بم بلاسٹ ملزمین کی بلا معاوضہ پیروی کرنے والےایڈوکیٹ شبیر کاردار کو فراموش کردیا گیا

      خیال اثر 

شب برات بم بلاسٹ کے بے گناہوں کی سب سے پہلے قانونی مدد کرنے والے ایڈوکیٹ شبیر کاردار کو اس وقت فراموش کر دیا گیا جب شہر کے نو مسلم نوجوانوں کو با عزت بری کر دیا گیا  8 ستمبر، 2006 کو ہوئے بڑا قبرستان بم دھماکے کے کے الزام میں گرفتار شہر کے نو مسلم نوجوانوں کو عدالت نے بے قصور مانتے ہوئے با عزت بری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں   عدالت کے اس تاریخ ساز فیصلے سے جہاں ملک بھر کے انصاف پسند عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں مالیگاوں میں جشن کا سماں دیکھا گیا   کیونکہ ان بے گناہوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار دیا  ضمانت کے بعد بھی عدالت کے چکر کاٹتے رہے  ان کی باعزت رہائی کے خواب دیکھنے والی نہ جانے کتنی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئیں  ان کے معصوم بچے جوان ہو گئے پورے شہر کے دعاؤں کے صدقے طفیل ان بے قصوروں کو راحت نصیب ہوئی ہے  مگر کل سے ہم دیکھ رہے کہ ہر سیاسی جماعت اس سہرے کو زبردستی آپنے سر باندھنے پر تلی ہوئی ہے اس کے علاوہ اس مقدمے کے سب سے پہلے بلا معاوضہ پیروی کرنے والے مرحوم ایڈوکیٹ کاردار کو عید کی خوشیوں میں نماز جمعہ کی طرح بھلا دیا گیا  بے حد تعجب کی بات ہے کہ شبیر کاردار سماجی خدمات کے اعتراف نہ کرتے ہوئے اتنے اہم موقع پر انھیں فراموش کیا جارہا ہے  کیا ایسے میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا جواب دے سکیں گے

0 comments:

کانگریس مکت بھارت


آزادی کے بعد گاندھی جی کا خیال تھا کہ کانگریس پارٹی کو تحلیل کردیا جائے اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس طرح سے آزادبھارت کی جمہوریت کی تقدیر لکھتے ہیں مگر کانگریسی رہنما اس پر متفق نہیں تھے۔نتیجتاًکانگریس نے انتخابات میں ایک فریق کی طرح حصہ لیا اور عرصہ دراز تک اقتدار پر قابض رہی ۔اس دوران اس نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے شکست وریخت سے دوچار ہوئی عروج و زوال کا ذائقہ بھی چکھا مگر ایمرجنسی کے بعد کے دو سال اور واچپئی کے پانچ سالہ دور حکومت کو چھوڑکر کانگریس ہی مرکزی حکومت پر قابض رہی یہ اور بات ہے کہ کئی ریاستیں اسکے ہاتھ سے نکلتی رہیں ۔کانگریسی رہنماؤں نے اپنے عروج کے زمانے میں اپنے کسی بھی مخالف کو نہیں بخشا۔مخالف جماعتوں کو مٹانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے کبھی مزدور تحریکوں کو کچلنے کے لئے مہاراشٹر میں شیوسینا کے بال ٹھاکرے کی افزائش کی تو کبھی پنجاب میں سنت جزیل سنگھ بھنڈراں والے کی پرورش کی یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر یہی لوگ کانگریس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے ۔مخالف جماعتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے کانگریس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا لیکن کانگریس پارٹی خود بھی ایک خاندان کی اجارہ داری بن کر رہ گئی ایک وقت تھا کہ اندرا از انڈیا اور انڈیا از اندرا کے نعرے پورے ملک میں گونج رہے تھے یہی وجہ ہے کہ جب نہرو خاندان کا زوال شروع ہو ا تو کانگریس بھی ہزیمت سے دو چار ہونے لگی اور کانگریس کی نیا کا کوئی کھیون ہار نہیں ملا اور ساری ذمہ داری ناتواں اور ناتجریہ کاندھوں پر آگئی۔کانگریس نے اقتدار میں رہنے کے لئے بیسا کھیوں کا سہارا لیا اور اتحادیوں نے اپنی حمایت کی خوب جم کر قیمت وصول کی ۔کانگریس کا آخری دور اقتدار گھوٹالواں اور کرپشن کا دور ثابت ہو اس درمیان میڈیا نے کانگریس کی جم کر مخالفت کی انا ہزارے کی تحریک نے کانگریس کو بری طرح پامال کیا ۔تبدیلی کی لہرمودی لہر بن کر ابھری اور کانگریس کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئی ۔ساٹھ سال تک ملک پر حکومت کرنے والی جماعت تین کے ہندسوں کے قریب بھی نہ پہنچ سکی۔مسلمان اور دلت ہمیشہ ہی کانگریس کے ووٹ بینک رہے کچھ تو کانگریس کی سیکولر اور کچھ فرقہ پرست جماعتوں کے خوف نے مسلمانوں کو ہمیشہ کانگریس کے قریب رکھا کانگریس نے اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،شاہ بانو اور بابری مسجد جیسے مسائل میں الجھا کر مسلمانوں کو کبھی اپنے تعلق سے سوچنے کا موقعہ نہیں دیا ۔ ۲۰۰۲ ؁ کے گجرات فسادات کو چھوڑ کر تقریباً جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے وہ کانگریس کے دور میں ہوئے ۔بیشتر فرضی انکاؤنٹر اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں بھی کانگریس کی ہی مرہون منت ہیں پھر بھی مسلمانوں کی اکثریت کانگریس سے ہی وابستہ رہی مگر بابری مسجد کے سانحہ نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ کانگریس سے بددل ہو گئے۔ بابو جگ جیوں رام کے بعد کوئی بھی رہنما دلتوں کو کانگریس سے جوڑے رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔ کانسی رام اور مایا وتی کے عروج نے دلتوں اور پسماندہ طبقوں کو کانگریس سے دور کردیا ۔منہ بھرائی اور ہر ایک کو خوش رکھنے کی پالیسی بھی کانگریس کے لئے سم قاتل ثابت ہوئی ۔نتیجہ علاقائی پارٹیوں کی مقبولیت کی شکل میں ظاہر ہوا اور کانگریس مرکز میں اقتدارمیں رہتے ہوئے چند صوبوں میں سمٹ کر رہ گئی ۔آج حالت یہ ہیکہ کانگریس ایک علاقائی پارٹی سے بھی کمزور نظر آرہی ہے ایک کے بعد ایک ریاستیں اسکے قبضے سے نکل گئی ہیں ۔جو باقی رہ گئی ہیں وہ بی جے پی کی ریشہ دوانیوں اور خود اپنوں کی نافرمانیوں کا شکار ہو کر آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔پارٹی میں کوئی رہنما ایسا نہیں ہے جو کانگریس کے ناتواں جسم میں قوت ڈال سکے ۔سونیا جی ابھی بھی غیر ملکی ہی نظرآرہی ہیں راہل گاندھی میں پختگی نہیں آپارہی ہے حالانکہ بی جے پی حکومت اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام ہے اور غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے مگر کانگریس میں اسکی غلطیوں کا فائدہ اٹھانے کی صلاحت نہیں رہ گئی ہے۔ جے للیتا، ممتا ، کیجری وال اور نتیش کمار کے عروج کی قیمت بھی کانگریس کو ہی چکانی پڑرہی ہے ۔ اسلئے اندیشہ یہی ہے کہ اپنی تمام ترخامیوں کی وجہ سے بھلے ہی بی جے پی اگلے پارلیمانی انتخابات کے بعد اقتدار میں نہ رہے لیکن کانگریس کے لئے بھی کوئی مزدۂ جانفزا نہیں ہے

ڈاکٹر اصغر علی انصاری
آعظمی نگر، بھیونڈی
مہا راشٹر۔
email: asgharansari2@gmail.com

0 comments:

اردو ہے جس کا نام اس کو ۔۔۔۔۔!


مسلمانوں کی طرح اردو بھی مصیبت کی ماری زبان بن چکی ہے ۔ جس طرح
 بھوکا انسان کھانا دیکھنے کے بعد صبر کا دامن چھوڑ دیتا ہے ٹھیک اسی طرح اردو زبان کے ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں کا حال ہو گیا ہے ۔اگر وہ ایوارڈ کے لئے منتخب ہوتے ہیں تو سمجھتے ہیں جیسے ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ آگئی ہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ ایوارڈ وصول کرتے وقت یہ دھیان تک نہیں دیتے کہ اس ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ان کی اور ان کی مادری زبان کی کتنی تضحیک کی گئی ہے ۔اس سال مہاراشٹر اردو ادبی ایوارڈ تقسیم کرتے ہوئے بھی ایسا ہی کچھ ہوا ۔روایت سے ہٹ کر شیلڈ پر وزیر برائے اقلیتی امور ایکناتھ کھڑسے اور ان کے محبوب نظر اکیڈمی کے کارگزار صدر عبد الرؤف خان صاحب جنہوں نے ایکناتھ کھڑسے کی محبت میں اپنے نام کے ساتھ بھی کھڑسے لگا رکھاہے ،کی تصویریں نمایاں طور پر چھپی تھیں ۔این سی پی یو ایل کے وائس چیئرمین مظفر حسین کے مطابق یہ انتہائی ذلیل سطحی اور گھٹیا حرکت ہے ۔اس کے خلاف اردو داں حلقہ کو احتجاج کرنا چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کی حرکت کرکے اردو والوں کو ذلیل نہ کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ایوارڈ جس کو دیا جارہا ہے وہ اہم ہے یا جس کے ذریعے دیا جارہا ہے وہ شخصیت اہم ہے۔یہ ایک بری روایت ہے جس کو رواج دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس وقت ایوارڈ دیا جارہا تھا اسی وقت ایوارڈیافتگان اس تضحیک پر احتجاج کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ۔اسی سلسلے میں آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن کے دفتر میں منعقد ایک میٹنگ میں دوران گفتگو ایک اردو اخبار کے صحافی نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ بھلا ایوارڈ وہ کیوں واپس کرتے کتنی مشکلوں سے جد وجہد و بھاگ دوڑ اور سفارشوں کے بعد تو ایوارڈ ملتا ہے !
ہمیں زیادہ کچھ نہیں کہتے ہوئے صرف اتنا کہنا ہے کہ پورے مہاراشٹر کا تو نہیں ہاں البتہ ممبئی میں جن لوگوں کو ایوارڈ دیا گیا اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ احساس جاگ جاتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی کئی قابل اور مخلص افراد موجود تھے جن کی خدمات بہت زیادہ ہیں وہ اس ایوارڈ کے زیادہ مستحق تھے ۔لیکن بہر حال جو فرد اپنے آپ میں انجمن ہوتے ہیں وہ اس کی خواہش ہی نہیں رکھتے کہ کوئی انہیں ایوارڈ یا ان کے کاموں کی ستائش کرے ۔وہ تو ستائش اور صلے کی پرواہ کئے بغیر بے تکان اپنی دھن میں اپنا ادبی اور صحافتی سفر طے کررہے ہیں ۔لیکن ہم یہ ضرور چاہیں گے کہ کم از اکم ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا جائے جو اردو کی تحقیر کا ذریعہ بن جائے اور غیر اردو داں طبقہ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہے کہ اردو والوں میں بس اب اسی معیار کے لوگ رہ گئے ہیں ۔
جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ اردو مصیبت کی ماری زبان بن چکی ہے ۔اس کی تعریف سب ہی کرتے ہیں لیکن صرف مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے ۔کیوں کہ مسلمانوں کی ایسی باتیں خوش کرتی ہیں ۔وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہیں یا حالات نے انہیں جذباتی بنا دیا ہے ۔کوئی اردو کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دے تالیوں کی گونج سے آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے ۔لیکن نہ عملی طور پر کچھ ہونا ہے اور نہ ہوگا ۔اس کے لئے جب تک ہم نہ جاگیں اور جذباتی باتوں سے بچتے ہوئے ہم اپنی زبان جو ہماری ایک تہذیب کی ترجمان بھی ہے اور جس میں ہمارا دینی سرمایہ بھی محفوظ ہے کو خود سے ہی اپنے گھروں اپنے محلوں اور اپنی انجمنوں میں رائج نہ کریں ۔یہاں تو حالات یہ ہے کہ ہم نے خود ہی اپنے گھروں سے اپنے خاندان سے اور آنے والی نسلوں سے اردو کو نکال دیا ہے ۔پوچھنے پر کہتے ہیں کہ بھائی روز گار کا معاملہ ہے کیا کریں ۔ لیکن دنیا کے سارے علوم و فنون حاصل کرنے کے ساتھ ایک اردو بھی پڑھ لیں جہاں اردو نہیں ہے وہاں والدین یا تو اسکول کو مجبور کریں کہ وہ اردو اساتذہ کا تقرر کریں یا پھر اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں اور گھر میں عام بول چال میں اردو میں ہی گفتگو کریں ۔لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ اردو کے اساتذہ ،صحافی جو اردو سے ہی اپنی روزی روٹی حاصل کررہے ہیں انہوں نے بھی اپنی نئی نسلوں سے اردو کو دور کردیا ہے ۔اب تام جھام والے انگریزی اسکولوں میں پڑھانا اسٹیٹس کا معاملہ بن گیا ۔ان کے سامنے میونسپل اسکولوں میں پڑھانا شان کے خلاف ہے ۔جبکہ ہم ملک اور دنیا میں کامیاب ترین لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری اسکولوں سے ہی تعلیم حاصل کی ہے ۔دو تین سال قبل ممبئی کے صابو صدیق کالج میں اردو کتاب میلا کا انعقاد ہوا تھا ۔دس روزہ اس میلے میں جو کتابیں بکی تھیں وہ غالباً ستر اسی لاکھ کی تھیں ۔ جسے ایک ریکارڈ بتایا گیا تھا ۔ٹھیک اس کے اختتام کے ساتھ ہی مہاراشٹر کے کسی شہر میں مراٹھی ساہتیہ میلہ بھی منعقد ہوا تھا اس تین روزہ میلہ میں دو کروڑ سے زیادہ کی کتابیں بکی تھیں ۔غور کیجئے دس روز تک اردو والے جھک مارتے رہے تب ستر اسی لاکھ کی کتابیں بکیں اور مراٹھی والوں نے صرف تین روز میں تین گنا سے زیادہ کی کتابیں بیچیں۔اب ہم یہاں رونے اور سینہ کوبی کرنے کے بجائے اپنا محاسبہ کریں ۔اسی اردو میلہ کی ہمارے پاس دو مثالیں ہیں ۔ایک صاحب اردو میں بہت مضامین اور مراسلے تحریر کیا کرتے ہیں اور اردو کے لئے کیا کیا جانا چاہئے اس پر خوب اپنے زریں مشوروں سے نوازتے ہیں ۔حکومت مہاراشٹر میں ایک اہم افسر ہیں اچھی تنخواہ پاتے ہیں خوشحال زندگی گزارتے ہیں ۔اس وقت بھی ان کے جیب ہزاروں روپئے سے بھرے تھے جو کہ باہر سے نظر آرہے تھے لیکن ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں دیکھ کر پوچھا کہ کوئی کتاب نہیں خریدی ۔اب بیچارے کیا جواب دیتے کہنے لگے بیگم لے گئی ہیں ۔اسی طرح ایک دوسرے صاحب ہیں انہوں نے بہت تیر مارا تو انہیں پورے کتاب میلہ سے صرف ایک پچیس روپئے کی کتاب ہی ملی ۔اس کے برعکس کئی ایسے لوگ جن آمدنی انتہائی قلیل لیکن وہ نصیحت کو دوسروں پر لادنے کا حق نہیں سمجھتے بلکہ اس پر عمل کرتے ہیں تاکہ دوسرے بھی نصیحت پکڑیں انہوں نے کتابیں خریدیں اپنی بساط سے اوپر اٹھ کر خریدیں اور دوسروں کو بھی تحفہ کے طور پر پیش کی۔
سچ پوچھئے تو ہندوستان میں اردو اکیڈمیاں اردو کی قتل گاہیں ہیں ۔کیا اردو اکیڈمیوں کے ذریعہ چند صحافیوں ،شاعروں ادیبوں کو ایوارڈ دے دینے یا مشاعرہ کروانے مہنگے شاعروں کو مدعو کرکے بھیڑ اکٹھا کرنے اور اس سے اردو کی ترویج و اشاعت کے نام پر جاری ہونی والی رقومات کی بندر بانٹ سے اردو کی بقا ممکن ہے ؟اول تو اگر اردو کی ترویج و اشاعت میں جن کا اصل میں کام ہے جنہوں نے اس کے لئے محنت کی ہے اس کو بغیر سفارش کے ایوارڈ کے لئے منتخب کیا جانا چاہئے ۔لیکن یہاں سفارشوں اور رشوت پر سارا معاملہ چل رہا ہے ۔جس سے اردو کے اصل خادم محروم ہو جاتے ہیں ۔دوم یہ کہ اگر آج اردو ہندوستان میں جس قدر بھی اپنا وجود منوائے ہوئے ہے وہ محض مدارس اسلامیہ کے رہین منت ہے ۔ جس کو کوئی گرانٹ نہیں ملتا بلکہ ملت کے چندوں پر ہی چلنے والے ان مدارس اسلامیہ نے کبھی اردو کے خادم ہونے کا اور اس کے عوض موٹی کمائی شہرت و ناموری حاصل کرنے کی کوئی سعی کی ۔اس لئے اگر ایوارڈ ملنا ہی چاہئے تو اس میں مدارس اسلامیہ کا حصہ زیادہ ہونا چاہئے ۔اردو کے تئیں مدارس اسلامیہ کی خاموش خدمات سے متاثرایک اسلام بیزار ادیب نے جھلا کر لکھا تھا ’’یہ اردو کے اخبار والے ان ملاؤں کی چاپلوسی اس لئے کررہے ہیں کیوں کہ اب یہی مدارس اردو کی بقا کی ضمانت ہیں ‘‘۔اسی طرح جشن ریختہ میں جاوید اختر نے کہا کہ اردو مولویوں کی نہیں شریفوں کی زبان ہے۔لیکن اللہ ان کی اسلام دشمنی میں ہی ان سے ان کے خبث کی نفی کروادی کہ آج اردو صرف اور صرف مدارس اسلامیہ کی وجہ سے زندہ ہے اور آئندہ بھی یہی جبہ و دستار والوں کے سایہ میں ہی اردو کے زندہ رہنے کی امید ہے۔جادو وہی جو سر چڑھ کر بولے ۔یعنی آپ کا سخت ترین دشمن بھی آپ کی خدمات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائے ۔اردو کی ترویج و ترقی کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اردو اسکولوں کو معیاری اردو اساتذہ مہیا کرایا جائے ۔جہاں جہاں اردو اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں انہیں پر کیا جائے ۔ہائی اسکول اور ہائر سیکنڈری کے امتحانوں میں اردو مضامین میں بہتر نمبر لانے والے طالب علموں کو انعامات سے نوازا جائے ۔پہلے مغربی بنگال اردو اکیڈمی دسویں کے امتحان میں اردو مضمون کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کرنے والوں انعامات سے نوازتی تھی ۔
یوں تو اردو اکیڈمی کے ذمہ دار کا عہدہ پوری طرح سیاسی داؤ ں پیچ کا شکار رہتا ہے ۔لیکن اس بار کے ذمہ دار کا انتخاب نہیں ہوا ہے بلکہ انہیں اردو داں طبقہ پر مسلط کیا گیا ہے ۔اردو کے ایک مشہور صحافی سے دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ میرے خلاف لکھ کر ہی کیا ہوگا ۔اب سے پہلے لوگوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب انکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پایا تو اب میرا کیا ہوگا۔ان کی اس بات سے ایک بات تو صاف کردینا ضروری ہے کہ ہم صحافیوں کا کام صرف پوچھنا اور اس سے جو معلومات حاصل ہو اسے عوام تک پہنچانا ہے ۔ہمارا کام نہ تو فیصلہ کرنا اور نہ ہی کسی کاکچھ بگاڑنا یا بنانا ہے ۔یہ خبر جو عوام تک پہنچی ہے کہ بھساول اور جلگاؤں کے سہ روزہ اردو میلہ میں 23 یا 26 لاکھ خرچ ہوئے یہ بھی ایسے ہی سوال کی وجہ سے ممکن ہو پایا ۔ورنہ اردو اکیڈمی کو تو ہوش ہی نہیں کہ اکیڈمی کے اخراجات اور اس کی کارگزاریوں میں اتنی شفافیت ہو کہ عوام اس سے پوری طرح واقف ہوں لیکن یہاں کا معاملہ یہ ہے کہ عوام کو نہ تو اس کے بجٹ کا اور نہ ہی اس کی کارکردگی ،دائرہ کار اور ذمہ داری کے بارے میں معلومات ہوتی ہے ،سب کچھ اندھیرے میں ہے ۔کبھی کسی صحافی نے سوال کردیا تو کچھ معلومات مل گئی ورنہ نہیں۔
اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام بات چیت میں اشوک چوان نے کہا کہ اردو اکیڈمی کو وزارت اقلیتی امور میں دینے کے لئے آپ کے ہی لوگوں نے دباؤ دیا تھا ۔’معیشت ‘کے مطابق یہ اشارہ ان کا عارف نسیم خان کی طرف تھا ۔حالانکہ عارف نسیم خان کی طرف سے کچھ صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں اردو اکیڈمی کا بجٹ ایک کروڑ کیا گیا ۔لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ آخر اردو اکیڈمی کو وزارت ثقافت سے نکال کر وزارت اقلیتی امور میں ملانے سے اردو والوں کا یا اقلیت یعنی مسلمانوں کا کیا فائدہ ہو گیا ۔الٹا اس سے یہ نقصان ہو ا کہ نام نہاد اقلیتی بجٹ میں سے ایک اور بندر بانٹ والا خرچ نکل آیا ۔اگر اردو اکیڈمی وزارت ثقافت کے زیر نگیں ہو گی تو اس کا بجٹ وزارت ثقافت میں سے جائے گا ۔لیکن اقلیتی امور کے ماتحت آنے سے اقلیتی بجٹ میں ایک اضافی تصرف ہوا۔بے شک ہمیں اپنوں نے ہی برباد کیا ہے ۔ہمارے ہی لوگوں نے نام نہاد مختص کی گئی بجٹ کا تیا پاچا کرکے مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید اور بہتر کام نہیں ہونے دیا ۔صرف چند صحافیوں کو خوش کردینے اور فرضی پیڈ نیوز شائع کرنے سے کیا مسلمانوں کا بھلا ہو جائے گا ؟اس لئے اردو داں طبقہ کو پورے زور شور سے ایوارڈ کی شیلڈ پر غیر ضروری تصاویر کی اشاعت اور ایوارڈ کی بندر بانٹ اور اردو اکیڈمی کے بجٹ کو غیر ضروری مصارف میں استعمال کرنے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانا چاہئے اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں انہیں عوام کے سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہئے ۔

نہال صغیر۔ بلاد آدم ۔ ضلع ویشالی ۔ بہار:843105۔ موبائل :9987309013 ای میل:sagheernehal@gmail.com

0 comments:

چیف جسٹس آف انڈیا ، جسٹس ٹی ایس ٹھاکر ،نے کل دہلی میں وزیر اعظم مودی کے سامنے بھارت کے کروڑوں لوگوں کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کی: سوز ؔ


سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میڈیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
سرینگر ؍۲۵ ،اپریل ۲۰۱۶ء ؁
’’چیف جسٹس آف انڈیا شری ٹی ۔ ایس ۔ ٹھاکر ،نے کل وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے بھارت کے کروڑوں لوگوں کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کی ۔ انہوں نے درد مندی سے کہا کہ بھارت کے عوام کی طرف سے پورے ملک کی عدالتوں میں لاکھوں مقدمات کے نمٹانے میں جو تاخیر ہوتی ہے اس سے انصاف کے بجائے لوگ ذلت ، نا انصافی اور رشوت خوری کے شکار ہو ئے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پور ے ملک کی عدالتوں میں ججوں کی معقول تعداد موجود نہ ہونے سے عام لوگ وقت پر انصاف سے محروم ہو جاتے ہیں اور انکی زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔
شری جسٹس ٹی ۔ ایس ٹھاکر نے بجا طور پر اور کھلے عام بھارت کے انتظامیہ کی طرفسے سے عدالتوں کے معاملات کے ساتھ غفلت بھرتنے پر افسوس کا اظہار کیا ۔
اس سے قبل سابقہ چیف جسٹس ایچ ۔ایل ۔ دتو (Dattu) نے 6 دسمبر 2014ء ؁ کو پورے ملک کو خبردار کیا تھا کہ ملک بھر میں تین کروڑ سے زائد مقدمات عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ ان زیر التواء مقدمات کی تعداد ایک عالمی ریکارڈ بن گیا ہے۔
میں جسٹس ٹی ۔ ایس ٹھاکر کو بھارت کے عوام کو انصاف دلانے کیلئے انکی تڑھپ کیلئے مبارکباد دیتا ہوں ۔
ہندوستان کی عدلیہ کی طرف ملک میں ریاستی حکومتوں کی غفلت شعاری کی ایک اور مثال ہمارے سامنے یہ ہے کہ ریاستی حکومتیں عدالتی فیصلوں کو یا تو التواء میں ڈالتے ہیں یا یکسر عمل آوری سے منہہ موڈ دیتے ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اس امر میں سب سے زیادہ آگے ہے کیونکہ بہت برسوں سے اس ریاست میں حکومتوں نے عدالتی فیصلو ں کی عمل آوری میں ایک تعطل پیدا کیا ہے اور اسطرح لوگ انصاف حاصل کرنے میں ناکا م ہوئے ہیں۔ ‘‘
بلال نذرہ انچارج پبلسٹی
0194-2303456, 08713825055

0 comments:

افسپا کے قانون کو جتنا جلد ہٹایا جا سکے ، اتنا ہی بہتر ہے : سوزؔ



سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے آج میڈیا کے نام مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے۔
سرینگر ؍ ۲۳ اپریل ۲۰۱۶ء ؁
’’جہاں تک ریاست جموں وکشمیر میں افسپاء کے نفاذ کا تعلق ہے ، میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کئی برسوں سے اس قانون کو پوری ریاست سے ہٹانے کیلئے جدوجہد کی ہے۔
میں نے یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس وقت کے ہوم منسٹر شری پی چدامبرم کے ساتھ اٹھایا تھا جو خود بھی اس قانون کو پوری طرح ریاست جموں وکشمیر سے ہٹانے کے حق میں تھے۔ کیونکہ انکی رائے میں اس قانون کا نفاذ فائدے کے بجائے ہندوستان کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا رہا تھا۔ انہوں نے میرے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ حالانکہ انکے سارے ساتھی انکے ساتھ اس امر پر اتفاق کرتے تھے تاہم وہ وزارت دفاع کو اس قانون کی منسوخی کیلئے ہم نوا نہیں بنا سکے تھے!
آج اس قانون پر میری رائے یہی ہے کہ اس قانون کو اس ریاست سے جلد سے جلد ہٹایا جانا چاہئے کیونکہ اس قانون سے کشمیر میں علیحدگی پسندی اور دل آزاری بڑھتی جا رہی ہے۔
میری خواہش ہے کہ دہلی کا با اختیار سیاسی ٹولہ اس حقیقت کو سمجھے کہ اس قانون سے خاص طور کشمیر میں نوجوانوں کی دل آزاری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے اس قانون کو اس ریاست سے جلد سے جلد ہٹانا چاہئے۔ ‘‘

بلال نذرہ انچارج پبلسٹی
0194-2303456, 08713825055

0 comments:

تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے



جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

قوموں اور ملتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ عروج و زوال میں تعلیم یافتہ افراد کا سب سے اہم اور کلیدی رول رہا ہے اسی لیے دنیا کی ہر مہذب و ترقی یافتہ قوم نے اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا اور وہ زندگی کے رموز کو پانے کے لیے علم کے عمل کو نہ صرف نسل درنسل منتقل کرنے کی ہر ممکن سعی کرتی رہی ہے بلکہ یہ بات بھی ترقیاتی قومیں اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ جو قومیں اپنے تابناک ماضی سے کٹ جاتی ہیں گویا وہ اپنی جڑ کو ہی کھودیتی ہیں۔ 
ایک دانشور کا کتنا بامعنیٰ قول ہے کہ وہ قومیں کبھی نہیں مرتیں ہیں جن کی تجربہ گاہیں تادیر روشن رہتی ہیں۔ یہ وہی لوگ یا وہی قومیں روشن کرسکتی ہیں یا کرتی رہی ہیں جو زمانے کے بدلتے تقاضوں کے مافی الضمیر کو سمجھنے اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے عزم و عمل سے لیس ہوں۔ یہ کاہلوں اور جاہلوں کا کام نہیں ہے۔ یہ توہمہ وقت مستعد اور آمادۂ کار ذہنوں کا حق ہے کیوں کہ جاہل اور کاہل وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ 
واضح رہے کہ جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں علم کا عمل تھا، وہ پوری دنیا میں نہ صرف سرخرو ہی رہے بلکہ دنیا پر حکمرانی بھی کی اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بھی بنے رہے۔ لیکن مسلمان جیسے جیسے علم و ہنر سے روگردانی کرتے گئے اپنے ماضی سے کٹتے گئے اور آج ناگفتہ بہ حالات پر پہنچ گئے۔ حتیٰ کہ ہر کس و ناکس کی تضحیک کا موضوع بنے ہیں نیز مذہب و ملت اور اسلاف کے کاموں اور کارناموں کو بھی رسوا و ذلیل کرتے جارہے ہیں۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ جس مذہب کی ابتدا ’اقراء‘ پر ہو اور جس دین نے اپنے ماننے والوں پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہو اور ہر مرد و وزن کے لیے ضروری ہو کہ وہ زندگی اور کائنات کے پُراسرار حقائق سے واقف ہو، تاکہ جس معاشرے میں وہ شب و روز گزار رہے ہیں اس میں ان کی حیثیت کیا ہے، صحیح مقام و حیثیت کیا ہے، اس کا پوری طرح علم ہو۔ تعلیم انہی بنیادی حقائق کو آشکارا کرتی ہے۔ 
اسلام کے ابتدائی ادوار پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی آخر الزماںؐ نے تعلیمی اہمیت و ضرورت پر جابجا زور دیا ہے اور مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ ابتدائی دور میں رسول اکرم اور صحابہ کرام اس فرض کو بلامعاوضہ انجام دیتے تھے۔ دارارقم، مسجد نبوی وغیرہ جنہیں اسلام کے تعلیمی مراکز کی حیثیت عام تھی وہاں فری داخلہ اور فری تعلیم کا نظم قائم تھا اور یہ سلسلہ آج تک اکثر جگہوں اور اداروں میں قائم ہے لیکن افسوس کہ تعلیم کا اصل مقصد اور اس کی روح مفقود ہوگئی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ آج ہم نے اپنی تعلیم کو تقسیم کرکے خود کو بھی تقسیم کرلیا ہے۔ ہم آج دینی و عصری تعلیم میں ہٹ کر اس سے حاصل ہونے والی حکمت و دانائی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس کے نتیجے میں اغیار نے ہم پر یلغار کر رکھی ہے۔ ہمارے مدرسے اور مساجد دشمنوں کی نظروں میں اب دہشت گردی کے اڈے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر شخص تعلیمی نظام میں نت نئی تبدیلیوں کے لیے مشورے دینے لگا ہے۔ کوئی اسے بھگوا کرن کرنے کی تلقین کرتا ہے تو کوئی سیکولرزم پر مبنی درس دے رہا ہے اور مسلمان اپنی اپنی فکر کی الگ الگ کشتیوں میں سوار تباہی کی منجدھار میں غوطہ زن ہیں۔ 
مدارس کے کردار ہوں یا مسلمانوں کی تاریخ انہیں مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش ہر دور میں رہی ہے چاہے وہ یوپی اے کا دور رہا ہو یا این ڈی اے کا۔ ہر ایک نے ہی ان پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی ہے اور تاحال یہ سعی جاری بھی ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ قرائن و قیاس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں۔ موجودہ حکومت سے کسی خیر کی امید رکھنا محض سادگی ہی کہی جائے گی۔ مسلمانوں کے تعلق سے جس طرح کی خیرخواہی کا دم بھرا جارہا ہے اور اس تعلق سے مسلمانوں میں ہی کچھ لوگ حکومت کی تائیدو حمایت میں آگے آگے ہیں، ان کی درپردہ ذہنیت اور مساجد و مدارس پر تسلط رکھنے والوں کی نیتوں پر کسی طرح کا تبصرہ کیے بغیر حقائق کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا، وہ بھی ایسے حالات میں جب حکومت خود اپنی سرپرستی میں ان نام نہاد علما و صوفیوں کی عالمی سطح کی کانفرنسیں کراکر خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ 
اس وقت حکومت کے کارندے، مدارس و مساجد کے علاوہ مسلمانوں کے پرسنل لا پر حملہ آور ہیں او رہمارے پرسنل لا بورڈ کے عمائدین کرام اپنا دائرہ کار وسیع کرنے میں پیش پیش ہیں یعنی پرسنل لا بچانے کے بجائے دستور اور سیکولرزم بچانے میں اپنی ساری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ جب ایسی صورت حال کسی قوم کے علماء و اکابر حضرات کی بن جائے گی تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کتنی سچی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہماری نیتوں اور اعمال کے نتیجے میں ہی ہو رہا ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے چند بڑے مدارس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مدارس کا سیلاب ہے۔ ان مدارس میں بچوں کے نام رقوم جمع کی جاتی ہیں اور بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ راقم کے سامنے کئی ایسے مدارس ہیں جہاں سوائے روپیہ بٹورنے کے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے انہیں ٹوکنے اور روکنے کی کوشش کی تو آپ دین کے دشمن یا مداخلت فی الدین کے مرتکب قرار دے دیے جائیں گے۔ اس صورت حال سے مسلم پرسنل لا کے ذمہ داران اور اداروں و تنظیموں کے ذمہ داران خوب واقف ہیں۔ اصلاح سماج کے رسائل اور تنظیمیں بھی بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن ان کا کام نہ ہمیں نظر آتا ہے اور نہ ان اداروں کو ہی یہ نام نہاد ادارے نظر آتے ہیں۔ 
یوں تو یہ مدارس ہر چھوٹے بڑے شہر میں، قصبات و دیہاتوں میں مقامی آبادی کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ مدارس علاقائی ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قائم کیے جاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مدارس کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی قائم ہے جہاں حفظ قرآن اور ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور بعض مدارس میں درس حدیث کے انتظام ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان مدارس میں درس حدیث کا حق ادا نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں ہی ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبا صحیح معنوں میں عالم دین نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ شہر کی کسی ویران مسجد کو آباد کرتے ہیں یا پھر کسی دور افتادہ علاقے میں مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح چندہ کا دھندہ کرنے والوں کی ایک نسل تیار ہوجاتی ہے اور یہی لوگ کچھ اور آگے بڑھ کر عرب ملکوں سے خیرات و زکوٰۃ کی کثیر رقوم حاصل کرنے لگتے ہیں جس سے انہیں خاصی تقویت ملتی ہے۔ 
ہمارے خیال میں ان چھوٹے مدرسوں (دکانوں) پر اگر کنٹرول کرنا ہے تو علاقے کے لوگ ان کی طرف توجہ دیں اور انہیں اپنے علاقے کے بڑے مدرسوں سے الحاق کردیں، اس طرح ملت کی بڑی رقم جو دین کے نام پر بیجا صرف ہو رہی ہے صحیح جگہ پر خرچ ہوگی اور بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ ہونے کے بجائے ان کی تعلیم و تربیت سے اور باوقار دینی و عصری تعلیم سے بھی آراستہ ہوگی۔ ایسے مدارس قائم کریں جہاں دینی و عصری تعلیم کا انتظام ہو۔ دو دو جگہ بٹ کر بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے اور والدین پیسوں کے بوجھ تلے مرے جارہے ہیں۔ جدید طرز کے پرائیویٹ اسکولوں میں بچے کتابوں کے بوجھ سے ہانپ رہے ہیں تو ان کے ماں باپ ان کی فیس خصوصاً ڈونیشن کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں۔ یہ ایسا موقع ہے کہ اگر مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں نیک نیتی سے ایسے مدرسے یا اسکول قائم کریں جس میں دین و دنیا دونوں کی تعلیم کا انتظام ہو تو نام نہاد اسکولوں اور مدرسوں سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی اور غیروں کی طرف سے ہر روز برسنے والے تیروں سے بھی۔ یہی نہیں بلکہ ان اسکولوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے آپ کے بچے ایمان و عقیدے کے طور پر مسلمان بھی رہیں گے اور خدائی حکم ’اقراء‘ کے معنی و مفہوم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کریں گے۔ بصورت دیگر ہمارے بچے غیر مسلم اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے اور وہ اپنے دین، اپنی تہذیب و تمدن سے ناآشنا ہوں گے اور ہاتھ جوڑنے، پاؤں چھونے جیسے آداب بھی سیکھیں گے اور اپنا ایمان و عقیدہ بھی بندے ماترم وغیرہ پڑھ کر کھودیں گے جیسا کہ دیکھا جارہا ہے کہ آج کل ہمارے بچے ان اسکولوں میں سے آدھے مسلمان اور آدھے ہندو بن کر نکل رہے ہیں او رہم سب یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی برداشت کر رہے ہیں۔ 
اللہ کے رسولؐ کا فرمان کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ کتنا واضح ہے لیکن ہمارے کچھ علماء نے نہ معلوم کیوں اسے غیر واضح کردیا ہے۔ نہ اس حدیث میں تعلیم کے بارے میں عورت و مرد کی تفریق ہے اور نہ ہی دینی و عصری تعلیم کا فرق بیان کیا گیا ہے، بلاتفریق تعلیم سیدھی سیدھی بات کہی گئی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ تو ہم صرف دینی تعلیمی ادارے ہی کیوں قائم کرتے رہے؟ 
مضمون کی اوائل سطروں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دو طرح کی تعلیم مروج ہے۔ ایک دنیوی اور دوسری دینی اور دونوں کی جامعات الگ الگ ہیں۔ دنیوی جامعات میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ عصری ضرورتوں کے مطابق ہے لیکن ان میں دینی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسلم بچوں کی کثیر تعداد دینی علوم سے بے بہرہ رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس دینی جامعات ہیں جن کے نصاب تعلیم میں عصری ضرورتوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، ان جامعات کے فارغین دنیوی علوم سے بالکل ہی ناواقف ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب دینی طلبا عملی زندگی میں خود کو ناکام محسوس کرتے ہیں تو ایسے راستے اختیار کرلیتے ہیں جو دینی شعار کے خلاف ہوتے ہیں۔ کھلی بات ہے کہ تعلیم کی یہ تقسیم غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس نے مسلمانوں کو بے اندازہ نقصان پہنچایا ہے۔ 
تعلیم کی اس دوری کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک ہی طرح کی جامعات ہوں جن میں بقدر ضرورت دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم دی جائے۔ اعلیٰ مذہبی تعلیم کے لیے علاحدہ سے ایک یا دو دینی درس گاہوں کا انتظام ہو جہاں مسلمانوں کی دینی ضروریات کے مطابق بلندپایہ عالم تیار کیے جائیں۔ 
یوں تو یہ بہت بڑا کام ہے لیکن نیک نیتی ہو اور عزم و استقلال ہو تو کوئی بڑا کام نہیں۔ ہمارے یہاں کئی بڑی جماعتیں ہیں جن میں ایک بڑی جماعت اسلامی ہند ہے جو بڑی حد تک اس طرح کا کام انجام بھی دے رہی ہے، اس کے کئی ادارے ایسے ہیں جہاں دینی و عصری تعلیم کا کسی حد تک انتظام ہے۔ اگر وہ اس بڑے کام کا بیڑہ اٹھالے تو یہ ایک بہت بڑی قومی ملی اور دینی خدمت بھی ہوگی اور امت مسلمہ ہمیشہ اس کی احسان مند رہے گی۔ 
جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ہیں کہ تعلیمی کام ایک مسلسل عمل اور سعی پیہم کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک نسل سے دوسری نسل میں تہذیبی ورثے کا کام کرتا ہے۔ اس لیے اسے قائم و دائم رکھنے کے لیے پورے عزم و استقلال سے اس فریضہ کو انجام دینا ہوگا۔ یاد رکھیے! ہمارے تعلیمی، تہذینی اور دینی ورثے کو نہ صرف چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ اسے مکمل طو رپر تباہ کردینے کی عالمی طور پر سازشیں بھی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے اسے ہمیں سچے دل سے سوچنا ہوگا۔ (باقی آئندہ) 

0 comments:

ٹرمپ کا جنون اور مسلم دنیا

جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے جنگی جنون سے بھلا کون ہے جو واقف نہیں، اس کے پاگل پن سے صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا نہ صرف واقف ہی ہے بلکہ حد درجہ خوف زدہ بھی رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جنونی کیفیت صرف جارج بش تک ہی محدود نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے پر اس طرح کا جنون پایا اور دیکھا جارہا ہے۔ 2008 کے صدارتی انتخابات میں بھی بش سے کہیں زیادہ جنونیت اور پاگل پن کا مظاہرہ کیا گیا اور اب پھر 2016 میں بھی ہونے والے صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی شکل میں عہدۂ صدر کے جنونی امیدوار اپنے تمام سابق صدور کے پاگل پن کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔
گزشتہ انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ٹام کریڈو تھے، ان پر جب جنون سوار ہوا تو دہشت گردی کے ممکنہ ایٹمی حملہ سے بچنے کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی تھی اور موصوف پر صرف انتخابات کے دورن ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی امریکی حکومت کو اس طرح کے مشورہ دینے کا دورہ پڑچکا تھا۔ تو اب جارج بش اور ان کے جانشینوں کے اقدام و عزائم سے تو یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی تاریخ کے بدترین صدر بش کے بعد اب اس ملک کی تاریخ پر سب سے کم فہم اور خونخوار دہشت گرد قصر صدارت پر براجمان ہونے والا ہے، جس کی جڑیں نسلی تعصب اور اسلام دشمنی میں پیوست ہیں اور جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کہیں تک جاسکتا ہے۔
گزشتہ دہائی ہی کی بات ہے جب امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے بش کی وحشیانہ پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں امریکی تاریخ کا سب سے بدترین صدر قرار دیا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں منتخب ہونے والے امریکی صدر کا معاملہ تو اور بھی سنگین اور وحشت ناک لگتا ہے کہ آئندہ امریکہ کے صدارتی عہدے پر فائز ہونے والے ایسے ہی بد سے بدتر افراد کے آنے کی توقع ہے جس سے عام لوگ نہ صرف دہشت گردی سے بلکہ دنیا بالکل ہی غیر محفوظ ہوکر رہ جائے گی۔
حالات پر نظر رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر دہشت گردی بے گناہوں کی ہلاکت اور عام تباہی کا نام ہے تو لگ بھگ 70 برسوں میں دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے جس نے پوری دنیا میں تباہی و ہلاکت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ نے عراق پر جب بمباری کی اور عراقی صدر صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کیا تو اس میں بھی لاتعداد معصوم لوگ مارے گئے تھے۔ معاملہ کی تہہ میں اگر جائیں تو امریکی وحشت پنے کو سمجھنے میں کچھ زیادہ دشواری نہیں ہوگی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد سے ہی امریکی سیاست میں دہشت گردی کا اُبال آیا ہے۔ امریکی عوام ہر اس شخص کو صدر بنانے کے لیے تیار ہیں جو مسلم ملکوں پر چڑھائی کرکے دہشت گردی کا نام و نشان مٹانے کا دعویٰ کرے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ انتخابات کے دوران موجودہ امریکی صدر اوباما نے بھی کہا تھا کہ امریکی انہیں ووٹ دیں تو وہ بدلے میں اتنے ہی بم پاکستان میں گراکر القاعدہ کا نام و نشان مٹادیں گے۔ یہ ہیں مہذب دنیا کے سپر چودھری ملک کے بڑے چودھریوں کے اعمال و اقوال جو دنیا کے لیے فکر انگیز بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔
کہا جاتا ہے کہ جارحیت اگر فوجی ہوتی ہے تو اسے سہ لیا جاتا ہے لیکن یہ صورت بھی اسی وقت ممکن ہے جب کسی قوم میں غیرت و حمیت کے احساسات باقی ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو قومیں عزت کے راستے کا انتخاب نہیں کرتیں، وقت اور زمانے کے بھیڑیے انہیں ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے سیاسی اور اقتصادی مراکز بہ آسانی فتح کرلیے جاتے ہیں لیکن یہاں تو المیہ ہی کچھ اور ہے۔ جارحیت ہمہ جہت ہے اور اس کا سب سے خطرناک اور خوفناک رُخ تہذیبی ہے۔ ایک ارب سے زائد انسان اپنی تہذیب و تمدن کو بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے بارے میں مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی سایہ دیوار تک میسر نہیں، عالمی دہشت گردی کی چلچلاتی دھوپ ان کے وجود کو جھلسا رہی ہے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں ان کی عقیدتوں کے مینارے ڈھائے جارہے ہیں اور اب تو ان کی عقیدتوں کے محور مکہ و مدینہ پر بھی چڑھائی کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ کبھی رسول مکرم کی ذات پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے تو کبھی کتاب مقدس قرآن کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ابھی چند دہائیوں کی بات ہے جب گوانتاموبے جیل کے قیدیوں کا ایک انٹرویو میڈیا کے ذریعے نشر ہوا تھا، لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ کیمپ میں مسلم قیدیوں کی پہلی بھوک ہڑ تال اس وقت ہوئی تھی جب ایک امریکی اہلکار نے قرآن کے اوراق ٹوائلٹ میں پھینک دیے تھے اور ایک خبر کے مطابق قرآن کے اوراق کو اُسترے سے کاٹا جاتا تھا تاکہ قیدیوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو۔ ان واقعات کے دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسی شرمناک حرکتیں نئی نہیں ہیں، یہود و نصاریٰ کی دشمنی تو ازلی ہے۔ ہر دور میں اسلامی شعائر کو ملیامیٹ کرنے حتیٰ کہ خانۂ کعبہ تک ڈھانے کی مذموم حرکتیں کرنے والے نہ جانے کتنے ابرہہ پیدا ہوئے اور جہنم رسید ہوگئے۔ امریکہ کے نئے ابرہہ کی کیا حیثیت ہے۔ افسوس تو صرف یہ ہے کہ آج عالم اسلام میں کوئی ابوطالب و مطلب نہیں۔
جہاں تک کریڈو اور ڈونالڈ ٹرمپ کی بات ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ وٹیکن سٹی نہیں ہیں جہاں پادری تہذیبوں کے تصادم کی تھیوری پیش کرکے عیسائیت کے تابوت میں کیل ٹھونک رہے ہیں۔ یہ انسانی دنیا کا پہلا خانۂ خدا ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اس گھر کے نگہبان نے لی ہے، اگر ابابیل جیسے چھوٹے پرندوں کے ذریعہ سنگریزوں سے ابرہہ کے لشکر کو نیست و نابود کرایا جاسکتا ہے تو امریکہ کو بھی اپنا انجام معلوم ہونا چاہیے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخابی بیانات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ جیسی سپر طاقت اسلام اور مسلمانوں سے کس درجہ خائف ہے۔ اس طرح کی شرمناک حرکتیں اور غیر شائستہ بیانات سے یقیناًعام مسلمانوں میں خوف و غصہ پیدا ہوسکتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان حالات میں بھی مسلم حکمرانوں کی زبانیں بند رہتی ہیں تو ان سے کسی عملی قدم کی ا مید کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ عالم اسلام کے وسائل پر مغرب کی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں اور خود ان کی گاڑیاں پنکچر ہوئی پڑی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عربوں کے درمیان آج کوئی شاہ فیصل نہیں ہے جو مغربی دنیا کو پٹرول کی دھمکی دے کر امریکہ کو حواس باختہ کرسکے۔
آج پوری اسلامی دنیا اسلام کے ازلی دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ ’نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر‘ ملت اسلامیہ تباہی کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے اصل محور سے ہٹ گئی ہے، اسے نہ تو خدا پر بھروسہ رہا اور نہ خود پر۔ ماضی کے مسلمانوں میں یہ دونوصفات تھیں وہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرتے نہیں تھے، ان کی تلواروں کی دھاک قیصر و کسریٰ پر جم چکی تھی، ان کے شوق شہادت اور ذوق جہاد نے زندگی کے مفاہیم بدل دیے تھے۔ مگر افسوس آج قوم میں نہ وہ جذبہ ہے نہ شوق۔ جب تک ماضی کی تابناکیوں اور شعار کو اپنایا نہیں جائے گا ہم پر کریڈ و کبھی ٹرمپ جیسے لوگ اسی طرح دھمکیاں دیتے رہیں گے اور ہم جھیلتے رہیں گے بلکہ اس سے بڑھ کر بدسے بدتر لوگوں اور سنگین سے سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسلام اور مسلم دشمنوں نے نہ صرف عرب مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال پھینک رکھا ہے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو پھانسنے اور تباہی کی دلدل میں ڈھکیل دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ اب اگر ہمیں ان سے بچنا ہے اور عزت کی زندگی گزارنی ہے تو بس اپنے ماضی کی تابناکیوں کی طرف لوٹنا ہوگا، بصورت دیگر ہمیں اسی طرح ذلت و مسکنت کی زندگی گزارنے اور تباہی و بربادی کے گڑھے میں پڑے رہنے سے کوئی نہ نکال سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے۔
سوچئے ذرا! جس آسمان کے نیچے دنیا میں دو دو لاکھ کی تعداد رکھنے والی جماعتیں طوفان برپا کیے ہوئے ہیں، عین اسی آسمان کے نیچے ستاون ملکوں کی فوج ہر گوشۂ زمین پر مار کھا رہی ہے، آبروئیں لٹا رہی ہے، تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنی ہوئی ہے، گھروں سے بے گھر ہو رہی ہے، قانون اور لاقانونی سے کچلی جارہی ہے، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ایمان و ضمیر بیچتی پھر رہی ہے، شکستوں پر شکستیں کھا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ جینے کے لیے اور سارے جتن کر رہی ہے لیکن ایک نہیں کر رہی ہے تو صرف خدا سے وفاداری۔ جس کے نتیجے میں آج وہ ’ضالین‘ کی سطح سے بھی گر کر ’مغضوب علیہم‘ کے گڑھے میں جاگری ہے۔ اللہ ہم سب کو پکا، سچا مسلمان بننے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! 

0 comments:

دلت بودھ مذہب ہی کیوں اختیار کرتے ہیں۔۔؟

  عمر فراہی 
 umar shaikh <umarfarrahi@gmail.com>

کل کے اخبارات سے ہمیں یہ خبر ہوئی کے روہت وومیلا کی ماں اور اس کے بھائی 14 اپریل کو  ممبئ کے امبیڈکر بھون میں آرہے ہیں جہاں وہ نہ صرف رسمی طور پر بودھ مذہب قبول کریں  گے بلکہ اس اجلاس میں آرایس ایس کی دیش بھکتی اور فرقہ وارانہ نظریات کو بھی زیر بحث لایا جائے گا -ایک سوال یہ ہے کہ اگر روہت وومیلا کا خاندان  آر ایس ایس کے برہمنی ظلم کے ردعمل میں بودھ مذہب اختیار کر سکتا ہے تو اس نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی کیوں نہیں غور کیا- اس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ کسی مسلم تنظیم نے اس خاندان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت یا رہنمائی بھی نہیں کی ہوگی -اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ میں مصروف مسلمانوں کی ساری جماعتیں اپنے اجتماعات میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد جمع کر کے خوش تو ہو جاتی ہیں مگر  جب مظلوموں اور بے سہارا غیر مسلم قوموں کی مدد کی بات آتی ہے تو یہ تعداد اور ان جماعتوں کی قیادت کہیں نظر نہیں آتی ہے - کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری یہ ساری جماعتیں خوف اور دہشت میں مبتلا ہیں -دیکھا بھی گیا ہے کہ ابھی سات آٹھ مہینہ پہلے ہریانہ کے کچھ دلت خاندانوں نے حکومت کی ناانصافی کے خلاف دلی کے جنتر منتر میں اسلام قبول کر لیا اور باقاعدہ ایک مسجد میں جاکر باجماعت نماز بھی ادا کی مگر ان نو مسلم دلت خاندانوں کی حمایت اور مدد کیلئے  مسلمانوں کی کوئی جماعت سامنے نہیں آئی جبکہ اسی دلی میں تبلیغی جماعت جو پوری دنیا میں دین کے کام کی دعویدار ہے , جماعت اسلامی اقامت دین کی علمبردار اور جمعیتہ العلماء جس نے کہ آذادی میں اہم کردار ادا کیا ان تینوں کا مرکز اور دفتر بھی موجود ہے-حالانکہ کہ ایسے حالات میں ان  جماعتوں  کے امیر اور خلیفہ کو آگے آنا چاہیئے  مگر اب اکیسویں صدی کے کارپوریٹ کلچر کے دور میں  ان اسلامی جماعتوں کے رہنماؤں کے فیصلے بھی صرف دفتروں اور خانقاہوں سے انجام دیئے جاتے ہیں اور انہیں میدان عمل میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی ضرورت نہیں -جہاں تک  اہل تشیع اور بریلوی حضرات کی بات ہے ان کے علماء اور قائدین اس وقت محترم وزیراعظم نریندرمودی جی کے تعاون سے  وہابی دہشت گردی کے خلاف تصوف کو فروغ دینے میں مصروف ہیں ۔ یعنی ہندوستان میں لوگ ایک ایک بوند پانی کے قطروں کیلئے تڑپ رہے ہیں اور انہیں عراق اور شام کی فکر ستا رہی ہے  -غرض کہ مسلمانوں کی کسی تنظیم کو کوئی فکر نہیں ہے کہ دلی کے جنتر منتر میدان میں اسلام قبول کرنے والے ان دلت خاندانوں کا بعد میں کیا ہوا- کیا یہ خاندان دین اسلام پر ہی ہے یا اس نے صرف حکومت کو دھمکی دینے کیلئے احتجاجاً  ایسا کیا تھا یا انہیں کسی طرح کی مدد درکار ہے تو ان کی ضروریات کو کون پورا کر رہا ہے- یہ خبر بعد میں مسلمانوں کے کسی اردو اخبارات میں بھی نظر سے نہیں گذری -شاید اب آپ کو یہ جواب مل گیا ہوگا کہ روہت وومیلا کا مظلوم خاندان اگر اسلام قبول کر لیتا تو ممکن ہے کہ اس بار انہیں  مسلم تنظیموں کی طرف سے اس کی مدد کیلئے  آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے خودکشی کرنا پڑتی -جہاں تک روہت وومیلا کی ماں اور بھائی کے مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا یہ فیصلہ ان کا اپنا نہیں ہے بلکہ اس فیصلے کیلئے بودھ تنظیموں کی طرف سے ضرور کہیں نہ کہیں ان کی ذہن سازی اور حوصلہ افزائی کی گئی ہوگی -جیسا کہ ممبئ کے امبیڈکر بھون میں نہ صرف اس خاندان کو مدعو کیا گیا ہے بلکہ بودھ تنظیموں نے اس خاندان کی مدد کیلئے جسٹس فار روہت وومیلا ایکشن  کمیٹی بھی تشکیل دی ہے اور ممکن ہے کہ یہ تنظیم بعد میں بھی اس خاندان کو تنہا نہیں چھوڑے گی -اس کا مطلب مسلم تنظیموں سے کہیں زیادہ فعال اور بیدار بودھشٹوں کی تنظیم ہے اور مسلمانوں کی تنظیموں اور ان کے علماء نے صرف اپنی مساجد مدارس اور دعوت و تبلیغ کے عمل کو بت بنا کر رکھا ہے -اس بحث کی تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت دلچسپ ہے کہ جس روہت وومیلا  پر پچھلے دو مہینے سے پورے ہندوستان میں بحث جاری ہے اور اس نوجوان نے مرنے کے بعد بھی کنہیا کو ہندوستان کا ہیرو اور عنوان بنا کر کھڑا کردیا ہے اتفاق سے ان دونوں نوجوانوں کو جو سزا ملی یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشس کی گئی ان کی تحریک سے بودھشٹوں کی نہیں مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی - یہ بات کون نہیں جانتا کہ جب مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے  بیف پر پابندی لگائی تو اس فیصلے سے سب سے زیادہ خوشی بودھشٹوں اور جینیوں کو پہنچی تھی کیونکہ یہ دونوں ہی مذاہب کے لوگ سختی کے ساتھ جیو ہتیا کے مخالف ہیں -اس کے باوجود روہت وومیلا نے کسانوں اور مسلمانوں کے حق کیلئے دلت تنظیموں کو لیکر بیف پارٹی کا انعقاد کیا - یہ وہی نوجوان ہے جس نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یعقوب میمن اور افضل گرو کی پھانسی کی بھی مخالفت کی تھی - یہ مسئلہ خالص مسلمانوں سے تعلق رکھتا تھا مگر اس کی نمائندگی ایک دلت نوجوان کر رہا تھا جس نے کبھی قرآن کا درس نہیں لیا تھا اور نہ ہی چالیس دن کے چلے اور کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعلیٰ عنہ کی شہادت اور چہلم  کی روایت سے ہی واقف تھا ..! یہ بات مرکز کی بی جے پی سرکار کو برداشت نہی ہوئی اور اس نے اس نوجوان کی اسکالر شپ رکوا دی اور مجبوراً روہت وومیلا کو خودکشی کرنا پڑی -اس درمیان اگر کسی غیر سرکاری تنظیم نے بھی  روہت کے خاندان کی مالی  مدد کی ہوتی تو اس نوجوان کی جان بچ سکتی تھی -مگر ایسا کسی نے نہیں کیا - کسی مسلمانوں کی تنظیم نے بھی نہیں....! مگر روہت کو مسلمانوں کی وجہ سے ہی جان دینا پڑی  یہ سچ ہے - یہ بھی عجیب بات ہے کہ  اب وہی بودھشٹ تنظیمیں اس کے خاندان کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھی ہیں جن کے اپنے عقیدے کے خلاف روہت کا بیف پارٹی منانا گناہ عظیم  خیال کیا جاتا ہے-سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ہندوستان میں ہر سال ہزاروں دلت خاندان بودھ مذہب ہی  اختیار کر تے ہیں کوئی اور مذہب کیوں نہیں ...؟ اور خود  آرایس ایس کو بودھ مذہب کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے تشویش نہیں ہے تو کیوں؟ دلتوں کی طرف سے بھی مذہب کو تبدیل کر کے احتجاج درج کرانے کا کیا مطلب جبکہ بودھ مذہب اختیار کرنے کے بعد بھی تو دلت دلت ہی رہتا ہے اور آرایس ایس کی صحت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا-اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دلت اپنے خالص دلت ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا دوست تو ہوسکتا ہے لیکن بودھ مذہب اختیار کرنے کے بعد  کم سے کم روہت وومیلا کی طرح گئو ہتیا کی وکالت تو نہیں کریگا- دوسرے لفظوں میں ایک دو نسل بعد یہی لوگ گںئو ہتیا کی وجہ سے مسلمانوں سے نفرت ضرور کرنے لگیں گے جیسا کہ برما کے بدھشٹوں نے مسلمانوں سے دشمنی نبھائی -اس کا مطلب کہ آرایس ایس خود چاہتی ہے کہ دلت دلت تو رہیں لیکن بودھ مذہب کی شکل میں وہ مسلمانوں کے خلاف ایک بڑا دشمن کھڑا کردے -ہوسکتا ہے ہم غلط سوچ رہے ہوں لیکن یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آخر دلت بودھ مذہب ہی کیوں اختیار کرتے ہیں .....؟؟؟؟

0 comments:

ڈاکٹرامبیڈکرقبول اسلام سے کیسے پیچھے ہٹے؟


عبدالعزیز

ڈاکٹرامبیڈکر ہندستان کے پسماندہ طبقات کے سب سے بڑے لیڈرتھے ،آج بھی دلت طبقہ یاپسماندہ طبقہ انہیں اپنارہبراوررہنماسمجھتاہے اوران کے بتائے ہوئے راستہ پرچلناچاہتاہے ۔انہوں نے دنیاکے بڑے مذاہب کامطالعہ گہرائی سے کیاتھا۔ ان کارجحان اسلام قبول کرنے کاتھامگراسلام کی طرف ان کے بڑھتے قدم رک گئے ایک بڑی وجہ انہیں مسلمانوں کے اندربرہمنوادکاتھایعنی چھوٹی بڑی ذاتوں کاسسٹم جس سے ان کے دل میں یہ بات پیداہوئی کہ اگروہ اسلام قبول کرتے ہیں توانہیں مسلم سماج میں بھی برہمنوادکاسامناکرناپڑے گا۔دوسرامسلمانوں کے اندرمسلکی جھگڑاتھاجوان کے لئے پاؤں کی زنجیربن گیا،انہوں نے ایک موقع پراپنی تقریرمیں کہا :
’’ میں اسلام قبول کرناچاہتاہوں لیکن اگرمیں اسلام قبول کرتاہوں تومجھے وہابی کہہ کرخارج ازاسلام کردیاجائے گا۔‘‘
کہاجاتاہے کہ دہلی کے ایک بہت بڑے عالم اورمصنف سے جب ملاقات کے لئے گئے توانھوں نے دیکھاکہ ان کے مریدیں انہیں غسل خانے کی طرف لے جارہے ہیں کسی کے ہاتھ میں تولیہ ہے کسی کے ہاتھ میں تہبنداوربنیائین ہے ،کوئی ہاتھ میں صابن اورمسواک لئے ہے ۔ یہ دیکھ کروہ حیران رہ گئے کہ جس مذہب نے اپنے کام کوخودسے کرنے کی تلقین اورتعلیم دی ہے عالم دین کاہاتھ خالی ہے اوراس کاسارابوجھ غیروں کے سرپرہے ۔ جب عالم دین غسل سے فارغ ہوکرڈاکٹرامبیڈکرکے پاس آئے توعالم دین نے اسلام کی اچھی اچھی باتیں ڈاکٹرامبیڈکرکوبتاناشروع کیاڈاکٹرامبیڈکرسنتے رہے اورجب عالم دین خاموش ہوئے توڈاکٹرامبیڈکرنے کہاکہ اسلام کی باتیں توسوفیصدسچائی اورصداقت پرمنحصرہیں مگرآپ کاسماج اسلام سے دورہٹاہواہے اگرمیں اسلام قبول کرکے آتاہوں تومیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑے گاکیونکہ وہاں بھی برہمنوادہے اوریہاں بھی برہمنواد، ایک برہمن کوچھوڑکرآؤں گاپھردوسرے برہمن سے مقابلہ درپیش ہوگا۔‘‘
31-30مئی 1936 ؁ کوڈاکٹرامبیڈکرممبئی میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جوتحریری تقریرپیش کی تھی اس میں کہاتھا :
ہندودھرم ہمارے آباواجدادکامذہب نہیں ہے ۔ وہ توغلامی ہے ، جوان پرمسلط کردی گئی تھی ۔ ہمارانصب العین ہے آزادی کاحصول ........اورتبدیلئ مذہب کے بغیرآزادی کاحصول ممکن نہیں ......میں تسلیم کرتاہوں کہ اچھوتوں کومساوات کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے ۔مساوات حاصل کرنے کے بھی دوراستے ہیں، ایک ہندوسماج میں رہ کر، دوسراتبدیلئ مذہب کے ذریعہ اسے چھوڑکر۔ مساوات کومختلف ذاتوں سے مل جل کرکھانے پینے اوران کے درمیان شادی بیاہ ہی سے حاصل کیاجاسکتاہے ۔ اس کامطلب یہ ہواکی چاروں ورنوں کے سسٹم اوربرہمنی مذہب کوختم کردیاجائے ۔ کیایہ ممکن ہے ........؟ جب تک ہندورہوگے سماجی روابط ، کھانے پینے اورمختلف ذاتوں کے درمیان شادی بیاہ کے لئے جدوجہدکرتے رہوگے اورجب تک یہ کشمکش جاری رہے گی ، تمہارے اورہندوؤں کے درمیان تعلقات مستقل دشمنوں کے سے [جیسے] رہیں گے۔ تبدیلئ مذہب کے ذریعہ ان تمام جھگڑوں کی بنیادڈھ جائے گی...... ذاتیں اگرچہ اسلام اورعیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مگریہ ان کے سمانجی ڈھانچہ کی بنیادی خصوصیت نہیں ہے ........ہندوؤں میں ذات پات کاسسٹم مذہبی بنیادرکھتاہے ، دوسرے مذاہب میں ذات پات کومذہب کی توثیق حاصل نہیں ہے ۔ ہندواپنے مذہب کوختم کئے بغیرذات پات کے سسٹم کوختم نہیں کرسکتے ، مسلمانوں اورعیسائیوں کوذاتیں ختم کرنے کے لئے اپنے مذہب کوختم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ ان کامذہب بہت حدتک ایسی تحریکات کی تائیدکرے گا۔‘‘
ڈاکٹرسعودعالم فلاحی اپنی کتاب ’’چھوت چھات اورمسلمان‘‘ میں رقمطرازہیں :
’’اس منصوبے اورعزم کے تحت ڈاکٹرامبیڈکرنے دھرم تبدیل کرنے کافیصلہ کرلیا، ان کارجحان اسلام کی طرف تھا۔ ایک دلت دانشور’’ایس .ایل.ساگرجی‘‘ نے اپنی کتاب ’’ہریجن کون اورکیسے؟‘‘(ہندی) میں اس جانب اشارہ کیاہے جس کی تفصیل باب ہشتم میں ’’گاندھی واد‘‘کے زیرعنوان گزرچکی ہے ۔خود ڈاکٹرامبیڈکرجی آخرالذکرقول میں اس کی طرف لطیف اشارہ ملتاہے ۔ ایک دفعہ توانھوں نے واضح لفظوں میں دلتوں سے کہاکہ ہماری چھوت چھات سے واحدراستہ صرف قبول اسلام ہی ہے ۔ انھوں نے کہا :
’’دوستو!ہماری جوشودرہونے کی بیماری ہے وہ خطرناک ہے ۔ یہ کینسرکی مانندہے جوبہت پرانی شکایت ہے ۔ اس کی ایک دواہے اوروہ ہے اسلام ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری دوانہیں ، ورنہ یاتوہمیں اس کوبرداشت کرناہے یااس کوبھلانے کے لئے نیندکی خوراک لینی ہے ۔ اس سے بچنے کے لئے کھڑے ہوجاؤاورچلوایک تندرست انسان کی طرح ۔ اسلام ہی صرف ایک راستہ ہے ۔‘‘
ڈاکٹرامبیڈکرجی کے اس قول سے بالکل واضح ہوگیاکہ وہ صرف اسلام قبول کرناچاہتے تھے کوئی دوسرامذہب نہیں؛لیکن ان کی تبدیلی دھرم کرنے سے روکنے کے لئے گاندھی جی اورکانگریس کومعلوم تھاکہ اگرانھوں نے اسلام قبول کرلیاتوہندستان میں مسلمان غالب ہوجائیں گے اورمسلمان کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ ’’اس صورت میں نہ ہندوبچیں اورنہ ہندودھرم ‘‘۔جب حدسے زیادہ امبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی کوشش کی گئی توانھوں نے گاندھی جی اورکانگریس کوجواب دیتے ہوئے کہا :
’’کوئی انسان صرف آسانیوں کے لئے اپنی دین نہیں چھوڑتا۔ آدمی جس مذہب میں پیداہوتاہے اسے بڑی تکلیف کے ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کرتاہے ۔ میں نے ہندومذہب کواپنے اوراپنے سماج کے لئے بے حسی کے رویہ کی وجہ سے چھوڑنے کافیصلہ کیاہے۔‘‘
’’گاندھی اورکانگریس کے کچھ نیتامجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھرم کوکیوں چھوڑرہاہوں۔ میں گاندھی سے پوچھتاہوں تمہاری چھواچھوت مٹانے کی منشاء تم سے ایک ہاتھ آگے بڑھ سکتی ہے کیا؟گاندھی اورکانگریس نے اچھوتوں کے لئے کیاکیاہے ؟ تبدیلئ مذہب ایساہے جیساکہ اپنے کوڈوبنے سے بچانے کے لئے کیاگیاکوئی قدم ۔کیاڈوبنے سے بچنے کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھاناچاہئے۔‘‘
’’تبدیلئ مذہب مادی لالچ نہیں ،اخلاقی بہادری کاکام ہے۔‘‘
جب ڈاکٹرامبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی توان سے کہاگیاکہ آپ مسلمان بن کرکون سی ذات میں داخل ہوں گے؟مسلمانوں میں بھی [ہماری قائم کردہ] اونچی نیچی ذاتیں ہیں؛لیکن وہ ان چالوں کوسمجھ گئے کہ ہمیں غلام بنائے رکھنے کے واسطے اس طرح کہاجارہاہے اوروہ تبدیلئ مذہب پرمصررہے ۔
تبدیلئ مذہب کی بات تو ڈاکٹرامبیڈکربہت پہلے سے سوچتے اورکہتے چلے آرہے تھے۔ ان کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کے واسطے ہی گاندھی جی نے دلتوں کے واسطے بہت سے رفاہی کام کئے لیکن ان کوتبدیلئ مذہب سے روکنے کی کوشش میں اس وقت اچانک تیزی آئی جب انھوں نے اپنی بیوی ’’آئساہیب رامابائی(Aisaheb Rama Bai) کی وفات ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء ؁ کے ایک سال بعد۳۰۔۳۱ ؍ مئی ۱۹۳۶ء ؁ میں بمبئی کے اندرمنعقدایک بڑی مہرکانفرنس میں تبدیلئ مذہب کے بعدقبول اسلام کی طرف اشارہ کیاتھا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل توخود ڈاکٹرامبیڈکرکاوہ قول ہے جس کوانہوں نے گاندھی جی اورکانگریس سے کہاتھاجوابھی ابھی اوپرگزراکہ ’’گاندھی اورکانگریس ........نہیں اُٹھاناچاہئے۔‘‘
ڈاکٹرامبیڈکرکاقبول اسلام سے روکاجانا : جب ڈاکٹرامبیڈکرجی کوتبدیلئ مذہب اورقبول اسلام سے بازرکھنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں توایک دوسراکامیاب طریقہ اپنایاگیا۔ وہ کامیاب طریقہ اپنایاگیا۔ وہ کامیاب طریقہ تھابرہمن خاتون سے ڈاکٹرامبیڈکرکی شادی ۔اکثردلت مفکرین اوردانشوران حتی کہ ڈاکٹرامبیڈکرجی کے ایک قریبی ساتھی جناب شنکرانندشاستری جی ، ان کے صاحبزادے جناب یسونت راؤامبیڈکرجی وغیرہ کاکہناہے کہ مہاراشٹرکی ’’سراسوت‘‘ برہمن ذات کی ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹرسویتاکبیر/شاردی کبیرجی نامی عورت سے ڈاکٹرامبیڈکرجی کی شادی کوئی ان کاذاتی عمل نہیں تھابلکہ یہ شادی برہمنیت اورمنووادیت کے علمبرداروں کے اشارہ پرایک سازش کے تحت ہوئی تھی۔خودڈاکٹرامبیڈکرجی کواس شادی کاافسوس تھااورانہوں نے اپنی وفات ۶؍دسمبر۱۹۵۶ء ؁ سے صرف چندگھنٹے قبل ۵؍دسمبرکو۱۱؍بجے رات میں اپنے ساتھی شنکرانندشاستری جی سے کہاکہ وہ محترمہ شارداکبیرجی کوطلاق دینے کے لئے عنقریب کورٹ میں رٹ داخل کریں گے ، اس لئے انہوں نے طلاق کے قوانین پرمشتمل ایک کتاب بھی خریدی ہے ۔ڈاکٹرامبیڈکرجی نے اپنی بیوی آئساہب رامابائی جی کی وفات ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء ؁ کے تیرہویں سال ۱۵؍اپریل۱۹۴۸ء ؁ کوان سے شادی کی ،جنھوں نے موقع ملتے ہی اپنے برہمن وادی اورمنووادی ایجنڈاکے تحت ان کوزہردے کرمارڈالااورمطالبہ کیاکہ اب چونکہ باباامبیڈکرکی وفات ہوچکی ہے لہٰذاشیڈولڈفیڈریشن کاصدرانھیں بنایاجائے۔
ڈاکٹرامبیڈکرجی کی برہمن بیوی سویتاکبیرجی نے ان پراس طرح شکنجہ کساکہ نظام حیدرآبادنے ان سے کروڑوں روپیہ کی پیش کش کی کہ وہ اپنے دوسرے اچھوتوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیں توانھوں نے اسے ٹھکرادیا۔
" He was offered crores of rupees by Nizam of Hydrabad had he converted to Islam along with his other untouchables."
اورجب انھوں نے تبدیلئ مذہب کااعلان کیاتوتقریباً ۵۴۔۱۹۵۳ء ؁ میں دوسرے مذاہب کے اسکالرزکی طرح مولاناحفظ الرحمن سیوہارو ؒ اوردوسرے علمائے اسلام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے ، اسلام کاپیغام مساوات اوراخوتِ اسلامی ان کوبتاتے تھے۔یہ ملاقاتیں لگاتاران کی لائبریری میں ہوتی تھیں، ایک دن انھوں نے کتابوں کی ایک الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
’’مولانااس الماری میں آپ کتابیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ سب مذہب اسلام اوراسلامیات سے متعلق ہیں ۔ میں نے سیدامیرعلی ، عبداللہ یوسف علی، پکھتال اوردوسرے مسلم ، نومسلم اورغیرمسلم اسلام کے اسکالرزکی کتابوں کاتوجہ سے مطالعہ کرلیاہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ اصولی طورپراسلام سماجی جمہوریت اورانسانی مساوات کاداعی ونقیب ہے ؛لیکن ہندستان میں آپ لوگ منوکے ورن آشرم پرعمل پیراہیں اورآپ نے اپنے سماج کوبھی برادریوں میں تقسیم کررکھاہے ، میں اسلام قبول کرلیتاہوں توآپ مجھے کس خانے میں رکھیں گے ۔‘‘
اس سماجی تلخ حقیقت کامولاناؒ کے پاس کوئی جواب نہ تھااوراس طرح ۱۴؍ اکتوبر۱۹۵۶ء ؁ وجے دشمی کے دن انھوں نے اپنے تین یاچھ لاکھ ہمنواؤں کے ساتھ بدھ مذہب اختیارکرلیا‘‘۔
آج 14؍اپریل 2016ء ؁روہت ویمولاکی ماں اوران کے خاندان کے لوگ ڈاکٹرامبیڈکرکی 125ویں برسی کے موقع پرڈاکٹرصاحب کے نقش قدم کواپناتے ہوئے بدھ مذہب قبول کریں گے ویمولاکے بھائی نے گزشتہ روزاپنے ایک بیان میں کہاکہ ان کابھائی بدھ مذہب کودل سے بہت پسندکرتاتھااسی لئے اس کی آخری رسومات بدھ مذہب کے مطابق ہی کیاگیا۔
آج مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے اندرکی چھوت چھات کی لعنت کوباقی رکھیں گے یاچھوڑدیں گے؟غیرمسلموں کے لئے دیواربنے رہیں گے یادروازہ؟ڈاکٹرامبیڈکرکواسلام اپنی طرف کھینچ رہاتھامگرمسلم سماج ان کے آڑے آرہاتھا۔ آج بھی وہی سماج باقی ہے تودلت طبقہ آخرکیسے ڈاکٹرامبیڈکرکواوران کی زندگی کونظراندازکرسکتاہے؟

azizabdul03@gmail.com
Mob. 9831439068

0 comments:

وقت کی چاپ میں آہٹ سی ہے طوفانوں کی


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

ہندوستانی مسلمان اس وقت اپنی زندگی کے انتہائی خطرناک، صبر آزما بظاہر انتہائی حوصلہ شکن موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی حیثیت بھیڑوں کے ایک ایسے گلے کی ہے جس کا کوئی قابل بھروسہ نگہبان نہیں ہے اور اس سے بھی زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ مختلف سمتوں سے اس پر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی تہذیب و ثقافت ہی نہیں بلکہ دینی شعار کو بھی مختلف عنوان و انداز سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 
مرکز میں اس وقت جو لوگ برسراقتدار ہیں وہ بظاہر ایک ایسے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو ان کے بقول ہر اعتبار سے سیکولر ہے لیکن اس حکومت کے وزراء ایک کے بعد ایک ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن کا لازمی نتیجہ ملک کی یکجہتی اور سیکولر آئین اور ہماری جمہوریت کے ادارہ جاتی بنیادوں کی تباہی کی صورت میں ہی برآمد ہوسکتا ہے۔ نصابی کتابوں میں تبدیلی، تاریخ کو مسخ کرکے من مانی تاریخ کا اختراع او راپنی ثقافت و تہذیب کو دوسروں پر زور و زبردستی تھوپنا جیسے اقدامات ملک کی سب سے بڑی فاشسٹ تنظیم آرایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل ہی کہی جائے گی اور جس کا واضح مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو یہ بتا اور جتا دیا جائے کہ اب اس ملک میں وہی اور صرف وہی کچھ ہوگا جو آر ایس ایس کے عزائم کی تکمیل میں معاون بن سکتا ہو۔ 
اور بات صرف مرکزی حکومت کی ہی نہیں بلکہ ان تمام ریاستوں کی بھی ہے جہاں جہاں بی جے پی کو عملاً بالا دستی حاصل ہے، بہت ہی کھل کر بلکہ جارحانہ قدم اٹھائے جارہے ہیں جن کی زد براہ راست مسلمانوں پر پڑ رہی ہے۔ کبھی گھر واپسی، لوجہاد، بہو لاؤ بیٹی بچاؤ، گؤماتا (بیف) یا اب بھارت ماتا کے نام پر مسلمانوں کی گھیرا بندی، قتل و غارت اور دہشت گردی کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ آرایس ایس اور بی جے پی کے عام کارکن ہی نہیں بلکہ اس غیر انسانی کھیل میں ایک مدت سے اعلیٰ عہدیدار بھی بہت ہی کھل کر شریک ہوتے رہے ہیں اور اس طرح کے اقدامات تو آر ایس ایس یا بی جے پی کے لیے کوئی نئے بھی نہیں ہیں، یہ سب اس کے ایجنڈے کا حصہ ہیں، انہیں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملا ہے ان پر عمل اپنا فریضہ سمجھ کر کیا ہے۔ 
آر ایس ایس کی کارگاہ میں فکر و نظر کے جو سانچے ڈھالے گئے ہیں وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہندوراشٹر کے یہ مبلغ پورے شعور کے ساتھ اسی راہ پر چل رہے ہیں جو فاشزم کا متعین راستہ ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں آر ایس ایس کس طرح کی سوچ پروان چڑھا رہا ہے، اس کے حقیقی عزائم کیا ہیں اور وہ پہلے کے آزمودہ فسطائی حربوں کو کس چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتا آرہا ہے اس کا اندازہ گزشتہ چند برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات و حالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 
آر ایس ایس کے نظریہ ساز گرو گولوالکر نے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹ میں اسلام، مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلق سے بہت کچھ بہت ہی واضح لفظوں میں فرمایا ہے۔ ذیل میں چند اقتباسات پیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ملک ہے تو کچھ لوگ فوراً ایک سوال پیش کردیتے ہیں کہ ان مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جو ہندوستان میں رہتے ہیں؟ کیا یہ یہاں پیدا نہیں ہوئے ہیں؟ کیا انہوں نے یہاں پرورش نہیں پائی ہے۔ وہ غیر ملکی محض اس لیے کیسے ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے اپنا عقیدہ تبدیل کرلیا ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ہندو مادر وطن کے فرزند ہیں۔ محض ہماری اس بات کو یاد رکھنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ احساس دراصل ان لوگوں کے اندر پیدا کرنے او ران کے دماغ میں ہر وقت تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگو ں کا کیا رویہ ہے جو اسلام یا عیسائیت قبول کرچکے ہیں؟ بے شک وہ اسی زمین پر پیدا ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ حق نمک ادا کرنے پر رضامند ہیں؟ کیا یہ اس مادر وطن کے وفادار ہیں؟ جس نے ان کوپال پوس کر بڑا کیا ہے؟ کیا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اس مادر گیتی کے سپوت ہیں او ریہ بات ان کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ اس کی خدمت کریں؟ (صورت حال یہ ہے کہ عقیدہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قوم سے محبت اور اس پر تن من دھن قربان کردینے کا جذبہ بھی رخصت ہوگیا ہے)۔ 
گولوالکر اور سنگھ کے دوسرے لیڈروں کا ایک سوچا سمجھا موقف یہ بھی ہے کہ مسلم علاحدگی پسندی کی جڑیں کسی حد تک خود اس کی مذہبی سوچ میں پیوست ہیں۔ گولوالکر جی کے خیال میں مسلمان سوچ کا الگ سانچہ رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ اور عمل دونوں علاحدگی پسندی پر مبنی ہیں۔ وہ الگ رہتے اور الگ رہ کر کام کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ یہ مسلمان ہی ہیں جو یہ سوچ کر چلتے ہیں کہ غیر مسلم دوزخ میں جائے گا۔ 
آر ایس ایس کے لوگ یہ مان کر چلتے ہیں کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کے پُرکھے ہندو تھے، جنہیں مکر و فریب، خوف، لالچ یا جبر و دباؤ کے تحت اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ چنانچہ سنگھ اپنا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ ان تمام لوگوں کو جن کے پرکھوں نے مذہب تبدیل کرلیا تھا انہیں دوبارہ ہندو دھرم میں واپس لایا جائے۔ گروگولواکر جی نے اسے اپنے گھر واپس لوٹنے کا نام دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب یہ ہمارا فرض ہے کہ وقت کے ہاتھوں ستائے ہوئے اپنے ان بھائیوں کو جو صدیوں سے مذہبی غلامی کے شکار ہیں اپنے آبائی گھر میں واپس لوٹ آنے کی دعوت دیں، بحیثیت ایک دیانت دار محب وطن کے ان لوگوں کو غلامی کے سارے طوق اتار پھینکنے چاہئیں اور اپنے آبائی طریقے اور قومیت کے قدیم رسم و رواج کو اختیار کرلینا چاہیے۔ ان تمام بھائیوں کے لیے دعوت عام ہے کہ وہ اپنی اصل جگہ اور اصل قومی زندگی میں واپس لوٹ آئیں۔ جس وقت ہمارے یہ بچھڑے بھائی ہمارے پاس واپس لوٹ آئیں گے اور ہمارا حصہ بن جائیں گے اس دن ہم عظیم الشان جشن منائیں گے۔‘‘ 
یہ تو رہی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف آر ایس ایس کی فرد جرم اور اس کے عزائم کی ایک ہلکی سی جھلک۔ اس نے ان عزائم کی تکمیل کے لیے جو ذرائع اختیار کیے ہیں وہ اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اس کے اب تک کے وہ تمام حربے وہی ہیں جو فاشزم کی کارگاہ میں ڈھالے جاتے رہے ہیں۔ فسطائی روایات کے عین مطابق سنگھ تاریخ کے حوالہ سے محتاج ثبوت مظالم اور فرضی نا انصافیوں کی داستانیں تصنیف کرنے اور مسلمانوں کو ان کے کردہ گناہوں کے لیے مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کے حربہ کو اس خوبصورتی اور عیاری کے ساتھ استعمال کر رہا ہے کہ نازیوں کی پروپیگنڈہ مشینری کی بہترین کامیابیاں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔ فاشزم کے طریقۂ واردات میں یہ بھی شامل ہے کہ کچھ بہت ہی واضح علامتوں کو قوم و مذہب کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا جائے اور اس کے حوالہ سے فضا کو شراروں سے بھر دیا جائے۔ 
مثالیں اور بھی بہت سی ہیں اور قرائن بتاتے ہیں کہ آئندہ بہت کچھ ہونے بھی جارہا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان حالات کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں اس مستعدی کا مظاہرہ نہیں کرتے دیکھے جارہے ہیں جس کے بغیر آنے والے سیلاب پر بند باندھنا ممکن نہیں ہے۔ 

یہ بات بہرحال حوصلہ افزا ہے کہ گزشتہ مہینوں دہشت گردی، بیف اور بھارت ماتا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اندھا دھند گرفتاریاں اور قتل و خوں پر مسلم تنظیموں میں ہلکی سی حرارت پیدا ہوئی تھی، یہ ایک اچھی علامت ہے لیکن صرف جلسے جلوس اور کانفرنسیں ہی کافی نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ملک گیر سطح پر اپنے آپ کو منظم کریں اور خود غرض اور خودساختہ لیڈروں کے فریب میں آنے کے بجائے مخلص، دیانتدار، ایثار پیشہ اور بے غرض لوگوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں او رہمارے علماء، امراء، اپنے آپ کو خودغرضی، انانیت پسندی، مسلکی اور گروہی مفادات کی دلدل سے باہر نکال کر ایک مسلمان اور صرف مسلمان کی حیثیت سے اسلام کی خدمت اور ملت کے وسیع تر مفادات کے تحفظ کا نہ صرف عہد کریں بلکہ اس کی عملی مثال قائم کرنے کی راہ پر چل بھی پڑیں تو یہ ایک بہت اچھی مثال بھی ہوگی اور وقت کے بڑھتے اندھیروں میں روشنی کی کرن بھی ثابت ہوگی۔ بصورت دیگر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ 

0 comments:

بھارت ماتا کے فرزند مولوی صاحبان کے نزدیک یہ نعرہ اسلام مخالف نہیں ہے!

نور محمد خان ممبئی
nmkhan06@gmail.com

آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھارت ماتا کی جے کا شوشہ چھوڑ کر جہاں ہندوؤں کو متحد ہونے کا اشارہ کیا وہیں مشرکانہ بیان پر ردعمل ظاہر کرنے کے لئے علما کا تانتا لگ گیا ہے الیکٹرانک میڈیا سے لیکر اخبارات کے اول صفحہ پر اپنی تصویر اور بیان پڑھنے کے لئے متنازعہ نعرہ "بھارت ماتا کی جے " کو اسلام کے نزدیک مشرکانہ ثابت کرنے میں لگا ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اسلام کے نزدیک مشرکانہ نہیں ہے اس نعرے سے اسلام کا کوئی لینا دینا نہیں ہے؟ چنانچہ اس موضوع پر ایک مشہور چینل کے پروگرام میں ہونے والی بحث و مباحثہ سے شروع کرتے ہیں 
گزشتہ دنوں نیوز 24 کے چینل پر" سب سے بڑا سوال "کے پروگرام میں اینکر مانک گپتا نے سوال اٹھایا کہ کیا بھارت ماتا کی جے کہنا اسلام کے مخالف ہے یا اس کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے؟ اس پر پاکستان کے اسلامی اسکالر طاہرَلقادری نے بیان دیا کہ''پوری دنیا میں وطن کو مدر لینڈ کہا جاتا ہے مدر لینڈ کی وضاحت کرتے ہوئے قادری صاحب نے کہا کہ مدر کے معنی ماں لینڈ کے معنی وطن جے کے معنی زندہ آباد تو یہ سو فی صد درست ہے_
اینکر مانک گپتا نے کہا کہ دیش و دنیا کے بڑے بڑے اسلامی اسکالر کا کہنا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا اسلام ورودھی نہیں ہے موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ دیش میں یہ نعرہ سب کو سکھانا پڑے گا اس کے جواب میں اسدالدین اویسی نے کہا کہ میری گردن پر چھری رکھ دو میں نہیں کہوں نگا اویسی کو کرارا جواب دیتے ہوئے نام ور شاعر جاوید اختر نے نعرہ لگایا تو یہ اسلام ورودھی کیسے ہو گیا جبکہ پیغمبر محمد کہہ گئے کہ" اسلام سے پہلے وطن سے محبت کرنا چاہیے وہی سچا مسلمان ہے؟ تو عمیر الیاسی صاحب یہ بتائیں کہ یہ نعرہ اسلام ورودھی کیسے ہو سکتا ہے؟ 
آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے چیف مولانا عمیر احمد الیاسی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نعرہ اسلام ورودھی ہے ہی نہیں اور نہ ہوسکتا ہے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھارت ماتا کی جے تو اس میں فرق کیا ہے دوسری بات وہ مذہبی آدمی ہے ہی نہیں وہ سیاسی ہیں میں نے پہلے ہی دن اسے خارج کر دیا تھا حب الوطنی ایمان کا حصہ ہے جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ ایمان سے خارج ہے 
اینکر مانک گپتا نے پرمود کرشنن آچاریہ سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ کیا اس بیان کو مذہبی رنگ دیا جارہا ہے؟آچاریہ پرمود کرشنن نے کہا کہ بھارت ماتا کی جے بولنا اسلام کے خلاف ہوتا تو پارلیمنٹ میں جاوید اختر کیوں کہتے اگر اسلام کے خلاف ہوتا تو اشفاق اللہ کیوں کہتے ملک کی آزادی کے لئے جتنے لوگ شہید ہوئے وہ کیوں کہتے اس کا مطلب ہے کہ اسلام اجازت دیتا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہا جائے کرشنن آچاریہ نے بنیادی باتوں پر غور کرتے ہوئے کہا کہ اویسی صاحب بھی نا سمجھ نہیں ہیں وہ اس کو اس طرح سے لیتے ہیں کہ اسلام ایک اللہ کی عبادت کے لئے کہتا ہے اس کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز نہیں ہے اور بھارت ماتا کی جے بولینگے تو یہ اسلام کے خلاف ہوگا پیغمبر اسلام کی حدیث سے یہ بات صاف ہے کہ وطن سے محبت آپ کے ایمان کی علامت ہے ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے جو اسلام ماں کے قدموں کے نیچے جنت بتاتا ہے وہ قطعی یہ نہیں کہے گا کہ بھارت ماتا کی جے بولنا اسلام کے خلاف ہے لیکن وہ اس کا فائدہ لے کر مسلمانوں میں یہ میسج دینا چاہتے ہیں کہ ہم بھارت ماتا کو پیار تو کرتے ہیں لیکن بھارت ماتا کی جے بولنا اسلام کے خلاف ہے جبکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا اسلام لانا چاہتے ہیں  
اینکر مانک گپتا بھارت ماتا (دیوی) کی تصویر بتاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ بھارت ماتا کی جے نہ کہنا یہ بھی ایک وجہ ہو سکتا ہے کہ اسلام میں بت پرستی نہیں ہے؟
منہاج رسول کے رکن مولانا اطہر دہلوی نے کہا کہ میں مختصر باتیں کہونگا بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم میں فرق ہے اگر اویسی صاحب یا وہ لوگ اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں میں بحیثیت مسلمان میرے نزدیک دنیا میں پاک سرزمین ہے تو وہ ہے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ لیکن علامہ اقبال نے کہا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، اینکر مانک گپتا نے پوچھا کہ بھارت ماتا کی جے اسلام مخالف ہے یا نہیں اس پر مولانا اطہر نے کہا یہ نعرہ کہیں اسلام مخالف نہیں ہے مولانا نے قرآن و حدیث کی دلیل نہ دیتے ہوئے ایک دلیل دی کی اے آر رحمان نے گانا گا کر سب سے کہلوا لیا ماں تجھے سلام امی تجھے سلام حالانکہ غریب نواز فائونڈیشن کے رکن مولانا انصار رضا نے بھی اعتراف کیا کہ بھارت ماتا کی جے اسلام مخالف نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس اور اویسی دونوں نورا کشتی کر رہے ہیں اس مباحثہ میں تینوں علماء کرام نے اویسی صاحب کو نشانہ بنایا آچاریہ پرمود کرشنن نے علمائے کرام سے مخاطب ہو کر ایک سوال کیا کہ قرآن و حدیث میں بتائیں کہ کہاں لکھا ہے کہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہنا چاہئے بحر حال علما نے آخر میں اعتراف کیا کہ اس نعرے کو اپنے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کسی کو اس پر تکلیف نہیں ہونی چاہیئے لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے مانک گپتا اور آچاریہ کے ایک بات کا بھی جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں نہیں دیا جبکہ مانک گپتا نے کہا کہ پیغمبر حضرت محمد کہہ گئے کہ اسلام سے پہلے وطن سے محبت کرنے والا ہی سچا مسلمان ہوتا ہے! اور بھارت ماتا کے مورتی کی تصویر بھی دکھائی دوسری بات اچاریہ نے کہا کہ قرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا اسلام کے خلاف ہے؟  چنانچہ ابھی حال ہی میں دارالعلوم دیوبند، جمیعت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند اور امام بخاری بھی کود پڑے ہیں دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ ہندو عقیدہ کے مطابق ایک دیوی ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں بھارت ماتا دیوی کو لوگ ہندوستان کی مالک و مختار سمجھتے ہیں بلاشبہ یہ عقیدہ شرکیہ ہے اسلام کے ماننے والے مسلمان کبھی وحدانیت کے کے خلاف سمجھوتہ نہیں کرسکتے بھارت ماتا کی جے کہنے والوں کے نزدیک اس کے مفہوم میں وطن کی پرستش شامل ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے ایسا نعرہ لگانا جائز نہیں ہے جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید جلاالدین عمری نے دیو بند کے فتوے کی تائید کی وہیں شاہی امام مولانا سید احمد بخاری ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ مخصوص نعرہ لگانے کی وکالت کر رہے ہیں وہ شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں مولانا بخاری نے کہا کہ مذہبی عقیدے کے تعلق سے کوئی بھی بحث ناقابل قبول ہے اور مخصوص نعرے پر حال ہی میں جاری فتوی غیر ضروری اورغیر مناسب ہے مولانا سید ارشد مدنی نے بھی کہہ دیا کہ ہندوستان زندہ باد اور بھارت ماتا کی جے میں کوئی فرق نہیں ہے اس بیان پر بخاری نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ خود کو زیادہ محب وطن اور سیکولر ثابت کرنے کے لئے الٹے سیدھے بیان دے رہے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مسلمان ایسی باتیں پسند کرتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ علماء کرام مقابلہ جاتی بیانات میں حصہ لے رہے ہیں یا اسلام کے تقدس اور ایمان کی حفاظت کرنے کے لئے بیانات دے رہے ہیں یہ تو ان کی نیت پر ہے بھارت ماتا کے فرزند مولاناوؤں نے دنیا کے سامنے بحیثیت مسلمان ہونے کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ جس عالم کے پاس علم ہے اور وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب نہ دے سکے اس پر لعنت بھیجنا ایمان والوں کا فریضہ ہے کیا آپ تیار ہیں؟ 

                                                                                                          9029516236
نور محمد خان ممبئی

nmkhan06@gmail.com

0 comments:

آرایس ایس کا بھارت

عمر فراہی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبہ کی نعرے بازی, احتجاج اور گرفتاری کے تناظر میں آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ ہمیں اپنی نئ نسل کو بھارت ماتا کی جںُے بولنا سکھانا چاہیُے تاکہ ان کے اندر دیش کے تںُیں وفاداری کا جذبہ پیدا ہو- اسی کے ساتھ انہوں نے غالباً یہ جملہ بھی ادا کیا کہ جو نہیں بولیں گے انہیں ہم سکھاںُیں گے- جیسا کہ دوبارہ اسی لہجے کا استعمال بابا رام دیو اور مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ فڈنویس نے بھی کیا ہے -اسدالدین اویسی نے موہن بھاگوت کا جواب دیتے ہوےُ کہا کہ ہم بھارت ماتا کی جںُے نہیں کہ سکتے چاہے ہماری گردن پر چھری ہی کیوں نہ رکھ دیا جاے ُ-موہن بھاگوت کے اپنے لہجے کے جواب میں یہ بھی اویسی صاحب کا اپنا مخصوص لہجہ تھا مگر الیکٹرانک میڈیا نے اسے  رائ کا پہاڑ بنا دیا-شکر ہے کہ جب پرنٹ میڈیا نے کسی حد تک موہن بھاگوت کے نظریے کو غیر منطقی قرار دینا شروع کیا تو انہوں نے بہت ہی چالاکی کے ساتھ اپنے سابقہ بیان کو بدل کر یہ کہا کہ ہم کسی کو بھارت ماتا کی جںُے کہنے کیلںُے مجبور نہیں کریں گے بلکہ ہمیں بھارت کو ترقی اور بلندی کے مقام پر لاکر کھڑا کرنا ہوگا تاکہ بھارت پوری دنیا کیلںُے آںُیڈیل بن جاےُ اور لوگ خود بھارت ماتا کی جںُے کہنے کیلںُے مجبور ہوں -آرایس ایس اپنے طور پر بھارت کو اس مقام پر لا پاتی ہے یا نہیں لیکن اس کا جو نصب العین تھا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر کے ملک کو مکلمل ہندو راشٹر میں تبدیل کردےگی 2014 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد بھی وہ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوتے ہوےُ نظر آرہی ہے - ایسا لگتا ہے کہ آرایس ایس مسلسل اپنے مقصد میں ناکامی کی وجہ سے بوکھلائ ہوئ ہے اور اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آرایس ایس جس کے بارے میں لوگوں کا گمان تھا کہ اس تنظیم میں ملک کی قیادت کیلںُے باصلاحیت لوگ موجود ہیں 2014 کے الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد حکومت سازی کیلںُے جو افراد سامنے آےُ عوام کی نظر میں آرایس ایس کے تعلق سے یہ بھرم بھی ٹوٹ چکا ہے -دیکھا یہ بھی جارہا ہے کہ ابھی تک بی جے پی کی مرکزی سرکار نے ملک کی ترقی اور فلاح وبہبود کے کاموں میں شروعاتی دور کے اقدامات بھی نہیں کیے ہیں تو اس لیںُے کہ موجودہ سرکار کا سر سے لیکر پیر تک پورا ڈھانچہ ہی نااہل اور غیر تجربہ کار افراد پر مشتمل ہے- بالخصوص انسانی وساںُل اور ترقی کا شعبہ جو کسی بھی ملک کی افرادی قوت اور صلاحیت کی ترقی کیلںُے اہم ہوتا ہے یہ وزارت ایک بارہویں فیل خاتون کے حوالے کر دی گںُی ہے- اسی طرح وزیر خارجہ جیسی اہم وزارت بھی جو کسی آئ ایف ایس کے طالب علم کو سونپی جانی چاہیُے تھی  محترمہ شثما سوراج کے سپرد تو ضرور ہے مگر سارا کام محترم وزیراعظم سمبھال رہے ہیں- سوال یہ ہے کہ اکیلے مودی جی جن کے بارے میں ان کے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ  میدان کے مجاہد ہیں ,ہم یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے انہوں نے  کسی سبجکٹ پر غاںُبانہ پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کی ہو تو بھی ملک کی ہر وزارت کو وہ اکیلے کیسے سمبھال سکتے ہیں جبکہ بی جے پی مخالف ذہنیت کا خیال ہے کہ کیا آرایس ایس نے پچھلے ستر اسی سالوں میں ایسے ہی باصلاحیت افراد تیار کییے ہیں اور اسے ملک کی سب سے اعلیٰ قیادت کیلںُے مودی جی کے علاوہ کوئ دوسرا شخص نہیں مل سکا- یہ ایک سوال ہے جو آرایس ایس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے کہ اس کے پاس ملک کی ترقی کیلںُے  سواےُ  فرقہ وارانہ سیاست اور مسلم دشمنی کے کوئ ٹھوس نظریہ اور منصوبہ نہیں ہے جو بھارت کو لوگوں کا آںُیڈیل بنا دے اور دنیا کے کولمبس خود بخود سونے کی اس چڑیا کا دیدار کرنے کیلںُے بے قرار ہوں -اس کا مطلب موہن بھاگوت یا تو بہت بھولے ہیں یا بہت ہی عیار یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم دشمنی کے جنون میں آرایس ایس کے تمام سربراہ کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہیں ورنہ وہ  ملک کی آبادی کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی بجاےُ ملک کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کو سدھارنے کی کوشس اور تدبیر ضرور کرتے اور اگر وہ اپنے باصلاحیت افراد کے ذریعے ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ہم یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں کہ آرایس ایس کو اس کے اپنے  ایجنڈے میں کامیاب ہونے سے کوئ نہیں روک سکتا تھا- آرایس ایس کو یہ بات بھی یقیناً پتہ ہے کہ سیاست سے لیکر تجارت اور معاشرت سب بدعنوانی اور فحاشی کے دلدل میں قید ہے اور بھارت اپنی سیاسی معاشرتی اور تہذیبی زوال کے ڈھلان پر تیزی کے ساتھ گامزن ہے, جسے واپس عروج تک پہچانہ تو دور کی بات ابھی تک ملک کی اس خستہ حال زوال پزیر صورتحال کو روکنے کی تدبیر بھی نہیں کی گںُی ہے -سیاسی بدعنوانی کے خلاف لوک پال کی تحریک چھیڑ کر انا ہزارے نے تو بہت کچھ بھارت کا چہرہ واضح کر دیا ہے کہ بیرونی بینکوں میں ہمارے سیاستدانوں نے کتنا مال چھپا رکھا ہے جسے واپس لانے کا وعدہ نریندر مودی جی بھی کرچکے ہیں -ملک کی معاشی بدعنوانی پر سے ماضی میں ہرشد مہتا , آئ ٹی انڈسٹری کے وجںُے متل , سہارا کے سبرت راؤ اور اب وجںُے مالیا نے پورا پردہ فاش کر دیا ہے اور اب میڈیا میں پنامہ پیپر کے نام سے ایک اور معاشی بدعنوانی کا اسکینڈل زیر بحث ہےجس کے اندر تقریباً پانچ سو صنعتکار اور فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیات کا نام شامل ہونے کا چرچا پے -کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے بیرونی ممالک میں اپنے سرماےُ کو منتقل کرنے کیلںُے پنامہ پیپر کے نام سے جعلی کمپنی بنائ ہوئ تھی -اس کے علاوہ جاںُز طریقے سے امبانی برادران اور بہت ساری کارپوریٹ کمپنیوں کے مالکان جس طرح ملک کو لوٹ رہے ہیں یہ بات بھی آرایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں سے مخفی نہیں ہے -اب آںُییے ہم آپ کو ملک کی دوسری تصویر کی طرف  توجہ مرکوز کراتے ہیں جسے آج تک کسی میڈیا یا غیر سرکاری تنظیم نے اس لیُے کبھی نہیں دکھایا کہ یہ ادارے خود بدعنوان ہیں اور اگر کبھی انہوں نے کسی بدعنوان تاجر اور سیاستداں کے خلاف انکشاف کیا بھی تو اس لیُے کہ انہیں خاموش رہنے کی بھی موٹی رقم ملنے کی لالچ ہوتی ہے -
> ایک بار کا واقعہ ہے ہمیں ایک کمپنی میں جس کی مثینوں کے پارٹس کا کام ہم پچھلے بیس سالوں سے کرتے ہیں اس کمپنی کے مینیجر کے کہنے پر مثین آپریٹر سے رابطہ کرنے کیلںُے کہا گیا تاکہ ہم اس کی شکایت کو دور کرسکیں -میں دو بجے پہنچا تو آپریٹر کہتا ہے عمر صاحب تھوڑا اور پہلے آنا چاہیُے تھا ابھی تو میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے -میں نے کہا تمہاری شفٹ تو تین بجے ختم ہوتی ہے ابھی تو ایک گھنٹہ باقی ہے -اس نے کہا ہم لوگ ہاتھ منھ دھونے کیلںُے ایک گھنٹہ پہلے ہی مثین چھوڑ دیتے ہیں -میں نے کہاکبھی کمپنی کے کام سے دس منٹ زیادہ بھی ہوگیا تو کیا فرق پڑتا ہے آخر اسی کمپنی سے تمہیں روزگار حاصل ہوا ہے کیا اس کیلںُے تم دس منٹ قربان نہیں کر سکتے - اس نے کہا کمپنی گںُی بھاڑ میں, میں اپنے معمول سے زیادہ کمپنی کو وقت نہیں دے سکتا -میں نے مثین چالو کروانے کے ایک ہفتے بعد جب اسی آپریٹر سے پوچھا کہ مثین کیسی چل رہی ہے تو اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن ابھی مجھے دو سال ریٹاںُر ہونے کو ہے اس سے پہلے مثین کی واٹ لگا دونگا تاکہ میرے جانے کے بعد کوئ اس مثین پر دوبارہ کام نہ کرسکے -میں یہ بات اس لیُے لکھ رہا ہوں کہ یہ ہے ہمارا ملک جہاں نوے فیصد سیاستدانوں سے لیکر صنعتکار مزدور اور کنٹریکٹروں کی ذہنیت ہی اپنے مالک اور ہمدرد کے تںُیں صاف نہیں ہے اور وہ صرف اپنے فاںُدے کے بارے میں سوچتا ہے -ایسے میں کیا اسے  بھارت ماتا کی جںُے سکھا دینے سے وہ بھارت کا وفادار ہو جاےُ گا ...? جبکہ بنسبت بھارت کے یورپ کا یہ تینوں طبقہ ہم سے کہیں زیادہ باصلاحیت ایماندار اور اصول کا پابند ہے - اور یہی اس کی ترقی کا راز بھی ہے - اس کے باوجود بھاگوت کو وہم ہے کہ ایک دن ساری دنیا بھارت ماتا کی جںُے بولنے کیلںُے مجبور ہوگی -ہماری بھی شبھ کامناںُیں بھارت اور موہن بھاگوت کے ساتھ ہے مگر بھاکوت جی کو کوئ بتاےُ کہ آذادی کے پینسٹھ سالوں میں آج تک ہم صرف ایک کوکن ریلوے کے سوا دوسری لاںُن نہیں بچھا سکے اور جہاں تک تعمیراتی شعبے میں کامیابی کی بات ہے کلکتہ کے پل گرنے کا حادثہ ہمارے سامنے ہے اور ایسے چھوٹے موٹے حادثے روز ہوتے ہیں جسے بحث میں بھی نہیں آنے دیا جاتا -سچ کہوں تو اگر مغلوں نے ہمیں تاج محل اور لال قلعے جیسی خوبصرت عمارتوں کا تحفہ نہ دیا ہوتا تو آج بھارت اور بھی ویران نظر آتا -آرایس ایس کے لوگوں  کو اصل میں شہنشاہ اورنگذیب کا بھی شکر گذار ہونا چاہیُے کہ آج انہیں جس بھارت ماتا پر فخر ہے وہ بہت ہی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اسے اسدالدین اویسی کے آباواجداد نے ہی ایک متحدہ یندوستان یعنی اکھنڈ بھارت میں تبدیل کیا تھا -پھر بھی بابا رام دیو اور فڈنویس کے جارحانہ لہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک اویسی کا نہیں آریس ایس کا ہے....!!!!

0 comments:

اپنی ہی لگائی آگ میں جھلستی موجودہ حکومت

 
موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ایک دوست صحافی کے یہ تاثرات کتنے صحیح ہیں کہ لوگ آر ایس ایس کو سب سے بڑی اور کامیاب تنظیم قرار دیتے تھے لیکن موجودہ تناظر میں یہ بات آشکار ہوئی ہے کہ آر ایس ایس نظر یاتی طور پر ایک منتشر تنظیم ہے ۔یہی سبب ہے کہ اسے یا اس کے لیڈروں کو یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا بیان دیں اور کس مسئلہ کو کس حکمت عملی سے طے کیا جائے ۔اس لئے بی جے پی ہی نہیں سنگھ کے لیڈروں کے بھی الٹے سیدھے بیانات میڈیا میں بحث کا حصہ بن رہے ہیں ۔جس سے مودی حکومت کی ناکامی پر کھل کر بحث ہو رہی ہے ۔مودی حکومت کی ناکامی آر ایس ایس کی ناکامی ہے ۔حید ر آباد مرکزی یونیورسٹی کے اسکالر روہت ویمولا کی موت کے کئی دن کے بعد مودی جی نے وارانسی میں یونیورسٹی کنووکیشن اجلاس میں کہا کہ بھارت ماں نے اپنا لال کھویا ہے ۔لیکن ان کے منافقت بھری باتوں کی پول وہیں کھل گئی ان کے خلاف نعرے لگانے والے دلت طالبعلم کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا یعنی انہیں بھی روہت ویمولا کی طرح ہی مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل کر مرنے کے مجبور کیا گیا ۔اس کے بعد یہ ایک معمول بن گیا کہ جہاں بھی طلبہ نے مودی حکومت کے خلاف احتجاج کیا وہاں ان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی ۔لیکن مرکزی حکومت کی ہر کارروائی اس کے خلاف ایک نئے طوفان کاپیش خیمہ بنتی گئی ۔اس سلسلے کی ایک کڑی کنہیا کی منصوبہ بند گرفتاری بھی تھی ۔لیکن وہاں بھی اس کے ہاتھ جھلس گئے ۔ 
جب آپ نے کوئی چیلنج کیا ہو ۔کسی کو بہتر زندگی دینے ،مثالی انتظامیہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہو، اور وہ آپ کے بس سے باہر ہو تو پھر آپ وہی سب کچھ کریں گے، جو آج کل بی جے پی کی حکومت میں ہو رہا ہے ۔جے این یو معاملہ پر کنہیا کی بیجا گرفتاری اور بی جے پی کے طلبہ ونگ کے فساد پر دانش گاہوں کا ماحول خرب کرنے کی کوشش پر نتیش کمار نے کہا تھاکہ معاشی استحکام کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں مرکزی حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے اور عوام کا ذہن پھیرنے کے لئے حب الوطنی کی اپنی زبان ملک پر تھوپنا چاہتی ہے۔نتیش کمار نے کوئی نئی بات نہیں کہی ۔یہ وہی باتیں ہیں جو اکثر شہریوں کی زبان پر ہے ۔بلکہ اب تو یہ باتیں نام نہاد محب وطن اور اصول پسند پارٹی کے لوگ بھی کہہ رہے ہیں ۔ نتیش کمار مرکزی حکومت کو چیلنج کرتے ہیں کہ کنہیا کے ملک کے غدار ہونے کا کوئی ثبوت ان کے پاس ہے تو وہ ملک کے سامنے پیش کرے ۔لیکن بات یہ ہے کہ کوئی ثبوت ہو تب نہ پیش کیا جائے ۔ایک سینئر اردو صحافی کے مطابق یہ سب کچھ صرف اور صرف جے این یو پر قبضہ کرنے کے لئے اور اس پر بھگوا سوچ مسلط کرنے کی کارروائی ہے ۔جب ہی تو مودی بھکت اور ناگپور کے اشارے پر رقص کرنے والی میڈیا اور ان کے دلال ٹائپ کے اینکروں نے ویڈیو میں ایڈیٹنگ کرکے جے این یو میں پاکستان حامی نعرے لگانے والوں کو دکھایا جن میں چہرے نظر نہیں آتے ۔میڈیا اور بی جے پی سمیت آر ایس ایس کی حرکتوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا ہر اسکرپٹ پہلے سے تیار رہتا ہے بس فلم بعد میں تیار ہوتی ہے ۔اور اس کے لئے ایکٹر بھی منتخب کئے جاچکے ہوتے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ سدھیر جیسے اینکر کو بھی بہترین صحافت کا ایوارڈ دیا جاتا جو کہ دھوکہ دھری اور ایکسٹورشن کے سلسلے میں حوالات کی ہوا کھا چکے ہیں ۔ 
ہم ایسے صحافیوں اور لیڈروں کو بھی دیکھتے ہیں جنہیں عام طور پر سیکولر مانا جاتا رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے پروگرام میں سیکولر شبیہ لے کر آتے رہے ہیں ۔انہی میں سے ممبئی میں مشہور انگریزی اخبار کے سابق سٹی ایڈیٹر بھی ہیں ۔ایک نیوز گروپ پر ان کا سارا زور سنگھی آئیڈیا لوجی کو پروموٹ کرنے پر رہتا ہے ۔کنہیا کی گرفتاری پر بھی وہ اسی لائن پر اپنے خیالات پیش کررہے ہیں۔ جسے ناگپور سے براستہ دلی ملک میں پیش کیا جارہا ہے ۔وہ حقائق کو جان کر اور اسے سمجھ کر بھی اس پر کوئی گفتگو نہیں کرتے بلکہ ان کا سارا زور اس پر رہتا ہے کہ راہل گاندھی ،کیجریوال اور نتیش کمار نے افضل گرو اور پاکستان کے حق میں نعرہ لگانے والوں کی حمایت کی ۔جبکہ وہ ویڈیو وائرل ہو چکا ہے جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان زندہ آباد کے نعرے خود سنگھ اور بی جے پی کے طلبہ ونگ کے لڑکوں نے لگائے تھے ۔لیکن دلال میڈیا اور دلال بھکت دونوں ہی اس پر کوئی گفتگو نہیں کرتے ۔روہت ویمولا پر ہی اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ یہ حکومت نوجوانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ کیجریوال کا بیان سوشل میڈیا پر آیا کہ کنہیا کی گرفتاری مودی حکومت کو بھاری پڑے گی۔راہل گاندھی نے بھی کہا کہ جو طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش کرے وہی سب سے بڑا غدار وطن ہے ۔کنہیا کی رہائی پر بھی اسے مبارکباد دینے اور اس کی بارے میں پیش گوئی کرنے والوں کا تانتا لگ گیا ۔رہائی کے بعد کنہیا کی تقریر پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مشہور صحافی نکھل واگھلے ٹوئٹر پر کہتے ہیں ’’کنہیا کی صورت میں نئے لیڈر کا عروج‘‘۔اب یہ نیا ابھرتا ہوا لیڈر پورے ملک میں گھوم گھوم کر کالج اور یونیورسٹی میں طلبہ سچائی سے آگاہ کررہا ہے ۔جس پر کسی کہنے والے نے ٹھیک ہی کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنی قبر خود ہی کھودنی شروع کردیا ۔
یہ مختلف تاثرات اور خیالات ہیں جو روہت ویمولا کی خود کشی کے بعد اور اس کے بعد کنہیا کی گرفتاری پر سامنے آئے ہیں ۔سیدھے الفاظ میں جو الفاظ اروند کیجریوال کے ہیں کہ ’’یہ حکومت نوجوانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے‘‘۔وہ اپنی جگہ پر بالکل درست ہے ۔اس سے زیادہ سیدھا اور عام فہم جملہ فی الحال موجودہ حکومت کے لئے ہوہی نہیں سکتا ۔الیکشن سے قبل مشتہر ہونے کے لئے بی جے پی نے سارے چینلوں کے پرائم ٹائم اپنے نام کرلئے تھے ۔اگر اتر پردیش کے دور دراز گاؤں میں بھی مودی جی کوئی جلسہ سے خطاب کررہے ہیں تو سارے ہی چینل ان کی پوری تقریر کو راست نشر کررہے تھے ۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور حکومت کی پہلی سالگرہ تک چینلوں نے اس کاحق ادا کرنے کی پوری کوشش کی لیکن جب عوامی توقعات پوری کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام رہی تو کچھ چینلوں نے اپنی عوامی مقبولیت بچانے کے لئے آنکھیں ٹیڑھی کرنی شروع کیں ۔اور اب دیکھ لیجئے کہ پہلے روہت ویمولا کی خود کشی اور اب کنہیا کی بے جا گرفتاری اور پھر اس کی رہائی نے بغیر کسی اخراجات کے چند ایک چینلوں کو چھوڑ کر سارے کے پرائم ٹائم پر قبضہ کرلیا ۔اس کو کہتے ہیں عوامی توقعات کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ۔صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا ہے جناب وزیر اعظم !
اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی عوام کے پاس جانے کا اپنا اخلاقی حق کھوتی جارہی ہے ۔عوام نے تبدیلی اور انقلابی اقدام کے لئے بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تھا لیکن ہوا اس کا الٹا نہ کوئی انقلابی تبدیلی آئی نہ مہنگائی کم ہوئی ۔بدعنوانی کے خلاف لمبی باتیں کرنے والے اب خاموش نظر آرہے ہیں ۔کسانوں کی خود کشی کی تعداد بھی سال 2015 میں پچھلے سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے ۔ہر دن نئے نئے ایونٹ نئے نئے اعلانات کئے جارہے ہیں لیکن زمینی طور پر کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے ۔عوام کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے ۔پورے ملک کے جوہری غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہیرے کی لالچ میں پتھر کا چناؤ کرلیا اب کیاکریں دو سال تو گذر ہی گیا ہے تین سال مزید اس تکلیف دہ دور میں جینا ہے ۔جوہریوں سناروں اور درمیانہ تاجر برادری نے کھل کر نریندر مودی حکومت کو سپورٹ کیا تھا اب ان کا نعرہ ہے ’’ہماری بھول ،کمل کا پھول‘‘۔کسی نے ایسے حالات سے پریشان ہو کر کہا تھا کہ ’جن لوگوں کو مندروں میں گھنٹی بجانے اور پوجا پاٹھ کرنے کا کام تھا وہ عوام کا جذباتی استحصال کرکے ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہو گئے ۔اب عوام سوچتے ہیں کہ یہ مصیبت کب ٹلے گی ۔یہ تو جمہوری طرز حکومت کی دین ہے کہ عوام ہر پانچ سال کی تبدیلی کی وجہ سے صبر کرلیتے ہیں ۔ورنہ حالات اتنے زیادہ خراب ہو گئے ہیں کہ صبر کرنا محال ہے ۔ایک وقت تھا جب لال بہادر شاستری نے ریلوے حادثہ پر اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا ۔عوام سوچتے ہیں کہ شاید موجودہ حکومت کا بھی ضمیر بیدار ہوجائے اور وہ تین سال مزید انتظار کی زحمت دیے بغیر ہمیں معاف کردے تو بہتر ہو تا ۔ورنہ تین سال کے بعد تو بی جے پی جیسی حکمرانی چلا رہی ہے کانگریس کو بنا کچھ کئے ہی آئندہ لوک سبھا میں بھاری اکثریت مل جائے گی ۔سنگھ کے ساتھیوں ان کی ذیلی تنظیموں اور سیاسی ونگ بی جے پی سے عوام کی فریاد ہے کہ آپ سنگھ اور اس کی تنظیمیں چلائیں اور جو کچھ آپ کو کرنا ہے کریں وہی آپ کے لئے ٹھیک ہے ۔اسی میں آپ کامیاب ہیں ۔عوام پر رحم کریں ۔حکومت کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ویسے بھی آپ کی حکومت مسلسل آگ سے کھیلنے کا کام کررہی ہے ۔جس سے ہر دم نہ صرف یہ کہ آپ کے جھلسنے کا خطرہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی پر بھی خطرات منڈلارہے ہیں ۔ہم آپ کے جھلسنے کی فکر سے آزاد ہو بھی سکتے ہیں لیکن ملک کی سلامتی کے تعلق سے ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔
نہال صغیر۔ بلاد آدم ۔ ضلع ویشالی ۔ بہار۔ موبائل :9987309013 ای میل:sagheernehal@gmail.com

0 comments:

اپنی آگ ؍پرائی آگ


 ممتاز میر

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ۔اے عقل والو،قصاص کے قانون میں تمھارے لئے زندگی کا سامان ہے۔یعنی قاتل کو بھی سزائے موت نہ دی گئی تو وہ معاشرے کی موت کا سامان کریگا۔اسلام سے پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کوئی مرکزی اتھارٹی نہ ہونے کی بنا پر صرف ایک فرد کے قتل کی وجہ سے قبائل کے قبائل آپسی جنگوں میں الجھ جاتے تھے اور ان کی دشمنیاں نسلوں چلتی تھی۔آج گو کہ قانون بھی موجود ہے قانون نافذ کرنے والوں کا بھی وجود ہے مگر قانون طاقتوروں کے ہاتھوں میں موم کی ناک بنا ہوا ہے۔اسلئے جو ایک بار قتل کرکے بچ جاتا ہے پھر وہ بار بار قتل کرتا ہے ۔اور اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ معاشرے میں بے چینی و بدامنی پیدا کرتا ہے مگر اس ترقی یافتہ زمانے میں بہت سارے ممالک اور دانشور ایسے ہیں جو سزائے موت کے خلاف ہیں۔ان کی آنکھوں میں سب سے زیادہ اسلامی سزائیں کھٹکتی ہیں مگر قدرت پر بس نہیں چلتا وہ کبھی کبھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے تب اڈوانی اور ششما سوراج جیسے مستند سنگھی بھی اسلامی سزاؤں کے چاہنے والوں میں نظر آتے ہیں۔پچھلے دنوں دوران مطالعہ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ کی کتاب میں ایک واقعہ پڑھنے کو ملا ۔جی چاہتا ہے قارئین سے شیئر کیا جائے۔
کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں ایک مجرم کلفرڈ اولسن کو قتل زنا بالجبر اور غیر فطری عمل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔یہ شخص نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کو روزگار دلانے کے بہانے ساتھ لے جاتا ۔پھر نشہ آور اشیاء کھلا کر زبردستی جنسی عمل کرتا ۔اور پھر انھیں قتل کرکے دور دراز مقامات پردفن کر دیتا۔گرفتاری کے بعد اس نے یہ اعتراف کیا کہ اس نے ۱۱ نو عمر لرکوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی عمل کرکے انھیں قتل کیا ہے اور ان کی لاشیں مختلف مقامات پر چھپادی ہیں۔اور قتل بھی اس درندگی کے ساتھ کیا کہ جب ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی تو اس کے سر میں لوہے کی میخ ٹھکی ہوئی پائی گئی۔
اسلام پر تنقید کرنے والوں کی جدت کہئے یا کوئی نفسیاتی عارضہ کہ جب مجرم گرفتار ہوا تو پولس نے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ گیارہ مقتول بچوں کی نشاندہی کرے تو اس ستم ظریف نے جو مطالبہ کیا وہ بھی مغرب کی فکرکی طرح بے نظیر تھا۔اس نے کہا میں پتہ اس شرط پر بتاؤں گا کہ حکومت مجھے فی لاش دس ہزار ڈالر معاوضہ ادا کرے ۔اور حسب توقع اس مطالبے کو شرف قبولیت بھی عطا کیا گیا۔مگر جب پولس نے اس کی خوشامد درآمد کی تو موجودہ دور کے تجارتی اصول کے مطابق ۱۰ پر ایک فر ی کردیا۔اور ایک لاکھ ڈالر لے کر ۱۱ بچوں کی لاشیں برآمد کروادیںیہ بچے ۱۲ سے۱۸ سال کی عمر تک کے تھے۔کنیڈا میں بھی برسوں8 پہلے سزائے موت ختم کر دی گئی تھی اسلئے عدالت مجرم کو زیادہ سے زیادہ جو سزا دے سکی وہ سزائے عمر قید تھی ۔ساتھ ہی عدالت نے یہ سفارش بھی کردی کہ مجرم کو کبھی پیرول پر رہا نہ کیا جاسکے گا ۔اس شرط سے یہ لگتا ہے کہ منصف محترم کو جرم کی سنگینی کا احساس تھا۔اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ مجرم کو سزائے موت دیتے۔مگران کے بس میں اس شرط پر لازمی عمل کروانا بھی نہ تھا۔اس لئے انھیں بس سفارش کر کے دل مسوس کر رہ جانا پڑا۔حیرت ہے کہ یہ دانشور اسلامی قوانین کو جامد کہتے ہیں۔اگر ایسا معاملہ کسی مسلم قاضی کو پیش آیا ہوتا تو کیا وہ مجرم کو قرار واقعی سزا دلائے بغیررہتا ؟مگر مغرب کی مزید ستم ظریفیاں ابھی باقی ہیں۔
ان گیارہ بچوں کے والدین کوجب پتہ چلاکہ جس درندے نے ان کے بچوں کو انتہائی درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا تھا اسے ایک لاکھ ڈالر معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔تو فطری طور پر ان میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔اور انھوں نے اولسن پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کردیا۔جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کنیڈا کے ٹیکس دہندگان کے جو ایک لاکھ ڈالراس درندے کی جیب میں گئے ہیں وہ اس سے لے کر مرنے والے بچوں کے ورثاء کے حوالے کئے جائیں۔مگر مغرب کی مہذب اور عقلمند کورٹ نے فیصلہ ان کے خلاف دیا۔اپیل کورٹ نے بھی مقدمہ خارج کر دیااور سپریم کورٹ نے اس کی سماعت سے ہی انکار کردیا۔مگر جب اولسن نے بہتر رہائشی سہولیات کے لئے کورٹ میں درخواست دی تو یہ سماعت کے لئے منظور کرلی گئی۔آخری اطلاعات یہ تھیں کہ متاثرہ لوگوں نے ایک انجمن بنا لی تھی جس کا مطالبہ یہ تھا کہ کنیڈا میں سزائے موت کا قانون واپس لایا جائے۔
خدا بیزار معاشروں کا حال یہ ہے کہ کہیں اجتماعی ضمیر کے اطمینان کی خاطر بھی مجرموں کوسزا دینے کی بجائے سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور کہیں ثبوت و گواہ کی عدم موجودگی میں بھی اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے رات کے اندھیروں میں’’ملزموں‘‘ کو پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ایسے ’’نکٹے‘‘ لوگ اسلامی سزاؤں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
آخر میں ہم خود اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہیں۔یہ ۸۱ ؍۱۹۸۰ کی بات ہے ۔ہم بمبئی کی ایک بڑی ٹیکسٹائل مل میں کام کرتے تھے ۔جہاں ہمارے زیادہ تر کولیگ بنگالی تھے۔ بنگالی اپنے آپ کوبڑا دانشور سمجھتے ہیں۔یہ اکثرہم سے اسلام اور اسلای سزاؤں پر بحث کرتے۔ان میں ایک تھے مسٹر پال جو ہم سے دیگر بنگالیوں کے مقابلے زیادہ قریب تھے مگر انھیں بھی اسلامی سزاؤں سے شکایت تھی ۔ایک روز ہم ڈیوٹی پر زرا فرصت میں تھے مسٹر پال ہمیں بنگال کی قبائلی زندگی کی باتیں بتا رہے تھے۔باتوں باتوں میں انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک قبیلے نے دوسرے قبیلے پر حملہ کر دیا اور نہ صرف مردوں کو بلکہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ایک ایک کو چن چن کر قتل کر دیا۔یہ سب بتاتے بتاتے مسٹر پال اشتعال میں آگئے اور کہنے لگے کہ میرا بس چلے تو میں ظالم قبیلے کے ایک ایک فرد کو نہ صرف قتل کردوں بلکہ ان کی لاشوں کا مثلہ کردوں۔ہم نے ان سے پوچھا کہ کیوں؟کیا اسوقت وہاں آپ کے بھائی ،بہن یا دیگر قریبی رشتے دار تھے۔جواب دیا ،نہیں۔ہم نے پھر پوچھا۔کیا دوست و احباب تھے ۔پھر جواب ملا،نہیں،آخر میں انھوں نے بتایا کہ ان کا نسلی تعلق اسی مظلوم قبیلے سے ہے۔ہم نے کہا کہ نہ آپ کا کوئی دوست اس واقعے میں قتل ہوا ہے اور نہ کوئی قریبی عزیز۔صرف نسلی تعلق کی بنا پر آپ قاتلوں کو قتل ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی لاشوں کا مثلہ کرنا چاہتے ہیں پھر وہ جس کے قریبی عزیز کو کوئی قتل کردے اور وہ حکومت کے پاس اس کے قتل کا دعویٰ کرے توبتائیے مظلوم کو تسکین کس طرح حاصل ہوگی ؟اس دن کے بعد ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے ہم سے اسلامی سزاؤں پر بحث نہیں کی ۔
رحمدلی بڑی اچھی صفت ہے مگر صحیح وقت اور صحیح جگہ پر ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔

 ممتاز میر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
07697376137 
Attachments 

0 comments: