featured
یوں تو پارلیمانی جمہوری نظام میں اکثر ملکوں کی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کے درمیان ایسی تو تو میں میں ہوتی رہی ہیں جس کو غیر پارلیمانی کہا جاتا ہے ۔ایک ویڈیو میں ایسے کئی ممالک کی پارلیمنٹ کی انہی فوٹیج کو اکٹھا کردیا گیا تھاجس میں صرف تو تو میں میں ہی نہیں ایک دوسرے پر خطرناک حد تک حملہ کیاگیا تھا ۔لیکن دیگر ممالک میں یہ شاذ و نادر ہونے والے واقعات ہیں ۔وہ اپنے وقار اور اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ان سے لاکھ اختلاف کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے اسی نظم وضبط نے انہیں ترقی یافتہ بنایا ہے جہاں لیڈر سے لیکر عام آدمی تک تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں ۔ان ممالک میں گھوم کر آجائیں آپ محسوس کریں گے جیسے یہ ممالک اس دنیا میں نہیں کسی اور سیارے پر آباد ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسی سیارے پر آباد ہیں اور ہمارے جیسے ہی شکل و صورت والے انسان ہیں ۔بس ان کی اور ہماری سوچ میں فرق ہے ۔انہیں کوئی کہہ دے کہ ’کو اکان لے جارہا ہے ‘تو کوا کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے کان دیکھتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں کان دیکھنے کا رواج نہیں ہے بس کوا کے پیچھے بھاگ کر خود کو ہلکان کرنے کی روایت عام ہے ۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی سنسکرتی (تہذیب)ہزاروں سال پرانی ہے ۔شاید یہ سچ بھی ہو اسی لئے لوگ نئی تہذیب و تمدن اور اس کے تقاضے سے نا آشنا ہیں۔دنیا میں نئے دور کا آغاز ہے نئی نئی کھوج اور تلاش کا کام جاری ہے لیکن یہ برہمنوں کی غلام قوم اب بھی ہزاروں سال کے پرانے افسانوی دور کی باتیں کرتی ہے اسی میں مگن ہے ۔اس شخص کے جھانسے میں آتی جارہی ہے جو انہیں جھوٹ موٹ کی باتوں میں اسے الجھا کر موجودہ دور کے تقاضوں اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم موجودگی و عدم فراہمی کے کرب سے اس کا ذہن دوسری جانب پھیر دینا چاہتی ہے اور یہ جاہل اور گنوار اسی بھول بھلیوں میں مگن رہنا چاہتے ہیں ۔ہمارے یہاں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہلے تو میز کرسیاں اور مائیک پھینک کر ایک دوسرے کو مارنے کا رواج تھا ۔لیکن بعد کے زمانے میں جب انہیں فِکس کردیا گیا تو مجبوراًً ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے اور ضروری کاغذات پھاڑنے تک ہی معاملہ سمٹ گیا ہے ۔لیکن جو لوگ یہ ساری حرکتیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کرکے ملک کا نام روشن کیا کرتے تھے اب وہ اپنے عزائم کی تکمیل عوام مقامات پر سرکاری یا دیگر عملہ کے ساتھ مار پیٹ کرکے کررہے ہیں ۔حال ہی میں شیو سینا کے ایک رکن پارلیمان رویندر گائیکواڑ نے ایئر انڈیا کے ایک عملہ کے ساتھ مار پیٹ کی اور اپنی اس بہادری والے کارنامے کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس ملازم کو 25 بار چپلوں سے مارا۔شیو سینا نے تو خیر کبھی بھی خود کو مہذب اور اخلاقی اقدار والی پارٹی قرار نہیں دیا ۔اس نے کھلی غنڈہ گردی کی اور اس کا کھل کر اظہاربھی کیا ۔لیکن وہ جس کے سایہ میں مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے یعنی بی جے پی نے اقدار پر مبنی سیاست کرنے والی پارٹی کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا ۔ہمارے نئے نویلے پردھان سیوک جی یہ کہہ کر بھی آئے تھے کہ وہ سیاست دانوں کے مقدمات کا فاسٹ ٹریک عدالت میں جلد از جلد نپٹا را کریں گے ۔لیکن انہوں نے کسی اور وعدوں کو پورا کیا ہے جو اس کو بھی پورا کریں گے اور پورا بھی کیوں کریں جب یہاں کے احمق لوگ اس کے بغیر ہی چند جذباتی نعروں میں بہل کر مسلم دشمنی کے نشہ میں انہیں تھوک کے حساب سے ووٹ دے رہے ہوں ۔وزیر اعظم مودی کے ساتھ جو ارکنان پارلیمان ہیں ان میں خود تیس فیصد کے قریب ارکان پر مجرمانہ معاملات درج ہیں ۔خود وہ بھی کیا ہیں دنیا اسے جانتی ہے ۔اس پرطرہ یہ کہ جن کو اتر پردیش کی کمان دی گئی ہے وہ شخص بھی ایسے کئی مجرمانہ معاملات میں ملوث ہے ۔
آج کی مہذب دنیا ہو،یا عہد وسطیٰ کی غیر مہذب اور سائنسی تحقیق سے دور دنیا میں کسی ملک کی پہچان ان کے باشندوں کی اجتماعی سوچ سے ہوا کرتی ہے ۔خود سے کچھ بھی کہتے رہیں اس سے دنیا کو کچھ لینا دینا نہیں ۔ دنیا آپ کے عمل کو دیکھے گی آپ کے بلند و بانگ دعووں اور زعم باطل سے کچھ نہیں ۔ایک بات اور جو قابل توجہ ہے کہ اگر کوئی کسی زعم میں ہے ،اس میں کچھ خوبیاں ہیں تو اس کے زعم کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس کسی میں کوئی خوبی ،کوئی اچھائی نہیں ہو، صرف اپنی آبادی کی بنیاد پر جھوٹے دعووں پر دنیا کوئی توجہ نہیں دیتی یا کہہ دینے سے کہ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں جبکہ حالت یہ ہو کہ یہاں کوئی آپ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرے تو آپ اسے بدنام کریں اس کی تکذیب کریں اور اس کو ملک دشمن قرار دیں یعنی آپ کی حب الوطنی کا معیار آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہونا طے پایا ہے ۔بھلا ایسی صورت میں ملک کی ترقی کیوں کر ممکن ہے ؟سارے آزاد ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ پردھان سیوک کے احمقانہ فیصلوں سے ملکی معیشت کو جو چوٹ پہنچی ہے اس کی تلافی اگلی کئی دہائیوں تک میں ممکن نہیں ہے ۔ لیکن حکومت اور ان کے بھکت اس بات کو ماننے کو راضی ہی نہیں ۔اس پر مرے پر سو درے کے مصداق یوگی جیسے لوگوں کی حکومت میں مزید بیروزگاری میں اضافہ ملکی معیشت کی کمر توڑنے کیلئے ہی کافی ہے ۔وعدہ تو دو کروڑ روزگار پیدا کرنے کا تھا لیکن اناڑی پن اور وعدوں کے پورا کرنے کی جوابدہی سے بچنے کیلئے ایسی پالیسی اپنائی جارہی ہے جس سے وہ دوکروڑ تو روزگار کیا ملے گا مزید کروڑوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے ۔چھوٹے تاجر وں کا دھندا ختم ہو رہا ہے ۔ جو اس ملک میں روزگار مہیا کرانے اور معیشت کو مہمیز دینے میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں ۔ایم اعداد شمار کے مطابق یہ لوگ ملک میں روزگار مہیا کرانے نوے فیصدی سے زائد کے شراکت دار ہیں۔اسی طرح جی ڈی پی میں وہ سب سے آگے ہیں ۔
مودی حکومت ہی ملک کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی کہ اس نے ایک اور خوفناک فیصلہ لے لیا کہ اتر پردیش میں یوگی کو سربراہ بنادیا ۔اس طرح کے فیصلوں اور ان کے کام کرنے کے طریقوں سے ملک میں چھوٹے روزگار ختم ہوتے جائیں گے ۔بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔کسانوں کی خود کشی کے تناسب میں اضافہ ہونا بھی طے ہے ۔اس سے افراتفری اور بے چینی میں اضافہ ہوگا ۔جب لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہوں گے اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے انہیں اناج مہیا نہیں ہوگا تو اس کیلئے لوٹ مار میں اضافہ ہوگا ۔ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ بی جے پی جس طرح اپنے پیر پسا رہی ہے اور بیشتر ریاستوں میں اس کی حکومت بنتی جارہی ہے اور اس کیلئے اس نے جس طرح کھلے عام منافرت کو فروغ دینا شروع کیا ہے اس سے شروع میں جہاں اقلیتوں کے تئیں منافرت میں اضافہ ہو گا اور یہ خانہ جنگی کی جانب ملک کو دھکیل دے گا وہیں علاقائی اور لسانی دوریوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہا تو اس سے آگے ریاستوں کی علیحدگی کی بات بھی آسکتی ہے ۔حالانکہ بی جے پی نے ابھی تک غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں راست مداخلت سے پرہیز کیا ہے ۔یہ کام کانگریس نے اپنے دور حکومت میں خوب کیا ریاستی حکومتوں کو برخواست کرنے کا کام اس کے دور حکومت میں ہوا ۔کشمیر میں بھی کسی حکومت کو کانگریس نے مستحکم نہیں ہونے دیا ۔ لیکن بی جے پی دوسرے راستوں سے ریاستوں میں مداخلت کررہی ہے ۔اس میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں اسے عوامی مینڈیٹ نہیں ملا وہاں بھی اس نے سازش کرکے حکومت بنالی یہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ابھی تک تو وطن عزیز کی ریاستی یکجہتی کو پاکستان اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کرکے قائم رکھا گیا ہے۔یہ کام کانگریس بھی کرتی رہی ہے اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔ حالانکہ نہ تو مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں اور نا ہی ہندوستان جیسے بڑے ملک کیلئے پاکستان کوئی چیلنج کی صورت رکھتا ہے ۔ جبکہ چین کو نظر انداز کردیا گیا جو کہ ملک کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔چین کا خطرہ ثابت شدہ بھی ہے اور آئے دن اس کی در اندازی اس کے عزائم کو سمجھانے کیلئے کافی ہے ۔جبکہ پاکستان کی ہندوستان میں در اندازی یا پراکسی وار محض اسے پریشان کرنے یا الجھانے کے سوا کچھ نہیں لیکن چین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے وہ ہندوستان کو الجھانے یا پریشان کرنے کیلئے در اندازی نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی مطلوبہ ریاست ہندوستان سے چھین لے گا ۔اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار نے مسلم دشمنی میں کبھی اس جانب توجہ نہیں کی ان کے سامنے ہمیشہ پاکستان ہی رہا ۔اگر چین کو سامنے رکھ کر ہندوستان نے دفاعی اور معاشی میدان میں کوشش کی ہوتی تو آج چین کی جرات نہ ہوتی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھائے اور ہماری اوقات بتائے۔دیکھنا یہ ہے کہ اکثریت کو متحد رکھنے کے مقصد سے مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ دشمن نمبر ون کی صورت کب تک برقرار رکھی جاتی ہے ؟
زوال یافتہ پارلیمانی اقدار اور ملک پر منڈلاتے خطرات
نہال صغیر
یوں تو پارلیمانی جمہوری نظام میں اکثر ملکوں کی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف کے درمیان ایسی تو تو میں میں ہوتی رہی ہیں جس کو غیر پارلیمانی کہا جاتا ہے ۔ایک ویڈیو میں ایسے کئی ممالک کی پارلیمنٹ کی انہی فوٹیج کو اکٹھا کردیا گیا تھاجس میں صرف تو تو میں میں ہی نہیں ایک دوسرے پر خطرناک حد تک حملہ کیاگیا تھا ۔لیکن دیگر ممالک میں یہ شاذ و نادر ہونے والے واقعات ہیں ۔وہ اپنے وقار اور اپنے عوام کی خواہشات کا احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ان سے لاکھ اختلاف کے باوجود ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان کے اسی نظم وضبط نے انہیں ترقی یافتہ بنایا ہے جہاں لیڈر سے لیکر عام آدمی تک تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ہیں ۔ان ممالک میں گھوم کر آجائیں آپ محسوس کریں گے جیسے یہ ممالک اس دنیا میں نہیں کسی اور سیارے پر آباد ہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اسی سیارے پر آباد ہیں اور ہمارے جیسے ہی شکل و صورت والے انسان ہیں ۔بس ان کی اور ہماری سوچ میں فرق ہے ۔انہیں کوئی کہہ دے کہ ’کو اکان لے جارہا ہے ‘تو کوا کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے کان دیکھتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں کان دیکھنے کا رواج نہیں ہے بس کوا کے پیچھے بھاگ کر خود کو ہلکان کرنے کی روایت عام ہے ۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کی سنسکرتی (تہذیب)ہزاروں سال پرانی ہے ۔شاید یہ سچ بھی ہو اسی لئے لوگ نئی تہذیب و تمدن اور اس کے تقاضے سے نا آشنا ہیں۔دنیا میں نئے دور کا آغاز ہے نئی نئی کھوج اور تلاش کا کام جاری ہے لیکن یہ برہمنوں کی غلام قوم اب بھی ہزاروں سال کے پرانے افسانوی دور کی باتیں کرتی ہے اسی میں مگن ہے ۔اس شخص کے جھانسے میں آتی جارہی ہے جو انہیں جھوٹ موٹ کی باتوں میں اسے الجھا کر موجودہ دور کے تقاضوں اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم موجودگی و عدم فراہمی کے کرب سے اس کا ذہن دوسری جانب پھیر دینا چاہتی ہے اور یہ جاہل اور گنوار اسی بھول بھلیوں میں مگن رہنا چاہتے ہیں ۔ہمارے یہاں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں پہلے تو میز کرسیاں اور مائیک پھینک کر ایک دوسرے کو مارنے کا رواج تھا ۔لیکن بعد کے زمانے میں جب انہیں فِکس کردیا گیا تو مجبوراًً ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے اور ضروری کاغذات پھاڑنے تک ہی معاملہ سمٹ گیا ہے ۔لیکن جو لوگ یہ ساری حرکتیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کرکے ملک کا نام روشن کیا کرتے تھے اب وہ اپنے عزائم کی تکمیل عوام مقامات پر سرکاری یا دیگر عملہ کے ساتھ مار پیٹ کرکے کررہے ہیں ۔حال ہی میں شیو سینا کے ایک رکن پارلیمان رویندر گائیکواڑ نے ایئر انڈیا کے ایک عملہ کے ساتھ مار پیٹ کی اور اپنی اس بہادری والے کارنامے کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس ملازم کو 25 بار چپلوں سے مارا۔شیو سینا نے تو خیر کبھی بھی خود کو مہذب اور اخلاقی اقدار والی پارٹی قرار نہیں دیا ۔اس نے کھلی غنڈہ گردی کی اور اس کا کھل کر اظہاربھی کیا ۔لیکن وہ جس کے سایہ میں مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے یعنی بی جے پی نے اقدار پر مبنی سیاست کرنے والی پارٹی کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا ۔ہمارے نئے نویلے پردھان سیوک جی یہ کہہ کر بھی آئے تھے کہ وہ سیاست دانوں کے مقدمات کا فاسٹ ٹریک عدالت میں جلد از جلد نپٹا را کریں گے ۔لیکن انہوں نے کسی اور وعدوں کو پورا کیا ہے جو اس کو بھی پورا کریں گے اور پورا بھی کیوں کریں جب یہاں کے احمق لوگ اس کے بغیر ہی چند جذباتی نعروں میں بہل کر مسلم دشمنی کے نشہ میں انہیں تھوک کے حساب سے ووٹ دے رہے ہوں ۔وزیر اعظم مودی کے ساتھ جو ارکنان پارلیمان ہیں ان میں خود تیس فیصد کے قریب ارکان پر مجرمانہ معاملات درج ہیں ۔خود وہ بھی کیا ہیں دنیا اسے جانتی ہے ۔اس پرطرہ یہ کہ جن کو اتر پردیش کی کمان دی گئی ہے وہ شخص بھی ایسے کئی مجرمانہ معاملات میں ملوث ہے ۔
آج کی مہذب دنیا ہو،یا عہد وسطیٰ کی غیر مہذب اور سائنسی تحقیق سے دور دنیا میں کسی ملک کی پہچان ان کے باشندوں کی اجتماعی سوچ سے ہوا کرتی ہے ۔خود سے کچھ بھی کہتے رہیں اس سے دنیا کو کچھ لینا دینا نہیں ۔ دنیا آپ کے عمل کو دیکھے گی آپ کے بلند و بانگ دعووں اور زعم باطل سے کچھ نہیں ۔ایک بات اور جو قابل توجہ ہے کہ اگر کوئی کسی زعم میں ہے ،اس میں کچھ خوبیاں ہیں تو اس کے زعم کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس کسی میں کوئی خوبی ،کوئی اچھائی نہیں ہو، صرف اپنی آبادی کی بنیاد پر جھوٹے دعووں پر دنیا کوئی توجہ نہیں دیتی یا کہہ دینے سے کہ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں جبکہ حالت یہ ہو کہ یہاں کوئی آپ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرے تو آپ اسے بدنام کریں اس کی تکذیب کریں اور اس کو ملک دشمن قرار دیں یعنی آپ کی حب الوطنی کا معیار آپ کے خیالات سے ہم آہنگ ہونا طے پایا ہے ۔بھلا ایسی صورت میں ملک کی ترقی کیوں کر ممکن ہے ؟سارے آزاد ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ پردھان سیوک کے احمقانہ فیصلوں سے ملکی معیشت کو جو چوٹ پہنچی ہے اس کی تلافی اگلی کئی دہائیوں تک میں ممکن نہیں ہے ۔ لیکن حکومت اور ان کے بھکت اس بات کو ماننے کو راضی ہی نہیں ۔اس پر مرے پر سو درے کے مصداق یوگی جیسے لوگوں کی حکومت میں مزید بیروزگاری میں اضافہ ملکی معیشت کی کمر توڑنے کیلئے ہی کافی ہے ۔وعدہ تو دو کروڑ روزگار پیدا کرنے کا تھا لیکن اناڑی پن اور وعدوں کے پورا کرنے کی جوابدہی سے بچنے کیلئے ایسی پالیسی اپنائی جارہی ہے جس سے وہ دوکروڑ تو روزگار کیا ملے گا مزید کروڑوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے ۔چھوٹے تاجر وں کا دھندا ختم ہو رہا ہے ۔ جو اس ملک میں روزگار مہیا کرانے اور معیشت کو مہمیز دینے میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں ۔ایم اعداد شمار کے مطابق یہ لوگ ملک میں روزگار مہیا کرانے نوے فیصدی سے زائد کے شراکت دار ہیں۔اسی طرح جی ڈی پی میں وہ سب سے آگے ہیں ۔
مودی حکومت ہی ملک کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھی کہ اس نے ایک اور خوفناک فیصلہ لے لیا کہ اتر پردیش میں یوگی کو سربراہ بنادیا ۔اس طرح کے فیصلوں اور ان کے کام کرنے کے طریقوں سے ملک میں چھوٹے روزگار ختم ہوتے جائیں گے ۔بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔کسانوں کی خود کشی کے تناسب میں اضافہ ہونا بھی طے ہے ۔اس سے افراتفری اور بے چینی میں اضافہ ہوگا ۔جب لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہوں گے اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے انہیں اناج مہیا نہیں ہوگا تو اس کیلئے لوٹ مار میں اضافہ ہوگا ۔ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ بی جے پی جس طرح اپنے پیر پسا رہی ہے اور بیشتر ریاستوں میں اس کی حکومت بنتی جارہی ہے اور اس کیلئے اس نے جس طرح کھلے عام منافرت کو فروغ دینا شروع کیا ہے اس سے شروع میں جہاں اقلیتوں کے تئیں منافرت میں اضافہ ہو گا اور یہ خانہ جنگی کی جانب ملک کو دھکیل دے گا وہیں علاقائی اور لسانی دوریوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہا تو اس سے آگے ریاستوں کی علیحدگی کی بات بھی آسکتی ہے ۔حالانکہ بی جے پی نے ابھی تک غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں راست مداخلت سے پرہیز کیا ہے ۔یہ کام کانگریس نے اپنے دور حکومت میں خوب کیا ریاستی حکومتوں کو برخواست کرنے کا کام اس کے دور حکومت میں ہوا ۔کشمیر میں بھی کسی حکومت کو کانگریس نے مستحکم نہیں ہونے دیا ۔ لیکن بی جے پی دوسرے راستوں سے ریاستوں میں مداخلت کررہی ہے ۔اس میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں اسے عوامی مینڈیٹ نہیں ملا وہاں بھی اس نے سازش کرکے حکومت بنالی یہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے ۔ابھی تک تو وطن عزیز کی ریاستی یکجہتی کو پاکستان اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ دشمن کے طور پر پیش کرکے قائم رکھا گیا ہے۔یہ کام کانگریس بھی کرتی رہی ہے اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔ حالانکہ نہ تو مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں اور نا ہی ہندوستان جیسے بڑے ملک کیلئے پاکستان کوئی چیلنج کی صورت رکھتا ہے ۔ جبکہ چین کو نظر انداز کردیا گیا جو کہ ملک کیلئے حقیقی خطرہ ہے۔چین کا خطرہ ثابت شدہ بھی ہے اور آئے دن اس کی در اندازی اس کے عزائم کو سمجھانے کیلئے کافی ہے ۔جبکہ پاکستان کی ہندوستان میں در اندازی یا پراکسی وار محض اسے پریشان کرنے یا الجھانے کے سوا کچھ نہیں لیکن چین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے وہ ہندوستان کو الجھانے یا پریشان کرنے کیلئے در اندازی نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی مطلوبہ ریاست ہندوستان سے چھین لے گا ۔اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار نے مسلم دشمنی میں کبھی اس جانب توجہ نہیں کی ان کے سامنے ہمیشہ پاکستان ہی رہا ۔اگر چین کو سامنے رکھ کر ہندوستان نے دفاعی اور معاشی میدان میں کوشش کی ہوتی تو آج چین کی جرات نہ ہوتی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھائے اور ہماری اوقات بتائے۔دیکھنا یہ ہے کہ اکثریت کو متحد رکھنے کے مقصد سے مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ دشمن نمبر ون کی صورت کب تک برقرار رکھی جاتی ہے ؟
0 comments: