماج باقی ہے تودلت طبقہ آخرکیسے ڈاکٹرامبیڈکرکواوران کی زندگی کونظراندازکرسکتاہے؟
azizabdul03@gmail.com
Mob. 9831439068
0 comments: