featured
ملک اس وقت گئو رکشکوں کی دہشت کے سائے میں ہے ۔کوئی دن نہیں جاتا جب اس ناہنجار گروہ کی حرکتیں اخبار کی زینت نہیں بنتی ہوں ۔ان سر پھروں اور موجودہ مودی حکومت سے خاموش حمایت یافتہ بدمعاش قبیلہ نے ملک کی فضا کو زہر آلود کردیا ہے ۔پڑوسیوں کو اپنے پڑوسی سے مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے ۔ہر طرف سنسنی خیزی اور خاموش دہشت کا سماں ہے ۔ہمارے وزیر اعظم صرف اتنا کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ہمارے دلت بھائیوں کو مت مارو مارنا ہے تو ہمیں مارو ،یا ان کا گئو رکشکوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔یعنی کارروائی کے نام پر صفر ۔بلکہ ان دہشت گردوں کو شاباشی دینے کا غالبا یہ خفیہ الفاظ ہے ۔ ان کی ان باتوں سے متاثرین یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کو عام آدمی دلتوں اور مسلم اقلیت کا کتنا خیال ہے ۔لیکن درپردہ ملزمین اسے اپنے لئے حمایت سمجھتے ہیں ۔جب ہی تو ان کے ان بیانات کے بعد بھی گئو رکشکوں کی دہشت گردی جاری ہے ۔ان کی اس حرکت سے یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی جمہوری نظام نہیں ہے جس کے تحت مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ اپنا کام کرتے ہیں ۔یہاں تو یہ خیال گزرتا ہے کہ یہاں جنگل راج ہے ۔ آج ہی ایک مراٹھی روزنامہ کے سیاسی مدیر کہہ رہے تھے کہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ جب اس طرح کا فسادی ٹولہ خود کو ہر طرح کے غیر قانونی حرکتوں کیلئے آزاد محسوس کررہا ہے ۔یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے ۔حکومت کی خاموش حمایت سے اس انارکی اور لاقانونیت میں اضافہ کا خدشہ ہے ۔جس سے ملک میں ہر طرف افراتفری کا ماحول بن جائے گا اور بالآخر یہ افراتفری خانہ جنگی تک لے جانے والا ثابت ہو سکتا ہے ۔ایسے حالات میں ممکن ہے حکومت بھی خود کو بے یارو مدد گار تصور کرتی ہو ۔اسے بھی یہ سمجھ نہیں آرہا ہو کہ کس طرح ان اپنے پالوں کو قابو میں کیا جائے ۔تو اس کا بھی ایک آسان اور سیدھا راستہ ہے کہ انہیں راست طور پر دہشت گردوں سے مقابلہ کیلئے اندرون ملک بھِرا دیا جائے اور سرحد پر چین و پاکستان کی افواج سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی فوج ہٹا کر انہیں تعینات کردیا جائے ۔ یہ کام اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو لوگ یہ حرکتیں انجام دے رہے ہیں وہ ہندوتوا کے علمبردار ہی نہیں بلکہ خود کو سب سے بڑا محب وطن قرار دیتے ہیں ۔اب محب وطن ہونے کا ثبوت اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں مسلح ملک دشمن عناصر سے راست لڑکر ان کو شکست سے دو چار کرانا چاہئے ۔اس طرح ان دیش بھکتوں کی آتما کو بھی شانتی ملے گی اورانہیں افسوس بھی نہیں رہے گا کہ ملک کیلئے انہیں کچھ کرنے کا موقعہ نہیں ملا ۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک دشمن عناصر سے ملک محفوظ ہو جائے گا ۔لیکن اس طرح نہتھوں پر حملہ سے تو یہ گروہ بدنا م ہی ہو رہا ہے ۔تیسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کے دفاع میں آنے والے بجٹ میں کافی کمی ہو جائے گی جس سے کافی قومی سرمایہ بچ کر دوسرے مدوں میں صرف ہو گا ۔غالبا گئو رکشکوں کی ان ہی حرکتوں سے نالاں ادھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے لڑ کر دکھائیں ۔اب گئو رکشکوں اور فرضی راشٹر وادیوں کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ان پر جو طعنہ زنی کی جاتی ہے کہ وہ دیش بھکتی کا ناٹک کرتے ہیں ۔ان الزامات سے انہیں پیچھا چھڑانے کا یہ اچھا موقعہ ہے کہ وہ پاکستانی اور چینی فوجیوں سے مقابلہ کریں اور ملک کو سوپر پاور بنائیں نیز دہشت گردوں سے ملک کو پاک کریں ۔اگر ان دیش بھکتوں اور گئو رکشکوں نے ایسا کارنامہ نجام دیدیا تو ہندوتوا کے علمبرداروں کو ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی ۔لیکن اگر انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کو ان خطرات سے پاک نہیں کیا تو پھر انہیں دیش بھکتی اور ہندوتوا کے نام پر نہتھوں کو پر حملہ بند کردینا چاہئے ۔لیکن یہ نام نہاد دیش بھکت ایسا نہیں کرسکتے ہیں ۔انہیں صرف نہتھوں اور معصوم عوام پر حملہ کرنا ہی آتا ہے ۔اگر ان معصوموں میں سے ہی کسی نے کبھی لوہے کا راڈ اٹھاکر انہیں دوڑایا تو وہ بھاگتے نظر آئیں گے ۔ایسا ہو بھی چکا ہے ۔پنجاب میں کسی فرضی دیش بھکت نے سکھوں کیخلاف کوئی احتجاج اور پتلہ جلانے کا پروگرام کیا لیکن سکھ نوجوان خنجر لہراتا ہوا آیا تو وہ سارے دیش بھکت اپنی جان بچا کر بھاگتے نظر آئے ۔جبکہ وہ سکھ اکیلا تھا اور وہ فرضی دیش بھکتوں کی تعداد آٹھ دس کے قریب تھی یا اس سے بھی زیادہ ۔ان دیش بھکتوں اور گئو رکشکوں سے نجات کے دو ہی علاج ہیں ۔اول تو انہیں سرحدوں پر تعینات کردیا جائے کہ بیٹا آئو دیش بھکتی کا جو کیڑا کاٹ رہا ہے اس سے یہاں آکر نجات پائو اور دوسرا مسلمانوں کا بھی کوئی ایک گروہ ہو جو ان سے نمٹے ۔یہ لوگ بڑے شوق سے ویڈیو بناتے ہیں نا بس چہرہ پہچانئے اور پھر ۔۔۔اس کے بعد آپ کہیں ان کا وجود نہیں پائیں گے ۔اگر کبھی بھول سے بھی آپ نے کسی گئو رکشک کو کہہ دیا کہ تم گئو رکشک ہو تو وہ کان پکڑ کر سو کیا ایک ہزار بار اٹھ بیٹھ کرلے گا لیکن قبول نہیں کرے گا کہ کبھی اس کا اس گروہ سے تعلق تھا یا مستقبل میں وہ کبھی ایسی سوچ پر عمل کرے گا۔
انہیں سرحد پر تعینات کردیں ،دیش بھکتی کا سارا خمار اتر جائے گا
نہال صغیر
ملک اس وقت گئو رکشکوں کی دہشت کے سائے میں ہے ۔کوئی دن نہیں جاتا جب اس ناہنجار گروہ کی حرکتیں اخبار کی زینت نہیں بنتی ہوں ۔ان سر پھروں اور موجودہ مودی حکومت سے خاموش حمایت یافتہ بدمعاش قبیلہ نے ملک کی فضا کو زہر آلود کردیا ہے ۔پڑوسیوں کو اپنے پڑوسی سے مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے ۔ہر طرف سنسنی خیزی اور خاموش دہشت کا سماں ہے ۔ہمارے وزیر اعظم صرف اتنا کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ہمارے دلت بھائیوں کو مت مارو مارنا ہے تو ہمیں مارو ،یا ان کا گئو رکشکوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔یعنی کارروائی کے نام پر صفر ۔بلکہ ان دہشت گردوں کو شاباشی دینے کا غالبا یہ خفیہ الفاظ ہے ۔ ان کی ان باتوں سے متاثرین یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کو عام آدمی دلتوں اور مسلم اقلیت کا کتنا خیال ہے ۔لیکن درپردہ ملزمین اسے اپنے لئے حمایت سمجھتے ہیں ۔جب ہی تو ان کے ان بیانات کے بعد بھی گئو رکشکوں کی دہشت گردی جاری ہے ۔ان کی اس حرکت سے یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ملک میں کوئی جمہوری نظام نہیں ہے جس کے تحت مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ اپنا کام کرتے ہیں ۔یہاں تو یہ خیال گزرتا ہے کہ یہاں جنگل راج ہے ۔ آج ہی ایک مراٹھی روزنامہ کے سیاسی مدیر کہہ رہے تھے کہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ جب اس طرح کا فسادی ٹولہ خود کو ہر طرح کے غیر قانونی حرکتوں کیلئے آزاد محسوس کررہا ہے ۔یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے ۔حکومت کی خاموش حمایت سے اس انارکی اور لاقانونیت میں اضافہ کا خدشہ ہے ۔جس سے ملک میں ہر طرف افراتفری کا ماحول بن جائے گا اور بالآخر یہ افراتفری خانہ جنگی تک لے جانے والا ثابت ہو سکتا ہے ۔ایسے حالات میں ممکن ہے حکومت بھی خود کو بے یارو مدد گار تصور کرتی ہو ۔اسے بھی یہ سمجھ نہیں آرہا ہو کہ کس طرح ان اپنے پالوں کو قابو میں کیا جائے ۔تو اس کا بھی ایک آسان اور سیدھا راستہ ہے کہ انہیں راست طور پر دہشت گردوں سے مقابلہ کیلئے اندرون ملک بھِرا دیا جائے اور سرحد پر چین و پاکستان کی افواج سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی فوج ہٹا کر انہیں تعینات کردیا جائے ۔ یہ کام اس لئے بھی ضروری ہے کہ جو لوگ یہ حرکتیں انجام دے رہے ہیں وہ ہندوتوا کے علمبردار ہی نہیں بلکہ خود کو سب سے بڑا محب وطن قرار دیتے ہیں ۔اب محب وطن ہونے کا ثبوت اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں مسلح ملک دشمن عناصر سے راست لڑکر ان کو شکست سے دو چار کرانا چاہئے ۔اس طرح ان دیش بھکتوں کی آتما کو بھی شانتی ملے گی اورانہیں افسوس بھی نہیں رہے گا کہ ملک کیلئے انہیں کچھ کرنے کا موقعہ نہیں ملا ۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک دشمن عناصر سے ملک محفوظ ہو جائے گا ۔لیکن اس طرح نہتھوں پر حملہ سے تو یہ گروہ بدنا م ہی ہو رہا ہے ۔تیسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک کے دفاع میں آنے والے بجٹ میں کافی کمی ہو جائے گی جس سے کافی قومی سرمایہ بچ کر دوسرے مدوں میں صرف ہو گا ۔غالبا گئو رکشکوں کی ان ہی حرکتوں سے نالاں ادھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں سے لڑ کر دکھائیں ۔اب گئو رکشکوں اور فرضی راشٹر وادیوں کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ان پر جو طعنہ زنی کی جاتی ہے کہ وہ دیش بھکتی کا ناٹک کرتے ہیں ۔ان الزامات سے انہیں پیچھا چھڑانے کا یہ اچھا موقعہ ہے کہ وہ پاکستانی اور چینی فوجیوں سے مقابلہ کریں اور ملک کو سوپر پاور بنائیں نیز دہشت گردوں سے ملک کو پاک کریں ۔اگر ان دیش بھکتوں اور گئو رکشکوں نے ایسا کارنامہ نجام دیدیا تو ہندوتوا کے علمبرداروں کو ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی ۔لیکن اگر انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کو ان خطرات سے پاک نہیں کیا تو پھر انہیں دیش بھکتی اور ہندوتوا کے نام پر نہتھوں کو پر حملہ بند کردینا چاہئے ۔لیکن یہ نام نہاد دیش بھکت ایسا نہیں کرسکتے ہیں ۔انہیں صرف نہتھوں اور معصوم عوام پر حملہ کرنا ہی آتا ہے ۔اگر ان معصوموں میں سے ہی کسی نے کبھی لوہے کا راڈ اٹھاکر انہیں دوڑایا تو وہ بھاگتے نظر آئیں گے ۔ایسا ہو بھی چکا ہے ۔پنجاب میں کسی فرضی دیش بھکت نے سکھوں کیخلاف کوئی احتجاج اور پتلہ جلانے کا پروگرام کیا لیکن سکھ نوجوان خنجر لہراتا ہوا آیا تو وہ سارے دیش بھکت اپنی جان بچا کر بھاگتے نظر آئے ۔جبکہ وہ سکھ اکیلا تھا اور وہ فرضی دیش بھکتوں کی تعداد آٹھ دس کے قریب تھی یا اس سے بھی زیادہ ۔ان دیش بھکتوں اور گئو رکشکوں سے نجات کے دو ہی علاج ہیں ۔اول تو انہیں سرحدوں پر تعینات کردیا جائے کہ بیٹا آئو دیش بھکتی کا جو کیڑا کاٹ رہا ہے اس سے یہاں آکر نجات پائو اور دوسرا مسلمانوں کا بھی کوئی ایک گروہ ہو جو ان سے نمٹے ۔یہ لوگ بڑے شوق سے ویڈیو بناتے ہیں نا بس چہرہ پہچانئے اور پھر ۔۔۔اس کے بعد آپ کہیں ان کا وجود نہیں پائیں گے ۔اگر کبھی بھول سے بھی آپ نے کسی گئو رکشک کو کہہ دیا کہ تم گئو رکشک ہو تو وہ کان پکڑ کر سو کیا ایک ہزار بار اٹھ بیٹھ کرلے گا لیکن قبول نہیں کرے گا کہ کبھی اس کا اس گروہ سے تعلق تھا یا مستقبل میں وہ کبھی ایسی سوچ پر عمل کرے گا۔
0 comments: