featured
تاریخی و معاصر تناظر میں ایک مختصر تجزیہ
ثالث_الحرمین اور فلسطین کا اسلامی و انسانی قضیہ !
سمیع اللّٰہ خان
جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف
سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام إلى المسجدالأقصی التی بٰرکنا حولہ:
اللہ
تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کو قبلۂ اول کی عظمت کی تعلیم دی ہے،
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ تمھارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم مسجدِ اقصی میں امامت کرچکے ہیں، اور اس وقت نبی کے مقتدی
انبیاء سابقینؑ تھے، یہ ہمارے لیے فخر و امتیاز کی بات ہے کہ ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ اقصیٰ میں انبیاء کی امامت فرمائ، اور اس کے
علاوہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے آقاﷺ نے ایک عرصے تک اسی مسجد کی
طرف رخ کر کے نمازیں ادا کی ہیں،
وہ مسجد جسے قبلۂ اول ہونے کا شرف حاصل ہے،
وہ مسجد جس کی طرف رخ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ہے،
وہ مسجد جس کے ذریعے ہمارے نبی معراج پر گئے
اور
وہ مسجد جو سفرِ معراج کا پہلا پڑاو ہوئی، جہاں انبیاء مجتمع ہوئے،
افسوس کہ مسلمان اس کی تاریخ اور عظمت سے آنکھیں موند چکے ہیں،
جس
بھی مسلمان کے دل میں غیرتِ اسلامی کی ادنیٰ سی بھی چنگاری باقی ہوگی وہ
یقینًا اقصیٰ اور اقصیٰ والوں کے لیے ان ستم گر حالات میں مضطرب ہوجائے گا
اور بالضرور اس کو ظالم یہودیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہے گا،
آج آپ لوگوں کو مختصرا مسجدِ اقصیٰ کے تاریخی اور معاصر حالات سے واقف کرانا چاہوں گا-
مسجدِ
اقصیٰ روئے زمین پر خانۂ کعبہ کے بعد سب سے قدیم ترین مسجد ہے، اس کی
تعمیر کے سلسلے میں سب سے مضبوط روایت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
حدیث ہے جسے امام بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں ذکر کیا ہے روایت یوں ہے
کہ،
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام سے سوال کیا کہ روے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا مسجدِ حرام-
انہوں نے سوال کیا اس کے بعد؟
تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا مسجدِ اقصٰی-
انہوں نے پھر پوچھا کہ ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا چالیس سال-
صحیح بخاری, احادیث الانبیاء:
صحیح مسلم, المساجد و مواضع الصلاۃ:باب المساجد
اس
روایت سے مضبوط اور جامع کوئی بات نہیں ہوسکتی اور اس کی روشنی میں واضح
ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ خانۂ کعبہ کے چالیس سال بعد تعمیر ہوئی، اسی روایت
سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس کے مؤسس یعقوب علیہ السلام ہوسکتے ہیں،
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا طبقہ مسجدِ اقصی کا بانی
حضرت سلیمانؑ کو کہتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ حدیثِ رسول کے
مطابق مسجدِ اقصیٰ اور خانۂ کعبہ کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے، اور
خانۂ کعبہ کی تعمیر اور سلیمان علیہ السلام کے درمیان ہزار سال کا فاصلہ ہے
اور راجح قول ابنِ قیم رحمۃاللہ کا ہی نظر آتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کے مؤسس
یعقوب علیہ السلام ہیں، البتہ سلیمان علیہ السلام نے مسجدِ اقصیٰ کی تجدید
ضرور کی ہے
مختصراّ یہ کہ خانۂ کعبہ کے بعد سب سے
قدیم ترین مسجد مسجدِ اقصیٰ ہے، یعقوب علیہ السلام اس کے مؤسس اور سلیمان
علیہ السلام اس کی تجدید کرنے والے ہیں، واللہ اعلم
مسجدِ
اقصیٰ فلسطین میں واقع ہے جسے القدس اور یروشلم کے نام سے بھی جانا جاتا
ہے، فلسطین/القدس جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی اس کے بعد ١٣۰۰ ق م بنی
اسرائیل اس میں داخل ہوے,اور ۲۰۰ سال کی کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض
ہوئے، یہودی سر زمینِ قدس کے حقیقی باشندے نہیں ہیں بلکہ ان کی قدس میں
آمد ہی غاصبانہ ہے یہاں کے اصل باشندے کنعانی ہیں جن کے متعلق ایک قول یہ
ہے کہ یہ لوگ عربی تھے، یہ تاریخی حقیقت اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ یہودی
قدس/فلسطین کے حقیقی باشندے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، یہاں کے حقیقی اور
قدیم باشندے دیگر اقوام و قبائل کے لوگ تھے، جن کے نام تفصیلاْ بائبل میں
مذکور ہیں،
نیز فلسطین کے متعلق ان حقائق کو منصف
مؤرخین نے بائبل کی تصریحات کے ساتھ نقل کیا ہے، مختصراْ یہ کہ فلسطین کے
اصل باشندوں کا قتلِ عام کر کے یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا،
جس
طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں( Red Indians )کو قتل کر کے امریکا پر قبضہ
جمایا، یہودیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ "خدا نے اس شہر کو ان کی وراثت میں دیا
ہے اس لیے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے اور
ان کی نسلوں کو ختم کر کے اس شہر پر قابض ہوجائیں،
اس
کے بعد کی مختصر تاریخ یوں ہیکہ، سن ۵۰۰ اور ۶۰۰ قبل مسیح کے زمانے میں
القدس پر بابل کے حکمراں بخت نصر نے حملہ کیا اور اسے تباہ کرکے یہودیوں کو
قید کیا اور جلاوطن کردیا، نیز ہیکل سلیمانی کو زمین بوس کردیا، لانبے
عرصے کی جلاوطنی کے بعد ایرانی دور اقتدار میں یہودی پھر سے جنوبی فلسطین
میں آباد ہوگئے، اور ایک عرصے بعد ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر ہوئی، لیکن اس
دفعہ بھی یہودی یہاں چارسوسال سے زائد ٹک نہیں سکے، کیونکہ پھر یہ لوگ
رومن امپائر کے خلاف بغاوت کی پاداش میں فلسطین سے جلاوطن کیے گئے، اس دفعه
بھی ان کی خسیس چالوں کی وجہ سے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو رومیوں نے
اجاڑ دیا اور انہیں نکال باہر کیا، اس کے بعد ۱۳۵ء میں رومیوں نے پورے
فلسطین سے یہودیوں کو جلاوطن کردیا، یعنی ایک دفعہ بخت نصر نے اور ایک دفعہ
رومیوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا، اس دوسری جلاوطنی کے بعد جنوبی
فلسطین پھر سے اسی طرح عرب قبائل آباد ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ ۸
سو سال پہلے آباد تھے،
آفتاب اسلامی کے طلوع سے قبل
ہی یہ پورا خطہ عرب قبائل سے آباد ہوچکا تھا، اور رومیوں نے یہاں یہودیوں
کا داخلہ تک ممنوع کر دیاتھا، پورے فلسطین میں یہودی آبادی قریب قریب ناپید
تھی،
اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ،
یہودی قوم قتل عام اور نسل کشی کے ذریعے فلسطین پر جبراً قابض ہوئی،
شمالی فلسطین میں وہ چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں ان کی مدت قیام زیادہ سے زیادہ ۸ سو سال ہے،
اس کے برعکس
عربی قبائل اور عرب حضرات شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباﹰ ۲ ہزار سال سے آباد ہیں ۔
یہودیوں
کی دوسری جلاوطنی کے بعد مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین ایک لمبے عرصے تک بزنطینی
استعمار کے زیر نگیں رہےہیں اس کے بعد کی مفصل تاریخ کا اختصار یہ ہیکہ،
جب
اسلامی آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوے بکھیرنے لگا تب اسلام کے
عظیم ہیرو حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت ۱۷ ہجری میں حضرت ابوعبیدہ ؓ کی
سپہ سالاری میں القدس کو آزاد کرایا گیا، اس کے ایک عرصہ بعد صلیبی یہاں
پھر سے قابض ہوگئے، صلیبیوں کی اس گھس پیٹھ سے بیت المقدس کو عظیم مجاہدِ
اسلام حضرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے رہائی دلائی،
اس کے بعد پھر اسے معرکہ عین جالوت میں تاتاریوں سے آزاد کرایا گیا،
۹۳۴
ہجری میں خلافت عثمانیہ نے اسے اپنا حصہ بنالیا، پھر یہ مسلسل خلافت
اسلامیہ کے زیرِ سایہ رہا یہاں تک کہ ۱۹۱۷ کی پہلی جنگ عظیم میں خلافت
عثمانیہ کا زوال ہوا، اور القدس /فلسطین، انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا، اور
تب سے ایک بار پھر مسجدِ اقصیٰ کو منہدم کرکے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے
لیے سازشیں رچی جارہی ہیں، ان سازشوں کا اختصاراً احاطہ یوں ہیکہ،
پہلی
جنگ عظیم میں ابتداءً یہودیوں نے جرمنی سے ہاتھ ملانا چاہا لیکن جرمنی سے
یہود ساز باز نہیں کرسکے، اس کے بعد یہودیوں نے انگلستان سے پینگے بڑھائی،
اس وقت یہودیت کی تحریک کا علمبردار ڈاکٹر وائز مین تھا، اس نے برطانوی
حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام یہودی دماغ اور دنیا بھر کے
یہودیوں کا سرمایہ انگلستانیوں کے ساتھ ہوگا، صرف انہیں یعنی یہودیوں کو
اتنا یقین دلایا جائے کہ، فتح کے بعد فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار
دیا جائےگا،
اس ساز باز کے بعد یہودیوں نے وہ معاہدہ
حاصل کیا جو آجکل معاہدہء بالفور کے نام سے معروف ہوا، یہ معاہدہ آج تک
فرنگیوں کی کھلی خیانت اور بددیانتی کا صریح ثبوت ہے،
فرنگیوں نے اس وقت تاریخ کا بدترین اور گھناؤنا کھیل رچا جس کے مہرے اور پیادے عرب حکمران بنے،
انگلستانی
حکومت نے اس وقت عربوں اور ترکوں کو آپس میں بدظن کردیا، اور عربوں کو
لالچ دیا کہ ان کی خودمختار ریاست بنائی جائے گی، اور اس لالچ میں آکر
عربوں نے بغاوت کردی، جس کے نتیجے میں فلسطین و شام وغیرہ ممالک پر برطانیہ
کا قبضہ کرادیا تھا،
اور دوسری طرف وہی فرنگی
یہودیوں کو معاہدہ بالفور کے ذریعے باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم
فلسطین کو تمھارا قومی وطن بنائیں گے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ عربوں کی جس
سرزمین کو عربوں کی مدد سے خلافتِ اسلامیہ سے باہر نکلوایا، اور عربوں کی
مدد سے جس سرزمین پر قبضہ کیا اسی سرزمین سے عربوں کو بے دخل کردیا اور پھر
ہوتے ہوتے آخرکار ١۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودیوں اور
مسلمانوں میں جبراً تقسیم کردیا، اس تقسیم کا ظالمانہ معیار بھی دیکھیے،
فلسطین
کا ٥٥ فیصدی رقبہ/حصہ ٣٣ فیصدی یہودیوں کو دے دیا گیا اور ۴٥ فیصدی رقبہ
میں ٦۷ فیصد عرب کو ٹھونسا گیا، ان سب کے باوجود آج بھی یہودی فلسطینیوں کو
مارتے کاٹتے ان کی سرزمین پر قابض ہوتے جارہے ہیں، یہ ایسا ظلم ہے جس کی
نظیر تاریخ انسانی میں نہیں مل سکتی، اس وقت دنیا بھر میں ٦۰ کے قریب
اسلامی ممالک ہیں لیکن مسلمانوں کے قبلۂ اول کے لئے کوئ بھی لب کشائی کو
تیار نہیں
افسوس کہ ان کی داخلی و خارجی پالیسیاں مرکز اجتماعِ انبیاء کے تحفظ سے بھی زیادہ حساس ہورہی ہیں!!!
بیت
المقدس کو ڈائنا مائٹ سے اڑا کر وہاں ہیکل سلیمانی نصب کرنے کے ناپاک
عزائم زوروں پر ہیں، لیکن واے ناکامی کے کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں
آتا!!
یہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بلکہ یہودیوں
کے سربراہوں جن میں لارڈ بالفور، ڈاکٹر وائزمین، موسیٰ بن میمون اور
تھیوڈر ہرتزل جیسے لوگ قابل ذکر ہیں انہوں نے علانیہ گھس پیٹھ اور مسجد
اقصیٰ کو ختم کرنے کے عزائم لکھیں ہیں-
مشہور یہودی
فلسفی موسی بن میمون نے اپنی کتاب شریعت یہود ( The Code Of Jewish Law)
میں لکھا ہے کہ ہر یہودی پر فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو
نصب کرے-
لارڈ بالفور جس کے حوالے سے معاہدۂ بالفور مشہور ہے وہ لکھتا ہے کہ
"ہمیں
فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوے وہاں کے موجودہ باشندوں سے پوچھ گچھ
کرنے کی ضرورت نہیں ہے، صیہونیت ہمارے لیے ان ۷-۸ لاکھ عربوں کی خواہشات و
تعصّبات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے"-
ان تمام حقائق
اور موجودہ فلسطینی کی خونریز صورتِ حال میں کیا امت مسلمہ کے ذمہ یہ فرض
نہیں ہوتا کہ وہ قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آبادکاری کے لیے کوششیں
کریں،
اور یہی نہیں فلسطین اور بیت المقدس کی
اسلامی اہمیت دو دو چار کی طرح ہے، قرآن اور حدیث میں جا بجا ارض فلسطین
اور قبلہ اول کی فضیلت پر ارشادات وارد ہوئے ہیں،
قرآن میں ہے:
" و أرادوا به كيدا فجعلنهم الأخسرين، ونجينه و لوطاً إلى الأرض الّتى بٰركنا فيها للعلمين".
سورۂ انبیاء
اور ایک مقام پر ہے:
" يقوم ادخلوالأرض المقدسة التى كتب الله لكم"
پہلی
آیت کے متعلق امام جریر الطبری ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن نے برکت والی زمین
شام کو کہا ہے، اور واضح رہے کہ ماضی میں فلسطین شام ہی کا ایک حصہ رہا ہے،
اسي طرح دوسری آیت کے متعلق مفسرین کا یہ قول ہیکہ سرزمین مقدس سے مراد
ارضِ فلسطین ہے،
اس کے علاوہ:
"
طوبٰی للشام " اور " یاءتی علی الناس زمان لایبقی فیہ مؤمن إلا لحق
بالشام" جیسی احادیث فلسطین اور بیت المقدس کی اسلامی حیثيت کے لیے سند ہے،
لیکن کس قدر نوحے کا مقام ہیکہ ہمارے دینی حلقے ان سے کتمان برت رہے ہیں،
کیسی مجرمانہ غفلت ہیکہ مسلمانوں تک ان حقائق کو پہنچایا نہیں جاتا،،
افسوسسس!
تازہ ترین واردات کے مطابق مسجد اقصیٰ میں
طرح طرح کے آلات نصب کر دیئے گئے ہیں، فلسطینیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے
سے روکا جارہا ہے، اس سے قبل بھی ان کے جوان شہید کیے جا چکے ہیں، اسکولوں
اور ہسپتالوں پر بم تک برسائے گئے ہیں، مٹھی بھر جیالے رسمِ وفا کی لاج
رکھے ہوئے ہیں جبکہ مسجد اقصیٰ کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
شدّ رحال کو جائز قرار دیا تھا،
ذرا تصور تو کیجیے
کہ خدانخواستہ اگر آج اسرائیلی توسیعی عزائم کے آگے مسجد اقصیٰ اور قبلۂ
اول کو گزند پہنچتی ہے تو کل ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر
رضی اللہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھائیں
گے، ہم کچھ نہ کریں لیکن دستوری اور آئینی روشنی میں القدس، فلسطین اور
مسجد اقصیٰ کے لئے بیداری اور محبت کی فضا تو ہموار کرسکتے ہیں۔
کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے!
یہ
اپنا درد دل ہے نکال کر رکھ دیا ہے، اس امید پر کہ کچھ نوجوان دستوری و
آئینی روشنی میں ان مظلومین کے لیے مناسب بیداری لائیں گے،اور ایک بار پھر
برسوں بعد غیرت و حمیت اور اخوت اسلامی کے مناظر ہوں گے۔
0 comments: