Politics
بہار کے مسٹر کلین نے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ دے دیا ۔ ان کے استعفیٰ سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ بہار میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھا جائے گی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔نتیش کے استعفیٰ کے محض دو منٹ بعد ہی پردھان سیوک کی جانب سے مبارکباد کا ٹوئٹ پھر دہلی اور بہار میں بی جے پی کی میٹنگ کے بعد نتیش کی حمایت کا اعلان اور صرف بارہ گھنٹے کے بعد ہی بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنانے کا دعویٰ اور وزیر اعلیٰ کا حلف لینا گویا سب کچھ پہلے سے طے تھا ۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی فوری طور پر نریندر مودی نے نتیش کو وزیر اعلیٰ اور سشیل مودی کو نائب وزیر اعلیٰ بننے کی مبارکباد دی اور بہار کی ترقی کیلئے مل کر کام کرنے کی نصیحت بھی ۔ملک میں بھیڑ کے ذریعہ قتل عام یا دلتوں کو اونچی ذات کے ہندوؤں کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے پر پندرہ پندرہ دن مون برت رکھنے والے مودی نے جتنی سرعت سے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دی اس سے بات صاف ہے کہ یہ اسکرپٹ پہلے سے تیار تھی بس اسے روبہ عمل لانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا ۔ تیجسوی سمیت لالو یادو کے خاندان کے ساتھ سی بی آئی کی سریع الحرکت انداز سے کارروائی سے بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کو استعمال کرکے لالوپرشاد کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔سی بی آئی کی تیز رفتاری اور بی جے پی کی گرم گفتاری پر وہی بات کہی جاسکتی ہے جسے سپریم کورٹ نے کبھی یو پی اے حکومت میں کہا تھا کہ ’’یہ حکومت کا طوطا ہے ‘‘۔سی بی آئی کا اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کانگریس نے بھی خوب کیا اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔
جس شام پٹنہ میں سیاسی ڈرامہ جاری تھا اسی دن مدھیہ پردیش میں بدنام زمانہ ’’ویاپم ‘‘سے جڑے ایک اور شخص نے خود کشی کرلی ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ویاپم اب تک کا سب سے بڑا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہے ۔ لیکن چونکہ اس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے نیز ویاپم بدعنوانی معاملہ میں سنگھ اور بی جے پی کے بڑے بڑے نام ہیں اس لئے نہ تو اس پر کوئی کارروائی ہوئی اور نا ہی اسے میڈیا میں وہ جگہ ملی جو حزب مخالف سے جڑے معاملہ کو دی جاتی ہے ۔ ویاپم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس معاملہ سے جڑے افراد کی موت کی گنتی پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ جی ہاں صرف دو سال قبل اس سے جڑے لوگوں کو کہیں کہیں مرے ہوئے پائے گئے اور یہ ایک سریز کی طور پر ہوا ۔کوئی کسی ندی یا سمندر کے کنارے مرا ہوا پایا گیا تو کوئی اپنے ہوٹل کے کمرے میں مرا ہوا ملا ۔کسی کو اپنے بیڈ روم میں موت نے آدبوچا ۔گویا یہ انسان نہیں چوہے رہے ہوں جوزہرلی دوا کے اثرات سے جگہ بجگہ مردہ ملے۔ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا وحشت ناک معاملہ ہے جس میں اتنے سارے لوگوں کو ماردیا گیا یا مرنے کیلئے مجبور کیا گیا ۔ جانوروں کے چارہ بدعنوانی معاملہ میں بھی کچھ لوگ مرے ہیں لیکن ان کی تعداد شاید دس کے بھی اندر ہے ۔ لیکن چونکہ اس سے جڑے معاملے میں لالو یادو ماخوذ ہیں اس لئے اسے میڈیا میں خوب اچھا لا گیا ۔ حالانکہ بہار کا چارہ بدعنوانی معاملہ کوئی لالو پرشاد یادو کے دور میں نہیں ہوا ۔ یہ بدعنوانی بہار کے مشہور وزیر اعلیٰ اور بہار کانگریس کے لیڈر جگناتھ مشرا کی وزارت اعلیٰ کے دور سے چلا آرہا تھا ۔ اس میں لالو یادو کا اتنا قصور تو ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اس پر نکیل نہیں کسا ۔ لیکن آپ میڈیا میں جگناتھ مشرا کا کہیں نام نہیں سنیں گے ۔ ایسا کیوں ؟جانتے ہیں ، اس لئے کہ جگناتھ مشرا سورن ہندوؤں کی جماعت سے آتے ہیں اور لالو پرشاد پسماندہ یادو برادری سے ۔ اس لئے انہیں ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کے علاوہ اس ملک میں سبھی ایماندار ہیں ۔ بس یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو بد عنوانی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے ۔ اس لئے اس سے نجات ضروری ہے ۔
لالو پرشاد کا ایک گناہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بی جے پی جیسی پارٹی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور برہمنوں سمیت سورن ہندوؤں کی برتری کو چیلنج کیا ۔ ان کے اس رویہ نے بھی انہیں کافی نقصان پہنچایا ۔ وہ بھی اگر نتیش کی طرح کرنسی منسوخی کے احمقانہ فیصلہ کو بدعنوانی کے خلاف ایک اہم قدم کے طور پر پیش کرتے اور مودی جی کی تعریف کے پل باندھتے تو انہیں پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ لیکن ہندوستانی سیاست کا ایک ہی شیر مرد ہے جو پرزور اور پر شور آواز میں حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بدعنوان برہمنیت کے علمبرداروں کو کھلے عام چیلنج کرتا ہے اور اس پر ڈٹا رہتا ہے ۔ یہی اس کا جرم بلکہجرم عظیم ہے ۔ اس کے اس جرم نے برہمنیت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ۔ بہار میں ترقی کا سہرا عام طور پر لوگ نتیش کمار کے سر باندھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس کی شروعات لالو پرشاد یادو نے کی تھی ۔ اگر لالو نے حکومتی ایوانوں اور دفاتر میں بیٹھے برہمنی بابوؤں کو ان کی اوقات نہیں بتائی ہوتی تو نتیش کے لئے کبھی ممکن نہیں تھا کہ وہ بہار کی ترقی کیلئے کام کرسکتے ۔ نتیش کیلئے ترقی کی راہوں کو آسان بنانے والے کا نام ہی لالو پرشاد ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے پچیس سال قبل تک اندرون بہار کی کیا حالت تھی ۔ جبکہ اس وقت تک کانگریس کی ہی حکومت تھی ۔ کانگریس تو بھاگلپور فساد کے بعد ناپید ہوئی ۔ مرکز اور ریاست دو نوں ہی جگہ کانگریس ایک مضبوط حکومتی پارٹی تھی لیکن وہ بھی تو برہمن اور بنیا پارٹی ہے نا اس لئے اس نے بہار کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ اسے پسماندہ ہی رہنے دیا ۔ پسماندہ رہنے دینے کے پس پشت شاید یہ منشا رہی ہو کہ اگر بہار ترقی کر جائے گا تو پنجاب ،ہریانہ اور دیگر ریاستوں کو مزدور کہاں سے ملیں گے ؟ ان ریاستوں کی ترقی میں تو بہار کے مزدوروں کا خون و پسینہ شامل ہے ۔
بہر حال بہار میں نتیش کمار بی جے پی کی حمایت سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے چکے ہیں ۔ انہوں نے آر جے ڈی کی فراخدلی کا بدلہ اپنی تنگ نظری اور تنگ دلی سے دیا ہے ۔ انہوں نے سی بی آئی کی ریڈ اور تیجسوی کے خلاف ایف آئی آر کو بہانہ بنایا ہے ۔ جواب میں لالو پرشاد نے نتیش کمار کے خلاف بہار کے کسی تھانے میں درج قتل کے مقدمہ کا حوالہ دیا ۔ لیکن یہ سب فضول ہے ۔ مودی کا مقصد محض اپوزیشن کو کمزور اور انہیں بلیک میل کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے ۔ یہ صاف ستھری شیبہ والوں کی جماعت نہیں ہے ۔ جن کے مدھیہ پردیش میں ویاپم جیسا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہوا ہو جس میں پچاس لوگ مارے گئے یا مر جانے کیلئے مجبور کردیئے گئے ان سے اخلاقیات کی امید فضول ہے ۔ ہاں بے شرم اور بے غیرت لوگوں کی جماعت ضرورہے جسے بہار کی زبان میں تھُوتھُر بھی کہتے ہیں جسے عام زبان میں ڈھیٹ کہا جاتا ہے ۔ اس لئے ان کے سامنے انہیں آئینہ دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آئینہ انہیں دکھایا جاتا ہے جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے یہ بے ضمیروں کی پارٹی ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہار اسمبلی میں لالو کی جماعت اور کانگریس مل کر ایک بہتر اور مضبوط اپوزیش کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے لالو پرشاد اور ان کے سیاسی وارثوں کو اس بات پر نظر رکھنی ہوگی کہ نتیش اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بہار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کوئی نقصان نہ پہنچا پائے ۔ وہاں پہلے سے ہی بی جے پی کا ایک سخت متعصب ایم پی مرکزی وزارت میں موجود ہے جو زہر اگلا کرتا ہے جس نے مودی مخالفین کو پاکستان چلے جانے کو کہا تھا ۔ بس بہار کی فضا میں فرقہ پرست زہر نہ گھول سکیں اس پرنظر رکھنا ، فرقہ وارانہ راکشش کو قابو میں رکھناہی لالو پرشاد کی اپنی قوت کے ساتھ واپسی کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس طرح نومبر 2015 میں بہار نے پورے ملک کے لئے ایک اچھی مثال پیش کی تھی اب بھی اس میں وہ قوت ہے کہ وہ نتیش کمار کی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی سیاست کو بہتر جواب دے سکے ۔
نتیش بی جے پی کی آغوش میں :پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا!
نہال صغیر
بہار کے مسٹر کلین نے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ دے دیا ۔ ان کے استعفیٰ سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ بہار میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھا جائے گی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔نتیش کے استعفیٰ کے محض دو منٹ بعد ہی پردھان سیوک کی جانب سے مبارکباد کا ٹوئٹ پھر دہلی اور بہار میں بی جے پی کی میٹنگ کے بعد نتیش کی حمایت کا اعلان اور صرف بارہ گھنٹے کے بعد ہی بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنانے کا دعویٰ اور وزیر اعلیٰ کا حلف لینا گویا سب کچھ پہلے سے طے تھا ۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی فوری طور پر نریندر مودی نے نتیش کو وزیر اعلیٰ اور سشیل مودی کو نائب وزیر اعلیٰ بننے کی مبارکباد دی اور بہار کی ترقی کیلئے مل کر کام کرنے کی نصیحت بھی ۔ملک میں بھیڑ کے ذریعہ قتل عام یا دلتوں کو اونچی ذات کے ہندوؤں کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے پر پندرہ پندرہ دن مون برت رکھنے والے مودی نے جتنی سرعت سے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دی اس سے بات صاف ہے کہ یہ اسکرپٹ پہلے سے تیار تھی بس اسے روبہ عمل لانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا ۔ تیجسوی سمیت لالو یادو کے خاندان کے ساتھ سی بی آئی کی سریع الحرکت انداز سے کارروائی سے بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کو استعمال کرکے لالوپرشاد کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔سی بی آئی کی تیز رفتاری اور بی جے پی کی گرم گفتاری پر وہی بات کہی جاسکتی ہے جسے سپریم کورٹ نے کبھی یو پی اے حکومت میں کہا تھا کہ ’’یہ حکومت کا طوطا ہے ‘‘۔سی بی آئی کا اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کانگریس نے بھی خوب کیا اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔
جس شام پٹنہ میں سیاسی ڈرامہ جاری تھا اسی دن مدھیہ پردیش میں بدنام زمانہ ’’ویاپم ‘‘سے جڑے ایک اور شخص نے خود کشی کرلی ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ویاپم اب تک کا سب سے بڑا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہے ۔ لیکن چونکہ اس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے نیز ویاپم بدعنوانی معاملہ میں سنگھ اور بی جے پی کے بڑے بڑے نام ہیں اس لئے نہ تو اس پر کوئی کارروائی ہوئی اور نا ہی اسے میڈیا میں وہ جگہ ملی جو حزب مخالف سے جڑے معاملہ کو دی جاتی ہے ۔ ویاپم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس معاملہ سے جڑے افراد کی موت کی گنتی پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ جی ہاں صرف دو سال قبل اس سے جڑے لوگوں کو کہیں کہیں مرے ہوئے پائے گئے اور یہ ایک سریز کی طور پر ہوا ۔کوئی کسی ندی یا سمندر کے کنارے مرا ہوا پایا گیا تو کوئی اپنے ہوٹل کے کمرے میں مرا ہوا ملا ۔کسی کو اپنے بیڈ روم میں موت نے آدبوچا ۔گویا یہ انسان نہیں چوہے رہے ہوں جوزہرلی دوا کے اثرات سے جگہ بجگہ مردہ ملے۔ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا وحشت ناک معاملہ ہے جس میں اتنے سارے لوگوں کو ماردیا گیا یا مرنے کیلئے مجبور کیا گیا ۔ جانوروں کے چارہ بدعنوانی معاملہ میں بھی کچھ لوگ مرے ہیں لیکن ان کی تعداد شاید دس کے بھی اندر ہے ۔ لیکن چونکہ اس سے جڑے معاملے میں لالو یادو ماخوذ ہیں اس لئے اسے میڈیا میں خوب اچھا لا گیا ۔ حالانکہ بہار کا چارہ بدعنوانی معاملہ کوئی لالو پرشاد یادو کے دور میں نہیں ہوا ۔ یہ بدعنوانی بہار کے مشہور وزیر اعلیٰ اور بہار کانگریس کے لیڈر جگناتھ مشرا کی وزارت اعلیٰ کے دور سے چلا آرہا تھا ۔ اس میں لالو یادو کا اتنا قصور تو ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اس پر نکیل نہیں کسا ۔ لیکن آپ میڈیا میں جگناتھ مشرا کا کہیں نام نہیں سنیں گے ۔ ایسا کیوں ؟جانتے ہیں ، اس لئے کہ جگناتھ مشرا سورن ہندوؤں کی جماعت سے آتے ہیں اور لالو پرشاد پسماندہ یادو برادری سے ۔ اس لئے انہیں ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کے علاوہ اس ملک میں سبھی ایماندار ہیں ۔ بس یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو بد عنوانی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے ۔ اس لئے اس سے نجات ضروری ہے ۔
لالو پرشاد کا ایک گناہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بی جے پی جیسی پارٹی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور برہمنوں سمیت سورن ہندوؤں کی برتری کو چیلنج کیا ۔ ان کے اس رویہ نے بھی انہیں کافی نقصان پہنچایا ۔ وہ بھی اگر نتیش کی طرح کرنسی منسوخی کے احمقانہ فیصلہ کو بدعنوانی کے خلاف ایک اہم قدم کے طور پر پیش کرتے اور مودی جی کی تعریف کے پل باندھتے تو انہیں پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ لیکن ہندوستانی سیاست کا ایک ہی شیر مرد ہے جو پرزور اور پر شور آواز میں حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بدعنوان برہمنیت کے علمبرداروں کو کھلے عام چیلنج کرتا ہے اور اس پر ڈٹا رہتا ہے ۔ یہی اس کا جرم بلکہجرم عظیم ہے ۔ اس کے اس جرم نے برہمنیت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ۔ بہار میں ترقی کا سہرا عام طور پر لوگ نتیش کمار کے سر باندھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس کی شروعات لالو پرشاد یادو نے کی تھی ۔ اگر لالو نے حکومتی ایوانوں اور دفاتر میں بیٹھے برہمنی بابوؤں کو ان کی اوقات نہیں بتائی ہوتی تو نتیش کے لئے کبھی ممکن نہیں تھا کہ وہ بہار کی ترقی کیلئے کام کرسکتے ۔ نتیش کیلئے ترقی کی راہوں کو آسان بنانے والے کا نام ہی لالو پرشاد ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے پچیس سال قبل تک اندرون بہار کی کیا حالت تھی ۔ جبکہ اس وقت تک کانگریس کی ہی حکومت تھی ۔ کانگریس تو بھاگلپور فساد کے بعد ناپید ہوئی ۔ مرکز اور ریاست دو نوں ہی جگہ کانگریس ایک مضبوط حکومتی پارٹی تھی لیکن وہ بھی تو برہمن اور بنیا پارٹی ہے نا اس لئے اس نے بہار کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ اسے پسماندہ ہی رہنے دیا ۔ پسماندہ رہنے دینے کے پس پشت شاید یہ منشا رہی ہو کہ اگر بہار ترقی کر جائے گا تو پنجاب ،ہریانہ اور دیگر ریاستوں کو مزدور کہاں سے ملیں گے ؟ ان ریاستوں کی ترقی میں تو بہار کے مزدوروں کا خون و پسینہ شامل ہے ۔
بہر حال بہار میں نتیش کمار بی جے پی کی حمایت سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے چکے ہیں ۔ انہوں نے آر جے ڈی کی فراخدلی کا بدلہ اپنی تنگ نظری اور تنگ دلی سے دیا ہے ۔ انہوں نے سی بی آئی کی ریڈ اور تیجسوی کے خلاف ایف آئی آر کو بہانہ بنایا ہے ۔ جواب میں لالو پرشاد نے نتیش کمار کے خلاف بہار کے کسی تھانے میں درج قتل کے مقدمہ کا حوالہ دیا ۔ لیکن یہ سب فضول ہے ۔ مودی کا مقصد محض اپوزیشن کو کمزور اور انہیں بلیک میل کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے ۔ یہ صاف ستھری شیبہ والوں کی جماعت نہیں ہے ۔ جن کے مدھیہ پردیش میں ویاپم جیسا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہوا ہو جس میں پچاس لوگ مارے گئے یا مر جانے کیلئے مجبور کردیئے گئے ان سے اخلاقیات کی امید فضول ہے ۔ ہاں بے شرم اور بے غیرت لوگوں کی جماعت ضرورہے جسے بہار کی زبان میں تھُوتھُر بھی کہتے ہیں جسے عام زبان میں ڈھیٹ کہا جاتا ہے ۔ اس لئے ان کے سامنے انہیں آئینہ دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آئینہ انہیں دکھایا جاتا ہے جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے یہ بے ضمیروں کی پارٹی ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہار اسمبلی میں لالو کی جماعت اور کانگریس مل کر ایک بہتر اور مضبوط اپوزیش کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے لالو پرشاد اور ان کے سیاسی وارثوں کو اس بات پر نظر رکھنی ہوگی کہ نتیش اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بہار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کوئی نقصان نہ پہنچا پائے ۔ وہاں پہلے سے ہی بی جے پی کا ایک سخت متعصب ایم پی مرکزی وزارت میں موجود ہے جو زہر اگلا کرتا ہے جس نے مودی مخالفین کو پاکستان چلے جانے کو کہا تھا ۔ بس بہار کی فضا میں فرقہ پرست زہر نہ گھول سکیں اس پرنظر رکھنا ، فرقہ وارانہ راکشش کو قابو میں رکھناہی لالو پرشاد کی اپنی قوت کے ساتھ واپسی کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس طرح نومبر 2015 میں بہار نے پورے ملک کے لئے ایک اچھی مثال پیش کی تھی اب بھی اس میں وہ قوت ہے کہ وہ نتیش کمار کی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی سیاست کو بہتر جواب دے سکے ۔
0 comments: