Muslim Issues

ہمارے معاشرے میں کئی سلیم شیخ ہیں

10:12 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

عام طور پر مسلمانوں پر الزامات کی برسات کرنے والے متعصب ذہنیت کے لوگ کسی دہشت گردانہ حملہ کے بعد پِل پڑتے ہیں اور زبانی حملہ شروع کردیتے ہیں ۔حالیہ امر ناتھ زائرین پر حملہ معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔لیکن اس حملہ میں ہلاکت کی تعداد بڑھ سکتی تھی ۔مگرسلیم شیخ نام کے اس بس ڈرائیور کی جرات مندی اور حاضر دماغی کے طفیل کئی قیمتی جانیں محفوظ رہیں ۔ورنہ کئی خاندانوں کے مزید چراغ گل ہو سکتے تھے۔ کچھ اور بچے یتیم اور بے سہارا ہو جاتے ۔کئی اور خواتین بیوگی کے درد اور تنہائی کے صحرا میں بھٹکنے کو مجبور ہو جاتیں۔سلیم شیخ کی جرات مندی کو سلام جس کی حاضر دماغی کی وجہ سے بڑا سانحہ اور انسانیت کو شرمندہ کرنے والا وقعہ زیادہ خطرناکی سے بچ گیا ۔ اب ہر چہار جانب حملہ کے ذمہ داروں سے زیادہ سلیم شیخ کی جرات مندی کے تذکرے ہیں ۔حکومت گجرات نے بھی اس کے اس کارنامہ کو سراہتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بہادردی ایوارڈ کے لئے سفارش کرے گی ۔مسلمانوں کو گالیاں دینے والے اور اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دینے والے افراد یا تنظیموں کی واویلا مچانے والی عادت کے شور میں کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیم شیخ کے کارنامے کی گونج ماند پڑ جائے ۔ماضی میں ایسا ہو چکا ہے ۔آج صرف مسلمانوں کی دہشت گردی والے مفروضے کو ہی اچھالا جاتا ہے ۔لیکن ہمارے درمیان سلیم شیخ کوئی تنہا شخص نہیں ہے ۔اس سے قبل بھی ایسے نوجوان سامنے آتے رہے ہیں جنہوں نے انسانوں کی جانوں کو محفوظ کرنے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی ۔یوں تو بہادری کسی قوم یا مذہب ست وابستہ نہیں ہے لیکن ہم جب حالات کو دیکھتے ہیں تو انسانی جانوں کی قدر کرنے والوں میں مسلم نوجوانوں کی اکثریت نظر آتی ہے ۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اسی رمضان میں اسی کشمیر سے یہ خبر آئی تھی کہ ایک مسلم پولس افسر نے سحری کے وقت دہشت گردانہ حملہ کو ناکام بنایا تھا ۔اس کے علاوہ کئی ایسے واقعات مل جائیں گے ۔اس وقت چونکہ ذہن میں زیادہ واقعات نہیں ہیں ۔ کئی سال قبل میرٹھ میں اسکول کے ایک پروگرام میں اچانک آگ لگ جانے کی وجہ سے کئی بچے موت کے منھ میں چلے گئے تھے ۔وہاں بھی بچوں کیلئے ایک مسلم نوجوان ہی مسیحا بن کر آیا اور اس نے کئی مرتبہ آگ میں چھلانگ لگا کر معصوم بچوں کی جانیں بچائیں اور یوں کئی گھروں کے پھول وقت سے قبل مرجھانے سے محفوظ رہے ۔لیکن وہ نوجوان اس کوشش میں خود کوجھلسانے سے نہیں بچا سکا ۔وہ جس نے کئی گھروں کے چراغ کو بجھنے سے بچایا تھا وہ خود اپنے گھر میں اندھیرا کرگیا ۔اس وقت بھی اس کی کافی تعریف ہوئی تھی ۔جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ایسے کئی مسلم نوجوان ہیں جو ہماری ملت کیلئے فخر کا سبب ہیں ۔دو یا تین سال قبل کا ایک اور واقعہ یاد آیا جب جنوبی ہند  طوفان باد و باران کے سبب آئے بھیانک سیلاب کی زد میں آیا تھا ۔لوگ اپنے اپنے گھروں کے اطراف میں پانی کے بھرجانے قید ہو کر رہ گئے تھے ۔ایسے میں مسلم نوجوانوں کا گروہ در گروہ باہر آیا اور اس نے بلا لحاظ مذہب متاثرین کی خدمت کی اور ان کو پریشانیوں سے نکالا ،محفوظ جگہوں پر پہنچایا ۔جہاں سے کافی جذباتی باتیں سامنے آئی ۔ایک خاتون نے نامہ نگار سے کہا کہ ’’ہم انہیں دہشت گرد سمجھتے تھے لیکن وہ ہمارے لئے فرشتہ رحمت بن کر آئے ۔انہوں نے ہمیں محفوظ مقام پر پہنچایا ۔ہمارے لئے غذائی اشیا کے انتظامات کئے ‘‘۔انہی ہنگامی حالات میں ایک حاملہ خاتون جسے ہسپتال جانے کی ضرورت تھی ۔مسلم نوجوان نے اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر اسے ہسپتال پہنچایا ۔وہاں شاید اسی دن یا دوسرے دن زچگی ہو ئی اس خاتون اور اس کے شوہر نے اپنے اس بچہ کا نام اسی مسلم نوجوان کے نام پر رکھا غالبا اس نوجوان کا نام یوسف تھا۔کشمیر سے ایسے اور کئی واقعات بھی ہیں ۔جیسے دوسال قبل سیلاب کے موقعہ پر مسلم نوجوانوں نے جموں میں ہندوئوں کی جان بچائی اور انہیں غذائیں مہیا کرائیں ۔اسی سیلاب کے موقعہ پر کشمیر گھاٹی میں ایک بس حادثہ کا شکار ہوگئی تھی ۔مسافروں کے بیانات کے مطابق انہوں نے اپنی مدد کیلئے فوجیوں کوآواز دی لیکن کوئی انکی مدد کو نہیں آیا ۔نہ ہی کوئی سرکاری امداد پہنچی ۔آس پاس کے مسلم آبادی سے بس مسافروں کو امداد ملی ۔انہوں نے بس کو کاٹ کر مسافروں کی جان بچائی ۔سیلاب کے موقعہ پر فیض آباد کے ایک برہمن کی ویڈیو بھی ان دنوں کافی وائرل ہوئی تھی جب اس نے کہا کہ ڈیڑھ سو زائرین کو ایک مشہور علیحدگی پسند لیڈر نے مدد پہنچائی ۔اس کا بیان تھا کہ ہمارے علاقے کے ہندو کسی مسلمان کے گھر پانی تک نہیں پیتے لیکن کئی دن سے ایک مسلمان ہماری جان بچانے کیلئے ہمیں غذا فراہم کررہا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کی جو بھی سیاست ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ کشمیری سیاست نہیں جانتے ان کا ایک ہی مسلک ہے انسانیت جسے انہوں نے قائم رکھا ہے ۔کشمیری پنڈت وہاں سے کسی سازش کے تحت نکال دیئے گئے ۔لیکن وہ ان کے گھروں اور ان منادر کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں ۔یہ کشمیریوں کی تہذیب ہے جسے سمجھنے اور ان کے جذبات کی قدر کرنے کی ضرورت ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے درمیان ایک سلیم شیخ نہیں سیکڑوں ہیں اور یہ صرف گجرات یا مہاراشٹر میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطہ میں ہیں ۔یہ وہاں زیادہ ہیں جہاں مسلمانوں کو زیادہ مشق ستم بنایا جاتا ہے ۔

0 comments: